Tag:

  • وزیراعظم صاحب! یہ فرینڈلی اپوزیشن نہیں

    وزیراعظم صاحب! یہ فرینڈلی اپوزیشن نہیں

    8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے نتائج نے صرف پاکستان اور اداروں کو ہی نہیں بلکہ دنیا کو حیران کیا . جس طرح بے نشان سیاسی پارٹی کے حمایت یافتہ امیدواروں نے ماہر کھلاڑیوں کی طرح بغیر بلے کے ہی سنچری بنا ئی اس نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ادھر گومگوں کی کیفیت کا شکار حلقوں کی جانب سے حسب منشا نتائج کے لیے سر توڑ کوششوں اور کئی ہفتوں کی محنت شاقہ کے بعد مختلف الخیال سیاسی جماعتوں کا بھان متی کا کنبہ ایک بار پھر ’’پی ڈی ایم 2‘‘ کی صورت میں اقتدار کی کشتی میں سوار ہو گیا ہے۔

    جمہوری اصولوں کے مطابق تو حکومت سازی کے لیے الیکشن میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کا پہلا حق ہوتا ہے، لیکن اس ملک میں اس سے قبل پہلے کس کو ان کے حقوق ملے ہیں جو ہم اس جمہوری حق کی بات کریں۔ یہاں تو جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مترادف جمہوریت کے نام پر ہمیشہ ایک ہائبرڈ نظام لانے کی کوشش کی جاتی ہے، تاکہ معاملات کو قابو میں رکھا جا سکے اور حسب روایت اس بار بھی ایسا ہی دیکھنے میں آیا۔

    پولنگ کے اگلے دن ہی جب تمام آزاد ذرائع اور پاکستانی میڈیا پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو سب سے بڑا کامیاب امیدواروں گروپ بتا رہا تھا، ایسے میں پاکستانی عوام کی تقدیر کے فیصلے کہیں اور ہو رہے تھے۔ 6 جماعتوں ن لیگ، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم پاکستان، آئی پی پی، مسلم لیگ ق اور بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کو ایک ساتھ بٹھا کر بحران کا شکار پاکستان کی نیا کو پار لگانے کے لیے جیسے تیسے کر کے ایک بار پھر اقتدار کی کشتی میں سوار کرا ہی دیا۔

    پاکستان میں عام انتخابات جیسے بھی ہوئے، ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اس کو کیا پذیرائی ملی، دھاندلی کا کتنا شور اٹھا، غیر جانبدار حلقوں اور ممالک نے کن تشویشات کا اظہار کیا۔ فارم 45 سے 47 تک کیا بحث چلی، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار جو قومی اسمبلی میں عددی اکثریت میں سب سے بڑا گروپ بن کر سامنے آئے اور مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے سنی اتحاد کونسل کی چھتری کا بھی سہارا لیا مگر پی ٹی آئی سے مخصوص نشستوں پر باریک بینی سے گیم کھیل کر اسے اس حق سے نہ صرف محروم بلکہ پہلے سے دوسرے نمبر پر بھی کر دیا گیا، لیکن یہ سب باتیں پرانی اور بے سود ہو گئیں کیونکہ وفاق سمیت چاروں صوبوں میں اس ادھوری سدھوری جمہوریت کے ثمرات نئی حکومتوں کے قیام کی صورت میں مکمل ہو گئے۔

    وفاق میں ن لیگ کے صدر شہباز شریف کے سر پر ایک بار پھر حکمرانی کا تاج سج گیا تو نواز شریف جو چوتھی بار وزیر اعظم بننے کی حسرت پوری نہ کر سکے لیکن اپنی سیاسی وراثت کو اگلی نسل میں منتقل کرتے ہوئے مریم نواز کو وزیراعلیٰ پنجاب بنوانے میں کامیاب رہے۔ پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں نے کے پی میں جھاڑو پھیر کر اپنی حکومت قائم کر لی۔ سندھ میں حسب روایت پی پی کا سکہ چل رہا ہے تو بلوچستان میں پی پی کی سربراہی میں مخلوط حکومت ہے۔

    عمران خان کی حکومت کے خلاف اپریل 2022 میں کامیاب تحریک عدم اعتماد کے بعد شہباز شریف کی قیادت میں پی ڈی ایم کی حکومت قائم کی تھی جس نے اپنے اقدامات سے عوام کو دن میں تارے دکھا دیے تھے۔ پاکستان کے عوام پہلے ہی پی ڈی ایم پارٹ ون کی حکومت کے ذریعے ڈسے ہوئے تھے اور حالیہ الیکشن میں اس کا بدلہ بھی اپنے ووٹ سے لیا لیکن کیا کریں پاکستان کے عوام کی قسمت میں ایک بار پھر اسی بھان متی کے سیاسی کنبے کے حوالے کر دی گئی ہے۔ شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہونے والی نئی قائم ہونے والی حکومت بھی ان کی پرانی حکومت کا سیکوئل یعنی ’’پی ڈی ایم پارٹ 2‘‘ ہے مگر کچھ تبدیلیوں کے ساتھ۔

    شہباز شریف بخوشی یا با امر مجبوری وزارت عظمیٰ کا تاج دوبارہ سر پر سجا کر جس کانٹوں بھری کرسی پر براجمان ہوئے ہیں اس کا ان سمیت تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کو احساس تھا اسی لیے معاشی اور سیاسی بحرانوں سے تباہ حال پاکستان کی اس گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالنے کو کوئی دل سے تیار نہیں تھا۔ یوں حکومتی ٹرین کی فرنٹ سیٹ ن لیگ کو دوبارہ دی گئی، لیکن اس کو اپنے ووٹوں کی طاقت سے اقتدار میں لانے والی پیپلز پارٹی حکومتی وزارتوں سے دور رہے گی۔ جس کو سیاسی حلقے ایک زیرک سیاسی چال قرار دے رہے ہیں، کیونکہ شہباز شریف کے لیے صرف معاشی نہیں بلکہ کئی سیاسی بحران بھی سامنے موجود ہیں۔ سب سے پہلے تو بھاری قرضوں کی واپسی اور ان کی واپسی سمیت ملکی امور چلانے کے لیے مزید قرضوں کا حصول جس کے لیے آئی ایم ایف کو پی ڈی ایم ون کے ذریعے پہلے ہی پاکستانی عوام پر کئی شکنجے کس چکا ہے مزید نئی اور سخت ترین شرائط کے ساتھ سامنے آئے گا جب کہ اتحادی حکومت کی وجہ سے اتحادیوں کے جائز اور ناجائز مطالبات بھی اس حکومت کے لیے ایک درد سر ہی بنے رہیں گے۔ ایسی صورتحال میں پی پی کا یہ فیصلہ ن لیگ کی بحران زدہ سیاسی کشتی کو ڈبونے کے لیے اس کا سوراخ مزید بڑا کرنے کے مترادف ہی کہا جا سکتا ہے اور بہت سے حلقے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ پی پی نے جس مفاہمت کا نام لے کر ن لیگ کو سہارا دیا ہے وہ دراصل ن لیگ کو گہرے گڑھے میں دھکیلنے اور اگلی ٹرم میں اپی جگہ پکی کرنے کی ایک سیاسی چال ہے۔

    بہرحال شہباز شریف حکومت سنبھال چکے ہیں اور سابق صدر آصف زرداری جو ممکنہ طور پر جلد ہی موجودہ صدر بھی ہو جائیں گے نے شہباز شریف کو آئنسٹائن سے تشبیہہ دیتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ جس طرح آئن اسٹائن مشکل چیلنجز سے نہیں ڈرا اسی طرح شہباز شریف بھی نہیں ڈریں گے اور اہم ان کے پیچھے کھڑے رہیں گے۔ تاہم سیاست بھی ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور، کھانے کے اور کی طرح ہے کہ یہاں جو کچھ کہا جاتا ہے اس پر عمل مشکل سے ہی کیا جاتا ہے، تو شہباز شریف جنہیں جہاں معاشی مسائل، بیروزگاری، بدامنی، مہنگائی جیسے بے قابو جنات کو بوتل میں بند کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے وہیں انہیں اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ اب ان کے سامنے راجا ریاض کی صورت فرینڈلی اپوزیشن نہیں ہے جو حکومت کی ہر جائز وناجائز بات ہر سر تسلیم خم کرے گی۔ پی ٹی آئی اراکین تو حکومت کی نیندیں اڑائیں گے ہی، لیکن کسی بھی غلط شاٹ (فیصلے) پر پی پی بھی اس کو نہیں بخشے گی۔ ساتھ ہی ماضی میں نواز شریف کے ہم قدم رہنے والے شعلہ بیان بزرگ سیاستدان محمود خان اچکزئی اور پی ڈی ایم ون حکومت کے پشتی بان مولانا فضل الرحمان کا اختلاف دو دھاری تلوار ثابت ہو سکتا ہے اس لیے اب زرا سنبھل کر کہ ان کے ساتھ اب ن لیگ کی ساکھ اور سیاسی مستقبل بھی داؤ پر لگا ہوا ہے۔

    دوسری جانب تین بار پاکستان کے وزیراعظم رہنے والے نواز شریف جو چوتھی بار وزیراعظم پاکستان کا تاج پہننے کی خواہش لیے ’’چار سالہ طویل علاج‘‘ کے بعد اس وطن عزیز میں قدم رنجہ ہوئے تھے تاہم من پسند نتائج اور سادہ اکثریت نہ ملنے کی بنا پر چار وناچار اپنی خواہش کا گلا گھونٹتے ہوئے اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو وزیراعظم بنوا تو دیا ہے لیکن اب ان کا اگلا لائحہ عمل کیا ہوگا کیا وہ بغیر حکمرانی کے اسی ملک میں مزید قیام کرنا پسند کریں گے یا پھر ’’کسی خاص وجہ‘‘ کی بنیاد پر واپس بیٹوں کے پاس ان کے دیس چلے جائیں گے یہ بھی جلد عوام کے سامنےآ جائے گا۔

  • الیکشن 2024 پاکستان: خدشات اور افواہیں دم توڑ گئیں، کل عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے!

    الیکشن 2024 پاکستان: خدشات اور افواہیں دم توڑ گئیں، کل عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں گے!

    الیکشن 2024 پاکستان عام انتخابات کے انعقاد سے متعلق تمام خدشات، افواہیں اور قیاس آرائیاں دَم توڑ چکی ہیں اور بعض حلقوں کی خواہش کے برخلاف وہ دن آن پہنچا ہے جب پاکستانی قوم آئندہ پانچ سال کے لیے اپنے سیاسی امیدواروں کو منتخب کرے گی۔ کل (8 فروری) کو قوم کسی امیدوار یا جماعت کو نہیں بلکہ اپنے مستقبل کو ووٹ دے گی اور یہی ووٹ پاکستان کی سمت کا تعین کرے گا۔

    سپریم کورٹ کے حکم پر جب الیکشن کمیشن نے 8 فروری کو عام انتخابات کرانے کا اعلان کیا تھا تو اس اعلان کے ساتھ ہی ملک میں جاری سیاسی بحران اور دیگر سیاسی وجوہ کی بناء پر خدشات نے بھی سَر اٹھایا کہ شاید اعلان کردہ تاریخ پر الیکشن کا انعقاد ممکن نہ ہو اور ان خدشات کو کئی علاقوں میں بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات، سینیٹ میں الیکشن کے التوا کے لیے پیش کردہ قراردادوں اور شدید سیاسی انتشار نے ہوا دی، لیکن صد شکر کہ ایسا نہیں ہوا اور قوم کو ملک کی 12 ویں پارلیمنٹ منتخب کرنے کا موقع مل رہا ہے۔

    اے آر وائی نیوز اردو کی جانب سے الیکشن کی تمام رپورٹس، خبروں اور تجزیوں کے لئے اس لنک پر کلک کریں! 

    انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے ساتھ ہی سیاسی جماعتوں نے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا تھا، جو جلد ہی گرما گرم سیاسی مقابلے میں تبدیل ہوگئیں اور حسبِ روایت پاکستان کے سیاسی حلیف اور سابق اتحادی ایک دوسرے کے بدترین حریف کی صورت عوام کے سامنے آئے۔ اس کے بعد الزام تراشی کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا، تاہم الیکشن کے بعد کیا صورتحال ہوگی، الیکشن کے موقع پر بدترین حریف کے طور پر سامنے آنے والے ملکی مفاد میں کل بہترین حلیف بھی بنیں‌ گے یا نہیں، یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔

    یہ عام انتخابات ملکی تاریخ کے مہنگے ترین الیکشن قرار دیے جا رہے ہیں جس کے انتظامات پر اخراجات گزشتہ انتخابات سے کئی گنا زائد بتائے جارہے ہیں۔ قومی اسمبلی کی 266 اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی مجموعی طور پر 593 جنرل نشستوں کے لیے رجسٹرڈ ووٹرز 12 کروڑ 85 لاکھ 85 ہزار 760 اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ قومی اور چاروں صوبوں کے مجموعی طور پر 859 حلقوں کیلیے 26 کروڑ بیلٹ پیپرز چھاپے گئے ہیں۔

    یہ الیکشن صرف انتظامات اور اخراجات کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ سیاسی گہما گہمی کے حوالے سے بھی نئی تاریخ رقم کرے گا کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار طیاروں کو انتخابی مہم کے لیے استعمال کیا گیا۔ پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے اپنے حلقوں میں پمفلٹ فضا سے گرائے جب کہ کچھ حلقوں میں تو امیدواروں کی جیت پر جوا لگانے کی اطلاعات بھی میڈیا کے ذریعے سامنے آ چکی ہیں۔

    یوں تو کئی سیاسی جماعتیں انتخابات میں شریک ہیں جن میں ن لیگ، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، جے یو آئی، آئی پی پی، متحدہ قومی موومنٹ، ق لیگ، جی ڈی اے، اے این پی سمیت صوبائی سطح کی سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ پی ٹی آئی کو الیکشن کمیشن انتخابی نشان بلے سے محروم کر چکی، جس کی وجہ سے اس کے نامزد امیدوار آزاد حیثیت میں اور مختلف انتخابی نشانات کے ساتھ الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اس الیکشن کے لیے جہاں ن لیگ اور پی پی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے آزادانہ اور بھاری رقم خرچ کر کے انتخابی مہم چلائی ہے وہیں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو اپنی انتخابی مہم چلانے میں کئی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا اور اکثر حلقوں میں امیدواروں نے صرف پمفلٹ اور پوسٹرز کے ذریعے ہی کام چلایا جب کہ ان کے کئی امیدواروں‌ کو قید و بند کا سامنا ہے۔ الیکشن سے قبل جس طرح بانی پی ٹی آئی عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس اور پھر بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ کو نکاح کیس میں سزا سنائی گئی ہے، اس کے بعد بعض غیرجانب دار حلقوں اور سیاسی مبصرین نے الیکشن کی شفافیت پر سوال اٹھایا ہے۔


    الیکشن کے لیے سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم لگ بھگ دو ماہ جاری رہی۔ سیاسی جماعتوں کی ملک گیر انتخابی مہم کا جائزہ لیا جائے تو نوجوان سیاسی رہنما اور پی پی چیئرمین بلاول بھٹو سب سے آگے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے کراچی تا خیبر سب جگہ سیاسی ماحول کو گرمایا اور بڑے جلسے کیے تاہم ن لیگ جس کی جانب سے بڑے بڑے دعوے سامنے آئے ہیں، ان کے قائد نواز شریف سمیت صف اول کی قیادت نے انتخابی مہم میں بلوچستان اور سندھ کو یکسر نظر انداز کیا اور ایک بھی جلسہ نہیں کر سکے۔ ن لیگ کے اس اقدام سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کا فوکس طاقت کا مرکز پنجاب ہی رہا ہے تاہم ان کا یوں دو صوبوں کے عوام سے دور رہنا ان کے لیے سیاسی خسارے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

