Tag: 21 ستمبر وفات

  • تیز رفتار کھلاڑی ‘فلوجو’ آج ہی کے دن زندگی کی دوڑ سے ہمیشہ کے لیے باہر ہوگئی تھی

    تیز رفتار کھلاڑی ‘فلوجو’ آج ہی کے دن زندگی کی دوڑ سے ہمیشہ کے لیے باہر ہوگئی تھی

    فلورنس گرفتھ جوئنر کھیلوں کی دنیا میں ‘فلوجو’ کی عرفیت سے مشہور ہوئی۔ وہ ایک ایسی ایتھلیٹ تھی جس نے تیز رفتار اور یکے بعد دیگرے فتوحات کا ریکارڈ قائم کیا۔ وہ زندگی کی محض 38 بہاریں دیکھ سکی اور 21 ستمبر 1998ء کو زندگی کی دوڑ سے ہمیشہ کے لیے باہر ہو گئی۔

    فلوجو نے لمبی دوڑ کے بین الاقوامی سطح کے مقابلوں میں حصّہ لیا اور کام یابی سمیٹی۔ اسے تیز رفتار کھلاڑی تسلیم کیا گیا اور مسلسل فتوحات نے اسے ایک شہرت یافتہ کھلاڑی بنا دیا۔

    فلورنس گرفتھ جوئنر کا تعلق امریکا سے تھا۔ وہ 1959ء میں پیدا ہوئی۔ لاس اینجلس کی رہائشی فلوجو نے نوعمری میں دوڑ کے مقابلوں میں دل چسپی لینا شروع کردی تھی۔ اس نے اسکول کی سطح پر متعدد مقابلوں میں حصّہ لیا تھا۔ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے دوران جب وہ چودہ برس کی تھی تو اسے نیشنل یوتھ گیمز میں حصّہ لینے کا موقع ملا اور یہاں اس نے پہلی بڑی کام یابی اپنے نام کی۔

    1984ء کے لاس اینجلس اولمپکس میں اس نے ایک مقابلہ جیت کر سلور میڈل حاصل کیا اور پھر کچھ عرصہ کھیل کی دنیا سے دور رہی۔ 1987ء میں فلوجو نے مشہور ایتھلیٹ ایل جوئنر سے شادی کر لی۔ اسی سال روم میں ورلڈ چیمپئن شپ منعقد ہوئی جس میں شائقین نے فلوجو کو دوبارہ میدان میں دیکھا۔ اس نے ورلڈ جیمپئن شپ کے مقابلوں میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔

    1988ء کے سیول اولمپکس کا میدان سجا تو فلوجو نے اس میں حصّہ لیا اور تین گولڈ میڈل اپنے نام کرنے کے ساتھ ایک کانسی کا ایک تمغہ بھی لے اڑی۔ 1989ء میں اس نے دوڑ کے میدان سے ریٹارمنٹ کا اعلان کردیا۔

    اس لڑکی کی کہانی بہت دل چسپ ہے۔ وہ سیماب صفت اور پُراعتماد تھی جس نے کھیل کی دنیا میں نام و مقام بنانے کے بعد اچانک ہی اپنا راستہ بدل لیا۔ اس پر ماڈلنگ کا جنون سوار ہوگیا۔ اس کے بعد وہ بزنس کی دوڑ میں دکھائی دی اور خود کو کاروباری شخصیت کے طور پر منوانے کی کوشش کی۔ یہ سلسلہ یہیں‌ نہیں‌ رکا بلکہ اچانک ہی شائقین کو معلوم ہوا کہ اب فلوجو تصنیف و تالیف میں مشغول ہوگئی ہیں۔

    مشہور ہے کہ فلوجو ایک زرخیز ذہن کی مالک تھی اور وہ ہر شعبے میں نہایت متحرک اور فعال کردار ادا کرتی رہی۔ اسے ہر روپ میں اور ہر شعبے میں کام یابی ملی اور لوگوں نے بے حد عزّت اور احترام سے اسے یاد کیا۔

    فلورنس گرفتھ جوئنر نے ایک کام یاب زندگی گزاری اور امریکا میں اسے حکومتی سطح پر اعزازات سے نوازا گیا۔ اسے امریکی خواتین کے لیے عزم و ہمّت اور کام یابی کی ایک مثال کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے۔

