Tag:

  • کراچی میں کوئٹہ کی ہوائیں داخل، موسم مزید سرد ہوگیا

    کراچی میں کوئٹہ کی ہوائیں داخل، موسم مزید سرد ہوگیا

    کراچی میں کوئٹی کی ٹھنڈی ہواؤں کے باعث موسم  شدید سرد ہوگیا۔

    کراچی میں جمعہ کی رات ٹھنڈی ہواؤں کے باعث موسم سرد رہا اور شہر کا درجہ حرارت 10 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔

    محکمہ موسمیات کے مطابق شہر میں ہوا کی رفتار 7 کلو میٹر ہے جبکہ دن میں ہوا 15 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتارسےچلےگی اور  اس میں  نمی کا تناسب 61 فیصد ہے۔

    محکمہ موسمیات کے مطابق دن میں موسم خشک اوررات میں سردرہےگا اور دن میں درجہ حرارت27 سے29 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہےگا۔

    دوسری جانب کوئٹہ میں درجہ حرارت صفر ہوگیا اور اسلام آباد میں کم سے کم درجہ حرارت 2 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا جب کہ پشاورمیں 2.5 ، گلگت میں 6 اور لاہور میں کم سے کم درجہ حرارت 7 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔

    سائبیرین ہوائیں چلنے سے شمالی بلوچستان اور سندھ میں سردی کی شدت میں اضافہ ہوگیا۔

    محکمہ موسمیات نے اتوار سے بارش اوربرفباری برسانے والا مغربی سسٹم شمالی بلوچستان میں داخل ہونے کی پیش گوئی کرتے ہوئے شمالی علاقہ جات اور بلوچستان میں شدید سردی کی وارننگ جاری کر دی ہے۔

  • سحر خان کا مداحوں کے نام پیغام

    پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کی اداکارہ سحر خان نے سوشل میڈیا پر 10 لاکھ فالوورز ہونے مداحوں کے لیے پیغام شیئر کردیا۔

    فوٹو اور ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر اداکارہ سحر خان نے پوسٹ کے ساتھ تصاویر شیئر کیں جس میں انہوں نے شادی کی تقریب میں گولڈن کلر کی خوبصورت ساڑھی زیب تن کی ہے اور اسی کی مناسبت سے جیولری کا انتخاب کیا۔

    اداکارہ نے چند گھنٹوں قبل یہ تصاویر شیئر کیں جسے ہزاروں کی تعداد میں انسٹا صارفین دیکھ چکے ہیں اور انہیں مبارک باد بھی دے رہے ہیں۔

    سحر خان نے دس لاکھ فالوورز مکمل ہونے پر مداحوں کے نام پیغام میں لکھا کہ ’اتنے کم وقت میں آپ لوگوں نے محبت احترام اور مہربانی کی میں اس کے لیے آپ کی شکر گزار ہوں۔

    انہوں نے لکھا کہ ’انشا اللہ، میری کوشش ہوگی کے آئندہ سالوں میں اپنے مختلف کرداروں سے آپ لوگوں کو تفریح فراہم کرتی رہوں۔

    واضح رہے کہ سحر خان سوشل میڈیا پر کافی متحرک رہتی ہیں اور گاہے بگاہے اپنی تصاویر شیئر کرتی رہتی ہیں جسے ان کے مداح بھی پسند کرتے ہیں ۔

    اس سے قبل انہوں نے چائے پیتے ہوئے اپنی ایک تصویر شیئر کی تھی اور بتایا تھا کہ ’انہیں چائے بہت پسند ہے۔‘

    سحر نے ایک پوسٹ میں معنی خیز پیغام لکھا تھا کہ ’مثبت رہیں، مہربان رہیں، اچھائی کریں تو بدلے میں آپ کے ساتھ بھی سب کچھ اچھا ہی ہوگا۔‘

  • عبدالرزاق بیٹے علی رزاق کی گیند پر آؤٹ ہوگئے

    قومی ٹیم سابق آل راؤندڑ عبدالرزاق کے بیٹے علی رزاق نے والد ہی آؤٹ کردیا۔

    میگا اسٹار لیگ میں سابق آل راؤنڈر کے صاحبزادے علی رزاق کراچی نائٹس کی نمائندگی کررہے ہیں جبکہ عبدالرزاق پشاور پٹھان کی ٹیم میں شامل ہیں۔

    سابق مایہ ناز آل راؤنڈر کا جب بیٹے سے سامنا ہوا تو وہ پہلی ہی گیند پر وکٹ گنوا بیٹھے۔

    علی رزاق نے والد کو آؤٹ کرنے کے بعد خوب جشن بھی منایا۔

    واضح رہے کہ میگا اسٹار لیگ میں قومی ٹیم کے سابق کپتان و اسٹار آل راؤنڈر شاہد آفریدی بھی کراچی نائٹس کی نمائندگی کررہے ہیں، آفریدی سمیت ٹیم کے دیگر کرکٹرز نے علی رزاق کو وکٹ حاصل کرنے پر مبارک باد دی۔

  • بھارت میں ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘ پڑھے جانے پر اسکول پرنسپل معطل

    نئی دہلی: بھارت کی ریاست اترپردیش کے ایک سرکاری اسکول میں طلبہ کے علامہ اقبال کا دعائیہ کلام پڑھنے کی شکایت پر پرنسپل کو معطل کر دیا گیا ہے۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق اترپردیش کے ضلع بریلی میں دائیں بازو کے گروپوں کی جانب سے پولیس کو شکایت کی گئی تھی کہ اسکول میں بچوں نے علامہ اقبال کا دعائیہ کلام ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘ پڑھا ہے۔

    سوشل میڈیا پر اسکول کے طلبہ کی ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے جس میں انہیں یہ کلام پڑھتے دیکھا جا سکتا ہے، اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد بھارت کی محکمہ تعلیم نے اسکول کے پرنسپل کو معطل کر دیا ہے۔

