Tag:

  • ملک کے حالات اور مہنگائی سے نڈھال عوام کے چہروں پر  مسرت کی شفق!

    ملک کے حالات اور مہنگائی سے نڈھال عوام کے چہروں پر مسرت کی شفق!

    پاکستان کے عوام تاریخ کی بدترین مہنگائی کا سامنا کر رہے ہیں جس میں روز افزوں اضافہ اور بڑھتی ہوئی بیروزگاری نے معاشی اور مختلف معاشرتی مسائل کو بھی جنم دیاہے. لیکن ملک میں کئی ماہ سے جاری سیاسی افراتفری اور انتشار کے باعث عوام کے متفکر چہروں پر گزشتہ روز (‌23 جولائی) کچھ دیر کو سہی خوشی کے رنگ ضرور نظر آئے۔ لیکن یہ خوشی سیاست کے ایوانوں سے نہیں بلکہ کھیلوں کے میدان سے آئی ہے .ایک طرف اسکواش کے کھیل میں فتح ہمارا مقدر بنی ہےاور دوسری جانب پاکستان نے ایمرجنگ ایشیا کپ فائنل میں روایتی حریف بھارت کو ہرایا ہے۔

    پاکستان جو کرکٹ، ہاکی، اسکواش، اسنوکر سمیت کھیلوں کے کئی مقابلوں میں عالمی چیمپئن بننے کا اعزاز رکھتا ہے اور 1994 تو وہ تاریخی سال تھا جب پاکستان نے بیک وقت چار کھیلوں کے عالمی چیمپئن ہونے کا تاج اپنے سر پر سجایا تھا لیکن پھر کارکردگی خراب ہوتی چلی گئی اور ہم کھیلوں کے شعبے میں تنزلی کا شکار ہوتے چلے گئے۔ کرکٹ میں تو پاکستان کی کارکردگی بہتر رہی لیکن ہمارے قومی کھیل ہاکی اور پاکستان کی پہچان اسکواش پر تو سمجھو جیسے طویل خزاں چھا گئی۔ اسکواش کے ذریعے روشن خان نے اپنے نام کی طرح جس طرح پاکستان کا نام روشن کیا اسی طرح ان کے بیٹے جہانگیر خان نے سبز ہلالی پرچم کو بلند رکھا اور ان کے بعد جان شیر خان کی صورت میں‌ نئی روشنی اس میدان میں جگمگائی۔ یہ وہ ادوار تھے کہ جب ان میں سے کوئی پاکستانی فیصلہ کن میچ میں اسکواش کورٹ میں اترتا تھا تو پھر ٹرافی اٹھائے بغیر وطن واپس نہیں آتا تھا۔ لیکن 1994 میں آخری بار چیمپئن بننے کے بعد یہ زمین بنجر ہوگئی۔ اس عرصہ میں‌ کئی کھلاڑی آئے اور گئے لیکن اسکواش کے بنجر میدان کو زرخیز نہ کر سکے۔ 23 جولائی 2023 اس لیے یادگار رہے گا کہ اس روز 37 سال بعد پاکستان ورلڈ جونیئر اسکواش کا چیمپئن بنا۔

    اس بار بھی پاکستان کا پرچم بلند کرنے والا خان یعنی حمزہ خان ہے جس نے آسٹریلیا کے شہر میلبرن میں مصر کے محمد ذکریا کو تین ایک سے زیر کیا۔ حمزہ سے قبل 1986 میں سابق چیمپئن جان شیر خان نے یہ ٹائٹل اپنے نام کیا تھا جب کہ 2008 میں پاکستان کی جانب سے عامر اطلس نے ورلڈ جونیئر کا فائنل کھیلا تھا۔ اسکواش کے فائنل کے دوران کمنٹیٹر حمزہ خان کے بہترین کھیل پر داد اور ان کے ٹیلنٹ کو سراہتے رہے۔ ان کی جیت پر ایک کمنٹیٹر نے کہا حمزہ خان شو میں خوش آمدید، آج پاکستانی اسکواش کی واپسی ہوئی ہے۔ اس تاریخی موقع پر ضروری ہے کہ اسکواش کی جو پنیری دہائیوں بعد پنپنی ہے اس کی نشوونما کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں اور وزارت کھیل جامع منصوبہ بندی کرے تاکہ یہ خوشی عارضی ثابت نہ ہو بلکہ حمزہ خان مستقبل کا جہانگیر اور جان شیر ثابت ہو۔

    پاکستان کو اسی روز خوشی کی دوسری خبر سری لنکا سے ملی جہاں کولمبو میں پاکستان اے ٹیم نے ایمرجنگ ایشیا کپ کے فائنل میں روایتی حریف بھارت کو دھول چٹا کر نہ صرف ٹرافی اٹھائی بلکہ اپنے اعزاز کا بھی کامیابی سے دفاع کیا۔ فائنل میں جب بھارت نے ٹاس جیتا تو یہی سمجھا کہ پہلے بولنگ کر کے ان کی ٹیم شاید ٹرافی جیت لینے کا خواب پورا کرلے گی لیکن ان کا یہ خواب پورا نہیں ہوسکا۔

    کولمبو میں بھی پاکستانی شاہینوں نے 2017 کی چیمپئنز ٹرافی کی طرح راؤنڈ میچ میں بھارت سے شکست کا دباؤ نہیں لیا بلکہ جب پاکستانی اوپنر میدان میں اترے تو ان کے تیور کچھ اور ہی اشارہ دے رہے تھے اور صائم ایوب اور صاحبزادہ فرحان نے پراعتماد اننگ کا آغاز کر کے اسے ثابت بھی کر دیا۔ دونوں نے 121 رنز کا ابتدائی آغاز فراہم کیا اور جب درمیانے اوور میں آدھی ٹیم کے پویلین لوٹنے پر خطرات کے بادل قومی ٹیم کے سر پر منڈلائے تو طیب طاہر نے اپنی شاندار بیٹنگ سے بھارتیوں کے ہوش و حواس اڑا دیے۔ پاکستان کے 353 رنز کے پہاڑ جیسے ہدف کے تعاقب میں بھارتی ٹیم کے اوسان ایسے خطا ہوئے کہ پوری ٹیم ہی 40 اوورز میں 224 رنز پر میدان بدر ہوگئی۔

    ان کرکٹرز نے نہ صرف اپنے اعزاز کا کامیاب دفاع کیا بلکہ 2017 کی یاد بھی تازہ کر دی جب سرفراز احمد کی قیادت میں گرین شرٹس نے چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں بھارتی سورماؤں کا غرور خاک میں ملایا تھا۔ پاکستانی عوام بالخصوص روایتی حریف بھارت کو یوں بڑے مارجن سے فائنل جیسے مقابلے میں دھول چٹانے پر اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں‌ کے گُن گاتے نظر آرہے ہیں‌ اور بہت مسرور دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان کی سینیئر ٹیم بابر اعظم کی قیادت میں رواں سال ایشیا کپ اور ورلڈ کپ بھی کھیلے گی۔ گرین شرٹس کی موجودہ کارکردگی دیکھ کر جہاں دنیائے کرکٹ پاکستان کو ایونٹس کے فیورٹ میں شامل کر رہے ہیں وہیں پوری قوم بھی دعا گو ہے کہ وہ پہلے ایشیا کپ جیت کر اس میں رکاوٹیں پیدا کرنے والے بھارت کو کرارا جواب دے اور اس کے بعد بھارت جاکر ورلڈ کپ کی ٹرافی لائے اور دنیائے کرکٹ پر اپنی حکمرانی ثابت کرے۔

  • سیاسی کھچڑی میں  شامل دال شاید گَل نہیں‌ رہی !

    سیاسی کھچڑی میں شامل دال شاید گَل نہیں‌ رہی !

    پیٹ کی خرابی یا بدہضمی میں معالج دوا کے ساتھ مریض کو ہلکی پھلکی غذا تجویز کرتا ہے جس میں کھچڑی ایک معروف غذا ہے جو آسانی سے تیار ہو جاتی ہے۔ سیاست میں اگر بدہضمی ہونے لگے تو سیاسی طبیب خود کھچڑی بنا کر مریض عوام کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور یہ 75 سال سے ہوتا آ رہا ہے۔

    ہمارے قومی مفاد نامی باورچی خانے میں نظریۂ ضرورت کی ہانڈی ہر وقت چڑھی رہتی ہے جب کبھی سیاسی بدہضمی ہونے لگے تو فوری طور پر اس ہانڈی میں کھچڑی تیار کی جاتی ہے اور اس کے لیے زیادہ مسالا جات کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اِدھر کی بوری سے کچھ چاول نکالے اور اُدھر کی بوری سے کچھ دال۔ دونوں کو ملا کر پکایا اور ‘حسب ذائقہ’ نمک ڈال کر ‘حسب منشا’ کھچڑی تیار کرلی۔

    ایسی ہی ایک کھچڑی حال ہی میں استحکام پاکستان پارٹی کے نام سے تیار کی گئی لیکن بظاہر یہ لگتا ہے کہ اس بار کھچڑی میں دال گل نہیں رہی ہے۔ 9 مئی واقعے کے بعد گزشتہ سال پی ٹی آئی کو الوداع کہنے والے جہانگیر ترین نئی سیاسی جماعت کے قیام کے لیے متحرک تھے جو بالآخر استحکام پاکستان پارٹی کے نام سے وجود میں آئی اور حسب روایت اِدھر اُدھر مختلف سیاسی ڈالوں پر جھولنے کا تجربہ رکھنے والے سیاستدانوں کو اس میں شامل کر لیا گیا لیکن اپنے نام کی طرح اس پارٹی میں استحکام نظر نہیں آ رہا۔

    عمومی طور پر سیاسی جماعتوں کی تشکیل سے پہلے ان کا منشور اور نظریہ سامنے آتا ہے لیکن یہ تاحال سامنے نہیں آسکا ہے جس سے شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں جب کہ اس نئی جماعت میں شامل ہونے والے پی ٹی آئی کے کچھ انتہائی فعال اور نامور سیاستدان افتتاحی میٹنگ کے بعد منظر عام سے غائب ہیں جیسا کہ فواد چوہدری، علی زیدی، عمران اسماعیل سمیت کئی نام خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں جو ابر آلود سیاسی منظر کو مزید دھندلا رہا ہے۔

    ملک کی تاریخ دیکھیں تو پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کے بطن سے قومی مفاد کے باورچی خانے میں کئی نئی مسلم لیگ تیار کی گئیں جن میں سے اکثر اپنی پیدائش کے فوری بعد سیاسی موت ماری گئیں یعنی گمنام ہوگئیں صرف ن لیگ یا کسی حد تک ق لیگ نے اپنا وجود قومی سیاست میں برقرار رکھا۔ ٹوٹنے اور بکھرنے سے جے یو آئی، جے یو پی، اے این پی بھی محفوظ نہیں رہیں جب کہ مہاجر قومی موومنٹ سے متحدہ قومی موومنٹ تک مسافت طے اور کبھی شہری سندھ کی بھرپور نمائندگی حاصل کرنے والی جماعت میں بھی تین دہائی قبل حقیقی نکالی گئی جو مطلوبہ نتائج نہ دے سکی، چند سال قبل پی ایس پی، ایم کیو ایم پاکستان اور ایم کیو ایم تنظیم بحالی کمیٹی کے نام سے حصے بخرے کیے گئے لیکن مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہونے پر ایک بار پھر پی ایس پی، بحالی کمیٹی کو دوبارہ ایم کیو ایم پاکستان میں ضم کر دیا گیا تاہم زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ ایم کیو ایم کا سیاسی گھوٹالہ کرنے والوں کو اس کا بھی کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔

    استحکام پاکستان پارٹی جس کو پی ٹی آئی کے متبادل کے طور پر سیاسی افق پر ‘ابھارا’ گیا ہے اس کے قیام کو ایک ماہ ہونے کو آیا لیکن نہ کوئی ممبر سازی کے حوالے سے کوئی سرگرمی نظر آتی ہے نہ ہی عوامی سطح پر لوگوں کو اپنی جانب مائل کرنے کی کوئی کوشش ہو رہی ہے صرف ایک دو چہرے جو ہر چند سال بعد نئی سیاسی جماعت کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں وہی بیانات کی حد تک سرگرم ہیں۔ اس صورتحال میں ایسا لگتا ہے کہ یہ جماعت بھی مستقبل کی حقیقی، پی ایس پی یا گمنام لیگوں کی طرح ثابت ہوگی اور قومی سیاسی منظر نامے میں اپنا وجود تادیر سیاسی جماعت کے طور پر برقرار نہیں رکھ سکے گی۔

    سیاست پر گہری نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی پر غیر علانیہ پابندی سے اس کی مقبولیت میں کمی آنے کے بجائے کچھ بڑھ گئی ہے۔ مین اسٹریم میڈیا پر جگہ نہ پانے کے باوجود وقت کے ساتھ ساتھ طاقتور ہوتے سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی ویڈیوز اور سیاسی تجزیہ کاروں کے اپنے یو ٹیوب چینل پر تجزیے بھی ماہرین کی رائے کی تصدیق کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے میں استحکام پاکستان پارٹی اور ایم کیو ایم کو دوبارہ جوڑنے والوں کو بھی فکر لاحق ہوگئی ہوگی۔

    دال اگر نہیں گل رہی ہے تو کیا الیکشن اپنے مقررہ وقت پر ہوں گے؟ یہ وہ ملین ڈالر سوال ہے جس کا جواب فی الحال کسی کے پاس نہیں۔ موجودہ قومی اسمبلیاں اپنی مدت 12 یا 13 اگست کو مکمل کر رہی ہیں۔ آئین کے مطابق مذکورہ تاریخ پر قومی اسمبلی ازخود تحلیل ہو جائے گی اس سے قبل نگراں وزیراعظم کے نام کا اعلان ہونا ہے جو آئین پاکستان کے مطابق 60 روز میں نئے الیکشن کرانے کا پابند ہوگا۔

    بعض میڈیا رپورٹوں کے مطابق نگراں وزیراعظم کے لیے نام تجویز کر لیا گیا ہے ایک دور روز میں وزیراعظم شہباز شریف اور ’’اپوزیشن لیڈر‘‘ راجا ریاض جو کئی ماہ قبل ہی ن لیگ میں شمولیت کا اعلان کر چکے ہیں نگراں وزیراعظم کے نام کا اعلان کریں گے۔ کہا جارہا ہے جس طرح نگراں وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے محسنِ پنجاب کا انتخاب کیا گیا اسی طرح نگراں وزیراعظم کے لیے محسنِ پاکستان کا بھی انتخاب ہوا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اگر یہ محسنِ پاکستان نگراں وزیراعظم بنتے ہیں تو کیا اپنی آئینی ذمے داری کو پورا کرتے ہوئے 60 روز میں الیکشن کروا کے رخصت ہو جائیں گے یا پھر محسنِ پنجاب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نگراں حکومت کو غیر آئینی طول دیں گے۔

    الیکشن کمیشن عام انتخابات کی تیاری شروع کر چکا ہے لیکن بظاہر ملک کے جو سیاسی حالات نظر آ رہے اس میں تو عام انتخابات مقررہ وقت پر ہوتے نظر نہیں آ رہےکیونکہ ایک عنصر خاموش ووٹرز ہیں جو لگتا ہے صرف طاقتور حلقوں ہی نہیں بلکہ موجودہ حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کے لیے بھی تشویش کا باعث ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوتا ہے کیا ہی اچھا ہو کہ بااختیار حلقے ایسا فیصلہ کریں جو اس ملک کو مزید انارکی میں دھکیلنے کے بجائے سیاسی اور معاشی استحکام کی طرف گامزن کرے کیونکہ پاکستان مزید تجربات اور آزمائشوں کے لیے موزوں نہیں‌ رہا ہے۔

  • ڈالر محفوظ رکھنا ضروری ہے یا ‘ڈار’ کو؟

    ڈالر محفوظ رکھنا ضروری ہے یا ‘ڈار’ کو؟

    مالیاتی ،اقتصادی اعداد و شمار اورخبر رسا نی کے معروف پلیٹ فارم بلومبرگ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام نہ ملا تو اس کے معاشی حالات مزید ابترہو سکتے ہیں. پاکستان آئی ایم ایف سے اکتوبر میں نئے پروگرام پر مذاکرات کر سکتا ہےمگر پاکستان کے لیے دسمبر تک ڈالر محفوظ رکھنا ضروری ہے،تاہم بعض ماہرینِ معیشت یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت کی جانب سے اس کے لیے اقدامات نہیں کیے جارہے.

