Tag:

  • پی ڈی ایم حکومت کا  ایک سال  سیاسی افراتفری ، ابتری اور عوام  بدحال

    پی ڈی ایم حکومت کا ایک سال سیاسی افراتفری ، ابتری اور عوام بدحال

    درجن بھر سیاسی جماعتوں پر مشتمل اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی حکومت کا ایک سال مکمل ہوگیا ہے۔ اس ایک سالہ دورِ حکومت پر سرسری نظر ڈالی جائے تو عوام نے سوائے سیاسی دھما چوکڑی، مہنگائی اور بدحالی کے کچھ نہیں پایا اور اتحادی حکومت کوئی قابلِ ذکر کام نہیں کرسکی ہے۔

    آج سے ایک سال قبل ماہِ رمضان کا پہلا عشرہ ہی تھا جب پاکستان کا سیاسی بحران عروج پر تھا اور ملک کی تاریخ میں پہلی بار کسی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کام یاب ہوئی جس کے نتیجے میں عمران خان کی ساڑھے تین سالہ حکومت کا خاتمہ ہوا۔ پی ٹی آئی کی جگہ پی ڈی ایم نے عنانِ اقتدار سنبھالا اور وزارت عظمیٰ کا تاج شہباز شریف کے سر پر سجایا گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عمران خان کی حکومت پر ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے، عوام کو مہنگائی کے سمندر میں غرق کرنے اور اسی نوع کے دیگر الزامات لگانے کے بعد حکومت میں آنے والے اپنے ایک سالہ دور میں عوام کے لیے دودھ اور شہد کی نہریں نہ بہاتے مگر اپنے اقدامات سے ان کی زندگی قدرے آسان تو بناتے لیکن ہُوا اس کے بالکل برعکس۔ عوام مہنگائی کے پاٹوں میں اس قدر پس گئے کہ اب ان کے لیے دو کیا ایک وقت کی روٹی کا بندوبست کرنا بھی مشکل تر ہو چکا ہے۔

    سیاسی بحران، معاشی بحران، آئینی اور عدالتی بحران موجودہ حکومت کے بڑے کارنامے ہیں جس پر بڑے زور و شور سے بات کی جا رہی ہے لیکن اس ملک کے 22 کروڑ عوام جس میں سے 98 فیصد بدقسمت عوام کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے اس پر کوئی بات نہیں کر رہا۔ ایک سال قبل اگر ملک کا متوسط طبقہ دو وقت کی روٹی کا بندوبست مشکل سے کر رہا تھا تو اب تو یہ حالات ہوچکے ہیں کہ ان کے لیے ایک وقت پیٹ بھرنے کا سامان کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ اور لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ملک میں متوسط طبقہ اب صرف کاغذات کی حد تک رہ گیا ہے، عملاً ملک کے طول و عرض سے اس طبقے کا وجود ختم ہوچکا ہے۔ مفادات کی سیاست کی وجہ سے غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد میں 365 دن میں خوفناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔

    موجودہ حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے تب سے آج تک کوئی ایسا دن نہیں گزرا جب کسی نہ کسی حوالے سے عوام پر مہنگائی کا کوئی بم نہ گرایا گیا ہو۔ اس ایک سال میں آٹا، چینی، دالیں، گوشت، سبزی، پھل، دودھ، تیل، گھی، پٹرول، ادویات غرض ہر اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں 30 سے 100 فیصد تک اضافہ ہوا ہے، کہیں یہ اضافہ سو فیصد سے بھی زائد ہے۔ اس عرصہ میں اگر کوئی شے ارزاں یا تنزلی کا شکار ہوئی ہے تو وہ عوام کا معیارِ زندگی ہے، ان کا رہا سہا سکھ اور اطمینان ہے۔ مستقبل ایک بھیانک عفریت بن کر ان کے سامنے منہ پھاڑے کھڑا ہے اور ان بے چاروں کو سمجھ نہیں آ رہا کہ وہ کریں تو کیا کریں۔ اس ایک سال میں عوام کے لیے زندگی ہی مشکل نہیں ہوئی بلکہ مرنا بھی مشکل بنا دیا گیا ہے۔ کفن دفن بھی ایک غریب کی دسترس سے باہر ہوچکے ہیں۔ عوام کی حالت اب ابراہیم ذوق کی غزل کے ان اشعار کی صورت ہے کہ
    اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
    مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
    نہیں پائے گا نشاں کوئی ہمارا ہرگز
    ہم جہاں سے روشِ تیرِ نظر جائیں گے

    عوام کی تہی دامنی اور مفلسی کا اندازہ کرنا ہے کراچی کی وہ سڑکیں دیکھ لیں‌ جو ہر سال رمضان المبارک میں افطار کے دستر خوانوں سے سج جاتی تھیں اور ہر خاص و عام وہاں افطار کر سکتا تھا اور یہ سلسلہ قیام پاکستان کے وقت سے جاری تھا مگر شہباز اسپیڈ کے دور میں برق رفتاری سے آسمان کی بلندیوں کو بھی مات دیتی مہنگائی نے یہ رونقیں بھی چھین لی ہیں اور رواں سال یہ سلسلہ بھی متأثر ہوا ہے۔ کیوں کہ جو مخیر افراد اور صاحبِ استطاعت اس میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے تھے ان میں سے کئی اب مخیر نہیں رہے اور یہ سب پچھلے 365 دنوں پر محیط بے یقینی، سیاسی افراتفری اور سکڑتی ہوئی معاشی سرگرمیوں اور تباہ ہوتے کاروبار کے اثرات ہیں۔ گھروں میں بھی دسترخوان سمٹ چکے ہیں اور لوگ اہتمام کرنے کی سکت کھو بیٹھے ہیں۔

    ایک سال قبل جو آٹا 60 سے 70 روپے کلو مل رہا تھا، اب لوگوں کو اس کے لیے جان دینا پڑ رہی ہے۔ رمضان ریلیف پیکیج کے نام پر پنجاب اور کے پی میں مفت آٹے کی تقسیم کا جو سیاسی کھیل کھیلا گیا اس میں اب تک درجنوں مرد خواتین موت کو گلے لگا چکے ہیں۔ روٹی کو ترستے ہوئے ایک درجن افراد نے کراچی ایک ہزار روپے کی زکوٰۃ پانے کے لیے اپنی جانیں گنوا دیں تو کہیں بھوک کے ستائے غریب ایک بوتل خون کے عوض راشن کا ایک تھیلا حاصل کررہے ہیں۔ کیا یہ سب مہذب معاشرے میں ہوتا ہے؟ کیا اسلامی، جمہوری اور فلاحی ریاست کے دعوے دار ملک کے حکمرانوں کا یہ رویہ قابل قبول ہے؟

    یہ تو ملک کے 22 کروڑ عوام میں سے 98 فیصد عوام کی حالت زار ہے۔ اب اگر دیگر معاملات پر نظر ڈالیں تو یہاں بھی کوئی حوصلہ افزا یا قابل تعریف کام نظر نہیں آتا۔ سیاسی افراتفری، مخالفین پر الزام تراشیاں، عدم برداشت کے رویے اور حکمرانوں کی مسلسل وعدہ خلافیوں نے ملک کے عوام کا اعتماد ہی متزلزل نہیں کیا بلکہ بیرون ملک بھی پاکستان کا امیج بری طرح متاثر ہو رہا ہے اور یہ خبریں تک گردش میں ہیں کہ ماضی میں ہر دم پاکستان کی مدد کے لیے تیار خلیجی عرب اور دوست پڑوسی ممالک بھی اس بار بحرانوں میں پھنسے اور ڈیفالٹ کے دہانے کھڑے پاکستان کی مدد کرنے میں شش و پنج کا شکار ہیں۔

