Tag:

  • ورلڈ کپ:جیت کے جنون اور فتح کی لگن سے  قومی ٹیم نے شکست کو مات دے دی

    ورلڈ کپ:جیت کے جنون اور فتح کی لگن سے قومی ٹیم نے شکست کو مات دے دی

    پاکستانی کرکٹ ٹیم ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا فائنل جیت کر اس تاریخی فتح کی یاد تازہ نہیں کرسکی جس کا جشن قوم نے آج سے تیس سال قبل منایا تھا، لیکن ٹیم نے جس شان سے اس ٹورنامنٹ کا اختتام کیا، اس نے کروڑوں پاکستانیوں اور دنیا بھر کے شائقین کرکٹ کے دل جیت لیے ہیں۔

    آسٹریلیا کے میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں پاکستانی ٹیم کے سامنے انگلینڈ کے کھلاڑی تھے اور ان کی ٹیم ورلڈ کپ کی فاتح بنی، لیکن ٹورنامنٹ کے فائنل سے قبل پاکستان جس طرح کھیلا اور سیمی فائنل تک پہنچا، اس نے دنیا بھر میں شائقینِ کرکٹ کو 1992ءکے ون ڈے ورلڈ کپ کی یاد دلا دی۔ اس ون ڈے اور حالیہ ٹورنامنٹ میں مماثلت ایک دل چسپ موضوع بن گیا اور ہر طرف اس پر بات ہونے لگی۔ پھر جب سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ سے ٹاکرا ہوا تو قومی ٹیم کی کام یابی سے ان میچوں میں مماثلت کی باتوں کو مزید تقویت ملی۔ دوسرے روز جب انگلینڈ نے آسان فتح کے ساتھ فائنل کے لیے کوالیفائی کیا تو پاکستانی شائقین کی توقعات اور ان کی خوش امیدی آسمان سے باتیں کرنے لگی۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by ICC (@icc)

    اتوار کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا فائنل بھی اسی میدان میں‌ کھیلا گیا جس میں‌ 1992ء میں پاکستان نے فتح حاصل کی تھی بلکہ حریف ٹیم بھی اسی ملک کی تھی جس کا سامنا پاکستانی کھلاڑیوں نے 30 سال پہلے کیا تھا۔ یعنی میلبرن میں ایک بار پھر پاکستان اور انگلینڈ آمنے سامنے تھے۔ قوم توقع کررہی تھی کہ جس طرح 1992ء میں عمران خان نے انگلینڈ کو شکست دے کر ورلڈ کپ کی ٹرافی ہاتھوں میں تھامی تھی، اسی طرح بابر اعظم بھی ٹرافی لے کر قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کے ساتھ شاداں و فرحاں وطن لوٹیں گے۔

    میدان میں اترنے سے قبل قومی ٹیم کے کپتان بابر اعظم نے بھی اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ پوری ٹیم میدان میں شان دار کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی اور تاریخ دہرانے کی کوشش کرے گی۔ پاکستانی ٹیم کی یہ کوشش نظر بھی آئی، لیکن قسمت میں فتح نہیں لکھی تھی۔ انگلینڈ کے ہاتھوں شکست سے پاکستانی شائقین کے دل ضرور ٹوٹے ہیں لیکن سب نے دیکھا کہ قومی ٹیم کے کھلاڑیوں نے حریف ٹیم کا خوب مقابلہ کیا اور شکست کے باوجود سَر اٹھا کر میدان سے باہر آئے۔

    اس میچ میں‌ ٹاس جیت کر انگلینڈ نے پاکستان کو بیٹنگ کا موقع دیا تو نیوزی لینڈ کے خلاف سیمی فائنل سمیت سپر 12 مرحلے میں جنوبی افریقہ اور بنگلہ دیش کے خلاف بیٹنگ اور کپتان بابر اعظم کی فارم میں واپسی کو مدنظر رکھتے ہوئے شائقینِ کرکٹ کو قومی ٹیم سے اچھے اسکور کی امید تھی لیکن انھیں مایوسی ہوئی۔ پاکستانی ٹیم نے انگلینڈ کو جیت کے لیے 138 رنز کا ہدف دیا جو مختصر طرز کے اس تیز ترین کرکٹ فارمیٹ میں قابلِ‌ ذکر ہدف نہیں تھا۔ بلّے بازوں کی ناکامی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کوئی بلّے باز نصف سنچری نہ بنا سکا اور نہ ہی کوئی 50 رنز کی پارٹنر شپ ہوسکی۔ رہی سہی کسر بیٹسمینوں نے 48 ڈاٹ بالز کھیل کر پورا کر دی۔ دوسرے لفظوں میں 8 اووروں میں گرین شرٹس کوئی رن نہ بنا پائی۔ بیٹنگ میں شاہینوں کی یہ کارکردگی اور انگلینڈ کے اوپننگ بلّے بازوں کی بھارت کے خلاف طوفانی بیٹنگ دیکھتے ہوئے فائنل میں شائقینِ کرکٹ ناامید ہو چلے تھے اور دوسری اننگ سے قبل یہ یکطرفہ مقابلہ لگ رہا تھا لیکن پاکستانی بولروں نے اس موقع پر دنیائے کرکٹ میں اپنی صلاحیتیوں کا بہترین مظاہرہ کیا اور اپنا نام اونچا کیا۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by ICC (@icc)

    پاکستانی بولروں نے 138 رنز کے آسان ہدف کا حصول انگلینڈ کے بلّے بازوں کے لیے ناکوں چنے چبوانے کے مترادف بنا دیا۔ انگلش اوپنرز جوز بٹلر اور ایلکس ہیلز جنھوں نے سیمی فائنل میں بھارتی بولروں کی خوب دھنائی کی تھی انھیں ابتدا ہی میں پویلین لوٹنے پر مجبور کر دیا۔ ایک موقع پر 84 رنز پر انگلینڈ کے 4 باصلاحیت بلّے باز آؤٹ ہوچکے تھے اور انگلش ٹیم کے لیے رنز کا حصول مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا تھا۔ پھر قسمت نے انگلینڈ کا ساتھ اس طرح دیا کہ پاکستانی بولر شاہین شاہ آفریدی زخمی ہو کر میدان سے باہر ہوگئے۔ ان کے جانے سے جہاں قومی ٹیم کو دھچکا لگا وہیں انگلش بلّے بازوں کی جان میں جان آئی کیوں کہ ابھی ان کے دو اوورز باقی تھے۔

    شاہین شاہ آفریدی کا زخمی ہونا میچ کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ کیوں کہ ان کی میدان میں موجودگی کے وقت فتح کے لیے انگلش ٹیم کو 30 گیندوں پر 48 رنز درکار تھے لیکن شاہین شاہ میدان سے کیا لوٹے پاکستان کی تمام امیدوں اور خوشیوں نے بھی منہ موڑ لیا اور بظاہر ایک مشکل ہدف کو انگلش بلّے بازوں نے ایک اوور قبل ہی حاصل کرلیا۔

    شکست کے باوجود پوری قوم اور ہمارے سابق کھلاڑیوں سمیت دنیا کے مشہور کرکٹروں نے پاکستانی بولروں کی کارکردگی کو سراہا ہے اور اسے کھیل کی دنیا کا سب سے خطرناک بولنگ اٹیک قرار دیا ہے۔

    اگر ہم آسٹریلیا میں جاری ٹی 20 ورلڈ کپ کے پورے ٹورنامنٹ میں گرین شرٹس کے سفر پر نظر ڈالیں تو پاکستان نے 4 فیورٹ ٹیموں میں سے ایک ٹیم کے طور پر سفر شروع کیا۔ سپر 12 مرحلے میں پاکستان اور بھارت کا ہائی وولٹیج میچ ٹورنامنٹ کا سب سے سنسنی خیز میچ ثابت ہوا جس کا فیصلہ آخری گیند پر ہوا، پاکستان میلبرن کے میدان میں جیتا ہوا میچ ہارا ساتھ ہی اگلے میچ میں کمزور زمبابوے سے غیرمتوقع شکست کا زخم سہنا پڑا۔ اس اپ سیٹ شکست نے نہ صرف پاکستانی شائقین بلکہ دنیائے کرکٹ کو بھی حیران کردیا کیونکہ پاکستان اس میچ میں 131 رنز کا آسان ہدف بھی حاصل نہیں کرسکا تھا۔

    ابتدا ہی میں دو میچ ہارنے کے بعد پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی پر سوالیہ نشان لگ گیا اور معاملہ اگر مگر پر آگیا لیکن اسی فضا میں قومی ٹیم نے اپنی محنت اور دعاؤں کی بدولت ناممکن کو ممکن کر دکھایا اور بلاشبہ پوری ٹیم کی کارکردگی قابلِ تحسین ہے۔

    ٹورنامنٹ اب ختم ہوچکا ہے۔ ٹرافی نہ جیتنے کا دکھ اپنی جگہ لیکن یہ کم نہیں کہ ہماری ٹیم دنیا کی 16 ٹاپ کرکٹ ٹیموں میں سے دوسری بہترین ٹیم ہے جس نے فائنل کے لیے کوالیفائی کیا۔ جہاں لوگ قومی ٹیم کی ستائش کر رہے ہیں وہیں ٹیم کے کپتان اور کھلاڑیوں کے لیے وہی آوازیں دوبارہ بلند ہونے لگی ہیں جو سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے سے قبل سنائی دے رہی تھیں۔

    دیکھنا چاہیے کہ فتح اور شکست کی نوعیت کیا ہے۔ شرم ناک شکست وہ ہوتی ہے جہاں سپاہی لڑے بغیر ہتھیار ڈال دیں لیکن جہاں مقابلہ برابر کا ہو وہاں فتح و شکست نہیں جذبہ دیکھا جاتا ہے اور اس ٹورنامنٹ میں قومی ٹیم آخری لمحے تک جیت کے لیے جان لڑاتی نظر آئی۔

    اس ٹورنامنٹ سے ہمیں محمد حارث جیسا جارح مزاج بلّے باز ملا جس نے جنوبی افریقہ کے اہم میچ میں فتح میں اہم کردار ادا کیا۔ ان ہی کے ہم نام حارث رؤف اپنی ایک شناخت بنائی اور امید ہے کہ جس طرح 1992ء کے ورلڈ کپ میں نو آموز انضام الحق، مشتاق احمد، عامر سہیل بعد میں پاکستانی کرکٹ کے اہم ستون رہے، اسی طرح آج کے نو آموز کھلاڑی بھی وقت کی بھٹی سے کندن بن کر نکلیں گے۔ بلاجواز تنقید کے بجائے تعمیری رویّہ اپناتے ہوئے ٹیم کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور کمزوریوں کودور کرنے کی بات کی جائے۔

    سب سے پہلے تو قومی ٹیم کو بیٹنگ لائن پر توجہ دینا ہوگی۔ ہمیں‌ ایسے بہترین بلّے بازوں کی ضرورت ہے جو مستقل مزاجی سے پاکستان کے لیے رنز اسکور کریں۔ اس وقت بابر اعظم اور محمد رضوان کے علاوہ کوئی ایسا بلّے باز قومی ٹیم میں موجود نہیں ہے۔ اسی طرح ڈاٹ بال کھیلنے کی عادت ترک کرنا ہوگی۔ یہ اعتراف تو کپتان بابر اعظم بھی کرچکے ہیں کہ ہم نے فائنل میں بہت ڈاٹ بالز کھیلیں اور 20 رنز کم بنائے۔

    ہماری ٹیم میں اس وقت شاداب خان کے علاوہ کوئی مستند آل راؤنڈر نہیں ہے۔ ہماری ٹیم کو ایسے مزید آل راؤنڈرز کی ضرورت ہے جو کسی بھی پوزیشن پر پاکستان کے لیے اچھی پرفارمنس دے سکیں۔ اکھاڑ پچھاڑ اور غیر ضروری تبدیلیوں کے بجائے ٹیم کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے کوشش کرنا ہو گی، کیوں کہ آئندہ سال پاکستان کو ایشیا کپ کی میزبانی کرنی ہے۔ ایشیا کپ کے بعد اگلا بڑا مقابلہ ون ڈے ورلڈ کپ ہوگا جو بھارت میں کھیلا جائے گا اور اس کے لیے ابھی سے سوچنا ہوگا۔

  • ٹی 20 ورلڈ کپ: ٹرافی ایک میچ کی دوری پر ، تاریخ خود کو دہرا رہی ہے!

    ٹی 20 ورلڈ کپ: ٹرافی ایک میچ کی دوری پر ، تاریخ خود کو دہرا رہی ہے!

    آسٹریلیا میں کھیلا جانے والا ٹی 20 ورلڈ کپ اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اس بار کون ورلڈ کپ کی ٹرافی تھامے گا اور کون خالی ہاتھ گھر واپس جائے گا، یہ فیصلہ صرف ایک میچ کی دوری پر ہے۔

    اتوار 13 نومبر کو میلبرن میں پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان کھیلے جانے والے فائنل کا سب کو شدت سے انتظار ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by ICC T20 World Cup (@t20worldcup)

    اگر مگر کی صورتحال میں قوم کی دعاؤں اور پرفارمنس سے پاکستان کی ٹیم ایک بار پھر 1992 کی تاریخ دہرانے کیلیے میلبرن میں اترے گی۔ میدان بھی 30 سال پرانا ہے، ٹیم بھی وہی انگلینڈ کی ہے، قوم کو امیدیں ہیں کہ پاکستانی ٹیم ایک بار پھر پورے ملک اور قوم کا سر فخر سے بلند کرے گی لیکن کرکٹ بائی چانس ہے اور یہ کھیل اتنا غیر متوقع ہے کہ بعض اوقات جب تک آخری گیند نہ پھینک لی جائے تب تک کچھ بھی کہنا مشکل ہوتا ہے جیسا کہ ٹورنامنٹ کے آغاز میں پاکستان اور بھارت کا سنسنی خیز میچ ہوا۔

    آسٹریلیا میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں نے ٹورنامنٹ کے دوران اگر مگر کی صورتحال اور کشمکش کی فضا میں جس طرح اپنی محنت اور قوم کی دعاؤں کی بدولت ناممکن کو ممکن کر دکھایا اور سیمی فائنل میں با آسانی نیوزی لینڈ کو زیر کرکے فائنل کے لیے کوالیفائی کیا تو دوسرے سیمی فائنل میں انگلینڈ نے بھارت کا غرور خاک میں ملاتے ہوئے اسے خالی ہاتھ اپنے وطن واپس لوٹنے پر مجبور کردیا۔ یوں بھارت پاکستان کو ٹورنامنٹ سے باہر کرنے کے لیے اپنے بنائے گڑھے میں خود ہی گر گیا ہے، ایسے ہی موقعوں کے لیے کہا جاتا ہے کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by ICC (@icc)

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by ICC (@icc)

    ٹی ٹوئنٹی کے سپر 12 مرحلے کے آغاز سے قومی ٹیم کے سیمی فائنل تک پہنچنے کے لیے قوم نے جس طرح دعائیں کیں، اس سے 1992 کے ورلڈ کپ کی یادیں تازہ ہوگئیں اور سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کے خلاف فتح نے ان یادوں کو مزید تقویت بخشی، کیونکہ 92 کے ورلڈ کپ میں بھی پاکستان نے نیوزی لینڈ کو سیمی فائنل میں شکست دی تھی اور میدان بھی آسٹریلیا کا تھا، اب جب کہ ٹرافی صرف ایک ہاتھ یعنی ایک میچ دور ہے اور مدمقابل بھی تو قوم میں بھی ایک بار پھر وہی جوش و ولولہ اور وہ اضطراب نظر آرہا ہے جو آج سے 30 سال قبل فائنل سے قبل دیکھا گیا تھا اور اب پاکستانیوں کی ہر بیٹھک میں یہی سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا پاکستانی ٹیم 1992 کی تاریخ دہرا کر آسٹریلیا سے ٹرافی کے ساتھ وطن لوٹے گی۔

    اگر ہم آسٹریلیا میں جاری ٹی 20 ورلڈ کپ کے پورے ٹورنامنٹ میں گرین شرٹس کے سفر پر نظر ڈالیں تو پاکستان نے 4 فیورٹ ٹیموں میں سے ایک ٹیم کے طور پر اس کا سفر شروع کیا، سپر 12 مرحلے میں پاکستان اور بھارت کا ہائی وولٹیج میچ ٹورنامنٹ کا سب سے سنسنی خیز میچ ثابت ہوا جس کا فیصلہ آخری گیند پر ہوا، پاکستان میلبرن کے میدان میں جیتا ہوا میچ ہار گیا۔ اگلا میچ زمبابوے سے تھا اور سب کو یقین تھا کہ پاکستان حریف کو باآسانی پچھاڑ کر اپنی فتح کے سفر کا آغاز کرے گا لیکن غیر متوقع اور اپ سیٹ شکست نے نہ صرف پاکستانی شائقین بلکہ دنیائے کرکٹ کو بھی حیران کر دیا کیونکہ پاکستان اس میچ میں 131 رنز کا آسان ہدف بھی حاصل نہیں کرسکا تھا۔