    پاکستان کی دگرگوں معاشی حالت اس بوڑھے کی مانند ہوچلی ہے جس کے لیے کہا جائے کہ ’’پاؤں قبر میں لٹکے ہیں.‘‘ اور اس کے بارے میں یہ گمان کیا جاتاہو کہ یہ اب گیا، تب گیا۔

    معاشی طور پر پاکستان کے دیوالیہ ہونے سے متعلق بھی اسی طرح کی پیشگوئیاں عالمی مالیاتی ادارے اور بڑے ممالک کر رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ملک کو تاریخ کے بدترین معاشی عدم استحکام کا سامناہے۔

    75 سال سے یہ قوم تو کئی معاملات میں نازک ترین موڑ پرہی کھڑی ہے، لیکن معاشی میدان میں مسلسل ابتری اچھا شگون نہیں۔ گزشتہ سوا سال کے دوران موڈیز، فچ اور اسٹینڈر اینڈ پوئرز (ایس اینڈ پی) کے اعداد وشمار اورجائزہ رپورٹوں میں مسلسل گرتی ہوئی ریٹنگ نے پاکستان کے لیےخطرے کی گھنٹی بجا دی تھی اور ایسے میں بلومبرگ کی تنبیہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں، لیکن لگتا ہے کہ حکمراں’’ڈالر بچانے‘‘ کے بلومبرگ کے مشورے کو غلط سمجھےاور ڈالر کے بجائے ’’ڈار‘‘ کو بچانے کی مہم پر نکل کھڑے ہوئے۔

    کہنے والے تو کہتے ہیں ملک کو شدید معاشی نقصان گزشتہ نواز دور حکومت میں ڈار کی پالیسیوں سے پہنچا تھا لیکن لاکھ تنقید کے باوجود انہیں ایک بار پھر معیشت کا پہیہ گھمانے کے لیے لندن سے بلایا گیا۔ کہتے ہیں نا کہ عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتا اور پھر شاید یہی عشق نا تمام تھا کہ چار سال کے عرصے میں ن لیگ کو کوئی نہیں بھایا اور دوبارہ اقتدار میں آنے کا موقع ملا تو اس کی نظر سات سمندر پار، دور افق پرچمکتے ستارے پر پڑی اور جس نے پاکستان آکرایسی کرشمہ سازی کی کہ اس چکاچوند میں سب کی آنکھیں خیرہ ہوگئی ہیں۔

    ڈار سے ن لیگ کی محبت گویا ان اشعار کی تشریح ہے .

    قسم خدا کی اک تری تلاش میں
    گلی گلی نگر نگر گیا ہوں میں
    تو ہی خیال میں رہا اے جانِ جاں
    اے جانِ جاں جدھر جدھر گیا ہوں میں

    ڈار بھی تو ڈان کی طرح ’’ارے دیوانو، مجھے پہچانو، کہاں سے آیا، میں ہوں کون؟ میں ہوں ڈار، میں ہوں ڈار، میں ہوں میں ہوں، میں ہوں ڈار…‘‘ کی عملی تفسیر بن کر آئے اور آتے ہی ڈالرکے نرخ میں وقتی کمی کو اپنی کرشمہ سازی قرار دے ڈالا اور کہا کہ میں آگیا ہوں اس لیے ڈالر ڈر گیا۔ ان کا دعویٰ کہ ڈالر 200 سے زائد نہیں ہوسکتا آج اوپن مارکیٹ میں 300 روپے سے زائد پرفروخت ہوکر انہیں منہ چڑا رہا ہے۔

    ڈار آئے تو تھے ڈالر کو اپنا ڈر دکھانے لیکن وہ ان کے ہاتھوں سے نکل کر آج کل 300 روپے سے اوپر کی ڈال پر جھول رہا ہے اور لہک لہک کرگاتا جارہا ہے کہ ’’ہم سا ہو تو سامنے آئے.‘‘

    گزشتہ دنوں مسلم لیگ ن کی مرکزی جنرل کونسل اجلاس ہوا جس میں حسبِ دستور شریف خاندان بلا مقابلہ پارٹی کے اہم عہدوں پر منتخب ہوگیا لیکن اسحاق ڈار پر تنقید کرنے والے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو کوئی عہدہ نہیں دیا گیا. اجلاس کے بعد شہباز شریف نے اپنی تقریرمیں کہا کہ اسحاق ڈار کے خلاف باتیں کرنے والوں کو پارٹی میں رہنے کا کوئی حق نہیں. جس سے سب کو یہ معلوم ہوگیا کہ حکومت اس وقت ڈالر کی بچت کے لیے نہیں بلکہ ڈار کو بچانے کے لیے فکرمند ہے۔

    کبھی کے دن بڑے اور کبھی کی راتیں، یہ وہی ڈار ہیں جو نواز شریف کو نا اہل کیے جانے کے بعد پاناما کیس میں ان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن گئے تھے لیکن آج ڈار کو بچانے کے لیے مسلم لیگ ن کے صدر کو میدان میں آنا پڑا۔ ن لیگ کی اس کرم فرمائی پر ہم کیاکہہ سکتےہیں، لیکن بشیر بدر کا یہ شعر بہت کچھ بتاسکتا ہے۔

    کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی
    یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا

    ڈار، خاندان کے فرد ہیں جو کچن کیبنٹ سے بڑھ کر ہوتا ہے۔عوام کوتو سیاست جاری رکھنے اور پارٹی چلانے کے لیے ہمیشہ ہی قربان کیا جاتا رہاہے، لیکن ڈار کے لیے دو رہنما قربان کردیے گئے۔ ڈار سے یہ شریفانہ محبت ابھی کیا گل کھلائے گی اور کس کس کی قربانی لے گی یہ وقت ہی بتائے گا .

  • آٹو گراف کہیں کھو گیا…

    آٹو گراف کہیں کھو گیا…

    آٹوگراف پلیز…. یہ وہ آواز تھی جو اب سے چند دہائی قبل ہر اس تقریب میں سنائی دیتی تھی جہاں مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والی مشہور ہستیاں شریک ہوتی تھیں اور مداح اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ان سے آٹو گراف لینے کی ہرممکن کوشش کرتے تھے، لیکن بدلتے وقت کے ساتھ شاید یہ سلسلہ ماند پڑچکا ہے، آٹو گراف کی روایت گو اب بھی زندہ ہے مگر اس کے لیے اب ہم وہ پُرجوش انداز اور وہ اشتیاق نہیں‌ دیکھتے جو ماضی میں‌ دیکھا۔

    وہ لوگ جنہوں نے اس دور میں آنکھ کھولی جب سوشل میڈیا اور موبائل فون تو دور کیبل اور ٹیلیفون بھی ہر گھر میں نہیں ہوتا تھا وہ اس امید بھری خوش کن آواز ’’آٹو گراف پلیز‘‘ سے ضرور مانوس ہوں گے۔ ہمارا آٹوگراف بُک سے تعلق تو اپنے اسکول کے بالکل آخری سال میں جڑا جب ہم دسویں جماعت کے طالبعلموں کو نویں جماعت کے طلبہ نے الوداعی پارٹی دی۔ ان لمحات کو یادگار بنانے اور گزرے 10 سال کی یادوں کو سینے سے لگائے رکھنے کے لیے ہم نے آٹوگراف بُک کا سہارا لیا۔

    اپنے اساتذہ سے اس آٹوگراف بُک پر ان کے آٹوگراف لیے تو دستخطوں کے ساتھ کچھ نصیحتوں اور کچھ شفقت بھرے پیغامات پر مبنی پند و نصائح کا ایک مجموعہ گویا ہمارے ہاتھ لگا جو ہماری آنے والی زندگی میں ہماری رہنمائی کرتا رہا۔ ہماری زندگی میں آنے والی دوسری آٹوگراف بُک تو واپس ہمارے ہاتھ ہی نہ آئی کیونکہ وہ نیاز اسٹیڈیم حیدرآباد میں سچن ٹنڈولکر کا آٹوگراف لینے کے لیے گراؤنڈ کے جنگلے کے ساتھ کھڑے چوکیدار کو دی تھی (اس وقت ٹنڈولکر کے کیریئر کا آغاز تھا اور حیدرآباد کے نیاز اسٹیڈیم میں دورۂ پاکستان کے سلسلے میں وہ سائیڈ میچ کھیل رہے تھے) یہ تو خیر ہمارے ذاتی تجربات تھے جو تعلیم کے ابتدائی دور میں آٹوگراف بُک کے ساتھ جڑے تھے۔

    اب ہم ماضی سے نکل کر حال میں آتے ہیں تو جناب نئی نسل نے تو خود کو آٹو گراف بُک خریدنے کی جھنجھٹ اور اس پر آٹو گراف لینے کی خواہش سے سمجھو کہ آزاد ہی کرلیا ہے کیونکہ اب تو سیلفی کا زمانہ ہے جو آٹو گراف کا متبادل بن گئی ہے بلکہ آٹوگراف بک دکھاتے ہوئے آپ کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہوتا کہ یہ کسی مشہور شخصیت کا ہی آٹوگراف ہے اور آپ اس سے واقعی ملاقات کرچکے ہیں یا یونہی دوسروں پر رعب ڈالنے کے لیے آٹو گراف بک پر الٹی سیدھی لکیریں کھینچ کر اسے کسی بھی مشہور شخصیت سے منسوب کر دیا۔ لیکن تصویر تو خود بولتی ہے، اور سارا احوال بتا دیتی ہے تاہم جیسے جیسے زمانہ میں‌ جدّت آرہی ہے اب فوٹو شاپ اور دیگر تیکنیک سے من چاہی شخصیات کے ساتھ فیک تصاویر بنانا بھی کوئی مسئلہ نہیں رہا ہے۔

    جس طرح پہلے آٹوگراف لینا بہت بڑی کامیابی تصور کی جاتی تھی اسی طرح آج سیلفی لینا بھی کسی کارنامے سے کم نہیں سمجھا جاتا اور پھر سوشل میڈیا پر مختلف پلیٹ فارم کے ذریعے اس کی نمائش کرکے داد وصول کرنے کا سلسلہ شروع کیا جاتا ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ جو بات سادہ سے آٹوگراف اور اس کے ساتھ لکھے پیغام میں ہوتی ہے وہ آج کی رنگا رنگ تصویر میں عنقا ہے۔ آٹوگراف اتنا مقبول عام ہے کہ ایک مشہور شاعر مجید امجد نے اس پر ایک پوری نظم ہی لکھ ڈالی جس پر مختلف مکاتب فکر کی جانب سے اعتراضات بھی اٹھائے گئے مگر وہ ایک الگ بحث ہے۔

    پہلے کسی مشہور شخصیت سے خواہ وہ کسی بھی شعبے میں نامور ہوتی، اس کے چاہنے والے اس سے دستخط لینے کے لیے بھرپور کوشش کیا کرتے تھے۔ لوگوں کے ہجوم میں مداح کے لبوں سے آٹو گراف پلیز کی آواز ابھرتی۔ پھر وہ ملک کی مشہور ہستی ہو یا دنیا بھر میں مقبول ہو اس کے دستخط کے لیے قلم آگے بڑھا دیا جاتا۔ وہ کھلاڑی ہوتا، اداکار ہوتا، سیاستدان ہوتا یا دیگر شعبے سے تعلق رکھتا ہوتا قلم تھام کر اپنا دستخط ثبت کر دیتا۔ یہ بھی دیکھنے میں آتا جن کے پاس آٹوگراف بُک نہ ہوتی وہ اپنے کالر، آستین، نوٹ بک، کرنسی نوٹ، رومال حتیٰ کہ ہتھیلی پر آٹوگراف لینے کی کوشش کرتے تھے۔ اب آٹو گراف دینے والا چاہے تو پورا دستخط کرے یا آٹوگراف کے نام پر بے ربط لکیر کھینچ دے یہ اس کی مرضی اور موڈ پر منحصر ہوتا لیکن مداح کے لیے وہ کسی گوہر نایاب سے کم نہ ہوتا بعض تو ایسے پرستار تھے جنہوں نے اپنی آئیڈیل شخصیات کے آٹو گراف کو فریم یا کوٹنگ کراکے محفوظ کرلیا۔ پچھلی نسل کے بہت سے لوگوں کے پاس اپنی اپنی آٹو گراف بک پڑی ہے۔ جس میں ان کے زمانے کی نامور شخصیات کے دستخط موجود ہیں۔ یہ ساری شوق کی باتیں ہیں۔ وہ بھی ایک دور تھا، اب تو سیلفی نے سب کچھ بدل دیا ہے۔

    آٹوگراف ادب و ثقافت سے وابستہ ہستیوں کے لیے کیا اہمیت رکھتا تھا اس حوالے سے نامور ادیب اشفاق احمد کی کتاب زاویہ سے اقتباس ملاحظہ کرتے چلیں۔ اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ میں نوجوانوں کی طرح اس عمر میں اپنی آٹوگراف بُک لے کر گھومتا ہوں اور ایسے لوگوں کے آٹوگراف حاصل کرنا چاہتا ہوں جو آسائش اور آسانی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ کچھ لوگوں کو اداکاروں یا گانے والوں کے آٹوگراف لینے کا شوق ہوتا ہے۔ میں ایسے لوگوں کے آٹوگراف لینے کا خواہشمند ہوں جن پر دنیا کے جھمیلوں کا تشنج یا بوجھ نہیں۔ میرے پاس جتنے بھی کاغذ ہیں اس میں دستخط تو کم لوگوں کے ہیں جب کہ انگوٹھے زیادہ لوگوں نے لگائے ہیں۔ کسی لکڑہارے کا انگوٹھا ہے، کسی ترکھان کا ہے، کسی قصائی کا ہے اور دیگر سخت سخت پیشے والوں کے انگوٹھے بھی ہیں۔ ابھی تازہ تازہ میں نے جو انگوٹھا لگوایا ہے وہ میں نے لاہور سے قصور کے راستے کے درمیان میں آنے والے چھوٹے سے شہر یا منڈی مصطفیٰ آباد للیانی سے لگوایا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بلاتفریق اور بغیر کسی غرض کے لوگوں میں آسانیاں تقسیم کرتے ہیں۔