    ویڈیو کلپ کا جو حصہ وائرل ہو رہا ہے اس میں اسکول کے بچوں کو مذکورہ کلام کی ایک سطر ’میرے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو‘ پڑھتے سُنا جا سکتا ہے۔

     پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس لیے مقدمہ درج کیا ہے کیونکہ نماز سرکاری اسکولوں کے شیڈول کا حصہ نہیں۔

     محکمہ تعلیم نے کہا ہے کہ ابتدائی معلومات کی بنا پر پرنسپل کو معطل کیا گیا ہے اور وہ اس معاملے کی انکوائری کریں گے۔

  • بھارتی فوجی ٹرک خطرناک حادثے کا شکار، تین افسران سمیت 16 فوجی ہلاک

    بھارتی فوجی ٹرک خطرناک حادثے کا شکار، تین افسران سمیت 16 فوجی ہلاک

    نئی دہلی : بھارتی فوج کا ٹرک پہاڑ سے نیچے آگرا جس کے نتیجے میں تین افسران سمیت 16 اہلکار ہلاک ہوگئے۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق یہ حادثہ ریاست سکم کے شمالی علاقے میں پیش آیا جہاں زیما کے علاقے میں بھارتی فوج کا ایک ٹرک پہاڑی سڑک سے نیچے آگرا جس کے نتیجے میں اب تک 16 فوجیوں کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی گئی ہے جس میں 3 جونیئر کمیشنڈ آفیسرز (جے سی او) بھی شامل ہیں۔

    بھارتی میڈیا کا بتانا ہےکہ بھارتی فوج کی تین گاڑیوں کا قافلہ جمعہ کے روز صبح کے اوقات میں تھانگو کی طرف روانہ ہورہا تھا کہ اس دوران قافلے میں شامل ایک ٹرک بے قابو ہوگیا اور پہاڑی سڑک سے نیچے آگرا۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق حادثے کے بعد علاقے میں فوری ریسکیو آپریشن شروع کردیا گیا ہے اور ٹرک سے 4 فوجیوں کو زخمی حالت میں نکال کر پہلی کاپٹر کے ذریعے اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

  • 300 ارب روپے کے پیٹرولیم لیوی کے شارٹ فال کا خدشہ

    300 ارب روپے کے پیٹرولیم لیوی کے شارٹ فال کا خدشہ

    اسلام آباد: رواں مالی سال کے دوران 300 ارب روپے کے پیٹرولیم لیوی کے شارٹ فال کا خدشہ ہے، پیٹرولیم لیوی کا شارٹ فال پورا کرنے کے لیے مختلف تجاویز زیر غور ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق رواں مالی سال کے دوران 300 ارب روپے کے پیٹرولیم لیوی کے شارٹ فال کا خدشہ ہے، انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے لیوی کی مد میں 300 ارب روپے کا شارٹ فال پورا کرنے کی حکمت عملی مانگ لی۔

    ذرائع وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ پیٹرولیم لیوی کا شارٹ فال پورا کرنے کے لیے مختلف تجاویز زیر غور ہیں۔

    ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ 850 ارب روپے لیوی کی مد میں حاصل کرنے کا معاہدہ طے پایا تھا تاہم 850 ارب روپے پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کا ہدف حاصل نہ ہونے کا خدشہ ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت خزانہ کی جانب سے لیوی کی مد میں شارٹ فال پورا کرنے کا پلان نہیں دیا گیا، وزارت خزانہ حکام کی جانب سے آئی ایم ایف کو بھی آگاہ کردیا ہے کہ 50 ارب تک لیوی شارٹ فال ہو سکتا ہے۔

  • اسلام آباد دھماکہ: شہید کانسٹیبل عدیل حسین کی نماز جنازہ ادا کردی گئی

    اسلام آباد دھماکہ: شہید کانسٹیبل عدیل حسین کی نماز جنازہ ادا کردی گئی

    اسلام آباد: اسلام آباد کے علاقے آئی 10دھماکے میں شہید پولیس کانسٹیبل عدیل حسین کی نماز جنازہ پولیس لائنز میں ادا کردی گئی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق نماز جنازہ میں ڈی آئی جی آپریشنز، ڈی سی اسلام آباد، رینجرز حکام، پولیس جوانوں اور افسران کی بڑی تعداد میں شرکت کی جب کہ قائم مقام آئی جی اسلام آباد حسن رضا خان بھی نمازجنازہ میں شرکت تھے۔

    یہ بھی پڑھیں: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں خود کش دھماکا، پولیس اہلکار شہید

    واضح رہے کہ آج صبح اسلام آباد کے سیکٹر آئی 10 میں خودکش دھماکے میں ایک پولیس اہلکار شہید اور 5 اہلکاروں سمیت 10 افراد زخمی ہوئے تھے۔

  • سموسہ ہماری صحت کے لیے ایٹم بم؟ دل چسپ بحث اور قدیم تاریخ

    سموسہ ہماری صحت کے لیے ایٹم بم؟ دل چسپ بحث اور قدیم تاریخ

    سموسہ برصغیر پاک و ہند میں یکساں مقبول ہے۔ زبان کے چٹخارے اور ذائقے کے لیے تلی ہوئی غذاؤں میں سموسہ وہ نمکین پکوان ہے جسے ہلکی پھلکی بھوک مٹانے اور اکثر چائے کے ساتھ شوق سے کھایا جاتا ہے۔