    ابتدا ہی میں دو میچ ہارنے کے بعد پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی پر سوالیہ نشان لگ گیا اور معاملہ اگر مگر پر آگیا، قومی ٹیم کی اگلے مرحلے تک رسائی کے لیے بھاری مارجن سے جیت کے ساتھ دیگر ٹیموں کے میچوں کے حسب منشا نتائج بھی ضرورت بن گئے، پھر قومی ٹیم بیدار ہوئی اور مسلسل تین میچز میں مخالف ٹیموں کو پچھاڑتی ہوئی اگر مگر کے ساتھ ہی سیمی فائنل میں پہنچی اور وہاں بھی نیوزی لینڈ کو شکست دے کر فائنل میں پہنچ گئی اور یہی سب کچھ تو 1992 کے ورلڈ کپ میں بھی ہوا تھا تو قوم کو لگا کہ یہ 92 کے ورلڈ کپ کا ہی ری پلے ہے پھر قوم نے اس بار وہی امیدیں وابستہ کرلی ہیں کہ جہاں کھلاڑی میدان میں اپنی جان ماریں گے وہیں شائقین اسٹیڈیم میں ان کا جوش بڑھائیں گے اور قوم ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر میچ دیکھنے کے ساتھ دعائیں بھی کرے گی جب کہ بعض بزرگ تو میچ شروع ہوتے ہی مصلیٰ سنبھال لیں گے۔

    جس طرح 25 مارچ 1992 کو ایک شکستہ ٹیم جس کے بیٹنگ آرڈر میں سب سے اہم پوزیشن ون ڈاؤن پر کوئی قابلِ ذکر بلے باز دستیاب نہیں تھا، دو فاسٹ بولرز کے بعد تیسرا کوئی فاسٹ بولر نہیں تھا، 50 اوورز کے کوٹے کو جزوقتی بولر عامر سہیل اور اعجاز احمد کی مدد سے پورا کیا جاتا تھا، اس ٹیم نے سارے اندازوں کو غلط ثابت کر دکھایا۔

    جس طرح 1992 میں پاکستان کے کپتان عمران خان جو اپنے سخت اور انوکھے فیصلوں کے لیے مشہور تھے اس ورلڈ کپ میں ایک ایسی بیٹنگ لائن لے کر گئے تھے جس میں جاوید میاں داد کے علاوہ کوئی قابلِ اعتماد بلے باز نہ تھا، اسی طرح موجودہ ٹیم میں بھی کپتان بابر اعظم اور محمد رضوان کے علاوہ کوئی مستند بلے باز نہ تھا اور مڈل آرڈر پر سب نے سوالات اٹھا دیے تھے جب کہ سب سے زیادہ پریشان کن بات اس کامیاب اوپننگ پیئر بالخصوص کپتان بابر اعظم کا آؤٹ آف فارم ہونا بھی تھا جو سیمی فائنل کے قبل 5 میچوں میں صرف 39 رنز ہی اسکور کر سکے تھے۔ جس طرح 92 میں ایئن چیپل اور رچی بینو جیسے ماہرین نے ایک دو میچوں میں ہی کامیابی کی پیشگوئی کی تھی، اسی طرح موجودہ زمانے کے ماہرین کرکٹ نے بھی بابر اعظم کی زیر قیادت ٹیم کے پہلے مرحلے سے آگے نہ بڑھنے کی پیشگوئی کی تھی لیکن دونوں بار یہ پیشگوئیاں غلط ثابت ہوئیں۔

    ایک اور مماثلت کہ 92 میں قومی ٹیم جب آسٹریلیا روانہ ہوئی تو سوائے جاوید میانداد کے کوئی قابل بھروسا بلے باز نہیں تھا لیکن جب ٹیم کپ کے ساتھ واپس آئی تو اپنے ساتھ انضمام الحق، عامر سہیل، عاقب جاوید اور مشتاق احمد جیسے جوہرِ قابل لے کر آئی جو بعد میں ٹیم کے اہم ستون بن گئے۔

    اس بار بھی بابر اعظم اور محمد رضوان کے علاوہ کوئی مستند بلے باز نہیں تھا لیکن ٹیم واپس آئے گی تو امید ہے کہ ٹرافی کے ساتھ محمد حارث، افتخار احمد جیسے مستقبل کے ہیروز ساتھ لے کر آئے گی۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by ICC T20 World Cup (@t20worldcup)

    تاہم سنسنی خیز فائنل سے قبل آسٹریلوی محکمہ موسمیات نے فائنل کے روز میلبرن میں بارش کی پیشگوئی کی ہے یعنی پاکستان کا مدمقابل صرف انگلینڈ نہیں بلکہ موسم بھی ہوگا، میچ کے لیے ریزرو ڈے بھی ہے لیکن اگر دونوں دن میچ مکمل نہ ہوسکا تو پھر دونوں فائنلسٹ ٹیموں کو مشترکہ فاتح قرار دیا جاسکتا ہے۔

    پاکستان کی ٹیم نے جس طرح سیمی فائنل جیتا، اور قوم کو خوشیاں منانے کا موقع دیا، اس کے بعد اب کرکٹ کے پاکستانی شائقین ہی کی نہیں بلکہ پوری قوم آرزو مند ہے کہ فائنل کی فاتح بن کر ہماری ٹیم ورلڈ کپ ٹرافی کے ساتھ وطن لوٹے۔ ہم سب کی دعائیں قومی ٹیم کے ساتھ ہیں۔

  • ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ:  کیا آسٹریلیا میں تاریخ خود کو دہرائے گی؟

    ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ: کیا آسٹریلیا میں تاریخ خود کو دہرائے گی؟

    کرکٹ کے میدان میں پاکستانی ٹیم کی غیر متوقع کارکردگی کے باعث کسی بھی میچ میں اس کی فتح اور شکست کی پیش گوئی بھی مشکل رہی ہے یہ وہ ٹیم ہے جو ایک میچ میں اگر کسی مضبوط حریف کو ہرا سکتی ہے تو اگلے ہی میچ میں ایک کمزور کرکٹ ٹیم سے شکست کھا کر دنیا کو حیران کر دیتی ہے۔

    آسٹریلیا میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے یہی کیا۔ کھیل کے دوران کشمکش کی فضا میں قومی ٹیم کے کھلاڑیوں نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا اور پاکستان سیمی فائنل میں پہنچ گیا۔

    ٹی ٹوئنٹی کے سپر 12 مرحلے کے آغاز سے قومی ٹیم کے سیمی فائنل تک پہنچنے کے لیے قوم نے جس طرح دعائیں کیں، اس سے 1992 کے ورلڈ کپ کی یادیں تازہ ہوگئیں۔ اُس ایک روزہ ورلڈ کپ اور حالیہ مقابلے میں اتنی مماثلت پیدا ہو گئی ہے کہ قوم میں بھی ایک بار پھر وہی جوش و ولولہ اور وہ اضطراب نظر آرہا ہے جو آج سے 30 سال قبل دیکھا گیا تھا۔ اب یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا پاکستانی ٹیم 1992 کی تاریخ دہرا کر آسٹریلیا سے ٹرافی کے ساتھ وطن لوٹے گی۔

    آسٹریلیا میں گزشتہ ماہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ شروع ہوا تو پاکستان نے 4 فیورٹ ٹیموں میں سے ایک ٹیم کے طور پر اس کا سفر شروع کیا، سپر 12 مرحلے میں پاکستان اور بھارت کا ہائی وولٹیج میچ ٹورنامنٹ کا سب سے سنسنی خیز میچ ثابت ہوا جس کا فیصلہ آخری گیند پر ہوا، پاکستان میلبرن کے میدان میں جیتا ہوا میچ ہار گیا۔

    اگلا میچ زمبابوے سے تھا اور سب کو یقین تھا کہ پاکستان حریف کو باآسانی پچھاڑ کر اپنی فتح کے سفر کا آغاز کرے گا لیکن غیر متوقع اور اپ سیٹ شکست نے نہ صرف پاکستانی شائقین بلکہ دنیائے کرکٹ کو بھی حیران کر دیا کیونکہ پاکستان اس میچ میں 131 رنز کا آسان ہدف بھی حاصل نہیں کرسکا تھا۔ ابتدا ہی میں دو میچ ہارنے کے بعد پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی پر سوالیہ نشان لگ گیا اور معاملہ اگر مگر پر آگیا۔قومی ٹیم کی اگلے مرحلے تک رسائی کے لیے بھاری مارجن سے جیت ضروری تھی جس کے لیے قوم دل کی گہرائیوں سے دعا گو تھی اور اس موقع پر 1992ء کے ورلڈ کپ کی یاد تازہ ہوگئی۔

    اگلے میچز میں شاہین بیدار ہوئے اور فتوحات کی ہیٹ ٹرک کے ساتھ سیمی فائنل کا ٹکٹ بھی کٹوا لیا، پہلے جنوبی افریقہ کو ہرایا، پھر نیدر لینڈز کو پچھاڑا۔ اتوار کی صبح نیدر لینڈز نے جنوبی افریقہ کو اپ سیٹ شکست دے کر پاکستانی قوم کو ایک خوشی سے ہمکنار کردیا۔

    جنوبی افریقہ کی اس شکست نے پاکستان کا اگلے مرحلے کے لیے سفر مزید آسان کر دیا اور رن ریٹ کا گورکھ دھندا ختم ہوگیا اب صرف پاکستان نے بنگلہ دیش کو شکست دینا تھی اور سیمی فائنل میں پہنچنا تھا اور یہ کام قومی ٹیم نے باآسانی کرلیا جس کے ساتھ ہی وہ کچھ ہوا جس کی بہت سارے لوگوں نے امیدیں چھوڑ دی تھیں اور ایسا ہی کچھ 1992 میں پاکستانی ٹیم کے ساتھ ہوا تھا۔

    25 مارچ 1992 کو ایک شکستہ ٹیم، جس کے بیٹنگ آرڈر میں سب سے اہم پوزیشن ون ڈاؤن پر کوئی قابلِ ذکر بلے باز دستیاب نہیں تھا، دو فاسٹ بولرز کے بعد تیسرا کوئی فاسٹ بولر نہیں تھا، 50 اوورز کے کوٹے کو جزوقتی بولر عامر سہیل اور اعجاز احمد کی مدد سے پورا کیا جاتا تھا، جس کے لیے ایئن چیپل اور رچی بینو جیسے ماہرین نے ایک دو میچوں میں ہی کامیابی کی پیشگوئی کی تھی، اس ٹیم نے سارے اندازوں کو غلط ثابت کر دکھایا۔

    پاکستان کے کپتان عمران خان جو اپنے سخت اور انوکھے فیصلوں کے لیے مشہور تھے اس ورلڈ کپ میں ایک ایسی بیٹنگ لائن لے کر گئے تھے جس میں جاوید میاں داد کے علاوہ کوئی قابلِ اعتماد بلّے باز نہ تھا۔ آخری پانچ میچوں میں تو وہ خود بیٹنگ کا بوجھ اٹھاتے رہے، بولنگ میں سارا بوجھ وسیم اکرم کے کاندھوں پر تھا لیکن یہ ٹیم جب واپس آئی تو صرف ورلڈ کپ لے کر نہیں آئی بلکہ اپنے ساتھ انضمام الحق، عامر سہیل، عاقب جاوید اور مشتاق احمد جیسے جوہرِ قابل لے کر آئی جو بعد میں ٹیم کے اہم ستون بن گئے۔

    اس ورلڈ کپ میں پاکستان کا سفر مایوس کن تھا۔ اپنے افتتاحی میچ میں قومی ٹیم ویسٹ انڈیز سے شکست کھا گئی جس کا ذمے دار ٹیم اوپنر (موجودہ چیئرمین پی سی بی) رمیز راجا کی سست بیٹنگ کو قرار دیا گیا تھا۔ اگلا میچ بھارت کے ساتھ تھا اور کسی بھی عالمی کپ میں یہ دونوں روایتی حریف پہلی بار مدمقابل آ رہے تھے، یہ میچ بھارت نے جیتا اور اگلے میچ میں جنوبی افریقہ نے بھی پاکستان کو شکست سے دوچار کردیا تھا۔

    ابتدائی دو میچز ہارنے کے بعد قومی ٹیم کی سیمی فائنل تک رسائی ناممکن دکھائی دے رہی تھی لیکن عمران خان کی قیادت اور کھلاڑیوں کی انتھک محنت اور خوش قسمتی سے پاکستان کی یہ منزل کچھ اس طرح آسان کی کہ سب حیران رہ گئے۔

    پاکستان نے اگلے میچ میں آسان حریف زمبابوے کو شکست دے کر ٹورنامنٹ میں پہلی فتح حاصل کی، لیکن ٹورنامنٹ کا ٹرننگ پوائنٹ پاکستان اور انگلینڈ کے خلاف کھیلا گیا میچ تھا جو بارش کے باعث نامکمل رہا اور دونوں ٹیموں کو ایک ایک پوائنٹ دیا گیا اور یہی ایک پوائنٹ آخر میں اتنا اہم ہوا کہ پاکستان بڑی ٹیموں کو روندتا ہوا عالمی چیمپئن بن گیا۔

    اس کو خوش قسمتی کی انتہا نہ کہیں تو اور کیا کہیں کہ پاکستان کی پوری بیٹنگ لائن انگلینڈ کے خلاف 74 رنز پر ڈھیر ہوگئی تھی اور انگلینڈ آسان ہدف کے تعاقب میں بیٹنگ بھی شروع کرچکا تھا کہ اچانک بارش آسمان سے پاکستان کے لیے رحمت بن کر اتری اور اس وقت تک واپس نہ لوٹی جب تک میچ ختم کرنے کا اعلان نہیں کر دیا گیا۔

    اس کے بعد پاکستانی شاہین اسی طرح جاگے جیسے حالیہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں مسلسل دو شکستوں نے ان کو بیدار کیا، 92 کے ورلڈ کپ میں پاکستان نے پہلے آسٹریلیا اور سری لنکا کو زیر کیا اور پھر راؤنڈ میچ میں اپنا آخری میچ نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلا جو کہ اس وقت تک ٹورنامنٹ کی ناقابل شکست ٹیم تھی اور جس کو ورلڈ کپ میں دیگر 7 ٹیمیں نہیں ہرا سکی تھیں اسے قومی ٹیم نے زیر کرلیا۔ پاکستان نے اپنے مجموعی پوائنٹ 9 کر لیے۔

    جس طرح ہم اس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں کشمکش اور تذبذب کا شکار رہے اور اگر مگر کی کشتی میں ڈولتے ہوئے پاکستانی ٹیم کی جیت کے ساتھ دیگر ٹیموں کے لیے بھی من چاہے نتائج کی دعائیں کرتے ہوئے دن گزارے یہ سب کچھ نوے کی دہائی میں بھی ہوا تھا۔ اس وقت راؤنڈ میچ میں پاکستان نو پوائنٹس کے ساتھ اسی روز ہونے والے ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کے آخری میچ پر انحصار کر رہا تھا۔ آسٹریلیا کے 6 پوائنٹ اور ویسٹ انڈیز کے 8 پوائنٹس تھے، پاکستان اسی صورت سیمی فائنل میں پہنچ سکتا تھا کہ جب آسٹریلیا کالی آندھی کو زیر کر لے۔ دوسری صورت میں ویسٹ انڈیز 10 پوائنٹس کے ساتھ سیمی فائنل پہنچتا اور پاکستان خالی ہاتھ گھر واپس آتا۔

    92 کا ورلڈ کپ اپنے مکمل ہوش و حواس میں دیکھنے والوں کو یاد ہوگاکہ اس میچ میں آسٹریلیا گویا پاکستانیوں کی قومی ٹیم بن گئی تھی جس کی فتح کے لیے ہر پاکستانی دعائیں کررہا تھا جو قبول ہوئیں اور میچ کا نتیجہ آسٹریلیا فتح کی صورت نکلا۔

    پھر کیا تھا پاکستان سیمی فائنل میں گیا، دوبارہ نیوزی لینڈ مدمقابل تھا اور پاکستان نے یہ میچ جیت کر اپنی پیش قدمی جاری رکھی۔ ٹیم نے فائنل میں انگلینڈ کو 22 رنز سے ہرا کر ایک تاریخ رقم کی اور دنیا نے پاکستانی ٹیم کے کپتان عمران خان کو ورلڈ کپ کی ٹرافی تھامے دیکھا۔