    آٹو گراف کی کیا اہمیت ہے اس کا اندازہ آپ کو پاکستان کے نامور شاعر فیض احمد فیض اور شہنشاہ جذبات دلیپ کمار سے متعلق ایک واقعے سے بھی ہو جائے گا۔ یہ آج سے لگ بھگ نصف صدی سے بھی پہلے کی بات ہے جب دلیپ کمار کے عروج کا دور تھا اس وقت پاکستان سے فیض احمد فیض ایک مشاعرے اور ادبی کانفرنس میں شرکت کے لیے بھارت جا رہے تھے تو ان کی بیٹی سلیمہ ہاشمی نے اپنے والد نے فرمائش کی کہ وہ ان کے لیے دلیپ کمار کا آٹوگراف ضرور لے کر آئیں۔ فیض احمد فیض جب دورہ مکمل کرکے بھارت سے واپس آئے اور سلیمہ نے ان سے آٹوگراف کا پوچھا جس پر وہ گھبرا گئے۔ بیٹی نے پوچھا کہ کیا آپ کی وہاں دلیپ کمار سے ملاقات نہیں ہوئی تو فیض احمد فیض نے کہا کہ ایک بار نہیں کئی بار ملاقات ہوئی لیکن اس نے تو مجھ سے خود آٹوگراف لے لیا تو پھر میں کیا اس سے فرمائش کرتا۔

    کچھ شوقین ایسے بھی ہیں جن کے آٹوگراف لینے کی انوکھی داستان دنیا بھر میں مشہور ہوجاتی ہے جیسا کہ ہمارے قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم کے ساتھ ہوا جب انہیں ان کی ایک خاتون پرستار نے سوشل میڈیا پر آٹو گراف لینے کے لیے نکاح نامہ پیش کر دیا تھا اور بابر اعظم نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اس نکاح نامے کی تصویر بھی شیئر کی تھی۔

    حالیہ کچھ عرصے میں سیاسی شخصیات کا آٹو گراف خاصامقبول ہوا . جب پی ٹی آئی حکومت جانے کے بعد سابق وزیراعظم اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی مقبولیت کا گراف بڑھا۔ اور اسی دوران انہوں نے ملاقات کے لیے آنے والے کم عمر بچوں اور نوجوانوں کو ان کی شرٹس پر آٹو گراف دیے جس کے بعد سوشل میڈیا پر کئی ایسی ویڈیوز وائرل ہوئیں جس میں پی ٹی آئی کے مخالف سیاستدان مولانا فضل الرحمان، مریم نواز، حمزہ شہباز بھی بچوں اور نوجوانوں کو ان کی شرٹس پر آٹو گراف دیتے نظر آئےاور یہ ٹرینڈ بن گیا تھا۔

    آٹو گراف اصل میں انگریزی کا لفظ ہے جو اپنی اصل حالت اور معنوں کے ساتھ ہی اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ آج آٹوگراف کی روایت اتنی ہی زندہ رہ گئی ہے کہ کسی چیریٹی تقریب میں یا سرکاری تقریب میں کھلاڑی، فنکار یا کسی شعبہ زندگی میں نامور شخصیات کے دستخط سے مزین کوئی چیز مہنگے داموں فروخت کرکے اس کو فلاحی کاموں پر خرچ کیا جاتا ہے جو کہ ایک اچھا مصرف ہے لیکن جو عوامی آٹو گراف ہے وہ کہیں کھوگیا ہے۔

  • پی ٹی آئی کے زوال کے بعد نئی سیاسی صف بندی

    پی ٹی آئی کے زوال کے بعد نئی سیاسی صف بندی

    پاکستان تحریک انصاف کو ٹوٹ پھوٹ کا سامنا ہے اور آنے والے دنوں میں اس کے بطن سے ایک نئی سیاسی جماعت جنم لے سکتی ہے۔ اس زوال کا سامنا ہماری بیشتر مقبول سیاسی جماعتیں ماضی میں کرچکی ہیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے ردعمل میں 9 مئی کو ہونے والے واقعات کے بعد جس تیزی سے پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اور بڑے سیاست داں اپنی راہیں پارٹی سے جدا کررہے ہیں اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ پی ٹی آئی پر خزاں آچکی ہے۔ ایسے میں حسب روایت نئے سیاسی گھونسلے بن رہے ہیں اور سیاسی پرندے ان کی جانب اڑان بھر رہے ہیں۔

    9 مئی کے واقعات کی ہر مکتب فکر نے سخت مذمت کی ہے اور تحریک انصاف کے سربراہ نے بھی اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے جب کہ پارٹی کی جانب سے مذمت کی گئی ہے لیکن کراچی سے منتخب رکن قومی اسمبلی محمود مولوی کے بعد پی ٹی آئی کو چھوڑنے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا، وہ ہنوز جاری ہے۔ اور اس میں وقت کے ساتھ ساتھ تیزی آرہی ہے جس میں‌ پارٹی کے بڑے اور فعال اراکین بھی شامل ہوچکے ہیں۔

    اب تک پی ٹی آئی کے اہم پارٹی عہدوں سمیت حکومت میں وفاقی وزرا کی ذمے داریاں نبھانے والی شخصیات جن میں اسد عمر، فواد چوہدری، شیریں مزاری، پرویز خٹک، علی زیدی، عامر کیانی، عمران اسماعیل، جمشید چیمہ، ملیکہ بخاری، فیاض چوہان سمیت درجنوں نام شامل ہیں وہ پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ کچھ نے سیاست سے کنارہ کشی کا اعلان کیا تو کسی نے بیماری یا دیگر وجوہات کو جواز بنا کر اپنی راہیں جدا کیں جب کہ بیشتر رہنما منظر سے غائب ہوچکے ہیں۔ پارٹی ترک کرنے والے جن لوگوں کے ناموں کا اوپر ذکر کیا گیا ان میں سے بیشتر کے بارے میں تو کسی کے گمان میں بھی یہ نہ تھا کہ وہ خزاں کی ہوا چلتے ہی زرد پتوں کی مانند پی ٹی آئی کے درخت سے یوں جھڑ جائیں گے۔ یہ تمام پارٹی کی انتہائی فعال شخصیات تھیں اور چیئرمین پی ٹی آئی کی کچن کیبنٹ میں شامل تھیں جو خود کو عمران خان کا سایہ کہتے تھے لیکن سیانے کہہ گئے ہیں کہ مشکل وقت میں تو سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے اور پاکستان کا سیاسی منظر نامہ آج اسی کی عکاسی کر رہا ہے۔ ان میں اسد عمر اور پرویز خٹک نے گو کہ باضابطہ طور پر صرف پارٹی عہدے چھوڑنے کا اعلان کیا پارٹی کو الوداع نہیں کہا لیکن بعض اوقات ان کہی کہانیاں بہت کچھ سنا جاتی ہیں اور آگے چل کر کئی ان کہی کہانیاں بھی سامنے آسکتی ہیں۔

    ملک کی موجودہ صورتحال میں پاکستان میں نئی سیاسی صف بندی شروع ہوچکی ہے جس کے نتائج آئندہ چند دنوں میں آنا شروع ہو جائیں گے تاہم جو کچھ ہو رہا ہے اس سے پاکستان کے سیاسی مستقبل سے دھند آہستہ آہستہ چھٹتی نظر آ رہی ہے۔ ملک کی روایت کے مطابق ایک بار پھر سیاسی جماعت کے بطن سے نئی پارٹی کے جنم لینے کے امکانات قوی ہوگئے ہیں اور اس کے لیے پی ٹی آئی کے سابق رہنما جنہیں اس وقت کی اپوزیشن عمران خان کی اے ٹی ایم مشین کہتی تھی یعنی جہانگیر ترین وہ سرگرم ہوگئے ہیں۔

    ماہرین سیاسیات سیاسی جماعتوں کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ یہ ایسی تنظیمیں ہوتی ہیں جو کچھ اصولوں کےتحت قائم کی گئی ہوں اور جس کا مقصد آئینی اور دستوری طریقے سے حکومت حاصل کر کے ان اصولوں کو بروئے کار لانا ہو جن کے لئے ان تنظیموں کو منظّم کیا جاتا ہے لیکن پاکستان کا شمار بدقسمتی سے ان ممالک میں شمار ہوتا ہے جہاں سیاست کا سب سے بڑا اصول ذاتی مفاد اور موقع پرستی ہے، جہاں سیاستدان فائدہ سمیٹنے کے لیے موقع کے منتظر رہتے ہیں اور انہیں ایک بار پھر یہ موقع 9 مئی کے واقعات کے بعد مل گیا جس کے بعد جہانگیر ترین ہی نہیں بلکہ خود کو سب سے بڑی جمہوری جماعتیں کہنے والی جماعتیں بھی سرگرم ہوچکی ہیں۔ جہانگیر ترین تو اپنی نئی سیاسی جماعت بنانے کے لیے سرگرم ہوگئے ہیں۔ گزشتہ تین ہفتوں سے وہ اس کے لیے سرگرم اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور لاہور میں اہم شخصیات سے ملاقاتیں کرچکے ہیں۔ ان کی مجوزہ نئی پارٹی کے کئی نام بھی میڈیا میں گردش کر رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ عنقریب وہ نئی جماعت کا اعلان کر دیں گے۔ ان کی جانب سے یہ دعویٰ بھی سامنے آیا کہ پی ٹی آئی چھوڑنے والے 70 اراکین کی انہیں حمایت حاصل ہوگئی ہے اور جب یہ تعداد 100 تک جا پہنچے گی تب وہ اعلان کریں گے۔ پی ٹی آئی چھوڑنے والے جو لوگ ان کے ساتھ مل گئے ہیں جن میں ایک نام فواد چوہدری کا بھی لیا جا رہا ہے جنھوں نے پی ٹی آئی چھوڑنے کا اعلان کرتے وقت کچھ وقت کے لیے سیاست سے وقفہ لینے کا اعلان کیا تھا لیکن یہ وقفہ ایک ہفتے کا بھی نہ رہا اور گزشتہ دنوں وہ اڈیالہ جیل دیگر منحرف کارکنوں کے ہمراہ شاہ محمود سے ملنے جا پہنچے لیکن یہ گروہ انہیں پی ٹی آئی چھوڑنے پر راضی نہ کرسکا۔ عمران خان اعلان کرچکے ہیں کہ ان کی غیر موجودگی (نااہلی) کی صورت میں شاہ محمود قریشی پارٹی کی قیادت کریں گے تاہم کل کس نے دیکھی ہے جو رہنما پارٹی چھوڑ گئے ان کے بارے میں بھی کسی نے ایسا گمان نہیں کیا تھا تو ہوسکتا ہے کہ شاہ محمود بھی آنے والے دنوں میں پریس کانفرنس کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ تاہم کئی روز گزر جانے کے باوجود جہانگیر ترین کا پارٹی کا باضابطہ اعلان نہ کرنا ظاہر کرتا ہے کہ ان کی مراد بَر نہیں آرہی اور بڑے نام ان کا ساتھ دینے میں ہچکچا رہے ہیں۔

    پی ٹی آئی سے ٹوٹ کر آنے والے سیاستدانوں کی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے صرف جہانگیر ترین ہی سرگرم نہیں ہیں بلکہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی انہیں گلے لگانے کو تیار ہیں اور انہوں نے اپنی پارٹی کے دروازے پی ٹی آئی کے گھونسلے سے اڑ کر آنے والے پرندوں کے لیے وا کر دیے ہیں۔ پی پی پی اس حوالے سے خاصی سرگرم ہے جنوبی پنجاب سے کئی لوگ اس میں شامل ہوچکے ہیں اور اس کی جانب سے دعوے بھی کیے جا رہے ہیں تاہم ن لیگ کی جانب سے دو رائے پائی جاتی ہیں۔ اکثریت پی ٹی آئی چھوڑ کر آنے والے یا جہانگیر ترین گروپ سے آنے والوں کو پارٹی میں لینے کو خسارے کا سودا قرار دے رہی ہے اور اس کا جواز وہ گزشتہ سال جولائی میں پنجاب کے 20 حلقوں میں ہونے والی ضمنی الیکشن کو بتا رہی ہے جس میں پی ٹی آئی کے منحرف لوگوں کو ٹکٹ دیے تو ن لیگ کا صفایا ہوگیا تھا۔ دوسرا ن لیگ کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہوگا کہ وہ پی ٹی آئی والوں کو خوش آمدید کہتی ہے تو اپنے پرانے ورکرز کو کیا کہے گی کہ جو ایک دوسرے کے خلاف گند اچھالتے رہے وہ اب کیسے ہم نوالہ ہم پیالہ ہوں گے۔ لیکن یہ سیاست ہے اور سیاست میں کون کب دوست سے دشمن اور دشمن سے دوست بن جائے اس کا فیصلہ مفادات کرتے ہیں جیسا کہ موجودہ حکومتی اتحاد پی ڈی ایم کی تشکیل ہے۔

    ادھر صورتحال یہ ہے کہ جو پریس کانفرنس کرکے پی ٹی آئی پر تبرا بھیج کر اسے چھوڑنے کا اعلان کر رہا ہے وہ رہائی پا رہا ہے لیکن جو اس سے انکار کر رہا ہے وہ رہائی پانے کے بعد دوبارہ گرفتار ہو رہا ہے۔ شہریار آفریدی اس کی ایک مثال ہے جب کہ پی ٹی آئی کے مرکزی صدر چوہدری پرویز الہٰی جو کچھ ماہ قبل ہی پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے ان کے خلاف مختلف الزامات کے تحت قانونی کارروائیوں میں بھی تیزی آگئی ہے۔ عدالت انہیں ایک کیس سے بری کرتی ہے تو پولیس دوسرے کیس کی فائل لیے عدالت کے باہر ان کی گرفتاری کے لیے کھڑی ہوتی ہے۔ اس صورتحال میں تحریک انصاف حتیٰ کہ عمران خان کو چھوڑ کر نہ جانے والے پارٹی رہنماؤں کیلئے بھی حالات غیر یقینی ہیں۔ تاحال ان کے ساتھ کھڑے رہنماؤں کو اپنے چیئرمین کے نمایاں ووٹ بینک کا احساس ہے۔ یہ صورتحال پی ٹی آئی میں موجود کئی لوگوں کو اپنے سیاسی مستقبل کے حوالے سے مختلف آپشنز پر غور کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ یہ لوگ عمران خان کے ووٹ چاہتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ مائنس عمران فارمولے کا نتیجہ کیا نکلے گا اور اس سے ان لوگوں کی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

    اسی سیاسی کشمکش کی صورتحال میں سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ 2023 قانون بن گیا۔ اس ایکٹ کے مطابق آرٹیکل 184 کے تحت فیصلوں پر نظرثانی کا دائرہ کار آرٹیکل 185 کے تحت ہوگا اور نظرثانی درخواست کی سماعت فیصلے کرنیوالے بینچ سے بڑا بینچ کرے گا۔ مذکورہ بل کے تحت 184/3 کے تحت سابق فیصلوں پر کسی بھی ملزم کو دی گئی سزا پر نظرثانی کا اختیار مل جائے گا۔ ایکٹ کے اطلاق کے بعد ماضی کے فیصلوں پر نظرثانی درخواست 60 دن میں دائر ہوسکتی ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ نواز شریف اور جہانگیر ترین بھی اپیل دائر کرسکیں گے۔موجودہ سیاسی تناظر میں اس ایکٹ کا قانون بننا بھی مستقبل کا منظر نامہ بنا رہا ہے اور لگتا ہے کہ مریم نواز جو لیول پلیئنگ فیلڈ مانگتی رہی ہیں وہ لیول پلیئنگ فیلڈ انہیں ملنے والی ہے۔