    تکونی شکل کا یہ خوش ذائقہ سموسہ کیا چھوٹا، کیا بڑا، کیا بوڑھا کیا جوان سب ہی کے من کو بھاتا ہے۔ اس نمکین ڈش کو مہمانوں کی آمد پر بھی چائے کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن ہم سب کو مرغوب سموسے کو جب سوشل میڈیا پر ڈاکٹر عفان نے صحت کیلیے خطرہ اور ایٹم بم قرار دیا تو ایک بحث شروع ہو گئی۔ ملتان سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عفان کی جو ‘تحقیق’ سامنے آئی، اس پر جہاں ان کی تائید کرنے والے تعداد میں کم نہ تھے، وہاں سموسے کے ایسے عاشقوں کی بھی کمی نہیں تھی جنہوں نے میمز کی بھرمار کر دی۔ کئی دل جلوں نے تو یہ تک کہہ دیا کہ اگر سموسہ کھائے بغیر بھی مرنا ہے تو بہتر ہے کہ کھا کر مرا جائے۔ اب سموسے سے ایسے لازوال عشق کی کوئی اور مثال ملے گی؟

    ’’سموسہ‘‘ دنیا بھر میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے لیکن بالخصوص برصغیر پاک و ہند میں تو یہ ہر چھوٹے بڑے کی پسند ہے۔ شادی کی تقریب ہو یا سالگرہ، افطار ہو یا اچانک آنے والے مہمانوں کی تواضع مقصود ہو، سموسہ ضرور پیش کیا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں تکون شکل کا وہ سموسہ عام ہے جسے آلو بھر کر تلا جاتا ہے۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا کہ 90 کی دہائی کی بالی ووڈ فلم کا ایک گیت بھی سموسے پر تھا۔ آلو کے علاوہ سبزی کا آمیزہ، قیمہ اور چکن والا سموسہ بھی بنایا جاتا ہے اور اس کے ساتھ انواع و اقسام کی چٹنیاں اس کے ذائقے کو گویا ‘تڑکا’ لگا دیتی ہیں۔

    آج ہم آپ کو اس من پسند سموسے کی صدیوں پرانی دلچسپ تاریخ سے آگاہ کریں گے۔
    پاکستان اور بھارت میں لوگوں کی اکثریت کا یہ خیال ہے کہ سموسہ اسی خطے کی ایجاد ہے اور اس نمکین ڈش کو مقامی لوگوں نے تیار کیا اور اسے رواج دیا تھا۔ لیکن سوشل میڈیا پر ڈاکٹر عفان کی وجہ سے چھڑنے والی بحث نے ایک دل چسپ تکرار کو بھی جنم دیا۔ سموسے کے دیوانے پاکستانی اور بھارتی سوشل میڈیا صارفین کی بڑی تعداد اس دوران خود کو ‘فادر آف سموسہ’ ثابت کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ لیکن سموسہ متحدہ ہندوستان یا بٹوارے کے بعد کسی ملک کے باورچیوں کی اختراع نہیں ہے۔اس کی تاریخ ہزار سال سے بھی پرانی اور دل چسپ ہے۔

    اس پکوان نے دسویں یا گیارھویں صدی عیسوی میں وسط ایشیائی ریاستوں میں کوئی شکل پائی تھی۔ ہزار ہا برس کے تمدن اور ثقافت سے متعلق معلومات اکٹھا کرتے ہوئے محققین نے جانا کہ سموسہ وہ ڈش ہے جس کا تعلق بنیادی طور پر ایران کی قدیم سلطنت سے ہے۔ دسویں اور تیرہویں صدی کے درمیان عرب باورچیوں کی کتابوں میں پیسٹریوں کو ‘سنبوساک’ کہا گیا ہے، جو فارسی زبان کے لفظ ‘سانبوسگ’ سے آیا ہے۔

    تاریخ پڑھیں تو سموسے کا ذکر سب سے پہلے ہندوستان سے ہزاروں میل دور قدیم سلطنتوں میں ملتا ہے۔ سب سے پہلا تذکرہ فارسی مؤرخ ابوالفصل بیہقی نے اپنی کتاب تاریخ بیہقی میں کیا۔ انھوں نے غزنوی سلطنت کے شاہی دربار میں پیش کی جانے والی ’نمکین پیسٹری‘ کا ذکر کیا ہے۔ اس میں قیمہ اور خشک میوہ بھرا جاتا تھا۔ اس پیسٹری کو اس وقت تک پکایا جاتا تھا جب تک کہ وہ خستہ نہ ہو جائے۔

    وہاں سے یہ سنبوساک سفر طے کرتا برصغیر آیا اور نجانے کتنے نام اپنانے اور شکلیں بدلنے کے بعد سموسہ کہلایا۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ دہلی میں مسلم سلطنت میں سموسے کو جنوبی ایشیا میں متعارف کروانے والے مشرق وسطی اور وسطی ایشیا کے باورچی تھے جو یہاں سلطان کے لیے کام کرنے آئے تھے۔

    مشہور سیاح ابن بطوطہ بھی سموسے کی لذت سے آشنا ہوئے اور انہوں نے بھی اپنی کتابوں میں محمد بن تغلق کے دستر خوان پر چنے گئے کھانوں اور لوازمات میں شامل سموسے کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے اسے قیمے اور مٹر سے بھری ہوئی پتلی پرت والی پیسٹری لکھا ہے۔
    بات کی جائے دیگر ممالک میں سموسے کی تو پاک وہند میں سموسے کو تیل میں تلا جاتا ہے تاہم وسط ایشیائی ترک بولنے والے ممالک میں اسے تیل میں تلنے کے بجائے پکایا جاتا ہے۔ جسے چھوٹی بھیڑ کے گوشت، پیاز، پنیر، کدو سے بھرا جاتا ہے۔ مغربی ممالک میں بھی سموسہ تیار کیا جاتا ہے لیکن وہ ہمارے روایتی سموسوں کی طرح نہیں ہوتا اور تلنے کے بجائے بیک کیا جاتا ہے۔