    ن لیگ، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، استحکام پاکستان پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان الیکشن سے کئی روز قبل اپنے اپنے سیاسی منشور کا اعلان کر چکی ہیں جس میں عوام کے لیے نئی ملازمتیں پیدا کرنے، نئے گھر بنانے، تنخواہوں میں اضافہ، ترقیاتی سمیت کئی عوامی فلاحی منصوبے، غربت اور مہنگائی کا خاتمہ سمیت دیگر منصوبے بھی شامل ہیں لیکن اگر عوام ذہن پر زور ڈالیں تو اس منشور میں کوئی ایسی نئی بات نہیں، جو اس سے قبل نہ کی گئی ہو جب کہ بجلی مفت دینے کے وعدے پر تو لگتا ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک پیج پر ہیں اور تقریباً ہر جماعت نے اپنے ووٹرز سے اقتدار میں آ کر انہیں مفت بجلی فراہم کرنے کا دلفریب وعدہ کیا ہے، تاہم کسی جماعت نے اس منشور پر عملدرآمد کا راستہ نہیں بتایا کہ عوام کو جو سبز باغ الیکشن سے قبل دکھائے جا رہے ہیں، تو جب جیتنے کے بعد اس پر عملدرآمد کا وقت آئے گا تو وہ کیسے ان وعدوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیں گے۔

    سیاسی جماعتوں نے قوم کے سامنے صرف اپنے اپنے منشور ہی پیش نہیں کیے بلکہ اس کے ساتھ وہ نئے نعروں کے ساتھ میدان میں اتری ہیں، جیسا کہ ن لیگ کا نعرہ ’’پاکستان کو نواز دو‘‘، پیپلز پارٹی کا نعرہ ’’چنو نئی سوچ کو‘‘، پی ٹی آئی کا نعرہ ’’ظلم کا بدلہ ووٹ سے‘‘، متحدہ قومی موومنٹ کا نعرہ ’’اپنا ووٹ اپنوں کے لیے‘‘ جیسے نعرے شامل ہیں۔ سب سے اہم بات کہ قومیں اور ملک کا مستقبل نوکریوں، خیراتی پروگراموں، مفت بجلی فراہمی کے پروگراموں سے نہیں بلکہ جدید تعلیم سے بنتا ہے لیکن ہماری کسی سیاسی جماعت میں شاید یہ شعبہ ترجیحاً شامل نہیں جس کی اس وقت اشد ضرورت ہے اور اگر شامل بھی ہے تو وہ سر فہرست نہیں ہے۔ پاکستان کے روشن مستقبل اور ہماری بقاء کے لیے اس وقت جس چیز کی اشد ضرورت ہے وہ جدید تعلیم اور جدید نظام صحت ہے لیکن ملک کی 75 سالہ تاریخ دیکھیں تو ان دونوں شعبوں کے ساتھ ہر دور میں سوتیلی ماں جیسا ہی سلوک کیا گیا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ جب بھی ہمارے حکمرانوں اور مقتدر طبقوں کو اپنے علاج اور بچوں کی اعلیٰ تعلیم کی ضرورت پڑتی ہے تو انہیں پاکستان میں ایسا کوئی ادارہ نظر نہیں آتا جہاں ان کی ضرورت پوری ہوتی ہو اور پھر وہ بیرون ملک کا ہی رخ کرتے ہیں۔فیصلے کی گھڑی آ گئی ہے اور ووٹ ڈالنے سے قبل قوم کو سوچنے کا وقت ملا ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے لیے کس کو چُنیں۔ انتخابی میدان میں موجود تقریباً تمام سیاسی جماعتیں تنہا یا اتحاد کی صورت میں اقتدار کا حصہ رہ چکی ہیں اور کچھ جماعتیں تو متعدد بار اقتدار کے مزے لے چکی ہیں۔ اب یہ وقت ہے کہ عوام سیاستدانوں سے سوال کرنے کے بجائے خود سے سوال کریں کہ جو وعدے یہ جماعتیں کر رہی ہیں اپنے اپنے دور اقتدار میں انہوں نے کن وعدوں پر عمل کیا۔ جو نعرے آج یہ دے رہی ہیں ان نعروں کی عملی تفسیر کب بنے؟

    عوام ضرور سوچیں۔ ذات، برادری، لسانیت، صوبائیت، شخصیت پرستی سے سے باہر نکلیں۔ صرف وقتی فائدہ نہ دیکھیں بلکہ اپنی آنے والی نسل کا مستقبل دیکھیں۔ انفرادی نہیں بلکہ ایک قوم بن کر سوچیں اور پھر جو جواب انہیں خود سے ملے اس کے مطابق کل گھروں سے نکلیں اور ذمے دار پاکستانی کی حیثیت سے اپنے روشن مستقبل کے لیے ووٹ کا جمہوری حق استعمال کریں، کیونکہ ایک خوشحال جمہوری پاکستان ہی ہم سب کی خوشحالی کا ضامن ہے۔

  • پاکستان کے پارلیمانی انتخابات کی تاریخ اور اقتدار کی غلام گردشوں کی کہانی

    پاکستان کے پارلیمانی انتخابات کی تاریخ اور اقتدار کی غلام گردشوں کی کہانی

    8 فروری کو عام انتخابات پاکستان کی تاریخ کے 13 ویں پارلیمانی انتخابات ہوں گے۔ انتخابی مراحل کا آغاز ہو چکا ہے۔ کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال جاری ہے۔ اب تک نواز شریف، آصف زرداری، بلاول بھٹو، مریم نواز سمیت چوٹی کے سیاستدانوں سمیت دیگر کو بھی الیکشن لڑنے کی کلین چٹ مل چکی ہے جب کہ بانی پی ٹی آئی سمیت اہم رہنماؤں کے فارم مسترد کیے جا چکے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابات کے لیے سیاسی جوڑ توڑ میں بھی تیزی آ گئی ہے۔

    اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک جدوجہد کے نتیجے میں دنیا کے نقشے پر 14 اگست 1947 کو وجود میں آیا لیکن یہاں پارلیمانی طریقۂ انتخاب یعنی عوام کو حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے لگ بھگ 23 سال کا عرصہ لگا۔ گو کہ قیام پاکستان کے بعد ایوب خان کے دور حکومت میں بنیادی جمہوریت ( بی ڈی الیکشن) کے نام پر بلدیاتی الیکشن کا انعقاد کا تجربہ کیا گیا لیکن نہ تو پارلیمانی الیکشن تھے اور نہ ہی اس میں براہ راست عوام کی شرکت ہوئی جو کہ جمہوریت کی بنیادی شرط ہے۔

    ملکی سطح پر پہلی بار عام انتخابات 1970 میں متحدہ پاکستان میں منعقد ہوئے جو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر کرائے گئے، جس کے بعد سے اب تک 12 بار عام انتخابات کا میدان سجایا گیا ہے۔ 11 بار جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے گئے جب کہ ایک بار غیر جماعتی بنیاد پر ہوئے۔ اسی دوران دو بار صدارتی ریفرنڈم بھی ہوئے جس کے ذریعے ایک بار جنرل ضیا الحق اور دوسری بار جنرل پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کو طول دیا۔

    ملک میں عام انتخابات کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو 1970 میں ہونے والے ملکی تاریخ کے پہلے عام انتخابات کے نتائج میں مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں عوامی لیگ جب کہ مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) میں پاکستان پیپلز پارٹی اکثریتی پارٹی کے طور پر سامنے آئی۔ تاہم یہاں سقوط ڈھاکا کے نتیجے میں پاکستان کے دو لخت ہونے کے بعد عملی طور پر جمہوری حکومت کا قیام ممکن نہ ہوسکا۔ ذوالفقار علی بھٹو ملک کے پہلے سول مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ 1973 کے آئین کی تشکیل کے بعد پہلی جمہوری حکومت 1970 کے انتخابی نتائج کے تحت 1973 میں پی پی پی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں قائم کی گئی۔

    وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی مقبولیت کے زعم میں ایک سال قبل ہی 1977 میں الیکشن کرانے کا اعلان کر دیا اور اس کا جو نتیجہ آیا اس نے اسے ملک کی اب تک کی تاریخ کے سب سے متنازع الیکشن بنا دیا۔ نتائج میں پیپلز پارٹی نے پورے ملک سے لگ بھگ کلین سوئپ کیا، پی پی کے اکثر امیدوار بلا مقابلہ ہی منتخب ہوئے۔ یہ نتائج منظر عام پر آنے کے بعد ملک بھر میں وہ سیاسی طوفان اور احتجاج اٹھا کہ جو پھر بھٹو کی معزولی سے تختہ دار تک اور مارشل کے قیام پر ہی منتج ہوا۔

    جنرل ضیاء الحق چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے بعد ایک ریفرنڈم کے ذریعے صدر بھی بن گئے اور انہوں نے 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر ملک بھر میں عام انتخابات کرائے جس کا پاکستان پیپلز پارٹی نے بائیکاٹ کیا اور یوں سندھ کے علاقے سندھڑی سے تعلق رکھنے والے محمد خان جونیجو ملک کے نئے وزیراعظم بن گئے اور انہوں نے ہی ضیا الحق کو مارشل ہٹانے پر آمادہ کیا تھا۔ تاہم یہاں صدر کے ہاتھ 58 ٹو بی آئینی ترمیم کے نام سے ایک ایسا اختیار دے دیا گیا جس کی مدد سے صدر جب چاہے منتخب حکومت کو گھر بھیج سکتا تھا اور یہیں سے حکومتوں کو قبل از وقت برطرف کرنے کا سلسلہ شروع ہوا جو ایک دہائی سے زائد وقت تک جاری رہا اور پانچ منتخب حکومتیں اس کا شکار بنیں۔

    مئی 1988 میں اس وقت کے صدر جنرل ضیا الحق نے جونیجو حکومت کو برطرف کر کے نومبر میں غیر جماعتی بنیادوں پر الیکشن کرانے کا اعلان کیا تاہم اگست میں ان کی حادثے میں موت کے بعد الیکشن تو اپنے اعلان کردہ وقت پر ہوئے مگر غیر جماعتی کے بجائے جماعتی بنیادوں پر ہوئے جن میں کسی جماعت کو حکومت بنانے کے لیے واضح اکثریت تو نہ ملی لیکن پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں۔

    پی پی نے سندھ کے شہری علاقوں سے کلین سوئپ کرنے والی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) جو اس وقت مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے اپنا وجود رکھتی تھی، سے اتحاد کیا اور وفاق میں حکومت قائم کی۔ بینظیر بھٹو نہ صرف ملک بلکہ اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ تاہم یہ اتحادی حکومت صرف 18 ماہ کی مہمان ثابت ہوئی اور 1990 میں صدر غلام اسحاق خان نے 58 ٹو بی کے ڈنڈے کا استعمال کرتے ہوئے بینظیر حکومت کو چلتا کیا اور اسی سال اکتوبر میں پھر عام انتخابات ہوئے جس میں اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت قائم ہوئی اور نواز شریف نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا۔

    صدر غلام اسحاق خان کی نواز شریف سے بھی نہ بنی اور 2 سال بعد ہی دونوں کے درمیان اختلافات منظر عام پر آنے لگے جس کا نتیجہ نواز شریف کی برطرفی کی صورت نکلا لیکن عدالت نے نواز شریف کو عہدے پر بحال کر دیا جس کو اس وقت کی اپوزیشن لیڈر بینظیر بھٹو نے چمک قرار دیا تاہم سیاسی بحران اس قدر بڑھا کہ پھر وزیراعظم اور صدر دونوں کو ہی گھر جانا پڑا۔

    1993 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی اور بینظیر بھٹو دوسری بار وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ تاہم ان کا دوسرا دور سندھ کے شہری بالخصوص کراچی میں فوجی آپریشن جس کا نشانہ واضح طور پر ایم کیو ایم (جس نے اس الیکشن میں قومی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا) اور ان کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کا انکی رہائشگاہ کے باہر مبینہ پولیس مقابلے میں قتل جیسے واقعات رہے۔

    گزشتہ دور حکومت میں 58 ٹو بی کے وار سے ڈسی ہوئی بینظیر بھٹو نے اس بار اپنے تئیں محفوظ قدم اٹھایا اور اپنی ہی پارٹی کے فاروق لغاری جنہیں وہ فاروق بھائی کہتی تھیں کو صدر بنایا تاکہ ان کی حکومت ماضی کی طرح مشکلات کا شکار نہ ہوا۔ تاہم یہ ان کی خوش فہمی رہی اور انہیں اپنے ہی بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کی چارج شیٹ کے ساتھ پانچ سالہ مدت سے قبل ہی گھر بھیج دیا گیا۔

    فاروق لغاری کے دور صدارت میں ہی 1996 کے انتخابات منعقد ہوئے اور نواز شریف دو تہائی اکثریت لے کر آئے۔ ملک کی تاریخ میں پہلی اور اب تک آخری بار کسی سیاستدان کو انتخابات میں دو تہائی اکثریت ملی تھی لیکن یہ اکثریت بھی ان کی حکومت کو قبل از وقت خاتمے کے انجام سے نہ بچا سکی۔

    نواز شریف نے دو تہائی اکثریت کے زعم میں جمہوری صورت میں مطلق العنان بننے کی کوشش کی اور خود کو ملک کے سیاہ وسفید کا مالک بنانے کے لیے آئین میں ترمیم کی کوشش کی، جس کو پی پی اور دیگر جماعتوں نے ن لیگی قائد کی امیر المومنین بننے کی کوشش قرار دیا اور اس کے خلاف ملک گیر تحریک چلاتے ہوئے اسے ناکام بنایا۔ اسی مدت کے دوران وزیراعظم نواز شریف کے صدر لغاری اور اس وقت کے چیف جسٹس سے تنازعات ہوئے، سپریم کورٹ پر حملہ کیا گیا۔ بالآخر آرمی چیف پرویز مشرف کی برطرفی کا فیصلہ نہ صرف ان کی حکومت کا اختتام ثابت ہوا بلکہ انہیں وزیراعظم ہاؤس سے جیل تک کا سفر بھی کرایا جس کے ایک سال بعد انہیں 10 سال کے لیے بیرون ملک بھیج دیا گیا۔ اسے اس وقت ایک ڈیل یا معاہدہ کہا گیا جب کہ نواز شریف پہلے اس معاہدے سے انکار کرتے رہے لیکن بالآخر قبول کر ہی لیا کہ وہ دس سال نہیں بلکہ پانچ سال کے جبری معاہدے پر بیرون ملک گئے تھے۔ پرویز مشرف نے اپنے اقتدار کا بڑا حصہ مطمئن انداز میں گزارا کیونکہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین ملک سے باہر تھے۔ ان میں نواز شریف معاہدے کے تحت جلا وطن جب کہ بینظیر بھٹو نے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کی ہوئی تھی۔ 2006 ملکی سیاست کے لیے خوشگوار سال ثابت ہوا کہ 90 کی دہائی کے دو بدترین سیاسی حریف نواز شریف اور بینظیر بھٹو اکٹھے ہوئے اور لندن میں میثاق جمہوریت کے نام سے تاریخی معاہدہ وجود میں آیا لیکن افسوس یہ معاہدہ کرنے والی جماعتوں نے بعد ازاں خود ہی اس معاہدے کے چیتھڑے اڑا دیے۔