    پی ٹی آئی میں جو آج ٹوٹ پھوٹ ہوئی ہے یہ پاکستان میں پہلی بار کسی سیاسی جماعت کے ساتھ نہیں ہو رہا ہے بلکہ اس کی ایک طویل تاریخ ہے اور تقریباً اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ پاکستان۔ ماضی میں کئی مواقع پر تقریباً ہر سیاسی جماعت کے اندر سے نظریہ ضرورت کے تحت یا تو نئی جماعتیں نکالی گئیں یا پھر ان پارٹیوں میں رہنماوٗں کے باہمی اختلافات نے تقسیم در تقسیم کے فارمولے پر عمل کرایا۔ اس کی واضح مثال ری پبلکن پارٹی کا قیام تھا، جو ملک میں ون یونٹ کے قیام کی راہ ہموار کرنے کیلئے راتوں رات تخلیق کے عمل سے گزری اور اگلے روز ایک ایسی حکومت قائم ہوتے دیکھی گئی جس نے ون یونٹ کے قیام کو ممکن بنایا۔

    ایوب خان کو اپنے آمرانہ دور حکومت کو دوام بخشنے کے لیے جب سیاسی حلقوں کی مدد کی ضرورت پڑی تو پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کو دو حصوں میں کنونشن لیگ اور کونسل لیگ کے نام سے تقسیم کیا گیا۔ جس کے بعد مسلم لیگ اتنی بار تقسیم ہوئی کہ شاید لیگیوں کو ہی معلوم نہ ہو کہ وہ کتنی تقسیم و ’’تطہیر‘‘ کے عمل سے گزری۔ ضیا الحق کے مارشل لا دور میں جب محمد خان جونیجو کو متحدہ مسلم لیگ بنانے کا فیصلہ ہوا تو اس کے بطن سے مسلم لیگ فنکشنل نے جنم لیا اور جب ضیا الحق کی نواز شریف کو ملنے والی آشیرباد سے مسلم لیگ پر نواز شریف کا تسلط قائم ہوا تو جونیجو لیگ قائم ہوئی۔ ن لیگ بعد میں پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر چھا گئی اور اس وقت چوتھی بار وفاق میں حکومت کر رہی ہے۔ اس ن لیگ کو مشرف مارشل لا میں ٹوٹ پھوٹ کا سامنا رہا ہے اور اسے توڑ کر پہلے ہم خیال اراکین کے روپ میں ڈھالا گیا پھر ق لیگ بنائی گئی جو کنگ پارٹی کے نام سے مشہور ہوئی جبکہ پیپلز پارٹی کے بطن سے پیٹریاٹ نے جنم لیا۔ آج یہ جنم شدہ پارٹیاں کہاں ہیں اور ن لیگ اور پیپلز پارٹی کیا مقام رکھتی ہیں یہ سیاسی کھیل کھیلنے والوں کے لیے ایک سبق کی حیثیت رکھتا ہے اگر حاصل کیا جائے تو۔ باقی مسلم لیگ کو جو گروپ ضیا لیگ، آل پاکستان مسلم لیگ، مسلم لیگ عوامی یا دیگر ناموں کے ساتھ سامنے آئے ان کی حیثیت تانگہ پارٹی سے زیادہ کچھ نہیں اور اگر سیاسی تناظر میں دیکھا جائے تو اس میں سوائے شیخ رشید کے کوئی اور سیاسی فوائد نہ سمیٹ سکا۔ صرف مرکزی دھارے میں موجود پارٹیاں ہی نہیں بلکہ عوام نیشنل پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، جے یو آئی، جے یو پی بھی تقسیم در تقسیم کے مرحلے سے گزر چکی ہیں ملکی افق پر ایک واحد سیاسی پارٹی جماعت اسلامی ہے جو تاحال کسی تقسیم کا شکار نہیں ہوئی اور ایک نظم و ضبط کے ساتھ سیاست کررہی ہے۔

    پاکستان کی تاریخ میں اب تک 21 وزیراعظم آئے ہیں لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جس نے 5 سال کی مدت پوری کی ہو لیکن اس کی سب سے بڑی وجہ بھی کئی اور سیاستدان ہیں جو ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے اور اقتدار سے فیضیاب ہونے کے لیے غیر آئینی اقدامات کے ہم قدم ہو جاتے ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتیں تاریخ کا ذکر ضرور کرتی ہیں لیکن جب تاریخ سے سبق سیکھنے کا وقت آتا ہے تو مفادات کے حصول کے لیے سبق حاصل کرنے کے بجائے بغلیں جھانکنا شروع کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کا چلنا بہت مشکل کام نہیں ہے لیکن یہاں کی سیاسی جماعتوں نے اسے اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے ملک نہ صرف دو لخت ہوا بلکہ اپنی درست سمت کھوتے ہوئے انتشار، افراتفری اور غربت کی طرف چلا گیا۔

    آج ملک کی جو بھی سیاسی صورتحال ہے پرانی نسل ری پلے دیکھ رہی ہے لیکن نئی نسل الجھن کا شکار ہے۔ صاحب اختیار جان لیں کہ وقت کا جبر زبان تو خاموش کرا سکتا ہے لیکن تاریخ کی آنکھ بند ہوتی ہے اور نہ قلم رُکتا ہے اور جب تاریخ کا یہ سچ سامنے آتا ہے تو بہت کم لوگوں کو ہضم ہوتا ہے۔ آج جو بھی اقتدار کے لالچ میں جھولیاں پھیلا رہے ہیں ان کا ماضی یاد رکھنا چاہیے کہ سیاسی جھولیوں میں ہمیشہ چھید ہوتے ہیں یا کر دیے جاتے ہیں جب اقتدار کے اولے برستے ہیں تو جھولی اس وقت بھر ضرور جاتی ہے لیکن جب وقت کی تپش ان کو پگھلاتی ہے تو ساری برف پانی بن کر ان چھیدوں سے بہہ جاتی ہے اور پھر جھولی خالی رہ جاتی ہے یہی ہماری سیاسی تاریخ ہے لیکن تاریخ سے سبق کم ہی سیکھا جاتا ہے۔

  • بلدیاتی ایوان کو  قائد کاانتظار، عوام مسائل کے حل کے لیے پُرامید

    بلدیاتی ایوان کو قائد کاانتظار، عوام مسائل کے حل کے لیے پُرامید

    پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں کئی سال کی تاخیر کے بعد سپریم کورٹ کے حکم پر سالِ رواں میں بلدیاتی الیکشن ہوئے تھے جو چند دن قبل ضمنی انتخاب کے ساتھ ہی مکمل ہوگئے ہیں اب مرحلہ ہے شہر قائد پر کے میئر کے انتخاب کا!

    میئر کراچی کے لیے بالخصوص سندھ پر 15 سال سے مسلسل حکم رانی کرنے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اور تین بار کراچی میں اپنا ناظم و میئر لانے والی جماعتِ اسلامی سرگرم نظر آرہی ہیں۔ اس حوالے سے دونوں طرف سے سیاسی کوششوں کے ساتھ ایک دوسرے کے خلاف لفظی گولہ باری اور روایتی الزامات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
    الیکشن کمیشن نے بلدیاتی الیکشن میں پارٹی پوزیشن کا جو نوٹیفکیشن جاری کیا ہے اس کے مطابق پیپلز پارٹی شہر قائد کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے اور کراچی کی 246 یونین کمیٹیوں میں سے 104 پر کامیاب ہوئی ہے۔ جماعت اسلامی 87 یوسیز جیت کر دوسرے نمبر پر ہے جب کہ پی ٹی آئی 42 یوسی پر فتح حاصل کر پائی اور تیسرے بڑی پارٹی قرار پائی۔ ن لیگ 8، جے یو آئی (ف) 3 جب کہ ٹی ایل پی ایک نشست جیتنے میں کامیاب رہی۔

    کراچی میں نئے بلدیاتی ڈھانچے کے مطابق کے ایم سی کا ایوان 367 ارکان پر مشتمل ہے جس میں 246 ارکان براہ راست منتخب کیے گئے یوسی چیئرمین ہیں جب کہ 121 ارکان مخصوص نشستوں پر پارٹی نمائندگی کی بنیاد پر منتخب ہوں گے۔ ایوان میں خواتین کی 81، مزدوروں، اقلیتوں اور نوجوانوں کی 12، 12 اور خواجہ سرا اور خصوصی ارکان کے لیے 2، 2 نشستیں ہیں۔

    الیکشن کے نتائج یقینی طور پر حیران کن ہیں، کیونکہ پاکستان اور پیپلز پارٹی کی سیاسی تاریخ میں کبھی اس شہر کے ووٹروں نے پیپلز پارٹی کو قبولیت کی اتنی بھاری سند نہیں دی ہے۔ ان نتائج پر جہاں شہری انگشت بدنداں ہیں وہیں جماعت اسلامی، پی ٹی آئی سمیت دیگر جماعتوں حتیٰ کہ وفاق میں اتحادی جے یو آئی ف نے بھی پیپلز پارٹی پر دھاندلی کے الزامات عائد کیے اور پھر ووٹنگ کے وقت کی جو ویڈیوز ملکی ذرایع ابلاغ پر دکھائی گئیں اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں ان کو دیکھتے ہوئے تو یہ الزامات غلط بھی نظر نہیں آتے۔

    چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری تو بلدیاتی الیکشن سے قبل ہی اپنا کراچی میئر لانے کے دعوے کرتے تھے۔ وہ واضح سادہ اکثریت تو نہ لاسکے لیکن پی پی سب سے بڑی پارٹی بن کر ضرور سامنے آئی ہے ، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ یہ کہہ چکے تھے کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں پیپلز پارٹی کے میئر منتخب ہوں گے یعنی عملی طور پر پی پی کا راج نچلی سطح تک ہوگا۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت تن تنہا اپنا میئر لانے کی پوزیشن میں نہیں ہے کیونکہ کسی بھی جماعت کو اپنا میئر لانے کے لیے 184 ووٹوں کی ضرورت ہوگی۔ پیپلز پارٹی گو کہ سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے اور اس نے شہر قائد کے میئر کے لیے مرتضیٰ وہاب کو نامزد کیا ہے تاہم اگر وہ اپنی وفاق میں اتحادی ن لیگ، جے یو آئی ف کے علاوہ ٹی ایل پی کی ایک سیٹ کو بھی ساتھ ملا لے تب بھی اپنا میئر لانے کی پوزیشن میں نہیں جب تک کہ مخالف پارٹی میں اکھاڑ پچھاڑ کر کے اپنی منشا پوری نہ کی جائے جس میں 9 مئی کے بعد پی ٹی آئی کی موجودہ صورتحال کی وجہ سے کوئی مشکل بھی نظر نہیں آتی۔

    دوسری جانب جماعت اسلامی جس کی جانب سے میئر کے امیدوار حافظ محمد نعیم ہیں وہ اگر پی ٹی آئی سے اتحاد کر لیتے ہیں تو ان کا ناظم باآسانی آسکتا ہے جیسا کہ میڈیا میں خبریں بھی آ رہی ہیں کہ دونوں جماعتوں میں اس حوالے سے بات چیت جاری ہے۔

    جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی میں لفظی گولہ باری جاری ہے اور دونوں جانب سے الزامات اور اپنا میئر لانے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ شہر کراچی کی کنجی کس کے ہاتھ ہوگی، یہ وقت دور نہیں۔ ہم نظر ڈالتے ہیں کراچی میں بلدیاتی اداروں کی تاریخ پر جو قارئین کی دلچسپی کا باعث بنے گا۔

    شہر کراچی گوناگوں معاشی‘ صنعتی‘ تعلیمی‘ تہذیبی اور ثقافتی سرگرمیوں کے سبب دنیا بھر میں اپنی ایک نمایاں شناخت رکھتا ہے۔ اپنی آبادی کے لحاظ سے دنیا کا بارہواں بڑا شہر ہے۔ دنیا کے 78 ملکوں کی مجموعی آبادی اس شہر کی آبادی سے کم ہے۔

    برصغیر پاک و ہند میں بلدیاتی نظام کی ابتدا جن شہروں سے ہوئی کراچی ان میں سے ایک ہے۔ یہاں 176 سال سے زیادہ عرصہ سے بلدیاتی نظام قائم ہے۔ قیام پاکستان کے بعد مختلف ادوار میں 7 بلدیاتی نظام نافذ کیے گئے۔ 17 فروری 1843ء کو لیفٹیننٹ جنرل سر چارلس نیپئر کی قیادت میں انگریزوں نے سندھ پر قبضہ کیا تو وہ سندھ کے گورنر کے عہدے پر فائز ہوئے پھر انگریزوں نے 100 سال کے دوران بلدیات کے حوالے سے کئی اصلاحات کیں جن سے کراچی اس دور میں ایک جدید شہر کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ شہر کی ترقی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب 1939ء میں کراچی میں میئرز کانفرس کا انعقاد کیا گیا جس میں برما اور دوسرے ملکوں کے میئرز نے شرکت کی اور یہ کراچی میں اپنی نوعیت کی پہلی اور منفرد کانفرنس تھی۔ اس کانفرنس میں آنے والے میئرز نے کراچی کی ترقی کو سراہا اور شہریوں کے لیے نیک خواہشات کا بھی اظہار کیا۔ تاہم شہر قائد میں باقاعدہ بلدیاتی حکومت کا آغاز 1933 سے ہوا۔ وقت کے ساتھ ساتھ شہر بڑا ہوا تو نظام میں تبدیلی بھی کی جاتی رہی۔ کراچی بندرگاہ پر تجارتی سر گرمیاں بڑھنا شروع ہوئیں تو 1933 میں انگریز حکمرانوں نے سٹی آف کراچی میونسپل ایکٹ نافذ کیا، برطانوی راج نے دیہی شہری تقسیم کو مقامی سطح پر متعارف کرایا۔ شہری کونسلیں میونسپل سروسز کو پورا کرنے کے لیے بنائی گئی تھیں جبکہ دیہی کونسلوں کو مقامی اشرافیہ سے ہم آہنگ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ جمشید نسروانجی کراچی کے پہلے میئرمنتخب ہوئے جو آج بھی جدید کراچی کے بانی کہلاتے ہیں۔ ابتدائی طور پر میونسپل کارپوریشن میئر، ڈپٹی میئر اور 57 کونسلرز پر مشتمل تھی ، اس نظام میں عملی طور پر ڈپٹی کمشنر انتظامی طور پر با اختیار تھا۔

    1947 میں جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو یہاں بلدیاتی نظام پہلے سے موجود تھا اس وقت کراچی کی آبادی 3 لاکھ کے قریب تھی اور بنیادی سہولتیں میسر تھیں، ہر صبح کراچی کی سڑکوں کو دھویا جاتا تھا۔ شام گئے روشنی کے لیے مٹی کے تیل سے چراغ روشن کیے جاتے تھے۔ سڑکوں پر بگھی‘ گھوڑا گاڑی‘ اونٹ گاڑی کے ساتھ ساتھ ٹرام سروس اور بسوں کا نظام بھی تھا۔