    پاکستان اور بھارت میں نمکین ہی نہیں میٹھا سموسہ بھی کھایا جاتا ہے اور اس کا یہ ذائقہ بھی سب کو پسند ہے جسے عرف عام میں ’’گجیا‘‘ کہتے ہیں۔ اس کو سبزیوں کی جگہ شکر، دودھ کا ماوہ اور خشک میوہ جات سے بھرا جاتا ہے اور پھر اصلی گھی میں تل کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ ڈش خوشی کی تقریبات میں خاص طور پر بنوائی جاتی ہے۔

    یہ ہندوستان میں روایتی مٹھائی کی دکانوں اور عام بیکریوں پر تیّار اور فروخت کیا جاتا ہے۔ سموسہ جو کبھی خوانچہ فروشوں اور حلوے مانڈے کی چھوٹی دکانوں پر ملتا تھا اب بالخصوص شام کے اوقات میں فاسٹ فوڈ کے مشہور مراکز پر بھی فروخت ہورہا ہے۔ ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر کی اعلیٰ درجے کی بیکریاں اور نامی گرامی سوئیٹ شاپس پر بھی سموسے بڑے اہتمام سے تیّار کیے جارہے ہیں۔

    سموسہ برصغیر اسی راستے سے پہنچا جس سے 2 ہزار برس پہلے آریائی نسل کے لوگ ہندوستان پہنچے تھے۔ یہ ہندوستان میں وسطی ایشیا کے پہاڑی سلسلے سے یہاں متعارف ہوا۔ سموسے کے اس طویل سفر کی کہانی کو بھارتی پروفیسر پنت نے ’سم دھرمی ڈش‘ کہہ کر سمیٹ لیا ہے، جس کا مطلب ہے تمام ثقافتوں کے سنگم والا پکوان۔

    آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ آج برطانیہ کے لوگ بھی سموسہ خوب شوق سے کھاتے ہیں۔ اور یہ ان لوگوں کی وجہ سے ہوا جو برصغیر سے سہانے مستقبل کا خواب سجائے برطانیہ گئے تھے۔ اس طرح ایران کے اس شاہی پکوان کا آج دنیا کے کئی ممالک میں لطف اٹھایا جا رہا ہے۔

    ہم نے سموسے کے ہر دل کی پسند ہونے کا ذاتی مشاہدہ بھی کیا جو آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔ یہ کچھ اس طرح‌ ہے کہ کراچی کی بولٹن مارکیٹ میں 25 سال قبل کھانے پینے کی ایک دکان ہوتی تھی جس کی خاص بات یہ تھی کہ وہاں صرف تین اشیا ہوتی تھیں اور دور دور سے لوگ یہاں کھانے کے لیے آتے تھے۔ کھانے پینے کی تین چیزوں کی یہ تکون سموسہ، لسّی اور امرتی پر مشتمل تھی۔ اس ٹرائیکا کے بارے میں جان کر جہاں ہماری نئی نسل کو حیرت ہو گی، وہیں کئی قارئین ایسے بھی ہوں گے جو اس ذائقے سے آشنا ہوں گے۔

    معلوم نہیں آج یہ دکان قائم ہے یا نہیں لیکن ایک بار جب ہمارے منہ کو یہ ذائقہ لگا تو کھانے پینے کی اس بے جوڑ تکون والی دکان پر دوسرے شوقین افراد کی طرح ہم بھی کئی بار گئے تھے۔

    اب اگر بات کی جائے ڈاکٹر عفان کی جو ماہرِ امراض جگر ہیں تو ان کی بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ سموسے میں کتنی کیلوریز ہوتی ہیں اور یہ نقصان دہ ہے یا نہیں، اس بحث سے قطع نظر زیادتی کسی بھی چیز کی ہو بری ہوتی ہے۔

    ہمارا مشورہ ہے کہ سموسے کھانا بے شک نہ چھوڑیں مگر اس میں توازن اور اعتدال ضروری ہے کہ لذّتِ کام و دہن کا سلسلہ بھی چلتا رہے اور صحت بھی برقرار رہے۔

  • الٹی ہوگئیں سب تدبیریں، کراچی والوں کو اپنا میئر چننے کا حق مل گیا

    الٹی ہوگئیں سب تدبیریں، کراچی والوں کو اپنا میئر چننے کا حق مل گیا

    سندھ ہائیکورٹ کے حکم کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی اور حیدرآباد ڈویژن میں 15 جنوری 2023 کو بلدیاتی الیکشن کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ بلدیاتی الیکشن متعدد بار ملتوی کیے گئے اور عدالتی حکم نے حکومت سندھ اور اتحادیوں کی التوا کے لیے تدبیروں کو الٹ کر رکھ دیا ہے۔

    سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں صوبے کے 16 اضلاع میں رواں سال مئی میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے اور دوسرے مرحلے میں کراچی، حیدرآباد میں 24 جولائی کو الیکشن ہونا تھے۔ تاہم طوفانی بارشوں اور سیلاب کے باعث الیکشن ملتوی کر کے نئی تاریخ 28 اگست دی گئی لیکن پھر 23 اکتوبر کو بلدیاتی الیکشن کرانے کا اعلان کردیا گیا اور اس تاریخ سے قبل ہی ایک مرتبہ پھر الیکشن ملتوی کر دیے گئے۔

    اس دوران سندھ حکومت نے بھی کراچی میں بلدیاتی انتخابات سے جان چھڑانے کیلیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا ساتھ اپنے اتحادیوں کو ملا لیا اور یکے بعد دیگرے پی پی پی اور اتحادیوں (بشمول ایم کیو ایم) کے اقدامات سے ایسا لگا کہ ان میں چاہے اندرونی لاکھ اختلافات ہوں لیکن کراچی میں بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کے فیصلے پر یہ تمام جماعتیں ایک پیج پر ہیں۔