    آج دیکھیں تو کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔ یہ ٹورنامنٹ اُس ورلڈ کپ کی طرح آسٹریلیا میں کھیلا جا رہا ہے، میزبان آسٹریلوی ٹیم پہلے کی طرح فائنل فور سے قبل ہی ٹورنامنٹ سے باہر ہوچکی ہے، پاکستانی ٹیم بھی تاریخ دہراتے ہوئے اگر مگر کے کانٹوں سے الجھتی اس مرحلے تک پہنچی ہے، اس وقت بھی پاکستان کا سیمی فائنل نیوزی لینڈ سے تھا اور اس بار بھی سیمی فائنل میں یہی دونوں ٹیمیں مدمقابل ہیں۔

    اگر سیمی فائنل میں پاکستان نیوزی لینڈ کو ہرا دے اور دوسرے سیمی فائنل میں انگلینڈ بھارت کو پچھاڑ دے تو پھر فائنل بھی 30 سال قبل کھیلے گئے ورلڈ کپ کا ری پلے ثابت ہو سکتا ہے اور ٹرافی کے لیے مقابلہ پاکستان اور انگلینڈ کے مابین ہوگا۔

    کھیلوں کی دنیا میں حالیہ مقابلے اور 1992ء کے ورلڈ کپ میں اس قدر مماثلت نے قوم کی امیدوں کو بھی دو چند کردیا ہے۔ ٹرافی کے حصول کے لیے چار ٹیمیں میدان میں ہیں اور تین میچوں کے بعد فیصلہ ہو جائے گا کہ کون یہ ٹرافی اٹھا کر اپنے وطن لے جائے گا۔

    صرف کرکٹ کے پاکستانی شائقین ہی کی نہیں، پوری قوم کی آرزو ہے کہ ہماری ٹیم تاریخ کو دہراتے ہوئے میدان مار لے اور ہمارے کھلاڑی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی ٹرافی لے کر وطن لوٹیں۔ ہماری دعائیں قومی ٹیم کے ساتھ ہیں۔

  • ارشد شریف: کس جرم کی پائی ہے سزا؟

    ارشد شریف: کس جرم کی پائی ہے سزا؟

    اتوار اور پیر کی درمیانی شب پاکستان میں‌ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ ارشد شریف ہم میں نہیں رہے۔

    وہ کینیا میں موجود تھے جہاں ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب یہاں رات کی تاریکی چھٹ رہی تھی اور سویرا ہونے کو تھا۔ عوام کی اکثریت جو محوِ خواب تھی، جب اپنے موبائل فون کی گھنٹیوں اور میسج ٹونز پر بیدار ہوئی تو معلوم ہوا کہ ان کا محبوب اینکر پرسن انھیں‌ دائمی جدائی کا غم دے گیا ہے۔

    ارشد شریف ہر دل عزیز اینکر پرسن اور پاکستان میں تحقیقاتی صحافت کا ایک بڑا نام تھا جن کی الم ناک موت پر ہر پاکستانی افسردہ و ملول ہے اور بالخصوص صحافتی حلقوں میں فضا سوگوار ہے۔ ارشد شریف ایک نڈر اور بے باک صحافی مشہور تھے جو نہ تو کبھی بکے اور نہ ہی کسی طاقت کے آگے سَر جھکایا۔ انھوں نے اپنے صحافتی کیریئر میں ہر قسم کی رکاوٹوں اور مشکلات کا سامنا کیا، لیکن کسی دباؤ میں‌ آ کر حق و سچ کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا اور شاید یہی ارشد شریف کا ‘جرم’ بھی تھا۔ پرچمِ حق و صداقت بلند رکھنے کی پاداش میں اپنے ہی وطن میں زمین ان پر تنگ کر دی گئی اور وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔

    ارشد شریف کی موت کی خبر پر یقین نہیں آرہا۔ ہر بار ان کے نام کے ساتھ ان کا ہنستا مسکراتا، زندگی سے بھرپور چہرہ سامنے آجاتا ہے اور انہیں مرحوم لکھتے ہوئے قلم لرزنے لگتا ہے، لیکن یہ حقیقت جھٹلائی بھی نہیں جاسکتی کہ اب وہ ہم میں نہیں رہے۔ پاکستان یہ بے باک اور نڈر صحافی بوڑھی ماں کا واحد سہارا بھی تھا اور چار بچّوں کا باپ بھی جسے سچ عوام کے سامنے لانے پر دو درجن سے زائد مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان پر یہ مقدمات کسی دورِ آمریت میں نہیں بلکہ جمہوری دور میں پی ڈی ایم کی حکومت میں بنائے گئے۔ اس پر بہی خواہوں نے ارشد شریف کو کچھ عرصے کے لیے بیرونِ ملک چلے جانے کا مشورہ دیا۔ (یہ وہ وقت تھا کہ جب عمران ریاض اسیری کا مزہ چکھ چکے تھے، صابر شاکر بھی ملک چھوڑ کر جا چکے تھے، سمیع ابراہیم، اوریا مقبول جان اور ایاز امیر بھی عتاب شکار تھے، صحافیوں کا کہنا تھا کہ ان پر دباؤ بڑھایا جارہا ہے اور انھیں، ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی جارہی ہے) ان حالات میں‌ ارشد شریف نے اپنا وطن چھوڑا تھا۔

    ذرایع ابلاغ کے مطابق ارشد شریف کینیا کے شہر نیروبی کے قریب کیجاڈو کے علاقے میں موجود تھے جہاں وہ گولی کا نشانہ بنے۔ اس وقت ارشد شریف کار میں اپنے ایک دوست کے فارم ہاؤس کی طرف جا رہے تھے۔ ان کی شہادت کے بعد کینیا کے محکمۂ پولیس کا ایک بیان سامنے آیا جس میں ارشد شریف کہا گیا کہ پاکستانی صحافی کی موت پولیس کی گولی لگنے کی وجہ سے ہوئی۔ کینیا کی پولیس نے موقف اختیار کیا کہ ایک بچّے کے اغوا کی اطلاع پر پولیس اہل کار گاڑیوں کی چیکنگ کررہے تھے اور سڑک بند تھی جہاں شناخت نہ ہونے اور غلط فہمی کے سبب یہ واقعہ پیش آیا۔

    پولیس کے اس موقف پر دنیا اور خود وہاں کا مقامی میڈیا بھی حیران ہے اور اس ‘غلط فہمی’ پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ بچّے کے اغوا میں ملوث گاڑی اور ارشد شریف کی گاڑی کی نمبر پلیٹیں یکسر مختلف تھیں۔ پھر یہ واقعہ کیسے پیش آیا؟ بالفرض اس گاڑی میں بچّہ تھا بھی تو گاڑی نہ روکنے پر پولیس اس کے ٹائروں پر فائر کرتی اور پھر ملزمان پر قابو پاتی۔ ایسا کیوں نہیں کیا گیا اور پولیس نے بغیر کچھ سوچے سمجھے کار سواروں کو کیوں‌ اپنی گولیوں کا نشانہ بنا ڈالا؟ اسی طرح اگر عقب سے یا سامنے سے گولی چلی تو ارشد شریف کے سَر کے درمیانی حصّے پر گولی کا نشان کیوں؟ اس واقعے میں صرف ارشد شریف ہی کیوں نشانہ بنے، ان کے ساتھ بیٹھا ڈرائیور پولیس کی فائرنگ سے کیسے محفوظ رہا اور اب وہ کہاں ہے؟ ایسے کئی سوالات ہیں جو اس افسوس ناک واقعے کی شفاف تحقیقات اور اس کی مکمل رپورٹ سامنے آنے تک اٹھائے جاتے رہیں گے۔ دوسری طرف یہ بھی خدشہ ہے کہ ماضی کے کئی ایسے واقعات کی طرح ارشد شریف کی فائل کو بھی کچھ عرصہ بعد ہمیشہ کے لیے بند کر دیا جائے گا۔

    ارشد شریف نے 22 فروری 1973 کو کراچی میں پاک بحریہ کے کمانڈر محمد شریف کے گھر آنکھ کھولی تھی۔ انھوں نے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز 1993 میں اپنے زمانۂ طالبِ علمی میں فری لانس صحافی کی حیثیت سے کیا۔ ارشد شریف نے یوں تو صحافت کے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا، لیکن تحقیقاتی رپورٹنگ ان کا خاصہ تھا۔ ارشد شریف نے کئی سیاست دانوں کی کرپشن کو بھی عوام کے سامنے بے نقاب کیا۔ انھوں نے ملک اور بیرونِ ملک پاکستان کے بڑے صحافتی اداروں کے لیے خدمات انجام دیں۔ اے آر وائی نیوز پر ان کا ٹاک شو ’’پاور پلے‘‘ کے نام سے نشر ہوتا تھا اور یہ ایک مقبولِ‌ عام پروگرام تھا۔ اس پر ارشد شریف نے 2016 میں بہترین تحقیقاتی صحافت کے زمرے میں ایوارڈ بھی اپنے نام کیا تھا۔ 2019 میں حکومتِ پاکستان نے ارشد شریف کو ان کی صحافتی خدمات پر صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی بھی عطا کیا تھا۔

    ارشد شریف پاکستان چھوڑ کر متحدہ عرب امارات گئے تھے لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا کر وہاں کی حکومت نے انھیں 48 گھنٹوں میں ملک سے چلے جانے کو کہا تھا۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بالخصوص یہ خبریں گردش میں رہیں کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے یو اے ای پر ارشد شریف کی ملک بدری کے لیے دباؤ ڈالا گیا، اور یہ صحافی کسی خطرے کو بھانپ کر پاکستان واپس آنے کے لیے تیّار نہیں‌ تھے۔ انھوں نے فوری طور پر کینیا جانے کا فیصلہ کیا جہاں پاکستانیوں کو ایئرپورٹ آمد پر ویزے کے حصول کی سہولت موجود تھی۔ لیکن وہ نہیں‌ جانتے تھے کہ اس ملک کا ایک دور دراز علاقہ ان کا مقتل ثابت ہو گا۔

    ارشد شریف کی اس ناگہانی موت نے پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں‌ موجود دانش وروں، صحافیوں‌ اور عام لوگوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ امریکا نے بھی کھل کر اس واقعے کی مذمت کی، جب کہ حکومتِ پاکستان نے مکمل تحقیقات کا اعلان کرتے ہوئے تین رکنی اعلیٰ سطحی کمیٹی کے قیام کا اعلان کر دیا جو تحقیقات کے لیے کینیا جائے گی۔ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے اس واقعے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے، صحافتی تنظمیں بھی سراپا احتجاج ہیں اور پی ایف یو جے نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ واقعے کی شفاف تحقیقات کروائے اور اس کی مکمل رپورٹ سامنے لائی جائے۔

    ایک طرف پاکستانی عوام بالخصوص ارشد شریف کے مداح اور صحافی برادری غم زدہ اور صدمے میں‌ تھی، لندن میں موجود ن لیگ کی قیادت نے دیوالی کا کیک کاٹ رہی تھی جس پر سوشل میڈیا پر کڑی تنقید کی جارہی تھی کہ مریم نواز کا ایک ٹوئٹ سامنے آگیا جس میں‌ انھوں نے ارشد شریف کی میّت کے تابوت کی تصویر کے ساتھ طنزیہ جملہ لکھا تھا۔ اس ٹوئٹ پر مریم نواز کو عوامی غم و غصے کا سامنا کرنا پڑا اور لوگوں نے انھیں بے حس اور سنگ دل قرار دیا جب کہ صحافیوں نے ان کی اس ٹوئٹ کو غیرانسانی رویہ کی عکاس قرار دیا جس کے بعد مریم نواز کو نہ صرف ٹوئٹ ڈیلیٹ کرنا پڑی بلکہ انھوں نے عوامی ردعمل کو دیکھتے ہوئے اس پر معذرت بھی کی۔ لوگوں کا کہنا تھاکہ ایک جانب مریم کے چچا اور وزیراعظم شہباز شریف اور وفاقی وزرا تعزیت اور اس واقعے کی تحقیقات کرانے کے بیانات دے رہے تھے اور دوسری طرف لندن میں موجود مریم نواز یہ ٹوئٹ کررہی تھیں جو بدترین تھا۔ یہ سب ایسے وقت ہوا جب ارشد شریف کے اہل خانہ نے مرحوم کا آخری دیدار بھی نہیں کیا تھا اور میّت کی وطن واپسی کے منتظر تھے۔

    ارشد شریف کی میّت وطن واپس آئی تو اسے قومی پرچم میں لپیٹ کر اسپتال منتقل کیا گیا۔ ورثا کی درخواست پر پمز اسپتال میں ان کا دوبارہ پوسٹ مارٹم بھی کرایا گیا ہے۔ صدر مملکت عارف علوی، پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان، وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے ارشد شریف کی رہائش گاہ پر اہلِ خانہ سے تعزیت کی۔

    اقوام متحدہ نے بھی ارشد شریف کیس میں‌ مکمل تفتیش اور ہر پہلو سے اس کا جائزہ لیتے ہوئے حقائق سامنے لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ آنا باقی ہے اور پاکستان سے تحقیقاتی ٹیم کینیا روانہ ہو رہی ہے، لیکن کیا یہ ٹیم حقائق ہمارے سامنے رکھ سکے گی اور عوام یہ جان سکیں‌ گے کہ حق اور سچ کے لیے آواز بلند کرنے اور اس راستے میں ڈٹ جانے والا یہ صحافی وطن چھوڑنے پر کیوں مجبور ہوا اور اس کی موت کا ذمہ دار کون ہے؟

  • آڈیو لیکس کی برسات میں لانگ مارچ کا شور

    آڈیو لیکس کی برسات میں لانگ مارچ کا شور

    پی ٹی آئی کے متوقع لانگ مارچ کی تاریخ کے حتمی اعلان سے قبل ہی آڈیو لیکس کے سلسلہ وار اجرا نے ملک میں‌ سیاسی ہیجان میں‌ مزید اضافہ کر دیا ہے، ساتھ ہی سائفر کا مردہ ہو جانے والا گھوڑا بھی دوبارہ نہ جانے کیوں زندہ کر دیا گیا ہے۔

    رواں سال مارچ میں اس وقت کے وزیرِاعظم نے اپنے اقتدار کے آخری ایّام میں ایک عوامی جلسے میں کاغذ لہراتے ہوئے اپنی حکومت کے خاتمے کے لیے بیرونی سازش کا ذکر کیا تھا اور ان کا یہ بیانیہ عوام میں ہٹ ہوگیا۔ اس کے بعد کافی وقت تک سازش پر مبنی خط ہمارے سیاسی افق پر چھایا رہا جو درحقیقت ایک سائفر تھا۔

    گزشتہ چھے ماہ سے سائفر ہے، سائفر نہیں ہے، سازش ہے، سازش نہیں مداخلت ہے، سازش کا بیانیہ من گھڑت ہے، موجودہ حکومت رجیم چینج کی سازش سے اقتدار میں آئی جیسے دعوے، الزامات اور انکشافات کی گونج سنائی دے رہی تھی جس میں‌ دو سیاسی جماعتوں‌ کی جانب سے بیانات سنتے سنتے قوم کے کان پک گئے۔ پھر فریقین کی جانب فوری نئے الیکشن کے مطالبے، مقررہ وقت پر الیکشن کرانے کے دبنگ اعلانات اور ایک دوسرے پر الزامات لگانے کی پریکٹس شروع ہوگئی۔ اسی اثنا میں ان آڈیو لیکس نے مردہ ہوتے سائفر کے گھوڑے میں جان ڈال دی اور یوں بالآخر سائفر نکل ہی آیا۔

    ستمبر جاتے جاتے ستم گر ثابت ہوا، لیکن کس کے لیے، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ بہرحال ستمبر کا آخری ہفتہ تھا، پی ٹی آئی کے حلقوں میں قہقہے لگ رہے تھے اور اس کے راہ نما بغلیں بجا رہے تھے کیونکہ ان کے سخت بلکہ بدترین سیاسی حریف وزیراعظم شہباز شریف اور مریم نواز کی ایک دو نہیں بلکہ کئی مبینہ آڈیو ملکی میڈیا کے ذریعے افشا ہوئیں۔ جس کے بعد ن لیگ کے کیمپ کو جیسے سانپ سونگھ گیا تو پی ٹی آئی کے کیمپ میں شادیانے بج اٹھے، لیکن ابھی ان آڈیو لیکس کی گرد بھی نہیں بیٹھی تھی کہ اچانک پی ٹی آئی چیئرمین کی وزارت عظمیٰ کے آخری دور کی آڈیو بھی عوام کے سامنے آگئیں۔

    وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی بھتیجی، ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز کے مابین 24 ستمبر سے پے در پے کئی ٹیلیفون کالز آڈیو لیکس کے نام پر میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچیں جو سب کو ازبر ہیں۔ تاہم اس میں اپنی نوعیت کی سب سے سنگین اور عوامی مفاد کے خلاف جو گفتگو تھی وہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے اور انصاف صحت کارڈ بند کردینے سے متعلق تھی۔ ان میں مریم نواز کی طرف سے وزیراعظم سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اور انصاف صحت کارڈ بند کر دینے کی بات کی گئی تھی۔

    ان آڈیو لیکس نے ایک جانب جہاں ن لیگی قیادت کے عوامی ہمدردی کے دعوؤں اور دہرے معیار کی قلعی کھول کر رکھ دی وہیں ہیکر کی جانب سے جمعے کو ایسے متعدد انکشافات سے بھرپور اور سنسنی خیز آڈیو لیک کرنے کے اعلان نے حکم راں جماعت کے کیمپ میں بھی ہلچل مچائے رکھی، جس کی ایک دل چسپ وجہ یہ بھی ہے کہ اس سے قبل ن لیگ کے خلاف اکثر سیاسی اور عدالتی فیصلے جمعے کے روز ہی آئے ہیں۔ اس لیے یہ تاثر قائم ہوگیا ہے کہ جمعے کا دن ن لیگ پر بھاری ہوتا ہے، تاہم ہوا اس کے بالکل الٹ۔

    ان آڈیو لیکس پر ن لیگ کی تاویلیں اور پی ٹی آئی کی ملامتیں جاری تھیں اور قبل اس کے کہ ن لیگ پر بھاری جمعہ آتا بدھ 28 ستمبر کو ٹی وی چینلوں پر آڈیو لیک کی صورت میں ایک اور دھماکا ہوگیا، لیکن اس دھماکے نے توقع کے برخلاف پی ٹی آئی کے کیمپ میں ہلچل مچا دی۔

    اس بار آڈیو لیک میں وزارت عظمیٰ کے آخری ایّام میں‌ عمران خان کی اپنے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان سے مبینہ گفتگو سامنے آئی۔ اعظم خان اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کو سائفر سے متعلق آگاہ کرتے ہیں جب کہ عمران خان یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ اس پر کھیلیں گے، اس کے بعد دو دن کے وقفے سے اسی سے متعلق ایک اور آڈیو منظر عام پر آتی ہے جس میں عمران خان شاہ محمود قریشی سے گفتگو کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اچھا شاہ جی ہم نے کل ایک میٹنگ کرنی ہے۔ اس مبینہ آڈیو میں عمران خان نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اس ایشو پر پلیز کسی کے منہ سے ملک کا نام نہ نکلے۔ ایک ہفتے کے تعطل کے بعد ہیکر نے عمران خان کی ایک ہی دن میں مزید دو مبینہ آڈیوز لیکس کر دیں جس میں ایک میں وہ عدم اعتماد کے دنوں میں ممبران خریدنے اور دوسرے میں میر جعفر اور میر صادق کے بیانیے کو ’’عوام کو گھول کر پلانا ہے‘‘ کہتے سنائی دیتے ہیں۔

    ان آڈیو لیکس پر ن لیگ کے کیمپ میں بھی خوشیوں کے شادیانے بجنے لگے اور تمام وزرا اور راہ نما تازہ دم ہو کر پی ٹی آئی کے خلاف میدان میں آگئے۔ پے در پے پریس کانفرنسیں ہونے لگیں۔ گویا پی ڈی ایم اور حکومت کے تنِ خستہ میں جان پڑ گئی جب کہ سائفر کا مردہ گھوڑا زندہ ہونے پر دیگر سیاسی جماعتیں بھی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے میدان میں آگئیں۔

    وزیراعظم، مریم نواز، بلاول بھٹو، سمیت پی پی پی اور ن لیگ کی سیکنڈ لائن قیادت بھی عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف خم ٹھونک کر سامنے آگئی اور شکوہ جوابِ شکوہ کی طرح بیانات، جوابی بیانات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ دوسری جانب عمران خان نے اس سائفر کو عام کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ سائفر پبلک ہوجائے تاکہ قوم کو پتہ چلے کہ کتنی بڑی سازش ہوئی ہے۔ پی ٹی آئی چیئرمین نے یہ تک کہہ دیا کہ صدر مملکت نے سائفر چیف جسٹس آف پاکستان کو بھجوایا ہوا ہے اگر وہ کہہ دیں کہ یہ غلط ہے، ہم پارلیمنٹ جانے کو تیار ہو جائیں گے۔ اسی ہنگامے میں سائفر کے وزیراعظم ہاؤس سے چوری ہونے کا انکشاف ہوا۔ کابینہ نے سائفر کو من گھڑت قرار دے دیا تو پی ٹی آئی نے سائفر کی گم شدگی پر اعلیٰ سطح پر تحقیقات کا مطالبہ بھی کر دیا۔

    ان آڈیو لیکس کے بعد اب تک ن لیگ کی جانب سے جہاں پی ٹی آئی پر الزامات اور سیاسی وار جاری ہیں وہیں عمران خان اور پی ٹی آئی آڈیو لیکس کو جعلی قرار دیتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ اس کے پیچھے ن لیگ کا ہاتھ ہے۔ جعلی آڈیوز کی حقیقت عوام پر آشکار کرنے کیلیے عمران خان نے اپنے ایک جلسے میں نواز شریف کی فیک آڈیو عوام کو سنا دی جس میں نواز شریف خود کو سب سے کرپٹ کہتے سنائی دیتے ہیں۔

    قومی سلامتی کمیٹی آڈیو لیکس اور سائفر کے معاملے پر تحقیقاتی کمیٹی قائم کرچکی ہے، اس کے کئی اجلاس بھی ہوچکے ہیں، تاہم آگے کیا ہوتا ہے، کتنی آڈیو لیک ہوتی ہیں اور کن اہم شخصیات کی ہوتی ہیں؟ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔

    پی ٹی آئی نے لانگ مارچ کی حتمی تاریخ کا تاحال اعلان تو نہیں کیا تاہم غالب امکان یہ ہے کہ یہ رواں ماہ اکتوبر میں ہی ہوگا، جس کو ناکام بنانے کے لیے وفاقی حکومت نے اسلام آباد سیل کرنے کیلیے اقدامات شروع کردیے ہیں اور وفاقی دارالحکومت کے تمام داخلی راستوں پر کنٹینرز پہنچا دیے گئے ہیں، دیگر صوبوں سے نفری بھی طلب کر رکھی ہے اور کے پی اور پنجاب سے انکار پر وفاق کی جانب سے انہیں انتباہی پیغام بھی دیا جا چکا ہے، جب کہ اس معاملے پر حکومتی اتحادیوں نے شہباز حکومت کو صبر و تحمل سے کام لینے کی تلقین کی ہے۔

    صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اطلاعات یہ ہیں کہ لانگ مارچ کی صورت میں حکومت جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی میں موبائل فون اور میٹرو بس سروس بند رکھنے کے ساتھ دارالحکومت کے ہوٹلز میں مہمانوں کی چھان بین سمیت پکوان سینٹروں اور ساؤنڈ سسٹم کرائے پر دینے والوں کو بھی پابند کرنے پر غور کررہی ہے اور یہ تمام اقدامات حکومت کی پریشانی کو عیاں کر رہے ہیں۔

    اسی تناظر میں وفاقی وزارت داخلہ نے 16 اکتوبر کو ملک کے قومی اسمبلی کے 11 حلقوں میں ضمنی الیکشن تین ماہ کیلیے ملتوی کرنے کی درخواست وفاقی حکومت کو دے دی ہے تو دوسری جانب پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اپنی پریس کانفرنس میں سیلاب کی صورتحال کے پیش نظر موجودہ حکومت کی مدت بڑھانے کا مطالبہ کرچکے ہیں جب کہ اس سے قبل حکومتی اتحادی ایم کیو ایم بھی بات کرچکی ہے اور سیاست پر نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ ایک پارٹی سربراہ کے ساتھ اہم حکومتی عہدے پر براجمان شخصیت اور ایک حکومتی اتحادی جماعت کی جانب سے ایسے مطالبات کا منظر عام پر آنا مستقبل کے سیاسی منظر نامے کی عکاسی کر رہے ہیں جس کے لیے اندرون خانہ کوششیں جاری ہیں۔

    ملکی سیاست میں ہر دن ایک نیا تماشا ہو رہا ہے اور امید یہی ہے کہ آنے والے دنوں میں‌ عوام کو آڈیو لیکس اور لانگ مارچ کی صورت میں‌ بہت کچھ دیکھنے اور سننے کو ملے گا۔

  • پاکستان کو سیلابی  پانی میں  ڈوبنے سے بچانے کے لیے ڈیموں کی تعمیر ناگزیر

    پاکستان کو سیلابی پانی میں ڈوبنے سے بچانے کے لیے ڈیموں کی تعمیر ناگزیر

    پاکستان میں تاریخ کے تباہ کن سیلاب کے بعد ایک بار پھر ڈیموں کی تعمیر بازگشت سنائی دینے لگی ہے۔ نہ صرف عوامی سطح پر بلکہ مقتدر اور بااختیار حلقوں کی جانب سے بھی کالا باغ سمیت دیگر چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیر کو ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے۔

    حالیہ سیلاب کو اس لحاظ سے تاریخ کا تباہ کن سیلاب کہا جارہا ہے کہ یہ دریائی سیلاب نہیں جو گلیشیئر پگھلنے سے ملک کے طول وعرض میں تباہی پھیلاتا ہے، بلکہ اس کی وجہ دنیا بھر میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیاں ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان میں بالخصوص زیریں اور وسطی علاقوں میں غیر معمولی طوفانی بارشیں ہوئیں اور ایک بڑا حصّہ سیلاب کی زد میں‌ آگیا۔ ان غیر معمولی بارشوں کے نتیجے میں ملک کا 70 فیصد حصّہ زیر آب آگیا ہے، ہزاروں افراد اس سیلاب کی نذر ہوگئے، لاکھوں مویشی پانی میں بہہ گئے، لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی اور فصلیں تباہ اور گھر برباد ہوگئے ہیں‌ جس سے لوگ متاثر جب کہ معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔ ہزاروں لوگ کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں جب کہ سیلاب کے بعد اب وہاں پھوٹنے والے وبائی امراض ان غریبوں کے ساتھ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لیے امتحان بن کر آئے ہیں۔ سیلاب زدگان کی دنیا بھر سے امداد کا سلسلہ جاری ہے لیکن ہر چند سال بعد سیلاب اور تباہی کے بعد اب یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ آخر ملک و قوم کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے ڈیمز کیوں نہیں بنائے جا رہے ہیں؟

    حالیہ سیلاب کے بعد صدر مملکت عارف علوی، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے ڈیم کی تعمیر سے متعلق بیانات میڈیا کی زینت بن چکے ہیں۔

    صدر عارف علوی نے کہا ہے کہ پانی ذخیرہ کرنے کیلیے ڈیم وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے، صوبوں میں اعتماد فروغ دے کر کالا باغ ڈیم کا مسئلہ حل کرنا ہوگا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سندھ کے سیلاب زدہ علاقے دادو کے دورے کے موقع پر کہا کہ سیلابی پانی کو کنٹرول کرنے کے لئے پاکستان میں مزید بڑے ڈیمز بنانا پڑیں گے اور پانی سے بجلی بھی بنائی جاسکے گی۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے بھی وزیراعظم شہباز شریف کے ہمراہ ڈی آئی خان کے سیلاب زدہ علاقوں کے دورے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چھوٹے ڈیموں کی فوری تعمیر کی ضرورت پر زور دیا۔ صرف حکام نہیں بلکہ اب ملک کے مختلف حلقوں میں یہ بازگشت سنائی دینے لگی ہے کہ ڈیم وقت کی ضرورت ہیں اور اگر ہم نے ڈیم بنا لیے ہوتے تو شاید اتنی تباہی نہ ہوئی ہوتی۔

    یوں تو پاکستان میں اس وقت 150 ڈیم اور دیگر آبی ذخائر موجود ہیں۔ پاکستان کے پاس دنیا کے دو بڑے ڈیم، تربیلا اور میرانی ہیں۔ ہری پور ضلع میں تربیلا کے مقام پر دریائے سندھ پر بنایا گیا تربیلا ڈیم حجم کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا اور مٹی سے بنا ہوا سب سے بڑا ڈیم ہے۔ بلوچستان میں دریائے دشت پر قائم میرانی ڈیم سیلاب سے بچاؤ کے لیے حجم کی بنیاد پر سب سے بڑا ڈیم ہے۔ اس کے علاوہ دیگر مشہور ڈیموں میں منگلا، راول ڈیم، وارسک ڈیم، نیلم جہلم ڈیم، حب ڈیم، نمل ڈیم، گومل زام ڈیم اور زیرِ تعمیر دیامر بھاشا ڈیم شامل ہیں۔ عمران خان کے دورِ حکومت میں مہمند ڈیم سمیت 10 دیگر چھوٹے آبی ذخائر کے منصوبوں پر کام شروع کیا گیا تھا جن کی تکمیل 2028 تک متوقع ہے۔ تاہم ماہرین کے مطابق 22 کروڑ سے زائد آبادی والے اس ملک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے یہ آبی ذخائر ناکافی ثابت ہوں گے۔

    اس کے برعکس ہم اپنے پڑوسی ملک بھارت پر نظر ڈالیں تو وہاں 5 ہزار سے زائد ڈیمز موجود ہیں جب کہ مزید کئی تعمیر کے مراحل میں ہیں۔ بھارت کے دریائے چناب پر منصوبوں بہلگہار، دولہستی، سلال، پاکل دول، کیرتھاری، برساسر، سوالکوٹ، رتلے، کروار، جیپسا ملا کر 17 پروجیکٹ ہیں، جس میں دریائے جہلم پر کشن گنگا قابل ذکر ہے۔ دریائے سندھ سمیت مغربی دریاؤں پر بھارت کے ہائیڈرو پاور کے 155 کے قریب چھوٹے اور بڑے منصوبے ہیں۔ بھارت ان منصوبوں کی وجہ سے چناب کا پانی روک سکتا ہے اور جب چاہے چھوڑ سکتا ہے اور یہ پانی سیلاب کی صورت میں ہر چند سال بعد پاکستان میں داخل ہو کر تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔

    پاکستان میں جب بھی نئے ڈیموں کی تعمیر کی بات ہوتی ہے تو سب سے پہلے ذہنوں میں کالا باغ ڈیم کا ہی نام آتا ہے، جو کہ اپنی تعمیر کے آغاز سے قبل ہی متنازع ہو کر اب تک صرف فائلوں کی زینت بنا رہا ہے۔ اس سے قبل کہ ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ اس ڈیم پر کیا تنازعات ہیں اور ان کی حقیقت کیا ہے، ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ کالا باغ ڈیم منصوبہ ہے کیا؟

    مجوزہ کالا باغ ڈیم میانوالی میں کالا باغ کے مقام پر بننا ہے۔ ’’کالا باغ‘‘ میانوالی سے 20 میل کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس قصبے میں قیام پاکستان سے قبل کیلوں کے بہت سارے باغات تھے جو دور سے سیاہ رنگ کے بادل لگتے تھے اور اپنے اس پیش منظر کے باعث ہی اس جگہ کا نام کالا باغ پڑ گیا۔ اس مقام پر دریائے سندھ ایک قدرتی ڈیم کی صورت اختیار کرلیتا ہے جس کے اطراف پہاڑیوں کا سلسلہ ہے اور دریا کے آگے صرف ایک دروازہ لگا کر اسے ڈیم کی شکل دی جاسکتی ہے۔

    اس ڈیم کے لیے پہلا سروے برطانوی حکومت نے 1873 میں کیا تھا، قیام پاکستان کے بعد گورنر جنرل قائداعظم کی اجازت سے فروری 1948 میں میانوالی کے مقام پر ہائیڈرو پاور پروجیکٹ تعمیر کیا گیا جسے جناح بیراج کہا جاتا ہے ایوب دور میں دیگر آبی منصوبے تعمیر کیے گئے لیکن کالا باغ کا منصوبہ کاغذات کی حد تک رہا جس پر جنرل ضیا الحق کے دور میں کام شروع ہوا لیکن وہ بھی اپنے منطقی انجام کو نہ پہنچا۔