    قیام پاکستان کے وقت حکیم محمد احسن کراچی میونسپل کارپوریشن کے میئر کے عہدے پر فائز تھے۔ انہوں نے بحیثیت میئر کراچی ایئرپورٹ پر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا استقبال کیا۔ یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ 1933ء کے ایکٹ کے تحت میئر کے عہدے کی مدت ایک سال مقرر تھی۔ اس وقت کراچی میں مسلمان ‘ ہندو اور پارسی رہائش پذیر تھے اور یہ طے کیا گیا تھا کہ ایک سال میئر پارسی‘ ایک سال ہندو اور ایک سال مسلمان ہوگا۔ تاہم جب قیام پاکستان کے بعد ہندوؤں کی بڑی تعداد بھارت ہجرت کرگئی تو یہ ایکٹ تبدیل کر دیا گیا۔

    25 اگست 1947 کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو شہری استقبالیہ دیا گیا جس میں وزیراعظم لیاقت علی خان اور مادر ملت فاطمہ جناح بھی شریک تھیں۔ اس موقع پر میئر حکیم محمد احسن نے بلدیہ کو درپیش خاص خاص مسائل قائداعظم کے سامنے پیش کیے تھے۔ رئیس بلدیہ کا یہ سپاس نامہ اپنے محبوب قائد اور پاکستان کے پہلے گورنر جنرل سے بلدیہ کراچی کے اختیارات میں توسیع کا مطالبہ تھا۔ اس کے بعد بھی آنے والے میئر کراچی بھی ان ہی اختیارات کا مطالبہ کرتے رہے۔

    1958 میں جنرل ایوب خان نے بیسک ڈیمو کریسی (بی ڈی) کا نظام متعارف کروایا۔ اس نظام کے تحت غیر جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات کروائے گئے۔ منتخب ہونے والے بلدیاتی نمائندے ضلعی بیوروکریسی کے ماتحت کام کرتے تھے۔ یہ نظام 2 اداروں پر مشتمل تھا۔ کراچی میونسپل کارپوریشن اور ڈویژنل کونسل تاہم 1973 میں یہ نظام ختم کر دیا گیا۔ 1973 میں سندھ حکومت نے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ متعارف کروایا۔ اس نظام کے تحت کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کا قیام عمل میں آیا۔ 1976 میں بڑھتی آبادی کے ساتھ ہی اس کو بلدیہ کراچی سے بلدیہ عظمیٰ کراچی کا درجہ دے دیا گیا اور ایکٹ میں ایک ترمیم کے ذریعے کراچی کو ڈویژن قرار دیتے ہوئے 4 اضلاع میں تقسیم کر دیا گیا جنہیں کراچی ضلع شرقی، ضلع غربی، ضلع جنوبی اور کراچی سینٹرل کے نام دیے گئے بعد ازاں 90 کی دہائی میں ملیر ضلع کے نام سے ایک اور ضلع کا اضافہ کیا گیا۔ اس ایکٹ کے ذریعے بلدیات میں بیورو کریسی کے کردار کو ختم کر دیا گیا تھا اور براہ راست انتخابات کے ذریعے اراکین کی نمائندگی فراہم کی تھی شاید یہی وجہ تھی کہ اس نظام کے تحت بلدیاتی انتخابات منعقد نہیں ہو سکے۔ 1979 میں اس وقت کے فوجی حکمران جنرل ضیاالحق مرحوم نے سندھ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس متعارف کروایا جو مشرف دور کے آغاز تک قائم رہا۔

    جنوری 2000 میں اس وقت کی جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت نے لوکل گورنمنٹ آرڈینس پاکستان نافذ کیا۔ اس نظام کے تحت کراچی میں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ وجود میں آئی۔ کراچی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کو 18 ٹاؤنز میں تقسیم کیا گیا اور اس نظام کے تحت میئر کراچی کو انتظامی حوالے سے فیصلے کرنے کا اختیار دیا گیا اور اس کا عہدہ ناظم میں تبدیل کیا گیا۔ اس نظام کے تحت پہلی بار ضلعی بیورو کریسی منتخب نمائندوں کے سامنے جوابدہ تھی۔ اس بلدیاتی نظام میں ٹاؤن اور یو سی کی سطح پر منتخب میونسپل انتظامیہ پانی، صفائی، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ اور سڑکوں، پارکوں، اسٹریٹ لائٹس کی تعمیر و مرمت اور ٹریفک انجینئرنگ کی منصوبہ بندی کر سکتی تھی تاہم 14 فروری 2010 کو پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے لوکل گورنمنٹ آرڈیننس اور کراچی سٹی گورنمنٹ کو ختم کر دیا۔

    2013 طویل انتظار کے بعد سپریم کورٹ کے حکم پر سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ متعارف کرایا گیا اور عدالت عظمیٰ کے حکم پر ہی 2015 میں ایس ایل جی اے کے تحت کراچی میں بلدیاتی انتخابات کروائے گئے جس کے نتیجے میں میئر اور ڈپٹی میئر اور شہر کے چھ اضلاع میں چیئرمین منتخب ہوئے۔ جن میں نیا ضلع کورنگی شامل تھا بعد ازاں کراچی میں کیماڑی کے نام سے ایک اور ضلع کا اضافہ کیا گیا جو تاحال آخری اضافہ ہے۔

    2013 کے اس بلدیاتی قانون میں متعدد بار ترامیم کی گئیں اور اسی کی بنیاد پر شہر کراچی کی بلدیاتی حد بندی بھی کی گئی جس پر ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی نے احتجاج کیا بلکہ ایم کیو ایم نے تو اس کو جواز بناتے ہوئے حالیہ بلدیاتی الیکشن کا مکمل بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا جس کے باعث ملک کے سب سے بڑے شہر پر راج کرنے والی ایم کیو ایم کی آج کراچی کے بلدیاتی ایوان میں نمائندگی زیرو ہے اور چار دہائی بعد یہ پہلا موقع ہے کہ کے ایم سی کا ایوان ایم کیو ایم کی نمائندگی کے بغیر ہوگا۔

    پیپلز پارٹی نے کراچی کے لیے مرتضیٰ وہاب کو میئر کا امیدوار نامزد کیا ہے تاہم وہ براہ راست منتخب ہوکر نہیں آئے ہیں اس لیے ان کے میئر کا انتخاب لڑنے کی گنجائش نکالنے کے لیے اب اس میں ایک اہم ترمیم اور کی گئی ہے اور پیپلز پارٹی نے جو مشرف کے بلدیاتی نظام 2002 کی سخت مخالف رہی ہے اب اسی قانون کے مساوی ایک ترمیم کر ڈالی جس کی سندھ کے ایوان نے منظوری دے دی جس کے تحت اب غیر منتخب شخص بھی میئر بننے کا اہل ہوگا۔

    1956 تک اس شہر کے 20 میئر منتخب ہوئے پھر اس کے بعد یہ سلسلہ طویل مدت تک رک گیا۔ 1979 میں عبدالستار افغانی جن کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا وہ دو بار میئر منتخب ہوئے۔ 1988 میں ایم کیوایم کے 28 سالہ ڈاکٹر فاروق ستار میئر کراچی منتخب ہوئے جن کو اس وقت کراچی کے کم عمر ترین میئر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا، 1992 میں انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد 9 سال تک پھر کراچی بغیر بلدیاتی اداروں کے بیوروکریسی کے سہارے چلتا رہا، 9 سال بعد جب 14 اگست 2001 میں مشرف حکومت نے نیا بلدیاتی نظام متعارف کرایا تو کراچی کی قسمت سنور اٹھی۔ اس نظام کے تحت جماعت اسلامی کے نعمت اللہ ایڈووکیٹ شہر قائد کے پہلے ناظم اور 23 ویں میئر منتخب ہوئے اور ان کا دور ترقیات کے حوالے سے شہریوں کے ذہن ودلوں میں ہمیشہ خوشگوار یاد بن کر رہے گا۔ ان کے بعد 2005 میں ایم کیو ایم کے مصطفیٰ کمال ناظم کراچی منتخب ہوئے تو ترقی کا سفر مزید تیزی سے جاری رہا اور کراچی شہر کا نقشہ بدل گیا۔ مصطفیٰ کمال کی صلاحیتوں کو بین الاقوامی طور پر بھی سراہا گیا اور ان کا شمار دنیا کے بہترین میئرز (ناظم) میں کیا گیا۔

    2010 میں جب مصطفیٰ کمال اپنی مدت پوری کرکے رخصت ہوئے تو 5 سال تک یہ شہر پھر بلدیاتی نمائندوں سے محروم رہا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن ہوئے اور متحدہ کے نامزد وسیم اختر نئے بلدیاتی قانون کے تحت میئر کراچی منتخب ہوئے لیکن یہ دور شہریوں کے لیے کوئی خوشگوار دور نہیں کہلائے گا کیونکہ اس دور میں شہر اور شہریوں نے ترقی کے بجائے صرف گلے شکوے، اپنے سابقہ اتحادیوں سے رنجشوں اور محرومیوں اور بے اختیاری کا رونا روتی پریس کانفرنسوں کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔

    سیاسی جوڑ توڑ ہو یا کوئی اتحاد، میئر پیپلز پارٹی کا ہو یا جماعت اسلامی کا، شہر کو ایسا میئر چاہیے جو سیاسی اور لسانی تعصب سے بالاتر ہوکر اس شہر کی وہ خدمت کرسکے کہ اس کا نام تاریخ میں درج ہوسکے لیکن یہ اس وقت تک سوال ہی رہے گا جب تک اہل کراچی اپنی آنکھوں سے کراچی کی تقدیر سنورتے نہ دیکھ لیں۔ شہریوں کے ذہنوں میں تو یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ کیا کراچی کو دہائیوں سے درپیش مسائل جو مسلسل نظر انداز کیے جانے اور بلدیات سے متعلق اداروں کی تقسیم در تقسیم سے انتہائی پیچیدہ صورت اختیار کرچکے ہیں وہ حل ہوسکیں گے۔ نیا میئر کراچی کو دوبارہ روشنیوں کا شہر اور عروس البلاد کا درجہ دلا سکے گا یا یہ دورانیہ بھی سابقہ ادوار کی کوتاہیاں گنتے اور اپنی مجبوریاں بیان کرتے ہی گزرے گا۔

  • کراچی: کوئی نوحہ سننے کو تیار نہیں!

    کراچی: کوئی نوحہ سننے کو تیار نہیں!

    کراچی پاکستان کا سب سے بڑا، کثیر قومی اور کثیر ثقافتی شہر ہے۔ اس شہر میں پاکستان کے ہر گوشے کا عکس نظر آتا ہے اور اسی خصوصیت کے پیشِ نظر یہ منی پاکستان بھی کہلاتا ہے۔ یہ شہر عروسُ البلاد اور روشنیوں کا نام سے بھی ہر پاکستانی کے ذہن میں محفوظ ہے۔

    کراچی شہر جتنا بڑا ہے اس کی تاریخ بھی اتنی ہی وسیع ہے، یعنی اس کے پھلنے پھولنے اور عروج پانے اور پھر زوال کی جانب گامزن ہونے کی تاریخ۔ یہ لگ بھگ چار صدی پرانا قصہ ہے۔ ان چار صدیوں میں اس شہر نے ہر ایک کو اپنے دامن میں پناہ دی، روزگار دیا۔ کراچی سب کا بنا لیکن کراچی کا کوئی نہ بن سکا۔ کراچی ہمارا ہے کے دعویدار تو پیدا ہوتے رہے ہیں لیکن اپنے دعوؤں کا پاس رکھنے اور اس کے لیے عملی اقدامات کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔

    کراچی آج جیسا نظر آتا ہے ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ مچھیروں کی بستی سے دنیا کا اہم ساحلی اور تجارتی شہر بننے میں کراچی نے زمانے کے کئی سرد و گرم سہے، تھپیڑے برداشت کیے، غیروں کی اپنائیت کو محسوس کیا تو اپنوں کا ظلم اور زیادتی بھی دیکھی۔ نظر انداز کیے جانے کا دکھ ہمیشہ اس کی کوکھ میں پلتا رہا۔ لگ بھگ چار صدی قبل بلوچ مائی ’’کولانچ‘‘ نامی علاقے سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئی تھی۔ اسی نسبت سے اس کو مائی کولاچی کہا جانے لگا اور یہی تعلق شہر کو کولاچی کا ابتدائی نام دے گیا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب دنیا کے نقشے پر کراچی کے نام سے موجود ہے۔

    1772 میں کولاچی کو بحرین اور مسقط کے ساتھ تجارت کرنے کیلیے بندرگاہ کے طور پر منتخب کیا گیا۔ یہ شہر جب آہستہ آہستہ بڑھنے لگا تو یہاں بلوچوں کے علاوہ ہمسایہ علاقوں کی کمیونٹی بھی بڑی تعداد میں بس گئی۔ آبادی بڑھنے کے ساتھ شہر کی حفاظت کے لیے اس کے گرد فصیل تعمیر کی گئی جس پر نصب کرنے کے لیے دو توپیں مسقط سے درآمد کی گئیں۔ اس کے دو دروازے تھے، ایک سمندر کی طرف اور اس کے مخالف سمت اور یہ دونوں دروازے آج کے شہر کے مشہور علاقے کھارا در اور میٹھا در کے نام سے مشہور ہیں۔

    18 ویں صدی کے اختتام تک شہر کی بندرگاہ کی کامیابی کے بعد اس کی آبادی میں بھی اضافہ ہونے لگا اور اس کی ترقی نے ہر ایک کی نظریں اس پر مرکوز کردیں اور لوگ یہاں کھنچے آنے لگے۔ جب سب کی نظریں یہاں تھیں تو ایسا کیسے ہوتا کہ برصغیر پر قابض انگریز کی نظروں سے یہ محفوظ رہتا۔ انگریزوں نے اس پر بھی قبضہ جما لیا لیکن اس کی تعمیر و ترقی کے لیے کام بھی کیا۔ 1839 میں اسے ایک ضلع کی حیثیت دے دی گئی۔

    بانی پاکستان محمد علی جناح نے بھی اس شہر میں آنکھ کھولی تاہم ان کی پیدائش تک یہ شہر اپنے دور کا ایک ترقی یافتہ شہر بن چکا تھا جس میں ریلوے اسٹیشن اور بندرگاہ تھی۔ اس دور کی اکثر عمارتوں کا فن تعمیر کلاسیکی برطانوی نوآبادیاتی تھا، جو برصغیر کے اکثر شہروں سے مختلف ہے۔ ان میں سے اکثر عمارتیں اب بھی موجود ہیں اور سیاحت کا مرکز بنتی ہیں۔ اسی دور میں کراچی ادبی، تعلیمی اور تہذیبی سرگرمیوں کا مرکز بھی بن رہا تھا۔