    پہلے وفاقی حکومت نے کراچی کے بلدیاتی الیکشن کے لیے سیکیورٹی دینے سے معذرت کر لی جس کے بعد اکتوبر میں ہونے والے الیکشن ملتوی ہوئے لیکن پھر سندھ حکومت نے اپنے داؤ پیچ کھیلے۔ پی پی کی سندھ حکومت نے الیکشن کمیشن کی جانب سے لکھے گئے خط کے جواب میں تین ماہ تک الیکشن نہ کرانے کا جواب دیا اور جواز دیا کہ اس وقت سندھ پولیس کی نفری سیلاب زدہ علاقوں اور اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے حوالے سے وہاں مصروف ہے اور الیکشن کے لیے 37 ہزار نفری چاہیے جو دستیاب نہیں۔ جب کہ اسی دوران ایم کیو ایم بھی حلقہ بندیوں اور بلدیاتی قانون میں ترامیم اور با اختیار میئر کے نام پر میدان میں رہی اور اس کا موقف رہا کہ حلقہ بندیوں کی درستی اور بلدیاتی قوانین میں ترامیم کے بغیر الیکشن بے سود ہوں گے۔

    ایک طرف پی پی کی سندھ حکومت اور اس کے اتحادیوں کے تاخیری حربے جاری تھے تو اس کے خلاف جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کھڑی تھیں جو بلدیاتی انتخابات کے بار بار التوا پر سندھ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں کے فیصلے کے خلاف عدالت پہنچ گئیں۔ اس میدان میں جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کو کامیابی ملی اور سندھ ہائیکورٹ نے ان کی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے کراچی، حیدرآباد ڈویژن میں الیکشن کمیشن کو 3 دسمبر تک بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کرنے کا حکم دیا۔ عدالت کے حکم کے بعد الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے سندھ حکومت کی بلدیاتی الیکشن ملتوی کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے 15 جنوری 2023 کو کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی الیکشن کرانے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سیکرٹری داخلہ اور آئی جی سندھ کو بلدیاتی انتخابات کیلئے سیکیورٹی فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے متعلقہ اداروں کو سیکیورٹی فراہم کرنے کی مکمل ہدایت کردی۔

    سندھ حکومت نے تو اپنی پوری کوشش کی کہ کراچی میں بلدیاتی انتخابات سے جتنا دور رہا جائے وہی اس کے لیے سیاسی طور پر بہتر ہوگا۔ اسی لیے تو کبھی سیلاب اور کبھی انتظامات نہ ہونے کے جواز گھڑے۔ پولیس کی نفری میں کمی، اسلام آباد میں پولیس نفری بھیجے جانے کا بہانہ کیا اور جب اس کو اندازہ ہوا کہ مزید یہ بہانے نہیں چلیں گے تو ایک قدم اور آگے آتے ہوئے بلدیاتی الیکشن کے التوا کے حوالے سے بلدیاتی ایکٹ میں ترمیم کرکے الیکشن کمیشن کے ہاتھ باندھنے کی کوشش کی اور اس کی کابینہ سے منظوری بھی لے لی گئی۔ بلدیاتی ایکٹ کی شق 34 کے تحت 120 دن کے اندر الیکشن کرانا تھے، سندھ حکومت کی جانب سے نئی ترمیم کے بعد یہ شق ہی ختم کردی گئی۔

    پیپلز پارٹی کی جانب سے عدالت اور الیکشن کمیشن کے فیصلے پر من وعن عمل کا بیان تو سامنے آیا ہے لیکن یہ سیاست ہے جہاں سامنے کچھ اور پس پردہ کچھ ہوتا ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ سندھ حکومت اپنے اعلان پر قائم رہتے ہوئے بلدیاتی الیکشن کراتی ہے یا پھر کچھ نئی تاویلیں، بہانے تراش کر اسے پھر ملتوی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

    الیکشن کمیشن کے اس فیصلے پر جہاں سندھ حکومت نے بظاہر سر تسلیم خم کیا ہے وہیں ایم کیو ایم نے حسب سابق تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایم کیو ایم کی جانب سے الیکشن ملتوی کیے جانے کی درخواست سندھ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ پہلے ہی مسترد کرچکی ہیں تو اس معاملے پر ایم کیو ایم کا عدالت جانے کا پھر کیا جواز بنتا ہے؟

    یہ درست ہے کہ بلدیاتی قانون میں میئر با اختیار نہیں اور نہ ہی متعلقہ ادارے اس کے پاس ہیں جب کہ حلقہ بندیوں پر بھی ایم کیو ایم کا اعتراض جائز ہے کہ کہیں چند ہزار تو کہیں لاکھ کے لگ بھگ ووٹرز پر حلقہ بندیاں من پسند حلقوں میں کی گئی ہیں لیکن سوال تو یہی ہے کہ یہ حلقہ بندیاں کسی باہر والے نے تو نہیں کیں پی پی نے ہی کی ہیں میئر کے اختیارات کا گلا بھی پی پی نے گھونٹا ہے تو پھر ایم کیو ایم پی پی کے ساتھ کیوں بیٹھی ہے بے شک اس کے پاس سندھ کی وزارتیں نہیں لیکن کہلائے گی تو وہ اتحادی ہی۔ بلدیاتی معاملات پر روز مذاکرات اور روز ناکامی کے بعد ایم کیو ایم کی جانب سے حکومت سے نکلنے کے بیانات آئے روز دہرائے جاتے ہیں لیکن اس پر عمل ہوتا نہ دیکھ کر اب اس کے ووٹرز بھی ایم کیو ایم کے تحفظات پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے کیونکہ ایم کیو ایم کا ووٹرز چند ماہ قبل یہ تماشا بھی دیکھ چکا تھا کہ پی ڈی ایم حکومت کا حصہ بننے سے صرف چند روز قبل ہی ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کے خلاف سخت سراپا احتجاج تھی اور یہاں کی پوری قیادت وہاں کی پوری قیادت کو ملامت کر رہی تھی پھر اچانک راتوں رات موقف کی تبدیلی اور یوٹرن نے عوام کو بھی سوچنے پر مجبور کردیا۔