    سابق صدر ضیا الحق کے دور حکومت میں ڈاکٹر کینیڈی کمیٹی بنائی گئی جس نے 1983 میں رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ کے مطابق ڈیم کی اونچائی 925 فٹ، پانی کی اسٹوریج 6.13 ملین ایکڑ فٹ ہوگی، 50 لاکھ ایکڑ رقبے کو سیراب کرے گا اور سستی ترین 5 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی۔ اس کی تعمیر میں زیادہ سے زیادہ 5 سال اور کم سے کم 3 سال کا عرصہ لگ سکتا تھا۔ اسی دور حکومت میں کالا باغ کے منصوبے کی تعمیر کیلیے دفاتر تعمیر کیے گئے، روڈ بنائے اور مشینری لگائی گئی۔ لیکن پھر کئی دہائیاں گزر گئیں اور یہ سب کچھ اب تباہ ہوچکا ہے۔

    اب آتے ہیں کالا باغ ڈیم منصوبے پر تنازع اور اس کے بعد اب تک اس کی تعمیر نہ ہونے کے موضوع پر۔ جب کالا باغ ڈیم تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا تو برطانیہ سے ایک ٹیم نوشہرہ آئی جس نے سیٹلائٹ ایمیجنگ کے لیے علاقے میں عمارتوں کی چھتوں پر نشانات لگائے تاکہ ریسرچ اسٹڈی مکمل کرکے تعمیر شروع کی جاسکے، جس کے بعد نوشہرہ ڈوبنے کی جھوٹی افواہ اڑائی گئی۔ یوں پاکستان دشمنوں کو یہ جھوٹا پروپیگنڈہ مفت میں مل گیا اور اسی کی آڑ میں سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنا شروع کردیا گیا، تب سے یہ افواہیں پھیلنا شروع ہوئیں کہ کالا باغ ڈیم بنا تو صوبے کے شہر نوشہرہ، چارسدہ، صوابی، مردان اور پبی ڈوب جائیں گے، اس کے ساتھ ہی سندھ نے کہنا شروع کردیا کہ اس ڈیم کے بننے سے سندھ بنجر ہو جائے گا۔

    ضیا دور میں ڈاکٹر کینیڈی کمیٹی کی رپورٹ کے بعد اس وقت کے صوبہ سرحد (موجودہ خیبرپختونخوا) نے اعتراض اٹھایا کہ اس ڈیزائن سے نوشہرہ ڈوب جائے گا، اعتراض دور کرنے کیلیے ڈیم کی اونچائی کم کر کے 925 سے 915 فٹ کردی گئی، اس صوبے کی بات مانی گئی تو سندھ نے اعتراض کر دیا کہ پنجاب سندھ کو پانی کا حصہ نہیں دے گا۔ اس اعتراض کو دور کرنے کیلیے صوبوں کو پانی کی تقسیم کے قابل عمل معاہدے پر راضی کیا گیا۔ اس معاہدے کے مطابق دریائے سندھ سے پنجاب 37 فیصد، سندھ 33، کے پی کے 14 اور بلوچستان 12 فیصد پانی لیں گے۔

    یہ دو بڑے اعتراضات دور کرنے کے بعد بھی بات آگے نہ بڑھی اور کالا باغ ڈیم منصوبہ وقت کے ساتھ ساتھ تیکنیکی سے زیادہ سیاسی مسئلہ بن گیا۔ ہماری سیاسی جماعتوں کے ساتھ قوم پرست جماعتوں نے قومی مفاد کی آڑ میں ذاتی سیاست چمکانے کے لیے اس کا نام استعمال کر کے یہ ڈیم نہیں بننے دیا اور جنرل ضیا بھی کالا باغ ڈیم بنانے کا خواب لیے دنیا سے چلے گئے۔ 1999 میں اقتدار سنبھالنے والے جنرل پرویز مشرف نے کالا سمیت چھ بڑے آبی منصوبوں پر کام کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ ڈیم نہیں بنائیں گے تو مرجائیں گے لیکن طاقت ہونے کے باوجود وہ بھی اس خواب کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔

    دنیا بھر کے ماہرین یہ دعویٰ کرچکے ہیں کہ اس ڈیم سے نوشہرہ اور مردان کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس سے سندھ کی زمینیں بھی متاثر نہیں ہوں گی۔ وہ یوں کہ کالا باغ ڈیم کا سب سے اونچا حصہ 915 فٹ ہے یعنی ڈیم مکمل بھر بھی جائے تو کسی شہر کو نقصان نہیں ہوگا، کیونکہ ڈیم سے نوشہرہ کا نچلا ترین حصہ 25 فٹ بلند، چار سدہ کا نچلا ترین حصہ 40 فٹ، پبی کا 45 فٹ، مردان کا 55 اور صوابی کا نچلا ترین حصہ 85 فٹ بلند ہے۔ جو کالا باغ ڈیم کی بلند ترین سطح سے کہیں زیادہ اونچے ہیں اور ان کے ڈوبنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

    ماہرین کے مطابق میانوالی جہاں یہ ڈیم بننا ہے سطح سمندر سے 688 فٹ بلند ہے جب کہ نوشہرہ کی بلندی 889 فٹ بلند ہے، ڈیم کی تعمیر سے کل 27 ہزار 500 ایکڑ رقبہ زیر آب آئے گا، جس میں پنجاب کا کل رقبہ 24500 ایکڑ پنجاب جب کہ کے پی کے کا صرف 3 ہزار ایکڑ رقبہ زیر آب آئے گا یعنی یہ ڈیم بنا تو نقل مکانی کرنے والوں کی بڑی تعداد بھی پنجاب سے ہی ہوگی۔

    اس وقت پاکستان کے تین بڑے ڈیمز تربیلا، منگلا ڈیم اور چشمہ بیراج کی مجموعی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 13 ملین ایکڑ فٹ جب کہ کالا باغ تنہا چھ ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرسکتا ہے، 50 لاکھ ایکڑ بنجر زمین سیراب، سالانہ 15 ارب ڈالر کی زرعی پیداوار ملے گی جب کہ زرعی اجناس میں ملک خود کفیل ہوجائے گا۔ صرف یہی نہیں درآمدات میں کمی اور برآمدات کے اضافے کے ساتھ ایک لاکھ افراد کو روزگار میسر آئے گا۔ ڈیم کے قریبی علاقوں میں درجۂ حرارت میں کمی واقع ہو گی۔

    کے پی کے اور پنجاب کے جنوبی علاقے سندھ کے زیریں اور بلوچستان کے مشرقی حصے ڈیم کے پانی سے قابل کاشت بنائے جاسکتے ہیں۔ کے پی کے، کے جنوبی اضلاع کرک، بنوں، لکی مروت، ٹانک، ڈی آئی خان کو مزید 20 لاکھ ایکڑ فٹ پانی، سندھ کو اضافی 40 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ملے گا، جس سے سندھ کے ریگستانی علاقوں کی پیاس بجھ سکتی ہے اور 8 لاکھ ایکڑ زمین سیراب ہوگی۔ بلوچستان کو اس سے 15 لاکھ ایکڑ پانی اضافی مل سکتا ہے، مشرقی بلوچستان کا سات لاکھ ایکڑ رقبہ اضافی سیراب ہوسکے گا۔

    پاکستان میں جو بھی حکومت آئی، اُس نے یہ کہا کہ کالا باغ ڈیم ضرور بننا چاہیے کیونکہ یہ قومی مفاد میں ہے، لیکن جیسے ہی اس منصوبے کی بازگشت شروع ہوتی ہے تو اس کے مخالف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ پھر احتجاج، دھرنوں، دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور شاید ڈیم کے مخالف حکومتوں سے زیادہ طاقتور ہیں کہ تمام حکومتوں نے اُن کے آگے سر جھکایا اور اس پر عمل درآمد سے باز رہیں۔ پاکستان کے تین صوبے سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی حکومتیں اس ڈیم کی تعمیر کے خلاف کئی متفقہ قراردادیں پاس کر چکی ہیں۔ بلوچستان کا براہ راست اس منصوبے سے کوئی تعلق نہیں مگر صوبے کا یہ موقف ہے کہ چونکہ وہ اپنا پانی صوبہ سندھ سے لیتے ہیں، اس لیے معاملے میں سندھ کے موقف کی تائید کریں گے۔

    سیاسی اور علاقائی مخالفتوں کے علاوہ اس منصوبے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ وہ عالمی قانون برائے تقسیم آب ہے جس کے مطابق کسی بھی دریا کے آخری حصے پر موجود فریق کا یہ قانونی اور قدرتی حق ہے کہ اس تک پانی کی ترسیل ممکن رہے اسی وجہ سے دریائے سندھ کے آخری حصے پر موجود فریق یعنی صوبہ سندھ کی مرضی کے بغیر اس کی تعمیر ممکن ہی نہیں، البتہ اس قانون میں یہ بھی شامل ہے کہ اگر دریا کے آخری حصہ پر موجود فریق دریا کے پانی کو استعمال میں نہیں لاتا تو بند کی تعمیر ممکن بنائی جا سکتی ہے۔

    پانی کے ضیاع کے حوالے سے آبی ماہرین کہتے ہیں کہ 2010 کے سیلاب میں پانی کا بہاؤ 100 ملین ایکڑ فٹ تھا جو 12 خالی ڈیموں کو بھرنے کے لیے کافی تھا، ہر سال 35 ملین ایکڑ فٹ پانی کوٹری بیراج سے گزر کر سمندر میں چلا جاتا ہے اس سے کالا باغ جیسے 6 ڈیم بھرے جاسکتے ہیں۔

    یہاں یہ سوچنے کی بات ضرور ہے کہ دریائے سندھ پر ڈیم بنانے پر کچھ ملک گیر سیاسی جماعتیں اور کچھ قوم پرست یک زبان ہو کر اس کی مخالفت میں سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور ڈیم کو تین صوبوں کو بنجر بنانے کا منصوبہ قرار دے کر اسے متنازع بنا دیا جاتا ہے لیکن بھارت نے پاکستان میں داخل ہونے والے دریاؤں پر 14 ڈیم بنائے اور مزید بنانے جا رہا ہے، جس پر یہ جماعتیں کوئی آواز بلند نہیں کرتیں، کیا وہاں سے ہنگامی صورت میں پانی پاکستان میں نہیں داخل ہوتا؟

    امریکا کی پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد 900 دن ہے۔ آسڑیلیا کی 600 دن اور بھارت کی 170 دن ہے جب کہ پاکستان کی صرف 30 دن کی ہے اور منگلا تربیلا بالترتیب اپنی 20 سے 35 فیصد پانی ذخیرہ کی صلاحیت کھوچکے ہیں۔ اس لیے کالا باغ سمیت دیگر چھوٹے ڈیموں کی تعمیر ناگزیر ہے۔ کیونکہ پاکستان کی 80 فیصد سے زائد آبادی کو ’پانی کی شدید قلت‘ کا سامنا ہے جس کے لیے سنجیدہ بنیادوں پر فوری منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

    پاکستان میں اس وقت ایک بڑا ڈیم دیامر بھاشا زیرتعمیر ہے دیگر چھوٹے ڈیموں‌ کے منصوبے بھی زیر غور یا ان پر کام شروع ہونا ہے لیکن اس سے ملک میں‌ پانی کی ضرورت پوری نہیں‌ ہوسکتی اور یہ آبی وسائل ناکافی ہیں۔ اس لیے اب ہمیں کالا باغ ڈیم کی طرف بڑھنا چاہیے اور اس کے لیے قومی سطح‌ پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ تمام تر مصلحتیں بالائے طاق رکھتے ہوئے ہمیں پاکستان کی ترقی کی سوچ کے ساتھ اس حوالے سے آگے بڑھنا ہو گا اور جب تک اس کا کوئی حل نہیں نکلتا ہمیں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کا سلسلہ تیز کرنا ہوگا۔

    اس وقت پوری دنیا موسمیاتی تبدیلی کا شکار ہے لیکن پاکستان اس کلائمیٹ چینج سے متاثرہ ممالک میں سرفہرست ہے۔ ماہرین ارضیات اور موسمیات اس حوالے سے پیشگوئی کرچکے ہیں کہ آنے والے برسوں میں مون سون مزید شدت اختیار کرے گا، دوسرے معنوں میں زیادہ تباہی لائے گا۔ اب یہ مسند اقتدار پر براجمان سیاست دانوں اور بااختیار افراد اور اداروں کی ذمے داری ہے کہ وہ سنجیدگی سے ملک اور قوم کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے آگے بڑھیں اور کالا باغ سمیت دیگر ڈیموں کی تعمیر کے لیے راہ ہموار کی جائے۔

    اگر اب بھی ذاتی خواہشات اور سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اجتماعی مفاد میں فیصلے نہیں کیے تو ہمارا جو انجام ہو گا، اس سے خبردار کرنے کے لیے ہم شاعر مشرق علامہ اقبال یہ شعر (معمولی ردوبدل کے ساتھ) یہاں رقم کررہے ہیں…

    نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے پاکستانیو!
    تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

  • سیلاب : عذاب الہٰی یا حکمرانوں کی نااہلی؟

    سیلاب : عذاب الہٰی یا حکمرانوں کی نااہلی؟

    پاکستان اس وقت تاریخ کے بدترین سیلاب کی زد میں ہے، نصف سے زائد ملک پانی میں ڈوبا ہوا ہے، ایک ہزار سے زائد افراد زندگی کی بازی ہارچکے ہیں۔ لاکھوں گھر پانی میں بہہ گئے ہیں اور دوسری عمارتوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ لوگوں کی جمع پونجی پانی کی نذر ہوگئی ہے۔ ملک بھر میں‌ لاکھوں خاندان کھلے آسمان تلے آگئے ہیں۔ یہ المیہ اتنا بڑا ہے کہ نہ تو کوئی قلم اسے پوری طرح ضبطِ تحریر میں لاسکتا ہے اور نہ ہی کوئی کیمرہ اس کی مکمل عکس بندی کرسکتا ہے۔

    وزارت ماحولیات تبدیلی کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق طوفانی بارشوں کے بعد آنے والے سیلاب سے ملکی معیشت کو ابتدائی تخمینے کے مطابق 10 ارب امریکی ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ ملک کا 70 فیصد حصہ زیر آب ہے اور پاکستان کے جنوبی حصوں میں کئی مقامات پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اموات کی تعداد 1500 کے قریب پہنچ چکی ہے۔ جب کہ 3 ہزار سے زائد زخمی رپورٹ ہوئے ہیں۔ دریاؤں میں اب تک اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ 10 لاکھ سے زائد مکانات کو نقصان پہنچا ہے اور 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد آبادی متاثر ہے۔ متاثرہ علاقوں میں 5 ہزار کلومیٹر سے زیادہ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جبکہ 243 پل تباہ ہوگئے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر صوبہ سندھ ہوا ہے، سندھ کا 90 فیصد اور ملک کی کل فصلوں کا 45 فیصد حصہ زیر آب ہے۔

    یہ تو سرکاری رپورٹ ہے لیکن آزاد ذرائع کے مطابق سیلاب سے جانی نقصان مذکورہ اعداد وشمار سے کئی گنا زیادہ ہوسکتا ہے اور اس کا اصل اندازہ سیلاب اترنے کے بعد ہی ہوسکے گا کیونکہ اب تک 100 فیصد سیلاب متاثرہ علاقہ رپورٹ نہیں ہوسکا ہے۔ پاکستان کے سیلاب متاثرین کے لیے عالمی، ملکی اور عوامی سطح پر امدادی سرگرمیاں شروع ہوچکی ہیں۔ اس دوران بعض صاحب اقتدار لوگوں کی جانب سے اسے عذاب الہٰی سے بھی تعبیر کیا گیا ہے جس پر سوال اٹھ رہا ہے کہ ہر چند سال بعد یہ عذاب الہٰی صرف غریب عوام پر ہی کیوں ٹوٹتا ہے؟

    ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ ملک کو سیلابی پانی نے گھیرا ہو۔ اس سے قبل بھی کئی بار سیلاب آئے اور تباہی کی ایک داستان رقم کرکے چلے گئے۔ اس وقت بھی مسندِ اقتدار پر براجمان افراد نے پھرتیاں دکھائیں، امدادی سرگرمیاں ہوئیں، بین الاقوامی امداد آئی، پھر وقت گزرا اور سب لوگ حسب روایت بھول بھال کر اپنی روزمرہ کی زندگی میں مصروف ہوگئے لیکن یہاں جن کی ذمے داری تھی یعنی صاحبان اقتدار، انہوں نے اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور نہ ہی مستقبل میں ایسی آفات سے نمٹنے کیلیے کوئی جامع منصوبہ بندی کی۔