    کراچی اپنے محل وقوع، آب و ہوا اور ہر ایک کے لیے اپنی بانہیں وا کر دینے کی صفت کے باعث آہستہ آہستہ مچھیروں کی بستی سے ایک تجارتی مرکز بنتا گیا جس کے پاس ایک بڑی بندرگاہ تھی۔ 1880 کی دہائی میں ریل کی پٹڑی کے ذریعے کراچی کو باقی ہندوستان سے جوڑا گیا۔ 1881 میں اس شہر کی آبادی 115407 تھی۔ 1936 میں سندھ بمبئی سے علیحدہ ہوا اور صوبے کا درجہ ملا تو کراچی سے گزرنے والے مسافروں کی تعداد بڑھتی گئی۔ قیام پاکستان کے وقت کراچی کو دارالحکومت کے طور پر منتخب کیا گیا۔ اس وقت اس کی آبادی 4 لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ اپنی نئی حیثیت کی وجہ سے شہر کی آبادی میں کافی تیزی سے اضافہ ہوا اور شہر خطے کا ایک مرکز بن گیا۔

    قیام پاکستان سے قبل کراچی تیز رفتاری سے ترقی کی منازل طے کر رہا تھا اور اس کی ترقی کا یہ عالم تھا کہ ڈینسو ہال، فریئر ہال، کراچی جم خانہ، این ای ڈی کالج، ڈاؤ میڈیکل کالج، ٹرام چلتی تھی۔ انڈر گراؤنڈ ریلوے کے لیے پلان اتنا منظم اور ترقی یافتہ تھا کہ مختلف ممالک کے سفیر اس بات پر شرط لگاتے تھے کہ کراچی، نیویارک اور لندن کون سا شہر تیزی ترقی کرے گا اور سب کا خیال تھا کہ کراچی سب سے زیادہ ترقی کرے گا اور وہ اس کو ریٹائرمنٹ کے بعد اپنا مستقل مسکن بنانے کی منصوبہ بندی کرتے تھے۔ آج تو معمولی بارش سے کراچی کی سڑکیں دریا کا منظر پیش کرتی ہیں لیکن ان دنوں بارش کے آدھے پون گھنٹے میں پانی سڑکوں سے صاف ہوجاتا تھا۔

    موجودہ کراچی میں سانس لینے والوں کو شاید یقین نہ آئے کہ یورپی خواہش رکھتے تھے کہ کراچی سے کنکٹنگ فلائٹ ہو اور جب کنکٹنگ فلائٹ کراچی میں لینڈ کرتی تو غیرملکی ایئرپورٹ سے کرائے پر سائیکلیں لے کر ایمپریس مارکیٹ صدر سے خریداری کا شوق پورا کرتے تھے۔ یہ اپنے دور کا اتنا معاشی ترقی یافتہ شہر تھا کہ قیام پاکستان کے بعد 1958 میں جنوبی کوریا نے سیول کو کیپیٹل معاشی حب ہل بنانے کا فیصلہ کیا تو کراچی کو آئیڈیل بنایا اور اس کے بزنس پلان کو اسٹڈی کیا لیکن آج سیول کہاں ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں یہ دیکھ کر صرف سرد آہ ہی بھر سکتے ہیں۔

    یہ نوحہ ہے کراچی کی تباہی اور بربادی کا جس کی ذمے داری قیام پاکستان کے ابتدائی چند برسوں کے علاوہ ملک کے تمام حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے ذاتی، گروہی مفادات اور تعصب پر مبنی فیصلے کر کے دنیا کے نقشے پر تیزی سے ترقی کرتے شہر کے طور پر ابھرتے ہوئے کراچی کو اپنی ناقص منصوبہ بندی اور ذاتی و سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا۔ یوں تو یہ پاکستان کا سب سے بڑا اور کماؤ پوت شہر ہے لیکن جس طرح گھر میں کسی بڑے کو مان دیا جاتا ہے اور کماؤ پوت کی قدر کی جاتی ہے 75 سالہ ملکی تاریخ میں یہ شہر اس سے محروم رہا ہے۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، صفائی کے ناقص انتظامات، صاف پانی کی عدم فراہمی، تفریحی سہولتوں سے محروم ہوتا یہ شہر اب انسانوں کا جنگل بنتا جا رہا ہے۔

    کراچی پاکستان کا واحد پورٹ سٹی اور تجارتی دارُالحکومت ہے جو آج بھی ان تمام تر نامساعد حالات کے باوجود پاکستان کی مجموعی آمدنی کا 64 فیصد سے زائد کما کر دے رہا ہے لیکن اس کے بدلے جو کچھ اسے مل رہا ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔

    غیر سرکاری اعداد و شمار اور بین الاقوامی اداروں کی کچھ رپورٹوں کے مطابق کراچی کی موجودہ آبادی 24 ملین ہے۔ جو 1947 کے مقابلے میں 37 گنا زیادہ ہے۔ آزادی کے وقت کراچی کی آبادی محض 4 لاکھ تھی۔ تقسیم ہند کے نتیجے میں 10 لاکھ لوگ ہجرت کر کے کراچی آئے تھے۔ شہر کی آباد 5 فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے جس میں ایک بڑا تناسب دیہات سے شہروں کو منتقل ہونے والوں کا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر ماہ کئی افراد شہر قائد پہنچتے ہیں۔

    کراچی جس طرح کثیر قومی اور کثیر ثقافتی شہر ہے اسی طرح کثیر المسائل بھی ہے اور مسائل سے مسلسل چشم پوشی نہ صرف مسائل کے پہاڑ کھڑے کر رہی ہے بلکہ شہریوں میں ایک مسلسل مایوسی اور اضطرابی کیفیت بھی پیدا کر رہی ہے۔ جس کراچی شہر کی سڑکیں قیام پاکستان سے قبل اور قیام پاکستان کے ابتدائی دور میں روز دھلا کرتی تھی اور چمچاتی رہتی تھیں، وہی سڑکیں آج کھنڈر بن چکی ہیں۔ ایک زرا سی بارش لمحوں میں اس شہر کو بڑے دریا میں تبدیل کر دیتی ہے۔ نکاسی کا نظام مفلوج، پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی، صاف پانی کی عدم فراہمی، پولیس سمیت مختلف اداروں میں غیر مقامی افراد کی بھرتی، کوٹہ سسٹم کے ذریعے کی جانے والی مسلسل حق تلفی سے اب اس شہر کے باسیوں میں احساس محرومی کئی گنا بڑھ گیا ہے۔

    70 کی دہائی میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے کوٹا سسٹم متعارف کروانے کے بعد کراچی شہر کے باسی لسانی تفریق اور تعصب کا نشانہ بنے۔ شہر کی سب سے بڑی آبادی یعنی اردو بولنے والوں کو مسلسل نظر انداز کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1979 میں اے پی ایم ایس او کے نام سے کراچی یونیورسٹی سے طلبہ سیاست کا آغاز کرنے والی تنظیم نے جب خود کو مرکزی سیاسی دھارے میں شامل کرنے کے لیے 1984 میں ایم کیو ایم (مہاجر قومی موومنٹ) کو قائم کیا تو سندھ کے شہری علاقوں بالخصوص کراچی اور حیدرآباد سے اردو بولنے والوں کی اکثریت نے اس پر لبیک کہا اور اس پرچم تلے اپنے اور شہری علاقوں کے حقوق کے حصول کے لیے جمع ہوئے۔ عوام نے ایم کیو ایم کو وہ محبت اور پیار دیا جو بہت کم سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں کو نصیب ہوا۔ 30 سال تک شہر قائد میں ایم کیو ایم کا طوطی بولتا رہا۔

    ایک وقت تھا کہ جب بانی ایم کیو ایم کی آواز پر لاکھوں کے مجمع پر خاموشی چھا جاتی تھی لیکن جب اپنی جوانی اور زندگیاں لٹانے والوں کو اس جماعت سے سوائے چند معروف نعروں کے کچھ نہیں ملا بلکہ آئے دن کی ہڑتالوں، ہنگامہ آرائی، تعلیم کی تنزلی، کاروبار کی تباہی کے ساتھ کوٹہ سسٹم جیسے مسائل ہر حکومت میں رہتے ہوئے بھی حل نہ ہوئے بلکہ ایم کیو ایم کی جانب سے اپنی اتحادی جماعتوں کو مورد الزام ٹھہرانے اور پھر ان سے دوبارہ گلے مل لینے پر عوام کی محبت آہستہ آہستہ بیزاری میں تبدیل ہوتی گئی اور یہ جماعت ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کا شکار ہو کر اب بھولی بسری داستان بنتی جا رہی ہے۔

    آج کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ یہاں کے لوگوں کی گنتی پورا نہ ہونا ہے۔ 2017 کی مردم شماری میں بڑی ڈنڈی مارے جانے کے بعد جب دوبارہ رواں سال مردم شماری ہوئی تو ایک بار پھر دھوکا دیا گیا اور کراچی کی آبادی ایک کروڑ 89 لاکھ بتائی گئی۔ دوسری جانب نادرا ریکارڈ کے مطابق کراچی میں مستقل پتے پر شناختی کارڈ اور ب فارم جاری ہونے کی تعداد ایک کروڑ 91 لاکھ سے زائد ہے جب کہ لاکھوں افراد ایسے بھی ہیں جو برسوں سے کراچی رہ رہے ہیں لیکن کراچی کے شناختی کارڈ نہیں بنوائے۔ گورنر سندھ کا بھی کہنا ہے کہ کراچی کی آبادی کسی طور پر ڈھائی کروڑ سے کم نہیں جب کہ جماعت اسلامی کہتی ہے کہ ساڑھے تین کروڑ نفوس کراچی کی گود میں پل رہے ہیں لیکن نادرا ریکارڈ اور کراچی سے تعلق رکھنے والی دو بڑی جماعتوں کے دعوؤں کے برعکس ڈیجیٹل مردم شماری میں آبادی ایک کروڑ 89 لاکھ ظاہر کرنے کو کیا کہیں‌ گے؟ کیا یہ متعلقہ اداروں کی بدنیتی کو صاف ظاہر کرتا ہے۔

    صاف ظاہر ہے کہ کراچی کو اگر درست گنا گیا تو اندرون سندھ کے ووٹوں سے کراچی پر حکومت کرنے والی جماعت کی حکمرانی خطرے میں پڑسکتی ہے اس لیے کبھی کراچی کو درست نہیں گنا گیا۔ شہروں کی طرف مسلسل نقل مکانی کے باوجود دیہی سندھ کی آبادی میں تیزی سے اضافہ اور کراچی میں دس فیصد سے بھی کم سالانہ اضافہ مردم شماری کے گورکھ دھندے کا پول کھول رہا ہے۔

    پیپلز پارٹی جو مسلسل 15 برس سے اس صوبے میں حکومت کر رہی ہے اس کے دور میں کراچی کے مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھے ہی ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی ہی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے گو کہ کوئی سیاسی جماعت اپنا میئر لانے کی سادہ اکثریت حاصل نہیں کرسکی لیکن پیپلز پارٹی کی اس طرح کی فتح کسی بھی شہری کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ سوشل اور قومی میڈیا پر بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی سے متعلق چلنے والی فوٹیجز چیخ چیخ کر سندھ کی حکمراں جماعت کے عزائم بتا رہی ہیں جس سے بلدیاتی الیکشن کے غیر جانبدار اور منصفانہ الیکشن پر سوال اٹھ گئے ہیں۔

    اپنوں اور غیروں سب کے دیے ہوئے زخموں سے چُور اور کرچی کرچی کراچی اب خود کسی لاوارث کی طرح چاروں جانب دیکھ رہا ہے اور پکار رہا ہے کہ کون ہے جو اس درد کا درماں کرے اور اس کی کوکھ میں پلنے والے کروڑوں لوگوں کا مسیحا بنے۔ کراچی اور کراچی کے باسیوں کو کچھ اور نہیں چاہیے، وہ صرف اپنا حق چاہتے ہیں۔ جتنا کما کر دیتے ہیں اسی کے مطابق سہولتیں چاہتے ہیں۔ صاف پانی، پختہ سڑکیں، محفوظ اور موثر ٹرانسپورٹ، بااختیار بلدیاتی نظام، تعلیم و صحت کی مناسب سہولیات اور یکساں حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں۔

  • احتجاج کرنا ہمارا حق ہےانتشار پھیلانا نہیں

    احتجاج کرنا ہمارا حق ہےانتشار پھیلانا نہیں

    سپریم کورٹ کے حکم کے بعد ملک بھر میں عمران خان کی گرفتاری کے خلاف کارکنوں میں پایا جانے والا غم و غصّہ کم اور احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ ختم ہوتا نظر آرہا ہے، جس کی آڑ میں‌ شدید ہنگامہ آرائی کی گئی اور پُرتشدد واقعات بھی پیش آئے۔ دنیا بھر میں ان واقعات کو میڈیا نے کور کیا اور اب نیب کی جانب سے عمران خان کی گرفتاری کو سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دے کر انھیں پولیس لائنز میں رکھنے کا حکم جاری کیا ہے۔

    پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی اسلام آباد ہائیکورٹ سے گرفتاری کے بعد ملک بھر میں ردعمل سامنے آیا جس میں مشتعل افراد کی جانب سے قومی اداروں اور املاک کو نقصان پہنچایا گیا اور اس کی خبریں صرف پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں میڈیا کی زینت بنیں۔ اس سے دیارِ غیر میں جہاں پہلے ہی پاکستان کا امیج اچھا نہیں بن رہا تھا، وہ مزید خراب ہوا۔

    عمران خان کو نیب کی جانب سے بنائے گئے القادر ٹرسٹ کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے بعد پی ٹی آئی کی صف اول قیادت جن میں شاہ محمود قریشی، اسد عمر، فواد چوہدری ودیگر شامل ہیں انہیں بھی گرفتار کیا جا چکا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پی ٹی آئی کے حامی سمجھے جانے والے صحافیوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے اور عمران ریاض خان اور آفتاب اقبال کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔

    عمران خان کی گرفتاری اور گرفتاری کے طریقہ کار پر کچھ لوگوں یا طبقے کو تحفظات اور اعتراضات ہوسکتے ہیں لیکن اس کے بعد جس طرح کا ردعمل پورے ملک میں دیکھنے میں آیا اس نے ہر سنجیدہ اور باشعور پاکستانی کو تشویش میں مبتلا کر دیا۔ یہ درست ہے کہ اپنے حق کے لیے احتجاج کرنا کسی بھی جمہوری معاشرے میں ہر شخص کا بنیادی حق ہے لیکن اس کی آڑ میں اگر بے قصور کو جانی و مالی نقصان پہنچایا جائے، قومی اداروں اور ان کی املاک کو نقصان پہنچایا جائے اور صورتحال ایسی بنا دی جائے جس سے لگے کہ پورے ملک میں آگ لگ گئی ہو تو پھر یہ احتجاج نہیں انتشار پھیلانا ہوتا ہے اور کوئی مہذب معاشرہ اور امن پسند شہری اس کی حمایت نہیں کر سکتا۔

    سابق وزیراعظم کی گرفتاری کے فوری بعد جس طرح حساس ادارے کے دفتر اور کور کمانڈر لاہور کی رہائشگاہ پر حملے کیے گئے وہ انتہائی شرمناک ہیں۔ فوج کسی بھی ملک کے لیے انتہائی ضروری اور آخری دفاعی لائن ہوتی ہے۔ اختلاف رائے ہر معاشرے میں ہوتا ہے اور اختلاف کا ہونا ہی جمہوریت کا حسن ہے، لیکن چند افراد سے اختلاف پر پورے ادارے سے نفرت پر مبنی رویے کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ایسی سوچ کا پنپنا خواہ کسی بھی طبقے اور حلقے کی جانب سے ہو وہ کسی طور پر قومی مفاد قرار نہیں دی جاسکتی۔