    الیکشن کے اعلان کے ساتھ ہی بلدیاتی میدان میں موجود جماعتوں نے اپنی تیاریاں شروع کردی ہیں اور آئندہ چند روز یا اگلے ماہ تک بلدیاتی الیکشن کے لیے شہر کا سیاسی ماحول گرم ہونے کی توقع ہے اب کس کے سر میئر کراچی کا تاج سجے گا یہ فیصلہ تو 15 جنوری کو ہی ہوگا لیکن اس سے پہلے جو شور مچے گا عوام کو اس کی تیاری کرنی چاہیے کہ تمام سیاسی جماعتیں میدان میں ہوں گی اور عوام کو دینے کے لیے لالی پاپ ہوں گے۔ اس مرحلے پر شہر کراچی کے باسیوں کو بھی سیاسی نعروں کے فریب میں آنے کے بجائے دانشمندانہ فیصلہ کرتے ہوئے اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنا ہوگا۔

    اس وقت کراچی بے شمار مسائل کا شکار ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ حکومتوں کی عدم توجہی، سیاسی منافرت اور بندر بانٹ نے روشنیوں کے شہر کو مسائلستان بنا دیا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ ملک کے سب سے بڑے شہر اور معاشی شہ رگ کی یہ حالت ہے کہ شہر کی تقریباً ہر سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور کئی علاقے کھنڈر بنے ہوئے ہیں۔ شہریوں کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں۔ صفائی کا نظام تو لگتا ہے کہ یہاں سے ختم ہی کیا جاچکا ہے ہر سڑک اور گلی کچرا کنڈی کا منظر پیش کرتی نظر آتی ہے۔ ناقص سیوریج نظام سے آئے دن کوئی نہ کوئی سڑک یا علاقہ جوہڑ میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ پارکس، بچوں کے کھیل کے میدان، ٹریفک کے نظام بھی توجہ کے طالب ہیں۔

    کراچی کو درپیش مسائل اس وقت حل ہوں گے جب بلدیاتی اداروں کے ساتھ ساتھ یہاں رہنے والے تمام شہری ذاتی غرض کے دائرے سے نکل کر اجتماعی بہبود کے لیے سوچیں گے اور اس شہر کو اپنا شہر سمجھیں گے۔ شہر کراچی کے باسی 15 جنوری کو پولنگ اسٹیشن میں داخل ہونے سے قبل اپنے شہر کے مذکورہ تمام مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ووٹ کا حق استعمال کریں گے تب ہی وہ کراچی کو ایک بار پھر روشنیوں، رنگوں اور امنگوں کا شہر بنانے کی کوشش میں کامیاب ہوں گے۔

  • عمران خان نے سرپرائز دے دیا، کیا نئے الیکشن کی راہ ہموار ہو رہی ہے؟

    عمران خان نے سرپرائز دے دیا، کیا نئے الیکشن کی راہ ہموار ہو رہی ہے؟

    پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے پنڈی میں بڑے پاور شو میں تمام اسمبلیوں سے نکلنے کا بڑا اعلان کیا جو سب کے لیے سرپرائز ثابت ہوا اور پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت سمیت تمام سیاسی جماعتیں‌ حیران و

    پریشان ہیں۔

    عمران خان نے ملک میں عام انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے اکتوبر کے آخر میں لاہور سے حقیقی آزادی مارچ کے نام سے اسلام آباد تک لانگ مارچ شروع کیا تھا تاہم لانگ مارچ کے آغاز کے چند روز بعد ہی وزیر آباد کے ایک مقام پر قاتلانہ حملے میں ان کے زخمی ہونے کے بعد یہ لانگ مارچ مؤخر کردیا گیا۔ پھر پروگرام کو تبدیل کرتے ہوئے لانگ مارچ کے دوسرے مرحلے میں اسے دو مختلف مقامات سے اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کی زیر قیادت آگے بڑھایا گیا جس کے شرکا سے عمران خان ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرکے ان کے جذبے کو ممہیز کرتے رہے۔

    نومبر شروع ہوا تو شہر اقتدار سمیت ملک بھر میں نظریں پاکستان میں دو اہم تعیناتیوں اور عمران خان کے لانگ مارچ پر لگی ہوئی تھیں۔ جیسے جیسے وقت آگے بڑھ رہا تھا چہ می گوئیاں بھی بڑھتی جا رہی تھیں اور غیر یقینی کی فضا اور صورت حال گھمبیر ہوتی جا رہی تھی۔ ان معاملات بالخصوص فوج میں کمان کی تبدیلی اور افسران کی ترقی کا معاملہ جس طرح میڈیا پر اٹھایا جا رہا تھا اس سے ایسا لگنے لگا تھا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے اور باقی عوامی مسائل حل ہوچکے ہیں۔

    اسی بے یقینی کی فضا میں عمران خان نے 26 نومبر کو راولپنڈی پہنچنے کا اعلان اور وہاں آکر سب کو سرپرائز دینے کا اعلان کیا۔ ایسے وقت میں جب آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کی تقرری کا معاملہ ملک کے سیاسی افق پر چھایا ہوا تھا تو لوگوں کی اکثریت نے اس سرپرائز دینے کے اعلان کو بھی اسی تناظر میں‌ دیکھا جب کہ 24 نومبر کو فوج میں‌ تقرری کے معاملات خوش اسلوبی سے طے پا گئے۔

