Tag:

  • نواز شریف کی واپسی، ’’سنگین بیماری سے صحت یابی تک‘‘ حیران کرتی داستان

    نواز شریف کی واپسی، ’’سنگین بیماری سے صحت یابی تک‘‘ حیران کرتی داستان

    لیجیے، تھا جس کا انتظار وہ ’’شیر‘‘ آ گیا۔ مطلب یہ کہ شیر کے انتخابی نشان والی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن کے قائد اور تین بار پاکستان کے وزیراعظم رہنے والے نواز شریف نے چار سال کے طویل انتظار کے بعد عوام کو اپنی وطن واپسی کی حتمی تاریخ دے دی ہے۔ وہ 21 اکتوبر بروز ہفتہ سر زمین پاکستان پر قدم رنجہ فرمائیں گے۔

    نواز شریف صرف مسلم لیگ ن کے تاحیات قائد ہی نہیں بلکہ تین بار پاکستان کے وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں اور یہ اعزاز آج تک کسی اور سیاست دان کے حصے میں نہیں آیا، لیکن اقتدار وہ نشہ ہے کہ جسے اس کی لت لگ جائے تو پھر وہ اس میں ہی مست رہنا چاہتا ہے۔ اسی لیے اب وہ چوتھی بار پھر وزارت عظمیٰ کی کرسی پر متمکن ہونے کی خواہش لیے لندن سے ’’اپنے‘‘ دیس واپس آ رہے ہیں تاکہ ان کے تین ادوار میں جو کسر رہ گئی تھی یعنی پاکستان کو ترقی یافتہ اور ایشین ٹائیگر بنانے کی اسے پورا کیا جا سکے۔

    سابق وزیراعظم کی وطن واپسی کے لیے خصوصی طیارہ بھی بُک کر لیا گیا ہے جس کے ذریعے وہ پہلے اسلام آباد لینڈ کریں گے اور وہاں کچھ دیر قیام کے بعد لاہور کے لیے روانہ ہوں گے جہاں سے مینار پاکستان جائیں گے اور جلسہ عام سے خطاب کریں گے۔ نواز شریف وطن واپسی سے 10 روز قبل سعودی عرب پہنچے جہاں انہوں نے عمرے کی سعادت حاص کرنے کے بعد جدہ میں اہم ملکی اور غیر ملکی شخصیات سےملاقاتیں بھی کی ہیں جس کی تفصیلات سامنے نہیں آسکی ہیں۔

    چوتھی بار وزیراعظم بننے کا سپنا تعبیر پاتا ہے یا نہیں یہ تو آنے والے الیکشن (جن پر تاحال شکوک کے بادل چھائے ہوئے ہیں) کے نتائج ہی بتا سکیں گے لیکن حالات دیکھتے ہوئے تو لگتا ہے کہ ن لیگ جو لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ کرتی آ رہی تھی وہ مل چکی ہے بلکہ کچھ زیادہ ہی فیلڈ سیٹ کر دی گئی ہے کہ آؤٹ ہونے کا گمان نہ رہے۔ ایسے ایسے کھلاڑی فیلڈ میں سیٹ کیے گئے ہیں جو لوز شاٹ پر آسان ترین کیچ چھوڑنے کا فن بخوبی جانتے ہیں یوں یقینی آؤٹ ہو کر بھی منظور نظر ناٹ آؤٹ رہ کر اپنی اننگ جاری رکھ سکیں گے۔ لیول پلیئنگ فیلڈ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نواز شریف کی لندن سے روانگی کے وقت پاکستانی ہائی کمشنر ڈاکٹر محمد فیصل نے ان سے ملاقات کی جب کہ وہ اس وقت بھی عدالت سے سزا یافتہ مفرور مجرم ہیں جب کہ گزشتہ ماہ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے دورہ امریکا کے دوران ’’خوامخواہ‘‘ کے دورہ برطانیہ میں ایسے ہوٹل میں قیام جہاں نواز شریف کے قریبی ساتھی بھی مقیم تھے کچھ اور ہی اشارے دے رہے ہیں۔

    نواز شریف خوش قسمت ہونے کے ساتھ ہی ایسا نصیب بھی رکھتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں دو تہائی اکثریت لینے کے باوجود وہ ایک بار بھی اپنی 5 سالہ مدت وزارت عظمیٰ مکمل نہیں کرسکے ہیں۔ 2013 کے الیکشن میں اقتدار میں آنے کے بعد ایک عدالتی فیصلے پر وہ سزائے قید کے ساتھ تاحیات نا اہل بھی قرار پائے جو تاحال برقرار ہے اگرچہ چھوٹے بھائی شہباز شریف اپنے 16 ماہ کے اقتدار میں نیب ترامیم کے ذریعے انہیں بڑا ریلیف دے کر چلے گئے تھے لیکن سابق چیف جسٹس جاتے جاتے نیب ترامیم کالعدم قرار دے کر صرف نواز شریف ہی نہیں بلکہ دیگر کئی سیاستدانوں کے سر پر دوبارہ تلوار لٹکا گئے ہیں۔

    یہ سب اپنی جگہ لیکن یہ بات بھی روز طلوع ہوتے سورج کی طرح حقیقت ہے کہ اس وقت نواز شریف عدالت سے سزا یافتہ اور نااہل سیاستدان ہیں جو اپنے ہی دور اقتدار میں وزارت عظمیٰ سے ہٹائے گئے اور پھر عمران خان کے دور حکومت میں اتنا بیمار ہوئے اور پلیٹیلیٹس اس حد تک گر گئے اور اس کا اتنا شور وغوغا ہوا کہ یہ کہا جانے لگا کہ خدانخواستہ یہاں رہ کر میاں نواز شریف کو کچھ بھی ہو سکتا ہے حد تو یہ کہ عدالت اس وقت کی حکومت سے ان کی زندگی کی ضمانت مانگنے لگی جس کے بعد انہیں عدالتی حکم پر باقاعدہ اہتمام کے ساتھ بغرض علاج صرف 8 ہفتوں کے لیے لندن بھیجنا پڑا وہ بھی ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کی جانب سے 50 روپے کے اسٹامپ پیپر پر۔ مقررہ مدت پر واپس نہ آنے پر عدالت انہیں مفرور قرار دے چکی ہے۔

    نواز شریف جب ’’انتہائی تشویشناک حالت‘‘ میں 19 نومبر 2019 کو عدالت کی منظوری سے لندن بذریعہ ایئر ایمبولینس روانہ ہوئے اور ان کو لینے کے لیے قطر ایئر ویز کی جدید ترین سہولتوں سے آراستہ وہ ایئر ایمبولینس آئی جو نہ صرف براہ راست لندن تک پرواز کرسکتی بلکہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت بر وقت آپریشن کی سہولت بھی موجود تھی۔لندن روانگی کے وقت ان کی میڈیا میں آنے والی تصاویر کو دیکھ کر سب کو ہی ان کی صحت کی حالت کے حوالے سے تشویش ہوئی لیکن چند گھنٹوں کے بعد جس طرح وہ ہشاش بشاش لندن کی سر زمین پر اترے تو چند گھنٹے قبل تک پریشان ہونے والے سب ہی حیران رہ گئے کہ یہ کیسی بیماری ہے جو لندن کی سر زمین پر قدم رکھتے ہی اڑن چھو ہوگئی۔ تشویشناک بیماری کے باعث جان کے تحفظ کے لیے بغرض علاج لگ بھگ چار سالہ لندن میں قیام کے دوران میڈیا میں ان کے لندن سمیت یورپی ممالک میں سیر سپاٹوں، خوش گپیوں اور سیاسی میٹنگوں کی خبریں تو آئیں لیکن شاید ہی کسی اسپتال میں ان کے داخلے کی خبر کبھی بھی میڈیا کی زینت بن سکی ہو نہ جانے ایسا کیوں ہوا؟

    8 ہفتوں کے لیے لندن جانے والے ن لیگ کے قائد کی واپسی کے لیے قوم منتظر ہی رہی کہ وہ کب پاکستان آتے ہیں لیکن نواز شریف کو پاکستان آنے کے بجائے پاکستانی قوم نے اٹلی، لندن، سعودی عرب، دبئی اور پھر یورپی ممالک آتے جاتے کافی، چائے اور ڈنر کے مزے لیتے دیکھا۔ ان مواقع پر جب بھی نواز شریف کی وطن واپسی کی بات کی جاتی تو ن لیگ کی قیادت یک زبان ہوکر کہتی کہ وہ علاج کے لیے گئے ہیں مکمل ہوتے ہی وہ فوری وطن واپس آ جائیں گے۔ جس پر مخالفین کے ساتھ خود پارٹی ورکرز بھی یہ سوچنے پر مجبور ہونے لگے کہ آخر یہ کیسی انوکھی بیماری اور پلیٹیلیٹس ہیں جو یورپ، برطانیہ، سعودی عرب اور دبئی کے سیر سپاٹوں سے نہیں روکتے ہیں لیکن جہاز کا رخ پاکستان کی جانب ہونے سے کیوں پلیٹیلیٹس گرنے لگتے ہیں؟

    اب جب کہ نواز شریف وطن واپس آ رہے ہیں تو پاکستانی عوام کا کیا ردعمل ہوگا یہ دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ ہماری سیاسی روایت کے مطابق جب بھی کوئی سیاسی لیڈر خود ساختہ جلاوطنی یا پھر کسی بھی وجہ سے بیرون ملک طویل قیام کے بعد وطن واپس آتا ہے تو اس کے پرتپاک استقبال کے لیے پارٹی ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتی ہے لیکن حیرت انگیز طور پر نواز شریف کا استقبال منسوخ کر دیا گیا جس کا پارٹی رہنماؤں نے ٹریفک بلاک، عوام پریشان، مریض ایمبولینسوں میں پھنسیں گے اور شادیوں کا سیزن ہے اس لیے باراتیں لیٹ ہوں گی جیسے مضحکہ خیز اور بودے جواز بنا کر عوام اور مخالفین کو خود پر ہنسنے کا موقع فراہم کیا پھر آمد سے قبل لاہور میں شیڈول کارنر میٹنگز بھی منسوخ کر دیں۔ سیاسی مبصرین ن لیگ کے فیصلوں کو عوام کا عمومی رویہ دیکھ کر شرم سے بچنے کا ایک جواز قرار دے رہے ہیں کیونکہ گزشتہ سال مریم نواز کئی ماہ بعد وطن واپسی پر لوگ جمع نہیں کر سکی تھیں جب کہ حال ہی شاہدرہ میں ہونے والی کارنر میٹنگ کا احوال اور سابق وزیراعظم شہباز شریف کی لاہور میں اپنے حلقے میں عوام سے عزت افزائی جیسے تواتر سے ہونے والے واقعات ن لیگ کی عوامی مقبولیت کا بھانڈا پھوڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ن لیگ جو اپنے کارکنوں کو بریانی کھلانے کے حوالے سے مشہور تھی اب پہلے مینار پاکستان جلسے میں پہنچنے والوں کو موٹر سائیکل اور پھر دال نہ گلنے پر مذہب کارڈ کھیلتے ہوئے جنت کے ٹکٹ دینے کے اعلانات کرنے لگی ہے۔

    وطن واپسی سے 15 دن قبل نواز شریف کی نئی میڈیکل رپورٹ سامنے آئی ہے جس برطانیہ کے رائل برومپٹن اسپتال کے کنسلٹنٹ پروفیسر کارلو ڈی ماریو نے جاری کی ہے، برطانوی معالج کی رپورٹ لاہور ہائیکورٹ میں جمع کرا دی گئی ہے۔ جس میں کہا ہے کہ نواز شریف کو اب بھی دل کا عارضہ ہے اور دیگر امراض کی وجہ سے پاکستان و لندن میں مسلسل فالو اپ کی ضرورت ہے۔

    اس میڈیکل رپورٹ کے مطابق 2022 میں نواز شریف کی انجیو پلاسٹی کی گئی اور ان کے دل میں اسٹنٹ بھی ڈالے گئے۔ سابق وزیراعظم کے ساتھ گزشتہ سال یہ سب کچھ ہوا تو پھر یہ خبر قومی اور بین الاقوامی میڈیا خبر میڈیا کی زینت کیوں نہ بن سکی جب کہ 2022 میں تو وہ اٹلی کے سیر سپاٹے کرتے پائے گئے۔ اس سے قبل پی ٹی آئی کے دور حکومت کے آخری ایام میں ڈاکٹروں کی جانب سے نواز شریف کی صحت سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کرائی گئی تھی جس میں انہیں ٹاکا سوبو سینڈروم نامی بیماری کا شکار بتایا گیا تھا جو دل ٹوٹنے کی بیماری ہے۔ اس سے قبل تو پاکستانی دل ٹوٹنے کو پیار میں ناکامی کا سبب سمجھتے تھے مگر اس رپورٹ نے یہ آشکار کیا کہ یہ بھی کوئی بیماری ہے۔

    نواز شریف کی وطن واپسی سے قبل دو اہم واقعات بتاتے ہیں کہ شاید ان کا چوتھی بار وزیر اعظم بننے کا خواب اتنا آسان نہ ہو کیونکہ ان کی وطن واپسی کے اعلان کے ساتھ ہی نیب ترمیمی آرڈیننس سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا جس سے نواز شریف پر کیسز کی تلوار پھر لٹک گئی ہے جب کہ گزشتہ ہفتے الیکشن ایکٹ ٹرمیمی سیشن 232 کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے جس میں تاحیات نا اہلی کو 5 سال کرنے کی ترمیم کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی ہے جو سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار سابق وزیراعظم کی وطن واپسی سے قبل ان کے سر پر لٹکتی تلوار بھی قرار دے رہے ہیں۔ دوسری جانب ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنسز میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے نیب کے عدم اعتراض پر قائد ن لیگ کی حفاظتی ضمانت 24 اکتوبر تک منظور کرتے ہوئے انہیں ایئرپورٹ پر گرفتار کرنے سے روکنے کے احکامات جاری کیے ہیں جب کہ احتساب عدالت نے بھی توشہ خانہ کیس میں ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری 24 اکتوبر تک مععطل کر دیے ہیں۔

    نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد ملکی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کیونکہ پاکستان میں سیاست جیسے اور جن سہاروں پر کی جاتی ہے وہاں بازی بنتے بنتے پلٹتے بھی دیر نہیں لگتی اور کبھی تو حالات یہ اس شعر کی عکاسی کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ’’ مجھے اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا، میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی کم تھا‘‘، نواز شریف کو وطن واپسی پر سب سے زیادہ جس بات پر عوامی غیظ وغضب کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے تو وہ ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کی 16 ماہ کی حکومت میں ریکارڈ توڑ مہنگائی ہے جس نے غریب تو غریب متوسط طبقے کو بھی غربت کی لکیر کے نیچے پہنچا دیا۔ کاروبار تباہ اور بیروزگاری کے ساتھ کمر توڑ مہنگائی معاشرتی زندگی الجھا کئی المیوں کو جنم دینا شروع کر دیا ہے۔ سو آپ اور ہم انتظار کرتے ہیں کہ آئندہ آنے والے ایام سیاست میں کیا گُل کھلاتے ہیں کیا عوام نئے پر فریب نعروں میں الجھتے ہیں یا اپنی حالت زار کا الیکشن میں ذمے داروں سے بدلہ چُکتا کرتے ہیں۔

  • ورلڈ کپ :  پاکستان کی بھارت سے ’’ہار کی روایت‘‘ برقرار، مگر ایسا  کب تک؟

    ورلڈ کپ : پاکستان کی بھارت سے ’’ہار کی روایت‘‘ برقرار، مگر ایسا کب تک؟

    سارے دعوے، خوشیاں اور قوم کے جشن منانے کے انتظامات حسبِ سابق دھرے کے دھرے رہ گئے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم نے ورلڈ کپ میں روایتی حریف بھارت سے ہارنے کی روایت برقرار رکھی مگر اس بار اس روایت کو بڑے شرمناک انداز میں دہرایا ہے۔