    مون سون کے آغاز سے کئی ماہ قبل ہی محکمہ موسمیات نے فروری، مارچ میں حکومت سمیت ریلیف کے تمام اداروں کو آگاہ کردیا تھا کہ اس بار ملک میں مون سون نہ صرف طویل ہوگا، بلکہ معمول سے کئی گنا زائد اور شدید طوفانی بارشیں ہوسکتی ہیں، جس سے شہری و دیہی علاقے سیلاب کی زد میں آسکتے ہیں اور انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس پیشگوئی کے بعد حکومت اور اس سے جڑے ادارے حرکت میں آجاتے اور پیشگی اقدامات شروع کردیتے تو شاید تباہی آج اپنی انتہا پر نہ ہوتی اور آسمان سے برستا جل اس ملک کے غریبوں کے لیے شاید فرشتہ اجل ثابت نہ ہوتا، لیکن اس وقت تو ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات کرسی، سیاست، اکھاڑ پچھاڑ تھی تو اس جانب کیا توجہ دی جاتی۔

    جون میں برساتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو جولائی تک ملک کے بیشتر حصوں میں پھیل گیا طوفان اور سیلاب نے سب سے پہلے صوبہ بلوچستان کو اپنا ہدف بنایا جہاں ہر چیز خس وخاک کی طرح اس سیلابی ریلے میں بہہ گئی، لیکن یہ ہماری روایتی بے حسی کہہ لیں جب بلوچستان ڈوب رہا تھا، لاشیں کیچڑ میں لت پت مل رہی تھیں، ماؤں کے سامنے ان کے بچے سیلابی ریلوں میں بہہ کر جارہے تھے اور وہ اپنے جگر گوشوں کو بچانے کیلیے کچھ بھی نہیں کر پارہے تھے، اس وقت بھی ہمارا معاشرہ روایتی بے حسی کی چادر اوڑھے سو رہا تھا جب کہ میڈیا بھی سیاسی رنگینیوں کی داستانیں سناتے ہوئے تھک نہیں رہا تھا، سیلاب کی تباہی پر حکومت وقت کی نظر اس وقت پہنچی جب پانی اپنی راہ بدل کر سندھ اور جنوبی پنجاب میں داخل ہورہا تھا اس کے بعد جب پانی خیبر پختونخوا میں بپھرا تو انسانی جانوں کے ساتھ وادی سوات کا سارا حسن بھی اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔

    یہ تباہی اتنی بڑی تھی کہ صدر مملکت، وزیراعظم اور وزیر خارجہ کو عالمی برادری سے امداد کی اپیل کرنی پڑی، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بھی اقوام عالم سے پاکستان کی امداد کی اپیل کرچکے۔ چین، ترکی، سعودی عرب، یو اے ای، ایران، امریکا، کینیڈا، قطر سمیت دیگر ممالک نے انسانی بنیادوں پر مدد شروع کر بھی دی اس کے ساتھ حکومت سمیت پاک فوج، رینجرز، دیگر اداروں نجی سطح پر بھی امداد کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، سابق وزیراعظم عمران خان نے ٹیلی تھون کرکے دنیا بھر سے ساڑھے پانچ ارب سے زائد رقم جمع کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ دعوت اسلامی، جے ڈی آئی، الخدمت فاؤنڈیشن، سیلانی ویلفیئر، تحریک لبیک پاکستان سمیت دیگر سیاسی اور سماجی تنظیمیں اور لوگ انفرادی سطح پر امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے ہیں لیکن یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ آج ملک میں جو تباہی پھیلی ہے یہ یقیناً قدرتی آفت تو ہے لیکن کیا حکومت جس کی بنیادی ذمے داری عوام کے جان و مال کا تحفظ ہوتا ہے، کیا وہ اس آفت سے نمٹنے کیلیے پیشگی اقدامات نہیں کرسکتی تھی؟ کہ اگر اس سے مکمل بچا نہ جاسکتا تھا تو نقصان کا حجم کم تو کیا جاسکتا تھا یا کم از کم ایسے اقدامات کیے جاسکتے تھے کہ جس سے انسانی جانوں کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کیا جاسکے۔

    یوں تو چاروں صوبے ہی کسی نہ کسی طرح سیلاب سے متاثر ہیں لیکن سندھ اور بلوچستان میں جو المیے جنم لے رہے ہیں اس سے ہر حساس دل تڑپ رہا ہے، یہ دور سوشل میڈیا کا ہے جہاں کوئی بات چھپ نہیں پاتی ہے، ملکی میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا پر بھی ایسے ایسے المناک مناظر سامنے آرہے ہیں جسے دیکھنے والی ہر انسانی آنکھ نم ہورہی ہے۔ الہٰی یہ کیسی تباہی ہے کہ جنازے تو ہیں لیکن انہیں دفنانے کیلیے خشک زمین میسر نہیں، لیکن ان حالات میں جب کروڑوں لوگ بے کس و بے بس بنے ہوئے ہیں اس ملک میں ضمیر فروشوں کی بھی کمی نہیں ہے، اول تو اشیائے ضرورت دستیاب نہیں ہیں اگر ہیں تو ان کی قیمتیں اتنی بلند کردی ہیں کہ آسمان بھی اس کے آگے نیچا دکھائی دینے لگا ہے، صرف اسی پر بس نہیں ضمیر فروش ملنے والی امداد پر بھی قابض ہورہے ہیں جس کی ویڈیوز سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں وائرل ہوکر اس ملک کا مذاق بنوا رہی ہیں۔

    اس وقت سیلاب متاثرہ لوگوں کی سب سے بڑی ضرورت بھوک اور پیاس، کپڑے، سر چھپانے کیلیے عارضی پناہ گاہیں ہیں کئی رپورٹس کے مطابق بعض جگہوں پر تو سیلاب متاثرین بے لباس بیٹھے ہیں، اس سے زیادہ حیوانیت کہاں ملے گی کہ جب ہر طرف قیامت صغریٰ کا منظر تھا وہاں انسانیت کے دعویدار حیوان نما انسان بنت حوا کی روٹی کے بدلے عزت اتار رہے ہیں سانگھڑ میں ایک خاتون کو راشن دینے کے نام پر دو دن تک اس کی عصمت دری کی گئی میڈیا میں خبر آنے پر ملزمان پکڑے گئے لیکن کیا اس قیامت خیز منظر نامے میں ایسا انسانیت سوز واقعہ ہونا چاہیے تھا؟ وزرا، سیاستدانوں اور وڈیروں نے اپنی زمینیں بچانے کیلیے عارضی بند بناکر پانی کا رخ غریبوں کی بستیوں کی جانب موڑ دیا جس نے تباہی میں مزید اضافہ کیا۔

    حکومت اور سیاستدانوں کی بے حسی کے کیا کہنے کہ جب سیلاب بلوچستان میں پوری طرح تباہی پھیلا رہا تھا اور وہاں موت رقصاں تھی تو یہاں ہمارے عوام کے ہمدرد حکمراں جشن آزادی کے نام پر ناچ گانا دیکھنے میں مصروف تھے۔ صرف اسی پر بس نہیں کیا، جیسے جیسے سیلاب کا دائرہ کار اور تباہی بڑھتی گئی ہمارے حکمرانوں کی بے حسی بھی بڑھتی گئی۔ لوگ ڈوب اور ایک ایک روٹی کو ترس رہے تھے، ایسے وقت میں ہمارے اسپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف 25 رکنی وفد کے ساتھ 65 ویں کامن ویلتھ کانفرنس میں شرکت کیلیے کینیڈا گئے، لیکن میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق اس میں سے نصف اراکین نے تو یہ کانفرنس اٹینڈ ہی نہیں کی بلکہ فیملی کے ساتھ سیر سپاٹے اور لگژری زندگی کے مزے لیتے رہے۔ خود راجا پرویز اشرف کے وفد کے ہمراہ اور نیاگرا فال کے نظارے دیکھنے اور پرتعیش ہوٹلوں میں لذیذ کھانے کھانے کی تصاویر میڈیا کی زینت بنی رہیں۔ اسی دوران وزیراعظم دورہ قطر پر تشریف لے گئے 40 رکنی وفد کے ہمراہ یہ دورہ تین روزہ تھا جس پر عوام کا ہی پیسہ خرچ ہوا اگر ایسے وقت میں یہ دورہ ضروری بھی تھا تو مختصر وفد کے ساتھ بھی ہوسکتا تھا۔ عوام پر موت کے سائے بڑھتے جا رہے تھے اور مولانا فضل الرحمٰن لاؤ لشکر کے ہمراہ ترکیہ کے نجی دورے پر تھے جس کا مقصد تو صوفی بزرگ شیخ محمود آفندی کے انتقال پر تعزیت کرنا تھا لیکن ان کی وہاں ایک فیری میں تفریح کی تصویریں میڈیا پر چلیں تو پتہ چلا کہ وہ وہاں تفریح کرکے سیلاب متاثرین کا غموں کا مداوا کر رہے ہیں۔

    صرف یہ نہیں بلکہ جو سیاسی رہنما سیلاب زدہ علاقوں میں گئے بھی تو وہاں اپنے طرز عمل سے ان کی اشک شوئی کے بجائے زخموں پر نمک ہی چھڑکا، پی پی کے ایک صوبائی وزیر منظور وسان جو خواب دیکھنے کے ماہر ہیں انہوں نے جاگتی آنکھوں سیلاب زدہ علاقے کو اٹلی کے شہر وینس سے تعبیر کر ڈالا، ایک ایم این اے امیر علی شاہ شاہانہ انداز میں پلنگ پر بیٹھے اور منرل واٹر سے جوتے دھوتے نظر آئے، آصف زرداری کے بہنوئی اور فریال تالپور کے شوہر نے تو سیلاب متاثرین میں 50 پچاس روپے تقسیم کرکے اس کی ویڈیو بھی بنوائی۔ اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ حکمراں طبقے نے بجائے اپنی نااہلی کا اعتراف کرنے کے اسے عذاب الہٰی سے تعبیر کیا اور سندھ کے کئی وزرا کی جانب سے اسے عوام کے گناہوں کا ثمر قرار دیا گیا۔

    شاید حکمرانوں اور سیاستدانوں کے یہی حاکمانہ ذہنیت کے طرز عمل تھے کہ گزشتہ 5 دہائیوں کے مسلسل جیے بھٹو کا نعرہ لگانے والوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور گزشتہ 14 سال سے سندھ کے اقتدار پر مسلسل براجمان پی پی پی کے کبھی نہ پورے ہونے والے وعدوں نے ان کی آنکھیں کھول دیں تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سندھ کے سیلاب زردگان نے متاثرہ علاقوں میں آنے والے حکمرانوں کا گھیراؤ شروع کردیا پھر چاہے وزیراعظم شہباز شریف ہوں، یا وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری، وزیراعلیٰ مراد علی شاہ ہوں یا قائم مقام گورنر سراج درانی یا پھر سندھ کے دیگر وزرا، غریبوں نے انہیں آئینہ دکھانا شروع کیا تو لاڑکانہ، دادو، سکھر، خیرپور، ٹھٹھہ، نوشہروفیروز سمیت تمام سیلاب متاثرہ علاقوں میں ان ہی حکمرانوں کو زمین پر اترنا دشوار ہوگیا لیکن ستم یہ ہوا کہ وڈیرانہ سوچ کے حامل حکمرانوں نے بجائے ان نازک حالات میں ان کی داد رسی کرنے کے اپنی بے کسی کا اظہار کرنے پر ان کے خلاف ہی مقدمات درج کرا دیے اور سکھر میں وزیراعظم شہباز شریف کے دورے کے بعد 100 سے زائد نامعلوم سیلاب متاثرین کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔

    سیلاب متاثرین کے مصائب اور ان کی مشکلات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کی امداد کے اعلانات ہی کافی نہیں‌حکمرانوں اور سیاستدانوں کو اپنے رویے اور طرز عمل سے بھی خود کو مصیبت کی اس گھڑی میں عوام کا حقیقی ہمدرد اور خیر خواہ ثابت کرنا ہو گا۔

    bostancı escort bayan
    ümraniye escort bayan
    ümraniye escort
    anadolu yakası escort bayan
    göztepe escort bayan
    şerifali escort
    maltepe escort
    maltepe escort bayan
    tuzla escort
    kurtköy escort
    kurtköy escort bayan

  • غیراخلاقی اور نامناسب زبان سے نازیبا اشاروں تک، پاکستانی سیاست کو "میثاق اخلاقیات” کی ضرورت

    غیراخلاقی اور نامناسب زبان سے نازیبا اشاروں تک، پاکستانی سیاست کو "میثاق اخلاقیات” کی ضرورت

    ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان میں سیاسی ماحول گرم ہوتا جارہا ہے۔ سیاست میں اخلاقی گراوٹ تو پہلے بھی تھی، لیکن اب یہ معاملہ ناشائستہ زبان اور نامناسب بیانات تک محدود نہیں‌ رہا بلکہ بات نازیبا اشاروں تک جا پہنچی ہے۔

    سیاسی قیادت کسی بھی قوم کا آئینہ ہوتی ہے لیکن آج ہماری سیاست میں جو لب و لہجہ اختیار کیا جارہا ہے اور ہمارے سیاست دان جس قسم کی سطحی زبان استعمال کرنے لگے ہیں اس کی مذمت میں‌ شرم ناک کا لفظ برتنا بھی کم ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب تندوتیز لہجہ اختیار کرنے کے ساتھ بدزبانی اور بداخلاقی کو بھی سیاست میں نام بنانے اور توجہ حاصل کا ذریعہ تصور کیا جانے لگا ہے۔

    آج تمام مخالف جماعتیں عمران خان کو سیاست میں اخلاقی گراوٹ کا ذمے دار ٹھہراتی ہیں اور ان کا اشارہ چند سال قبل دھرنے میں کنٹینر سے بلند ہونے والے "اوئے” کی جانب ہوتا ہے، لیکن کیا ملک کی سیاسی اخلاقیات کی بربادی صرف اسی ایک لفظ "اوئے” سے شروع ہوتی ہے؟ اس کے لیے ہمیں پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالنی ہوگی۔

    قیام پاکستان کے کچھ عرصے بعد مشرقی پاکستان کی اسمبلی میں ایک موقع پر ہنگامہ آرائی بڑھی اور کرسیاں چل گئیں۔ ڈپٹی اسپیکر زخمی ہوئے اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ایسی ایک دو مثالوں سے قطع نظر اسمبلیوں میں طویل تقریروں، سرکاری دعوؤں، اعداد و شمار کے گورکھ دھندوں، محرومیوں اور ناانصا فیوں کی شکایتوں کی بازگشت تو ضرور معمول تھی مگر گالم گلوچ کا اس کوچے سے گزر نہیں ہوتا تھا۔

    لیکن پھر 1965 کے صدارتی انتخابات کی مہم کے دوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے ہر سچے اور دردمند پاکستانی کو رلا دیا۔ اس صدارتی انتخاب میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح ایوب خان کے مدمقابل آئیں تو سرکاری مشینری نے ان کی کردار کشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ فاطمہ جناح کو نیشنل عوامی پارٹی اور عوامی لیگ کی حمایت حاصل تھی جس کے رہنما سہروردی اور غفار خان کو پہلے ہی غدار کا لقب دیا جا چکا تھا، سو مادر ملت بھی غدار قرار پائیں۔ ایوب خان نے عورت کے سربراہ مملکت ہونے کے خلاف فتویٰ بھی لیا۔

    ایوب خان نے بعد ازاں اپنی کتاب ’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘ میں لکھا کہ ہم نے قائداعظم کی بہن ہونے کے ناطے فاطمہ جناح کا خیال رکھا ورنہ ہم بہت کچھ کہہ سکتے تھے۔

    اسی حوالے سے ڈاکٹر روبینہ سہگل کے ریسرچ پیپر ‘فیمین ازم اینڈ دا ووِمنز موومنٹ ان پاکستان’ اور اس وقت کے اخبارات کے مطابق جنرل ایوب خان نے فاطمہ جناح کو ‘نسوانیت اور ممتا سے عاری’ خاتون قرار دیا تھا۔ یہ شاید وہ لمحہ تھا جب پاکستانی سیاست میں اخلاقیات کا جنازہ نکلا لیکن پھر اس وقت ایوب کابینہ کے وزیر ذوالفقار علی بھٹو نے بھی یہی کیا۔ ایوب خان کی صدارتی مہم کے دوران مادر ملت سے متعلق نامناسب الفاظ کہنے کے علاوہ پاکستان کے بڑے سیاسی لیڈروں اور اپنے مخالفین کے نام بگاڑنے میں پیش پیش رہے۔ یوں سیاست میں اخلاقی گراوٹ بڑھتی چلی گئی اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔

    اب تو لگتا ہے کہ شعلہ بیاں ہونے کے ساتھ ساتھ بداخلاقی بھی ایک سیاست دان کی خوبی گنی جاتی ہے جس پر ملک کا سنجیدہ اور باشعور طبقہ گومگو کی کیفیت میں ہے کہ جو لوگ ملک اور قوم کی ترجمانی کے دعوے دار ہیں کیا وہ اس طرح کا لب و لہجہ اختیار کرسکتے ہیں؟

