Tag:

  • اسلام آباد، کراچی اور لاہور ایئرپورٹس کی نجکاری، دوست ممالک کو ترجیح دی جائے گی

    اسلام آباد، کراچی اور لاہور ایئرپورٹس کی نجکاری، دوست ممالک کو ترجیح دی جائے گی

    کراچی: سول ایوی ایشن نے اسلام آباد، کراچی اور لاہور ایئر پورٹس کو آؤٹ سورس کرنے کے فریم ورک کو حتمی شکل دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد، کراچی اور لاہور ایئر پورٹس کے آؤٹ سورسنگ پلان تیار کرلیے گئے، وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر سول ایوی ایشن اتھارٹی نے فریم ورک کو حتمی شکل دے دی۔

    پلاننگ ڈویژن کی ایئرپورٹ آؤٹ سورسنگ کی ہدایت سی اے اے کو موصول ہوگئی جس کے مطابق ایئر پورٹ آؤٹ سورسنگ کے لیے عالمی جریدوں میں رواں ماہ ٹینڈر کا اجرا کیا جائے گا۔

    حکومت نے ایئر پورٹ آؤٹ سورسنگ میں دوست ممالک کو ترجیح دینے فیصلہ کیا ہے، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، چین اور ترکی کی کمپنیز کو ترجیحی بنیاد پر مدعو کیا جائے گا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ آؤٹ سورس سے سالانہ 250 سے 300 ملین ڈالرز حاصل ہوں گے، معاہدے کے تحت ایئرپورٹ 25 سال کے لیے آؤٹ سورس کیے جائیں گے۔

    ایئرپورٹ ٹرمینل سروسز، پارکنگ، اسٹوریج، کارگو، ہینڈلنگ اور صفائی شعبے آؤٹ سورس کیے جائیں گے جبکہ سیکورٹی اور ائیر ٹریفک کنٹرولر کے شعبے سی اے اے کے پاس رہیں گے۔

    سی اے اے کو تینوں بڑے ایئر پورٹس سے سالانہ 30 ارب روپے آمدن حاصل ہوتی ہے۔

  • ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے درمیان پہلا باضابطہ رابطہ آج متوقع

    کراچی: ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے درمیان پہلا باضابطہ رابطہ آج متوقع ہے۔

    ذرائع کے مطابق کنونئیر ایم کیو ایم ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی آج ممکنہ طور پر پاکستان ہاؤس جائیں گے، خالد مقبول کے ہمراہ خواجہ اظہارالحسن بھی ہوں گے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ کنونئیر ایم کیو ایم پاک سرزمین پارٹی کی قیادت سے مل کر انھیں حلقہ بندیوں کی درستگی کے لیے مل کر آواز اٹھانے کی دعوت دیں گے۔

    ممکنہ طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کی جعلی حلقہ بندیوں کے خلاف بلائی جانے والی اے پی سی میں شرکت کی دعوت بھی دی جائے گی۔

    الیکشن کمیشن کے حکم پر سندھ حکومت نے ایم کیو ایم کی فرمائش پر لگائے گئے ایڈمنسٹریٹرز کو ہٹا دیا

    ملاقات میں سیاسی صورت حال، گورنر سندھ سے پی ایس پی قیادت کی ہونے والی ملاقات سمیت شہر کراچی کی ترقی، استحکام اور مسائل کے حل کے لیے ساتھ چلنے سمیت دیگر امور بھی زیر غور آئیں گے۔

    ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم کا وفد جنرل ورکرز اجلاس کے بعد پاکستان ہاؤس جائے گا۔

  • جب عبیداللہ سندھیؒ کراچی کی بندرگاہ کیماڑی پر جہاز سے اترے

    مولانا عبیداللہ سندھیؒ کی تقاریر، خطبات اور مکتوبات کو مصنّفین اور تذکرہ نویسوں نے مختلف کتابوں میں محفوظ کیا ہے جن میں سے بعض‌ اس زمانے کے سیاسی، سماجی حالات اور مذہبی پس منظر میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔

    ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری نے مولانا سندھی کی ایک تقریر کو اپنی کتاب (مجموعہ مکاتیب) میں نقل کیا تھا، اس تقریر کے متن میں کچھ اختلاف بھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں، مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم 24 برس کی جلاوطنی کے بعد 1939ء میں کراچی کی بندرگاہ کیماڑی پر جہاز سے اترے تھے اور ان کے استقبال کے لیے اہلِ سندھ اور ملک کے منتخب اصحابِ فکر و تدبر کا جو جمِ غفیر بندرگاہ پر موجود تھا، مولانا نے اس سے خطاب کیا تھا۔ ان کی یہ تقریر اس وقت کے اخبارات میں شائع ہوئی تھی۔ اس کا صحیح ترین متن یہاں پیش کیا جاتا ہے۔