    ملک میں ڈالرز کی قلّت نے اہم درآمدات پر غیر اعلانیہ پابندی عائد کر رکھی ہے جس سے معاشی سرگرمیوں پر چھایا جمود حکمرانوں کا منہ چڑا رہا ہے۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ڈالرز کی قلت کے باعث ملکی تاریخ میں پہلی بار حکومت کو سعودی عرب سے ملنے والا حج کوٹہ مکمل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اطلاعات یہ ہیں کہ کہیں حکومت کو حج کوٹہ ہی سعودیہ کو واپس نہ کرنا پڑے۔

    سیاسی بے یقینی کا یہ عالم ہے کہ اس وقت پوری سیاست صرف انتخابات ہوں گے یا نہیں کے گرد گھوم رہی ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے دو بار پنجاب اور کے پی میں انتخابات کرانے کے فیصلے کے باوجود اب تک کسی کو یقین نہیں ہے کہ الیکشن ہوں گے بھی یا نہیں کیونکہ جن کے پاس اقتدار و اختیار ہے وہاں سے کوئی سنجیدہ بات کے بجائے ایمرجنسی لگانے سمیت دیگر مضحکہ خیز بیانات سامنے آرہے ہیں جب کہ اچھا خاصا سنجیدہ طبقہ بھی اس اہم مسئلے پر شرطیں لگا رہا ہے۔

    حالات کا تقاضہ تو یہ ہے کہ سیاستدان چاہے ان کا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے اپنی اپنی انا اور ضد کو بالائے طاق رکھ کر عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے اقدامات کریں لیکن ہو اس کے برعکس رہا ہے۔ آج ملک کا اکثریتی طبقہ زندگی برقرار رکھنے کے لیے ٹھوکریں کھا رہا ہے اور دوسری جانب دو فیصد مراعات یافتہ طبقے کی ساری توجہ ذاتی مفادات، اقتدار پر گرفت برقرار رکھنے یا اقتدار کے حصول کے لیے اخلاقیات کی ہر حدیں پار کرنے پر ہے۔

    پاکستان کے عوام اس وقت صاحبانِ اختیار اور اقتدار کی جس بے حسی اور عدم توجہی کا شکار ہیں وہ ان کے غم و غصے کو بڑھا رہا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہوش کے ناخن لیے جائیں اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ملک اور قوم کے لیے سوچا جائے اور عوام کو فوری اور حقیقی ریلیف دینے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ آج کی یہ بے حسی کل کسی بڑے اور سنگین حادثے یا پچھتاوے کو جنم دے سکتی ہے۔

  • کچے منصوبے، ادھورا ریلیف ووٹ بینک کو پکا کرنے کی ‘پوری’ کوشش ؟

    کچے منصوبے، ادھورا ریلیف ووٹ بینک کو پکا کرنے کی ‘پوری’ کوشش ؟

    وزیراعظم شہباز شریف نے رمضان المبارک کے دوران غریب عوام میں مفت آٹا تقسیم کرنے کا اعلان کیا تھا جس پر عمل بھی کیا جا رہا ہے اور بظاہر یہ منصوبہ خوش آئند ہے لیکن اسے صرف دو صوبوں پنجاب اور خیبرپختونخوا تک محدود رکھا گیا ہے جس نے حکومت کے اس غریب پرور منصوبے کو مشکوک بنا دیا ہے۔

    گزشتہ دنوں اجلاس میں وزیراعظم نے آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں رمضان پیکیج کے تحت غریب عوام کو مفت آٹے کی فراہمی کا اعلان کیا تھا، جس کے مطابق پنجاب میں ایک کروڑ 58 لاکھ گھرانوں میں مفت آٹا تقسیم کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اسلام آباد کے ایک لاکھ 85 ہزار مستحق خاندان بھی اس سے مستفید ہوسکیں گے اور اس اسکیم میں خیبرپختونخوا کے عوام کو بھی شامل کیا گیا۔

    یہ اسکیم صرف دو صوبوں کے لیے ہے جب کہ سندھ، بلوچستان، گلگت بلتستان کے عوام کو مہنگا آٹا ہی خریدنا پڑے گا۔ ہماری نظر میں وفاقی حکومت کی یہ ‘غریب پروری’ ناقابل فہم ہے اور سوال اٹھتا ہے کہ شہباز شریف پورے پاکستان کے وزیراعظم ہیں یا صرف پنجاب اور خیبرپختونخوا کے؟ اس کے ساتھ ہی اس فیصلے میں‌ پوشیدہ سیاسی مفاد بھی اس سارے عمل کو مشکوک بنا رہا ہے۔

    یوں تو ملک میں غربت اتنی ہے کہ بلا تفریق سب کو ہی مفت آٹے کی یہ سہولت ملنی چاہیے، لیکن سب سے پہلے کون اس کا حق دار ہوتا ہے، اس کے لیے منصوبہ بندی کمیشن کی پاکستان میں غربت سے متعلق یہ رپورٹ ملاحظہ کرتے ہیں جو پورے پاکستان میں غربت کی مجموعی شرح تو 38.8 فیصد بتاتی ہے لیکن اس میں ملک کے صوبوں میں علیحدہ علیحدہ غربت کی شرح بھی بتائی گئی ہے، اس کے مطابق پاکستان کا سب سے غریب صوبہ بلوچستان ہے جہاں غربت کی شرح 71.2 فیصد ہے، خیبرپختونخوا میں یہ تناسب 49.2 فیصد، گلگت بلتستان 43.2، سندھ 43.1 فیصد جب کہ پنجاب میں یہ شرح 31.4 فیصد ہے۔

    غربت کسی بھی صوبے میں ہو غریب پاکستانی ہی ہے، لیکن یہ رپورٹ چشم کشا ہی نہیں یہ بھی بتا رہی ہے کہ اگر غربت کی بنیاد پر کوئی کام کرنا ہے تو کون سا صوبہ سب سے پہلے مفت آٹے کا حق دار ہے۔ ساتھ ہی یہ پیغام بھی دے رہی ہے کہ اس طرح کے فیصلے صوبوں اور ان کے عوام کے درمیان احساس محرومی بھی پیدا کرتے ہیں اور ایسے اقدامات سے زخم خوردہ عوام کی اشک شوئی نہیں ہوتی بلکہ ان کے زخم رسنے لگتے ہیں۔
    اس وقت پاکستان میں سب سے مہنگا آٹا کراچی کے شہری خرید رہے ہیں اور یہ کوئی سنی سنائی اور بے پَر کی بات نہیں بلکہ شہباز حکومت کے ماتحت وفاقی ادارۂ شماریات کے جاری کردہ حالیہ اعداد و شمار بتا رہے ہیں۔ ملک کو سب سے زیادہ ریونیو دینے والے شہر قائد کے باسی اس وقت 155 روپے کلو آٹا خریدنے پر مجبور ہیں۔ سندھ کے دیگر شہروں کے بعد بلوچستان کے شہری مہنگا ترین آٹا خرید رہے ہیں لیکن افسوس ان دو صوبوں کے عوام ہی مفت آٹے کی سہولت سے محروم رہ گئے جب کہ اسی رپورٹ کے مطابق پنجاب کے سوائے چند ایک شہر چھوڑ کر باقی تمام چھوٹے بڑے شہروں میں آٹا 60 سے 70 روپے کلو فروخت کیا جا رہا ہے۔

    ملکی اداروں کی ان رپورٹوں نے تو سب کی آنکھیں کھول دی ہیں لیکن شاید حکومت کی آنکھیں بند ہیں یا وہ حقائق سے چشم پوشی کر رہی ہے۔ اس وقت ملک کی حالت یہ ہے کہ روز نہیں بلکہ گھنٹوں کے حساب سے بڑھتی ہوئی مہنگائی نے گویا متوسط طبقہ تو ختم ہی کردیا ہے۔ اب اس ملک میں دو ہی طبقے رہ گئے ہیں، ایک وہ جو امیر ترین ہے اور اسے تمام سہولتیں اور آسائشیں میسر ہیں جب کہ دوسرا غریب جو بنیادی ضروریات، بھوک مٹانے کے لیے دو وقت کی روٹی، بیماری میں مناسب علاج سے بھی محروم ہے۔