    احتجاج کی آڑ میں توڑ پھوڑ اور قومی املاک کو نقصان پہنچانے کا عمل صرف کسی ایک ادارے یا شہر اور صوبے تک محدود نہیں رہا بلکہ پورے ملک میں پھیلا اور ایسا پھیلا کہ ملک کے بڑے حصے میں نظام زندگی کو مفلوج کرگیا۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک گیر احتجاج کی آڑ میں مختلف شہروں میں جلاؤ گھیراؤ کیا گیا، پرتشدد کارروائیاں کی گئیں۔ پشاور میں ریڈیو پاکستان کی 5 منزلہ عمارت کو جلا دیا گیا، خواتین ملازمین تک پر تشدد کیا گیا اور ایک ایمبولینس تک نذر آتش کردی گئی۔ الیکشن کمیشن آفس سمیت ملک کے مختلف شہروں میں کئی پولیس تھانوں، موبائلوں سمیت پبلک ٹرانسپورٹ کو نذر آتش کرکے عام عوام کی مشکلات میں اضافہ کیا گیا۔

    اس خونیں احتجاج میں دو روز کے دوران حکومتی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق 10 سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں جب کہ زخمیوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے جن میں 150 سے زائد پولیس افسران و اہلکار شامل ہیں۔ اگر کسی کے نقطۂ نظر کے مطابق عمران خان کی گرفتاری زیادتی ہے تو کیا اس کے ردعمل میں بے قصور عوام اور سرکاری افسران واہلکاروں پر ہونے والا یہ ظلم انصاف پر مبنی قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ انصاف کا نعرہ لگانے والوں کو سوچنا ہوگا کیونکہ جو لوگ بھی شرپسندوں کے غیظ وغصب کا نشانہ بن کر زندگی کی بازی ہارے یا زخمی ہوئے ان کا عمران خان کی گرفتاری سے کوئی لینا دینا یا ذمے داری عائد نہیں ہوتی۔ صورتحال اتنی خراب ہوئی کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت پنجاب، کے پی اور بلوچستان میں فوج کو طلب کرلیا گیا۔ بہرحال ہنگامہ آرائی کے واقعات کے بعد ریاست حرکت میں آئی ہے اور اب تک ہزاروں افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور حکام کے مطابق ان کی سی سی ٹی وی اور موبائل فوٹیجز کے ذریعے نشاندہی ہوئی ہے۔

    ملک میں افراتفری کے بعد انٹرنیٹ مکمل یا جزوی طور پر بند کر دیا گیا اور اس کے نتیجے میں جہاں عوام کے لیے خبروں تک رسائی مشکل بنی اور افواہوں کا بازار گرم ہوا وہیں ٹیلی کام سیکٹر اور حکومتی خزانے کو بھاری مالی نقصان ہوا ہے۔

    اس تمام صورتحال پر پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ قومی اداروں اور ان کی املاک کو نقصان پہنچانے والے شرپسندوں کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے تاہم صرف یہ بیان کافی نہیں ہوگا کیونکہ اسی دوران ایسی آڈیو بھی سامنے آئی ہیں جن میں مبینہ طور پر پی ٹی آئی رہنماؤں کی جانب سے املاک پر حملے کی بات کی جا رہی ہے۔

    اس وقت جب ملک جل رہا ہے تو کچھ حلقوں کی جانب سےاس آگ کو ہوا دینے جیسے بیانات سامنے آ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ تاہم یہ وقت ہے کہ طرفین جوش کے بجائے ہوش سے کام لیں اور کسی بھی ایسے اقدام سے گریز کیا جائے جس سے ملک کی فضا مزید مکدر ہو اور انارکی بڑھے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھی جائے کہ عوام کو زبان مل جائے تو پھر کسی کے لیے غلطی کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ یہ وقت احتیاط اور صبر کے ساتھ دور اندیشی سے فیصلے کرنے کا ہے۔

  • سیاسی انا بالائے طاق رکھ کر ‘پاکستان’ کا سوچیں…

    سیاسی انا بالائے طاق رکھ کر ‘پاکستان’ کا سوچیں…

    ان دنوں پاکستان کی شہرت کا ڈنکا چہار سُو بج رہا ہے۔ دنیا بھر میں میڈیا پر پاکستان کی خبریں جگہ پا رہی ہیں اور یہ سب کسی کارنامے اور نیک نامی کی وجہ سے نہیں بلکہ ملک میں شدید سیاسی اور آئینی بحران، معاشی ابتری، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، کرپشن، ایوان اقتدار میں جاری چوہے بلی کے کھیل اور عوامی کی بدحالی کی خبریں ہیں جس سے پاکستان کا منفی تأثر پختہ ہوتا جا رہا ہے۔

    کچھ عرصے سے ہمارے روایتی حریف پڑوسی ملک بھارت کے میڈیا پر تو پاکستان کے سیاسی اور معاشی حوالے سے تسلسل کے ساتھ منفی خبروں کا سلسلہ جاری تھا لیکن جب بحران پر قابو پانے والوں نے اس سے صرفِ نظر کیا تو یہ معاملہ اتنا پھیلا کہ اب امریکا، برطانیہ، یورپ، ایشیا، وسطی ایشیا، مشرق وسطیٰ، افریقہ غرض دنیا کا کون سا ایسا خطہ ہے جہاں پاکستان کے سنگین حالات کا ذکر نہ ہو رہا ہو۔ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ جو لوگ پاکستان کو ایشین ٹائیگر، ریاست مدینہ، خود مختار اور خودکفیل ملک بنانے کے دعوے کرتے نہیں تھکتے آج ان ہی کے اعمال اور افکار کے باعث دنیا پاکستان کے حالات کو ایتھوپیا، یوگنڈا، سری لنکا جیسی صورتحال کے ساتھ جوڑ رہی ہے۔

    اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ غربت، مہنگائی، بے روزگاری کے باعث سسکتی اور دم توڑتی انسانیت ہے لیکن کسی سیاستدان کو سن لیں‌ یا کسی ٹی وی چینل پر نظر ڈالیں تو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہ نظر آتا ہے کہ الیکشن مئی میں ہوں گے یا اکتوبر میں۔ سنتے تھے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا لیکن ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال دیکھ کر تو لگتا ہے کہ ہماری سیاست دل کے ساتھ دماغی صلاحیتیں بھی کھوچکی ہے۔ سب کا زور الیکشن پر ہے لیکن جس عوام کے ووٹوں کے کاندھوں پر چڑھ کر اقتدار حاصل کرنے کی یہ ساری تگ و دو ہے ان کی کسی کو کوئی پروا نہیں ہے۔

    پاکستان یوں تو بانی پاکستان قائداعظم کی وفات کے بعد سے ہی سیاسی محاذ آرائی اور چپقلشوں کا شکار ہو کر حقیقی جمہوریت کی راہ سے دور ہوتا چلا گیا لیکن موجودہ سیاسی صورتحال تو اس قدر گھمبیر ہو چکی ہے کہ سنجیدہ طبقے کے لیے سیاست ایک گالی بنتی جا رہی ہے۔ جو لوگ 90 کی دہائی کی سیاسی چپقلش اور دشمنی پر مبنی انتقامی کارروائیاں بھول گئے تھے انہیں اب وہ بھی اچھی طریقے سے یاد آگئی ہے۔

    پی ڈی ایم کی درجن بھر جماعتوں پر مشتمل اس حکومت کو ایک سال ہوگیا ہے۔ اس ایک سال میں بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہے جو اپنے ساتھ عوام کی امیدوں، معاشی استحکام، سیاسی برداشت، مساوات اور نہ جانے کیا کچھ بہا کر لے گیا ہے اور اب تو ہر طرف جمہوریت اور سیاست کے نام پر مخالفین پر رکیک اور شرمناک الزام تراشیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔

    ملک کی تاریخ میں پہلی بار عوام نے مہنگا اور خونیں رمضان گزارا ہے۔ دنیا نے یہ تماشا دیکھا کہ روزے میں بزرگ مرد و خواتین 10 کلو آٹے کے تھیلے کے لیے ہزاروں کی بھیڑ میں اپنی عزت نفس گنواتے اور جانیں لٹاتے رہے۔ اس سال تو زکوٰۃ کی تقسیم جیسا فریضہ بھی خونریز ثابت ہوا اور کراچی میں ایک مل کے گیٹ پر چند ہزار روپوں کے لیے درجن بھر جانیں قربان ہوگئیں۔

    ایک سال میں عوام کا سکھ چین سب ختم ہوگیا لیکن سیاسی خلفشار، عدم اطمینان، بے چینی ختم ہونے کے بجائے بڑھتی گئی۔ حکومت بدلی لیکن 75 برسوں سے وعدوں پر ٹرخائی جانے والی عوام کی قسمت پھر بھی نہ بدل سکی اور اس کی جھولی میں سوائے وعدوں اور نام نہاد دعوؤں پر مبنی سکوں کے کچھ نہیں گرا۔

    آج صورتحال یہ ہے کہ مہینوں تک ترلے منتیں کرنے اور سخت شرائط مان کر عوام پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے باوجود آئی ایم ایف سے صرف ایک ارب ڈالر قرض کا معاہدہ نہیں ہو پا رہا ہے اور روز نت نئی شرائط عائد کر رہا ہے۔ دوست ممالک لگتا ہے کہ دہائیوں سے ایک ہی ڈرامے کا ری پلے بار بار دیکھ کر اتنے تنگ آچکے ہیں اور وہ بھی کوئی خاص مدد کے لیے آگے نہیں آرہے ہیں۔

    اگر ہم اپنے چاروں طرف پڑوسی ممالک اور خطے کے دیگر ملکوں پر نظر دوڑائیں تو ہمارا ازلی دشمن قرار دیے جانے والا بھارت اپنے سیٹلائٹ خلا میں بھیج رہا ہے اور دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بن چکا ہے۔ بنگلہ دیش جو کبھی ہمارا ہی حصہ ہوا کرتا تھا آج وہاں ترقی کا یہ عالم ہے کہ وہ ہماری معیشت سے کافی آگے نکل چکا ہے، 20 سال امریکی جنگ سے نبرد آزما افغانستان کی معیشت ایک اعتبار سے ہم سے بہتر ہے۔ ایران مسلسل کئی دہائیوں سے امریکی عتاب کا شکار ہے مگر وہاں خاص سطح پر معاشی استحکام نمایاں ہے جب کہ ہمارا قومی کشکول دراز ہوتا جا رہا ہے۔

    اس وقت ملک کی سوئی الیکشن پر اٹکی ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ نے دوسری بار واضح حکم دیا کہ پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن ہونے ہیں لیکن جنہوں نے اس پر عملدرآمد کرنا ہے وہ اس کو ماننے کو تیار نہیں ہیں بلکہ نئی نئی تاویلیں گھڑ کر لائی جاتی رہی ہیں۔ اب عدالت عظمیٰ میں ملک میں بیک وقت الیکشن کے حوالے سے درخواستیں زیر سماعت ہیں اور عدالت عظمیٰ بحران سے نکلنے کے لیے سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کی تجویز دے چکی ہے۔ فریقین کے درمیان مذاکرات کی تین نشستیں کسی تصفیے پر پہنچے بغیر ختم ہوگئیں جس پر حکومت نے ایک بار پھر مذاکرات کا ڈول ڈالتے ہوئے عدالت نے مزید مہلت طلب کی ہے تاہم سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ اگر سیاسی جماعتوں کے مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچے تو عدالت اپنا 14 مئی کا فیصلہ لے کر بیٹھی نہیں رہے گی۔

    اب گیند سیاستدانوں کی کورٹ میں ہے لیکن یہاں اناؤں کی بلا اتنی حاوی ہے کہ کوئی جھکنے اور ملک و قوم کی خاطر رویوں میں نرمی لانے پر تیار نہیں ہے۔ سب کی خواہش ہے کہ عوام پر حکمرانی کریں لیکن عوام کو اس کے بدلے میں دینے کے لیے ان کے پاس کچھ بھی نہیں سوائے دلاسوں کے۔

    ہمارے سیاستدان شاید اپنی اپنی اناؤں کو ملکی وقار، سلامتی معاملات اور عوامی مفاد سے افضل سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مذاکرات کے باوجود ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ جاری ہے اور مذاکرات کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس پی ڈی ایم سے اپوزیشن پارٹی پی ٹی آئی کے مذاکرات ہو رہے ہیں اس کے سربراہ فضل الرحمان ان مذاکرات کے سخت خلاف اور مذاکراتی عمل سے مکمل طور پر باہر ہیں جب کہ حکومت کو لندن سے کنٹرول کرنے والے نواز شریف بھی ان مذاکرات کے لیے رضامند نہیں ہیں۔

    مذاکرات جو اب تک ناکام ہی نظر آتے ہیں اس میں دونوں فریقین کے مطابق قومی اسمبلی توڑنے کی تاریخ پر اتفاق نہیں ہوسکا ہے۔ بہرحال فریقین بے شک ان مذاکرات کے بارے میں کچھ بھی کہیں حقیقت یہ ہے کہ یہ مذاکرات ناکام ہوچکے ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ خدشات، بے یقینی، بدگمانی کے ساتھ جھوٹی اناؤں کا خول بھی ہے جو تمام معاملات پر حاوی ہے۔

    دنیا کا اصول ہے کہ جب بھی کسی گمبھیر مسئلے پر بات چیت کی جاتی ہے تو کچھ دو اور کچھ لو کے اصولوں پر مذاکرات ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے فریقین کے درمیان بدگمانی اور بداعتمادی کی فضا دور کی جاتی ہے اور جو صاحب اختیار اور اقتدار ہوتا ہے اس پر زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ یہ ماحول پیدا کرے لیکن یہاں تو معاملات ہی الٹے رہے۔

    مذاکرات کے لیے دونوں فریقین نے کمیٹیاں بنائیں لیکن مذاکرات شروع ہوئے تو پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے خلاف آپریشن اور گرفتاریوں کا عمل شروع ہوگیا۔ جب سراج الحق عمران خان سے ملاقات کرکے اور انہیں ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے حکومت سے مذاکرات کا مشورہ دے کر آئے تھے تو اس کے فوری بعد پی ٹی آئی سندھ کے صدر علی زیدی کو گرفتار کیا گیا اور جب مذاکرات کی بات آگے کمیٹیوں تک پہنچی تو علی امین گنڈاپور کو حراست میں لے کر ملک بھر میں گھمایا گیا لیکن سب سے تشویشناک صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب رات کی تاریکی میں عدالتی حکم کے برخلاف پی ٹی آئی کے مرکزی صدر اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کی رہائشگاہ پر چھاپہ بلکہ کئی چھاپے مارے گئے جو صورتحال کو سنبھالنے کے بجائے مزید بگاڑ کی جانب لے گئے۔