    احمد آباد کے نریندر مودی کرکٹ اسٹیڈیم میں جب اوپنرز کی ناکامی کے بعد کپتان بابر اعظم اور سری لنکا کے خلاف میچ کے ہیرو محمد رضوان نے پاکستان کی بیٹنگ کو سنبھالا دیا جب 155 رنز پر دو وکٹیں گری ہوئی تھیں کہ ایسے میں کپتان اپنی نصف سنچری مکمل کرتے ہی جیسے آؤٹ ہوکر پویلین لوٹے تو ایسا لگا کہ پاکستان کی ٹاپ کلاس بیٹنگ لائن خزاں رسیدہ پتوں کی طرح جھڑنے لگی اور جو ٹیم 2 وکٹوں کے نقصان پر 155 رنز بنا چکی تھی اگلی 8 وکٹیں صرف 36 رنز پر گنوا کر بھارت کو میچ ٹرے میں سجا کر پیش کر دیا جو میگا ایونٹ میں بھارت کی پاکستان کے خلاف مسلسل 8 ویں فتح ہے۔

    جس طرح ہمارے بلے باز آؤٹ ہوئے تو ایک موقع پر ایسا لگا کہ جیسے آف دی فیلڈ ہماری ٹیم کے کھلاڑی اپنے کپتان بابر اعظم سے اظہار یکجہتی کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح میدان بدر ہونے کے بعد قائد سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے خود بھی میدان سے واپس جاتے رہے جس کو دیکھ کر 90 کی دہائی کی معروف بھارتی فلم کا مشہور زمانہ نغمہ تھوڑی تبدیلی کے ساتھ ’’تو چل میں آیا‘‘ فوری طور پر ذہن میں آیا۔

    اس ہار کے ساتھ ہی پاکستان ٹیم کی ابتدائی دو جیت بھی دھندلا گئیں اور پھر ٹیم میں دوستوں کی بھرتی کی باتیں بھی ہونے لگیں اور کیوں نہ ہوں جب مسلسل کئی ماہ سے فلاپ نائب کپتان شاداب خان، محمد نواز اور امام الحق کو مسلسل مواقع دیے جائیں گے تو سوالات تو اٹھیں گے ہی نا۔

    اسپن آل راؤنڈر شاداب اور نواز دونوں ایشیا کپ میں فلاپ ہوئے۔ جہاں قومی ٹیم کے نائب کپتان نے 5 میچوں میں 6 وکٹیں لیں ان میں بھی 4 کمزور ترین حریف نیپال کے خلاف تھیں جب کہ محمد نواز تین میچ میں ایک وکٹ لینے کے ساتھ اپنے بلے سے صرف 12 رنز ہی بنا سکے لیکن کپتان کا بھروسہ ان پر ختم نہ ہوا اور دونوں میگا ایونٹ کے ابتدائی تینوں میچز میں نظر آئے جہاں ان کی کارکردگی کے اعداد وشمار ماہرین کرکٹ کے ساتھ عام شائقین کرکٹ کو تنقید کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ میگا ایونٹ میں نواز کی 70 اور شاداب کی 65 کی اوسط نے ان کی سلیکشن پر بڑا سوالیہ نشان لگا دیا۔

    صرف دونوں آل راؤنڈرز ہی نہیں بلکہ اوپنر امام الحق کی ٹیم میں مستقل جگہ پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں‌ تو بالکل جائز ہیں کیونکہ ایشیا کپ گیا اور ورلڈ کپ آگیا لیکن ان کے بلے سے رنز نہ آئے۔ بائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے والے اوپنر نے تو لگتا ہے کہ بھارت کے خلاف پرفارم نہ کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ اب تک روایتی حریف کے خلاف 6 میچز میں 12 کی شرمناک اوسط سے صرف 64 رنز بنائے ہوئے ہیں، اس کے باوجود انہیں اتنے بڑے میچ کے لیے ترجیح دینا کپتان کے ساتھ چیف سلیکٹر انضمام الحق جو کہ امام الحق کے چچا بھی ہیں پر انگلیاں اٹھنا تو واجب ہے۔

    لیکن ایسا پہلی بار نہیں کہ پاکستان بھارت سے ورلڈ کپ میں ہارا ہو۔ میگا ایونٹ کی تاریخ میں بھارت کے خلاف پاکستان کی فتح کا کہیں نام ونشان نظر نہیں آتا ہے تاہم اتنی شرمناک اور ذلت آمیز شکست بھی اس سے پہلے کبھی سامنے نہیں آئی جس نے شائقین کرکٹ کو سیخ پا کر دیا ہے۔

    ورلڈ کپ کی یوں تو تاریخ 52 سال پرانی ہے لیکن میگا ایونٹ میں پاک بھارت ٹاکرے کی تاریخ صرف 31 سال پرانی ہے کیونکہ ابتدائی 19 سال میں ہونے والے چار ورلڈ کپ میں دونوں ٹیموں کو ایک دوسرے کے مدمقابل نہیں رکھا گیا۔ 1987 کا ورلڈ کپ جو پاکستان اور بھارت کی مشترکہ میزبانی میں کھیلا گیا تھا اور ایونٹ میں مجموعی کارکردگی کے ساتھ فائنل فور میں دونوں حریفوں کے جگہ بنانے کے بعد شائقین کرکٹ فائنل میں پاک بھارت ٹاکرے کا ذہن بنا چکے تھے لیکن غیر متوقع طور پر آسٹریلیا نے پاکستان اور انگلینڈ نے بھارت کو سیمی فائنل سے باہر کرکے میزبان ٹیموں اور ان کے شائقین کے ارمان ٹھنڈے کر دیے۔

    پاکستان اور بھارت کا میگا ایونٹ میں پہلا ٹاکرا پانچویں ورلڈ کپ میں ہوا جو 1992 میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں کھیلا گیا جو پاکستان کے ورلڈ چیمپئن بننے کی وجہ سے ہمیشہ ایک خوشگوار یاد کے طور پر ہر پاکستانی کے ذہنوں میں رہے گا۔ اولین مقابلے کے بعد سے سوائے 2007 (وہ بھی دونوں ٹیموں کے اپنے ناقص کھیل کی وجہ سے) اب تک ہر مقابلے میں آئی سی سی ان کے درمیان میچ ضرور رکھتی ہے جو اپنی سیاسی اور روایتی وجوہات کی بنا پر ایک جنگ جب کہ آئی سی سی اور دونوں کرکٹ بورڈ کے خزانے بھرنے کے لیے کھل جا سم سم کا دروازہ ہوتا ہے۔

    تو بات ہو رہی تھی 1992 میں ورلڈ کپ میں پاک بھارت ٹاکرے کی جو پہلی بار عالمی کپ کے میدان میں ٹکرائے تو جیت بھارت نے اپنے نام کی۔ اس میچ کی خاص بات بھارتی جو آج تک شائقین کرکٹ خصوصا پاک بھارت شائقین کے ذہنوں نے محو نہیں ہو سکتی وہ بھارتی وکٹ کیپر کرن مورے اور کریز پر بیٹنگ کے لیے موجود جاوید میانداد کے درمیان دلچسپ نوک جھونک اور لیجنڈ بیٹر کا بچوں کی طرح وکٹ پر اچھلنا تھا۔

    اگلے ورلڈ کپ میں پاکستان دفاعی چیمپئن کی حیثیت سے شریک ہوا اور پاک بھارت ٹیمیں بنگلورو کے چنا سوامی اسٹیڈیم میں کوارٹر فائنل میں ٹکرائیں جو جذبات سے بھرا اعصاب شکن میچ تھا۔ بھارت نے پہلے بیٹنگ کرکے 288 رنز کا ٹارگیٹ دیا لیکن پاکستان یہ میچ 39 رنز سے ہار گیا۔ ایک موقع پر پاکستان جیت کی جانب گامزن تھا تو عامر سہیل کی پرشاد سے ہونے والی تکرار جس کے بعد عامر سہیل اپنا بیٹنگ ٹیمپو کھو بیٹھے اور کریز پر سیٹ ہونے کے بعد اگلی ہی گیند پر آؤٹ ہوکر پاکستان کو شکست کے گڑھے میں گرا گئے جس کو آنے والے دیگر بلے باز بھی نہ اٹھا سکے یوں ورلڈ کپ پاکستان کے ہاتھ سے پھسل گیا اور ٹیم کو کئی الزامات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

    ورلڈ کپ کے ساتویں ایڈیشن جو 1999 میں انگلینڈ میں کھیلا گیا پاکستان نے روایت نہ توڑنے کی قسم کھاتے ہوئے بھارت کو فتح سے ہمکنار کرا دیا جب کہ 2003 کے ورلڈ کپ میں سعید انور کی سنچری کے باوجود بھارت سے فتح کا خواب پورا نہ ہو سکا۔

    پھر آیا 2007 کا ورلڈ کپ جو ویسٹ انڈیز میں کھیلا گیا۔ آئی سی سی کے لیے سونے کی چڑیا ہمیشہ کی طرح پاک بھارت ٹاکرا تھا اور انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے ایسا اسٹیج سجایا کہ میگا ایونٹ کے اگلے مرحلے میں پاک بھارت ٹاکرا لازمی ہونا تھا لیکن شومئی قسمت کہ بھارت اور پاکستان ورلڈ کپ میں اب تک اپنی ناقص ترین پرفارمنس کے باعث ذلت و رسوا کن انداز میں میگا ایونٹ کے پہلے راؤنڈ سے ہی باہر ہوگئیں۔

    بھارت میں کھیلے گئے 2011 کے ورلڈ کپ میں پاک بھارت ٹاکرا اب تک کے میگا ایونٹ کا سب سے بڑا ٹاکرا گردانا جاتا ہے کیونکہ وہ فائنل سے پہلے فائنل یعنی سیمی فائنل تھا جس میں پاکستانی بولرز نے شاندار کارکردگی دکھاتے ہوئے بھارت کو 262 رنز تک محدود کیا لیکن مصباح الحق کی ٹک ٹک کی بدولت پاکستان یہ میچ 31 رنز کے معمولی فرق سے ہار گیا یوں بھارت کو اس کی سر زمین پر ہرانے کا ایک نادر موقع گنوا دیا گیا۔ 2015 کے عالمی کپ میں بھارت نے 74 رنز کے بڑے مارجن سے ہرایا جب کہ 2019 میں کھلاڑی بدلے لیکن نتیجہ نہ بدلا اور 89 رنز کی شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔

    ورلڈ کپ میں پے درپے شکستوں سے تو محسوس ایسا ہوتا ہے کہ 1992 کے ورلڈ کپ میں گرین شرٹس نے بلیو شرٹس کا جو ’’ہوّا‘‘ اپنے سر پر سوار کیا اس سے آگے نکلنے کا نام نہیں لے رہے۔ ہر میگا ایونٹ میں قومی ٹیم نئے جوش وجذبے اور وعدوں کے ساتھ بھارت کے خلاف میدان میں اترتی ہے لیکن نتیجہ وہی دھاک کے تین پات کے مترادف ہوتا ہے۔

    اگرچہ پاکستان بھارت کو چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں بھی شکست دے چکا ہے۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی دھول چٹا چکا ہے جب کہ مجموعی باہمی میچز میں بھی گرین شرٹس کا پلڑا بھارت کے خلاف بھاری ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ یہ سارے ریکارڈ جو ان کے جیت کے جذبے کو جلا بخش سکتے ہیں وہ ہر ون ڈے ورلڈ کپ میں بھارت کے خلاف میچ کے دن قومی کرکٹرز کے دل ودماغ سے کیوں اوجھل ہو جاتے ہیں اور کیوں وہ یہ اعصاب شکن میچز جیتنے میں اب تک ناکام ہیں۔

    اب تو شائقین کرکٹ کی بڑی تعداد بھی یہ بات کرنے لگی ہے کہ بھارت نے 1992 میں پہلی جیت حاصل کرکے جو برتری پائی وہ پاکستان نے اسی میگا ایونٹ میں عالمی چیمپئن بننے کے باوجود ایسا اپنے سر پر سوار کیا کہ اب لگتا ہے کہ مدمقابل انسانوں پر مشتمل کوئی بھارتی ٹیم نہیں بلکہ بھوت کھیل رہے ہوتے ہیں جن کے آگے قومی ٹیم کی بیٹنگ، بولنگ، فیلڈنگ کے ساتھ جوش وجذبہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔

    اس صورتحال پر پی سی بی حکام کو بھی توجہ دینا چاہیے کہ آخر یہ شکستوں کا سلسلہ کب تک دراز رہے گا کبھی نہ کبھی تو ورلڈ کپ میچ میں انڈیا نامی اس خوف کے بت کو توڑنا ہوگا اس کے لیے قومی کھلاڑیوں کو صرف زبانی کلامی نہیں بلکہ نفسیاتی ماہرین کی مدد سے اعصاب شکن مقابلے کا بوجھ برداشت کرنے کی سعی کی جائے تو ہو سکتا ہے کہ اسی میگا ایونٹ میں پھر ایک اور پاک بھارت ٹاکرے میں پاکستان پہلی بار جیت کر 25 کروڑ پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند کر سکیں۔

  • ورلڈ کپ کا طبل جنگ بجنے کو ہے ، پاکستان کیا حکمت عملی اپنائے؟

    ورلڈ کپ کا طبل جنگ بجنے کو ہے ، پاکستان کیا حکمت عملی اپنائے؟

    کرکٹ، دنیا میں فٹبال کے بعد سب سے زیادہ مقبول کھیل ہے اور ہر چار سال بعد کرکٹ کی ٹیموں کے مابین عالمی مقابلہ شائقین کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔ آئی سی سی کا اہم ایونٹ ایک بار پھر اپنے تیرھویں ایڈیشن کے ساتھ رنگ جمانے کو تیار ہے اور ورلڈ کپ 2023 کا طبل جنگ بجنے میں چند گھنٹے ہی باقی رہ گئے ہیں۔

    دیکھنا یہ ہے کہ 5 اکتوبر سے احمد آباد میں دفاعی چیمپئن انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے مقابلے سے شروع ہونے والا یہ دنگل جب ڈیڑھ ماہ بعد اسی میدان میں ختم ہوگا تو ٹرافی کون سی ٹیم کا خوش قسمت کپتان اٹھائے گا۔ یہ بھی دیکھنا ہے کہ اس بار کوئی نیا عالمی چیمپئن آتا ہے یا پھر کچھ نئے ریکارڈ بنتے ہیں۔

    ورلڈ کپ سے قبل شریک تمام ٹیموں کو وارم اپ میچز کی صورت میں اپنی جانچ کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ پاکستان کو یہ دو مواقع نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا جیسے مضبوط حریفوں کے ساتھ میچز کی صورت ملے جو بدقسمتی سے زیادہ ہماری بے دانت شیر کے ’’خالی خولی خطرناک بولنگ اٹیک‘‘ کی بدولت انجام کار ہماری ناکامی پر اختتام پذیر ہوا۔

    صرف دو ہفتے قبل تک پاکستان کا بولنگ اٹیک دنیا کا خطرناک ترین بولنگ اٹیک مانا جاتا تھا جن کا سامنا کرنے سے دنیا کے بڑے بڑے بلے باز کتراتے تھے لیکن ایشیا کپ میں خراب پرفارمنس اور نسیم شاہ کی خطرناک کاندھے کی انجری کے باعث یہ خطرناک اٹیک اب مخالفین کے رحم و کرم پر آگیا ہے۔ جس سے نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ان بے دانتوں کے شیر سے اب کوئی حریف بلے باز ڈرنے کو تیار نہیں بلکہ مرنے اور مارنے کے لیے پوری طرح آمادہ ہوچکا ہے۔

    حریف کو رنز نہ دے کر ہیجان میں مبتلا کرنے اور غلطی کرا کے وکٹیں لینے والے پاکستانی بولرز ایسے بے اثر ہوئے کہ اب وہ وکٹیں لینے کے بجائے رنز لٹانے لگے ہیں جس کا بخوبی اندازہ ورلڈ کپ کے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے خلاف دو وارم اپ میچز کے نتائج سے ہو جاتا ہے جس میں پاکستانی بیٹنگ تو چلی لیکن بولرز کی رنز دینے کی سخاوت نے قومی ٹیم کی نیا پار نہ لگنے دی۔