    سب اچھا ہے کا راگ الاپنے کے بجائے اگر حقیقت کا سامنا کریں تو آج ہر طرف بھوک اور افلاس برہنہ رقص کرتی نظر آئے گی اور اس کے سائے میں کہیں والدین اپنے بچّوں کو بیچتے نظر آئیں گے تو کہیں بنتِ حوا کی چادر میلی کرنے کی کوششں نظر آئے گی۔ اور کہیں تو حالات کا جبر اتنا ہے کہ ماں باپ اپنے جگر کے ٹکڑوں کو موت کے حوالے کر کے خود بھی زندگی کا خاتمہ کر رہے ہیں۔ ایسی دل سوختہ خبریں ہم آئے دن مختلف اخبارات اور نیوز چینلوں پر دیکھ رہے ہیں۔

    چلیں، دو صوبوں کے عوام کی خاطر باقی صوبوں کے عوام صبر کر بھی لیں تو حکومت مفت آٹا تقسیم کرنے کے لیے کوئی مؤثر حکمتِ عملی تو بنائے۔ پنجاب میں مفت آٹے کی تقسیم کے ابتدائی تین روز کے دوران بدنظمی اس قدر ہوئی ہے کہ آٹا لینے کے لیے آنے والے زخم لے کر خالی ہاتھ گھروں کو واپس گئے جب کہ تین ضعیف افراد مفت آٹے کی خاطر موت کو گلے لگا چکے ہیں۔ اب سننے میں آ رہا ہے کہ حکومت مفت آٹا اسکیم کو ختم ہی کر رہی ہے۔

    ابھی مفت آٹے کی بازگشت تھمی نہ تھی کہ حکومت نے حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے غریب عوام کو پٹرول 50 سے 100 روپے لیٹر سستا فراہم کرنے کے منصوبے کا اعلان کردیا لیکن اس پر کب سے عمل کیا جائے گا اس کا ہنوز اعلان نہیں کیا ہے۔ لگتا ہے کہ دو صوبوں میں جو الیکشن ہونا تھے، اس سے قبل یہ سب عوام کو رجھانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔

    ویسے حکومت نے سستا پٹرول اسکیم کے جو خدوخال بتائے ہیں اس سے یہ ریلیف کم اور مذاق زیادہ لگتا ہے۔ وزیر پٹرولیم مصدق ملک کے مطابق موٹر سائیکل، رکشا اور چھوٹی گاڑیوں کے لیے فی لیٹر 50 روپے ریلیف دینے کی تجویز ہے جس کے مطابق موٹر سائیکل سوار ماہانہ 21 لیٹر اور رکشا یا چھوٹی گاڑیاں 30 لیٹر تک پٹرول رعایتی قیمت پر حاصل کرسکیں گی۔ اگر اس کو ریلیف دینا کہتے ہیں تو اس کی مثال تو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہی ہوگی کیونکہ کراچی، لاہور اور دیگر شہروں میں ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف موٹر سائیکل سوار کا روزمرہ کام کاج نمٹانے میں دو ڈھائی لیٹر پٹرول کم از کم خرچ ہوتا ہے جب کہ رکشا تو ایسی عوامی سواری ہے جس میں شاید یومیہ 30 لیٹر پٹرول کھپتا ہو۔ تو کیا اس کو ریلیف دینا کہا جائے گا یا مذاق؟

    اس کے ساتھ ہی دوسرا سوال یہ بھی کھڑا ہوتا ہے کہ ملک کی لگ بھگ 50 فیصد سے زائد آبادی ایسی ہے جو بڑی پبلک ٹرانسپورٹ بسوں، منی بسوں اور کوچز میں سفر کرتی ہے۔ حکومت کے مجوزہ ریلیف پیکیج میں اس ٹرانسپورٹ کو شامل ہی نہیں کیا گیا تو اسے کیسے مکمل عوامی ریلیف قرار دیا جا سکتا ہے۔

    حکومت سے یہی استدعا ہے کہ اگر وہ عوام سے مخلص اور ان کی ہمدرد ہونے کے دعوؤں میں سچی ہے تو ریلیف کے نام پر لیپا پوتی کرکے وقت گزارنے کے بجائے حقیقی معنوں میں ان کی امداد کرے اور ایسا ریلیف دے کہ غربت کے مارے عوام کی داد رسی ہوسکے۔ یہ خود موجودہ حکومت کے حق میں بہتر ہوگا کیونکہ جلد یا بدیر الیکشن تو ہونے ہیں اور یہ معرکہ وہی جیت سکتا ہے جو خود کو عملی طور پر عوام کا ہمدرد اور غم گسار ثابت کرے گا۔

  • توشہ  خانہ کیس: شرم تم کو مگر نہیں آتی۔۔۔

    توشہ خانہ کیس: شرم تم کو مگر نہیں آتی۔۔۔

    ملکی سیاست میں توشہ خانہ کی بازگشت ایک سال سے سنائی دے رہی ہے. اس کے ساتھ ہم ‘گھڑی چور’ کا شور بھی سن رہے تھے، مگر کیا ان شور مچانے والوں میں کوئی ایسا بھی ہے جس نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ نہ دھوئے ہوں؟ جی نہیں۔

    توشہ خانے کا22 سالہ ریکارڈ کچھ اور ہی کہانی سنا رہا ہے۔ یہ ریکارڈ پبلک ہوا تو عوام نے جانا کہ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں۔ توشہ خانہ وہ جگہ ہے جہاں سرکاری شخصیات کو ملنے والے تحائف جمع کرائے جاتے ہیں۔ سربراہانِ وقت، اعلیٰ عہدے داروں اور سرکاری شخصیات کو بیرون ملک یا پاکستان میں جو تحائف دیے جاتے ہیں، وہ ذاتی حیثیت میں نہیں بلکہ سرکاری حیثیت میں دیے جاتے ہیں، اس لیے انہیں‌ سرکار کی ملکیت تصور کیا جاتا ہے اور توشہ خانے میں جمع کرایا جاتا ہے۔ اس توشہ خانے کے کچھ اصول، ضابطے اور قوانین ہیں جن کے مطابق کسی بھی تحفے کی اصل مالیت کا کچھ فیصد دے کر تحفہ وصول کرنے والی شخصیت اس کی مالک بن سکتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر اس تحفے کو نیلام کرکے اس سے حاصل کردہ رقم سرکاری خزانے میں جمع کرا دی جاتی ہے۔ تاہم پاکستان میں توشہ خانے سے تحائف کو نیلام کرنے کی نوبت کم ہی آئی ہے۔ زیادہ تر تحائف کو برسر اقتدار اور بااختیار افراد، جن میں بیورو کریٹس، عوامی نمائندے اور سیاسی شخصیات شامل ہیں ،انھوں نے اپنی ملکیت بنایا، اور اس کے لیے اصل قیمت کا کچھ فیصد ادا کرنے کے قانون کا سہارا لیا. ان میں سے اکثر تو تحائف کو مفت ہی میں اپنے گھر لے گئے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ کسی بھی تحفے کی اصل قیمت کا تعین کیبنٹ ڈویژن مارکیٹ ریٹ کے مطابق کرتا ہے لیکن پاکستان جیسے ملک جہاں ذاتی فائدے کے لیے قوانین بنائے جاتے ہیں اور کسی بھی اصول اور قاعدے پر مفاد کو ترجیح دی جاتی ہو یہ سب مارکیٹ ریٹ کے مطابق ہی طے پاتا ہے؟ عوام کے ذہن میں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے۔