    عزیزانِ گرامی!
    1915ء میں مجھے میرے استاد حضرت شیخ الہندؒ نے افغانستان بھیجا تھا۔ آپ کے بزرگوں نے مجھے باہر بھیجا تھا۔ باہر رہ کر جو کچھ اسلام کی خدمت کر سکتا تھا، میں نے کی۔ میرے سامنے پہاڑ آئے، شکست کھا گئے، موت آئی، شکست کھا گئی۔ میں ان سپہ سالاروں کا رفیق رہا جنہوں نے دنیا کے بڑے بڑے معرکے سر کیے۔ آپ میری باتوں کو محض تاثرات یا عارضی ہیجانات کا نتیجہ نہ سمجھیے گا۔ میرے پیچھے تجربات کی دنیا ہے۔ میرے مشاہدات بہت وسیع ہیں۔ میں نے کھلی آنکھوں سے دنیا کو دیکھا ہے اور انقلابات اور ان کے اثرات و نتائج کا انقلاب کی سرزمینوں میں رہ کر مطالعہ کیا ہے۔ میں آپ سے کوئی بات چھپانا نہیں چاہتا۔ میرے افکار وقفِ عام ہیں۔ اب میں چراغِ سحری ہوں۔ چاہتا ہوں کہ مرنے سے پہلے اس پیغام کو ہندوستان کے نوجوانوں تک پہنچا دوں۔ اگر یہی حالات رہے تو مجھے خطرہ ہے کہ بنگال تقسیم ہو جائے گا۔ پہلے پہل اس انقلاب کی لپیٹ میں افغانستان آئے گا۔

    میں انقلاب کا پیامبر بن کر ہندوستان لوٹا ہوں۔ وہ دن دور نہیں کہ برطانیہ اور امریکہ والوں کو اپنے آپ کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ اس انقلاب کو قیامت سے کم نہ سمجھیے۔ میں نے بڑے بڑے علما کو، بڑے بڑے افراد کو دربدر بھیک مانگتے دیکھا ہے، غیرتوں کو لٹتے دیکھا ہے۔ یہ عالم گیر انقلاب ہے۔ ایک نہ ایک دن ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر رہے گا۔ دیوارِ چین ہو یا سدِ سکندری، یہ سب کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائے گا۔ دنیا ایک نئے طوفانِ نوح سے دوچار ہوا چاہتی ہے۔ بادل گھر چکے ہیں، گھٹائیں برسنے کو ہیں۔ لیکن ہمارے علما ہیں کہ ان کی نظریں کتابوں تک محدود ہیں، وہ باہر کی دنیا کو دیکھنا نہیں چاہتے۔ ہمارے سیاست دان بڑی بڑی اسکیمیں بناتے ہیں جو ان کے اغراض و مصالح پر مبنی ہوتی ہیں۔ عوام کو انتہائی نچلے درجے پر رکھ چھوڑا ہے۔

    قرآن حق ہے، انجیل حق ہے، تورات حق ہے۔ انجیل کو غلط رنگ میں پیش کرنے سے اگر عیسائی، اور تورات کو غلط رنگ میں پیش کرنے سے یہودی کافر ہو سکتا ہے، تو اس ملک کے مسلمان قرآن کو غلط رنگ میں پیش کرنے سے مسلمان کیسے رہ سکتے ہیں! اب انقلاب کی گھڑی سر پر آپہنچی ہے۔ سن لو اور سنبھل جاؤ! ورنہ مٹا دیے جاؤ گے۔

    اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ کل ایک طبقہ قوت و اقتدار کا مالک تھا۔ کسان اور مزدور جو کماتے تھے ان کو کھانے کو نہ ملتا تھا، اور جو طبقہ ان کی کمائی پر رہتا وہ کمانا ذلّت کا نشان سمجھتا۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ کماؤ طبقے پسماندہ ہوتے چلے گئے اور کھاؤ طبقے اخلاق سے گرتے گئے۔ اگر برکتیں پھیلتیں تو سرمایہ دار اور جاگیرداروں کے محلوں میں۔ ذہنوں کو جلا ہوتی تو ان کے ذہنوں کو ہوتی۔ زمانہ مدتوں اسی طرح چلتا رہا۔ سرمایہ دار اور جاگیردار مزدوروں اور کسانوں پر ظلم ڈھاتے رہے۔ آگے چل کر مشینی دور آتا ہے۔ مزدوروں نے مشینوں پر قبضہ کر لیا، جاگیردارانہ نظام ختم ہو گیا۔ آج ان کا نعرہ ہے: ’’مزدور اور کسانو، اٹھو! یہ بڑی بڑی بلڈنگیں اور محلات تمہاری کمائی سے تعمیر ہوئے ہیں۔ یہ تمہارے ہیں۔ ان کے مالک تم ہو۔ اٹھو اور ان پر قبضہ کر لو۔ اور جو آڑے آئے اسے مٹا دو!‘‘

    مسلمانو! اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو اس فلسفے کو قبول کرو جس کی ترجمانی امام ولی اللہ دہلویؒ نے کی ہے۔ اگر تمہارے امرا نے غربا کی خیر خواہی نہ کی تو تمہارا بھی وہی حشر ہو گا جو بخارا کے مسلمانوں کا ہو چکا ہے۔ بخارا کے اندر ایک ایک مدرسہ عربی کی یونیورسٹی تھا۔ ترکی کی جو سیاسی طاقت ہے، آپ کے ملک کی وہ سیاسی طاقت نہیں۔ جس انقلاب کے سامنے بخارا کی مذہبیت نہ ٹھہری، ترکی کی سیاست نہ ٹھہری، اس کے سامنے تم اور تمہاری یہ مسجدیں اور مدرسے کیسے ٹھہر سکتے ہیں۔ جب غریب کی جھونپڑی سے انقلاب اٹھتا ہے تو وہ امیر کے محل کو بھی پیوستِ زمین کر کے جاتا ہے۔ انقلاب آتا ہے تو نہ مسجدیں دیکھتا ہے، نہ خانقاہیں، نہ ایوان و محلات، سب کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔

    اگر میں مر گیا اور میرے مرنے کے تین سال کے اندر انگریز ہندوستان سے نہ چلا گیا تو میری قبر پر آ کر کہنا کہ انگریز یہاں بیٹھا ہے۔ یاد رکھو! میں نے انگریز کی بیخ و بنیاد کو اکھیڑ دیا ہے، اب وہ ہندوستان میں نہیں رہ سکتا، عنقریب تم مجھے یاد کرو گے، میں اپنے معاملے کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔

  • مشہور ریاضی داں جو اپنے بیٹے اور بھائی کی شہرت سے خائف تھا

    علم و فنون کی دنیا میں اپنی قابلیت اور کسی شعبے میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر نام و مقام پانے والوں میں جون برنولی وہ ریاضی دان ہے جس کا پورا گھرانہ ہی علمی کارناموں کے سبب پہچانا گیا۔ برنولی خاندان میں کئی فن کار اور سائنس داں گزرے ہیں جنھیں‌ شہرت حاصل ہوئی۔

    برنولی خاندان بیلجیئم سے سوئٹزر لینڈ کے شہر بازیل آکر آباد ہوا تھا۔ جون برنولی اسی شہر میں‌ پیدا ہوا اور سوئس ریاضی داں کی حیثیت سے شہرت حاصل کی۔ اس نے 27 جولائی 1667ء کو بازیل میں آنکھ کھولی تھی۔ وہ اپنے وقت کے مشہور ریاضی داں لیونہارڈ اویلر کا استاد بھی رہا۔ جون برنولی نے یکم جنوری 1748ء کو وفات پائی۔