    پرویز مشرف نے 2002 میں پارلیمانی انتخابات اپنے پیشرو صدر جنرل ضیا الحق کے برعکس جماعتی بنیادوں پر کرائے جن میں نواز شریف، بینظیر بھٹو سمیت دونوں جماعتوں کے کئی اہم رہنما بذات خود حصہ نہیں لے پائے لیکن انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن کے بطن سے مسلم لیگ ق اور پاکستان پیپلز پارٹی کی بطن سے پی پی پی پیٹریاٹ کا جنم ہوا۔ جن کے اشتراک اور مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کے خصوصی تعاون کی بدولت نئی وفاقی حکومت تشکیل دی گئی جس کی سربراہی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے میر ظفر اللہ جمالی کے سر پر وزارت عظمیٰ کا تاج سر پر سجا کر کی گئی۔

    یہ ملک کی تاریخ کی پہلی اسمبلی تھی جس نے اپنی پانچ سالہ آئینی مدت مکمل کی لیکن اس مدت کے دوران وزارت عظمیٰ کا منصب بدلتا رہا۔ میر ظفر اللہ جمالی صرف ڈیڑھ برس تک وزیراعظم ہاؤس میں متمکن رہے جس کے بعد مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کو عبوری وزیراعظم بنایا گیا جب کہ شوکت عزیز کو معین قریشی کی طرح بیرون ملک سے درآمد کرکے وزارت عظمیٰ کا تاج حتمی طور پر ان کے سر پر سجایا گیا جو پھر اسمبلی کے اختتام تک وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہے۔ ایک اسمبلی کے برقرار رہتے ہوئے وزیراعظم ہاؤس کے مکین میں تبدیلی کی یہ روایت ایسی چلی کہ جو اب تک چلی آ رہی ہے اور اگلی حکومتوں میں بھی چار و ناچار یہی فارمولا آزمایا گیا۔ اس دور میں ہی بزرگ بلوچ رہنما اکبر بگٹی کا قتل اور سانحہ لال مسجد جیسے واقعات پیش آئے۔ اسی اسمبلی نے ایل ایف او پاس کر کے مشرف کے تمام اقدامات کی منظوری دی۔

    جنرل مشرف کی اقتدار پر گرفت مارچ 2007 میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو برطرف کرنے کے فیصلے بعد کمزور ہونا شروع ہوئی کیونکہ نہ صرف ملک بھر کے وکلا سڑکوں پر نکل آئے بلکہ سیاسی جماعتوں کے پشت پناہی نے اس تحریک کو قوت بخشی۔ اسی دوران بینظیر بھٹو جو خود ساختہ جلا وطن تھیں اپنی جلا وطنی ختم کر کے پاکستان واپس آئیں جس کو مشرف سے ہوئی ڈیل کا نتیجہ بھی کہا جاتا ہے جب کہ نواز شریف جو مشرف حکومت سے معاہدے کے تحت قید سے نکل کر سعودی عرب گئے تھے ان کی بھی واپسی ہوئی۔ جنرل پرویز مشرف نے سیاسی جماعتوں سے ایل ایف او کی منظوری کی ڈیل پوری ہونے پر وردی اتار دی اور نئے الیکشن کے لیے 8 جنوری 2008 کی تاریخ دی لیکن اس سے قبل نومبر 2007 میں ایمرجنسی نے حالات کو ایک نیا موڑ دیا۔ بینظیر بھٹو کے 27 دسمبر کو لیاقت باغ راولپنڈی میں قتل نے ملک کو ایک نئے بھونچال میں مبتلا کر دیا۔ الیکشن کو ایک ماہ آگے بڑھا کر 8 فروری کو پولنگ کرائی گئی۔ پیپلز پارٹی نے ملک بھر میں اکثریت حاصل کی جس کو ناقدین بینظیر بھٹو کے قتل میں پڑنے والا ہمدردی کا ووٹ بھی قرار دیتے رہے ہیں۔

    بہرحال 2008 کے انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی نےمرکز اور سندھ میں حکومت بنائی اور پی پی شریک چیئرمین آصف علی زرداری جو بعد ازاں اسی سال اگست میں صدر مملکت بھی بن گئے انہوں نے سیاسی افق پر مفاہمت کا جھنڈا لہرایا جس کے تحت مرکز میں ن لیگ، ایم کیو ایم سمیت دیگر جماعتوں کو ملا کر حکومت بنائی یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ پنجاب میں ن لیگ کو حکومت بنانے کا موقع فراہم کیا لیکن صوبائی حکومت میں شامل رہی، سندھ میں پی پی نے اقتدار اپنے پاس ہی رکھا لیکن ایم کیو ایم کو شریک کار کیا۔

    پی پی اور ن لیگ کا اشتراک صرف چند ماہ ہی قائم رہا اور جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے وعدے سے منحرف ہونے پر ن لیگ وفاقی حکومت سے نکل گئی تاہم پی پی نے پنجاب حکومت سے رہنے کا فیصلہ برقرار رکھا، اسی دوران پنجاب میں کچھ عرصے کے لیے گورنر راج کے قیام نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور میمو گیٹ اسکینڈل سامنے آنے پر شریف برادران یعنی نواز شریف اور شہباز شریف بدلے کی سوچ میں کالے کوٹ پہن کر عدالت جا پہنچے۔ سپریم کورٹ نے یوسف رضا گیلانی کو اپنی پارٹی کے سربراہ اور صدر مملکت کے خلاف سوئس حکومت کو خط نہ لکھنے پر جب برطرف اور نا اہل کیا تو راجا پرویز اشرف کو نیا وزیراعظم منتخب کر لیا گیا۔

    سال 2013 کے الیکشن میں ن لیگ کی وفاق کے ساتھ پنجاب، بلوچستان میں حکومت قائم ہوئی جب کہ کے پی میں پی ٹی آئی اور سندھ میں حسب سابق پی پی پی کی حکومت بنی۔ نواز شریف ریکارڈ تیسری بار وزیراعظم بنے لیکن انہیں اقتدار کے آغاز سے پاکستان تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک کا سامنا رہا۔ اقتدار حاصل کرنے کے چند ماہ بعد ہی نواز شریف حکومت کے خلاف پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان لانگ مارچ لاہور سے لے کر اسلام آباد پہنچ گئے اور 100 سے زائد دن تک دھرنا دیا۔ اسی دوران 16 دسمبر کا سانحہ آرمی پبلک اسکول ہوا جس کے بعد پی ٹی آئی نے اپنا احتجاج ختم کر دیا تاہم چار حلقوں کے نتائج پر شروع ہونے والا احتجاج جاری رہا۔ اسی دوران پاناما کیس سامنے آیا اور نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ نے کیس شروع کیا لیکن اقامہ کیس میں انہیں وزارت عظمیٰ کے عہدے سے برطرف اور تاحیات سیاست کے لیے نا اہل کرنے کے ساتھ ساتھ قید کی سزا بھی سنائی۔ اس فیصلے کے بعد ن لیگ نے حکومت سے نکلنے کے بجائے شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم منتخب کرایا اور اسمبلی نے اپنی مدت پوری کی۔

    سال 2018 کے الیکشن میں پی ٹی آئی نے اکثریت حاصل کی اور پارٹی چیئرمین عمران خان وزیراعظم پاکستان بنے۔ ان کا دور تنازعات سے بھرا ہے اور پی ٹی آئی دور حکومت میں بھی سابقہ حکومتوں کی روایات پر عمل کرتے ہوئے بالخصوص اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف الزامات کی سیاست اور مقدمات کی طویل فہرست مرتب کی گئی۔ ان کے دور حکومت میں ہی جیل میں قید نواز شریف کی صحت کے حوالے سے ایسا بیانیہ بنایا گیا کہ لگا ان کی صحت اتنی خراب ہے کہ اگر فوری طور پر بیرون ملک نہ بھیجا گیا تو خدانخواستہ ان کی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ اس حوالے سے پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے بھی انہیں فوری طور پر علاج کی غرض سے بیرون ملک بھیجنے کی سفارش کی اور ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کے 50 روپے مالیت کے اسٹامپ پیپر پر انہیں عدالت عظمیٰ نے 6 ہفتوں کے لیے لندن جانے کی اجازت دی لیکن یہ عرصہ چھ ہفتوں سے طوالت اختیار کر کے لگ بھگ چار سال بن گیا اور حیرت انگیز طور پر وہ نواز شریف جن سے پاکستان میں چلنا پھرنا بھی محال ہوگیا تھا اور ایئرایمبولینس کے ذریعے انہیں لندن لے جایا گیا۔ لندن کی ہوا ایسی راس آئی کہ اس سر زمین پر اترتے ہی وہ اپنے پیروں سے چلتے ہوئے ایون فیلڈ اپنے بیٹوں کی رہائشگاہ پہنچے اور اس کے بعد جب تک وہ وہاں رہے ان کے علاج کے حوالے سے خبریں کم بلکہ ان کے یورپی ممالک سمیت دیگر مقامات پر سیر سپاٹوں اور سیاسی سرگرمیوں کی خبریں میڈیا کی زینت زیادہ بنیں۔

    عمران خان کی حکومت کو کامیاب تحریک عدم اعتماد کے ذریعے مارچ 2022 میں ختم کیا گیا اور پی ڈی ایم کی حکومت قائم ہوئی۔ شہباز شریف وزیراعظم بنے جن کے دور حکومت میں ملک کو کچھ اور تو نہیں لیکن ریکارڈ مہنگائی کا تحفہ ضرور ملا۔ اس دور حکومت میں پی ٹی آئی چیئرمین نے احتجاجی تحریک جاری رکھی جس کے دوران ان پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا جس میں وہ خوش قسمتی سے بچ گئے۔ لیکن 9 مئی 2023 کو ہونے والی ان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں ہونے والے احتجاج بالخصوص فوجی تنصیبات اور یادگار شہدا کو نقصان پہنچانے والے واقعات ایسا سیاہ دھبہ ہیں جو بانی چیئرمین کے سیاسی کیریئر پر گہرا داغ چھوڑ گئے۔ عمران خان سیاسی طور پر زیر عتاب نظر آتے ہیں‌ اور اڈیالہ جیل میں قید ہیں اور کئی مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی سے بلے کا نشان واپس لینے کا فیصلہ بحال کر دیا ہے۔ دیکھتے ہیں آنے والے انتخابات میں کون کس کو پچھاڑتا ہے، کس کی جیت ہوتی ہے اور کس کی مات، مگر موجودہ حالات تو ان کہی داستان بیان کر رہے ہیں۔

  • ذکرکچھ  انوکھے لاڈلوں کاجو کھیلن کو مانگیں….!

    ذکرکچھ انوکھے لاڈلوں کاجو کھیلن کو مانگیں….!

    آج ہم ذکر کررہے ہیں کچھ لاڈلوں کا، اور کیوں نہ کریں، جب ملک میں ہر طرف لاڈلوں کا چرچا ہے تو ہم لیکھک اس سے کیسےنظربچا سکتے ہیں۔

    ان دنوں ملک میں الیکشن کا شور اور اس کے ساتھ ‘دھیمے سُروں’ میں ہر طرف لاڈلوں کی باتیں ہو رہی ہیں اور کوئی کسی کو طنزاً لاڈلا کہہ رہا ہے، تو کوئی خود کو لاڈلا کہہ کر مخالف کو چِڑانے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن اس سارے کھیل تماشے میں کہیں ایک طرف کوئی نادیدہ ہستی بھی ضرور ہنسی ٹھٹّا کر رہی ہے۔

    پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو تو ڈھکے چھپے لفظوں میں کہتے آ رہے ہیں کہ پہلے کوئی اور لاڈلا تھا اور اب دوسرے کو لاڈلہ بنایا جا رہا ہے اور یہ بات پہلی بار نہیں کی جا رہی بلکہ لاڈلوں کا یہ شور کئی سال سے تواتر سے ہورہا ہے۔ ہر پارٹی راہ نما یہ راگ الاپتے رہے ہیں لیکن اس راز سے کوئی پردہ اٹھانے کو تیار نہیں کہ وہ کون ہے جس کے پاس لاڈلا بنانے کی مشین ہے جس میں سے گزر کر باہر آنے والا ایسا ‘صاف ستھرا’ ہو جاتا ہے کہ اس پر بے اختیار پیار آئے اور اسے لاڈلا بنائے بغیر کچھ بن نہیں پاتا۔

    حال ہی میں ن لیگی رہنما احسن اقبال نے یہ کہا کہ نواز شریف ملک کے 24 کروڑ عوام کے لاڈلے ہیں، اگر ان کے اس دعوے کو درست مان لیا جائے تو پھر ملک کے بقیہ ایک کروڑ عوام کا لاڈلا کون ہے؟ کیونکہ حالیہ مردم شماری نتائج کے مطابق ملک کی آبادی لگ بھگ 25 کروڑ ہو چکی ہے۔ ایسے میں ایک کروڑ عوام کا یوں نواز شریف کو نظر انداز کرنا نیک شگون تو نہیں ہے اور مسئلہ یہ بھی ہوگا کہ ان ایک کروڑ عوام کی چھانٹی کیسے کی جائے جن کے نواز شریف لاڈلے نہیں ہیں۔ کیا ہی بہتر ہوتا اگر احسن اقبال مزید حسن ظن سے کام لیتے ہوئے اپنے قائد کو ملک کے 25 کروڑ عوام کا ہی لاڈلا بنا دیتے کہ اس جھِک جھک سے جان ہی چھوٹ جاتی۔

    یہ تو سیاست دانوں کی زبانی لاڈلوں کی بات ہو رہی تھی اگر ہم اپنی بات کریں تو ہم بچپن سے ایک ہی قسم کے لاڈلے دیکھتے آئے ہیں جو اپنے اماں ابا کے لاڈلے ہوتے ہیں یا پھر لاڈلوں پر بنی کچھ فلمیں اور ڈرامے دیکھ رکھے ہیں جب کہ ایک مشہور نظم ’’انوکھا لاڈلا‘‘ بھی بلقیس خانم کی زبانی سن رکھی ہے جو کھیلنے کو کھلونے نہیں بلکہ آسمان پر چمکتا چاند مانگا کرتا ہے۔ تو صرف وہ انوکھا لاڈلا نہیں بلکہ ہمارے سیاسی لاڈلے بھی کچھ ایسا ہی مزاج رکھتے ہیں کہ کھیلن کو ہمیشہ چاند ہی مانگتے ہیں حالانکہ اس کے اردگرد ہزاروں کی تعداد میں ستارے جھلملا رہے ہوتے ہیں لیکن ان کی نظر انتخاب ہمیشہ چاند پر ہی پڑتی ہے اور شاعر بھی انوکھے لاڈلے کی ضد پر یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ پاگل من کوئی بات نہ مانے، کیسی انوکھی بات رے۔

    انوکھے لاڈلے پر ہم فلموں ڈراموں تک آ کر کچھ بھٹک گئے قبل اس کے کہ زیادہ بھٹک کر راستہ ہی بھول جائیں واپس آتے ہیں اماں ابا کے لاڈلے کی جانب جو ہوتے تو دونوں کی آنکھوں کا تارا ہیں لیکن تب تک، جب تک وہ ان کی مرضی کے مطابق چلتے ہیں، جیسے ہی اماں ابا کے حکم یا مرضی کے برخلاف کام کرتے ہیں تو پھر اماں کی جوتی اور ابا کا ڈنڈا اٹھتے اور کمر پر پڑتے دیر نہیں لگتی اور یہ چوٹ ایسی ہوتی ہے کہ چودہ طبق روشن ہونے لگتے ہیں اور ہمارا دعویٰ ہے کہ اکثریت کا تجربہ اسی سے ملتا جلتا ہوگا۔