    پہلے وارم اپ میچ میں پاکستانی بیٹرز نے رضوان کی سنچری اور کپتان بابر اور سعود شکیل کی نصف سنچریوں کی بدولت اسکور بورڈ پر 345 رنز کا بڑا ہدف سجایا جس کو ہمارے ورلڈ کلاس بولنگ اٹیک نے کیویز کے لیے اتنا آسان بنایا کہ انہوں نے 6 اوورز قبل ہی 5 وکٹوں سے شاندار فتح اپنے نام کی۔ دوسرے میچ میں سامنا تھا کینگروز کا جنہوں نے پہلے بیٹنگ کی اور چاروں طرف میدان میں کھل کر کھیلا یوں وہ شاہین شاہ، شاداب خان، حارث رؤف، وسیم جونیئر، حسن علی، محمد نواز جیسے ناموں کے سامنے 7 وکٹوں پر 351 رنز بنا گئے جس کے جواب میں پاکستانی ٹیم 337 رنز پر ہمت ہار کر آسٹریلیا کو 14 رنز سے جیت کا تحفہ دے دیا۔

    ہمارے ان ورلڈ کلاس بولرز نے 2 میچوں میں 13 وکٹیں لے کر ریکارڈ 697 رنز بنوا دیے جب کہ بیٹرز نے پھر بھی لاج رکھ لی اور دونوں میچز میں مجموعی طور پر 16 وکٹیں گنوا کر 373 رنز بنائے اگر بولرز نے اپنی بھرپور کارکردگی دکھائی ہوتی تو بلے بازوں کی یہ کارکردگی یوں رائیگاں نہیں جاتی اس صورتحال کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ورلڈ کپ 2023 میں اب پاکستان کی ڈوبی نیا پار لگانے کا سارا بوجھ بلے بازوں بالخصوص ان فارم کپتان بابر اعظم، محمد رضوان پر آن پڑے گا۔

    نسیم شاہ کے متبادل کے طور پر بڑے دعوؤں کے ساتھ لائے جانے والے حسن علی نے دونوں میچز کھیلے لیکن ایک میں بھی ایسی کارکردگی نہیں رہی جس سے وہ اپنا ‘جنریٹر جشن’ منانے کے قابل ہوتے۔ فخر امام اور شاداب خان بھی اپنی روٹھی فارم نہ پا سکے جس سے سوالیہ نشانات اور ماتھے پر فکر کی لکیریں پڑنے کی ضرورت ہے۔

    قومی ٹیم میں سب سے زیادہ اعتراض وسیم جونیئر، محمد نواز اور حسن علی کے حتمی اسکواڈ میں شامل کیے جانے اور عوامی مطالبے اور غیر ملکی لیگز میں اچھی پرفارمنس کے باوجود عماد وسیم اور سرفراز احمد کو نظر انداز کیے جانے پر کی جاتی رہیں کہ محمد عامر کی سلیکشن پر تو چیف سلیکٹر ان کی عالمی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے اعلان کو جواز بناتے ہیں۔ کئی دیگر بولرز پر ترجیح دیے جانے والے وسیم جونیئر کی گزشتہ کارکردگی اٹھائیں تو ایسی پرفارمنس نظر نہیں آتی کہ وہ میگا ایونٹ کا حصہ بننے کے لیے لازم وملزوم قرار پاتے لیکن نہ جانے ان کے پاس کیسی گیدڑ سنگھی ہے کہ ملنے والے مواقع پر خود کو ثابت نہ کرنے پر بھی ورلڈ کپ کے اسکواڈ میں جگہ بنا لی۔

    ورلڈ کپ اسکواڈ کے لیے جن کھلاڑیوں کو شامل اور کچھ کو نظر انداز کیا گیا اس پر تنقید، ٹیم میرٹ سے زیادہ دوستی پر بنانے کی باتیں بھی مسلسل جاری بھی ہیں تاہم اب یہ باتیں سانپ گزرنے کے بعد لاٹھی پیٹنے کے مترادف ہے کہ جو 15 رکنی اسکواڈ کا اعلان ہوا وہی اس کو کھیلے گا لامحالہ کوئی پلیئر ان فٹ ہوکر باہر ہوا تب ہی ریزرو کھلاڑیوں محمد حارث، زمان خان یا ابرار احمد میں سے کسی کو جگہ ملے گی۔

    اس میں کوئی شک نہیں کہ نسیم شاہ پاکستان کے بولنگ اٹیک میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی عدم موجودگی بہت بڑا نقصان ہے لیکن یہ جواز میگا ایونٹ میں قابل قبول نہیں ہوگا کیونکہ دیگر ٹیموں کے اہم کھلاڑی بھی ان فٹ ہونے کے باعث ورلڈ کپ سے باہر ہوگئے ہیں جن میں بھارت، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، انگلینڈ، جنوبی افریقہ، سری لنکا، بنگلہ دیش جیسی تمام ٹیمیں شامل ہیں۔

    ورلڈ کپ سے قبل تیاریوں کا موقع ختم ہوگیا اب 5 اکتوبر سے میدانوں میں صرف ایکشن ہوگا اور بولرز کو پاکستان کو فتح یاب کرنے کے لیے جلد فارم میں آنا ہوگا۔ 5 اکتوبر سے 19 نومبر تک 46 دن تک جاری رہنے والے اس میگا ایونٹ میں 10 ٹیمیں شریک ہیں جن میں میزبان بھارت کے علاوہ پاکستان، دفاعی چیمپئن انگلینڈ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ، سری لنکا، بنگلہ دیش، افغانستان اور کوالیفائنگ ٹیم نیدر لینڈ شامل ہے۔ یہ پہلا ورلڈ کپ ہوگا جو دو بار کی سابقہ چیمپئن ویسٹ انڈیز کے بغیر کھیلا جائے گا جو کوالیفائنگ راؤنڈ میں بدترین کارکردگی کی وجہ سے میگا ایونٹ سے باہر ہوئی ہے۔

    پاکستان کو ایشیا کپ میں حالیہ ناقص پرفارمنس کے باوجود کرکٹ ماہرین ایونٹ کی تگڑی ٹیم گردانتے رہے ہیں جس پر وارم اپ میچز کی ناکامی نے اثر ڈالا ہے لیکن اب بھی کوئی اس ٹیم کو ہلکا لینے کو تیار نہیں ہے۔

    اب جب کہ ورلڈ کپ شروع ہونے میں صرف چند گھنٹے ہی باقی ہیں کوئی تبدیلی تو نہیں کچھ مشورے ہی ہیں جو قومی ٹیم کے کپتان اور انتظامیہ کے گوش گزار ہیں کہ ان پر عمل کرکے جیت کی لگن سے آگے بڑھیں تو کوئی چیز ناممکن نہیں ہوگی۔

    بابر اعظم کی قیادت میں قومی ٹیم اپنی مہم کا آغاز جمعے کو نیدر لینڈ جیسی چھوٹی ٹیم کے ساتھ کرے گی لیکن اسے ورلڈ کپ کے دریا کو عبور کرنے کے لیے اس دریا میں اترنے سے قبل 1992، 1999 اور 2007 کے ساتھ ساتھ 2011 کے ورلڈ کپ کو یاد رکھنا ہوگا۔

    اول الذکر دو ورلڈ کپ 1992 اور 1999 فاتح ٹیموں کے کپتانوں کی جیت کی لگن اور بُرے سے بُرے وقت میں بھی ہمت نہ ہارنے بلکہ ساتھیوں کا حوصلہ بڑھانے کی داستان رقم کرتے ہیں جس میں پاکستان 1992 میں اس وقت ورلڈ چیمپئن بنا جب کوئی اور کیا خود پاکستانی ٹیم کے کھلاڑی مایوس اور ورلڈ کپ انتظامیہ گرین شرٹس کی وطن واپسی کے ٹکٹ کنفرم کرا چکی تھی لیکن پھر کپتان عمران خان کی کایا پلٹ آخری تین میچز سے قبل ڈریسنگ روم میں کھلاڑیوں کے سامنے کی گئی یہ پرجوش تقریر کہ کیا ہوا ہم تین میچ ہار گئے تین میچ باقی بھی تو ہیں جو مسلسل جیت کر ورلڈ کپ کا فائنل کھیلیں گے اور پھر ٹرافی بھی جیتیں گے جس نے مایوس کھلاڑیوں کو نیا حوصلہ دیا اور پھر دنیا نے چارٹس ٹیبل کی سب سے کمزور ٹیم پاکستان کے کپتان عمران خان کو 25 مارچ 1992 کو ورلڈ کپ کی ٹرافی اٹھاتے اور نیا عالمی چیمپئن بنتے اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا۔

    1999 کا ورلڈ کپ آسٹریلیا نے مشکل صورتحال میں جیتا۔ سیمی فائنل میں جنوبی افریقہ کی جانب سے اپنا ایک کیچ گرائے جانے پر اسٹیو واہ نے کمال اطمینان سے یہ بات کہی کہ تم نے کیچ نہیں بلکہ ورلڈ کپ گرا دیا اور پھر ورلڈ کپ جیت کر اس کو ثابت بھی کر دیا۔ 2007 کا ورلڈ کپ پاکستان اور بھارت دونوں کے لیے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں پاکستان اور بھارت دونوں اپنے ابتدائی راؤنڈر میں بالترتیب آئرلینڈ اور بنگلہ دیش سے ہارنے کے بعد شرمناک ترین انداز میں میگا ایونٹ سے آؤٹ ہوگئی تھیں اور یہ تلخ یاد آج بھی کوئی پاکستانی یا بھارتی فراموش نہیں کر سکا ہے۔

    2011 کا ورلڈ کپ اس لیے کہ اس میں پاکستان اور بھارت نے فائنل سے قبل سیمی فائنل میں ٹکرا کر بڑے میچ سے پہلے بڑا میچ کھیل لیا۔ پاکستان سیمی فائنل تو ہار گیا لیکن پورے ایونٹ میں ایسی لاجواب پرفارمنس دی کہ روایتی حریف سے شکست کے باوجود پاکستانیوں نے روایت کے برخلاف کھلے بازوؤں پاکستانی ٹیم کا استقبال کیا اور سب یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ’’تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہے‘‘۔

    بابر اعظم دونوں وارم اپ میچ ہارنے کے بعد یہ بات تو روایتی طور پر کہہ گئے کہ غلطیوں سے سیکھنے کی کوشش کریں گے اور یہی بات وہ ایشیا کپ اور اس سے قبل ہارنے والے میچز میں بھی کہتے رہے مگر کوئی یہ بھی بتا دے کہ وہ وقت کب آئے گا جب وہ غلطیوں سے سیکھنے کی کوشش کریں گے کیونکہ ورلڈ کپ سے بڑا تو کرکٹ کا کوئی ایونٹ نہیں ہوتا اور ہوتا بھی چار سال بعد ہے اور کس کو پتہ کہ چار سال بعد وہ غلطیوں سے سبق سیکھنے کے لیے ٹیم کے منظر نامے میں ہوگا یا نہیں اس لیے وقت غلطیوں سے سبق سیکھنے کا نہیں بلکہ بروقت غلطیوں کو سدھارنے کا ہے۔

    ہم قومی کپتان بابر اعظم کو ورلڈ کپ میں جانے سے قبل ذکر کردہ چار ورلڈ کپ اس لیے یاد رکھنے کو کہہ رہے ہیں کہ ان سے حاصل سبق شاید تاریکی میں کچھ روشنی کا کام دے کر گرنے سے پہلے ہی سنبھلنے کا موقع فراہم کر دیں۔ رواں ورلڈ کپ میں پہلا میچ نیدر لینڈ جیسی کمزور ترین ٹیم سے ہے اور اس کو آسان لینے کا مطلب 2007 ورلڈ کپ کا ری پلے ہوسکتا ہے۔

    ایونٹ میں اترتے چڑھتے حالات کیسے بھی ہوں گرین شرٹس کے کپتان 1992 اور 1999 کا ورلڈ کپ اس وقت کے قائدین کی ہمت اور حوصلے کو نظر میں رکھیں اور اسی طرح پوری ٹیم کو ساتھ لے کر ایک یونٹ بنا کر ہمت بڑھاتے اور جذبہ جگاتے ہوئے آگے بڑھیں تو پھر 1992 کی تاریخ دہرانا بھی کوئی مشکل امر نہ ہوگا۔

    آخری بات ورلڈ کپ 2023 کی ٹرافی ایک اور جیتنے کی دعوے دار 10 ٹیمیں ہیں لیکن جیتنا بہرحال ایک ہی ٹیم نے ہے اور وہ بھی وہ جو آخر وقت تک اپنی صلاحیتوں کے کھل کر جوہر دکھانے کے ساتھ ساتھ اپنے اعصاب کو بھی قابو میں رکھے گی کیونکہ جیسے جیسے یہ میگا ایونٹ آگے بڑھے گا مقابلے اور حالات کبھی سنگین تو کبھی انتہائی اعصاب شکن ہوتے رہیں گے۔ بہرحال عالمی چیمپئن بننے کا اعزاز ایک ہی ٹیم حاصل کرے گی لیکن دلوں کے چیمپئن بننے کا اعزاز وہی ٹیم حاصل کرے گی جو اسپورٹس مین اسپرٹ کا بھرپور مظاہرہ کرنے کے ساتھ مکمل محنت پر یقین رکھتے ہوئے صرف ایک دو میچز نہیں بلکہ پورے ایونٹ میں اپنی 100 فیصد کارکردگی میدان میں دکھائے گی پھر چاہے نتیجہ جو بھی رہے وہ ضرور دلوں کو مسخر کر لے گی کہ ایسی ٹیمیں ہی تاریخ رقم کرتی ہیں جو اگر ٹرافی ہار جائیں لیکن دل ایسے جیتتی ہیں کہ اور پھر دنیا عالمی چیمپئن کے ساتھ ان کا بھی ذکر اچھے الفاظ میں کرتی ہے۔

  • کیا آئی سی سی ورلڈ کپ میں گرین شرٹس ایشیا کپ کی ناکامی کا داغ دھو سکے گی؟

    کیا آئی سی سی ورلڈ کپ میں گرین شرٹس ایشیا کپ کی ناکامی کا داغ دھو سکے گی؟

    بھارت کے آٹھویں مرتبہ ایشین چیمپئن بننے کے ساتھ ہی ایشیا کپ کا اختتام ہو گیا ہے اور اب سب کی نظریں آئی سی سی ورلڈ کپ پر ہیں جو آئندہ ماہ انڈیا میں منعقد ہوگا۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم ایشیا کپ میں بدترین ناکامی کا داغ لے کر کرکٹ کے اس بڑے میلے میں شرکت کرے گی، لیکن کہتے ہیں کہ ہر ناکامی کامیابی کا راستہ بھی ہموار کرتی ہے، اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب ناکامی سے سبق حاصل کیا جائے۔

    ایشیا کپ کی یہ ناکامیاں پاکستان کے لیے ایک ایسا سبق ہیں جس نے دنیائے کرکٹ کا سب سے بڑا میلہ سجنے سے قبل اسے بیدار ہونے کا موقع دیا ہے اب دیکھنا ہے کہ پی سی بی اور ہماری کرکٹ ٹیم اس موقع سے کس طرح فائدہ اٹھاتے ہیں۔

    ہار جیت کھیل کا حصہ ہے مگر کرکٹ کی حالیہ تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو قومی ٹیم کے جیتنے پر وہ لوگ بھی اس کا کریڈٹ لینے سامنے آ جاتے ہیں جن کا اس میں کوئی کردار نہیں ہوتا اور جب شکست ہوتی ہے تو یہی ہوتا ہے جو اب ہو رہا ہے۔ شائقین کرکٹ اور سابق کرکٹرز کی تنقید اب بھی جاری ہے جب کہ اس گنگا میں وہ بھی ہاتھ دھو رہے ہیں جو کرکٹ کی الف بے بھی نہیں جانتے۔ سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی سے منسوب قول ہے کہ ’’کامیابی کے کئی باپ ہوتے ہیں جبکہ شکست یتیم ہوتی ہے.‘‘ اور یہی ہم اس وقت دیکھ رہے ہیں۔ کیونکہ ایشیا کپ کے پاک بھارت ٹاکرے اور سری لنکا میچ سے قبل یہی کھلاڑی جو آج تنقید کے وار سہہ رہے ہیں، انہی مبصرین اور شائقینِ کرکٹ کی آنکھ کا تارا بنے ہوئے تھے اور سب نے ان کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہے تھے۔