    وزیراعظم شہباز شریف جب وزیراعلیٰ پنجاب تھے تو خادم اعلیٰ کے ساتھ شہباز اسپیڈ کے نام سے جانے جاتے تھے اور اس کی وجہ ن لیگ کا حلقہ احباب پنجاب میں تیز رفتار ترقیاتی کام بتاتا ہے، لیکن وزیراعظم بننے کے بعد ان کی اسپیڈ دنیا کی سب سے بڑی جہازی سائز کابینہ بنانے اور مخالفین پر مقدمات بنانے میں ہی نظر آتی ہے۔ ان کی 83 رکنی کابینہ نے جہاں دنیا کی سب سے بڑی کابینہ کا اعزاز پایا ہے اسی طرح سابق وزیراعظم پر چند ماہ میں 122 سے زائد مقدمات کا قائم ہونا بھی اپوزیشن رہنما کے خلاف مقدمات کے اندراج کا شاید عالمی ریکارڈ قائم کردے کیونکہ پی ٹی آئی رہنما خدشہ ظاہر کرچکے ہیں کہ حکومت جلد عمران خان کے خلاف مقدمات کی ڈبل سنچری مکمل کرلے گی۔

    ملک میں جاری اس پُتلی تماشے کو عوام 75 سالوں سے دیکھ کر رہی ہے۔ پپٹ یعنی پتلیاں بدل جاتی ہیں لیکن کھیل معمولی رد وبدل کے ساتھ جاری رہتا ہے۔ لیکن ایسا کب تک چلے گا کیا جمہوریت میں جمہور کے کچھ حقوق نہیں ہوتے؟ یہ وہ سوال ہے جو آج ملک کا ہر شخص صاحب اختیار و اقتدار کے مستقبل میں ان پر حکمرانی کے سہانے خواب دیکھنے والوں سے پوچھ رہا ہے۔ اگر کسی کو اس جمہور کا خیال ہے تو پھر انا کے خول کس لیے؟ خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو یہ کہہ کر رہتی دنیا تک آنے والے حکمرانوں کے لیے مثال قائم کر گئے کہ ’’اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھوک سے مر جائے گا تو اس کا ذمے دار عمر ہوگا‘‘ دنیا کے مختلف ممالک کا نظام دیکھ کر لگتا ہے کہ ان کے اس طریقہ حکمرانی کو اغیار نے اپنا لیا لیکن آج ان کے نام لیوا کو کیوں اپنی عوام کی پروا نہیں اور کیوں ان کے ملک میں بھوک، غربت اور بیروزگاری کے باعث خودکشیاں بڑھتی جا رہی ہیں؟ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے جو باضمیر لوگوں کو ضرور کچوکے لگائے گا لیکن صاحب اختیار اور بااختیار میں ایسے کتنے ہیں؟

  • گولڈن جوبلی: سیاسی مفادات کی دوڑ  میں  آئینِ پاکستان تماشا بنا ہوا ہے!

    گولڈن جوبلی: سیاسی مفادات کی دوڑ میں آئینِ پاکستان تماشا بنا ہوا ہے!

    رواں ہفتے حکومتی نمائندے اور اراکینِ پارلیمنٹ آئینِ پاکستان کے 50 سال مکمل ہونے پر منعقد کی گئی گولڈن جوبلی تقریب میں شریک ہوئے۔ اس موقع پر پارلیمنٹ میں اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹرز نے پُرجوش انداز میں تقاریر بھی کیں جس میں آئین پاکستان کے تحفظ کے وعدے اور دعوے کیے گئے۔ لیکن اسی پارلیمنٹ میں اسی آئین کے ساتھ کھلواڑ بھی جاری تھا جو ان سیاست دانوں کے دہرے معیار کا ثبوت ہے۔

    یوں تو قیام پاکستان کے 9 سال بعد 1956 میں ملک کو پہلا آئین ملا تھا لیکن اس کی عمر صرف دو سال ہی رہی۔ سیاسی بحران بڑھنے کے بعد بالآخر 7 اکتوبر 1958 کو اس وقت کے صدر اسکندر مرزا نے آئین کو منسوخ کر دیا اور ملک میں پہلے مارشل لا نے جنم لیا۔ جنرل ایوب خان پہلے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر ہوئے۔ اس کے بعد چار سال تک ملک بغیر کسی آئین کے چلتا رہا۔ 1962 میں اس وقت کے صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ایوب خان کی نگرانی میں بنایا مملکت کا دوسرا آئین یکم مارچ 1962 کو نافذ ہوا جس میں انتخابات فعال کیے گئے اور اسمبلی منعقد ہوئی۔ 8 جون کو راولپنڈی میں قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس ہوا جس میں مارشل لا کو حتمی شکل دی گئی۔ اس آئین کے تحت صدارتی نظام لایا گیا اور تمام اختیارات صدر کو حاصل تھے تاہم یہ صدارتی آئین بھی صرف 7 سال تک ہی چل سکا۔

    ملک بھر میں احتجاج اور ہڑتالوں نے ایوب خان کو ان کے عہدے سے ہٹنے پر مجبور کر دیا تو انہوں نے اپنے سارے اختیارات جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر دیے۔ 25 مارچ 1969 کو پاکستان ایک بار پھر مارشل لا کے قدموں میں دبوچ لیا گیا۔ آئین سے بار بار روگردانی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے 1971 میں پاکستان کو دو لخت کردیا اور مشرقی پاکستان ایک نئے ملک بنگلہ دیش کے نام سے دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ اس صدمے نے پوری قوم کو مایوسیوں کے اندھیروں میں دھکیل دیا جس کو 1973 میں تیسری بار لیکن ایک متفقہ آئین دے کر دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی۔

    یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اپنے قیام کی تیسری دہائی میں دو لخت ہونے کے بعد پاکستان کی بکھری قوم کو 50 سال قبل 10 اپریل 1973 کے دن ملک کا پہلا متفقہ آئین ملا۔ اس آئین کی تشکیل میں تمام جمہوری سیاسی قوتوں نے اپنا اپنا کردار ادا کیا لیکن کریڈٹ بہرحال ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو جاتا ہے کہ سقوط ڈھاکا کے بعد بکھری اور اضطراب میں مبتلا قوم کو ایک متفقہ آئین دے کر پھر سے اٹھانے اور دنیا کے نقشے پر ایک باوقار ملک بنانے کی کوشش کا آغاز کیا۔

    اس آئین میں ملک کے ہر شہری کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی۔ انسانی حقوق کے ساتھ ہی ہر مکتب فکر کے معاشرتی، سماجی اور معاشی حقوق، اداروں کی حدود، پارلیمانی اختیارات سمیت ہر شعبۂ زندگی کا اس میں احاطہ کیا گیا اور ہر طبقہ فکر کی ترجمانی کی گئی۔ آئین نافذ ہوا لیکن نفاذ کے صرف چند سال بعد ضیا الحق نے اس آئین کو ردی کی ٹوکری میں ڈالتے ہوئے اقتدار پر قبضہ جمایا جو ان کی موت تک لگ بھگ 11 برس تک جاری رہا۔ اس کے بعد مشرف دور حکومت کے 9 سال بھی آئین کی پامالی میں گزرے۔

    لیکن اگر آئین سے کھلواڑ کا نوحہ صرف آمرانہ دور حکومت تک محدود ہوتا تو شاید اچنبھے کی بات نہ ہوتی کہ آمروں کے لیے تو آئین ہمیشہ ایک کھلونا ہی رہا ہے، لیکن یہ خلاف ورزی آئین کی تشکیل سے لے کر اب تک ہر جمہوری دور میں کم یا زیادہ کی جاتی رہی ہے اور آئین کی محافظت کے دعوے دار ہی اس کے خلاف اقدامات کرتے رہے ہیں۔ یوں تو ہر جمہوری دور میں حکمرانوں نے آئین اور قانون کو گھر کی لونڈی سمجھا لیکن ہر طرف یہی آوازیں‌ اٹھ رہی ہیں‌ کہ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت میں آئین کی خلاف ورزیاں اور دستور کی شقوں سے جو چھیڑ چھاڑ کی جارہی ہے اس کی مثال سابق جمہوری ادوار میں نہیں ملتی۔

    ملک کو متفقہ آئین دینے والے ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اپوزیشن کی خلاف کارروائیاں، مقدمات، جیلیں آئین میں دیے گئے انسانی اور سیاسی حقوق کی خلاف ورزیاں ہی تھیں۔ پھر جب ضیا الحق کی آمریت کے بعد 11 سال جمہوریت کا چراغ ٹمٹاتا رہا اس میں بھی اس وقت کی دو بڑی جماعتیں (پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ) میوزیکل چیئر کی طرح اقتدار میں آتی اور جاتی رہیں تو انہوں نے بھی اقتدار کے حصول کے ساتھ ایک دوسرے کو سیاسی نقصان پہنچانے کے لیے آئین سے کھلواڑ جاری رکھا۔

    1997 کا وہ دور تو سب کو یاد ہوگا جب نواز شریف نے دو تہائی اکثریت کے زعم میں 1973 کے آئین میں 15 ویں آئینی ترمیم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے تمام اختیارات اپنی ذات کے اندر سمونے کی کوشش کی۔ اسی دوران سپریم کورٹ پر ن لیگی اراکین پارلیمنٹ کے حملے نے پوری دنیا میں پاکستان کے جمہوری امیج کو بھی شدید نقصان پہنچایا تھا۔

    آصف علی زرداری نے اپنے دور صدارت میں اٹھارویں ترمیم لا کر صوبوں کو بااختیار بنایا جو کچھ حلقوں کے نزدیک اب بھی متنازع ہے اور وہ اس پر اظہار خیال کرتے رہتے ہیں۔ یہ بحث الگ کہ اس کے کیا فوائد یا کیا نقصانات تھے۔ 1973 میں آئین کے نفاذ سے اب تک صرف دو بار جمہوری حکمرانوں نے آئین کو طاقت دی۔ ایک جب صدر کے اسمبلی توڑنے کے 58 ٹو بی کے اختیارات کو نواز شریف دور حکومت میں ختم کیا گیا کیونکہ اس آٹھویں آئینی ترمیم سے نواز شریف اور بینظیر بھٹو دونوں ہی نڈھال تھے اور اقتدار سے محرومی کا زخم کھا چکے تھے۔ دوسرا مرتبہ سابق صدر زرداری نے اپنے دور میں اٹھارویں ترمیم کر کے آئین کو طاقت ور ثابت کیا، لیکن اس کے بعد دیکھا جائے تو ہمیں 50 سالہ تاریخ میں کہیں بھی ایسی مثال نہیں ملتی جو آئین کے احترام اور عملدرآمد کے حوالے سے بہت زیادہ مثالی رہی ہو۔ بلکہ ہوتا یہ آیا ہے کہ ہر جمہوری حکمران نے بھی اپنے مفاد میں قانون اور آئین کو موم کی ناک سمجھا اور جہاں مفاد نظر آیا وہیں اس کو موڑ لیا یا اسی تناظر میں اس کی تشریح کر ڈالی اور کروا لی۔

    2023 شروع ہوا تو 1973 کے آئین پاکستان کی وارث کہلانے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے پورا سال آئین کی گولڈن جوبلی کے طور پر منانے کا اعلان کیا اور یہ خوش آئند ہے کہ مہذب قومیں اپنے دستور کی پاسداری سے ہی پہچانی جاتی ہیں لیکن کیا ہی بہتر ہوتا کہ اس کا عملی مظاہرہ بھی کیا جاتا۔

    پارلیمنٹ میں دستور پاکستان کی گولڈن جوبلی تقریب میں وزیراعظم شہباز شریف، سابق صدر آصف علی زرداری، وزیر خارجہ اور 1973 کے آئین کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے بلاول بھٹو زرداری نے جوش ولولے سے آئین کے تحفظ اور پاسداری کے عزم پر مبنی خوش کن تقاریر کیں لیکن اسی پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کے ہاتھ پاؤں باندھنے کے لیے سپریم کورٹ پروسیجر اینڈ پریکٹس بل منظور کر لیا جس کو آئینی ماہرین آئین سے متصادم قرار دے رہے ہیں۔ اس بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا چکا ہے جس کی ایک سماعت شروع ہوچکی ہے اور اگلی سماعت عیدکے بعد مقرر ہے۔ اس پر فیصلہ بھی آئین و قانون کی بالادستی کے حوالے سے راہ متعین کرے گا۔

    اس وقت ملک میں سب سے بڑا مسئلہ سیاسی معاشی بحران کے ساتھ عدم برداشت ہے۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ 90 کی دہائی سیاسی کھلاڑیوں کی تبدیلی کے ساتھ دوبارہ پاکستان میں واپس لوٹ آئی ہے۔ اس وقت ملک کے دو صوبوں پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں تحلیل ہوئے لگ بھگ تین ماہ ہونے کو ہیں اور آئین پاکستان کے مطابق اسمبلیوں کی تحلیل کے 90 دن کے اندر الیکشن ہر حال میں ہونے ہیں اور اس سے کوئی فرار ممکن نہیں لیکن لگتا ہے کہ اس وقت پوری حکومتی مشینری اس آئینی حکم کی خلاف ورزی کرنے پر آمادہ ہے۔

    حکومت اور الیکشن کمیشن نے پہلے معاشی ابتری اور امن و امان کی صورتحال کو وجہ بنایا۔ سپریم کورٹ نے یہ بات تسلیم نہیں کی اور ازخود نوٹس لیتے ہوئے 90 روز میں الیکشن کرانے کا حکم جاری کیا جس پر الیکشن کمیشن نے صدر مملکت سے مشاورت کے بعد 30 اپریل کو پنجاب میں الیکشن کی تاریخ دی جب کہ گورنر کے پی تو تاریخ دینے کے کچھ دن بعد ہی مُکر گئے۔ پھر اچانک الیکشن کمیشن نے 30 اپریل کو شیڈول الیکشن منسوخ کرتے ہوئے نئی تاریخ 8 اکتوبر دی۔ پی ٹی آئی کے عدالت سے رجوع کرنے پر سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 14 مئی کو الیکشن کرانے کا حکم اور حکومت کو فنڈز اور سیکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت کی۔

    ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آئین کے گولڈن جوبلی سال میں آئین کی پاسداری کرتے ہوئے حکومت اور ان کی اتحادی پی پی پی سر تسلیم خم کرتے اور الیکشن کمیشن کو 21 ارب کے مطلوبہ فنڈز جاری کیے جاتے لیکن اس کے برعکس حکومت نے بہانے بنائے۔ قومی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں نے فنڈز دینے سے انکار کرتے ہوئے بل مسترد کر دیا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ حکومت اور اتحادیوں نے سپریم کورٹ کے پَر کاٹنے اور چیف جسٹس سے ازخود نوٹس کا اختیار چھیننے یا اس کی افادیت کم کرنے کے لیے ایک بل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے پاس کرایا اور منظوری کے لیے صدر مملکت کو بھیجا اور جب وہاں سے اعتراض لگ کر واپس آیا تو بجائے اس کے کہ ان اعتراضات کا قانونی طور پر جائزہ لیا جاتا اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے عجلت میں منظور کرا لیا جو 10 روز بعد ازخود قانون بن جائے گا۔

    بہرحال، وفاقی حکومت کی جانب سے فنڈز سے انکار کے بعد سپریم کورٹ نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو حکم دے دیا ہے کہ وہ پنجاب اور کے پی میں انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کو 21 ارب کے مطلوبہ فنڈز جاری کرے۔ اگر اس پر بھی سپریم کورٹ کے سابقہ احکامات کی طرح عملدرآمد نہیں ہوتا تو ملک میں جاری آئینی بحران کہیں زیادہ سنگین ہوسکتا ہے۔