    لیکن لاڈلے تو پھر لاڈلے ہیں جو نافرمانی کی سزا پاتے ہیں پھر توبہ تلّا کر کے دوبارہ لاڈلے بن جاتے ہیں اور اسی لاڈلے پن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پھر سے غلطی کرتے ہیں لیکن وہ بھی کیا کریں کہ انسان تو ہے ہی خطا کا پتلا، اگر وہ خطا نہ کرتا تو جنت سے کیوں نکالا جاتا۔ اگر غلطیوں اور نافرمانیوں کے سلسلے کو سیاست دانوں پر رکھ کر دیکھیں تو وہ بھی بالآخر انسان ہے اور بچپن بھی گزارا ہے تو اگر بھول چوک کا یہ سلسلہ بڑے ہو کر بھی قائم و دائم ہے تو اس پر جزبز ہونے کے بجائے ان کی استقامت کی داد دینی چاہیے۔

    اگرچہ دنیا کے دیگر ممالک میں سیاسی رہنما اپنا طرز حکمرانی بہتر سے بہترین اور عوام کے وسیع تر مفاد میں بنا کر ان کے لاڈلے بننے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں یہ چلن صرف دعوؤں اور لفظوں تک ہے۔ عمل کی راہ سے اس کا دور دور تک گزر نہیں ہوتا۔ ہمارے اکثر سیاستدان تو شاعر مشرق علامہ اقبال کے اس شعر پر پورے اترتے ہیں کہ

    اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
    گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا

    آج ایک بار پھر انتخابات کے لیے سیاسی میدان سج چکا ہے جہاں سیاست دان لاڈلا بننے کی کوششوں کے ساتھ حسب روایت اقتدار کی خاطر عوام کو دانہ ڈالنے کے لیے وعدوں کے جال بچھا رہے ہیں جب کہ ماضی میں کئی بار کبھی نہ پورے ہونے والے وعدوں پر اعتبار کرنے والے کروڑوں عوام کچھ اس طرح اپنا حال اور رہنمائی کے دعوے داروں کی فرمائش بیان کر رہے ہیں کہ

    انوکھا لاڈلا، کھیلن کو مانگے چاند
    کیسی انوکھی بات رے
    تن کے گھاؤ تو بھر گئے داتا
    من کا گھاؤ نہیں بھر پاتا
    جی کا حال سمجھ نہیں آتا
    کیسی انوکھی بات رے
    انوکھا لاڈلا…..

  • 2023 :  قومی کرکٹ ٹیم تنزلی اور ترقی کے درمیان جھولتی رہی

    2023 : قومی کرکٹ ٹیم تنزلی اور ترقی کے درمیان جھولتی رہی

    ہماری زندگی کا ایک اور سال 2023 کی صورت اختتام کی جانب گامزن ہے۔ اس سال سے جڑی کئی اچھی بری یادیں اور واقعات ذہن کے پردے پر نقش ہو گئے ہیں۔ کرکٹ پاکستان کا مقبول ترین کھیل ہے اور یہ سال کرکٹ کے حوالے سے پنڈولم کی طرح جھولتا ثابت ہوا۔ خاص طور پر ٹیم رینکنگ کے حوالے سے قومی ٹیم نے تنزلی سے ترقی اور پھر تنزلی کا سفر اتنی تیزی سے طے کیا کہ نمبر ون اور نمبر ٹو کی گردان کرتی زبانیں بھی گنگ ہو گئیں۔

    ماہرین کی رائے ہے کہ پاکستانی ٹیم کے بارے میں پیش گوئی کرنا مشکل ہے جو کبھی بھی اور کہیں بھی بڑی سے بڑی ٹیم کو ہرا سکتی ہے اور چھوٹی سے چھوٹی ٹیم سے شکست کھا سکتی ہے اور کئی مواقع پر کرکٹ پنڈتوں کی یہ رائے درست ثابت ہوئی ہے۔ یہاں ہم بات کر رہے ہیں پورے سال میں پاکستان کرکٹ کو درپیش حالات کی جس نے بعض اوقات تو ایسی تیزی سے رنگ بدلے کہ گرگٹ بھی پریشان ہو گیا ہو گا۔

    یہ سال ایشیا کپ اور ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی بدترین بلکہ شرمناک کارکردگی، میگا ایونٹ کے دوران کرپشن اسکینڈل، کرکٹ بورڈ اور منیجمنٹ میں کئی بار توڑ پھوڑ کے حوالے سے ذہنوں میں محفوظ رہے گا۔ اس سال پاکستانی کرکٹرز اپنی کارکردگی سے زیادہ اپنی شادیوں کے حوالے سے موضوع بحث رہے اور آدھی ٹیم کنواروں سے شادی شدہ کھلاڑیوں میں تبدیل ہوگئی۔ کچھ کھلاڑیوں کی انفرادی کارکردگی نے پاکستان کا نام روشن کیا لیکن بطور ٹیم یونٹ ایسی کارکردگی سامنے نہ آسکی جو پاکستان کرکٹ کے لیے یادگار ثابت ہوتی۔

    پاکستان کرکٹ ٹیم نے 2023 کا آغاز نیوزی لینڈ کے خلاف دو ٹیسٹ کی ہوم سیریز ڈرا اور ون ڈے سیریز ہارنے سے کیا تو آسٹریلیا میں سال کا اختتام بھی شکست کے ساتھ ہی کیا یوں ٹیم نے سال کے آغاز اور انجام تفریق کو روا نہ رکھا بلکہ ہار کی یکسانیت کو برقرار رکھا۔ قومی ٹیم کو میدان میں تین ماہ سے پے در پے اتنی شکستیں ہو چکی ہیں کہ لگتا ہے کہ وہ گلے کا ہار بن گئی ہیں یا پھر جونک کی طرح چمٹ گئی ہیں کہ کھلاڑی کوششوں کے باوجود ٹیم کو شکستوں کے بھنور سے نکال نہیں پا رہے ہیں۔

    بابر اعظم کے ہاتھ سے تو کپتانی ورلڈ کپ میں ٹیم کی شرمناک کارکردگی کے بعد گئی لیکن کپتانی کی آنکھ مچولی کا یہ کھیل تو سال کے آغاز پر ہی ہوگیا تھا جب نیوزی لینڈ کے خلاف دو ٹیسٹ میچوں کی ہوم سیریز ڈرا ون ڈے سیریز ہارنے کے بعد ہی قومی ٹیم میں کپتانی کے تنازع نے سر اٹھایا اور حسب روایت افواہوں کا زور چل گیا تھا۔ پی سی بی نے افغانستان کے خلاف تین ٹی ٹوئنٹی میچوں کی ہوم سیریز کے لیے بابر اعظم کی جگہ شاداب خان کے کاندھوں پر قیادت کی ذمے داری ڈالی وہ تو اپنے پہلے اسائنمنٹ میں بری طرح ناکام رہے اور افغانستان نے پہلی بار گرین شرٹس کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز جیت کر تاریخ رقم کر کے پاکستان کرکٹ پر شرمناک شکست کا داغ لگا دیا، اگر نیتجہ اس کے الٹ ہوتا تو شاید بابر کو کپتانی کا بوجھ سال کے آخر تک نہ اٹھانا پڑتا۔

    پاکستان نے اس سال نیوزی لینڈ کو پانچ ون ڈے میچوں کی ہوم سیریز میں چار صفر سے شکست دے کر جہاں 12 سال بعد سیریز جیتنے میں کامیابی حاصل کی وہیں سری لنکا کو ٹیسٹ سیریز اور افغانستان کو ون ڈے سیریز میں وائٹ واش کیا لیکن ان کامیابیوں کے بعد ناکامی کی ایسی ہوا چلی کہ پھر ایشیا کپ اور ورلڈ کپ میں تاریخ کی شرمناک کارکردگی سامنے آئی جس نے پہلے کی کامیابیوں کو گہنا کر رکھ دیا۔

    سری لنکا کے خلاف دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز جیت کر پاکستان جہاں آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئن شپ 2025 کے سائیکل کے پوائنٹس ٹیبل میں ٹاپ ٹیم بنی وہیں ون ڈے کی بھی آئی سی سی نمبر ایک ٹیم بنی لیکن یہی پوزیشن پاکستان کرکٹ کے لیے سارا سال مذاق بنی رہی کیونکہ یہ پوزیشن مستحکم رہنے کے بجائے پنڈولم کی طرح جھولتی رہی اور ہر چند دن بعد پوزیشن بدلتی رہی۔

    نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی رینکنگ پنڈولم کی طرح جھولتی رہی اگر اس کو روٹھی محبوبہ سے تعبیر کیا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا کہ یہ بالکل محبوبہ کی طرح کبھی روٹھتی اور کبھی مانتی رہی۔ سیریز کے آغاز سے قبل گرین شرٹس آئی سی سی ٹیم رینکنگ میں تیسرے نمبر پر تھی۔ مسلسل چوتھا میچ جیت کر ون ڈے کی نمبر ایک ٹیم بنی۔ آخری میچ جیت نہ قومی ٹیم نہ صرف نیوزی لینڈ کی بی ٹیم کے خلاف کلین سوئپ کر سکتی تھی بلکہ نمبر ون پوزیشن کو مزید مستحکم کر سکتی تھی تاہم یہ موقع آخری میچ ہار کر گنوا دیا گیا اور آسٹریلیا ایک بار پھر نمبر ون ٹیم بن گیا۔

    اگلے ماہ پاکستان نے سری لنکا میں افغانستان کو تین ایک روزہ میچوں میں وائٹ واش کر کے آئی سی سی رینکنگ میں پھر نمبر ون پوزیشن حاصل کی لیکن یہ اعزاز صرف دو ہفتے کا مہمان ثابت ہوا کیونکہ آسٹریلیا نے جنوبی افریقہ کو مسلسل دو ون ڈے میچز ہرا کر اپنی پہلی پوزیشن دوبارہ چھین لی لیکن قسمت ایک بار پھر مہربان ہوئی کہ جنوبی افریقہ نے آسٹریلیا کو ون ڈے سیریز کے آخری میچ میں شکست دے دی۔ یوں پاکستان ٹیم جو اپنی ناقص کارکردگی کے باعث تیسرے نمبر پر آ چکی تھی وہ چند روز بعد دوبارہ نمبر ون بن گئی لیکن ورلڈ کپ سے قبل نمبر ون پوزیشن کی یہ محبوبہ پاکستان کے دیرینہ رقیب بھارت کے پاس چلی گئی اور ہم نے اس سال کا اختتام چوتھی محبوبہ مطلب چوتھی پوزیشن پر کیا ہے۔

    ٹیم کی مجموعی کارکردگی کے برعکس کھلاڑیوں نے کئی انفرادی ریکارڈز اپنے نام کیے۔ سابق کپتان بابر اعظم نے کئی قومی اور بین الاقوامی ریکارڈ بنائے۔ آئی سی سی رینکنگ میں مسلسل ڈیڑھ سال سے زائد عرصے تک نمبر ون بیٹر رہنے کے بعد نومبر میں تنزلی کا شکار ہوکر دوسرے نمبر پر پہنچ گئے تھے تاہم سال جاتے جاتے انہیں واپس نمبر ایک پوزیشن واپس دلا کر جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ شاہین شاہ نے ٹیسٹ میں 100 وکٹوں کا سنگ میل عبور کیا۔ نوجوان بیٹر سعود شکیل نے ڈبل سنچری اسکور کر کے سری لنکن سر زمین پر ڈبل سنچری بنانے والے پہلے پاکستانی کرکٹر بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ کلین سوئپ کے ساتھ پاکستان کرکٹ ٹیم سری لنکن سر زمین پر سب سے کامیاب ٹیم بھی بنی گئی جس نے اب تک پانچ ٹیسٹ سیریز آئی لینڈرز کی سر زمین پر جیت لی ہیں جب کہ دنیا کی دیگر بڑی ٹیمیں اس حوالے سے قومی ٹیم کے پیچھے ہیں جس میں آسٹریلیا اور انگلینڈ چار چار، بھارت تین جب کہ جنوبی افریقہ دو سیریز جیتا ہے۔ پاکستان نے اسی سال 500 ون ڈے میچز جیتنے والی دنیا کی تیسری ٹیم بننے کا اعزاز بھی پایا۔

    ایشیا کپ کا میزبان پاکستان تھا لیکن بھارت نے کیا گُل کھلائے اور سازشوں سے کس طرح اس ایونٹ کو ہائی جیک کیا یہ بات پرانی ہو چکی اب تو بھارت کی نظریں 2025 میں پاکستان کو ملنے والی چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی سے محروم کرنے پر ہیں اور اس کے لیے بی سی سی آئی نے درپردہ سازشیں شروع بھی کر دی ہیں جب کہ انڈین میڈیا اس کو ہوا دے رہا ہے۔ اگر پی سی بی نے پہلے کی طرح روایتی تساہل پسندی کا مظاہرہ کیا تو یہ پاکستان کرکٹ کے حق میں برا فال ثابت ہو سکتی ہے۔

    پاکستان میں سیاسی تبدیلی کے ساتھ کرکٹ بورڈ میں تبدیلی روایت بن چکی ہے۔ 2023 شروع ہونے سے کچھ دن قبل ہی پی سی بی میں رمیز راجا کی جگہ نجم سیٹھی لے چکے تھے لیکن چند ماہ بعد اس کرسی پر ذکا اشرف آ گئے لیکن ان کی پوزیشن بھی مستحکم نہیں ہے فروری میں الیکشن کے نتیجے میں بننے والی نئی حکومت کے قیام کے بعد ان کی تبدلی کی افواہیں ابھی سے گونج رہی ہیں۔ دوسری جانب وطن ورلڈ کپ کے بعد قیادت سمیت پوری ٹیم منیجمنٹ ہی تبدیل ہو چکی ہے اب نتائج کیا تبدیل ہوتے ہیں اس کا انتظار ہے۔

    سال 2023 میں کئی کرکٹرز نے کرکٹ کے میدانوں کو بطور کھلاڑی خیرباد کہہ دیا فاسٹ بولرز سہیل تنویر، وہاب ریاض، سہیل خان، آل راؤنڈر عماد وسیم، بیٹر اسد شفیق نے مستعفی ہوکر انٹرنیشنل کرکٹ سے رخصتی لے لی۔ ان میں وہاب ریاض جو پنجاب کی نگراں حکومت میں مشیر کھیل بھی ہیں کو چیف سلیکٹر کا عہدہ مل چکا ہے۔ سہیل تنویر کو جونیئر کرکٹ میں ذمے داریاں مل گئیں اوراسد شفیق کو بھی ٹیم منیجمنٹ میں اہم عہدے کی پیشکش کی گئی ہے جب کہ عماد وسیم نے بورڈ کی جانب سے مسلسل نظر انداز کیے جانے کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ قومی ویمن کرکٹر ناہیدہ وسیم نے بھی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا۔

    اگر اس سال کرکٹ کے میدانوں سے کوئی حقیقی خوشی آئی تو وہ خواتین کرکٹرز کی مرہون منت رہی۔ دنیائے کرکٹ میں پاکستان مینز ٹیم تو معروف اور خطرناک سمجھی جاتی ہے لیکن ویمنز ٹیم اپنی سابقہ کارکردگی کی بدولت وہ مقام نہیں پا سکی جو مینز ٹیم کا ہے لیکن سال 2023 اس لیے یادگار رہا کہ پاکستانی خواتین نے اپنے سے دو بڑی ٹیموں کے خلاف سیریز جیت کر تاریخ رقم کی۔