  • رائے احمد خاں کھرل: ایک بہادر سپاہی اور مجاہدِ آزادی

    رائے احمد خاں کھرل: ایک بہادر سپاہی اور مجاہدِ آزادی

    1857ء میں‌ آج ہی کے دن گشکوریاں کے نزدیک نورے دی ڈل کے مقام پر انگریزوں اور سکّھوں کے فوجی دستوں نے احمد خان پر حملہ کردیا۔ یہ مجاہدِ آزادی نماز کی ادائیگی میں مشغول تھے جب انھیں گولی کا نشانہ بنایا گیا۔ احمد خان اور ان کے ساتھی دشمن سے محاذ پر کئی دن سے بھڑے ہوئے تھے اور آخر کار لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔

    رائے احمد خاں کھرل کا سن پیدائش 1776ء ہے جو جنگِ آزادی کے دوران، نیلی بار کے علاقے میں برطانوی راج کے خلاف باغیوں (گو گیرہ بغاوت) کے سالار تھے۔ انھوں نے اور ان کے ساتھیوں نے برصغیر پر انگریزوں کا قبضہ اور ان کا راج کبھی تسلیم نہیں کیا تھا اور شروع ہی سے اس کے خلاف لڑتے رہے۔

    رائے احمد خاں کھرل کا تعلق گاؤں جھامرہ سے تھا جو اب ضلع فیصل آباد میں واقع ہے۔ وہ رائے نتھو خاں کے گھر پیدا ہوئے۔

    1857ء کی جنگِ آزادی کے دوران جب دلّی میں قتل و غارت کی گئی اور انگریزوں نے اس بغاوت کو کسی حد تک دبا دیا، تو یہ آگ پنجاب میں بھڑک اُٹھی۔ جگہ جگہ بغاوت کی آواز سنائی دے رہی تھی اور جب انگریز سرکار کی جانب سے برکلے نامی گورے نے اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سے علاقے کے سرداروں کو طلب کرکے باغیوں سے نمٹنے کے لیے گھوڑے اور جوان مانگے تو احمد خان نے جواب دیا…”صاحب، یہاں کوئی بھی اپنا گھوڑا، عورت اور زمین نہیں چھوڑتا۔”

    اس کے بعد برکلے نے کھرلوں اور دیگر کی پکڑ دھکڑ اور جیلوں میں قید کا ہی سلسلہ نہیں کچھ مجاہدوں کو پھانسی بھی دے دی جس پر احمد خان کھرل نے برادریوں کو اکٹھا کر کے انگریزوں سے لڑائی کے لیے تیاری کر لی اور رات کی تاریکی میں گوگیرہ جیل پر حملہ کرکے تمام قیدیوں کو چھڑا لیا۔ اس لڑائی میں تین سو سے زائد انگریز سپاہی مارے گئے۔

    انگریز افسر برکلے نے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے احمد خان کے قریبی رشتہ داروں اور بہو بیٹیوں کو حراست میں لے لیا تھا جس کے بعد رائے احمد خان کھرل نے مجبوراً گرفتاری دی، مگر فتیانہ، جاٹوں اور وٹوؤں کی بڑھتی ہوئی مزاحمتی کارروائیوں کے پیش نظر احمد خان کی نقل و حرکت کو گوگیرہ بنگلہ کے علاقے تک محدود کرکے چھوڑ دیا گیا۔ اس کے بعد احمد خان نے ایک موقع پر انگریزوں کے خلاف بھرپور لڑائی کا فیصلہ کیا جس کی اطلاع انگریز افسر کو بھی ہوگئی اور جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوا تو انگریز فوج نے جھامرے پر چڑھائی کردی، لیکن رائے احمد خان کھرل گرفتار نہ ہو سکا۔ انھوں نے گاﺅں کے بچوں اور عورتوں کو گرفتار کر کے گوگیرہ جیل میں بند کر دیا۔

    تب 21 ستمبر 1857ء کو ایک بڑا معرکہ ہوا اور ایک جگہ سردار کی موجودگی کی مخبری پر برکلے بھی موجود تھا۔ سب نے رائے احمد خان کھرل کو نماز کی نیّت باندھتے دیکھا اور اس کے بعد برکلے کے حکم پر گولی چلا دی گئی۔ احمد خان کے ساتھ ان کا بھتیجا مراد کھرل اور سردار سارنگ بھی شہید ہوگئے۔