    ایشیا کپ میں قومی ٹیم کی کارکردگی کا پوسٹ مارٹم کیا جائے تو خاص طور پر کپتان کی جانب سے فیلڈ پلیسنگ اور بولرز کے استعمال میں خامیاں نظر آتی ہیں۔ آخری میچ کے بعد ڈریسنگ روم میں بابر اور شاہین شاہ کی تلخ کلامی کی باتیں بھی سامنے آئیں جو کہ کسی بھی بڑی شکست کے بعد ہماری ٹیم کی گویا روایت رہی ہے لیکن بعد ازاں اس حوالے سے تردید بھی سامنے آئی اور کپتان بابر اعظم، شاہین شاہ کی شادی کی تقریب میں بھی خوشگوار موڈ میں دکھائی دیے جب کہ فاسٹ بولر کا بابر کی تصویر کے ساتھ یہ پیغام کہ ہم ایک فیملی ہیں، اختلافات کی افواہوں کو ہوا میں اڑا دیتا ہے۔

    لیکن صرف قومی کھلاڑیوں کی ناقص کارکردگی ہی ایشیا کپ میں ان کی ناکامی کا سبب نہیں بلکہ ایشیا کپ کے لیے بھارتی ٹیم کے پاکستان آنے سے انکار پر سابق چیئرمین پی سی بی منیجمنٹ کمیٹی نجم سیٹھی کی جانب سے پیش کردہ ہائبرڈ ماڈل نے بھی کھلاڑیوں کو الجھن میں ڈالے رکھا اور انہیں مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ایونٹ میں جہاں بھارت اور سری لنکا نے صرف دو وینیو اور (پالے کیلی اور کولمبو) میں میچز کھیلے اور زیادہ سفر نہیں کرنا پڑا وہاں پاکستانی ٹیم کو سفر نے تھکا دیا اور قومی کھلاڑی پاکستان اور سری لنکا کے درمیان شٹل کاک ہی بنے رہے، یوں بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث بے تُکے سفر کی یہ تھکن بھی قومی کھلاڑیوں کی کارکردگی متاثر کرنے کا ایک سبب بنی۔

    ایشیا کپ جیسا بھی ہوا اب اس کو بھول کر آگے بڑھنا ہے۔ ہار وہی اچھی ہوتی ہے جو غفلت سے جگا کر آئندہ کے معرکے کے لیے اپنی حکمت عملی طے کرنے اور جیت کے جنون کو بڑھانے میں مدد دے۔ پی سی بی کے بڑے بھی ایشیا کپ میں قومی ٹیم کی اس حالت کے بعد سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں۔ بھارت، آسٹریلیا، انگلینڈ سمیت کئی بڑی ٹیمیں اپنے ورلڈ کپ اسکواڈ کا اعلان کرچکی ہیں لیکن گرین شرٹس کے حتمی اسکواڈ میں رکاوٹ ایشیا کپ کی پرفارمنس نے ڈال دی ہے اور رہی سہی کسر فٹنس مسائل پوری کر رہے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق دو تین روز میں پاکستانی ٹیم کا اعلان ہو جائے گا تاہم کوئی بڑی تبدیلی نہیں ہوگی اور محمد عامر اور عماد وسیم کی واپسی کے لیے سوشل میڈیا پر جو شور برپا ہے، یہ ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔

    پاکستان کرکٹ بورڈ نے گو کہ نسیم شاہ کی انجری کی نوعیت اور صحتیابی سے متعلق حتمی کوئی بیان جاری نہیں کیا لیکن میڈیا رپورٹس کے مطابق ایشیا کپ کے پاک بھارت میچ میں ان کو ہونے والی کندھے کی انجری سنگین نوعیت کی ہے جو انہیں نہ صرف ورلڈ کپ بلکہ آئندہ 6 ماہ تک کرکٹ کے میدانوں سے دور رکھ سکتی ہے۔ فی الحال تو ورلڈ کپ سر پر ہے اس لیے قومی ٹیم کے لیے سب سے تشویشناک بات یہی ہے کہ وکٹ ٹیکر نسیم خان کا خلا کون پر کرے گا ایسے میں اڑتے اڑتے یہ خبریں ہیں کہ سری لنکا کے خلاف ڈیتھ اوور میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے زمان خان ورلڈ کپ میں نسیم شاہ کی جگہ پُر کریں گے۔

    ایشیا کپ میں ہمارے فاسٹ بولرز تو پھر بھی چلے لیکن اسپنرز کوئی کمال نہ دکھا سکے بالخصوص نائب کپتان شاداب جو لیگ اسپن کے ساتھ بیٹنگ صلاحیتوں کے باعث آل راؤنڈر کی حیثیت سے ٹیم میں اہم مقام رکھتے ہیں، وہ پورے ایونٹ میں آف کلر نظر آئے اور ان کی ناکامی نے پاکستان کی ناکامی میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا۔ شاداب خان کو ورلڈ کپ سے قبل اپنے کھیل میں یقینی طور پر بہتری لانی چاہیے جب کہ ورلڈ کپ جو کہ بھارت میں ہو رہا ہے اور وہاں کی پچز سلو بولرز کو مدد دیتی ہیں اس لیے ضروری ہے کہ اسپیشلسٹ اسپنر کو ٹیم میں لازمی شامل کیا جائے جس کے لیے دستیاب کھلاڑیوں میں اسامہ میر اور ابرار احمد بہترین انتخاب ثابت ہوسکتے ہیں اگر آل راؤنڈر شامل کرنا ہی مجبوری ہے تو کیریبیئن لیگ میں جادو جگا کر اب تک لیگ کے بہترین کھلاڑیوں کی فہرست میں ٹاپ پر موجود عماد وسیم کو بھی طلب کیا جا سکتا ہے جو کہ قومی ٹیم کے لیے اپنی دستیابی پہلے ہی ظاہر کر چکے ہیں۔

    اس وقت سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ کپتان بابر اعظم کو بنایا جا رہا ہے اور انہیں کپتانی سے ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے جو اتنے بڑے ایونٹ کےقریب قطعی سود مند نہیں ہوسکتا۔ وہ ورلڈ کلاس بیٹر ہیں اور ان کی قیادت میں پاکستان کئی میچز جیت چکا ہے تاہم ورلڈ کپ سے چند دنوں قبل ان کی اور ٹیم کی ایسی بُری کارکردگی اچھا شگون قرار نہیں دی جاسکتی۔ ایشیا کپ میں کئی مواقع پر پاکستان ٹیم دباؤ کا شکار نظر آئی۔ بھارت جہاں ورلڈ کپ ہو رہا ہے وہ تو ہے ہی روایتی حریف کا ملک جہاں قومی ٹیم کو ہر میچ میں میزبان شائقین کا دباؤ بھی برداشت کرنا ہوگا بالخصوص 14 اکتوبر کو پاک بھارت ٹاکرے میں گرین شرٹس کا میدان میں دو حریفوں سے مقابلہ ہوگا ایک تو ٹیم انڈیا اور دوسرے اسٹیڈیم میں موجود ایک لاکھ بھارتی شائقین، تو ایسے میں کھلاڑیوں کو اعصاب پر قابو رکھنا ہو گا اور خود کو پرسکون رکھتے ہوئے پوری توجہ کھیل پر مرکوز کرنا ہوگی۔ یہاں سب سے اہم ذمے داری ٹیم منیجمنٹ کی ہے کہ وہ پلیئرز کا اعتماد بڑھائے۔ ماہرینِ نفسیات بھی ٹیم کے ساتھ ہوتے ہیں اور ایسی صورت حال میں ان کا کردار بڑھ جاتا ہے جو کھلاڑیوں کو دباؤ سے نکلنے اور پرسکون رہنے میں مدد کرتے ہیں۔

    آئی سی سی ون ڈے ورلڈ کپ کرکٹ کا وہ سب سے بڑا میلہ ہے جو ہر 4 سال بعد سجتا ہے اور شائقین کرکٹ اس کا شدت سے انتظار کرتے ہیں تو جتنا بڑا یہ کرکٹ میلہ ہے اتنی ہی بڑی اس سے وابستہ خوش گمانیاں، پیشگوئیاں اور ساتھ تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ ایشیا کپ میں بدترین کارکردگی کے باوجود جنوبی افریقہ کی مہربانی سے پاکستان ون ڈے کی عالمی نمبر ایک ٹیم ہے اور میگا ایونٹ سے قبل فی الحال یہی ایک مثبت چیز ہے جس کے ساتھ قومی ٹیم اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کا جذبہ حاصل کر سکتی ہے۔

    ایشیا کپ میں نتائج جیسے بھی رہے، اب وقت ہے کہ تنقید چھوڑ کر امید کا دامن تھاما جائے۔ شائقین کرکٹ اپنی ٹیم کا مورال بلند کرنے کے لیے گرین شرٹس کو بھارت روانگی سے قبل مکمل سپورٹ فراہم کریں، کیونکہ ہمارے یہی اسٹارز ہیں جو پہلے بھی کرکٹ کے افق پر جگمگائے اور پاکستان کا پرچم بلند کرتے رہے ہیں۔ ماہرین اور شائقین 2017 کی چیمپئنز ٹرافی نہ بھولیں کہ آج ہدف تنقید بنے ان ہی کھلاڑیوں نے سرفراز احمد کی قیادت میں فائنل میں بھارت کو دھول چٹاتے ہوئے چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا جبکہ دو سال قبل ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بابر اعظم کی قیادت میں روایتی حریف کو دس وکٹوں سے شکست دے کر چاروں شانے چت کیا تھا۔ تو اب بھی یہی کھلاڑی بہترین نتائج دینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اگر ایک بار ٹیم نے اپنی کمزوریوں پر قابو پا لیا اور حکمت عملی کے تحت کھیل کے میدان میں اترے تو اس کا سامنا کرنا کسی بھی حریف کیلیے آسان نہ ہو گا کیونکہ ایشیا کپ کے نتائج کے باوجود کرکٹ مبصرین پاکستان کو ورلڈ کپ جیتنے کی اہلیت رکھنے والی چار ٹیموں میں شامل کیے ہوئے ہیں۔

  • ایشیا کپ: صرف ایک غلطی اور  بدترین شکست!

    ایشیا کپ: صرف ایک غلطی اور بدترین شکست!

    آئی سی سی کی رینکنگ میں پاکستان ’’ون ڈے ٹیم‘‘ نمبر ون، کپتان بابر اعظم عالمی سطح کا نمبر ایک بیٹر، مخالف بلے بازوں پر قہر ڈھاتا بولنگ ٹرائیکا! لیکن یہ سب ایشیا کپ شروع ہونے سے قبل تھا اور صرف ایشیا کپ ہی نہیں بلکہ پاکستان اگلے ماہ بھارت میں ہونے والے آئی سی سی ون ڈے ورلڈ کپ جیتنے کی دعوے دار ٹیموں میں شامل تھا، مگر صرف 10 روز میں صورتحال یکسر تبدیل ہوئی اور ایک غلطی نے بہترین ٹیم کو نمبر ون کی پوزیشن سے بھی محروم کردیا۔

    بابر اعظم کی قیادت میں پاکستانی ٹیم فتوحات سمیٹتی ہوئی ایشیا کپ سے قبل افغانستان کو وائٹ واش کر کے آئی سی سی رینکنگ میں جب نمبر ون پر براجمان ہوئی تو پاکستانی شائقین کرکٹ کی خوشی سے باچھیں کھل گئیں اور ان کی امیدیں اپنی ٹیم سے ایشیا کپ اور ورلڈ کپ کے حوالے سے مزید بڑھ گئیں۔ امیدیں کیوں نہ بڑھتی جب عالمی نمبر ایک ٹیم کی کمان عالمی سطح پر نمبر ون بیٹر بابر اعظم کے ہاتھ میں، بیٹنگ لائن میں آئی سی سی بیٹنگ رینکنگ کے ٹاپ ٹین میں شامل فخر زمان، امام الحق ہوں۔ بولرز میں ٹاپ فائیو میں موجود اسٹار شاہین شاہ کے ساتھ جب حارث رؤف اور نسیم شاہ کا ٹرائیکا ہو تو کاغذ پر تو اس سے تگڑی کوئی ٹیم ہی نہیں تھی۔

    ایشیا کپ کے افتتاحی میچ میں جب گرین شرٹس نے کمزور نیپال کو بہت بڑے مارجن سے ہرایا اور پھر اگلے میچ میں روایتی ٹیم بھارت کو 266 رنز پر ڈھیر کیا تو یہ امیدیں آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگیں اور ساتھ کھلاڑیوں کا اعتماد بھی لیکن لگتا ہے کہ یہی اعتماد ایسی خوش فہمی بنا کہ پھر تنزلی کی جو شرمناک کہانی رقم ہوئی اس نے آج پاکستان ٹیم کی کارکردگی کے ساتھ ٹیم منیجمنٹ کی ورلڈ کپ کی تیاریوں کا پول بھی کھول کر رکھ دیا۔

    ایشیا کپ میں پاکستان صرف ہوم گراؤنڈ پر کمزور ترین نیپال اور اپنے سے انتہائی کم رینک ٹیم بنگلہ دیش سے جیت سکی یعنی جو ہم اکثر روایتی حریف کے لیے ’’گھر کے شیر باہر ڈھیر‘‘ کی مثال استعمال کرتے ہیں اسے گرین شرٹس نے حرف بہ حرف درست ثابت کیا۔ ایونٹ کے پہلے پاک بھارت ٹاکرے میں اگرچہ پاکستانی بولرز نے روایتی حریف کو 266 پر زیر کرلیا تھا لیکن میری رائے میں بارش نے پاکستان کو بچا لیا ورنہ سری لنکا میں ٹیم کی مجموعی کارکردگی دیکھ کر تو لگتا ہے کہ یہ میچ بھی ہاتھ سے گیا تھا۔

    ایشیا کپ میں ٹیم کا اصل زوال سپر فور کے پاک بھارت مقابلے سے ہوا جہاں ماہرین کی رائے کے برعکس بابر اعظم نے ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ کیا جو انتہائی برا ثابت ہوا اور بارش کے باعث دو روز میں مکمل ہونے والے میچ میں پاکستانی بولر صرف دو وکٹیں ہی اڑا سکے جب کہ بھارتی بلے بازوں نے 357 پہاڑ جیسا ہدف دیا جس کو دیکھتے ہی گرین شرٹس کے ایسے اوسان خطا ہوئے کہ پوری ٹیم 128 رنز پر ڈھیر ہو کر 228 رنز کی تاریخی شکست سے دوچار ہوگئی۔ یوں وہ ٹیم جس نے ایشیا کپ کے گروپ میچز میں 4.76 کی بھاری اوسط سے ٹاپ پر رہنے کا مزہ چکھا وہ سپر فور مرحلے میں بنگلہ دیش سے بھی نیچے چوتھے نمبر پر سب سے آخر میں پہنچ گئی۔

    اس کو بدقسمتی کہیں گے کہ ایشیا میں حریف بلے بازوں کو نکیل ڈالنے والے نسیم شاہ اور حارث رؤف پاک بھارت کے اہم میچ میں ان فٹ ہوئے لیکن انٹرنیشنل کرکٹ کے کسی بھی بڑے ایونٹ میں ٹیم کی مجموعی بدترین ناکامی کے لیے اس کو جواز نہیں بنایا جا سکتا، خاص طور پر ایسی صورتحال میں جب کرکٹ کا سب سے بڑا میلہ ون ڈے ورلڈ کپ سر پر ہو اور اس کے انعقاد میں ایک ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہو تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ کرکٹ میں انجریز خاص طور پر بولرز کے کیریئر میں چولی دامن کا ساتھ رکھتی ہیں تو پاکستان کرکٹ بورڈ اور ٹیم منیجمنٹ نے ان کھلاڑیوں کا بیک اپ کیوں نہ رکھا جب کہ ورلڈ کپ میں شریک ہونے والی ہر چھوٹی بڑی ٹیم ہر پوزیشن کے کھلاڑی کے بیک اپ کے ساتھ ہے۔