    پاکستان میں گزشتہ سال برسرِ اقتدار آنے والی نئی حکومت نے حسبِ روایت سابق حکم رانوں پر کئی الزامات لگائے جن میں‌ شہباز شریف اور اتحادیوں نے زیادہ زور توشہ خانہ پر لگایا اور سب سے زیادہ شور ’’گھڑی چور‘‘ کا مچایا۔ اس معاملے نے اس حد تک طول پکڑا کہ گزشتہ سال ہی پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم کو توشہ خانہ کیس میں الیکشن کمیشن نے نااہل بھی قرار دے دیا جس کو حکومتی اتحاد نے اپنی فتح قرار دیا تھا۔ جب کہ اسی حوالے سے ایک کیس اسلام آباد کی عدالت میں بھی زیرسماعت ہے اور اسی پس منظر کے ساتھ گزشتہ کئی روز سے لاہور کی فضاؤں میں ہنگامہ برپا ہے۔

    پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت شہباز شریف کی زیرقیادت جب سے اقتدار میں آئی ہے تب سے ہی وہ تنقید کی زد میں ہے۔ تاہم اس حکومت نے توشہ خانے کا ریکارڈ پبلک کرنے کا وہ کارنامہ انجام دیا جو اس سے قبل کوئی حکومت انجام نہ دے سکی۔ اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے اور بعض رپورٹوں کے مطابق بھی اس ریکارڈ میں بعض باتیں مخفی اور کچھ مبہم ہیں تاہم اس کا کریڈٹ شہباز حکومت کو ضرور دینا چاہیے۔

    یوں تو گاہے گاہے توشہ خانہ عام کرنے کی آواز مختلف ادوار میں اٹھائی جاتی رہی ہے مگر اس پر شد و مد کے ساتھ آواز گزشتہ سال شہید صحافی ارشد شریف نے اٹھائی تھی. اس کے بعد نوجوان وکیل ابو ذر نیازی ایڈووکیٹ یہ معاملہ عدالت میں لے گئے اور عدالت کی جانب سے توشہ خانہ کی تفصیلات عام کرنے کاحکم جاری ہوا تو حکومت نے گزشتہ 2 دہائیوں کے تحائف اور ان سے متعلق تفصیلات عوام کے سامنے رکھیں۔ توشہ خانے کا یہ ریکارڈ 2002 سے 2023 تک کا ہے جو 466 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس ریکارڈ کے بعدتو ملکی سیاست میں ’’گھڑی چور، گھڑی چور‘‘ کی گردان ختم سمجھیے کیونکہ توشہ خانے کی بہتی گنگا میں سب ہی نے ہاتھ دھوئے ہیں۔

    اس رپورٹ کے مطابق سابق اور موجودہ صدر، وزرائے اعظم، وفاقی وزرا، اراکین پارلیمنٹ، وزرائے اعلیٰ، بیورو کریٹس، حاضر سروس و ریٹائرڈ فوجی افسران سمیت کون نہیں ہے جو اس سے مستفید نہیں ہوا۔ وہ بھی جو خود کو صادق و امین کہتے نہیں تھکتے اور وہ بھی جو گھڑی چور گھڑی چور کی رٹ لگائے ہوئے ہیں بلکہ گھڑی چور کا شور مچانے والوں نے تو توشہ خانے سے کئی اور بعض نے درجنوں کے حساب سے گھڑیاں حاصل کیں۔

    توشہ خانے کی رپورٹ پر نظر ڈالیں‌ تو معلوم ہوتا ہے کہ 2002 سے 2022 کے دوران سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف، آصف علی زرداری، ممنون حسین، موجودہ صدر ڈاکٹر عارف علوی، سابق وزرائے اعظم نواز شریف، عمران خان، یوسف رضا گیلانی، راجا پرویز اشرف، شوکت عزیز، چوہدری شجاعت حسین، میر ظفر اللہ جمالی کے علاوہ اسحاق ڈار، خواجہ آصف، شیخ رشید، چوہدری پرویز الہٰی سمیت کئی نام ہیں جنہوں نے سرکاری تحائف کو معمولی رقم کے عوض یا مفت میں ذاتی ملکیت بنایا۔

    ایسے میں سینیٹ اراکین نے توشہ خانہ کے تحائف کی مزید تفصیلات مانگ لی ہیں اور 1988 سے اب تک کا ریکارڈ پبلک کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اگر موجودہ حکومت یہ ہمّت کر لیتی ہے تو مزید نام سامنے آجائیں گے۔

    حالیہ فہرست میں کئی ایسی شخصیات بھی ہیں جنہوں نے ان تحائف سے نہ صرف اپنے گھر بھرے بلکہ اپنی اولادوں کو نوازنے کے ساتھ دریا دلی دکھاتے ہوئے اپنے مہمانوں کو بھی قیمتی تحائف معمولی رقم کی ادائیگی پر دلوائے۔ ایسے نام بھی سامنے آئے جنہوں نے آج تک کوئی پبلک آفس ہولڈ نہیں کیا لیکن وہ بھی ‘مالِ غنیمت’ کے حق دار ٹھہرے۔ ذاتی ملازمین، ذاتی معالج، وزیراعظم کے آفس کے ملازمین کے نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔

    توشہ خانہ سے فیض اٹھانے والوں کے ناموں کی فہرست کے ساتھ اس ریکارڈ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ انتہائی مہنگی بلٹ پروف گاڑیاں، قیمتی گھڑیاں، ہیرے جواہرات، طلائی زیورات، انمول اور شاہکار تو ایک طرف توشہ خانہ کو ذاتی خانہ بنانے والوں نے گلدان، سیاہی، پین، بیڈ شیٹ، ڈنر سیٹ، اسکارف، کارپٹ، گلاس سیٹ، گلدان، پینٹنگ، مجسمے، پرس، ہینڈ بیگز، تسبیح، کف لنکس، صراحی، پیالے، خنجر، چاکلیٹ، خشک میوہ جات کے پیکٹ، انناس کے باکس، شہد، خالی جار، کافی اور قہوہ دان، کپڑے، پرفیومز، دسترخوان، بھینس اور اس کے بچّے کو بھی نہیں چھوڑا۔

    توشہ خانہ قوانین کے سیکشن 11 کے مطابق تحفے میں والے نوادر اور شاہکار اشیا یا گاڑی کو کوئی بھی اپنے پاس رکھنے یا لینے کا مجاز نہیں ہے۔ انٹیک آئٹم میوزیم یا سرکاری عمارات میں رکھے جائیں گے اور گاڑیوں کو کیبنٹ ڈویژن کے کار پول میں رکھا جائے گا لیکن ان قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف نے دو انتہائی قیمتی گاڑیاں اور سابق صدر آصف علی زرداری نے تین بلٹ پروف مہنگی ترین گاڑیاں اصل قیمت سے کہیں کم قیمت دے کر اپنی ملکیت بنا لیں جب کہ نادر و نایاب فن پاروں کی اکثریت کسی میوزیم یا سرکاری عمارت کے بجائے بڑی شخصیات کے گھروں پر سجائی گئیں۔

    ایک اور حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ گھڑیوں کے سب ہی شوقین نکلے۔ چند ماہ سے جن شخصیات نے سابق وزیراعظم عمران خان کے لیے ’’گھڑی چور، گھڑی چور‘‘ کا شور ڈالا ہوا تھا وہی ایک نہیں کئی کئی بلکہ بعض تو درجنوں کے حساب سے توشہ خانہ سے گھڑیاں لینے والے نکلے۔ اب یہ گھڑیاں ان کے پاس ہیں۔ فروخت کیں یا کسی اور کو دے دیں۔مستقبل میں اس حوالے سے سوالات ضرورکھڑے ہوسکتے ہیں.