    برکلے اسے اپنی فتح سمجھا تھا اور خیال کیا کہ احمد خان کے بعد اسے روکنے والا کوئی نہیں۔ اس کا واپسی کا سفر شروع ہوا تو ایک مقام پر فتیانوں نے حملہ کرکے برکلے کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور اپنے سردار کا بدلہ لے لیا۔

  • یومِ وفات: طفیل نیازی لوک گائیکی اور موسیقی میں پاکستان کی پہچان تھے

    یومِ وفات: طفیل نیازی لوک گائیکی اور موسیقی میں پاکستان کی پہچان تھے

    طفیل نیازی پاکستان کے معروف لوک گلوکار تھے جو 1990ء میں آج ہی کے دن دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    وہ 1926ء میں ضلع جالندھر کے گاؤں مڈیراں میں پیدا ہوئے تھے۔ طفیل نیازی نوٹنکیوں میں شرکت کرکے مقامی لوگوں میں مشہور ہوئے اور پھر سسی پنوں، ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال جیسے کلاسیکی ڈراموں میں انھوں نے ہیرو کا کردار ادا کرکے اپنے فن کی داد پائی۔

    انھوں نے اپنے فن کو ایک سنگیت گروپ تشکیل دے کر باقاعدہ جاری رکھنے کا سلسلہ شروع کیا اور مختلف مقامات اور تقریبات میں گانے بجانے کے ذریعے شرکا کو محظوظ کرنے لگے۔ انھیں‌ عوامی سطح پر پذیرائی ملتی رہی اور وہ آگے بڑھنے کی جستجو میں رہے۔

    قیام پاکستان کے بعد طفیل نیازی ملتان چلے آئے اور بعد میں لاہور میں سکونت پذیر ہوئے۔

    26 نومبر 1964ء کو پاکستان ٹیلی وژن کی افتتاحی نشریات کا آغاز ہوا تو ملک میں ان کا مشہور گانا ’’لائی بے قدراں نال یاری‘‘ سنا گیا اور وہ ناظرین و سامعین میں متعارف ہوئے۔ 70ء کی دہائی میں طفیل نیازی لوک ورثہ کے ادارے سے وابستہ ہوئے اور ٹیلی وژن کے مشہور پروگرام لوک تماشا میں گانے بھی گائے اور دوسروں کے گانوں کی دھنیں بھی ترتیب دیں۔

    1983ء میں حکومتِ پاکستان نے اس لوک فن کار کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • فیّاض، دریا دل، ادب اور فنون کے دلدادہ نواب آصف الدّولہ کا تذکرہ

    فیّاض، دریا دل، ادب اور فنون کے دلدادہ نواب آصف الدّولہ کا تذکرہ

    اودھ کے چوتھے نواب آصف الدّولہ کا نام لکھنوی تہذیب و ثقافت اور اردو شاعری میں اُس اسلوب کے بانی کے طور پر لیا جاتا ہے جو دبستانِ لکھنؤ مشہور ہوا۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    آصفُ الدّولہ کے زمانے میں دہلی سیاسی اور اقتصادی بد حالی کا شکار تھی اہلِ علم اور نادرِ روزگار شخصیات وہاں سے لکھنؤ پہنچے تو دربار میں ان کی بڑی عزّت کی گئی اور صاحبانِ کمال کا خیر مقدم کیا گیا، یہی نہیں بلکہ نواب نے اپنے خرچ پر انھیں لکھنؤ بلایا۔

    آصفُ الدّولہ کو اسی سبب ایک فیّاض اور دریا دل حکم راں، فنونِ لطیفہ کا شائق اور فن کا قدر دان کہا جاتا ہے انھوں نے نہ صرف علم و ادب کی سرپرستی بلکہ عظیم الشّان عمارتیں تعمیر کروا کے فنون اور ہنر کو بھی توقیر بخشی اور ہندستان میں گنگا جمنی تہذہب کے علم بردار مشہور ہوئے۔

    آصفُ الدّولہ کا نام محمد یحییٰ مرزا زمانی تھا۔ وہ 1748ء میں پیدا ہوئے۔ ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام شہزادوں کی طرح کیا گیا۔ اردو، فارسی میں مہارت کے ساتھ دوسرے فنون میں بھی دستگاہ حاصل کر لی۔ آصفُ الدّولہ شاعری کا شوق رکھتے تھے۔ انھوں نے اردو کے علاوہ ایک فارسی دیوان بھی مرتب کیا۔