    کرکٹ کے بڑے ایونٹ میں دنیا کی بڑی پروفیشنل ٹیمیں ہمیشہ اسپیشلسٹ کھلاڑیوں کے ساتھ میدان میں اترتی ہیں تاکہ ہر کھلاڑی اپنی صلاحیتوں کے مطابق 100 فیصد کارکردگی دکھائے اور مڈل اوورز میں جہاں ضرورت ہو اپنی ٹیم کو مخالف کی وکٹیں لے کر بریک تھرو دلائیں جیسا کہ سری لنکن نوجوان ڈنتھ ویلالگے، بھارتی اسپنر کلدیپ یادیو ہیں جو بولنگ کے لیے جاتے ہیں تو ان کے ذہن میں یہ نہیں ہوتا کہ بیٹنگ کے لئے جا کر بھی مجھے تیس چالیس رنز کرنے ہیں بلکہ ان کا پورا فوکس بولنگ پر ہوتا ہے اور اگر بیٹنگ میں ان کا بلا چلے تو یہ ان کی ٹیموں کے لیے بونس ہوتا ہے لیکن پاکستان میں یہ معاملہ الٹ ہے یہاں خاص طور پر کچھ عرصے سے اسپنرز کے معاملے میں آدھا تیتر آدھا بٹیر کی مترادف آل راؤنڈرز کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ ہم نے اسپیشلسٹ اسپنرز جیسا کہ اسامہ میر، ابرار احمد کو ٹیم میں شامل نہ کیا اور آؤٹ آف فارم شاداب خان کے علاوہ محمد نواز کو صرف اسپیشلسٹ اسپنر سے زیادہ آل راؤنڈر کے طور پر کھلایا گیا جس کا نتیجہ ایشیا کپ میں ظاہر ہو گیا کہ جہاں تمام ٹیموں کے اسپنرز نے جال بچھا کر حریفوں کو پھنسایا لیکن پاکستانی اسپنرز حال سے بے حال رہے۔ پاکستان کے بولرز سری لنکا کے خلاف اہم ترین میچ میں 42 اوورز میں 252 رنز کے معقول ہدف کا دفاع کرنے میں ناکام رہے اور فیورٹ ٹیم خالی ہاتھ باہر ہوگئی۔

    آدھا تیتر آدھا بٹیر کی مثل ہمارے اسپنرز اور اسپیشلسٹ اسپنرز کی کارکردگی کا جائزہ اس بات سے لیا جا سکتا ہے کہ سری لنکا کے ویلالاگے اور تھیک شانا نے حریفوں کی ایک نہ چلنے دی۔ ویلالاگے نے 10 اور شانا نے 8 وکٹیں اڑائیں خاص طور پر بھارت کے نوجوان ویلالاگے نے بڑے ناموں والے ٹاپ آرڈر سمیت 5 بلے بازوں کو پویلین بھیج کر واہ واہ سمیٹی۔ بھارت کے کلدیپ یادیو نے تو تین اننگ میں ہی 9 شکار کر کے پاکستان اور سری لنکا کی بیٹنگ لائن اکیلے ہی تہس نہس کر ڈالی۔ مگر بات کریں پاکستانی اسپنرز کی تو وہ بیٹرز کا شکار کرنے کے بجائے خود مخالف بلے بازوں کا ٹارگیٹ بنے رہے۔ شاداب خان نے 4 اننگ میں 6 وکٹیں لیں جس میں چار وکٹیں تو کمزور ترین ٹیم نیپال کے خلاف تھیں۔ ان وکٹوں کے لیے شاداب نے مخالفین کو کھل کر رنز بنانے کا موقع دیا اور ان کی اکانومی 6 سے بھی زیادہ رہی۔ نواز بھی کچھ نہ کر سکے۔ ایونٹ کے تین میچ کھیلے لیکن ہاتھ صرف ایک وکٹ آئی۔

    ہمارے مین اسٹرائیک بولر ان فٹ تو ان کا بیک اپ نہیں، دھانی کو بلایا جو پاکستان کے ایونٹ سے باہر ہونے کے بعد بغیر کھیلے ہی وطن واپس لوٹے لیکن ان کے انتخاب پر شائقین سوال کر رہے ہیں کہ ان کی کارکردگی کیا ہے۔ دوسری جانب نسیم شاہ اور حارث رؤف کی جگہ لینے والے وسیم جونیئر اور زمان خان کو موقع دیا گیا لیکن نہ وسیم موقع سے فائدہ اٹھا سکے اور نہ ہی زمان خان اپنے ڈیبیو کو یادگار بنا سکے۔ زمان خان نے ڈیتھ اوور میں اچھی بولنگ ضرور کی لیکن وہ اپنے پیشرو نسیم شاہ اور حارث رؤف کی جگہ پُر کرنے والے سری لنکن بلے بازوں کو خوفزدہ نہ کرسکے اور جب ٹیم کو ضرورت تھی اس وقت بریک تھرو نہ دے سکے۔

    اب جب کہ نسیم شاہ کی کاندھے کی انجری کے باعث پورے ورلڈ کپ میں شرکت مشکوک ہوگئی ہے۔ شاہین شاہ ردھم میں نہیں ہیں۔ اسپنرز بھی نہیں چل پا رہے اور بیٹنگ کا یہ حال کہ کبھی چل گئے تو چل گئے ایسے میں ورلڈ کپ جیتنے کا خواب ’’دیوانے کا خواب‘‘ ہی دکھتا ہے۔

    اس شکست کے ساتھ ہی جس ٹیم کی ایک ہفتہ قبل تعریفیں کی جا رہی تھیں اب وہ کڑی تنقید کی زد میں ہے۔ سابقہ قومی کرکٹرز سمیت غیر ملکی کرکٹرز بھی بابر اعظم کی کپتانی پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ حسب روایت شکستوں کے بعد ٹیم میں اختلافات اور ڈریسنگ روم میں کھلاڑیوں کی مبینہ تلخ کلامی کی خبریں بھی میڈیا کی زینت بنیں جب کہ شائقین کرکٹ کی جانب سے ماضی کی طرح اس بار بھی راتوں رات ٹیم اور قیادت میں تبدیلی کی بات کر رہے ہیں جو کہ ورلڈ کپ جیسے بڑے ایونٹ کے پیش نظر ممکن نہیں ہے جو کہ ورلڈ کپ جیسے بڑے ایونٹ کے پیش نظر ممکن نہیں ہے۔ پاکستانی کوئی میچ جیتنے پر کھلاڑیوں کو اپنے سروں پر بٹھاتے ہیں تو ہار پر تنقید کرنا جائز بنتا ہے۔ اس پر جز بز ہونے کے بجائے پی سی بی انتظامیہ اور ٹیم اپنا قبلہ درست کرے۔

    قومی ٹیم کی ناقص کارکردگی پر شائقین کرکٹ کے دل جلے ہوئے ہیں اور وہ موجودہ ٹیم پر تنقید کے ساتھ محمد عامر، سرفراز احمد، عماد وسیم کی ٹیم میں واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں جن میں سے شاید ہی کوئی پورا ہو لیکن میدان میں جب دو ٹیمیں اترتی ہیں تو جیت ایک کا ہی مقدر بنتی ہے، اگر میدان میں مقابلہ نظر آئے تو پھر شائقین اس ہار پر غصہ نہیں ہوتے بلکہ سپورٹ کرتے ہیں جس کی مثال 2011 ورلڈ کپ کا سیمی فائنل ہے جو روایتی حریف سے ہارے مگر میدان میں کھلاڑی مقابلہ کرتے دکھائی دیے۔

    ایک دوسرا مشورہ پی سی بی کے لیے ہے کہ ورلڈ کپ سر پر ہے اس لیے فوری بڑی تبدیلیاں تو ناممکن ہیں لیکن اب بھی ٹیم میں جس کا حق ہے اس کو کھلایا جائے اور جو ٹیم سے باہر مسلسل میدان میں کارکردگی دکھا رہے ہیں ان کو موقع دیا جائے تاکہ ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم تگڑی نظر آئے کیونکہ ایشیا کپ کے نتیجے نے ٹیم کا مورال یقینا گرایا ہے جسے درست فیصلوں اور اقدامات سے بحال کیا جاسکتا ہے۔

  • بھارتی کرکٹ بورڈ کو لگام کون دے گا؟

    بھارتی کرکٹ بورڈ کو لگام کون دے گا؟

    بھارتی کرکٹ بورڈ مالی طور پر نہایت مضبوط اور امیر ہونے کا ہمیشہ ناجائز فائدہ اٹھاتا اور من مانی کرتا ہی رہا ہے، لیکن پاکستان کے معاملے میں اس کی یہ من مانی متعصبانہ اور مخاصمت کی حد تک چلی جاتی ہے۔ یوں تو پاکستان کئی دہائیوں سے کرکٹ کے انتظامی میدان میں بھارت کے ہاتھوں مارا جارہا ہے، لیکن حال ہی میں پہلے ایشیا کپ کی میزبانی میں بھارت رخنہ اندازی سے اس کے بڑے اور اہم میچ سری لنکا منتقل کرانے میں کامیاب رہا اور پاکستان کے ہاتھ صرف چھوٹی ٹیموں کے چار میچز آئے اور جب ایونٹ شروع ہوا تو میزبان پاکستان کا نام کھلاڑیوں کی جرسی سے غائب دیکھ کر سب حیران ہوئے لیکن یہ بھی بھارتی کرکٹ بورڈ کی کارستانی تھی۔

    بھارت کی ہٹ دھرمی نے صرف پاکستان کو ہی نقصان نہیں پہنچایا بلکہ ایشیا کپ کا مزہ بھی کرکرا کر دیا ہے۔ پاک بھارت ٹاکرا بارش کی نذر ہوگیا جب کہ دیگر میچز بھی بارش سے متاثر ہو رہے یا ہو سکتے ہیں جس پر اب کرکٹ حلقے بھی آواز اٹھا رہے ہیں اور ایونٹ کے وینیو کولمبو سے تبدیل کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔

    پاکستان کرکٹ کے میدان میں ہو تو حریف کو ہمیشہ مشکلات میں مبتلا کرتا ہے اور ہار یا جیت سے قطع نظر کبھی تر نوالہ ثابت نہیں ہوتا لیکن جب آؤٹ آف فیلڈ انتظامی معاملات کی بات ہو تو پاکستان کرکٹ بورڈ ہمیشہ بھارتی کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کے ہاتھوں کلین بولڈ ہوتا رہتا ہے اور کوئی اس کی ناقص کارکردگی پر بات نہیں کرتا۔

    لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد پاکستان پر بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے بند ہوگئے تھے اور اس داغ کو دھونے کے لیے پاکستان نے بڑی جدوجہد کی اور طویل عرصے بعد اپنی ساکھ بحال کرنے میں کامیاب ہوا جس کے نتیجے میں بین الاقوامی کرکٹ شروع ہوئی۔ ٹاپ کرکٹ ٹیمیں آسٹریلیا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ سمیت تمام ٹیمیں علاوہ بھارت کے پاکستان کا کامیاب دورہ کر چکی ہیں۔ 16 سال کے طویل عرصے بعد جب پاکستان کو ایشیا کپ 2023 کی میزبانی ملی تو پاکستانیوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا کہ اپنی سرزمین پر بین الاقوامی کرکٹ ٹورنامنٹ دیکھنا ہر ملک کے عوام کی خواہش ہوتی ہے لیکن بھارت جو ہمیشہ کسی نہ کسی بہانے پاکستانی کرکٹ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا رہتا ہے پہلے ایشیا کپ میزبانی چھیننے کے لیے ہر اوچھا ہتھکنڈا استعمال کیا اور جب بس نہ چلا تو اپنی ٹیم کو ایشیا کپ کے لیے پاکستان نہ بھیجنے کا دوٹوک اعلان کر دیا۔

    سابق پی سی بی منیجمنٹ نے بھارت کو اس پر خوب لتاڑا لیکن بھارت پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔ ورلڈ کپ کے لیے قومی ٹیم کو بھارت نہ بھیجنے کی دھمکی بھی کارگر نہ ہوئی کیونکہ بھارتی بورڈ کو شاید پتہ تھا کہ پی سی بی کے لیے یہ بہت مشکل فیصلہ ہو گا اور وہ ایسا نہیں کرسکے گا۔ سابق چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی کی جانب سے ایشیا کپ کے بائیکاٹ پر پاکستان ٹیم ورلڈ کپ کے لیے نہ بھیجنے کی دھمکی کے بعد بھارت کے کرکٹ حلقوں اور میڈیا کی جانب سے دعوے کہ بھارت ایشیا کپ کے لیے پاکستان نہیں جائے گا جب کہ پاکستان لازمی ورلڈ کپ کے لیے بھارت آئے گا، سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انہیں پی سی بی کی حالت اور اس کی مجبوریوں کا اچھی طرح علم ہے۔

    جب ایشیا کپ کے یو اے ای میں انعقاد کی بات کی گئی تو یہاں بھی بی سی سی آئی آڑے آیا اور وہاں گرمی کو جواز بناتے ہوئے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے اسے سری لنکا منتقل کرایا۔ باوجود اس کے کہ ایونٹ کے دنوں میں سری لنکا میں شدید بارشیں ہوتی ہیں اور یہ پہلے ہی آگاہ کیا جا چکا تھا لیکن بی سی سی آئی نے دیگر بورڈز کو اپنا ہمنوا بنا کر ایونٹ کے تمام بڑے میچز سری لنکا منتقل کرائے تاکہ آئندہ آئی سی سی کی چیئرمین شپ کے لیے ایک ووٹ پکا کر سکے جب کہ احسان کرتے ہوئے نیپال اور افغانستان جیسی چھوٹی ٹیموں کے چار میچز پاکستان کو لالی پاپ کے طور پر دے دیے گئے لیکن بھارتی ہٹ دھرمی کا سلسلہ یہیں تک نہیں رکا بلکہ پاکستان کو نیچا دکھانے کے لیے بھارتی کرکٹ بورڈ کی فرمائش پر کھلاڑیوں کی جرسی سے لفظ پاکستان سرے سے غائب کر دیا۔

    کرکٹ کے ہر بڑے ٹورنامنٹ کی ہمیشہ یہ روایت رہی ہے کہ میزبان ملک کا نام اس ایونٹ میں شریک ہر ٹیم کے کھلاڑی کی جرسی پر لکھا ہوتا ہے خواہ وہ نیوٹرل وینیو پر ہی کیوں نہ کھیلا جائے لیکن پاکستان دشمنی میں بھارت اتنا آگے بڑھا کہ پہلی بار میزبان ملک کا یہ حق بھی چھین لیا۔ ایشین کرکٹ کونسل (اے سی سی) جس کے سربراہ جے شاہ خود بھارتی کرکٹ بورڈ کے عہدیدار اور بی جے پی وزیر کے بیٹے ہیں نے بی سی سی آئی کی فرمائش پر آنکھیں بند کرکے عمل کیا۔

    ایشیا کپ میں شامل ٹیموں کو بھارتی بورڈ کی ہمنوائی کا خمیازہ اب ٹورنامنٹ میں بارش کی وجہ سے میچز کے متاثر ہونے کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے اور اب تو خود بھارت میں بھی ایونٹ کے سری لنکا میں انعقاد کو غلط فیصلہ قرار دیا جانے لگا ہے۔ پاک بھارت میچ جس پر پوری دنیا کی نظریں لگی ہوتی ہیں اس کے ادھورا رہ جانے سے صرف شائقین کے دل ہی نہیں ٹوٹے براڈ کاسٹر کا کروڑوں کا نقصان بھی ہوا۔ مسلسل بارش سے اب تو اے سی سی حکام کے چہرے پر بھی ہوائیاں اڑ رہی ہیں۔