    ویمنز ٹیم نے پہلے جنوبی افریقہ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز میں کلین سوئٹ کر کے تاریخ رقم کی تاہم ون ڈے سیریز میں قومی ٹیم کو پروٹیز کے خلاف دو ایک سے شکست ہوئی۔ سال کے آخر میں پاکستان ویمنز ٹیم نے نیوزی لینڈ جا کر کیویز کو ان کے ہی دیس میں ہرایا اور پہلی بار بیرون ملک کوئی سیریز جیتی۔ پاکستان ویمنز ٹیم نے نیوزی لینڈ کے خلاف تین میچوں پر مشتمل ٹی ٹوئنٹی سیریز میں دو ایک سے کامیابی حاصل کی جب کہ تین ایک روزہ میچوں کی سیریز کھیلی ہے۔ قومی خواتین ٹیم گو کہ کیویز سے ون ڈے سیریز دو ایک سے ہار گئیں لیکن مقابلے کانٹے کے ہوئے۔

  • بلاول بھٹو کی سیاسی انکلز سے فرمائش، ہدف کون ہے؟

    بلاول بھٹو کی سیاسی انکلز سے فرمائش، ہدف کون ہے؟

    پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پاکستان کی سیاست کا ایک متحرک اور نوجوان چہرہ ہیں جن کی شعلہ بیانی نے ملکی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے. پچھلے دنوں انہوں نے اپنے’سیاسی انکلز ‘ کو مخاطب کرکے میدانِ سیاست خالی کرنے کی فرمائش کردی جس کے بعد چہار جانب،بالخصوص ن لیگ اور پی پی کے درمیان شکوہ جواب شکوہ کی صورت حال پیدا ہوگئی۔

    بلاول بھٹو نے گزشتہ دنوں چترال میں پارٹی کے ورکرز کنونشن سے خطاب میں جو مطالبہ کیا اس کی توقع شایدکسی کو نہیں تھی۔ اس مطالبے سے ایسا لگا کہ ملکی سیاست میں ایک طوفان آ گیا ہو۔ 35 سالہ نوجوان سیاست دان نے کہا کہ بزرگ پرانی سیاست کر رہے ہیں بلکہ سیاست کے بجائے ذاتی دشمنی پر اتر آئے ہیں اور اس سیاست نے ملک تباہ کر دیا ہے۔ آج میں مطالبہ کر رہا ہوں کہ پرانے سیاست دان (انکلز) سیاست چھوڑ دیں اور یہ میرا ہی نہیں بلکہ ملک کے نوجوانوں کا مطالبہ ہے، جو پورے پاکستان کی آبادی کا 70 فیصد ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے سیاسی انکلز کو مشورہ دیا کہ وہ گھر بیٹھیں یا مدرسے میں بیٹھیں اور ہمیں کام کرنے دیں۔

    بلاول بھٹو کا اپنے سینئر سیاست دانوں کو انکل کہہ کر مخاطب کرنا کوئی نئی بات نہیں. جب انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا تھا تو سب سے پہلے بانی متحدہ اور بانی پی ٹی آئی کو چچا اور انکل کے لقب سے مخٌاطب کیا تھا. لیکن اب اپنے سینئر اور بزرگ سیاست دانوں کو یوں مخاطب کرنا اور سیاسی میدان چھوڑ دینے کا مطالبہ بلاول کے سیاسی سفر کو ایک نیا رخ دینے کی کوشش نظر آ رہا ہے۔ پی پی کے نوجوان چیئرمین کے اس مطالبہ کو کئی روز گزر چکے ہیں لیکن یہ اتنی بار دہرایا جاچکا ہے کہ اس کی دھول اب تک نہیں بیٹھی ہے. ایسا لگ رہا ہے کہ سیاسی اکھاڑے میں ایک دنگل نوجوان اور بزرگ سیاست دانوں کے درمیان بھی ہوسکتاہے۔ یہ محض اتفاق ہے کہ بلاول اس فرمائش کے بعد فرحت اللہ بابر نے پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے جنرل سیکریٹری کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا. تاہم بلاول نے جس راستے پر نظریں جمائی ہیں، وہاں ہنوز خاموشی ہے.

    یوں تو پی پی چیئرمین کے سیاسی انکلز کی تعداد خاصی ہے لیکن اس وقت تو سیاسی میدان میں تو صرف دو تین ہی نظر آ رہے ہیں۔ ایک سیاسی انکل بانی متحدہ تو کئی سالوں کی پابندی کی وجہ سے ملکی سیاست سے آؤٹ ہو چکے ہیں جب کہ بلاول کے ایک سیاسی چچا بانی پی ٹی آئی بھی اس وقت جیل میں ہیں۔ ان کی تصویر، حتیٰ کہ نام لکھنے اور لینے پر بھی پابندی ہے اور جس طرح کے حالات چل رہے ہیں تو لگتا ہے کہ کچھ دیدہ و نادیدہ قوتیں انہیں سیاست سے ہمیشہ کے لیے آؤٹ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ باقی میدان میں صرف سیاسی طور پر فعال صرف تین انکلز ہی رہ جاتے ہیں جن میں ایک نواز شریف، دوسرے ان کے بھائی شہباز شریف اور پھر پی ڈی ایم سربراہ فضل الرحمان اور ہاں ایک اور انتہائی زیرک سیاستدان آصف زرداری ہیں لیکن نشانہ کون ہوا یہ کوئی بہت مشکل سوال نہیں ہے۔

    بلاول نے پی ڈی ایم حکومت میں شہباز شریف کے زیر سایہ وزارت خارجہ کی ذمے داریاں نبھانے کے بعد جس طرح حکومت ختم ہوتے ہی یو ٹرن لیا اور ن لیگ کو ہی اپنے نشانے پر رکھ لیا اس سے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا نشانہ ن لیگ بالخصوص نواز شریف ہیں جن پر وہ تواتر کے ساتھ اسٹبلشمنٹ کی بیساکھیاں استعمال کرنے کے الزامات لگاتے ہوئے جوش دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ ووٹ کو عزت دلائیں بے عزتی نہ کریں اور اسٹبلشمنٹ و انتظامیہ کے سہارے تلاشنے کے بجائے اپنے منشور پر الیکشن لڑیں لیکن چیئرمین پی پی پی کو یہ بھی ملحوظ نظر رکھنا چاہیے کہ جتنی ان کی پوری عمر ہے اس سے کہیں زیادہ نواز شریف کا سیاسی تجربہ ہے۔

    ان کی اس فرمائش پر سب سے پہلے تو مولانا فضل الرحمان ہی بول پڑے اور کہہ دیا کہ بلاول نے یہ بیان اپنے والد کے لیے دیا ہے۔ گو کہ نواز شریف اور شہباز شریف نے اس فرمائش پر براہ راست تو کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن ن لیگ کی سیکنڈ لائن قیادت نے ترکی بہ ترکی اس کا جواب دے ڈالا جس کے بعد پی پی کی جانب سے یہ بیان آنا کہ ’آصف زرداری موجودہ سینیئر سیاستدانوں میں سب سے کم عمر ہیں‘ تو پتہ چلا کہ عمر کا مقابلہ صرف خواتین نہیں بلکہ سیاست کے میدان میں مرد حضرات کے درمیان بھی ہو سکتا ہے۔بلاول کی اس فرمائش پر نوجوان ان کے ہم خیال ہو سکتے ہیں اور مخالف سیاسی جماعتوں کے سیاستدان اس کے مخالف ہو سکتے ہیں لیکن اب پی پی چیئرمین کیا کریں گے کہ سب سے بڑی مخالفت تو خود ان کے گھر سے ہی اٹھی ہے۔

    ایک مشہور شعرہے کہ دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی…. کچھ ایسا ہی بلاول بھٹو کے ساتھ ہو ا۔ باہر سے مخالفت ہوئی سو ہوئی اور اس کا جواب بھی پارٹی کے دوسرے بابوں نے دے دیا، لیکن جب خود ان کے والد ہی بیٹے کی سیاسی سوچ کے مخالف ہو گئے، تو پھر کس جیالے رہنما کی ہمت تھی کہ بلاول کی حمایت میں کچھ بولتا۔

    بلاول کے بیان کےبعد آصف زرداری نے اپنے بیٹے کو نا تجربہ کار کہتے ہوئے کہا کہ بلاول کا بزرگوں کو گھر بیٹھ کر آرام کرنے کا مشورہ بالکل غلط ہے، انہوں نے روایتی والد کی طرح کہا کہ آج کی نسل سمجھتی ہے والدین کو کچھ نہیں آتا بلکہ سب کچھ ان کو ہی آتا ہے۔ سابق صدر نے یہ بھی کہا کہ بلاول سیاست کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں ان کی تربیت جاری ہے۔ اگر آصف زرداری کی اس بات سے اتفاق کر لیا جائے تو پھر یہ سوال تو اٹھانا واجب ہو جاتا ہے کہ جب بلاول نا تجربہ کار ہے اور سیاست کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں ہوئے تو پھر پیپلز پارٹی نے انہیں اگلے وزیراعظم کے لیے کیوں نامزد کیا ہے اور پہلے سے مختلف مسائل میں گھرے ملک کو کیوں ناتجربہ کاری کی بھینٹ چڑھانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔

    دوسری جانب زرداری کے اس بیان کے بعد پی پی میں اختلافات اور باپ بیٹوں کی سوچ اور رائے میں تضاد کی خبریں گرم ہونے لگیں پھر جتنے منہ اتنی ہی باتیں بھی کی جانے لگیں کسی نے دونوں کے اچانک دبئی جانے کو اسی اختلافات کو ختم کرانے کا بہانہ قرار دیا اور کہا کہ زرداری نے بختاور بھٹو کو دونوں میں صلح کرانے کے لیے بیچ میں ڈالا ہے، خیر اب تو وہ واپس بھی آچکے ہیں اور شاید ایک پیج پر بھی آ گئے ہیں لیکن اب دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوتا ہے کیا بلاول اپنے مطالبے سے پیچھے ہٹتے ہیں یا زرداری اپنے اکلوتے صاحبزادے کی سوچ کے قائل ہو جاتے ہیں۔

    ایک بات اور اگر بزرگ سیاستدان اپنے سیاسی بھتیجے کی فرمائش پر سیاسی میدان چھوڑ دیتے ہیں تو پھر فارغ وقت میں وہ کیا کریں گے۔ اس کا گرچہ بلاول بھٹو نے اپنے فرمائشی بیان کے ساتھ ہی حل بھی بتا دیا تھا کہ وہ گھر میں بیٹھیں یا پھر مدرسے میں۔ اب مدرسے میں ایک سیاسی انکل تو بیٹھ سکتے ہیں باقی گھر بیٹھ کر مشورہ ڈاٹ کام پر کوئی کنسلٹنٹسی کمپنی بنا لیں کہ نوجوان بھلے کتنے ہی آگے بڑھ جائیں انہیں ہر میدان میں بزرگوں کے مشوروں کی ضرورت رہتی ہے. وہ کہتے ہیں نا کہ سو سنار کی اور ایک لوہار کی تو بزرگ لوہار کی ضرب کا کردار ادا کر کے باہر بیٹھ کر نوجوانوں کی رہنمائی کر سکتے ہیں۔

  • ورلڈ کپ 2023: ویزا اور پچ تنازع کے ساتھ  بھارتی ٹیم کا جال

    ورلڈ کپ 2023: ویزا اور پچ تنازع کے ساتھ بھارتی ٹیم کا جال

    کرکٹ کا عالمی میلہ آئی سی سی ون ڈے ورلڈ کپ کا 13 واں ایڈیشن بھارت میں ڈیڑھ ماہ تک جاری رہنے کے بعد آسٹریلیا کو چھٹی بار حکمرانی کا تاج پہنانے کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ فائنل میچ میں حیران کُن طور پر ٹورنامنٹ میں تمام مخالف ٹیموں کو روند کر نا قابل شکست رہنے والی میزبان ٹیم بھارت کو شکست ہوئی۔ اس نتیجے نے بڑے مقابلے سے پہلے جہاں کرکٹ ماہرین کے دعوؤں، تجزیوں کی نفی کر دی وہیں بھارت کا تیسری بار ورلڈ کپ کی ٹرافی اٹھانے کا خواب بھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔

    عالمی کپ کا آغاز گزشتہ ماہ 5 اکتوبر سے ہوا جو اپنے آغاز سے پہلے سے ہی کئی تنازعات میں گھر گیا تھا جب کہ ایونٹ کے دوران دیگر کئی تنازعات نے بھی اس کو اپنی لپیٹ میں لے کر میگا ایونٹ کی رنگینی کو گہنانے کی کوشش کی۔ بات کریں تنازعات کی تو ورلڈ کپ شروع ہونے سے قبل پاکستانی ٹیم کو ویزے میں تاخیر اور پھر پاکستانی شائقین اور صحافیوں کو ویزوں کی عدم فراہمی کے معاملے نے بھارت کے پاکستان مخالف اقدامات کو آئی سی سی کے سامنے ایک بار پھر آشکار کر دیا لیکن کرکٹ کی عالمی کونسل حسب معمول اس معاملے پر اپنا کردار ادا نہ کر سکی۔

    ورلڈ کپ میں شریک 10 ٹیموں میں سے بھارت میں 9 ٹیموں کے سپورٹرز اپنی اپنی ٹیموں کی حوصلہ افزائی کے لیے موجود رہے، جب کہ بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث گرین شرٹس اس سپورٹ سے محروم رہی۔ بالخصوص ہندو انتہا پسندی کے حوالے سے مشہور احمد آباد کے نریندر مودی اسٹیڈیم میں ہونے والے پاک بھارت ٹاکرے میں ایک لاکھ 30 ہزار شائقین کے مجمع میں صرف میدان میں موجود 11 پاکستانی کھلاڑی ہی گرین شرٹس میں نظر آئے جب کہ باقی اسٹیڈیم نیلے رنگ کی جرسیوں کا ٹھاٹھیں مارتے سمندر کا نظارہ پیش کر رہا تھا۔ اس میچ میں پاکستانی کھلاڑیوں کی ناقص پرفارمنس میں ایک عنصر مخالف ٹیم کے سوا لاکھ سپورٹرز کے متعصبانہ نعرے اور رویے کا دباؤ بھی تھا کہ دو فتوحات سے ٹورنامنٹ کا آغاز کرنے والی پاکستان ٹیم بھارت سے اس میدان میں شکست کھا کر ایسی گری کہ پھر سنبھل نہ سکی اور بالآخر اسے خالی ہاتھ وطن واپس لوٹنا پڑا۔

    بھارت نے ورلڈ کپ میں اپنی مہم کا آغاز اور اختتام آسٹریلیا کے ساتھ ہی کیا۔ چنئی میں اپنے افتتاحی میچ میں میزبان ٹیم نے کینگروز کو آسان ہدف بنانے کے بعد سامنے آنے والی ہر ٹیم کو تر نوالہ سمجھا۔ پھر چاہے سامنے جنوبی افریقہ آیا یا نیوزی لینڈ، پاکستان آیا یا سری لنکا، بنگلہ دیش، افغانستان، نیدر لینڈ یا پھر دفاعی چیمپئن انگلینڈ۔ بھارت نے سب کے ساتھ یکساں برتاؤ روا رکھا اور تمام ٹیموں کو روندتے ہوئے فائنل فور میں ناقابل شکست ٹیم کے طور پر جگہ بنائی۔