    جہاں تک امورِ سلطنت کا سوال ہے تو سیاست کے امور اور فوج کو انگریزوں نے ایک معاہدہ کی رو سے گویا باندھ رکھا تھا۔ تاہم نواب نے کبھی انگریزوں سے دَب کر یا جھک کر بات نہیں کی بلکہ ان کے ساتھ دوستانہ تعلقات رہے۔

    آصفُ الدّولہ کی بدولت لکھنؤ، دہلی اور آگرہ کے ساتھ آثار قدیمہ اور فن تعمیر کے شوقین سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا۔ ان کی تعمیر کردہ عمارتوں میں رومی دروازہ اور امام باڑہ فنِ تعمیر کا اچھوتا نمونہ ہیں۔

    علم و ادب کے میدان میں ان کا عہد ہی تھا جب مرزا محمد رفیع سودا، میر تقی میر اور میر سوز جیسی شخصیات لکھنؤ میں‌ جمع ہوئیں۔ انھوں نے سوز کو شاعری میں اپنا استاد بنایا۔

    آصف الدّولہ کے عہد تک اردو شاعری بنیادی طور پر غزل یا قصیدہ کی شاعری تھی۔ ان کے عہد میں مثنوی اور مرثیہ کی طرف خاص توجہ دی گئی۔ میر حسن کی سحر البیان سمیت اردو کی بہترین مثنویاں ان ہی کے عہد میں لکھی گئیں۔

    وہ والیِ اودھ نواب شجاعُ الدّولہ کے بیٹے تھے جو باپ کی وفات کے بعد 1775ء میں فیض آباد میں مسند نشین ہوئے اور پھر لکھنؤ کو دارُالحکومت بنایا۔

    مشہور ہے کہ نواب آصف الدّولہ کی بندہ پروری نے نہ صرف اودھ کے لوگوں کو فاقوں سے نجات دی بلکہ کھانا پکانے کی ایک نئی روش کو بھی مروج کیا جسے دَم پخت کہتے ہیں۔ ان کے دور میں نت نئے اور خوش ذائقہ پکوان دسترخوان پر سجائے جاتے تھے اور اس کے لیے انھوں نے ماہر طباخ رکھے ہوئے تھے۔

    نواب صاحب نے لکھنؤ میں 1797ء میں وفات پائی اور وہیں مدفون ہیں۔

  • سرتاجُ الشّعرا، خدائے سخن میر تقی میرؔ کی برسی

    سرتاجُ الشّعرا، خدائے سخن میر تقی میرؔ کی برسی

    سرتاجُ الشّعرا میر تقی میرؔ کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان گنت شعرا نے اُن کی تقلید کی کوشش کی، میرؔ کے لہجے، ان کے انداز میں شعر کہنا چاہا، اُن کی لفظیات کو برتا، مگر میرؔ کا شیوۂ گفتار کہاں نصیب ہو سکا۔

    میر تقی میر ایسے شاعر نہ تھے کہ جو اپنے کلام کی وقعت اور اپنی عظمت کا احساس نہیں کرسکتا تھا، سو یہ تعلّی بھی میر کو زیب دیتی ہے:

    جانے کا نہیں شور سخن کا مِرے ہرگز
    تا حشر جہاں میں مِرا دیوان رہے گا

    یہ شعر بھی ملاحظہ فرمائیے:

    سارے عالم پر ہوں مَیں چھایا ہوا
    مستند ہے میرا فرمایا ہوا

    خدائے سخن میر تقی میرؔ نے 1810ء میں آج ہی کے دن وفات پائی اور آج بھی ان کا شہرہ اور اشعار کا چرچا ہورہا ہے۔

    میر نے سبھی اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی، لیکن غزل میں ان کی غم انگیز لے اور ان کا شعورِ فن اور ہی مزہ دیتا ہے۔ انھوں نے کہا تھا:

    مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب میں نے
    درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا

    نام وَر ادیب اور نقّاد رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں۔ "آج تک میر سے بے تکلف ہونے کی ہمت کسی میں نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ آج اس پرانی زبان کی بھی نقل کی جا تی ہے جس کے نمونے جہاں تہاں میر کے کلام میں ملتے ہیں لیکن اب متروک ہو چکے ہیں۔ بر بنائے عقیدت کسی کے نقص کی پیروی کی جائے، تو بتایئے، وہ شخص کتنا بڑا ہوگا۔”