    ایشیا کپ کے فائنل سمیت سپر فور کے چار اہم میچز کولمبو میں شیڈول ہیں۔ اور سری لنکن دارالحکومت شدید بارشوں کی زد میں ہے۔ اطلاعات ہیں کہ ایونٹ کو بچانے کے لیے اب ایشین کرکٹ کونسل میچز کولمبو سے دمبولا یا پالی کیلے منتقل کرنے پر غور کر رہی ہے لیکن یہ مسئلے کا حل تو نہیں کیونکہ پالی کیلے کے میچز بھی بارش سے متاثر ہو رہے ہیں ایسے میں چیئرمین پی سی بی منیجمنٹ کمیٹی ذکا اشرف نے ایشین کرکٹ کونسل کے سربراہ جے شاہ سے رابطہ کر کے ایونٹ کے بقیہ میچز پاکستان میں کرانے کا مشورہ دیا ہے، ہونا تو یہ چاہیے کہ اے سی سی ایونٹ کے ساتھ اپنی عزت بچانے کے لیے اس مشورے پر مثبت ردعمل دے لیکن بھارتی کی تنگ نظری کے سبب یہ ممکن ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔

    بھارت کی یہ ہٹ دھرمی اور اس کی تنگ نظری آخر کب تک پاکستان اور ایشیا کی کرکٹ کو نقصان پہنچائے گی اور کب تک انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتی رہے گی، اب یہ سوچنا ہوگا کیونکہ بی سی سی آئی کو یہ کھلی چھوٹ دینا کرکٹ کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ وقت آگیا ہے کہ بھارتی کرکٹ بورڈ کو لگام ڈالی جائے۔ پاکستان تو اس بارے میں واضح ہے لیکن دیگر کرکٹ بورڈ بھی اب حوصلہ پکڑیں ورنہ یہ استحصال یوں ہی جاری رہے گا اور اگر آج اس کا نشانہ پاکستان کرکٹ ہے تو کل دوسرے ممالک ہوں گے، کیونکہ تکبر اور لالچ سرحدیں نہیں دیکھتا۔

  • چندریان 3اور ہم

    چندریان 3اور ہم

    ہمارے روایتی حریف اور ‘ازلی دشمن’ بھارت نے بھی چاند پر اپنے پاؤں پسار لیے ہیں۔ کل تک جو ملک اپنی فلموں میں محبوب کو چاند سے مشابہت دیتا تھا، آج حقیقت میں اس پر جا پہنچا ہے اور ایک ہم ہیں جن کی چاند سے محبّت سال میں صرف دو بار رمضان اور عید پر ہی نظر آتی ہے بلکہ اس موقع کو بھی چاند نظر آیا یا نہیں آیا کے جھگڑے کی نذر کر دیا جاتا ہے۔

    چاند ہمیشہ سے ہی زمین پر بسنے والوں کے لیے خاص اہمیت کا حامل رہا ہے۔ انسان کو چاند سے اتنا پیار ہے کہ وہ اپنی محبوب شخصیت کو چاند، چندا، چاند کا ٹکڑا پکارتا ہے۔ بچپن میں‌ اسے چندا ماموں کہنے والے یہ بھی سنتے رہے ہوں گے کہ وہاں ایک بڑھیا بیٹھی چرخہ کات رہی ہے اور یہ بھی کہ چاند پر پریاں رہتی ہیں لیکن شعور کی منزل پر پہنچے تو ہمیں چاند سے ماموں بھانجے کا رشتہ کہیں دکھائی نہیں دیا اور جب انسان نے وہاں قدم رکھے تو معلوم ہوا کہ وہاں نہ کوئی بڑھیا چرخا کات رہی ہے اور نہ ہی وہ پریوں کا مسکن ہے۔ وہاں آکسیجن نہیں‌ ہے بلکہ اس کی سطح پر چھوٹے بڑے گڑھے اور مٹی ہے لیکن تحقیق اور جستجو کرنے والوں کے لیے اس مٹی اور گڑھوں میں بھی بہت کچھ ہے۔

    آج زمین پر ترقی کی منازل طے کرنے کے بعد دنیا کے ممالک خلا کو تسخیر کر رہے ہیں۔ چاند پر امریکا، چین، روس پہلے ہی پہنچ چکے ہیں، اب ایران اور جاپان بھی ہمت پکڑ رہے ہیں لیکن ہم ہیں کہ خود کو ہی تسخیر کرنے میں لگے ہیں۔ دنیا سے مقابلہ کرنے کے بجائے ہم خود سے مقابلہ کررہے ہیں اور جانے انجانے میں اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں۔ چاند ہمارے لیے بھی اہم ہے لیکن کمند ڈالنے کے لیے نہیں بلکہ ہمارے اس کو چاہنے کے انداز کچھ اور ہیں۔ دنیا چاند پر پہنچ رہی ہے اور ہم اسی بات پر جھگڑ رہے ہیں کہ چاند ہوا یا نہیں ہوا، روزہ کب ہوگا اور عید کب۔ بعض اوقات رات گئے تک قوم کو اس آزمائش سے گزارا جاتا ہے۔ اب تو ہمارے لیے یہ بھی یہ باعثِ‌ تشویش ہے کہ چاند دشمن کے قبضے میں چلا گیا ہے اگر اس نے کوئی گڑبڑ کی اور اسے ہمارے کسی تہوار پر شرارتاً چھپا لیا تو ہم عید، بقرعید کیسے مناسکیں‌ گے اور بالخصوص رمضان پر چاند دیکھنے کے جھگڑے کا سالانہ شغل کیسے کریں گے؟

    ہمارے ‘دشمن ملک’ بھارت کا خلائی مشن چندریان 3 (چاند گاڑی) کے ذریعے کامیابی سے مکمل ہوگیا ہے لیکن کیا ہم اگلی چند دہائیوں میں‌ بھی ایسی کوئی کامیابی حاصل کر سکیں‌ گے؟

    دو ناکام مشن کے بعد بھارت کے چندریان 3 کی کامیابی اس کے عزمِ مسلسل کی علامت ہے لیکن ہمارا عزم دیکھنا ہو اور ترجیحات جاننا ہوں تو یہ بات کافی ہےکہ جس وقت بھارت اس کامیابی پر دنیا بھر سے تہنیتی پیغامات وصول کررہا تھا، عین اس وقت پاکستان کے سابق وزیراعظم شہباز شریف قوم کو بتا رہے تھے کہ شکر ہے تین ارب ڈالر کا قرض منظور ہو گیا اور اس پر ہمارے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار ’’الحمدللہ‘‘ کا ٹویٹ کر رہے تھے۔

    پاکستان اور بھارت دونوں نے ایک ساتھ ہی برطانیہ سے آزادی حاصل کی تھی لیکن کیا وجہ ہے کہ آج ہمارا روایتی حریف اور پڑوسی ملک چاند پر کمند ڈال چکا اور دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہے۔ دنیا کی تقریباً درجن بھر بڑی کمپنیاں جن میں مائیکرو سافٹ اور گوگل بھی شامل ہیں، ان کے سی ای او بھارتی شہریت کے حامل ہیں اور وہ اپنے ملک کے مفاد میں کمپنیوں کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ بات صرف عالمی شہرت یافتہ کمپنیوں کے اس عہدے تک ہی محدود نہیں، آج بھارتی نژاد شخصیات برطانیہ میں وزارتِ عظمیٰ اور سپر پاور امریکا میں نائب صدر کے عہدوں پر بھی متمکن ہیں۔ دوسری جانب ہم دنیا میں ایک بھکاری قوم اور مقروض ملک کے طور پر پہچانے جارہے ہیں۔ پاکستان کی پہچان صرف امداد مانگنے اور ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑے ملک، دہشتگردی، کرپشن کے ناسور میں لتھڑے سیاستدان اور اشرافیہ، سیاسی انارکی، معاشی ابتری ہی ہے۔

    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں اور کیسے بھارتیوں نے ان کمپنیز کو اپنے قابو میں کر لیا؟ اگر اس پر غور کیا جائے تو یہ چند برسوں‌ کی بات نہیں بلکہ دہائیوں کا قصہ ہے۔ ایک وقت تھا کہ پاکستانی معیشت، سماجی و معاشرتی ترقی، تعلیم، صنعت و حرفت میں بھارت سے آگے اور کئی شعبوں میں اس کا ہم پلہ تھا۔ ہماری کرنسی بھارتی روپے کے مقابلے میں دنیا میں معتبر سمجھی جاتی تھی۔ خلائی تحقیق کا ادارہ ’’سپارکو‘‘ تو بھارت سے 7 سال قبل 1961 میں پاکستان میں بن چکا تھا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ خلائی مشنز کے حوالے سے ہم بھارت سے پیچھے رہ گئے۔ وجہ یہ ہے کہ ہماری حکومتی پالیسیاں تبدیل ہونے لگیں۔ عوام کے بجائے حکمراں اور اشرافیہ کے ذاتی مفادات غالب آتے گئے۔ اغیار کے مفادات کا تحفظ ہونے لگا اور سیاست پر مخصوص طبقے کا قبضہ ہونے کے بعد عوام کو تعلیم سے دور رکھنے کی کوششوں نے ہمیں اس حال پر پہنچا دیا۔ آج ہم جس معاشی، سیاسی، معاشرتی ہیجان، تعلیم اور عوامی سہولتوں میں تنزلی کے جس موڑ پر کھڑے ہیں کیا اس کی ذمے داری بھارت پر عائد کی جاسکتی ہے؟

    تاریخ کا غیر جانبدار ہو کر مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ جس زمانے میں پاکستان کی ریاست امریکا کی جنگ کو اپنی جنگ قرار دے کر جوش وجذبے سے لڑ رہی تھی اسی دور میں انڈیا اپنی نوجوان نسل کے لیے ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ایک تعلیمی پالیسی تشکیل دینے میں‌ مصروف تھا۔ اسی دور میں‌ انڈیا میں آئی ٹی کے شعبے میں انقلاب کی بنیاد رکھی گئی اور آج وہ دنیا بھر میں آئی ٹی انڈسٹری پر چھائے ہوئے ہیں۔

    بھارت کی پاکستان دشمنی ایک حقیقت ہے۔ 1971ء میں پاکستان کو دو لخت کرنے والا بھارت آج بھی ہمارے ملک میں بدامنی پھیلانے اور دہشت گردی میں‌ ملوث ہے اور پاکستان کے خلاف سیاسی اور سفارتی سطح پر پروپیگنڈہ کرتا رہتا ہے، لیکن پاکستان کی جانب سے عالمی عدالت اور مختلف فورم پر بھارت کی ان کارروائیوں کے ثبوت پیش کرنے کے بعد بھی دنیا اس پر کان کیوں نہیں دھر رہی اس پر ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔

    دنیا کا بھارت کے ہر منفی اقدام سے نظریں چرانے کی وجہ اس کی مضبوط معیشت اور دنیا میں اس کا بڑھتا اثر و رسوخ ہے۔ بھارت اپنی نئی نسل کو طب، سائنس، زراعت، صنعت و حرفت غرض ہر شعبہ ہائے حیات میں نئی دنیائیں مسخر کرنے کے لیے صلاحیتوں سے مالا مال کر رہا ہے اور دوسری جانب ہمارے سیاستدان اور اشرافیہ انہیں دلفریب نعروں سے مدہوش کیے دے رہے ہیں اور حکومت میں آنے کے بعد انہی کو فراموش کر دیتے ہیں۔ آج ہمارے ملک میں تعلیم کی ترجیح کا حال یہ ہے کہ ہم اپنی جی ڈی پی کا لگ بھگ صرف 1.7 فیصد اس پر خرچ کرتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں‌ کا حال یہ ہے کہ دنیا کی ہزار بہترین جامعات میں پاکستان کی صرف چار یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ اسلامی جمہوریہ میں مسلمان قوم اس شعر کی جیتی جاگتی مثال بن چکی ہے:

    حیرت ہے تعلیم و ترقی میں ہے پیچھے
    جس قوم کا آغاز ہی اقرا سے ہوا تھا

    حکومت اور سیاست کو چھوڑیں ہم تو انفرادی حیثیت میں بھی گراوٹ کا شکار ہیں، جو بھارت کو اپنا دشمن ملک مانتے ہیں لیکن بولی وڈ اسٹارز ہمارے آئیڈل ہیں اور ان کا فیشن اور ان کے انداز اپنانے میں شرم محسوس نہیں کرتے لیکن اسی ملک میں جب سائنس یا طب کے شعبے میں ترقی ہوتی ہے تو ہم اسے دشمن ملک کہہ کر نظر انداز کر دیتے ہیں، کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ دشمنی کے جذبے کو ایک طرف رکھ کر ہم ایسی مثال بننے والے افراد کو اپنا آئیڈل بنا لیں؟

    اس صورتحال سے نکلنے کے لیے ہمیں بھارت سے مقابلہ تو جاری رکھنا ہوگا مگر ترجیحات تبدیل کر کے، اس مقابلے کو روایتی بیان بازی کے ساتھ اپنے قیمتی وقت، پیسے اور توانائی کے ضیاع کے بغیر خاص شعبے میں جاری رکھنا ہوگا اور یہ تعلیم کا شعبہ ہوسکتا ہے۔ اس میدان میں روایتی حریف کو پچھاڑنے کے لیے ہمیں عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ اگر ہم نے یہ کرلیا تو بھارت کیا دنیا کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔

    شاعرِ مشرق نے نوجوانوں کو اپنے اس شعر میں‌ جستجو اور لگن کے ساتھ آگے بڑھتے رہنے کا پیغام دیا تھا۔

    ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
    ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

  • کیاواقعی پی ڈی ایم اتحاد نے پاکستان کو تاریخ کی بدترین پارلیمنٹ دی؟

    کیاواقعی پی ڈی ایم اتحاد نے پاکستان کو تاریخ کی بدترین پارلیمنٹ دی؟

    کثیر جماعتی سیاسی اتحاد المعروف پی ڈی ایم پر مشتمل حکومت سولہ ماہ بعد تحلیل کر دی گئی۔ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب صدرِ مملکت نے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط کیےاور یوں شہباز شریف کی سربراہی میں پی ڈی ایم کا دورِ اقتدار ختم ہوا ۔ تاہم نگراں وزیراعظم کا اعلان ہونے تک شہباز شریف ہی اس منصب پر فرائض انجام دیتے رہیں گے۔

    اتحادی حکومت 13 جماعتوں پر مشتمل تھی جس کی بظاہر قیادت شہباز شریف نے کی اور ان کی حکومت نے کوئی قابلِ ذکر کام کیا یا نہیں، لیکن کچھ ریکارڈ ضرور بنائے اور توڑے بھی ہیں۔ اگر بات کریں حکومت اور پارلیمنٹ کی کارکردگی کے بارے میں تو صرف شاہد خاقان عباسی کا حالیہ بیان ہی بہت کچھ عیاں کردے گا۔ سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے اس مرکزی راہ نما نے اسمبلی تحلیل ہونے سے قبل اسے پاکستان کی تاریخ کی بدترین پارلیمنٹ قرار دیا اور یہ بھی کہا کہ خدا کا شکر ہے آج اس اسمبلی سے نجات مل جائے گی۔ جب حکومتی اتحاد کی ایک بڑی جماعت کا اہم رکن یہ کہے تو 16 ماہ تک اس اتحادی حکومت نے جس قوم کے حال اور مستقبل کے فیصلے کیے ہوں، اس کے جذبات اور خیالات کیا ہوں‌ گے، یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں‌۔

    شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب بھی رہے اور اپوزیشن لیڈر بھی۔ بحیثیت وزیراعلیٰ وہ ایک اچھے منتظم رہے۔ اس عرصہ میں قوم نے ان کا جوشِ خطابت بھی دیکھا جس میں آئے روز وہ مائیک گراتے اور توڑتے رہے۔ وزیراعظم پاکستان بننے کے بعد شہباز شریف نے کچھ ایسا ہی کام ایک مختلف انداز میں کیا۔ بحیثیت وزیراعظم انھوں نے متعدد ریکارڈ بنائے اور چند سابق ریکارڈ توڑےہیں۔

    پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ جسے ہم صرف پی ڈی ایم کہنےاور لکھنے پر اکتفاکرتے ہیں، اس کی اتحادی حکومت شاید دنیا کی واحد حکومت ہو جودو چارنہیں بلکہ 13 سیاسی جماعتوں پر مشتمل تھی اور اس میں ‘اِدھر اُدھر’ کی جماعتوں کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ کمزور ترین معیشت کے ساتھ حکومت سنبھال کر دنیا کی طویل ترین کابینہ بنانے کا ریکارڈ بھی شہباز شریف نے بنایا۔ ان کی کابینہ 83 اراکین پر مشتمل رہی جن پر نوازشات یوں کی جاتی رہیں کہ درجن سے زائد وزیر، مشیر بے محکمہ وزارتوں کے مزے لوٹتے رہے۔ اسی حکومت میں مہنگائی نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ ساتھ ہی پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے پر عوام کے ایک طبقے نے اس اتحادی حکومت سے جو امیدیں وابستہ کر لی تھیں وہ بھی ٹوٹ کر بکھر گئیں۔

    پی ٹی آئی دور میں کمر توڑ مہنگائی پر عوام سے ہمدردی جتانے والی سیاسی جماعتیں اور اس مہنگائی کے خاتمے کا عزم کر کے آنے والی انہی جماعتوں پر مشتمل پی ڈی ایم حکومت نے گزشتہ سال اپریل میں جب اقتدار سنبھالا تو مہنگائی کا ایسا چاند چڑھا کہ عوام کو جیسے زندہ درگور ہی کر دیا۔ اس دور حکومت میں‌ مہنگائی نے اپنے تمام سابق ریکارڈ توڑ دیے۔ یہ ایسی جادوگر حکومت رہی کہ جیسے جیسے عوام پر شکنجہ کستا رہا ویسے ویسے ان پر مشکلات کی گرفت کمزور ہوتی رہی۔ یہ حکومت عملی طور پر ایک مشہور واشنگ پاؤڈر کا چلتا پھرتا اشتہار نظر آئی کہ جس میں داغ بھی اچھے اور جب وہ اس میں دھلیں تو غائب بھی ہوجائیں۔ انجام کار یہی ہوا کہ وہ لوگ جن پر اس حکومت کے قیام سے قبل فرد جرم عائد ہونے کے قریب تھی حکومت کے خاتمے تک لانڈری سے بے داغ ہو کر نکل گئے۔

    عوام کو یہ حکمراں جہاں دیگر حوالوں سے یاد رہیں گے وہیں ایسے ناقابل عمل نعروں اور بیانات پر بھی شہباز شریف کو مدتوں یاد رکھا جائے گا جیسا کہ عوام کو اپنے کپڑے بیچ کر سستا آٹا دیں گے لیکن اس کے بعد آٹے نے وہ اڑان بھری کہ عوام کے کپڑے اتر گئے اور لوگ اس آٹے کو پانے کے لیے لمبی قطاروں میں لگ کر مرنے لگے۔

    تحلیل کردہ حکومت نے اپنی پوری مدت کے دوران دنیا کے سامنے کاسۂ گدائی پھیلائے رکھا جس کا برملا اظہار وزیراعظم شہباز شریف نے ایک تقریب میں اپنے خطاب کے دوران ان جملوں سے کیا تھاکہ ’’جب بھی آتا ہوں تو آپ سمجھتے ہیں کہ یہ پھر مانگنے آگیا، میں مانگنے نہیں آیا، لیکن کیا کروں مجبوری ہے، آپ نے پہلے بھی ہماری مدد کی ہے آج بھی مدد کر دیں، وعدہ کرتا ہوں کہ قوم دن رات ایک کر کے آپ کا یہ پیسہ واپس کر دے گی۔‘‘ اور اسی نوع کی دیگر تقاریر اور بیانات بھی منظر عام پر آتے رہے جس میں انگریزی کی کہاوت بیان کرتے ہوئے ان کا ایک بیان ہماری غیرتِ ملّی پر کسی تازیانے سے کم نہیں‌ تھا کہ بھکاریوں کو انتخاب کا حق نہیں ہوتا (beggars can’t be choosers)۔

    کون کہتا ہے کہ پی ڈی ایم کی 16 ماہ کی اتحادی حکومت نے ریلیف نہیں دیا اور کسی نے قربانی نہیں دی۔ اس حکومت میں قربانی بھی دی گئی اور ریلیف بھی۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمیشہ قربانی کا بکرا عوام بنے اور چھری ان پر ہی چلی جب کہ ریلیف حکمرانوں اور ان کے خاندانوں کا مقدر بنا۔ اتحادی حکومت کی سب سے بڑی کارکردگی اپنے مقدمات ختم کرانا رہی۔ نیب قوانین میں تبدیلی سے فائدہ اٹھانے والوں میں آصف علی زرداری سب سے آگے رہے جب کہ نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز کے ساتھ ایک طویل فہرست ہے جو اس سے مستفید ہوئی اور توشہ خانہ کے نیب ریفرنسز، میگا منی لانڈرنگ سمیت درجنوں کیسز ختم کر کے داخلِ دفتر کر دیے گئے۔ حکومت کے جاتے جاتے شریف خاندان کو بڑا ریلیف یہ بھی ملا کہ نیب عدالت میں کیس زیر سماعت ہونے کے باعث شہباز شریف، حمزہ، سلیمان اور دیگر کی جو جائیدادیں منجمد تھیں وہ ریلیز کر دی گئیں۔

    حکومت پر اعتماد کا یہ عالم رہا کہ اپنے حق میں ہونے والی قانون سازی اور بھائی کے وزیراعطم ہونے کے باوجود نواز شریف دبئی اور سعودی عرب تو آتے جاتے رہے لیکن پاکستان نہ آسکے۔ پارٹی راہنماؤں‌ سے سوال کرنے پر تاریخیں تو دی گئیں لیکن واپسی نہ ہوئی۔

    اس حکومت کے سوا سالہ دور میں ملک شدید معاشی بحران کا شکار رہا اور اس کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ تھا جس کا اظہار خود وزیراعظم اور کابینہ کے اراکین کرتے رہے لیکن اس عرصہ میں‌ بھی حکومتی اراکین اور زعما نے سرکاری خرچ پر بیرونِ ملک درجنوں‌ دورے کیے اور سنا گیا کہ بعض دوروں میں‌ خاندانوں اور دوستوں کو نوازا گیا۔ فضل الرحمان، مریم نواز، آصفہ بھٹو کوئی سرکاری عہدہ نہ رکھتے ہوئے بھی کئی سرکاری دوروں میں شامل رہے۔ اسی بدترین معاشی بحران سے دوچار ملک پر حکومت کے آخری دنوں‌ میں الیکشن مہم چلاتے ہوئے ممبران اسمبلی کے لیے اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبوں کی منظوری، فنڈز کا اجرا تک کیا گیا حد تو یہ ہے کہ جس ملک میں غریب کو ایک وقت کی روٹی بمشکل میسر ہے اسی ملک کے ایوانوں میں موجود غریبوں‌ سے ہمدردی کا ڈراما رچانے والے اراکین پر آخری روز قوم کا پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا اور ان کے لیے شاہانہ انداز میں ضیافت کا اہتمام کیا گیا۔

    اگر پی ٹی آئی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنا دور حکومت مخالفین کو چور ڈاکو اور نہیں چھوڑوں گا کے نعرے لگاتے گزارا تو یہ حکومت بھی سوا سال گھڑی چور کا بیانیہ لے کر اس کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتی رہی اور اسی بیانیے میں اپنے اپنے دور اقتدار کے بڑے بڑے تحائف کو چھپا لیا۔

    پی ڈی ایم حکومت میں بھی بیرونِ ملک بیٹھ کر فیصلے کرنے کی ہماری روایت قائم رہی اور لندن کے بعد دبئی میں بھی نشتیں‌ ہوتی رہیں جس کو اپوزیشن نے دبئی پلان کا نام دیا۔ آئین اور قانون شکنی کی بدترین مثال قائم کی۔ پنجاب اور کے پی میں الیکشن 90 دن میں نہیں ہوئے 8 ماہ ہونے کو آئے غیر آئینی طور پر دونوں صوبوں میں نگراں حکومتیں قائم ہیں۔ عدالت کی جانب سے دو مرتبہ الیکشن کرانے کے احکامات کو بھی حکومت نے اہمیت نہ دی۔

    آئندہ چند روز میں نگراں حکومت اقتدار سنبھال لے گی تاہم یہ افواہیں بھی گردش میں‌ ہیں‌ کہ نگراں حکومت کا اقتدار پنجاب اور کے پی کی طرح طویل ہوسکتا ہے اور ان باتوں کو تقویت اس سے مل رہی ہے کہ حکومت نے اپنی مدت ختم ہونے سے چند روز قبل ہی نئی مردم شماری کی منظوری دی ہے جب کہ سابق وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے اراکین نئی مردم شماری کے مطابق الیکشن کرانے کے بیانات دیتے رہے ہیں۔ گو کہ گزشتہ روز سینیٹ میں بروقت الیکشن کرانے کی قرارداد اتفاق رائے سے منظور کی گئی ہے لیکن سیاسی بصیرت رکھنے والے کہتے ہیں‌ کہ یہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور والا معاملہ ہے۔

    حکومت کے ساتھ ہی پی ڈی ایم کا اتحاد بھی ختم ہوگیا ہے۔ ن لیگ جو سالوں سے لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری، سزا اور نا اہلی کے ساتھ پی ٹی آئی کی سیاسی سرگرمیوں پر غیر علانیہ پابندی سے لگتا ہے کہ اس کو کچھ زیادہ ہی لیول پلیئنگ فیلڈ مل گئی ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ انتخابات (اگر ہوئے تو) اس میں ن لیگ کتنا فائدہ اٹھاتی ہے کیونکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ڈرائیونگ سیٹ پر ہونے کے باعث پی ڈی ایم حکومت کی ساری ناکامی اسی کے کھاتے میں پڑی ہے اور عوامی غیظ وغضب کا نشانہ بھی بن سکتی ہے۔ اس سارے کھیل میں پیپلز پارٹی محتاط رہی اور سوا سال میں عوام سے براہ راست تعلق نہ ہونے والی وزارتیں لے کر حکومت کے مزے بھی اڑائے اور اپنے آگے کے کانٹے بھی صاف کیے۔

  • چور بازاری کی خوگر قوم  کی چاہت تو دیکھیے!

    چور بازاری کی خوگر قوم کی چاہت تو دیکھیے!

    گزشتہ دنوں بچے کی نصابی کتب کے لیے اردو بازار جانا ہوا معلوم ہوا کہ مطلوبہ کتابیں کئی ماہ سے مارکیٹ میں نہیں آ رہیں، تعلیمی سال ضائع ہوجانے کے ڈر سے سیکنڈ ہینڈ (پرانی) کتابیں معلوم کیں تو وہ بھی ندارد۔ لیکن کہتے ہیں نا کہ تلاش کرنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے تو ہمیں بھی ایک دکان پر مطلوبہ کتابیں قدرے بوسیدہ لیکن قابلِ استعمال حالت میں مل گئیں۔ مگر قیمت ان کی نئی کتابوں سے بھی کہیں زیادہ تھی۔ دکان دار نے ہماری مجبوری دیکھتے ہوئے منہ مانگے دام وصول کیے اور پھر بھی کتابیں اس طرح ہمارے حوالے کیں جیسے ہم پر احسان کیا ہو۔ ایسے میں جہاں ہمیں اپنی کم مائیگی کا احساس ہوا وہیں معاشرے میں رائج چور بازاری (جس کو عرف عام میں بلیک مارکیٹنگ کہا جاتا ہے) مزید آشکار ہو گئی اور اچانک یہ خیال آیا کہ عوام کی ان عمومی اعمال کے ساتھ وطنِ عزیز میں ایمان دار قیادت اور حکمرانوں کی چاہت ہماری بے جاخواہش تو نہیں!

    یہ کوئی خاص نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کا عمومی رویہ ہے۔ کوئی تہوار ہو یا غیر معمولی اور ہنگامی حالت، جس شخص کا جس چیز پر بس چلتا ہے اس میں اپنے لیے زائد و ناجائز منافع کی راہیں ہموار کر لیتا ہے۔ یوں وہ چور بازاری شروع کر دیتا ہے۔ جن یورپی اور مغربی ممالک کے نظام کو ہم ‘کافرانہ نظام’ کہتے نہیں تھکتے وہاں یہ حال ہے کہ ان کی مذہبی اکثریت کے تہوار جیسے کرسمس، ایسٹر وغیر تو ایک طرف مسلمانوں کا بڑا تہوار عید ہو یا سب سے مقدس مہینہ رمضان وہاں حقیقی معنوں میں ریلیف دیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے تہوار کی مناسبت سے ضروری اشیاء کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی جاتی ہے تاکہ ان کے معاشرے کا ہر فرد خوشی حاصل کر سکے۔

    ہمارا ملک پاکستان جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا وہاں اس کے برعکس صورتِ حال ہوتی ہے۔ غیر مسلموں کو تو چھوڑیں مسلمانوں کے تہوار عیدین، شبِ براْت اور محرم جیسے میں بھی چشمِ فلک نے یہ منظر نہیں دیکھا کہ اس مناسبت سے اشیاء کی فروخت کے لیے رعایتی اسٹال سجائے گئے ہیں اور دکانوں پر قیمتوں میں نمایاں کمی کی گئی ہو یا منافع کم کر دیا گیا ہو۔ یہ تہوار تو ناجائز منافع خوروں کے لیے گویا ایک نادر موقع ثابت ہوتے ہیں اور ان کی چاندی ہوجاتی ہے اور رعایتی سیل کے بجائے ‘لوٹ سیل’ ہر جگہ نظر آتی ہے۔ رمضان المبارک کے تقدس کا سب سے زیادہ خیال تو ہمارے پھل فروش رکھتے ہیں جو پھلوں کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کر دیتے ہیں جس کے سبب اس مہنگائی کے دور میں کئی گھرانے اب قدرت کی ان نعمتوں سے محروم رہنے لگے ہیں۔

    چند سال قبل ہیٹ اسٹروک کی صورت میں کراچی کے عوام نے گرمی کا جو عذاب سہا اور سیکڑوں جانیں ضائع ہوئیں جب کہ کورونا کی وبا نے بھی پاکستان کو متاثر کیا، تاہم اس میں بھی ناجائز منافع خوری عروج پر تھی اور جب اس کی وجہ سے المیے رقم ہورہے تھے تو ہم نے انسان کی پستی کا وہ عالم دیکھا کہ جب کفن اور قبر بھی مال و زر کی ہوس اور ناجائز منافع خوری کی نذر ہوگئی۔ قبریں کئی ہزار روپے میں فروخت کی گئیں اور کفن کی بھی منہ مانگی قیمتیں وصول کی گئیں جس سے ہماری ایمانداری کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

    ہمارے معاشرے کا یہ عام چلن ہوچکا ہے کہ مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد جن میں عام کاروباری افراد نجی و سرکاری ملازمین و دیگر لوگ شامل ہوتے ہیں جب کسی ہوٹل یا تقریب میں اکٹھے ہوں اور گپ شپ کر رہے ہوں تو سب مل کر ملک میں رائج بے ایمانی، کرپشن کا رونا روتے ہیں اور تمام برائیوں کی جڑ بے ایمان کرپٹ حکمرانوں کو قرار دیتے ہوئے نیک دل اور ایماندار حکمرانوں کی خواہش کرتے ہیں اور جب وہ دل کی بھڑاس نکال کر اپنے اپنے کاموں پر واپس جاتے ہیں تو سب نہیں لیکن ان میں سے ایک بڑی تعداد کسی نہ کسی شکل میں کوئی غیرقانونی، ناجائز، دھوکہ دہی پر مبنی کام یا عمل ضرور کررہی ہوتی ہے۔ اگر کاروبار کی بات کریں تو انہی میں سے کوئی دودھ میں پانی ملاتا اور کیمیکل سے اسے گاڑھا کرتا ہے تو کوئی مرچ مسالوں میں ملاوٹ کرکے اپنی جیب بھاری کرنے کے ساتھ مستقبل میں اسپتالوں کے ذرائع آمدن بڑھانے کا بھی سامان کرتا ہے۔ مصنوعی طریقے سے پھلوں کی مٹھاس، مہنگے داموں فروخت، ناپ تول میں کمی، دفاتر میں کام سے زیادہ گپ شپ اور ایسے کئی قابل گرفت کام ہیں جو گنوائے جاسکتے ہیں اور یہ سب خیانت، دھوکے بازی اور قانونی اور اخلاقی جرم ہیں۔ ایسے میں تو یہ بات بالکل درست معلوم ہوتی ہے جو ہم اکثر سنتے ہیں کہ ’’اس ملک میں شریف صرف وہی ہے جس کو موقع نہیں ملتا۔‘‘

    اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا لیکن اس کا مطلب صرف نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی ادائیگی نہیں بلکہ یہ تھا کہ اپنی زندگیوں کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنا اور دنیا کو دکھانا تھا کہ یہ ہے اصل اسلام اور ایسے ہوتے ہیں مسلمان لیکن آج صرف نام کی مسلمانی باقی رہ گئی ہے۔ ہم نے صرف اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے اور اپنے دین اور اسلاف کی معاشرت اور اس کے سب اصولوں کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ ہم صرف زیادہ سے زیادہ کمانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں اور تمام اخلاقی حدود کو پار کر چکے ہیں۔

    شاید ایسے ہی نام کے مسلمانوں کے لیے حضرت اقبال ایک صدی قبل یہ ارشاد فرما گئے کہ

    ہر کوئی مست مے ذوقِ تن آسانی ہے
    تم مسلماں ہو؟ یہ اندازِ مسلمانی ہے؟
    حیدری فقر ہے، نے دولت عثمانی ہے
    تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے؟
    وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
    اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

    آج یہ حالت ہوچکی ہے کہ دنیا بھر میں گرین پاسپورٹ بے وقعت ہوتا جا رہا ہے اور پاکستانی قوم دنیا میں شک کی نظر سے دیکھی جاتی ہے کیونکہ ہماری اکثریت دنیا بھر میں رائج تمام دو نمبری اپنے اندر سمو چکی ہے اور ایسے کاموں میں ہم استاد ہوچکے ہیں ، ہمارے کاموں سے لگتا ہے کہ دو نمبری ہمارا قومی وظیفہ ہے۔ کوئی ہماری اس خاصیت کا ذکر کرے تو اس پر ہم شرمانے کے بجائے فخر کرتے ہیں۔ ہماری دھوکا دہی کی عادت کی وجہ سے بیرون ملک گرین پاسپورٹ کی کیا عزت ہے اس کا اندازہ حالیہ سروے میں ہوتا ہے جس میں پاکستانی پاسپورٹ کو دنیا کس چوتھا کمزور ترین پاسپورٹ قرار دیا گیا ہے اور وجہ سب پر عیاں ہے۔

    ہم تو وہ قوم بنتے جا رہے ہیں جو بیرون ملک تو حلال خوراک کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں لیکن پاکستان میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو دھوکے سے صریحاً حرام خوراک مردہ مرغیوں اور بکرے کا ظاہر کر کے گدھے اور کتے کا گوشت تک کھلانے سے گریز نہیں کرتے۔ جو مردہ مرغیوں سے بھرے ٹرک، گدھے اور کتے کا گوشت بیچتے ہیں یہ کوئی بیرونی دنیا یا کسی کافر ملک سے نہیں آتے نہ ہی حکمراں کرتے ہیں بلکہ اسی دیس کے رہنے والوں اور حکمرانوں کے لیے چور لٹیروں کی تسبیح پڑھنے والوں کے کارنامے ہوتے ہیں۔

    ہماری بے ایمانی اور چور بازاری صرف کھانے پینے کی حد تک نہیں بلکہ صحت کا شعبہ بھی اس سے آلودہ ہے۔ دو نمبر دوائیں مارکیٹ میں عام مل جاتی ہیں۔ جعلی اسٹنٹ، گردے نکال لینا یہ عام بات ہوچکی ہے۔ ہماری تو عبادتیں بھی ریا کاری سے پُر ہوچکی ہیں یہی وجہ ہے کہ دنیا میں عمرہ اور حج زائرین میں دوسرے نمبر پر آنے والا ملک ایمانداری میں بدترین ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔

    آج ہم دھوکا دہی اور ہر برا کام کرتے ہیں اور پھر چاہتے ہیں کہ اللہ کی رحمتیں ہم پر نازل ہوں، ہمیں ایماندار حکمراں ملیں لیکن یہ خواہش کرنے سے قبل ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ حکمراں کوئی آسمان سے نہیں اترتے بلکہ معاشرے سے ہی نکلتے ہیں اور جب پورا معاشرہ ہی کرپٹ ہو تو پھر اس میں ایمانداری کی چاہت کو دیوانے کا خواب ہی کہا جا سکتا ہے۔

    شاعر مشرق نے اپنی قوم کو خوابِ غفلت سے جگانے کے لیے کہا تھا کہ

    اپنے من مین ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
    تو اگر میرا نہ بنتا نہ بن اپنا تو بن

    اسلامی تعلیمات بتاتی ہیں کہ خدا بھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتا، جب تک اسے خود اپنی حالت کے بدلنے کا خیال نہ ہو۔ ہم دنیا کو بدلنا چاہتے ہیں لیکن کبھی خود کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتے۔

    مفسرین کہتے ہیں قرآن میں اللہ نے جتنا کائنات کو تسخیر کرنے اور اس پر غور و فکر کرنے کا حکم دیا ہے اتنا ہی اپنے باطن میں جھانکنے اور اپنا محاسبہ کرنے کا بھی حکم دیا ہے کیونکہ کائنات کو تسخیر کرنے سے زیادہ مشکل کام خود کو تسخیر کرنا ہے۔ تبدیلی اندر سے ہی آتی ہے۔ اگر کسی نے خود کو تسخیر کر لیا تو اس نے دنیا کو بھی تسخیر کر لیا اور کوئی اپنے باطن کو درست نہ کر سکا تو اس کی ظاہری کامیابی عارضی تو ہوسکتی ہے لیکن دائمی نہیں۔ اور ایسے لوگوں کو کوئی حق نہیں کہ معاشرے میں تبدیلی کی بات کریں اور اپنی بیٹھکوں میں صرف حکمرانوں یا کسی خاص طبقے کو اس کا ذمہ دار ٹھہرائیں۔

    کسی شاعر نے کہا ہے کہ

    اگر اپنے دل پر نہیں حکمراں
    مسخر ہو کس طرح سارا جہاں

  • مہنگائی’’ملکی مفاد‘‘ میں، عوام جائیں بھاڑ میں!

    مہنگائی’’ملکی مفاد‘‘ میں، عوام جائیں بھاڑ میں!

    پاکستانیوں کی اکثریت غریب و متوسط طبقے پر مشتمل ہے جو ہر روز مہنگائی کے بوجھ تلے دبتے جارہے ہیں۔ منگل کو حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں یک دَم لگ بھگ 20 روپے کا اضافہ کردیا۔ اس کا اعلان وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے کیا اور اس دھماکے دار اعلان کے اختتام پر یہ کہہ کر گویا حاتم طائی کی قبر پر لات مار دی کہ ملکی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے ’’کم سے کم‘‘ اضافہ کیا جا رہا ہے۔

    پاکستانیوں کو عرصۂ دراز سے بالخصوص موجودہ دورِ حکومت میں کسی روز راحت اور چین کی نیند نصیب نہیں ہوئی اور اس بے سکونی کو حکمراں طبقہ آئے روز مہنگائی میں اضافہ کر کے مزید بڑھا ہی رہا ہے۔ مہنگائی سے بے حال عوام چند دن قبل ہی بجلی کی قیمتوں میں شتر بے مہار اضافے اور جلد گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کی خبر سے پہلے ہی پریشان تھے کہ ان پر ’’ملکی مفاد‘‘ میں پٹرول بم گرا دیا گیا۔ یہ جانے بغیر کہ غریب آدمی اس قدر مہنگائی میں کس طرح زندگی کی گاڑی کو گھسیٹ سکتا ہے۔

    قصور ہمارے حکمرانوں کا بھی نہیں۔ ان کا تعلق اس طبقے سے ہے ہی نہیں جہاں چند ہزار کمانے والا اپنی جیب سے آٹا، تیل، گھی، چینی، پٹرول خریدتا، ٹرانسپورٹ کے بڑھتے کرائے برداشت کرتا، صرف ایک بلب اور پنکھا جلا کر ہزاروں روپے بل دیتا ہے۔ بیمار ہو جائے تو حسبِ استطاعت اپنے ہی خرچ پر علاج کراتا اور جب یہ بھی دستیاب نہ ہو تو صبر کے گھونٹ پی کر موت کا انتظار کرنے لگتا ہے۔ ہمارے حکمراں طبقے کا تعلق تو اس اشرافیہ سے ہے جن کی تنخواہ تو لاکھوں میں لیکن نہ انہیں بجلی، گیس، فون کے بلوں کا جھنجھٹ برداشت کرنا پڑتا ہے نہ علاج کے لیے فکر مند ہونا پڑتا ہے کیونکہ غریبوں کے پیسوں پر یہ مراعات انہیں مفت میں حاصل ہیں۔ تو جب درد ہی نہ ہو تو درد کا احساس کیونکر ہوگا۔

    پرانے پاکستان کے داعی حکمرانوں نے جس حساب سے بجلی کی قیمت بڑھائی ہے لگتا ہے کہ عوام کو جلد ہی قدیم پاکستان یعنی لالٹین والے دور میں لے جائے گی کیونکہ بجلی کی قلت پہلے ہی ہے۔ اس پر مہنگی بجلی نے مرے کو سو دُرّے اور لگا دیے ہیں۔ یاد پڑتا ہے کہ ہمارے بچپن میں ٹی وی پر ’’میرے گاؤں میں بجلی آئی ہے‘‘ کے عنوان سے اشتہار چلتا تھا اور حقیقت تھی کہ جب کہیں بجلی آتی تھی تو لوگ ٹمٹاتا پیلا بلب دیکھنے کے لیے دور دور سے آتے تھے اور یہ خواہش کرتے تھے کہ کبھی ہمارے گھر آنگن بھی اس سے منور ہوں گے۔ اگر انہیں یہ معلوم ہو جاتا کہ مستقبل میں ان کے بچّے بجلی کے بل دیکھ کر ذہنی مریض بن جائیں گے یا خودکشی پر مجبور ہوں گے تو کبھی وہ یہ خواہش دل میں نہ پنپنے دیتے۔ آج غریب تو کیا تیزی سے ختم ہوتا متوسط طبقہ بھی بجلی کا بل دینے اور سولر لگوانے کی سکت نہیں رکھتا تو ایسے میں وہ کرے تو کیا کرے۔

    ایک جانب حکومت ملک بھر میں لیپ ٹاپ تقسیم کرکے اپنی انتخابی مہم چلا رہی ہے تو دوسری جانب جس سے یہ لیپ ٹاپ چلے گا یعنی بجلی اس کو تین سے ساڑھے سات روپے فی یونٹ مہنگا کر کے خود ہی عوام کی دسترس سے دور کر رہی ہے۔ اس عالم میں‌ نوجوان کیسے تعلیم یافتہ بنے گا اور ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکے گا۔ پی ڈی ایم حکومت کے وزیر اعظم سمیت تمام نمائندے عوام کی حالت زار پر اپنی ہر تقریر میں پی ٹی آئی کی حکومت پر لعن طعن ایسے کر رہے کہ جیسے انہوں نے اپنے ڈیڑھ سالہ دور میں ملک میں عوام کے لیے دودھ اور شہد کی نہریں بہا دی ہوں جب کہ اس کے برعکس اس حکومت نے جو روکھی سوکھی غریبوں کو دستیاب تھی وہ بھی ان سے چھین لی ہے۔

    وزیر اعظم شہباز شریف اپنی ہر تقریر میں ملک کے موجودہ بدترین معاشی حالات کی تمام تر ذمے داری پی ٹی آئی حکومت پر ڈالنے کے بعد یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ’ہمیں ملک بہت بری حالت میں ملا، ڈیفالٹ کا خطرہ تھا راتوں کو نیند نہیں آتی تھی اگر ڈیفالٹ کر جاتا تو قیامت تک میرے چہرے پر دھبا لگ جاتا، ناک رگڑ رگڑ کر آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا‘ اگر یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہیں تو پھر اس نازک ترین معاشی صورتحال میں بھی حکمرانوں اور اشرافیہ کی شاہ خرچیاں اور عیاشیاں کیوں ختم نہیں ہو رہیں؟

    دو ماہ قبل سینیٹ چیئرمین (سابق، موجودہ اور آئندہ) کی مراعات میں اضافے سے عوام کے زخموں پر کم نمک چھڑکا تھا کہ دیوالیہ اور معاشی بدحالی کے ترانے پڑھتی حکومت کے دور میں پنجاب کی بیورو کریسی کو کروڑوں کی نئی گاڑیاں دینے کی منظوری دے دی گئی اور اس کے لیے آناً فاناً 3 ارب 20 کروڑ روپے بھی جاری کر دیے گئے۔ وزیراعظم یہ بھی کہتے ہیں کہ خدا کا شکر ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوگیا اور ملک ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا لیکن وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ آئی ایم ایف نے جو اسٹینڈ بائی معاہدہ کیا ہے وہ ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچنے والے ممالک سے کیا جاتا ہے۔

    وزیراعظم کا یہ دعویٰ سر آنکھوں پر کہ انہوں نے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا لیا۔ جناب ضرور ایسا ہوا ہوگا لیکن اس کے لیے عوام پر جو شکنجہ کسا گیا اس سے ملک ڈیفالٹ کرے نہ کرے لیکن غریب سفید پوش انسان ڈیفالٹ کر چکا ہے کیونکہ دیوالیہ تو وہی ہوتا ہے جس کی آمدنی کم اور خرچ زیادہ اور مسلسل بڑھتے ہوئے ہوں۔ روز افزوں مہنگائی اور ناموزوں حالات کے باعث چھوٹا کاروباری طبقہ تو پہلے ہی تباہ ہو چکا مگر سب سے برا حال تنخواہ دار طبقے کا ہے جو اپنی تنخواہ سے پیشگی ٹیکس کٹوانے کے بعد بسکٹ اور سوئی سے لے کر ہر چیز پر ٹیکس در ٹیکس کی زد میں ہے۔ اس کی تنخواہ سالوں پرانی لیکن خرچے کئی گنا بڑھ چکے ہیں جب کہ مہنگائی کا دیو مسلسل منہ کھولے انہیں نگلنے کے تیار ہے۔

    آج یہ عالم ہے کہ عوامی سطح پر ہر سُو مایوسی کے بادل چھائے ہوئے ہیں اور امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔ بالخصوص نوجوان طبقہ اپنے مستقبل کے حوالے سے شدید متفکر ہے اور ڈپریشن کا شکار ہورہا ہے۔ یہی مایوسی ہے کہ وہ والدین جو اپنی آنکھ کے تاروں کو نظروں سے دور کرنے کا سوچتے بھی نہیں تھے وہ ان کو بیرون ملک بھیجنے کی تگ و دو میں ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اس ملک میں غریب اور نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں‌ کا کوئی مستقبل نہیں۔

    عوام کی بے بسی اور مایوسی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ خطے میں پاکستان واحد ملک ہے جس کے سب سے زیادہ شہری دیارِ‌ غیر میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ محتاط اندازے کے مطابق لگ بھگ سوا کروڑ پاکستانی فکر معاش کے لیے مختلف ممالک میں مقیم ہیں جو کہ خطے کے دیگر ممالک بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا اور افغانستان سے زیادہ ہے اور رواں سال کے چھ ماہ میں بیرون ملک جانے کے رجحان میں تیزی آئی ہے۔

    ریاست کو ماں اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں عوام خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں اور ریاست اپنے عوام کو ہر سرد و گرم سے بچانے کی تگ و دو کرتی ہے اور دنیا کی مہذب ریاستوں اور ممالک کا یہی دستور ہے۔ آنکھوں پر سب اچھا کی پٹی باندھے حکمرانوں سے صرف اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ وہ بے شک اپنے دعوؤں کے مطابق عوام کے لیے دودھ اور شہد کی نہریں مت نکالیں مگر عوام کی زندگی کو سہل بنا کر ان کو جینے کا حق تو دیں کیونکہ ملک اور معاشرہ زندہ انسانوں پر مشتمل ہوتا ہے، مردہ انسانوں کے لیے تو قبرستان ہوتے ہیں۔