    جون کے والد نکولس برنولی تھے جن کی خواہش تھی کہ بیٹا کاروبار سے متعلق تعلیم حاصل کرے اور مسالوں کی تجارت کا وہ کام سنبھال سکے جسے انھوں نے بڑی محنت سے ترقی دی تھی۔ لیکن جون برنولی اس میں دل چسپی نہیں لے رہا تھا اور اس نے اپنے باپ کو اس بات پر قائل کرلیا کہ وہ طب کی تعلیم حاصل کرے گا۔ تاہم اسے یہ مضمون بھی پسند نہیں آیا اور اس نے ریاضی میں دل چسپی لینی شروع کر دی۔ جون برنولی نے بازیل شہر کی ایک جامعہ میں‌ داخلہ لیا اور تعلیم کا سلسلہ شروع کردیا، لیکن وہ اپنے بڑے بھائی جیکب برنولی سے خاص طور پر ریاضی کے مسائل پر بحث کرتا اور اس کے ساتھ مل کر ریاضی کے مضمون کی گتھیاں سلجھاتا رہتا۔ اسی زمانے میں جون نے اپنے سب بھائیوں کے ساتھ مل کر کیلکولس پڑھنا شروع کیا اور اس پر کافی وقت لگایا۔ وہ پہلا ریاضی داں تھا جس نے کیلکولس کو بہت سمجھا اور اس کی مدد سے کئی مسائل حل کرنے کی کوشش کی۔ یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد جون نے باقاعدہ کیلکولس پڑھانا شروع کر دی۔ 1694ء میں اس کی شادی ہوگئی اور وہ ہالینڈ میں یونیورسٹی میں ریاضی کا پروفیسر بن گیا۔ 1705ء میں وہ بازیل واپس آیا جہاں اپنے بھائی اور استاد جیکب برنولی کی وفات کے بعد جامعہ بازیل میں اس کی جگہ تدریس شروع کی۔

    یہ جان کر آپ کو حیرت بھی ہوگی اور برنولی خاندان کی شخصیات میں‌ دل چسپی بھی محسوس ہوگی کہ بالخصوص ریاضی کے مضمون میں‌ وہ جیسے جیسے ترقی کررہے تھے اور ان کا شہرہ ہورہا تھا، اسی طرح ان میں‌ حسد جیسا جذبہ بھی پروان چڑھ رہا تھا۔ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے سے پہلے جون اور اس کا بھائی جیکب ایک ساتھ کام کرتے تھے مگر بعد میں وہ آپس میں‌ مقابلے بازی کرنے لگے۔ ایک دوسرے پر برتری جتانے اور اپنے کام کو زیادہ اہم بتاتے ہوئے دوسرے کے علمی کام کو کم درجہ کا یا غلط ثابت کرنے کی کوشش کی۔ جیکب برنولی کا تو انتقال ہو گیا، لیکن اس کی وفات کے بعد جون برنولی اپنے ہی بیٹے اور مشہور ریاضی داں ڈینیل برنولی دوم سے حسد محسوس کرنے لگا۔ یہ 1738ء کی بات ہے جب ان دونوں نے الگ الگ سيالی حرکيات (fluid dynamics) پر مقالہ لکھا، لیکن افسوس کی بات ہے کہ جون برنولی نے اپنے ہی بیٹے پر برتری حاصل کرنے کی غرض سے اور دنیا کے سامنے اپنی کاوش کی اہمیت منوانے کے لیے اپنے مقالے کو دو سال پرانا بتایا تھا۔ اس کے لیے جون برنولی نے اپنے مقالے پر دو سال پہلے کی ایک تاریخ ڈال دی تھی۔

  • لاہور میں لڑکیاں گھر میں گھس کر موبائل فونز لے اُڑیں

    لاہور: پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں دو لڑکیوں نے گھر میں گھس کر موبائل فون چرا لیے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق لاہور کے علاقے غازی آباد میں موٹرسائیکل سوار ایک مرد اور دو لڑکیاں گھر میں واردات کرکے فرار ہوگئیں۔

    غازی میں انوکھی واردات کی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آگئی۔ فوٹیج میں لڑکیوں کو گھر میں داخل ہونے اور واردات کے بعد باآسانی فرار ہوتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

    پولیس حکام کا کہنا ہے کہ واردات کا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے جبکہ سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے ملزمان کی گرفتاری عمل میں لائی جائے گی۔

    مزید پڑھیں: لاہور میں وکیل سے کروڑوں کی ڈکیتی، مقدمہ درج

    واضح رہے کہ گزشتہ ماہ لاہور ہائیکورٹ کے وکیل ایڈووکیٹ چوہدری عزیز سے فیروز والا کے علاقے دوساکو چوک کے قریب مسلح افراد دو کروڑ روپے چھین کر فرار ہوگئے تھے۔

    تھانہ فیکٹری ایریا میں متاثرہ شہری کی مدعیت میں واقعے کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

    مدعی مقدمہ ایڈووکیٹ چوہدری عزیر کا کہنا تھا کہ وہ اپنے کزن سعد ظفر کے ہمراہ بینک سے رقم لے کر نکلے تھے کہ دو گاڑیوں پر سوار 6 ڈاکوؤں نے انہیں روکا اور رقم چھین کر فرار ہوگئے۔

  • اقبال کے ‘نطشے قدم’ پر!