    وزیراعظم شہباز شریف نے اتحادیوں سے طویل مشاورت کے بعد لیفٹیننٹ جنرل سید عاصم منیر کو آرمی چیف اور لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد کو چیئرمین جوائنٹس چیفس آف اسٹاف مقرر کرنے کا فیصلہ کیا اور سمری منظوری کے لیے صدر مملکت کو بھیجی۔ اس موقع پر صدر مملکت کے اچانک لاہور جانے اور عمران خان سے ملاقات نے افواہوں اور بے یقینی کو تقویت بخشی تاہم ملاقات کے بعد صدر کی جانب سے سمریوں پر دستخط سے تمام افواہوں نے دم توڑ دیا اور پھر سب کی نظریں عمران خان کے لانگ مارچ کی جانب مبذول ہوگئیں۔

    اگر مگر، دہشتگردی کے خدشات و خطرات، پی ٹی آئی کی سیاسی چالوں اور حکومتی دعوؤں اور لانگ مارچ کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات کے باوجود عمران خان 26 نومبر کی شام پنڈی پہنچ گئے جہاں عوام ان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔

    پنڈی میں جتنا بڑا جلسہ تھا اتنا ہی طویل خطاب بھی تھا۔ عمران خان نے ایک گھنٹے سے زائد خطاب کیا جس میں حسب سابق اپنی حکومت کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بننے والوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ساتھ ہی اپنی حکومت کے حاصل کردہ اہداف اور موجودہ حکومت کی معاشی ناکامیوں کے اعداد وشمار عوام کے سامنے پیش کیے۔ یہ سب اعداد و شمار لوگوں کے لیے نئے نہیں تھے لیکن ان کے خطاب کے آخری چند منٹ ہی انتہائی اہم تھے جس میں انہوں نے اسلام آباد جانے کا فیصلہ بدلتے ہوئے تمام اسمبلیوں سے نکلنے کا اعلان کر کے سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔

    عمران خان کے اس سرپرائز اعلان نے صرف مخالف پی ڈی ایم حکومت ہی نہیں بلکہ دیگر حلقوں کے ساتھ اپنے سخت ناقد صحافیوں کو بھی حیران کردیا اور تجزیہ کار یہ کہتے نظر آئے کہ عمران خان نے سیاسی چال سے حکومت کو بیک فٹ پر کر دیا ہے اور حکومت جو کئی ماہ سے نئے الیکشن کے مطالبے پر ان سے پنجاب، خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کی اسمبلیاں توڑنے کا مطالبہ کرتی تھی اب عمران خان کے اعلان نے اسے امتحان میں ڈال دیا ہے۔

    عمران خان کے اس اعلان کے بعد حکومتی نمائندوں کے بیانات اور باڈی لینگویج سے ایسا لگ رہا تھا کہ حکومت کو پنڈی اجتماع میں ایسے کسی اعلان کی توقع نہیں تھی بلکہ سابق وزیراعظم کے پنڈی پہنچنے سے ایک دن قبل تک سوشل میڈیا پر یہ خبریں گردش میں تھیں کہ عمران خان پنڈی میں جلسہ کرکے واپس چلے جائیں گے اور آئندہ چند روز میں قومی اسمبلی میں بھی واپس آجائیں گے جہاں تین فریق آئندہ الیکشن پر مذاکرات کریں گے لیکن بجائے اسمبلی واپس جانے کے پنجاب، کے پی اور گلگت بلتستان اسمبلیوں سے نکلنا یا دوسرے معنوں میں اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان سب کے لیے سرپرائز ثابت ہوا ہے۔ عمران خان نے کہا کہ وہ اپنی پارلیمانی کمیٹی سے مشاورت کے بعد اس بارے میں جلد تاریخ کا اعلان کریں گے۔

    حکومت کی پریشانی اور بوکھلاہٹ کا اندازہ حکومتی نمائندوں کے بیانات سے لگایا جاسکتا ہے۔ بلاول بھٹو، رانا ثنا اللہ و دیگر حکومتی وزرا کی جانب ایک بڑے عوامی جلسے کو فلاپ شو قرار دینا اسی پریشانی کی ایک جھلک لگتی ہے۔ ایک جانب رانا ثنا اللہ نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی والے اسمبلیوں سے باہر جائیں گے تو ضمنی الیکشن کرا دیے جائیں گے جس کی توثیق بعد ازاں الیکشن کمیشن نے بھی کر دی اور ادارے کے باخبر ذرائع سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اگر اسمبلی کی آئینی مدت ختم ہونے سے قبل استعفے ہوئے تو ضمنی الیکشن ہوں گے کیونکہ آئین کے مطابق نصف اسمبلی بھی خالی ہو تو ضمنی انتخاب ہوگا اور 2 نشستیں بھی اسمبلی میں ہوں تو اسمبلی بحال رہتی ہے۔

    آئین کی شق اپنی جگہ لیکن اگر پنجاب، خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کی اسمبلیاں ہی تحلیل ہو جاتی ہیں یعنی نصف سے زائد پاکستان میں کوئی منتخب ادارے نہیں رہتے تو کیا پھر بھی حکومت کا یہی مؤقف رہے گا کیونکہ ملک بھر کے منتخب نمائندوں کے مجموعی فورم کا 50 فیصد سے زائد حصہ پی ٹی آئی ہے۔ اگر تحریک انصاف کے استعفوں سے ملک کا 50 فیصد حصہ منتخب نمائندوں سے محروم ہوگا تو کیا اتنی زیادہ نشستوں پر ضمنی الیکشن کرانا ممکن رہے گا؟ اگر کرانے کی کوشش کی تو کروڑوں روپے خرچ ہوں گے اور وہ بھی ایسے وقت میں جب آئین کے مطابق اسمبلیوں کی مدت میں صرف چند ماہ ہی باقی رہ جائیں گے۔