    میرؔ کے آبا و اجداد کا تعلق حجاز سے تھا۔ وہاں سے نقل مکانی کر کے ہندوستان آئے۔ اس سر زمین پر اوّل اوّل جہاں قدم رکھے، وہ دکن تھا۔ دکن کے بعد احمد آباد، گجرات میں پڑاؤ اختیار کیا۔ میرؔ کے والد کا نام تذکروں میں میر محمد علی لکھا گیا ہے اور وہ علی متّقی مشہور تھے۔ میرؔ کے والد درویش صفت اور قلندرانہ مزاج رکھتے تھے۔

    میرؔ نے اکبر آباد (آگرہ) میں 1723ء میں جنم لیا۔ تنگ دستی اور معاشی مشکلات دیکھیں۔ یہ بڑا پُر آشوب دور تھا۔ سلطنتِ مغلیہ زوال کی طرف گام زن تھی۔

    قرآن اور بنیادی اسلامی تعلیمات سیکھنے کے بعد اردو اور فارسی پڑھی۔1732ء میں میرؔ کے والد انتقال کر گئے۔ یہ وقت میرؔ کے لیے سخت آزمایش اور ابتلا کا تھا، عمر دس سال سے کچھ زیادہ تھی اور ابھی تعلیم و تربیت کی ابتدائی منازل ہی طے کی تھیں۔ والد کی دو شادیاں تھیں اور سوتیلے بھائی نے تنگ کرنا شروع کردیا۔ ان باتوں کا میر پر گہرا اثر ہوا اور طبیعت میں زود رنجی پیدا ہو گئی۔ تب روزگار کی خاطر بہت دوڑ دھوپ کی، مگر کوئی بات نہ بن سکی۔

    1734ء میں میرؔ نے دہلی کے شاہ جہاں آباد کا رُخ کیا اور یہاں والد کے ایک شناسا نواب صمصام الدّولہ کے بھتیجے، خواجہ محمد باسط کے توسط سے صمصام الدّولہ تک پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ بھی ان کے والد کی بہت عزّت کرتے ہیں۔ انھوں نے کہاکہ مرحوم کے مجھ پر بہت احسانات تھے، لہٰذا، مَیں ان کے صاحب زادے (میر تقی میرؔ) کے لیے ایک روپیا یومیہ وظیفہ مقرّر کرتا ہوں۔

    یوں میر کو کچھ ذہنی و مالی آسودگی نصیب ہوئی۔ چار، پانچ برس سکون سے گزرئے تھے کہ نادر شاہ نے دہلی پر حملہ کر دیا اور صمصام الدّولہ مارے گئے اور میرؔ کا وظیفہ بھی بند ہو گیا۔

    اب دلّی کو عازمِ سفر ہوئے جہاں ان کے رشتے کے ماموں اور مستند شاعر سراج الدّین علی خان آرزو کا طوطی بولتا تھا۔ اس وقت تک میر بھی شاعری کا آغاز کرچکے تھے، لیکن فی الوقت معاش نے تنگ کررکھا تھا، اس لیے زیادہ توجہ حالات بہتر بنانے پر تھی۔ فارسی اور اردو زبان پر دسترس اور اس حوالے سے نہایت فصیح و بلیغ تو تھے ہی، لیکن بعض تذکرہ نویسوں کے مطابق آرزو نے بھی ان سے کوئی اچھا برتاؤ نہ کیا۔ تاہم آرزوؔ کے علاوہ یہاں میرؔ کو جعفر ؔ عظیم آبادی اور سعادتؔ علی امروہوی سے تحصیلِ علم و ادب اور تہذیب برتنے کا موقع ملا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ یہ دراصل سعادتؔ علی امروہوی کی صحبت کا نتیجہ تھا کہ میرؔ نے پورے طور پر شاعری سے رشتہ جوڑا اور گویا شاعری اُن کے لیے اوڑھنا بچھونا قرار پائی۔

    یہی وہ زمانہ تھا جب شاعر کے طور پر میر کی شہرت کا آغاز ہوا۔ 1742ء میں بیس سال کی عمر میں میرؔ کی شاعری کا چرچا ہونے لگا۔