    یہ 1986ء کی بات ہے، جب ہمارے اندر علامہ اقبال کے خودی کے اسرار کچھ کھلنے لگے تھے۔ مستنصر حسین تارڑ کی کتاب ”نکلے تیری تلاش میں“ اور مختار مسعود کی کتاب ”سفر نصیب“ پڑھنے کے بعد ہم بھی نکل کھڑے ہوئے کسی کی تلاش میں۔

    بفضلِ تعالیٰ سفر نصیب ہوا اور ایک لمبی سیاحت حاصل کی۔ سفر کا پہلا پڑاؤ فرینکفرٹ (جرمنی) تھا۔ میرے میزبان بزلہ سنج اسلم صدیقی تھے، انھیں اقبالیات سے خاص لگاؤ تھا۔ ’پی آئی اے‘ میں کار گزاری نے انھیں ایک عالَم کی سیر کرائی تھی، ایک روز وہ مجھے فرینکفرٹ سے ہیڈلبرگ لے گئے۔ ایک پرسکون علاقے میں انھوں نے گاڑی روکی اور مجھے وہاں لے گئے، جو تمام عاشقانِ اقبال کے لیے ایک یادگاری مقام ہے۔

    کیا دیکھتا ہوں کہ لبِ ساحل ایک بورڈ آویزاں تھا، جس پر جلی حروف میں Iqbal Ufer لکھا ہوا تھا، یہی وہ جگہ تھی جہاں 1907ء میں ہیڈلبرگ کے مقام پر علّامہ اقبال زیرِ تعلیم رہے۔ اس بورڈ کے پاس کھڑے ہو کر ہماری سوچ کا دھارا علّامہ اقبال کی جانب ہو گیا، اسلم کہنے لگے کہ مغربی تنقید نگاروں کا خیال ہے کہ اقبال جرمن مفکر نطشے سے بہت متاثر تھے۔ اس نظریے کے ثبوت میں وہ اقبال کے ’مردِ مومن‘ کا نطشے کے ’سپرمین‘ سے موازنہ کرتے ہیں، جو بظاہر ایک دوسرے سے مماثل معلوم ہوتے ہیں۔ اس تصور نے خاص طور پر اس وقت جنم لیا، جب علّامہ اقبال کی ’اسرارِ خودی‘ کا انگریزی ترجمہ منظرِ عام پر آیا۔ مغربی تنقید نگاروں نے یہ ٹھپّا لگا دیا کہ اقبال نطشے کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ اس سوچ کی تردید میں علّامہ اقبال نے خود ڈاکٹر نکسن کو اپنے ایک خط میں تحریر کیا کہ کچھ تنقید نگار میری تخلیق کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکے، یہی وجہ ہے کہ انھوں نے غلط بحث کر کے میرے ’مردِ مومن‘ اور جرمن مفکر نطشے کے ’فوق الانسان‘ کو ایک ہی تصور کر بیٹھے۔ میں نے اس سے پہلے انسانِ کامل کے معترفانہ عقیدے پر قلم اٹھایا تھا اور یہ وہ زمانہ ہے، جب کہ نہ تو نطشے کے عقائد کا غلغلہ میرے کانوں تک پہنچا تھا اور نہ ہی اس کی کتابیں میری نظر سے گزری تھیں۔ سوچ کی مماثلت کبھی بھی کہیں بھی اتفاقیہ ہو سکتی ہے۔

    علّامہ اقبال نے فارسی ادب اور ثقافت کا بہت گہرا اور وسیع مطالعہ کیا تھا۔ اس کا ثبوت ان کی فارسی شاعری ہے۔ اقبال کی مصر، فلسطین، ہسپانیہ، اطالیہ اور افغانستان جیسے ممالک کی سیاحت جن سے اسلامی عظمتیں وابستہ ہیں۔ ان کی طبیعت حرکتی عنصر کو اجاگر کرنے میں ان ممالک کی تاریخ اور سیر میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔ علّامہ اقبال کے کلام اور خیالات اور فلسفے کے بغور مطالعے سے یہ بات عیاں ہے کہ علامہ اقبال کا مردِ مومن کون ہے۔ الحمدللہ ہم صاحبِ ایمان کو اس کامل ہستی کو سمجھنے کے لیے کسی نطشے یا زرتشت کی ضرورت نہیں۔ ہمارے پیارے نبیﷺ سے بڑھ کر نہ کوئی کامل ہستی تھا، نہ ہوگا۔ ہیڈلبرگ سے واپسی کے بعد میں گویا اقبال کے ‘نطشے قدم’ پر اپنی سیاحت کرتا رہا۔ علامہ اقبال کا ایک شعر ہے:
    آب رواں کبیر تیرے کنارے کوئی
    دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب

    اس شعر نے مجھے اندلس کی فضاؤں میں پہنچا دیا، جہاں آج سے صدیوں پہلے طارق بن زیاد نے ساحل پر اپنی کشتیاں جلائی تھیں۔ جہاں کی وادیاں رشک گزار ہیں، جہاں غرناطہ اور قرطبہ ہیں، جہاں اشبیلیہ ہے۔ جہاں الحمرا اور مدینۃُ الزّہرہ ہیں۔ آہ! میری روح شاید ازل سے یہاں آنے کو بے چین تھی، یہاں ایک عظیم قوم کی عظمت کی داستان ہے اور پھر ناعاقبت اندیشی سے زوال کی شرم ناک کہانی ہے۔ یہاں غرناطہ کے عالی شان محلات ہیں۔ اب ان کے در ودیوار کھڑے درسِ عبرت دے رہے ہیں۔ وہ زمانہ خواب و خیال ہو گیا، جب یہاں پتھر پتھر خوشی کے ترانے سناتا تھا۔ اے الحمرا کہاں ہے تیری وہ رعنائی، کہاں گیا تیرا وہ بانکپن۔

    اندلس کی سرزمین پر کتنی دل فریب داستانیں پوشیدہ ہیں، عبدالحلیم شرر کے ناول ”فلورا فلورنڈا“ کو کون بھول سکتا ہے۔ کون جانے تاریخ پھر اپنے آپ کو دُہرائے اور مستقبل عظمتِ رفتہ کی واپسی کا پیمبر بن کر آئے۔ قرطبہ پہنچ کر کون ہے، جسے علاّمہ اقبال کی مشہور نظم مسجدِ قرطبہ یاد نہ آئے۔ علّامہ کی نظم مسجدِ قرطبہ کا یہ سلسلۂ روز و شب بہت طویل ہے۔ بس آپ کی خدمت میں پہلا اور آخری شعر پیش خدمت ہے؎

    سلسلۂ روز و شب نقش گرِ حادثات
    سلسلۂ روز و شب اصلِ حیات و ممات

    نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
    نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر

    (ڈاکٹر فرید اللہ صدیقی کے مضمون سے منتخب پارہ)

  • پاکستان کے ممتاز سائنس داں رضی الدّین صدیقی کی برسی

    پاکستان کے معروف سائنس داں ڈاکٹر رضی الدّین کو ماہرِ‌ تعلیم اور ادبی شخصیت ہی نہیں ان کے عربی، فارسی، جرمن اور فرنچ زبانوں پر عبور رکھنے کی وجہ سے جینئس اور باکمال تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ ایک وسیع المطالعہ، قابل اور ذہین انسان تھے جن کو اساتذہ نے بھی بہت عزّت اور احترام دیا اور ان کی علمی استعداد، قابلیت اور کردار کے معترف رہے۔ آج ڈاکٹر رضی الدّین کی برسی ہے۔

    محمد رضی الدّین صدیقی نے ہندوستان میں مرفہ الحال ریاست حیدرآباد دکن میں 7 اپریل 1905ء کو آنکھ کھولی تھی۔ عربی، فارسی اور دیگر مشرقی علوم کی تعلیم حاصل کر کے دکن کی مشہور عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔

    وہ طبیعیات اور ریاضی کے مضمون میں‌ بہت دل چسپی لیتے تھے اور بعد میں انھیں ایک ماہرِ طبیعیات اور ریاضی داں کی حیثیت سے شہرت ملی، لیکن لسانیات کے ساتھ ادب بھی ان کی دل چسپی کا مضمون رہا۔ انھوں نے عربی اور فارسی میں اقبالیات کے موضوع پر تحقیقی اور تخلیقی کام بھی کیا۔ ڈاکٹر رضی الدین صدیقی ایک ہی وقت میں کئی علوم میں درجۂ کمال پر فائز تھے۔