    آسٹریلیا نے میگا ایونٹ میں اپنی ابتدا دو شکستوں کے ساتھ کی۔ بھارت کے بعد جنوبی افریقہ سے ہارنے کے بعد 5 بار کی سابق عالمی چیمپئن ٹیم اور اس کے قائد پیٹ کمنز کی قائدانہ صلاحیتوں کے بارے میں تجزیے اور تبصرے ہونے لگے، لیکن مشکل سے مشکل صورتحال میں بھی ہار نہ ماننے اور گر کر اٹھنے اور پھر فتح یاب ہونے کے ہنر سے آگاہ کینگروز سری لنکا کے خلاف فتح یاب ہو کر جیت کا جو سفر شروع کیا تو فائنل تک پیچھے مڑ کر نہ دیکھا اور فائنل میں بھارت کو شکست دے کر ابتدائی شکست کا حساب کتاب بھی چکتا کر دیا۔

    ورلڈ کپ کے پورے ایونٹ میں بھارتی سر زمین پر جہاں دیگر ملکوں کے بولرز کو مخالف بیٹرز کو آؤٹ کرنے میں جہاں قدرے مشکلات پیش آئیں وہاں بلیو شرٹس کے فاسٹ بولرز ہوں یا اسپنر یا میڈیم پیسر سب کے سب ہی کامیاب رہے جس پر ہمارے ایک سابق ٹیسٹ کرکٹر نے ایک نجی ٹی وی شو میں یہ مضحکہ خیز دعویٰ کر ڈالا کہ بھارتی بولرز کو میچ میں خاص گیند دی جاتی ہے اس لیے وہ کامیاب رہتے ہیں تاہم اس مفروضے کو سنجیدہ خیال کرکٹ طبقے نے اہمیت نہ دی یوں یہ بات تو آئی گئی ہوگئی۔ تاہم بھارت اور نیوزی لینڈ کے سیمی فائنل کے موقع پر برطانوی میڈیا کے اس انکشاف نے ہلچل مچا دی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ بھارت نے اپنا اثر ورسوخ استعمال کرتے ہوئے سیمی فائنل کی پچ کو تبدیل کرایا اور اپنے مفاد میں سلو پچ پر میچ کھیلا جس میں وہ کیویز کو 70 رنز سے شکست دے کر فائنل میں پہنچ گئی۔

    دنیائے کرکٹ میں ابھی پچ تنازع کی گونج تھی کہ بھارتی کپتان کے اپنے میچوں میں ٹاس کا سکہ قدرے دور پھینکنے کا ایک اور شور اٹھا جس نے بھی معاملات کو مشکوک بنایا لیکن اس حوالے سے بی سی سی آئی اور آئی سی سی تاحال خاموش ہیں۔

    تاہم ان سب میں پچ تنازع اتنی سنگین صورتحال اختیار کر گیا کہ خود انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کو میدان میں آنا پڑ گیا اور اس نے کہا کہ میزبان ٹیم کا حق ہوتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کی پچ استعمال کر سکے۔ آئی سی سی کی یہ وضاحت اپنی جگہ مگر پچ تنازع کے بعد جس طرح فائنل میں بھارت کے شیر کینگروز کے آگے گھر میں ہی ڈھیر ہوگئے اس نے اس تنازع کی چنگاری کو بھڑکا دیا اور اب خود سابق بھارتی کھلاڑی، کمنٹیٹرز اور اسپورٹس صحافی اپنے مفاد کے لیے پچ کا سہارا لینے والی بھارتی ٹیم کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

    میڈیا میں آنے والی رپورٹس کے مطابق بھارت نے اپنے اسپنرز کے ذریعے کینگروز کو قابو کرنے کے لیے پچ خشک رکھنے کا فیصلہ کیا لیکن حریف کپتان پیٹ کمنز بھارتیوں کی سوچ سے کہیں زیادہ سیانے نکلے کسی اور نے پچ تبدیلی تنازع پر کان دھرے یا نہ دھرے لیکن پیٹ کمنز نے اس کو لگتا ہے اتنی سنجیدگی سے لیا کہ فائنل میچ سے ایک روز قبل پچ معائنے کے دوران اپنے موبائل فون کے ذریعے پچ کی تصویریں لے لیں اور پھر ٹاس ہوا تو بیٹنگ کے بجائے فیلڈنگ کا دلیرانہ فیصلہ کرکے سب کو حیران اور بھارت کو خود اس کے بچھائے گئے شکنجے میں کس دیا۔

    سابق بھارتی کھلاڑی اور موجودہ کمنٹیٹر آکاش چوپڑا نے تو فائنل کے نتیجے کے بعد واضح کہہ دیا کہ ہم نے کھیل کے لیے غلط پچ کا انتخاب کیا اور بھارتی ٹیم آسٹریلیا کے لیے بچھائے گئے پچ کے جال میں خود پھنس گئی۔ سابق آسٹریلوی کپتان رکی پونٹنگ، انگلش کپتان مائیکل وان اور ناصرحسین نے بھی پچ کی تیاری پر تنقید کی اور کہا کہ بھارت کی چال خود ان پر ہی الٹ گئی۔

    پچ تنازع پر ان ماہرین کی رائے کی روشنی میں اگر پورے ٹورنامنٹ پر نظر ڈالی جائے تو یہ صورتحال بھارت کے میگا ایونٹ میں فائنل سے قبل تک ناقابل شکست رہنے کے اعزاز کو مشکوک بناتی ہے اور اس کی شاندار کامیابیوں کو بھی گہنا دیا ہے، کیونکہ بلیو شرٹس نے اس ورلڈ کپ میں جب بھی پہلے بیٹنگ کی وہاں رنز کے پہاڑ کھڑے کر دیے لیکن کینگروز کے سامنے بھارتی شیروں کا یوں بھیگی بلی بن جانا کسی کو آسانی سے ہضم نہیں ہو رہا ہے یہی وجہ ہے اب ورلڈ کپ کے بعد اس میچ کا ہر پہلو سے پوسٹ مارٹم کیا جا رہا ہے

    کسی بھی ملک میں کھیل کا کوئی بھی ایونٹ ہو، اس ملک کے شہریوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی ٹیم فاتح بنے اور بھارت تو ورلڈ کپ میں نا قابل شکست چلا آ رہا تھا، جس کے باعث بلیو شرٹس کھلاڑیوں کا اعتماد اور شائقین کرکٹ کی امیدیں آسمان کو چھو رہی تھیں، لیکن جب نتیجہ امیدوں کے برعکس آیا تو ڈیڑھ ماہ تک ہنستے مسکراتے کھلاڑیوں کو دنیا بھر کے شائقین کرکٹ نے نم آنکھوں اور بجھے دل کے ساتھ گراؤنڈ سے باہر نکلتے دیکھا۔

    کھیل کوئی بھی ہو اس میں ایک ٹیم جیتتی اور دوسری ہارتی ہے۔ کھیلوں سے محبت کرنے والے ہار کو بھی حوصلے سے برداشت کرتے ہیں لیکن بھارتی شائقین نے اس ہار کے بعد اپنی روایات کو دہراتے ہوئے جو غیرمہذبانہ طریقہ اختیار کیا وہ ان کے خود کو کرکٹ سے محبت کرنے والی قوم قرار دینے کے دعوے کے برعکس ہے کیونکہ اسپورٹس سے محبت کرنے والے تعصب نہیں کرتے بلکہ اچھا کھیلنے والوں کو داد دیتے ہیں اور شکست کو حوصلے سے برداشت کرتے ہیں تاہم بھارت کی ہار کے بعد دیکھا جا رہا ہے پورا انڈیا سوگ میں ایسا ڈوبا ہے کہ کرکٹ فینز غم کی حالت میں اپنے ہوش و‌ حواس ہی گنوا بیٹھے ہیں اسی لیے تو اخلاقیات کی تمام حدیں پار کرتے اور پست ذہنیت کی انتہا کرتے ہوئے آسٹریلوی کھلاڑیوں پر گالیوں کی بوچھاڑ اور ان کی فیمیلز کے خلاف اخلاق باختہ الفاظ اور دھمکیاں دے رہے ہیں۔

    یہ رویہ اپناتے ہوئے بھارتی شائقین اپنی ٹیم کی بڑی فتوحات یاد کریں کہ 1983 ورلڈ کپ فائنل میں ویسٹ انڈیز، 2007 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ فائنل میں پاکستان، 2011 کے ون ڈے ورلڈ کپ میں سری لنکا کو ہرایا تو کیا مخالف ملکوں کے عوام نے بھارتیوں کو برا بھلا کیا تھا یا مہذب قوم کی طرح بہترین رویے کا مظاہرہ کرکے بھارت کی جیت کو کھلے دل سے تسلیم کیا تھا۔

  • ورلڈ کپ کے بعد پاکستان کرکٹ میں اکھاڑ پچھاڑ، نئے چہروں سے سجی پُرانی کہانی

    ورلڈ کپ کے بعد پاکستان کرکٹ میں اکھاڑ پچھاڑ، نئے چہروں سے سجی پُرانی کہانی

    ورلڈ کپ کی 48 سالہ تاریخ اور کرکٹ کے میدان میں پاکستانی ٹیم کی بدترین کارکردگی کے بعد ٹیم میں بڑی تبدیلیوں کی افواہوں کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا، وہ اب حقیقت بن چکی ہیں اور صرف ٹیم کا قائد ہی نہیں بلکہ پوری ٹیم منیجمنٹ کی کایا پلٹ دی گئی ہے۔ لیکن جو تبدیلی آئی ہے وہ نئی نہیں بلکہ پرانی کہانی کو نئے چہروں سے سجایا گیا ہے، اب دیکھنا ہے کہ یہ نئے چہرے کیا ایسا نیا کرتے ہیں کہ جس سے دم توڑتی کرکٹ کو نئی زندگی مل سکے۔

    کچھ عرصہ قبل تک پڑوسی ملک کا ایک ٹی وی سوپ ’’کہانی گھر گھر کی‘‘ کا بہت شہرہ تھا جو سازشوں، کھینچا تانی، بغض، نفرت، حسد اور دُہرے روپ کے چاٹ مسالہ کے ساتھ بالخصوص خواتین کا من پسند تھا، لگتا ہے کہ پاکستان کرکٹ بھی کچھ اسی کی مثل ہو چلی ہے جہاں ’’کہانی ہر ورلڈ کپ کی‘‘ کی صورت میں ایسے ہی ‘لوازمات’ سے بھرپور ڈراما اسٹیج کر کے کرکٹ کے کرتا دھرتا چند چہروں کو ادھر سے اُدھر سرکاتے ہیں اور اپنے آرٹیفیشل اقدامات پر واہ واہ سمیٹ کر کرسی کو مضبوط کرتے ہیں۔

    15 نومبر کا دن پاکستانی کرکٹ کا ہنگامہ خیز دن تھا، جب پی سی بی ہیڈ کوارٹر افواہوں اور خبروں کا مرکز رہا کئی اہم ملاقاتیں ہوئیں، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بابر اعظم تینوں فارمیٹ کی قیادت سے خود دستبردار ہو گئے۔ شان مسعود ٹیسٹ اور شاہین شاہ ٹی 20 کے لیے ٹیم کے کپتان بنا دیے گئے۔ مکی آرتھر جنہیں گزشتہ پی سی بی منیجمنٹ ان کی شرائط پر لائی اور ان کے لیے ٹیم ڈائریکٹر کا عہدہ تخلیق کیا گیا لیکن پی سی بی نے جب ورلڈ کپ میں ناقص کارکردگی پر پورے کوچنگ اسٹاف کو ہی تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تو ٹیم ڈائریکٹر کی کرسی پر محمد حفیظ کو براجمان کر دیا گیا یہ وہی حفیظ ہیں جن کی گزارشات کو اسی پی سی بی انتظامیہ نے ورلڈ کپ سے قبل درخور اعتنا نہ سمجھا جس کی وجہ سے وہ ٹیکنیکل کمیٹی چھوڑ گئے تھے۔ بولنگ کوچ مورنی مورکل کا پی سی بی کو قبل از وقت چھوڑ جانا تو پرانی بات ہو چکی ان کی جگہ اب عمر گل کا نام لیا جا رہا ہے۔ پی سی بی نے چند روز قبل توصیف احمد کی قیادت میں بنائی گئی اپنی ہی عبوری سلیکشن کمیٹی کو ختم کر دیا اور جلد نئی سلیکشن کمیٹی بنانے کی نوید بھی سنا دی۔

    یہ سب تبدیلیاں پاکستان کرکٹ سے لگاؤ رکھنے والوں کے لیے نئی نہیں ہیں۔ یہ کہانی 1996 کے ورلڈ کپ سے شروع ہوئی ہے جو چہروں کی تبدیلی اور اسکرپٹ کے معمولی ردو بدل کے ساتھ مسلسل دہرائی جا رہی ہے لیکن ہر چار سال بعد تبدیلی کتنی سود مند ثابت ہوتی ہے اس کا اندازہ تو اس بات سے ہی ہو جانا چاہیے ہم ہر چار سال بعد پرانی پوزیشن پرکھڑے ہوتے ہیں اور پھر نئی تبدیلیوں کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔

    1996 سے 2023 تک کرکٹ معاملات اور ہر ورلڈ کپ میں شکست کے بعد اکھاڑ پچھاڑ پر نظر ڈالیں تو وسیم اکرم، وقار یونس، انضمام الحق، شاہد آفریدی، مصباح الحق، سرفراز احمد اور اب بابر اعظم کو قیادت سے ہاتھ دھونے پڑے۔ درجنوں کھلاڑیوں کے کیریئر پر فل اسٹاپ لگ گیا یا لگا دیا گیا جن میں سعید انور بھی شامل ہیں جنہیں 2003 کے ورلڈ کپ کے بعد جب باہر کیا گیا تو ان کی آخری اننگ روایتی حریف بھارت کے خلاف سنچری سے سجی ہوئی تھی۔ اس دوران کرپشن الزامات پر کمیشن بنے، کچھ کو سزائیں کچھ کو صرف سرزنش کی گئی لیکن جتنے تواتر کے ساتھ کرکٹرز کا احتساب کیا گیا اتنے تواتر کے ساتھ بورڈ عہدیداروں پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا۔

    سوال تو یہ ہے کہ گزشتہ 27 سال سے ہر ورلڈ کپ کے بعد مستقبل مزاجی سے دہرائی جانے والی اس کہانی سے اب تک کیا مثبت نتائج ملے ہیں۔ اگر غور کریں تو اس سارے قضیہ میں ہمیشہ بورڈ انتظامیہ معصوم بنی رہتی ہے اور سارا نزلہ میدان میں موجود کھلاڑیوں اور ٹیم منیجمنٹ پر گرایا گیا، جب کہ اس عرصے میں کچھ فتوحات ملیں تو اس کا کریڈٹ پورا پورا بورڈ حکام نے لیا۔

    ہماری سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ ہم پینک (خوف و ہراس) بٹن جلد دبا دیتے ہیں اور صورتحال کو اتنا پرخطر بنا کر پیش کرتے ہیں کہ پھر تبدیلیوں کا عوامی شور اٹھتا ہے جس کی گرد میں بعض اوقات اصل ذمے دار چھپ جاتے ہیں۔