    گھڑی چور، گھڑی چور کا شور مچانے والوں میں سے جن لوگوں نے خود گھڑیاں حاصل کیں ان میں سابق وزرائے اعظم نواز شریف، شاہد خاقان عباسی، راجا پرویز اشرف اور ان کا خاندان، آصف زرداری، مریم اورنگزیب اور ان کی والدہ سابق ایم این اے طاہرہ اورنگزیب، نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی، موجودہ چیئرمین نیب، خواجہ آصف، کئی دیگر ن لیگی اور پی پی پی راہ نما شامل ہیں جب کہ طویل فہرست میں چند صحافیوں کے نام بھی موجود ہیں۔

    توشہ خانہ کی فہرست جاری ہونے کے بعد تنقید شروع ہوئی تو اس کا زور توڑنے کے لیے وفاقی حکومت نے توشہ خانہ پالیسی 2023 جاری کرکے اس کا فوری نفاذ بھی کر دیا جس کے تحت اب توشہ خانہ سے 300 ڈالر سے زائد مالیت کا تحفہ حاصل کرنے پر پابندی ہوگی اور صدر، وزیراعظم، کابینہ اراکین اور دیگر حکومتی نمائندے سب اس کے پابند ہیں۔ اس سے زائد مالیت کے تحائف ریاست کی ملکیت ہوں گے اور نیلامِ عام کے ذریعے عوام بھی اسے خرید سکیں گے۔ اس کے ساتھ ہی ملکی و غیر ملکی شخصیات سے نقد رقم بطور تحفہ لینے پر بھی پابندی ہو گی۔ اگر تحفے کی صورت میں مجبوراً نقد رقم وصول کرنا پڑے تو یہ فوری طور پر قومی خزانے میں جمع کرانی ہوگی۔ سونے اور چاندی کے سکّے اسٹیٹ بینک کے حوالے کیے جائیں گے۔ توشہ خانہ پالیسی کی خلاف ورزی پر سخت کارروائی کی جائے گی۔

    یہ پالیسی اعلان خوش کن ہے جس کے مطابق اب کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیاں، زیورات، گھڑیاں و دیگر قیمتی تحائف حاصل نہیں کیے جاسکیں گے لیکن اس پالیسی میں سوائے 300 ڈالر مالیت کی حد بندی کے علاوہ نیا کیا ہے؟ جو پہلے سے توشہ خانہ قوانین میں موجود نہیں تھا۔ یہاں مسئلہ قانون یا پالیسی بنانے کا نہیں بلکہ اس پر عمل درآمد کا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ ملک میں قانون تو بنتے رہتے ہیں لیکن اس کا اطلاق برسر اقتدار شخصیات اور بااختیار افراد پر نہیں ہوتا یا کم ہی ہوتا ہے۔ اگر توشہ خانہ کے قوانین پر عملدرآمد ہو رہا ہوتا تو قیمتی بلٹ پروف گاڑیاں آصف زرداری اور نواز شریف اپنی ملکیت میں نہ لیتے کیونکہ اس حوالے سے توشہ خانہ قانون کا سیکشن 11 بہت واضح ہے۔ رہی بات توشہ خانہ قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی تو گاڑیاں لے کر سابق صدر اور سابق وزیراعظم پہلے ہی اس قانون کی دھجیاں بکھیر چکے ہیں اور کیا موجودہ شہباز حکومت ان کے خلاف ’’سخت کارروائی‘‘ کرنے کی ہمّت کرے گی۔

    جو لوگ مالِ مفت دلِ بے رحم کے مصداق مفت یا کم قیمت پر توشہ خانہ سے تحائف ذاتی ملکیت بناتے رہے اور اس پر قوانین کا حوالہ دیتے رہے ہیں ان کی آنکھیں کھول دینے کے لیے مفتیانِ کرام کا جاری کردہ فتویٰ کافی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مطابق توشہ خانہ سے کم قیمت پر اشیا خریدنا جائز نہیں کیوں کہ یہ تحائف ملک اور قوم کی امانت ہیں، کسی کی ذاتی ملکیت نہیں۔ حکومتی ذمے داروں کا ان تحائف کو مفت یا کچھ رقم دے کر اپنی ملکیت میں لینا جائز نہیں۔ علما نے فتویٰ جاری کرنے کے ساتھ حل اور ایک تجویز بھی پیش کی ہے کہ اگر سربراہان اور عہدے داران ان تحائف کو اپنی ملکیت میں لانا چاہیں تو مارکیٹ ویلیو کے مطابق ان کی پوری قیمت ادا کی جائے۔ انہوں نے تجویز دی ہے کہ ان تحائف کو نیلام کیا جائے اور نیلامی میں ہر خاص و عام کو شرکت کی اجازت ہو، اس نیلامی سے حاصل ہونے والی رقم کو قومی خزانے میں جمع کروایا جائے کیوں کہ یہ تحائف ریاست کی ملکیت ہیں۔

    آخر میں ہم سوشل میڈیا پر وائرل ایک پوسٹ نقل کررہے ہیں، جو زندگی کا نوحہ ہے، اُس زندگی کا جس میں ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جارہے ہیں اور کوئی پرسان حال نہیں. اُس زندگی کا نوحہ جسے پاکستان کے کروڑوں بدن دریدہ عوام گھیسٹے چلے جارہے ہیں ۔ اور یہ نوحہ مفادپرستی اور من مانی کی روشنائی کے ساتھ طاقت و اختیار ، شاہانہ کرّوفر اور امارت کے قلم سے لکھا گیا ہے!

    اس پوسٹ کے الفاظ ہیں: ’’کاش ملک کے غریبوں کے لیے بھی کوئی ایسا توشہ خانہ ہوتا جہاں‌ سے وہ 150 روپے کلو والا آٹا 15 روپے کلو، 200 روپے کلو والی پیاز 20 روپے کلو اور 1000 روپے کلو والا گوشت 100 روپے میں خرید سکتا۔‘‘

    اس پوسٹ پر کچھ لوگوں کا تبصرہ تھا کہ یہ الفاظ اربابِ اختیار کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں۔ واقعی، ہم میں سے اکثر لوگ اچھے خاصے خوش گمان ہیں۔ البتہ ہم ان لوگوں میں سے نہیں ہیں اور سمجھتے ہیں کہ غالب نے یہ شعر اس بے حس معاشرے کی بے ضمیر اشرافیہ کے لیے ہی کہا تھا،

    کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب
    شرم تم کو مگر نہیں آتی۔۔۔

  • الیکشن سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر حکومتی صفوں میں اضطراب اور پیمرا کی پھرتیاں

    الیکشن سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر حکومتی صفوں میں اضطراب اور پیمرا کی پھرتیاں

    پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 90 روز میں الیکشن کرانے کے عدالتی حکم کے بعد لگتا تھا کہ ملک میں جاری سیاسی ہلچل میں کچھ کمی آئے گی، لیکن اس فیصلے سے جہاں حکومتی حلقوں میں اضطراب پیدا ہوا وہیں حکومتی ایما پر پیمرا کی پھرتیوں کے نتیجے میں پہلے عمران خان کی تقریر نشر کرنے پر پابندی اور پھر اچانک اے آر وائی نیوز کی ‘زباں بندی’ نے حکومت کی بوکھلاہٹ کو عیاں کر دیا ہے۔ گزشتہ سال بھی پیمرا کی جانب سے دو مرتبہ اے آر وائی نیوز کے خلاف کارروائی کی جا چکی ہے۔

    ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اسمبلیوں کی تحلیل کو کئی ہفتے گزر جانے کے باوجود نگراں حکومت کی جانب سے الیکشن شیڈول جاری نہ کرنے اور اس سے متعلق حکومتی حلقوں کے بیانات کی وجہ سے سیاسی حلقوں میں ایک قسم کی بے چینی نظر آرہی تھی۔ سپریم کورٹ نے معاملے کا ازخود نوٹس لیا اور لارجر بینچ بنا کر سماعت کرنے کے بعد دونوں صوبوں میں 90 روز کے اندر الیکشن کرانے کا حکم دیا جس کے بعد الیکشن کمیشن بھی حرکت میں آیا اور صدر مملکت کو مجوزہ تاریخوں پر مبنی خط لکھ ڈالا۔ صدر علوی نے بھی دیر نہ لگائی اور پنجاب میں الیکشن کے لیے 30 اپریل کی تاریخ دے دی۔