    پی ٹی آئی کے پی اور گلگت بلتستان میں بلا شرکت غیرے اقتدار میں ہے تاہم پنجاب کا معاملہ مختلف ہے جہاں اکثریتی پارٹی بے شک پی ٹی آئی ہے لیکن حکومت ق لیگ کے چوہدری پرویز الہٰی کی ہے۔ عمران خان کے اعلان کے فوری بعد اس حوالے سے چہ می گوئیاں بھی ہوئیں تاہم مونس الہٰی نے اس پر مثبت ردعمل دے کر ان کا فوری گلا گھونٹ دیا اور اپنے ٹوئٹ میں واضح کر دیا کہ ہم اپنے وعدے پر قائم ہیں عمران خان کا اشارہ ملتے ہی پنجاب اسمبلی تحلیل کر دی جائے گی۔

    ماہر قانون کی اکثریت بھی اس بات پر متفق ہے کہ اگر عمران خان اپنے فیصلے پر عمل کرتے ہیں اور پنجاب، کے پی، گلگت بلتستان اسمبلیاں توڑ دی جاتی ہیں اس کے ساتھ ہی سندھ اور بلوچستان اسمبلی سے بھی پی ٹی آئی ایم پی ایز مستعفی ہوجاتے ہیں تو یہ بہت بڑا سیاسی بحران ہوگا۔ اس صورت میں یہ بحران صرف ضمنی الیکشن سے ختم نہیں ہوگا بلکہ لامحالہ نئے عام انتخابات کی طرف جانا پڑے گا۔

    پاکستان میں قومی اور گلگت بلتستان سمیت چاروں صوبائی اسمبلیوں کی مجموعی طور پر 859 نشستیں ہیں۔ قومی اسمبلی کی 123 نشستیں پہلے ہی پاکستان تحریک انصاف کے اراکین کے استعفوں کے باعث خالی ہیں۔ اگر صوبائی اسمبلیاں تحلیل بھی نہ ہوں تو پی ٹی آئی ایم پی ایز کے استعفوں سے پنجاب کی 297 نشستیں، کے پی کی 115، سندھ کی 26 اور بلوچستان کی 7 نشستیں خالی ہوں گی جو مجموعی طور پر 567 ہوں گی۔

    صرف مریم نواز اور ن لیگ کے دیگر رہنما ہی نہیں بلکہ پی پی سمیت دیگر اتحادی جماعتوں کے رہنما بھی اس سے قبل کئی بار عمران خان کے نئے الیکشن کے مطالبے پر کہتے تھے کہ وہ پہلے اپنی صوبائی حکومتیں توڑیں تو قومی اسمبلی توڑ کر نئے الیکشن کرا دیں گے۔ عمران خان کا یہ ماسٹر اسٹروک بھی حکومت کے لیے امتحان بن گیا ہے۔

    ملکی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ سابق وزیراعظم نے اپنے پتوں کو بروقت کھیل کر سیاست کے میدان کا شاطر کھلاڑی ہونے کا ثبوت دیا ہے تاہم اسمبلیوں سے نکنے کے اعلان پر فوری عمل کرنے کے بجائے پارٹی کی پارلیمانی کمیٹی سے مشاورت کے بعد تاریخ دینے کے اعلان نے اس پر سوالات بھی اٹھا دیے ہیں۔ ایک رائے یہ بھی سامنے آئی ہے کہ عمران خان کا یہ اعلان اپنے سامنے موجود قوتوں اور مخالفین کو نئے الیکشن کے لیے سنجیدہ اور فیصلہ کن مذاکرات کے لیے سوچنے کا وقت دینے کی ایک اور کوشش ہے۔

    اگر پی ڈی ایم حکومتی آپشنز کی جانب نظر دوڑائیں تو اس کے پاس اس بحران سے بچنے کے لیے صرف تین آپشنز بچتے ہیں۔ ایک یہ کہ فوری طور پر پنجاب اور کے پی کے وزرائے اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے جو کہ کے پی میں تو یقینی ناکام ہوگی جب کہ پنجاب کے بارے میں ابھی کوئی حتمی رائے نہیں دی جاسکتی اور یہی سب سے بڑا بونس پوائنٹ ہوسکتا ہے۔ اگر دونوں جگہوں پر تحریک عدم اعتماد ناکام رہتی ہیں تو وفاقی حکومت گورنر راج جیسا آپشن بھی استعمال کرسکتی ہے اس کے علاوہ اس کے پاس خالی نشستوں پر ضمنی الیکشن کی چوائس بھی ہے۔

    عمران خان نے ایک پر ایک سیاسی چال چلتے ہوئے تُرپ کا پتہ بھی پھینک دیا ہے۔ اگر اس پر سنجیدہ مذاکرات کے بجائے وفاقی حکومت بحران سے نمٹنے کے لیے مذکورہ بندوبست کرتی ہے تو یہ عارضی ہی ثابت ہوں گے۔ ملک پہلے ہی معاشی بدحالی کا شکار اور ماہرین معیشت کے مطابق ڈیفالٹ کی دہلیز پر کھڑا ہے ایسے میں سیاسی بحران سے نمٹنے اور اپنے چند ماہ کے باقی اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے کوئی بھی عارضی اقدام سیاسی تناؤ کو مزید ہوا دے کر بحران کے شعلوں کو مزید بھڑکا سکتا ہے۔

    عمران خان نے یہ اعلان کرکے وفاقی حکومت کو نئے انتخابات پر مذاکرات کے لیے راستہ دے دیا ہے۔ صائب مشورہ یہی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اور اسٹیک ہولڈر ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر کر وہ فیصلے کریں کہ جس سے ملک میں جاری ہیجانی کیفیت کا خاتمہ ہو۔ معاشی استحکام آئے اور غریب عوام کی زندگی بہتر ہوسکے۔ اس کے لیے چند ماہ قبل سہی نئے الیکشن کا اعلان کر دینے میں‌ کوئی مضائقہ نہیں اور تاکہ نئی منتخب حکومت پورے اعتماد سے ملک و قوم کی بہتری کے لیے فیصلے کرسکے۔