    یہ درست کہ ہماری ٹیم کی کارکردگی انتہائی خراب رہی جس کے لیے کسی وضاحت کی ضرورت نہیں، لیکن اسی ورلڈ کپ کو دیکھیں دفاعی چیمپئن انگلینڈ کی کارکردگی ہماری ٹیم سے بھی زیادہ خراب تھی تاہم وہاں کسی نے خوف وہراس نہیں پھیلایا۔ 2007 میں صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ بھارت بھی شرمناک انداز میں پہلے ہی راؤنڈ میں بنگلہ دیش سے ہارنے کے بعد ورلڈ کپ سے باہر ہوا لیکن وہاں قیامت نہیں آئی اور نہ ہی اکھاڑ پچھاڑ ہوئی۔ دھونی پر اعتماد برقرار رکھا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ بھارتی تاریخ کا کامیاب ترین کپتان بن گیا اور بھارت کو ٹی ٹوئنٹی کے ساتھ ون ڈے کا عالمی چیمپئن بھی بنوایا۔ جب 2003 میں جنوبی افریقہ کے پولاک سے قیادت لی گئی تو 22 سالہ گریم اسمتھ کو کپتان بنایا گیا جو مسلسل 11 سال تک کپتان رہے۔ اس دوران جنوبی افریقہ نے دو ون ڈے ورلڈ کپ اور 4 ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کھیلے لیکن ایک بھی نہ جیت سکے لیکن کسی نے ٹی وی پر بیٹھ کر اسمتھ یا پوری ٹیم کو باہر کرنے کے مطالبے نہیں کیے۔ ایسی کئی مثالیں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ جیسی بڑی کرکٹ ٹیموں سے بھی جڑی ہیں۔

    بات یہ ہے کہ جن ممالک کا ذکر کیا گیا وہاں کرکٹ کو سیاست سے علیحدہ رکھا گیا اور اس کی ترقی کے لیے ایک مستقل اور مربوط پالیسی مرتب کی گئی جس پر ہر دور میں من وعن عمل کیا لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں دیگر شعبوں کی طرح کرکٹ میں بھی سیاست پوری طرح متحرک ہے۔ دیگر ممالک خاص طور پر آسٹریلیا اور انگلینڈ کے حکمران بھی کرکٹ میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن وہ کرکٹ کے معاملات پر اثر انداز نہیں ہوتے جب کہ ہمارے یہاں تو حکومت تبدیل ہوتے ہیں بورڈ میں چہرے تبدیل ہوتے ہیں اور پھر جس طرح ملکی پالیسیوں پر یوٹرن لیا جاتا ہے اسی طرح کرکٹ کے معاملات بھی من مانے انداز میں صرف اس سوچ کے تحت چلائے جاتے ہیں کہ چاہے کچھ بھی ہو ہماری کرسی مضبوط اور محفوظ رہے اور اس کے لیے کرکٹ کے کھیل سے کھیل کھیلا جاتا ہے۔

    کرکٹ میں سیاسی مداخلت کا شاخسانہ سری لنکا کرکٹ کو بہت مہنگا پڑا ہے اور آئی سی سی نے حال ہی میں لنکا کرکٹ کی رکنیت معطل کر دی ہے۔ یہ پاکستان کرکٹ کے لیے ایک الارمنگ صورتحال بھی ہو سکتی ہے کیونکہ ہمیں ایسے حریف بھارت کا سامنا ہے جو کرکٹ کے میدان میں پاکستان کو نیچا دکھانے کے لیے کوئی بھی ہتھکنڈا استعمال کرنے سے باز نہیں آتا، جب کہ آئی سی سی جو بھارتی خوشنودی کے لیے بعض اوقات انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے بجائے انڈین کرکٹ کونسل کا کردار ادا کرتا دکھائی دیتا ہے، ان کا گٹھ جوڑ مستقبل میں پاکستان کرکٹ کے لیے نئی مشکل لا سکتا ہے۔

    پاکستان کرکٹ کرتا دھرتاؤں کو خواب غفلت اور ذاتی مفادات سے نکل کر ہوش مندی سے صرف اور صرف کی کرکٹ کی فلاح وبہبود کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ کرکٹ سیاست نہیں ایک کھیل ہے اور اس کو کھلاڑی ہی اچھے طریقے سے چلا سکتے ہیں۔ ہمیں میرا چیئرمین تیرا چیئرمین کی پالیسی سے نکلنا ہوگا اس لیے کرکٹ میں اصلاح احوال کے لیے بڑوں سے یہی گزارش ہے کہ کرکٹ کو کھیل سمجھیں اس کے ساتھ کھیل نہ کھیلیں اور جینٹلمین گیم کے لیے جینٹل مین فیصلے کریں کہ اگر روش نہ بدلی تو پھر ’’تمہاری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔‘‘

  • ورلڈ کپ:  بہت بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے

    ورلڈ کپ: بہت بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے

    بھارت میں جاری آئی سی سی ون ڈے ورلڈ کپ اپنے حتمی مرحلے میں داخل ہوگیا دنیائے کرکٹ کی چار بڑی ٹیمیں ٹرافی اٹھانے کی خواہش لیے سیمی فائنل میں پہنچ گئیں اور پاکستان سمیت 6 ٹیمیں اپنی ناقص کارکردگی کے باعث اپنی اپنی قوموں کی امیدوں کو پانی میں بہا کر فائنل فور کھیلے بغیر ہی خالی ہاتھ وطن واپس لوٹ آئیں جس میں حیران کن طور پر دفاعی چیمپئن انگلینڈ بھی شامل ہے۔

    اس بار کرکٹ کا عالمی چیمپئن کون بنتا ہے کیا آسٹریلیا چھٹی بار ٹرافی اٹھاتا ہے یا میزبان بھارت چیمپئن بننے کی ہیٹ ٹرک مکمل کرتا ہے۔ نیوزی لینڈ کے ورلڈ کپ چیمپئن بننے کا دیرینہ خواب پورا ہوتا ہے یا پھر جنوبی افریقہ خود پر لگا چوکر کا لیبل ہٹا کر کرکٹ کے نئے حکمران کے طور پر سامنے آتا ہے اس کا فیصلہ چند دن میں ہو جائے گا لیکن ہم یہاں ورلڈ کپ میں فیورٹ کے طور پر شریک ہونے والی ٹیم پاکستان کی شرمناک کارکردگی پر نظر ڈالیں تو سوائے مایوسی کے کچھ نظر نہیں آتا۔

    پاکستان وہ ٹیم تھی جو ورلڈ نمبر ون ٹیم اور ورلڈ نمبر ون بیٹر (بابر اعظم) اور دنیا کے خطرناک ترین بالنگ اٹیک کا ہوّا لے کر میگا ایونٹ میں شریک ہوئی تھی لیکن جس تیزی سے اس غبارے سے ہوا نکلی اس نے پوری پاکستان کرکٹ کو تماشا بنا کر رکھ دیا پورے ایونٹ میں سوائے ایک دو میچز کے کہیں پاکستانی ٹیم کے اپنے دعوؤں کی عکاسی کرتی ورلڈ کپ جیتنے کی اپروچ نظر نہیں آئی۔ شاید اس کی وجہ یہ رہی کہ دیگر ٹیموں نے ماڈرن کرکٹ کھیلی جب کہ ہماری ٹیم وہی 80 اور 90 کی دہائی کی فرسودہ کرکٹ میں پھنسی رہی جہاں 250 اور اس سے زائد رنز کو بڑا کارنامہ سمجھا جاتا تھا۔

    پاکستان کا آغاز تو فاتحانہ رہا نیدر لینڈ اور سری لنکا کے خلاف فتوحات سے لیکن پھر انڈیا کے خلاف 191 پر جو پوری ٹیم ڈھیر ہوئی اس نے حوصلے اتنے پست کیے کہ اس کے بعد آسٹریلیا اور افغانستان کے خلاف شرمناک طریقے سے ہار گئی جب کہ جنوبی افریقہ سے جیتا ہوا میچ بھی ہاتھ سے گیا۔ میگا ایونٹ میں اکثر میچز میں پاکستان کی بولنگ نہیں چلی جب بولنگ چلی تو بیٹنگ جواب دے گئی جنوبی افریقہ کے خلاف تو امپائر کا ایک غلط فیصلہ ہی پاکستان کو لے ڈوبا۔ درحقیقت پاکستان کا ورلڈ کپ تو اسی وقت ختم ہوگیا تھا جب افغانستان کے خلاف نا قابل یقین اور شرمناک شکست ہوئی تھی جس پر جنوبی افریقہ کے خلاف جیتی ہوئی بازی ہار کر قومی ٹیم نے مہر ثبت کر دی تھی۔ لیکن پھر برسوں سے قائم روایت چلی اور اگر مگر کا سلسلہ چل نکلا کہ اگر یہ ٹیم جیت گئی وہ ٹیم ہار گئی تو پاکستان اس طریقے سے سیمی فائنل میں پہنچ جائے گا لیکن نیوزی لینڈ کی سری لنکا کے خلاف بڑی فتح نے یہ اگر مگر کی کہانی کو بھی بریک لگایا اور جب انگلینڈ ٹاس جیت گیا تو پاکستان حتمی طور پر ورلڈ کپ سے باہر ہوگئی اور پہلی بار کسی میگا ایونٹ میں پانچ میچوں میں شکستوں کا داغ اپنے دامن پر لگوا لیا۔ اس غیر معیاری کارکردگی پر قومی ٹیم ورلڈ کپ کے مسلسل تیسرے ایڈیشن میں بھی سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے میں ناکام رہی۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by ICC (@icc)

    ورلڈ کپ میں جانے سے قبل بڑی بڑی باتیں کرنے والے بولرز بری طرح ناکام رہے اور ان کے دعووں کی قلعی کھل گئی جب کہ عالمی نمبر ایک ٹیم اور عالمی نمبر ایک بیٹر بھی صرف یہ ٹیگ ہی لگائے رکھے کارکردگی اس کے برعکس رہی جس نے یہ اعزازات بھی ان سے چھین لیے۔ ورلڈ کپ میں شاہین شاہ نے 18 اور حارث رؤف نے 16 وکٹیں ضرور حاصل کیں لیکن اس کے لیے رنز کی گنگا بہا دی۔ حارث رؤف نے 9 میچز میں 16 وکٹیں ضرور حاصل کیں لیکن اس کے لیے 533 رنز دے کر کسی بھی میگا ایونٹ میں سب سے زیادہ رنز دینے کا منفی ریکارڈ اپنے نام کر گئے وہ سب سے زیادہ چھکے کھانے والے بولر بھی رہے جنہیں 16 چھکے پڑے۔ اسپنرز نے حریف بیٹرز کی چاندی کروا دی، سری لنکا کے بعد ورلڈ کپ کی دوسری بدترین پرفارمنس رہی جو صرف 12 وکٹیں ہی لے سکے۔ بد ترین بولنگ پرفارمنس ورلڈ کپ کی 48 سالہ تاریخ میں پاکستان کا سب سے زیادہ رنز کھانے والا بولنگ یونٹ بن گیا۔

    یہ وہ ایونٹ رہا جس میں سابقہ تمام ورلڈ کپ ٹورنامنٹس کے ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں۔ پہلی مرتبہ دو بار ایک اننگ میں 400 سے زائد رنز اسکور کیا گیا جس میں ایک بار جنوبی افریقہ نے سری لنکا کے خلاف 428 رنز جب کہ دوسری بار نیوزی لینڈ نے پاکستان کے خلاف 401 رنز بنائے۔ 20 بار ٹیموں نے 300 پلس کا ہدف دیا لیکن ہماری ٹیم صرف دو بار ہی 300 سے اوپر جا سکی۔ اس ایونٹ میں جہاں آسٹریلیا اور انڈیا نے مخالف ٹیموں کے خلاف 309 اور 302 کے بڑے مارجن سے فتوحات حاصل کرکے اپنے رن ریٹ کو بڑھایا وہیں ہماری سب سے بڑی فتح 81 رنز سے رہی جو سب سے کمزور ٹیم نیدر لینڈ کے خلاف تھی۔ پاکستان کے ابتدائی میچ میں اس گراؤنڈ میں جہاں 300 اور 350 سے زائد رنز اور کمزور حریف کو ایک بڑے مارجن سے ہرانا تھا وہاں کپتان کا ٹاس جیت کر 280 رنز اسکور بہت قرار دینا ان کی سوچ کی عکاسی کرتا تھا اور یہی سوچ شاید پاکستان کو لے ڈوبی۔

    ورلڈ کپ میں کئی ٹیموں اور کھلاڑیوں نے ریکارڈ بنائے مگر بدقسمتی سے پاکستان کے پاس سوائے ایک دو کے تمام ریکارڈ منفی ہی ہاتھ آئے جو مثبت ریکارڈ بنے وہ سری لنکا کے خلاف 345 رنز کا ہدف عبور کرنا جو ورلڈ کپ کی 48 سالہ تاریخ میں پہلی بار ہوا دوسرا فخر زمان کا ایک اننگ میں سب سے زیادہ 11 چھکے لگانا اس کے علاوہ حارث رؤف کا ایونٹ کا سب سے مہنگا بولر، سب سے زیادہ چھکے کھانے والے بولر، بولرز کا بھاری اکانومی ریٹس جیسے کئی ریکارڈز دامن کا داغ بن گئے۔

    عالمی کپ کے 13 ویں ایڈیشن میں جہاں دیگر ٹیموں کے کھلاڑیوں نے تن تنہا کئی کئی سنچریاں اسکور کیں کوئنٹن ڈی کاک (4)، روہت شرما (3) سنچریاں بنا گئے وہاں ہماری پوری ٹیم کی جانب سے صرف تین سنچریاں ہی سامنے آئیں جب کہ ہمارے عالمی نمبر ون بیٹر (جو اپنی ناقص کارکردگی کے باعث نمبر ون نہیں رہے) بابر اعظم تو ایک بھی سنچری نہیں بنا سکے۔ میگا ایونٹ کے ٹاپ بلے بازوں میں ورلڈ کپ میں دور دور تک ہمارے کسی بیٹر کا نام نہیں اور پہلا نام محمد رضوان کا ہے جو بارھویں نمبر پر ہے جب کہ کپتان تو اس سے کہیں نیچے 21 ویں نمبر پر ہیں۔

    دیگر ٹیموں اور پاکستانی ٹیم کی کرکٹنگ سوچ اور انداز دیکھنا ہے تو بیٹنگ ایوریج اور اسٹرائیک ریٹ اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ورلڈ کپ میں جہاں دیگر ٹیموں نے ماڈرن کرکٹ کھیلی اور ون ڈے کو ٹی ٹوئنٹی بنا دیا ویرات کوہلی کی بیٹنگ ایوریج 109.20 رہی۔ نیوزی لینڈ کے کپتان ولیمسن نے تین میچز کھیلے مگر بیٹنگ ایوریج 93.50 اور میکسویل کی 79.4 رہی اس میں ہمارے پاس صرف فخر زمان کا نام آتا ہے جو تین میچوں میں 73.33 کی اوسط سے رنز بنانے میں کامیاب رہے جب کہ پاکستان کی بیٹنگ میں ستون کہلانے والے رضوان 65.83 اور کپتان بابر اعظم 40 کی اوسط سے ہی رنز بنا سکے۔ اسٹرائیک ریٹ جہاں دنیا کے دیگر بلے بازوں نے 100 سے بلند ہی رکھا جیسا کہ میکسویل 152، ٹریوس ہیڈ 144، کلاسن ساوتھ 144، مچل سینٹنر نیوزی 132 کے ساتھ سر فہرست۔ وہاں صرف پاکستان کے فخر زمان ہی 122 کے ساتھ قابل قدر دسویں نمبر پر نظر آئے جب کہ بابر اور رضوان کا اسٹرائیک ریٹ 82 اور 95 رہا جو خود سوالیہ نشان ہے۔