    ان سارے واقعات کے دوران ایوان اقتدار میں براجمان پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی صفوں میں تھرتھلی مچی رہی۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق پی ڈی ایم کے بڑوں کی بیٹھک میں پیپلز پارٹی تو نئے الیکشن پر تیار نظر آئی لیکن حسب سابق ن لیگ اور جے یو آئی (ف) ملک کی اس آئینی ضرورت سے ہنوز بھاگنے پر متفق دکھائی دیے۔ یوں کہا جائے کہ پی ڈی ایم میں الیکشن پر اختلاف پیدا ہوگیا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس کی وجہ بھی سامنے ہے اور وہ ہے پی ڈی ایم کی انتہا کو چھوتی عدم مقبولیت۔ اگر کوئی اسے غیر منطقی بات سمجھتا ہے تو موجودہ حکومت کے بعد ہونے والے 37 قومی اور صوبائی حلقوں میں ہونے والے ضمنی الیکشن کے نتائج دیکھ لے جن میں 30 نشستیں پاکستان تحریک انصاف نے 11 جماعتوں کا تن تنہا مقابلہ کرتے ہوئے جیتی ہیں جب کہ ایک کے ضمنی الیکشن پر اس نے بائیکاٹ کیا تھا۔ 

    اُدھر سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تھا تو صرف چند گھنٹوں میں ڈالر راکٹ کی رفتار کی تیزی سے بڑھتی قیمت نے بھی شکوک و شبہات کو جنم دیا کیونکہ اپوزیشن سمیت کئی حلقوں سے یہ آوازیں مسلسل اٹھ رہی ہیں کہ موجودہ حکومت الیکشن سے فرار چاہتی ہے اور اس کے لیے وہ معاشی ابتری کو جواز بنا کر ملک میں معاشی ایمرجنسی کا نفاذ اور اسی بنیاد پر الیکشن کو مؤخر کرنا چاہتی ہے۔ ان افواہوں میں کتنی صداقت ہے اس بارے میں کچھ کہا تو نہیں جاسکتا لیکن صرف چند گھنٹوں کے اندر 18 روپے سے بڑھتے ہوئے ڈالر کا 285 روپے سے تجاوز کر جانے پر بعض حلقوں نے تعجب کا اظہار کیا ہے۔ اس موقع پر یہ بھی آوازیں سنائی دیں کہ الیکشن کا التوا چاہنے والے خفیہ ہاتھ سرگرم ہوگئے ہیں۔

    دوسری جانب صدر سے تاریخ کی منظوری کے بعد ابھی الیکشن کمیشن نے شیڈول کا اعلان کرنا ہی تھا کہ قدرے پُرسکون ہوتے سیاست کے سمندر میں عمران خان کی گرفتاری کا شوشہ چھوڑ کر ایک تلاطم برپا کر دیا گیا۔ اسلام آباد پولیس پی ٹی آئی چیئرمین کی گرفتاری کے لیے زمان پارک لاہور آئی اور یہ معاملہ کئی گھنٹے تک ملکی سیاست کا محور رہا۔ اس دوران آن گراؤنڈ پولیس اور اس کے اعلیٰ حکام کے متضاد بیانات نے بھی عوام کو الجھائے رکھا۔ بعد ازاں سخت عوامی ردعمل کے خدشات کے پیش نظر پولیس سابق وزیراعظم کو گرفتار تو نہ کرسکی تاہم اسی شام پیمرا نے پہلے عمران خان کی تقاریر اور بیانات میڈیا پر نشر کرنے پر پابندی عائد کی اور اس کے کچھ دیر بعد ہی ملک کے سب سے مقبول چینل اے آر وائی نیوز کا لائسنس ایک بار پھر معطل کر دیا گیا اور صحافیوں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے اس فیصلے سے یہ تاثر دیا گیا ہے کہ سچ کو سامنے لانے اور عوام کو حقائق بتانے پر دوسروں کے ساتھ بھی یہی ہوسکتا ہے۔

    پیمرا کے اس اقدام کو پاکستان میں جمہوری اور عوام کے سنجیدہ و باشعور حلقوں نے ناپسند کرتے ہوئے اسے اظہار رائے کی آزادی کو سلب کرنے کی کوشش قرار دیا ہے اور اس کے خلاف ملک بھر میں آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی ہیں۔

    اسے بدقسمتی ہی کہا جائے گا کہ آزاد میڈیا ہمارے کسی بھی حکمراں کو کبھی ایک آنکھ نہیں بھایا شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ میڈیا معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے اور جو کچھ ہوتا ہے وہی دکھاتا ہے اور ہمارے حکمراں سچ سننے، دیکھنے سے ہمیشہ گریزاں ہی رہے ہیں۔ جس کو بھی اقتدار میں آنے کا موقع ملتا ہے تو وہ سب سے پہلے صحافت کو اپنے تابع کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ رہی ہے کہ جب کوئی سیاسی جماعت اپوزیشن میں ہوتی ہے تو اسے انسانی حقوق اور میڈیا کی آزادی دل و جان سے پیاری اور ان کے حقوق ازبر ہوتے ہیں۔ ان کی کوئی تقریر، کوئی خطاب اظہار رائے کی آزادی کے بیانیے کے بغیر مکمل نہیں ہوتا لیکن جیسے ہی اسے اقتدار کے سنگھاسن پر “بٹھایا” جاتا ہے تو کہاں کے انسانی حقوق اور اظہار رائے کی کیسی آزادی؟

    یوں تو اس حوالے سے تمام حکمراں ہی اپنا اپنا ماضی رکھتے ہیں لیکن مسلم لیگ ن کے کئی فیصلے اور اقدامات ایسے ہیں جن کو سینئر صحافیوں، تجزیہ کاروں اور باشعور عوام ایک قسم کی انتقامی کارروائی اور اپنے مخالفین کی آواز کو دبانے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔ 

    اس وقت ملک میں پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت شہباز شریف کی سربراہی میں قائم ہے۔ سیاسی مخالفین کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن بار  اقتدار میں آتے ہی انتقامی کارروائی کی روایت دہرانے لگی ہے۔ شہباز شریف کی حکومت میں میڈیا گروپس اور انفرادی طور پر سچ لکھنے اور کہنے والے صحافیوں کو گرفتاریوں اور مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور جو کل شب ہوا ہے وہ 11 ماہ کے مختصر عرصے میں مختلف انداز سے کئی بار ہوچکا ہے۔ بالخصوص اے آر وائی نیوز سے ن لیگ کی ناراضی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ مریم نواز ایک پریس کانفرنس میں اے آر وائی نیوز کا مائیک ہٹا کر اپنے غیر جمہوری رویے کا اظہار کرچکی ہیں اور ن لیگ کے کئی رہنماؤں کی جانب سے متعدد مواقع پر اے آر وائی نیوز کے رپورٹر نامناسب رویہ کا سامنا کرچکے ہیں۔ اس سے قبل بھی میاں نواز شریف کے تیسرے دور اقتدار میں اے آر وائی کو سرکاری اشتہارات کی بندش کا سامنا کرنا پڑا تھا، جب کہ موجودہ حکومت نے بھی یہ نہیں سوچا کہ اس کے انتہائی اقدام سے اے آر وائی سے وابستہ 4 ہزار سے زائد افراد بیروزگار ہوسکتے ہیں۔

    حکومت کے اس من مانے اقدام کی صرف ملکی صحافتی اداروں نے ہی نہیں بین الاقوامی صحافتی تنظیموں، ملکی سیاسی جماعتوں، حکومت کے اتحادیوں اور مختلف مکتبِ فکر کے افراد نے بھی مذمت کی ہے۔

    برسر اقتدار آنے کے بعد اتحادی حکومت نے شاید ہی کوئی قابل ذکر کارنامہ انجام دیا ہو مگر عوام پر مہنگائی کے بم ضرور گرائے ہیں۔ ایک جانب مریم نواز اور ن لیگ کے لیڈران یہ دعوے کرتے نہیں تھکتے کہ مسلم لیگ ن پنجاب کی سب سے مقبول جماعت اور ہر شخص ن لیگ کے ٹکٹ کا خواہشمند ہے، دوسری طرف مختلف تاویلات گھڑ کر الیکشن سے فرار کی راہیں ڈھونڈی جارہی ہیں۔