    صاحبِ طرز ادیب اور انشا پرداز محمد حسین آزاد نے میر کے بارے میں لکھا کہ ’’غرض ہر چند کہ تخلّص اُن کا میرؔ تھا، مگر گنجفۂ سُخن کی بازی میں آفتاب ہو کر چمکے۔ قدر دانی نے ان کے کلام کو جواہر اور موتیوں کی نگاہوں سے دیکھا اور نام کو پُھولوں کی مہک بنا کر اُڑایا۔ ہندوستان میں یہ بات انہی کو نصیب ہوئی ہے کہ مسافر غزلوں کو تحفے کے طور پر شہر سے شہر میں لے جاتے تھے۔‘‘

    سخن میں نام ور میر تقی میر نے 1752ء میں ’’نکات الشّعراء‘‘ تحریر کی جس میں اُردو زبان کے شاعروں کے مختصر حالات اور انتخابِ کلام شامل تھا۔ یہ کتاب فارسی میں تحریر کی گئی اور اردو شعرا کے اوّلین تذکروں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔

    میرؔ اپنے زمانے کا سب سے تابندہ نام تھا اور انھیں مختلف امرا و نوابین کے دربار میں عزّت و تکریم کے ساتھ انعام و وظائف ملنے لگے تھے۔ میر تقی میر نے شادی کی اور ان کے بیٹے میر فیض علی اور میر حسن عسکری تھے جو شاعر اور بیٹی شمیم کو بھی شاعرہ لکھا گیا ہے جو صاحبِ دیوان تھیں۔

    لکھنؤ کی بات کی جائے تو کہتے ہیں میرؔ سے پہلے میرؔ کی شُہرت لکھنؤ پہنچی تھی اور جب وہ اس شہر میں پہنچے تو وہاں مشاعرے کا انعقاد بھی کیا گیا تھا۔ میرؔ کا ظاہری انداز اور اطوار وہاں کی ثقافت سے مختلف تھے جس پر انھیں تمسخر کا سامنا کرنا پڑا، لیکن مشہور ہے کہ جب وہاں میرؔ کا تعارف جاننے کی خواہش کی گئی اور مذاق اڑانے کی مزید کوشش کی گئی تو میر نے فی البدیہہ یوں جواب دیا۔

    کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
    ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
    دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
    رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
    اُس کو فلک نے لوٹ کے برباد کر دیا
    ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

    یہ سن کر سامعین میرؔ سے معافی کے طلب گار ہوئے اور ان کے کلام کو بھی سراہا۔

    میر کی شاعری ذاتی غم و اندوہ کی حدوں سے گذر کر ہمہ گیر انسانی دکھ درد کی داستاں بنی۔ ان کی زندگی کا ابتدائی دور، بیٹی کی ناگہانی وفات اور اپنوں کا برا سلوک یہ سب میر کے کام آیا۔ میر کا غم جو بھی تھا، ان کے لیے فنی تخلیق کا ذریعہ اظہار کا ارفع وسیلہ بنایا۔ میر کے یہاں زندگی کا ایک ولولہ پایا جاتا ہے جس نے میر کی شاعری کو نئی رفعت عطا کی ہے۔

    اردو زبان کے اس عظیم شاعر کا مدفن وقت کی گردش اور زمانے کی افتاد میں اپنا نام و نشان کھو چکا ہے۔ کہتے ہیں خدائے سخن کو لکھنؤ میں جہاں سپردِ خاک کیا گیا تھا، وہ موجودہ ریلوے اسٹیشن کے قریب کوئی جگہ تھی اور اس عمارت کی تعمیر کے دوران اس کا نشان باقی نہ رہا۔

    میر کے فن کی عظمت کا اعتراف ان کے ہم عصر شعرا نے بھی کیا اور بعد میں آنے والوں نے بھی۔ عظیم شعرا اپنے کلام اور نام ور نقّادوں نے اپنے مضامین میں میر کے بارے میں لکھا اور انھیں بڑا شاعر تسلیم کیا ہے۔ اس ضمن میں مرزا رفیع سودا اور غالب کے اشعار بہت مشہور ہیں۔

    کہتے ہیں میر نازک مزاج بھی تھے اور بدخو بھی اور یہ تلخی ان کے حالاتِ زندگی اور افتادِ‌ زمانہ کی وجہ سے تھی۔