    پاکستان ٹیم نے ورلڈ کپ میں 34 کی اوسط سے رنز بنائے اور اسٹرئیک ریٹ میں بھی ٹاپ ٹیموں سے پیچھے رہی۔ پاکستان ٹیم کی بیٹنگ لائن کے استحکام کا تو یہ حال رہا کہ قومی ٹیم کھیلے گئے 9 میچز میں سے 5 میچز میں تو پورے 50 اوورز بھی نہ کھیل سکی اور نیدر لینڈ کے بولرز بھی ہماری پوری ٹیم کو 49 ویں اوور میں پویلین بھیجنے میں کامیاب رہے۔

    دنیا کی بہترین ٹیموں کا رن ریٹ پلس میں ہے جب کہ پاکستان کا آسٹریلیا سے شکست کے بعد جو رن ریٹ منفی ہوا تھا اس کو منفی میں ہی رکھا۔ کئی بار مواقع آئے رن ریٹ کو مثبت کرنے کے مگر پاکستان نے ان کو گنوا دیا۔ اگر افغانستان آسٹریلیا کو شکست دے دیتا یا آخری میچ میں جنوبی افریقہ سے کم مارجن پر ہارتا تو شاید پاکستان کی پوائنٹس ٹیبل پر پانچویں پوزیشن بھی نہ ہوتی اور وہ افغانستان سے نیچے چلی جاتی۔

    کسی بھی مہم کو سر کرنے کے لیے جوش وجذبے کے ساتھ اخلاص کے ساتھ ہدف پر نظر ہوتی ہے لیکن جہاں ملکی مفاد سے زیادہ اقربا پروری، رشتے داریاں اور دوستیاں نبھائی جانی لگیں تو پھر وہاں یہی حال ہوتا ہے جو ورلڈ کپ میں پاکستان ٹیم کا ہوا۔ حارث رؤف ناکام ہوئے لیکن ایک میچ میں بھی باہر نہیں بٹھایا گیا جب کہ فخر زمان کو ان فٹ قرار دے کر چار میچوں میں باہر کر کے قومی ٹیم کو نا قابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔ شاداب خان مسلسل ناکام رہے جب ان فٹ ہوئے تو پاکستان کے پاس ریزرو سے ابرار احمد کو لینے کا نادر موقع تھا لیکن شاید یہاں بھی کسی کی ممکنہ کامیابی سے دوستی کا چراغ گل ہونے کا خدشہ یہ فیصلہ نہ کرا سکا۔

    چیئرمین پی سی بی کا میگا ایونٹ کے دوران متنازع انٹرویو سے شروع ہونے والا ٹیم کی تنزلی کا سفر ورلڈ کپ سے خالی ہاتھ واپسی پر ختم تو ہو چکا لیکن دنیا ختم نہیں ہوئی۔ پاکستان کو آنے والے دنوں میں بڑی کرکٹ کھیلنی ہے جس میں آئندہ سال ہونے والا ٹی 20 ورلڈ کپ بھی ہے۔ اب وقت ہے کہ پاکستان کرکٹ کے بڑوں کو قومی کرکٹ کو درست سمت دینے کے لیے سنجیدگی سے سوچے اور سابقہ ناکامیوں کے بعد قلیل المدتی اور ایڈھاک بنیادوں پر آرٹیفیشل فیصلے کرنے کے بجائے ایسے طویل المدتی فیصلے کرنے چاہئیں جس سے پاکستان کرکٹ کو نئی جہت مل سکے اور وہ فتوحات پر دوبارہ گامزن ہوکر دنیائے کرکٹ میں ٹاپ کرکٹنگ ممالک کا کھویا ہوا اعزاز دوبارہ حاصل کر سکے کیونکہ یہ ملک میں واحد کھیل ہے جو پوری قوم کو متحد کر دیتا ہے اگر اس کی بہتری اور ترقی کے لیے موثر اور بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو خدشہ ہے کہ کہیں اس کا حشر بھی قومی کھیل ہاکی اور اسکواش کی طرح نہ ہو جائے جس کا کبھی پوری دنیا میں طوطی بولتا تھا۔

  • حالیہ اسکینڈل نے پاکستان کرکٹ کو ایک بار پھر دنیا میں مذاق بنا دیا ہے

    حالیہ اسکینڈل نے پاکستان کرکٹ کو ایک بار پھر دنیا میں مذاق بنا دیا ہے

    بھارت میں جاری ورلڈ کپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم اپنی ناقص پرفارمنس اور مسلسل ناکامیوں کے باعث پہلے ہی تنقید کی زد میں تھی۔ ٹیم میں اختلافات، چیف سلیکٹر اور ٹیم ڈائریکٹر میں اختیارات کی جنگ کی خبریں بھی گردش کر رہی تھیں۔ ایسے میں پلیئرز ایجنٹ جس کو ’’مفادات کے ٹکراؤ‘‘ کا بھی نام دیا جا رہا ہے جیسے اسکینڈل پر دنیائے کرکٹ نے اپنی نظریں قومی کھلاڑیوں کی پرفارمنس سے ہٹا کر پی سی بی کے اندرونی معاملات اور نجی سرگرمیوں پر گاڑ دیں، جو 1999 کے بعد پاکستان کرکٹ میں ایک نیا بڑا سنگین بحران بن کر ابھر سکتا ہے۔

    آئی سی سی ون ڈے ورلڈ کپ میں پاکستان ٹیم فیورٹ ٹیم کے طور پر شریک ہوئی تھی۔ ابتدا میں وارم اپ میچز ہارنے کے باوجود نیدر لینڈ اور پھر سری لنکا کے خلاف ورلڈ کپ کی تاریخ کا سب سے بڑا ہدف 345 عبور کر کے قوم کی امیدوں کو مزید بڑھایا بھی، مگر پھر اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ روایتی حریف بھارت کے خلاف میچ میں شکست کسی کو برداشت نہیں ہوتی، لیکن یہ کڑوا گھونٹ قوم خود کو یہ بہلاوا دے کر نگل سکتی ہے کہ ورلڈ کپ میں پاکستان کبھی بھارت سے نہیں جیتا لیکن آسٹریلیا کے بعد افغانستان سے شرمناک شکست کے بعد قومی ٹیم کے پاس کیا جواز ہے جب کہ جنوبی افریقہ سے جیتا میچ بھی ہار گئے، یوں گرین شرٹس اب میگا ایونٹ میں اپنے سفر کے اختتام کے دہانے پر کھڑی ہے۔ اسے ماضی کے ہر بڑے ایونٹ کی طرح اگر مگر کی صورتحال کا سامنا ہے کہ اپنے تینوں میچز جیتنے کے ساتھ دیگر ٹیموں کے میچز کے نتائج پر بھی انحصار کرنا ہوگا۔

    خیر یہ تو میگا ایونٹ میں پاکستان کی اب تک کی کارکردگی کا مختصر سا خلاصہ تھا۔ مگر اس بدترین کارکردگی نے جہاں ناقدین کو تنقید کی توپیں کھولنے کا موقع دیا، وہیں وہ ماہرین اور شائقین جو ورلڈ کپ سے قبل ٹیم سے امیدیں لگائے بیٹھے اور اس کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہے تھے، وہ بھی ٹیم کی اس حیران کن مگر شرمناک کارکردگی پر انگشت بدنداں ہو کر کھری کھری سنانے لگے۔

    ورلڈ کپ کسی بھی کھیل کا سب سے بڑا ایونٹ ہوتا ہے جس میں کھیلنا اور کارکردگی دکھانا ہر کھلاڑی کا خواب ہوتا ہے، تاہم بابر الیون نے اس ایونٹ میں اب تک حالیہ برسوں میں اپنی بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا جس سے اس کا مورال پہلے ہی گرا ہوا تھا۔ ٹیم کے کھلاڑیوں کے اندر باہمی اختلافات کے ساتھ ٹیم منیجمنٹ میں چپقلش کی خبریں بھی سامنے آنے لگی تھیں، جو ایسی شکستوں کے بعد پاکستان کرکٹ میں معمول کی باتیں ہیں لیکن حالیہ دو تین روز میں ابھرنے والے معاملات جو اب اسکینڈل کا روپ دھار چکے ہیں، اس نے پاکستان کرکٹ کو ایک بار پھر دنیا میں مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔

    پہلے پاکستان کرکٹ بورڈ نے ٹیم کی مسلسل شکستوں کے بعد ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں کہا گیا کہ ٹیم کپتان بابر اعظم کی مرضی سے منتخب کی گئی۔ اس موقع پر پریس ریلیز کو سابق کھلاڑیوں نے بھی غیر ضروری اور بے موقع قرار دیا۔ ابھی اس کی دھول بیٹھی بھی نہ تھی کہ ’’پلیئرز ایجنٹ کمپنی‘‘ اسکینڈل سامنے آ گیا جس میں چیف سلیکٹر انضمام الحق، کپتان بابر اعظم، محمد رضوان کا نام لیا جانے لگا۔ اس کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کی منیجمنٹ کمیٹی کے سربراہ ذکا اشرف کی انٹرویو میں عین ورلڈ کپ کے درمیان ٹیم کے اندرونی معاملات پر گفتگو اور تحقیقاتی کمیٹی کے قیام کے ساتھ بابر اعظم کی چیٹ لیک کرنے نے اس تنازع کو ہوا دی، جب کہ انضمام الحق کا استعفیٰ بھی تنازع کا ایک نیا در وا کر گیا گو کہ انہوں نے اس کو تحقیقات سے جوڑا ہے۔

    اس سارے کھیل تماشے کا آغاز سابق کپتان راشد لطیف کے اس بیان سے ہوا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ بورڈ حکام نے ورلڈ کپ میں پے در پے ناکامیوں کے بعد کپتان بابر اعظم کو تنہا چھوڑ دیا ہے اور بورڈ چیف ان کی کال تک نہیں سن رہے جس کے بعد ذکا اشرف نے بابر اعظم کی اس حوالے ایک چیٹ لیک کر دی جو سراسر غیر اخلاقی طرز عمل ہے جس پر شائقین کرکٹ سمیت سابق کھلاڑی بھی بورڈ کو لعن طعن کر رہے ہیں۔

    صرف اتنا ہی نہیں بلکہ پانچ ماہ سے زیر التوا کھلاڑیوں کے سالانہ کانٹریکٹ کے معاملے کو پی سی بی کے عقل مندوں نے عین ورلڈ کپ کے درمیان اٹھا دیا اور نہ جانے کیا ایمرجنسی ہوئی کہ متعلقہ حکام دستاویزات کا پلندا لے کر بھارت کھلاڑیوں سے کانٹریکٹ سائن کرانے پہنچ گئے جس نے ایک نیا پنڈورا کھول دیا۔ جب معاہدہ پانچ ماہ پہلے ہی تاخیر کا شکار تھا تو اگر دو تین ہفتے (ورلڈ کپ ختم ہونے میں اتنا ہی وقت رہ گیا ہے) مزید تاخیر ہو جاتی تو کیا قیامت آ جاتی کیا کہ ایسے ملک (بھارت) میں جو ہمیشہ پاکستان کو سیاسی ہو یا کھیل ہر شعبے میں نیچا دکھانے کی تاک میں رہتا ہے اور ہماری قومی ٹیم جو مسلسل شکستوں سے پہلے ہی دل برداشتہ ہو، وہاں یہ مذاق بنوانا خود بورڈ حکام کے رویے پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان ٹیم ڈو اور ڈائی والی پوزیشن میں ہے تو اس سارے اسکینڈل میں پہلے ہی دباؤ کا شکار کھلاڑی کیسے اچھا پرفارم کر سکتے ہیں یہ کسی نے نہیں سوچا سب کو اپنی سیٹ بچانے کی فکر ہے مگر پاکستان کے وقار کی کسی کو پروا نہیں۔

    ورلڈ کپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی ناقص کارکردگی، ٹیم میں اختلافات، انضمام اور مکی آرتھر میں اختیارات کی جنگ جیسی خبروں کے بعد میگا ایونٹ کے درمیان ہی پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف کا یوں اپنے ایک انٹرویو میں حساس اور ٹیم کے اندرونی معاملات پر بیان سے لگتا ہے کہ بورڈ سے معاملات سنبھل نہیں رہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ورلڈ کپ مکمل ہونے کے بعد ٹیم کی واپسی پر اس کی کارکردگی پر ہر ذمے دار کا محاسبہ اور سزا وجزا کا عمل روا رکھا جاتا لیکن محسوس ہوتا ہے کہ بورڈ حکام ورلڈ کپ میں ٹیم کی ناقص پرفارمنس کا پھندا ڈالنے کے لیے پتلی گردن تلاش کر رہی ہے جس میں یہ پھندا فٹ آ سکے اور باقی سب کو بری الذمہ قرار دے کر چین کی بانسری بجا سکیں۔

    پی سی بی کے چیف پہلے ہی کہہ چکے ہیں ابھی ٹیم کے جو بھی معاملات ہیں وہ سابق انتظامیہ (نجم سیٹھی دور) کے ہیں، ہم ورلڈ کپ کے بعد بعد میں فیصلے کریں گے اور ذمے داری لیں گے اگر یہ درست مان لیا جائے تو سوال یہ کیا جائے گا کہ پھر تین ماہ تک آپ نے ان کے غلط فیصلوں کو کیوں جوں کا توں رکھا؟ کیا آپ کو اس لیے لایا گیا تھا کہ خاموش تماشائی بنے پاکستان کرکٹ کی بربادی کا تماشہ دیکھتے رہیں؟

    اس سارے منظر نامے میں قومی ٹیم کے ایک سینیئر کھلاڑی کا یہ دعویٰ جو اس نے ایک بھارتی کرکٹ ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا جس میں انہوں نے کہا کہ ہم جو نتائج چاہتے تھے وہ نہیں ملے مگر ہم پوری محنت کررہے ہیں۔ ایسے وقت میں جب بورڈ کو ہمیں سپورٹ کرنا چاہیے ایسے وقت میں وہ ہمارے لیے مزید مشکلات کھڑی کررہے ہیں۔ پی سی بی کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز غیرضروری تھی۔ ہمیشہ کپتان اور سلیکٹرز ہی ٹیم منتخب کرتے ہیں تو اس میں نئی بات کیا ہے، ہم یہاں ورلڈ کپ کھیلنے آئے ہیں اور یہاں ہمارے پیچھے سیاست ہو رہی ہے تو ہم کیسے لڑیں گے کس سے لڑیں گے۔ بورڈ ہمیں اپنے اس اقدام سے انڈر پریشر لا رہا ہے تاکہ ہماری کاکردگی خراب ہو اور بورڈ اپنی من مانی کرسکے۔

    موجودہ حالات اور پاکستان کرکٹ کے ماضی کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ ورلڈ کپ کے بعد ایک بڑا بحران سر اٹھانے والا ہے جیسا کہ 1999 کے ورلڈ کپ کے بعد پاکستان کرکٹ میں آیا تھا اس بحران میں کون کون بہہ جائے گا اور کون اپنی جگہ برقرار رکھ سکے گا اس بارے میں پیشگی کچھ بھی کہنا ناممکن ہے۔ پی سی بی کی 5 رکنی کمیٹی نے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے لیکن اس سے قبل بھی کئی اسکینڈلز آئے، تحقیقات ہوئیں، سفارشارت اور تجاویز دی گئیں اس پر کتنا عملدرآمد ہوا یہ سب پر عیاں ہے ویسے بھی یہاں من پسند کو مکھن سے بال کی طرح نکالنے کا فن سب جانتے ہیں اور حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ پاکستان کرکٹ کے معاملات بہت خراب ہوچکے ہیں۔