    پاکستان میں ضیا کا دور اقتدار ہو یا مشرف دور صحافت کو پابندیوں اور صحافیوں کو جبر اور جیلوں کا منہ بھی دیکھنا پڑا اور ن لیگ کی اتحادی حکومت بھی اپنے اقدامات کی وجہ سے صحافتی اداروں اور صحافیوں کو ان کے اظہار رائے کے حق اور آزادی سے محروم کررہی ہے، مگر حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ماضی میں ایسے اقدامات کرنے والے حکمراں تو ایوان اقتدار سے رخصت ہوگئے لیکن وہ ادارے قائم رہے اور ان حکمرانوں کا ہر ایسا فیصلہ تاریخ میں سیاہ باب کے طور پر رقم ہوا۔ 

  • کیسے پتہ چلتا ہے کہ بیگم کا موڈ خراب ہے؟ مہمانوں کا دلچسپ جواب

    کیسے پتہ چلتا ہے کہ بیگم کا موڈ خراب ہے؟ مہمانوں کا دلچسپ جواب

    معروف اداکار کنور ارسلان اور کرکٹر اظہر علی نے بتایا کہ اگر بیگم کا موڈ خراب ہو تو کس مشترک چیز سے اس کا علم ہوتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اداکارہ فاطمہ آفندی، ان کے شوہر کنور ارسلان اور کرکٹر اظہر علی نے اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام دا فورتھ امپائر میں شرکت کی۔

    میزبان فہد مصطفیٰ نے مہمانوں سے دلچسپ سوالات کیے۔

    ارسلان سے پوچھا گیا کہ آپ کو کیسے علم ہوتا ہے کہ آپ کی بیگم کا موڈ خراب ہے؟ ارسلان نے بتایا کہ اگر بیگم خاموش ہوں تو اس کا مطلب ہے یہ طوفان سے پہلے کی خاموشی ہے۔

    کرکٹر اظہر علی نے کہا کہ میں بھی اس کی تصدیق کرسکتا ہوں کہ اگر روز مرہ کی گپ شپ نہ ہورہی ہو اور بیگم خاموش ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ ان کا موڈ خراب ہے۔

  • دبئی عدالت کی انوکھی سزا، مجرم کا انٹرنیٹ بند کرا دیا

    دبئی عدالت کی انوکھی سزا، مجرم کا انٹرنیٹ بند کرا دیا

    دبئی: متحدہ عرب امارات میں دبئی کی ایک عدالت نے مجرم کو انوکھی سزا دیتے ہوئے فراڈ کیس میں اس کا انٹرنیٹ بند کرا دیا۔

    تفصیلات کے مطابق دبئی کی ایک عدالت نے دھوکا دہی کے ایک مقدمے میں دو افریقی شہریوں کو ایک ماہ قید، 44 ہزار درہم جرمانے اور ملک سے بے دخلی کے ساتھ 6 ماہ انٹرنیٹ کے استعمال پر پابندی کی سزا سنائی ہے۔

    امارات الیوم کے مطابق عدالت نے یہ سزا ایک ملزم کی عدم موجودگی میں سنائی ہے، اور پولیس دھوکا دہی میں ملوث ایک ملزم کو تلاش کر رہی ہے۔

    ایک خلیجی شہری نے عدالت میں درخواست دائر کی تھی کہ اس نے ایک آن لائن شاپنگ سائٹ پر موٹر سائیکل کے لیے اشتہار دیا، جس پر ایک شخص نے رابطہ کر کے پیش کش کی کہ مطلوبہ موٹر سائیکل 22 ہزار درہم میں دستیاب ہے۔

    خلیجی شہری کے مطابق سودا ہونے پر افریقی شہری نے مختلف بہانوں سے موٹر سائیکل کی قیمت دگنی کر دی اور بینک اکاؤنٹ میں رقم طلب کرتا رہا۔

    جب خلیجی شہری نے بینک اکاؤنٹ کے ذریعے اسے 44 ہزار درہم کی ادائیگی کر دی تو اس نے شپنگ فیس کے نام پر مزید پانچ ہزار درہم طلب کیے جس پر خلیجی شہری کو شبہ ہوا کہ وہ دھوکا بازوں کے جال میں پھنس گیا ہے۔

    پبلک پراسیکیوشن میں ملزم نے بیان میں کہا کہ خلیجی شہری کا دعویٰ درست ہے، اس کے ایک دوست نے انٹرنیٹ پر اشتہار دیکھ کر خلیجی شہری سے واٹس ایپ پر رابطہ کر کے رقم ہتھیانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ ملزم نے بتایا کہ میرا کام اکاؤنٹ میں آنے والی رقم نکال کر دوست کے حوالے کرنا تھا جس پر کمیشن ملتا تھا۔

  • روزمرہ کے معمولات سے اکتا گئے ہیں تو یہ پیشکش آپ کے لیے ہے

    روزمرہ کے معمولات سے اکتا گئے ہیں تو یہ پیشکش آپ کے لیے ہے

    روزمرہ زندگی کے معمول انسان کے اندر اکتاہٹ بھر دیتے ہیں اور وہ کچھ وقت کے لیے اس معمول سے ہٹ کر کچھ مختلف کرنا چاہتا ہے۔

    یہ خواہش ہوتی تو ہر انسان کی ہے لیکن اسے پورا وہی کر پاتا ہے جو اس بہت سے پیسے خرچ کرنے کی استطاعت رکھتا ہو۔

    ایک کروز کمپنی نے ایک ایسی کروز چلانے کا منصوبہ بنایا ہے جو 3 برس تک سمندر میں رہے گا، روزمرہ زندگی سے چھٹکارا دلانے والی یہ کروز شپ اس مدت میں ایک لاکھ 30 ہزار میل کا فاصلہ طے کرے گی اور اس کی سالانہ فیس 30 ہزار ڈالر ہوگی۔

    لائف ایٹ سی کروز نے اپنے اس 3 سالہ سمندری سفر کے لیے بکنگ شروع کر دی ہے اور یہ ترکی کے دارالحکومت استنبول سے یکم نومبر 2023 کو اپنے سفر کا آغاز کرے گی۔

    اس کروز کا مسافر بننے کے خواہش مند افراد کے لیے اپنے پاسپورٹ، ضروری ویکسینیشن اور دور سے کام کرنے کی صلاحیتیوں کو ترتیب دینے کے لیے ابھی 8 ماہ کا عرصہ باقی ہے۔

    لائف ایٹ سی کروز کمپنی نے اعلان کیا ہے کہ ان کا کروز اس بحری سفر کے دوران سات براعظموں کے 135 ممالک میں سے گزرے گا اور دنیا بھر کی 375 بندگاہوں پر لنگر انداز ہوگا۔

    اس سفر کے دوران کروز کے مسافروں کو مختلف اہم مقامات دیکھنے کا موقع بھی ملے گا۔

    ان نمایاں مقامات میں برازیل کا کرائسٹ دی ریڈیمیر مجسمہ، انڈیا کا تاج محل، میکسیکو کا چی چن اٹزا اہرام، مصر کے اہرام، پیرو کا ایک گمشدہ شہر ماچو پیچو اور عظیم دیوار چین شامل ہیں۔

    یہ کروز 103 جزائر پر بھی رکے گی اور اس سفر کے دوران 375 میں 208 بندر گاہوں پر رات بھر کے لیے ٹھہرے گی۔

    یہ کمپنی میرے کروز نامی کمپنی کی ایک بائی پروڈکٹ ہے جو کروز انڈسٹری میں 30 سال سے سرگرم ہے، اس کروز میں 400 کیبن ہیں جن میں مجموعی طور پر 1 ہزار 74 مسافروں کی گنجائش موجود ہے۔