    اس وقت کے اخبارات کا مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بھٹو نے مخالف لیڈروں کو مضحکہ خیز نام دیے۔ انہوں‌ نے کسی کو ’اِچھرہ کا پوپ‘ کہا تو کسی کو ’چوہا‘ اور’ڈبل بیرل خان‘۔ 1977 کی پیپلز پارٹی اور پی این اے کی انتخابی مہم اخلاقی گراوٹ کی طرف ایک اور قدم ثابت ہوئی۔ کراچی میں ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خان نے بھٹو کو جب کوہالہ کے پُل پر پھانسی دینے کا اعلان کیا تو پی پی پی کی طرف سے اصغر خان کو ’آلو‘ قرار دیا گیا۔ پی این اے نے ’گنجے کے سر پر ہَل چلے گا‘ کا نعرہ لگایا۔ واضح رہے کہ اس وقت "ہل” پی این اے کا انتخابی نشان تھا۔ لیکن یہ یکطرفہ نہیں تھا بلکہ پیپلز پارٹی مخالفین کی جانب سے بھی بھٹو اور ان کی فیملی کیلیے نامناسب زبان اور غیر اخلاقی نعرے بلند کیے گئے۔

    سیاست میں اخلاقیات کا جنازہ اس وقت بھی نکلا جب ضیا الحق کی طیارہ حادثے میں وفات کے بعد لگ بھگ 10 سال تک پی پی پی اور ن لیگ میں اقتدار کی آنکھ مچولی ہوتی رہی۔ یہ تو سب کو یاد ہوگا کہ جب بینظیر بھٹو پہلی بار 1988 میں ملک کی وزیراعظم بنیں اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون حکمراں ہونے کا اعزاز حاصل کیا تو ان کی اور ان کی والدہ محترمہ نصرت بھٹو کی تصاویر میں جعلسازی کے ذریعے اخلاقی پستی کا مظاہرہ کیا گیا۔ بینظیر بھٹو کو سیکیورٹی رسک سمیت کیا کیا نام نہیں دیے گئے جس نے قوم کو ماضی میں محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف ہونے والی مہم کی یاد دلا دی۔

    شیخ رشید جو آج عمران خان کے ہم نوالہ و ہم پیالہ بنے ہوئے ہیں 90 کی دہائی میں یہ نواز شریف کے قریب ترین رفقا میں شمار ہوتے تھے۔ انہوں نے اس دور میں اسمبلی فلور پر بینظیر بھٹو کے بارے میں انتہائی عامیانہ الفاظ کہہ کر ان کی کردار کشی کی کوشش کی۔ آج یہی شیخ رشید بی بی شہید کے صاحبزادے بلاول بھٹو کو مضحکہ خیز نام سے پکارتے ہوئے جملے بازی کے ساتھ اپنے سابق قائد نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کے بارے میں بھی کچھ کہنے سے نہیں چوکتے۔

    90 کی دہائی میں مولانا فضل الرحمٰن نے بینظیر بھٹو کے عورت ہونے کو جواز بناکر ان کے اقتدار کو غیر اسلامی قرار دیا تھا اور جب انہیں بینظیر کے اگلے دور میں اقتدار میں شریک کیا گیا تو ان کی مخالف ن لیگ کی صفوں سے انہیں ڈیزل کہا جانے لگا۔

    1999 میں جنرل (ر) پرویز مشرف کے اقتدار پر قابض ہونے اور دونوں بڑی جماعتوں کے سیاسی میدان سے باہر ہونے پر ان دونوں جماعتوں کو کچھ عقل آئی اور سیاسی اختلافات بھلا کر 2006 میں میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تاہم اقتدار کی ہوس میں اس میثاق کی ساری شقوں کو ہوا میں اڑا دیا گیا اور اس میثاق کے کچھ عرصے بعد سے گزشتہ سال تک دونوں جماعتوں کے قائدین کے درمیان ایسی ٹھنی کہ الامان الحفیظ، ملک کا سب سے بڑا ڈاکو، زرداری سب سے بڑی بیماری، لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹوں گا، پیٹ پھاڑ کر لوٹی رقم نکالیں گے، جیسے اعلانات سرعام کیے گئے۔

    جب مشرف دور میں نجی ٹی وی چینلز کا دور آیا اور ٹاک شوز کا عروج ہوا تو پھر تو گویا سیاست نہیں خرافات رہ گئیں یاد ہوگا کہ ایک نجی ٹی وی کے مقبول ٹاک شو کے دوران اس وقت ق لیگ کابینہ کی وزیر کشمالہ طارق اور پی پی میں نئی نئی شامل فردوس عاشق اعوان کا ٹاکرا ہوا تو بات نیوز روم سے نکل کر بیڈروم تک جاپہنچی۔

    عمران خان نے چوہدری پرویز الہٰی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو اور شیخ رشید کی توہین یہ کہہ کر کی کہ میں تو اسے اپنا چپڑاسی بھی نہ بناؤں۔ فردوس عاشق اعوان نے مریم نواز کے لیے مسلسل ’راجکماری‘ اور ن لیگ کے خواتین کے لیے’ کنیزیں ‘کے القاب ایسے مختص کیے کہ آج پی ٹی آئی کے دیگر رہنما اس کا ورد کرتے نظر آتے ہیں۔

    اگر عمران خان اور پی ٹی آئی کی جانب سے نواز شریف کو بھگوڑا، حمزہ شہباز کے لیے کُکڑی، شہباز شریف کو شوباز شریف اور مریم نواز کیلیے جھوٹوں کی نانی و دیگر نام اور القاب دیے گئے ہیں‌ تو خاموش ن لیگ بھی نہیں رہی اور وہاں سے عمران خان کے لیے فتنہ خان، یوٹرن خان سمیت دیگر تضحیک آمیز نام سامنے آئے۔ فضل الرحمٰن نے یہودیوں کا ایجنٹ کہہ ڈالا بعد میں ان کی اپنی پارٹی کے منحرف رہنما نے بتایا کہ مولانا نے کہا تھا کہ ان کا یہ بیان سیاسی تھا۔

    یہ تو سیاسی میدان میں سوقیانہ پن اور زبان و بیان کے برتنے میں پستی اور بداخلاقی کی چند مثالیں ہیں اگر اس قسم کی غیر اخلاقی زبان اور تضحیک آمیز بیانات کی تفصیل میں‌ جائیں‌ تو ایک ضخیم کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ الغرض ہمارے بعض غیر ذمے دار سیاستدانوں نے اپنی قابلِ اعتراض زبان سے معاشرے میں سیاسی کلچر کو جو پراگندہ کیا ہے اس کے برے نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔ اس سے معاشرے کے تمام طبقات بالخصوص نئی نسل متاثر ہورہی ہے جس کا اندازہ آج مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور سپورٹرز کے مابین ہونے والی چپقلش سے کیا جاسکتا ہے۔

    نجی چینلوں کے بعد اب سیاسی اخلاقیات کے زوال کا سب سے بڑا ذریعہ سوشل میڈیا بن چکا ہے جس میں سیاستدانوں کے بارے میں انتہائی غلیظ زبان استعمال کی جاتی ہے اور اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ ملک کی اکثر بڑی جماعتوں نے خود اپنے ایسے سوشل میڈیا سیل بنارکھے ہیں جن کا مقصد مخالفین کی کردار کشی کرنا ہے۔

    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاسی اخلاقیات کے زوال کے اس رجحان کے آگے بند کس طرح سے باندھا جائے۔ ملک کی سیاسی جماعتوں کو بھی مل کر اس امر پر غور کرنا چاہیے کہ سیاسی کلچر کی بربادی کا نقصان صرف ان کی حریف جماعت کو نہیں بلکہ ان کی اپنی جماعت کو بھی پہنچ رہا ہے۔ اس سلسلے میں رائے عامہ کو بیدار کرنے کے لیے سول سوسائٹی بھی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

    یونان کے مشہور فلسفی افلاطون نے کہا تھا کہ” ریاستیں شاہ بلوط کی لکڑی سے نہیں بلکہ انسان کے کردار سے بنتی ہیں۔” افلاطون کے اس قول کو صدیاں گزر چکی ہیں لیکن ہر زمانے میں سیاست اور ریاست سے اخلاق و کردار کے تعلق کو تسلیم کیا گیا ہے۔

    ریاستیں جمہوریت سے مضبوط ہوتی ہیں اور جمہوریت میں سیاسی اختلافات ہوتے ہیں کہ یہی جمہوریت کا حسن ہوتا ہے لیکن غیرذمہ داری اور بداخلاقی اس حسن کو گہنا دیتی ہے۔ قوم سیاستدانوں کی زبان سے عرصہ دراز سے میثاق جمہوریت اور میثاق معیشت سنتی آرہی ہے لیکن وقت کی ضرورت ہے کہ اب سیاسی جماعتیں ملک کے سیاسی ماحول کو مزید پراگندہ ہونے سے بچانے کیلیے غیر مشروط طور پر آگے آئیں اور اخلاص کے ساتھ آپس میں ایک "میثاق اخلاقیات” پر دستخط کریں۔ سب سے پہلے پارٹی سربراہ خود کو اس کا پابند کرے اور پھر جو بھی اس کے خلاف جائے تو اس کی درپردہ پشت پناہی کے بجائے ایسے اقدام کیے جائیں جس سے ہمارے بارے میں ایک باوقار جمہوری ملک اور قوم کا تاثر دنیا کو جائے۔

    escort
    ataşehir escort
    kadıköy escort
    göztepe escort
    şerifali escort
    göztepe escort
    kartal escort
    maltepe escort
    pendik eskort
    anadolu yakası escort

  • 75 ویں جشنِ آزادی پر ‘ناتواں پاکستان’ کا حکم رانوں اور قوم سے سوال

    75 ویں جشنِ آزادی پر ‘ناتواں پاکستان’ کا حکم رانوں اور قوم سے سوال

    75 واں جشنِ آزادی منانے کے لیے پاکستانی قوم جوش و جذبے سے سرشار ہے۔ گھروں، سڑکوں، گلیوں میں سبز ہلالی پرچموں کی بہار آگئی ہے اور یہ اہتمام کیوں نہ ہو کہ آزادی کا جشن منانا کسی بھی قوم کے زندہ ہونے کی علامت ہوتا ہے۔

    آزادی کسی قوم کا وہ سرمایۂ افتخار ہوتا ہے جو اس قوم کی زندگی اور اس کے تاب ناک مستقبل کا ضامن ہوتا ہے، جب کہ غلامی ایک مرض اور غیروں پر بھروسا کرنا وہ عادت ہے جو دلوں کو جوش و جذبے سے محروم اور جذبہ و امنگ سے یکسر خالی کردیتی ہے۔ شاعرِ مشرق علّامہ اقبال نے اسی غلامی کو آزادی میں بدلنے کا نسخہ بتاتے ہوئے کہا تھا:

    دلِ مردہ، دل نہیں ہے، اسے زندہ کر دوبارہ
    کہ یہی ہے امتوں کے مرضِ کہن کا چارہ

    14 اگست 1947 اور رمضان المبارک کی 27 ویں شب کو دنیا کے نقشے پر ایک نئی اور آزاد ریاست کے طور پر پاکستان کا نام ابھرا۔ آزادی کی یہ نعمت ہمیں قائداعظم کی قیادت اور ان کے رفقا کی شبانہ روز جدوجہد اور لاکھوں جانوں کی قربانیوں کے طفیل نصیب ہوئی تھی۔ دو قومی نظریے اور ایک کلمے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا وطن جب معرضِ وجود میں آیا تو اس کے پاس مسائل زیادہ اور وسائل انتہائی کم تھے۔ لیکن مخلص قیادت نے اس وقت کے ایک ناتواں پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے دن رات ایک کردیا اور چند سال میں اسے دنیا کے ایک ایسے ملک کے طور پر پہچانا جانے لگا جہاں تیزی سے صنعتی ترقی ہورہی تھی۔

    دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام، دنیا کا سب سے بڑا ڈیم، اسٹیل مل، معروف فضائی کمپنی پی آئی اے اور پاکستان کا شہر کراچی بھی کبھی دنیا میں اپنی مصروف بندرگاہ کی وجہ سے پہچانا جاتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب پاکستانی قیادت اگر امریکا جاتی تو وہاں کے حکم راں اور اعلیٰ عہدے دار خود ان کا استقبال کرتے تھے۔ یہ بات شاید کئی قارئین کے لیے خوش گوار حیرت کا باعث ہو کہ پاکستان جرمنی سمیت متعدد ملکوں کو قرضے دیتا تھا، لیکن پھر وقت نے پلٹا کھایا اور پاکستان نے ابتدائی دو عشروں میں جو ترقی کی تھی وہ اس طرح ترقیٔ معکوس ثابت ہوئی کہ قرض دینے والا یہ ملک آج خود قرضوں کے جال میں جکڑ چکا ہے اور ہمارے حکم راں کاسۂ گدائی پھیلائے ہوئے ہیں۔ ہم سے کئی برس بعد آزادی حاصل کرنے والے ممالک آج صنعت و حرفت میں ہم سے آگے ہیں اور اپنی معیشت کا عروج دیکھ رہے ہیں۔ ہمارا یہ حال ہے کہ دنیا میں مشہور ہونے والی اسٹیل مل معیار اور صنعت گری کے اعتبار سے ختم ہوچکی ہے۔ پی آئی اے تباہ حال ادارہ بن چکا ہے۔ سب سے بڑے نہری نظام اور دنیا کے سب سے بڑے ڈیم والا ملک پانی کی قلت کے مسئلے کا سامنا کررہا ہے اور زرعی زمینیں بھی پانی سے محروم ہیں۔ روشنیوں کے شہر کراچی کو پہلے دہشت گردی کے عفریت نے تاریکیوں میں دھکیلا اور اب حکم رانوں کی ریشہ دوانیوں اور غفلت نے عروسُ البلاد کو کھنڈر بنا دیا ہے۔

    قیامِ پاکستان کے ابتدائی چند سال کے بعد جو بھی حکم راں رہے ہیں ان میں سے چند کو چھوڑ کر یا تو سب کوتاہ نظر رہے یا پھر ان کی ترجیح ملک سے زیادہ ذاتی مفاد رہا ہے۔ ہمارے اکثر حکم رانوں نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کیلیے کبھی مذہب تو کبھی لسانیت اور صوبائیت کا سہارا لیا۔ ہماری خارجہ پالیسی یہ رہی کہ جس کسی کے پاس اقتدار رہا وہ سات سمندر پار امریکا سے دوستی میں تو ہر حد تک گیا لیکن ہمسایہ ممالک (ماسوائے چین) کے ساتھ تعلقات کو کوئی اہمیت نہ دی۔

    حکومتوں نے ملکی وسائل اور افرادی قوت پر انحصار کرتے ہوئے زراعت و صنعت کو فروغ دینے کے بجائے بیرونی قرضوں کا طوق اس قوم کے گلے میں ڈالا۔ قومی صنعت کو فروغ دینے کے بجائے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو تحفظ فراہم کیا اور ہر موقع پر بااختیار و برسر اقتدار طبقے نے اپنے ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو بھینٹ چڑھا دیا۔ جاگیردار طبقے نے جان بوجھ کر تعلیم کو نظر انداز کیا تاکہ عام آدمی باشعور ہو کر ان کے اقتدار کیلیے خطرہ نہ بن سکے۔ یکساں تعلیمی نظام کے ذریعے قوم کے نونہالوں کی آبیاری کرنے کے بجائے تعلیم کو کمرشلائز کر کے طبقاتی تقسیم کو عروج دیا گیا۔ سیاسی جماعتوں کو وراثت میں ڈھال کر جمہوریت کے نام پر خاندانی ڈکٹیٹر شپ قائم کی گئی اور اسی سیاست کے بل بوتے پر لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہوا۔

    ایک کلمے کے نام پر حاصل کیے گئے اس ملک کو مذہب، فرقہ واریت اور لسانیت کے نام پر بار بار خون میں نہلایا گیا۔ آج یہ حال ہے کہ پاکستانی صرف دو مواقع پر ایک قوم نظر آتے ہیں، ایک 14 اگست اور دوسرا کرکٹ میچ۔ وہ بھی بالخصوص بھارت سے مقابلے میں ورنہ اس کے علاوہ کہیں سندھی ہے تو کوئی پنجابی، کہیں پختون ہے، کوئی بلوچی، مہاجر اور کوئی سرائیکی ہے، اگر نہیں ہے تو پاکستانی نہیں ہے۔