    ڈاکٹر رضی الدّین کو کیمبرج یونیورسٹی کی اسکالرشپ مل گئی۔ وہ داخلے کے امتحان میں اوّل آئے اور کیمبرج میں فزکس کے نوبل انعام یافتہ پال ڈیراک کے شاگردوں میں شامل رہے۔ انہی دنوں فلکیات کے ماہر سر آرتھر ایڈنگٹن کے بھی شاگرد ہوئے اور انھوں‌ نے اپنے قابل طالبِ علم کی علمی میدان میں خوب راہ نمائی کی۔ کیمبرج سے ماسٹرز کرنے کے بعد ڈاکٹریٹ کے لیے جرمنی گئے اور اس زمانے میں آئن اسٹائن کو بہت قریب سے دیکھا اور ان کے لیکچرز میں باقاعدگی سے شرکت کرتے رہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر ورنر ہائزن برگ سے بھی تعلیم حاصل کی۔

    پی ایچ ڈی کے بعد ہائزن برگ کے مشورے پر ڈاکٹر رضی الدّین صدیقی پیرس چلے گئے اور وہاں کچھ عرصہ اپنے تحقیقی مقالے لکھے جو ممتاز جرائد میں شائع ہوئے۔ 1931ء میں وہ حیدرآباد دکن واپس لوٹے اور عثمانیہ یونیورسٹی میں ریاضی پڑھانے لگے۔ 1950ء میں رضی الدّین صدیقی پاکستان آگئے۔

    ایک قابل سائنس دان اور استاد ہونے کے علاوہ وہ انگریزی ادب کا عمدہ ذوق رکھتے تھے اور اس کا مطالعہ کرنے کے ساتھ اردو اور فارسی ادب کو بھی خوب پڑھا، یہی نہیں بلکہ اپنی تمام مصروفیات کے باوجود ڈاکٹر صاحب اپنے دور میں‌ اقبال شناس کے طور پر بھی سامنے آئے اور ان کی دو تصانیف اقبال کا تصور زمان و مکان اور کلام اقبال میں موت و حیات بھی شایع ہوئیں۔ 1937ء میں کوانٹم مکینکس پر انھوں نے اپنے لیکچرز کو کتابی صورت میں شایع کروایا۔ اس کتاب میں نظریۂ اضافیت خصوصی اور جنرل تھیوری آف ہیملٹن ڈائنامکس پر بھی مضامین شامل تھے۔ اس کتاب کو ان کے اساتذہ نے بہت سراہا اور سائنس کے طلبا کے لیے مفید قرار دیا۔

    حکومتِ پاکستان نے 1960ء میں رضی الدّین صدیقی کو ستارۂ امتیاز اور 1981ء میں ہلالِ امتیاز سے نوازا۔ اس کے علاوہ انھیں کئی ملکی اور غیرملکی جامعات نے بھی اعزازات دیے اور سائنس کے میدان میں‌ ان کے کام کو سراہا۔ ڈاکٹر صاحب متعدد جامعات اور تعلیمی اداروں میں مناصب پر فائز رہے۔ 2 جنوری 1998ء کو رضی الدّین صدیقی انتقال کرگئے تھے۔

  • ہالی ووڈ اداکار جیریمی رینر برف صاف کرتے ہوئے حادثے کا شکار

    نیواڈا: ہالی ووڈ اداکار جیریمی رینر برف صاف کرتے ہوئے حادثے کا شکار ہو گئے، انھیں نازک حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں ان کا علاج جاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی فلم اسٹار جیریمی رینر کے نمائندے نے اتوار کو بتایا کہ صبح سویرے وہ برف صاف کر رہے تھے کہ موسم سے متعلقہ حادثے کا شکار ہو کر شدید زخمی ہو گئے۔

    نمائندے کے مطابق کئی ماروِل بلاک بسٹرز فلموں میں کام کرنے والے 51 سالہ اداکار کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے اسپتال پہنچایا گیا، جہاں اب ان کی حالت سنبھل چکی ہے تاہم وہ تاحال نازک حالت ہی ہے۔

    نمائندے کا کہنا تھا کہ اداکار کا خاندان اب ان کے ساتھ ہی ہے، اور ان کی بہترین دیکھ بھال کی جا رہی ہے۔

    جیریمی رینر کو ان کے اداکاری کے کیریئر میں فلم ’ہرٹ لاکر‘ اور ’دی ٹاؤن‘ میں دو اکیڈمی ایوارڈز کے لیے نامزد کیا گیا ہے، انھوں نے ماروِل فلموں میں کلنٹ بارٹن نامی سپر ہیرو کا کردار ادا کیا، مشن امپاسبل میں بھی اپنے کردار کے لیے وہ مشہور ہیں۔