    اس کے علاوہ ہر طرح کی ضروری سہولیات یہاں دستیاب ہوں گی۔

  • یونیورسٹی طلبہ کی بکرے کو تنگ کرنے کی ویڈیو وائرل، لوگوں کا شدید رد عمل

    یونیورسٹی طلبہ کی بکرے کو تنگ کرنے کی ویڈیو وائرل، لوگوں کا شدید رد عمل

    پشاور: خیبر پختون خوا کے سیاحتی مقام وادئ کمراٹ میں یونیورسٹی طلبہ کی بکرے کو تنگ کرنے کی ویڈیو وائرل ہوئی ہے، جس پر سوشل میڈیا صارفین نے شدید رد عمل دکھاتے ہوئے کہا کہ ’تعلیم سے جاہل کی جہالت نہیں جاتی۔‘

    تفصیلات کے مطابق صوبہ خیبر پختون خوا کے ضلع اپر دیر کے سیاحتی مقام کمراٹ ویلی میں سیاحت کے لیے آئے نجی یونیورسٹی کے چند طلبہ کی قابل مذمت ویڈیو وائرل ہوئی ہے، جس میں انھیں ایک بکرے کو سینگوں اور ٹانگوں سے پکڑ کر اٹھاتے دیکھا جا سکتا ہے۔

    ویڈیو کے مطابق ایک طالب علم نے ایک سفید بکرے کے سینگ پکڑے اور دوسرے طالب علم نے پیچھے سے اس کی ٹانگیں پکڑ لیں، اور پھر بکرے کو ہوا میں اوپر اٹھا لیا۔

    طلبہ بکرے کے ساتھ اس طرح دل لگی کر رہے تھے جیسے وہ کوئی بے جان چیز ہو، انھیں جانور کو تکلیف دہ حالت میں اٹھانا بھی ایک مذاق لگ رہا تھا۔

    یہ ویڈیو دیکھنے اور شیئر کرنے والوں نے جانوروں کے ساتھ انسانوں کے اس رویے پر جہاں افسوس کا اظہار کیا وہیں شدید تنقید بھی کی۔ سوشل میڈیا صارفین نے ویڈیو پر تبصرے کرتے ہوئے لکھا کہ ’جانوروں کے بھی حقوق ہوتے ہیں، اتنا تو دو سال کے بچوں کو بھی پتا ہوتا ہے، کیا فائدہ ایسی تعلیم کا،‘

    مہک نامی صارف نے لکھا کہ ’کیا فائدہ ایسی تعلیم کا جو نہ تو تمیز سکھا سکے نہ دل میں کسی جاندار کے لیے رحم ڈال سکے؟‘ اگر ان کو بھی ایسے ہی کانوں سے پکڑ کر گھسیٹا جائے تو تب سمجھ آئے کہ اس معصوم کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔‘

    سرینا نے لکھا ’میرے دو سال کے بچے کو بھی پتا ہے کہ جانوروں سے اس طرح پیش نہیں آنا چاہیے۔ اگرچہ مرغیاں اسے تنگ کرتی ہیں پھر بھی بچے کو انہیں مارنے کی اجازت نہیں۔‘

    ییلو اسٹورم نامی صارف نے لکھا ’دو گدھوں کو بکرا اٹھاتے پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔‘

    سید مصنف حسین کاظمی نے لکھا کہ ’تعلیم سے جاہل کی جہالت نہیں جاتی۔‘ ہائیڈروجن پرآکسائیڈ نام کے اکاؤنٹ نے لکھا ’بے وقوف بننے اور توجہ حاصل کرنے کی مثال ہے۔‘

  • بھارت نے کھانسی کے شربت بنانے والی کمپنی کے 3 ملازمین کو گرفتار کر لیا

    نئی دہلی: بھارت نے کھانسی کے شربت بنانے والی کمپنی کے 3 ملازمین کو گرفتار کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی دوا ساز کمپنی کے کھانسی کا شربت پینے سے ازبکستان میں بچوں کی اموات پر بھارتی حکام نے کمپنی کے 3 ملازمین کو گرفتار کر لیا ہے۔

    بھارتی ریاست اترپردیش اسٹیٹ ڈرگ اتھارٹی کا کہنا ہے کہ دوا کے 36 میں سے 26 نمونوں میں زہریلے مادے پائے گئے ہیں، جس پر کارروائی کرتے تین ملازمین کو گرفتار کیا گیا ہے جب کہ 2 ڈائریکٹرز کی تلاش تاحال جاری ہے۔

    بھارتی وزیر صحت کے مطابق کمپنی میں دوائیاں بنانے کا عمل روک دیا گیا ہے، اور لائسنس بھی معطل کر دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ بھارتی کمپنی کی دوا پینے سے گیمبیا میں 70 جب کہ ازبکستان میں 19 بچے جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

    ازبکستان میں‌ حکام کی جانب سے جب یہ کہا گیا کہ بچوں‌ کی اموات ماریون بائیوٹیک کے تیارکردہ کھانسی کے شربت سے ہوئی ہے، جو کہ بھارتی ریاست اترپردیش کے شہر نوئیڈا میں واقع ہے، تو دسمبر میں‌ بھارتی حکام نے اس سلسلے میں تحقیقات کا آغاز کر دیا تھا۔

    بچوں کی اموات : کھانسی کے دو سیرپ پر پابندی عائد

    ازبکستان کی وزارت صحت کے مطابق سیرپ کے ایک بیچ کے لیبارٹری ٹیسٹوں میں ’ایتھیلین گلائکول‘ کی موجودگی پائی گئی، جو ایک زہریلا مادہ ہے، وزارت نے کہا کہ ایتھیلین گلائکول بچوں کے معیار سے زیادہ خوراک میں دیا گیا۔

  • سندھ پولیس کا دہشت گرد حملوں میں جانی نقصان سے بچنے کے لیے بلاسٹ شیٹ کی خریداری کا فیصلہ

    سندھ پولیس کا دہشت گرد حملوں میں جانی نقصان سے بچنے کے لیے بلاسٹ شیٹ کی خریداری کا فیصلہ

    کراچی : سندھ پولیس نے بلاسٹ شیٹ کی خریداری کا فیصلہ کرلیا ، کراچی پولیس آفس حملے میں دہشت گردوں سے لڑائی میں بلاسٹ شیٹ کی وجہ سے کئی افسران و جوانوں کی زندگیاں محفوظ رہیں۔

    تفصیلات کے مطابق رینجرز کے بعد سندھ پولیس نے بھی بلاسٹ شیٹ کی خریداری کا فیصلہ کرلیا۔

    سندھ پولیس نے بلاسٹ شیٹ خریداری کی تیاری مکمل کرلی ہے ، 10 بلاسٹ شیٹ مختلف ڈسٹرکٹ اور زونز میں رکھی جائیں گی۔

    بلاسٹ شیٹ کامستقبل میں کسی بھی آپریشن میں استعمال کیا جاسکے ، خصوصی بلاسٹ شیٹ بم اور بلٹ پروف ہوگی۔

    کراچی پولیس آفس حملے میں دہشت گردوں سے لڑائی میں بلاسٹ شیٹ کا استعمال کیا گیا تھا ، بلاسٹ شیٹ کی وجہ سے کئی افسران و جوانوں کی زندگیاں محفوظ رہیں۔

    بلاسٹ شیٹ صرف رینجرز جوانوں کے پاس موجود تھی ، اگر پولیس کے پاس بلاسٹ شیٹ ہوتی تو نقصان کم ہوسکتا تھا۔

    کراچی پولیس آفس حملے میں بلاسٹ شیٹ کے استعمال کے باعث کئی جوان محفوظ رہے ، بارودی مواد،دستی بم حملےکی زد میں آنے والی بلاسٹ شیٹ کی تصویر بھی سامنے آگئی ہے، بلاسٹ شیٹ سے 10 کے قریب دھات کے ٹکڑے نکالے گئے۔