    جیریمی رینر سیرا نیواڈا کے پہاڑوں میں جھیل طاہو کے اوپر ایک فارم کے مالک ہیں، یہ وہ علاقہ ہے جو موسم سرما کے شدید طوفان کی زد میں آیا تھا، جس کی وجہ سے 35,000 گھر بجلی سے محروم ہو گئے تھے۔ 13 دسمبر کو رینر نے ٹویٹر پر اس علاقے میں برف کی ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا تھا: ’’جھیل طاہو کی برف باری کوئی مذاق نہیں ہے۔‘‘

  • گورنر سندھ کراچی کی نہاری کے بعد لاہور کے سری پائے کھانے پہنچ گئے

    لاہور: گورنر سندھ کامران ٹیسوری کراچی کی نہاری کے بعد لاہور کے سری پائے کھانے کے بھی شوقین نکلے، سری پائے کھانے وہ مزنگ چورنگی پہنچ گئے۔

    تفصیلات کے مطابق گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے لاہور میں بھی عوامی انداز اپنایا، جس طرح وہ کراچی میں نہاری کھانے کے لیے فیڈرل بی ایریا گئے تھے، ویسے ہی لاہور میں وہ مشہور سری پائے کھانے مزنگ چورنگی پہنچے۔

    گورنر سندھ نے لاہوری عوام کے ساتھ سری پائے کا مزہ لیا، اس موقع پر شہریوں نے کامران ٹیسوری کے ساتھ سیلفیاں بھی لیں۔

    واضح رہے کہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری لاہور کے دورے پر ہیں، انھیں گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمان نے دعوت دی تھی، گزشتہ روز انھوں نے گورنر پنجاب سے ملاقات بھی کی تھی۔

    کراچی میں گورنر سندھ نے کوٹ اتار کر اور آستینیں چڑھا کر مغز نلی نہاری کھائی تھی، اس موقع پر انھوں نے کہا تھا ’’میری صحت دیکھ لیں میں کھانے پینے کا شوقین ہوں، لیکن میں کسی کو ’کھانے پینے‘ نہیں دوں گا۔‘‘

    گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے ’مولا جٹ‘ دیکھنے کے بعد کیا کہا؟

    کامران ٹیسوری نے دل چسپ بات بتائی کہ انھیں گورنر شپ کے 70 دنوں میں رات کا کھانا دو مرتبہ کھانا پڑا، ایک دفعہ اہلیہ کے ساتھ دوسری مرتبہ لوگوں کے ساتھ۔

    انھوں نے کہا ’’میں نے اہلیہ کو کبھی نہیں بتایا کہ میں کھا چکا ہوں، آج بھی تھوڑا بہت اہلیہ کا دل رکھنے کے لیے ان کے ساتھ کھاؤں گا۔‘‘

  • نجم سیٹھی نےسابقہ مینجمنٹ کو ٹیسٹ کرکٹ میں خراب کارکردگی کا ذمہ دار قرار دے دیا

    اسلام آباد: پی سی بی کی مینجمنٹ کمیٹی کے چیئرمین نجم سیٹھی نے سابقہ مینجمنٹ کو ٹیسٹ کرکٹ میں خراب کارکردگی کا ذمہ دار قرار دے دیا ہے۔

     نجم سیٹھی نے غیرملکی میڈیا کو دیے گئے  انٹرویو میں کہا کہ ماضی میں بہتر پچز بنانے پر توجہ نہیں دی گئی، ایسا لگتا ہے ٹیسٹ میچ کرکٹ پچھلے 4 سال میں ختم ہو گئی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ  پی سی بی کی سابقہ مینجمنٹ نے ڈومیسٹک اسٹرکچر برباد کردیا ہے، پی سی بی اعلیٰ عہدیداران نے ٹیسٹ کرکٹ میں غیرمعیاری پچز بنوائیں وہ ٹیسٹ میچ ڈرا کے لیے کھیلنا چاہتےتھے۔

    پی سی بی کی مینجمنٹ کمیٹی کے چیئرمین نجم سیٹھی کا کہنا ہے کہ شاہد آفریدی پاکستان میں گرین پچ کے حامی ہیں، ان جیسے کھلاڑی کو ہمیں سلیکشن کمیٹی میں شامل کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ وہ جارحانہ فیصلے کرنے کی اہلیت رکھتےہیں۔

    چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی کا مزید کہنا تھا کہ شائقین اچھی کرکٹ دیکھنا چاہتے ہیں،جہاں ٹیسٹ میچ میں نتائج نکلیں۔