    75 برس کے اس سفر میں ہم اپنا ایک بازو گنوا چکے جو اب دنیا کے نقشے پر بنگلہ دیش کے نام سے موجود ہے جب کہ باقی ماندہ پاکستان ہماری اپنی کوتاہیوں، ریشہ دوانیوں، رنجشوں، لسانی نفرت اور مذہبی بنیاد پر تفریق سے نڈھال اور ناتواں ہو چکا ہے جس کی ذمے داری یوں تو من حیث القوم سب پر ہی عائد ہوتی ہے لیکن سب سے زیادہ ذمے دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس ملک پر حکومت اور قوم کی قیادت کی لیکن ہمیں ایک ایسا پاکستان نہیں دے سکے جو دنیا میں ایک باوقار، حقیقی معنوں میں خود مختار اور معاشی طور پر مستحکم ہوتا۔

    یوں تو ہم کہنے کو آزاد قوم ہیں لیکن نہ ہماری معیشت آزاد ہے اور نہ ہی ہماری پالیسیوں میں کوئی تسلسل۔ اب ہماری معاشی پالیسی ہمارے قرض خواہ ادارے ہمیں بنا کر دیتے ہیں جن پر من و عن عمل کرنا حکمران وقت کی مجبوری ہوتا ہے۔ آج پاکستان کی صنعت و حرفت، تعلیم و صحت، فن و ثقافت کوئی ایسا شعبہ نہیں جس کی کارکردگی کی بنیاد پر کہا جاسکے کہ ملک ترقی کی جانب گامزن ہے۔

    کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
    ابھی تک پاؤں سے چمٹی ہیں زنجیریں غلامی کی
    دن آجاتا ہے آزادی کا آزادی نہیں آتی

    پچھتر سال کا وطن عزیز سوال کررہا ہے کہ جس مقصد کیلیے کرہ ارض پر یہ زمین کا ٹکڑا پاکستان کے نام سے حاصل کیا گیا تھا کیا وہ مقصد پورا ہوگیا۔ اس بار قوم یہ جشن آزادی عدم اعتماد کی فضا میں پرانا پاکستان اور نیا پاکستان کے نعروں کی بازگشت میں منا رہی ہے۔ ملی نغموں کی گونج اور سبز ہلالی پرچموں کی بہار تو ہر طرف ہے، لیکن کیا صرف سال میں ایک ہی دن جھنڈے لہرانے، جھنڈیاں لگانے، قومی اور ملی نغمے گانے، ریلیاں نکالنے اور حب الوطنی پر مبنی تقاریر کرنا ہی ایک زندہ قوم کی نشانی ہوتی ہے؟

    وقت آگیا ہے کہ اب ہمیں جشن آزادی منانے کے ساتھ ساتھ ایک لمحہ رک کر سوچنا اور غور و فکر کرنا ہوگا اور قیام پاکستان سے اب تک ایک حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنا ہوگا کہ 75 سال کے آزادی کے اس سفر میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ ترقی یافتہ قوموں کی صف میں باوقار انداز سے اپنا کردار کیسے ادا کر سکتے ہیں؟ اپنے قومی و ملکی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے بیرونی قرضوں سے کس طرح نجات ممکن ہے؟ کس طرح چھوٹی چھوٹی اکائیوں کی تقسیم کو تسبیح کے دانوں کی طرح ایک لڑی میں پرو کر قوم بناسکتے ہیں؟

    آج ملک کے مقتدر اور بااختیار افراد سمیت تمام سیاسی جماعتوں اور بحیثیت قوم سب کو سوچنا ہوگا کہ آج تک ہم وہ مقاصد کیوں حاصل نہیں کر پائے جس کی خاطر برصغیر کے مسلمانوں نے ایک الگ خطہ ارضی حاصل کیا تھا۔

    صرف آزادی کا جشن منا لینے سے وطن کی محبّت کا حق ادا نہیں ہوتا، ہم سب کو اپنی اپنی اصلاح بھی کرنا ہوگی۔ یہ مُلک جتنی قربانیوں اور جدوجہد کے بعد نصیب ہوا ہے، اس کا تقاضا ہے کہ ہم اس کی قدر کریں اور اس سے محبّت کریں۔ قوم، بالخصوص نوجوان نسل میں جبّ الوطنی کو فروغ دینے کے لیے حکومت وقت کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

    پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو تمام قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے اور جس کی نصف سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ اگر انہیں درست سمت اور سازگار ماحول دیا جائے تو وہ اسے مضبوط اور خوشحال بنا سکتے ہیں۔ قومیتوں، فرقوں کی تقسیم سے نکال کر ایک قوم کی لڑی میں پرویا جائے تو یہ قوت بن کر اغیار کے سامنے سرنگوں مملکت کو اس کا کھویا ہوا وقار واپس دلا سکتے ہیں اور پاکستان دنیا کے نقشے پر حقیقی معنوں میں سیاسی اور معاشی لحاظ سے ایک خودمختار ملک کے طور پر جگمگا سکتا ہے، لیکن اس کے لیے صرف اور صرف اخلاص کے ساتھ جہدِ مسلسل کی ضرورت ہے۔

    احمد ندیم قاسمی کے ایک دعائیہ کلام کے ساتھ اپنے اس بلاگ کا اختتام کرتا ہوں:

    خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
    وہ فصلِ گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
    یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
    یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
    یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
    اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
    گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
    کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو
    خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
    اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو
    ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
    کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو
    خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
    حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

  • کیا آصف زرداری کی ایک تیر سے دو شکار کی کوشش ناکام ہوگئی؟

    کیا آصف زرداری کی ایک تیر سے دو شکار کی کوشش ناکام ہوگئی؟

    پاکستان مسلم لیگ (ن) نے صوبۂ پنجاب اور اپنے سیاسی گڑھ لاہور میں ضمنی الیکشن میں بدترین شکست کا سامنا کیا اور پھر تختِ پنجاب بھی ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ موجودہ سیاسی صورتِ حال میں‌ تو وفاق میں بھی حکم رانوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے۔

    انتخابی نتائج اور شکست کے بعد مسلم لیگ ن کی صفوں‌ میں اختلافات اور انتشار واضح ہوتا جارہا ہے۔ سربراہ عوامی لیگ شیخ رشید کے دعوؤں کے مطابق تو ن لیگ میں سے شین اور میم نہیں‌ نکل سکیں، لیکن ایسے ہی حالات رہے تو کہیں مسلم لیگ ن بھی لندن اور پاکستان کے نام سے دو گروہوں‌ میں نہ تقسیم ہوجائے جس طرح متحدہ قومی موومنٹ کو آج ایم کیو ایم پاکستان اور ایم کیو ایم لندن کے ناموں سے شناخت کیا جاتا ہے۔

    ن لیگ جو ایک ملک گیر سیاسی جماعت ہے اور مخلتف ادوار میں وفاق اور صوبۂ پنجاب کی حکم راں رہی ہے، آج سیاسی میدان میں اس حال کو کیسے پہنچی؟ اس کی مختلف وجوہ ہوسکتی ہیں جن میں بعض سیاسی کمزریوں اور تنظیمی معاملات میں کوتاہیوں کے علاوہ لالچ اور بے صبری جیسے عناصر کو بھی نظرانداز نہیں‌ کیا جاسکتا۔ بعض سنجیدہ اور باشعور حلقوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر یہ کہا جارہا ہے کہ آصف علی زرداری نے ن لیگ کو حکومت کا لالچ دے کر وہاں پہنچا دیا ہے جہاں اسے صرف اور صرف مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

    شکار کرنا انسان کی سرشت میں شامل ہے۔ سیاست وہ میدان ہے جس میں شکار ایک لیکن شکاری بہت سے ہوتے ہیں، لیکن یہاں وہی کام یاب ہوتا ہے جو انتہائی زیرک ہو اور اسے شکار کو پھنسانے کے لیے بہترین چارہ استعمال کرنا بخوبی آتا ہو۔

    پنجاب میں وزارتِ اعلیٰ‌ کے منصب کے لیے سیاسی کھینچا تانی اور حکومت کی تبدیلی کے بعد اب ملک میں سیاسی ماحول خاصا گرم ہوچکا ہے اور تلخی بھی بڑھتی جارہی ہے۔ شہباز شریف کی اتحادی حکومت ساڑھے تین ماہ میں ہی اس دوراہے پر آ کھڑی ہوئی ہے جہاں ایک طرف کنواں ہے تو دوسری طرف کھائی۔ دورِ عمران سے شریف تک پہنچنے میں ملک میں کیا کچھ ہوا یہ سب نے اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا۔ تحریک عدم اعتماد عمران خان حکومت کے خاتمے کی بڑی وجہ بنی اور سیاسی مبصرین کے مطابق اس تحریک کی سرخیل ایک ہی جماعت پیپلز پارٹی تھی اور اس کے پیچھے صرف سابق صدر آصف علی زرداری کی ذہانت کار فرما تھی۔

    ایک وقت تھا جب آصف علی زرداری مسٹر ٹین پرسنٹ کے نام سے مشہور تھے اور بینظیر بھٹو شہید کے شوہر کی حیثیت سے سیاست کے میدان میں اترے تھے، لیکن بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد "ایک زرداری سب پر بھاری” کے مقبول نعرے نے ان کا یہ منفی تأثر زائل کر دیا۔ اس کے بعد وہ اپنے سیاسی رابطوں‌ اور فیصلوں کی وجہ سے سیاست کے میدان میں مفاہمت کے بادشاہ مشہور ہوئے اور ان کی یہ شہرت تاحال برقرار ہے۔

    صوبۂ پنجاب آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اسی لیے اسے سیاست میں انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ قومی اسمبلی کے ممبران کی کل تعداد کا 50 فیصد سے زائد صوبہ پنجاب سے منتخب ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پنجاب نے ہمیشہ حکومت سازی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور یہاں سے اکثریت حاصل کرنے والی جماعت وفاق میں اقتدار میں آئی ہے۔ یوں مرکز میں‌ حکومت بنانے کے لیے کسی بھی سیاسی جماعت کا پنجاب میں‌ انتخابی فتح حاصل کرنا لازمی ہے۔

    ماضی میں پنجاب سے پیپلز پارٹی بھی اکثریت حاصل کرتی رہی ہے۔ یہیں پیپلز پارٹی کی بنیاد ڈالی گئی تھی اور 1972، 1988، 1993 کے انتخابات میں پنجاب کا میدان مارنے پر ہی پیپلز پارٹی کو حکومت بنانے کا موقع ملا تھا۔ لیکن پھر اس جماعت کی سیاست نظریات سے نکل کر مفادات کے گرد طواف کرنے لگی اور جب نظریاتی کارکن بددل ہوکر پارٹی سے دور ہوگئے تو پیپلز پارٹی کی پنجاب پر گرفت بھی کمزور ہوگئی۔ سیاسی میدان میں اس کا بڑا فائدہ ن لیگ نے اٹھایا اور پھر گزشتہ انتخابات کے نتائج دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ پی پی پی کے خلا کو بالخصوص جنوبی پنجاب میں پی ٹی آئی نے پُر کیا ہے۔

    1972، 1988، 1993 اور 2008 میں وفاق پر حکومت کرنے والی جماعت کا حال یہ ہوا ہے کہ 1996 کے انتخابات میں پی پی پی ملک بھر میں قومی اسمبلی کی صرف 18 نشستیں ہی حاصل کرسکی تھی۔ اس میں پی پی پی کو پنجاب سے ایک بھی قومی اسمبلی کی نشست پر فتح نہیں ملی تھی۔ 2002 کے الیکشن میں اس کے حصے میں 16 نشستیں آئی تھیں۔ 2008 کے الیکشن میں پی پی پی نے پنجاب سے قومی اسمبلی کی 45 نشستوں پر کام یابی حاصل کی تھی لیکن یہ الیکشن محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے فوری بعد ہوئے تھے اور عمومی رائے یہ ہے کہ اس وقت پی پی پی کو ہمدردی کا ووٹ پڑا تھا۔ 2013 کے الیکشن میں پی پی پی پنجاب سے قومی اسمبلی کی 141 نشستوں میں سے صرف 3 پر ہی کام یابی حاصل کر پائی۔ 2018 کے انتخابات میں بھی یہاں سے بھٹو کی پارٹی کی نشستوں کی تعداد صرف 6 رہی۔

    اب اگر ان نتائج پر کوئی یہ رائے رکھتا ہے کہ مقتدر حلقوں کے آشیر باد کے بغیر کوئی اقتدار میں نہیں آتا اور پی پی پی کو جان بوجھ کر ان الیکشن میں کمزور کیا گیا تو اس کا سادہ سا جواب تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ملک کے غیر جانب دار حلقے 1970 کے الیکشن کے علاوہ تمام الیکشن کو کم یا زیادہ جھرلو ہی کہتے ہیں۔ اگر مندرجہ بالا اعداد وشمار جھرلو الیکشن کا نتیجہ ہیں تو جن ادوار میں پی پی پی اقتدار میں رہی وہ اقتدار بھی تو انہی جھرلو انتخابات کی مرہون منت ہیں۔

    پیپلز پارٹی صدر مملکت، وزارت عظمیٰ سے لے کر اقتدار اعلیٰ کے تمام عہدوں کا لطف اٹھا چکی ہے۔ مگر اقتدار نشہ ایسا ہے کہ جس کے منہ کو لگ جائے، وہ اس کے سرور میں رہنا پسند کرتا ہے۔ بات وہیں آجاتی ہے کہ اقتدار کی مسند تک پہنچنا ہے تو پنجاب کو فتح کرنا ہے، لیکن پنجاب پر اس وقت پی ٹی آئی اور ن لیگ کا غلبہ ہے۔ یہاں فی الحال پی پی پی کی دال گلتی نظر نہیں آرہی تھی، لیکن آصف علی زرداری نے اپنے سیاسی تدبّر اور قیاس آرائیوں کے مطابق "آشیر باد” سے ایک ایسا "کھیل رچایا” جس میں ان کی کام یابی کے امکانات کئی گنا بڑھ سکتے تھے۔

    پیپلز پارٹی کو اس کے لیے بیک وقت دو محاذ سر کرنے تھے۔ یعنی پنجاب سے پی ٹی آئی اور ن لیگ کا صفایا۔ پی ٹی آئی کو اقتدار سے ہٹانا اور پھر ن لیگ کو وقتی طور پر اقتدار میں لانا اسی کھیل کا حصہ تھا۔ یہ تو واضح ہے کہ صرف پی ٹی آئی کے اقتدار کا خاتمہ پی پی پی کی منزل نہیں تھی کیونکہ اس کا متبادل پنجاب میں ن لیگ اور اس کا ووٹ بینک تھا۔ اس طرح دیکھا جائے تو یہ کہنا غلط نہیں‌ ہو گا کہ پی پی پی کی قیادت کی خواہش رہی کہ اس بھاری ووٹ بینک کو اگر ختم نہیں تو اس حد تک کم کردیا جائے کہ پی پی پی کا راستہ صاف ہوسکے۔ دوسری طرف گزشتہ حکومت کو درپیش سخت معاشی چیلنجز کا سامنا تھا جب کہ ملک میں آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی، بیروزگاری عوام کو مارے ڈال رہی تھی۔ یہ وہ حالات تھے جس میں حکومت کی تبدیلی آسان تو تھی لیکن متبادل حکومت کے لیے ملک چلانا آسان ہرگز نہ تھا۔ آصف علی زرداری جانتے تھے کہ ان حالات میں کسی بھی سیاسی جماعت کا اقتدار میں آکر حکومت کرنا آسان نہیں ہوگا، بلکہ بدترین معاشی حالات اور بڑھتی مہنگائی سے اس کی سیاسی مقبولیت ختم نہیں‌ تو اس کا گراف تیزی سے نیچے ضرور جاسکتا ہے۔ یہ وقت سیاسی چال چلنے کے لیے انتہائی مناسب تھا۔

    واقفانِ حال کہتے ہیں کہ پہلے ن لیگ کی مدد سے عمران خان کو اقتدار سے ہٹایا گیا اور پھر اسمبلی کی باقی مدت کی تکمیل تک پی پی پی نے اتحادی رہتےہوئے اقتدار نواز لیگ کے حوالے کر دیا تاکہ ڈیڑھ سال میں عوام پہلے سے زیادہ مصیبت جھیل کر ن لیگ سے بھی متنفر ہوجائیں جس کے بعد اگلے عام انتخابات میں پی پی پی کو میدان صاف ملے۔

    وزارت عظمیٰ کی کرسی ہر سیاست دان کی معراج ہوتی ہے اور جب یہ یوں تھال میں رکھ کر پیش کی جائے تو کون اس پر براجمان ہونے سے انکار کرے۔ اب ن لیگ اسے نومبر میں کسی اہم تعیناتی کا خوف کہیں یا کچھ اور بہرحال اس معاشی بحران میں حکومتی ڈھول انہوں نے اپنی بھرپور رضامندی سے گلے میں ڈالا ہے اور ایک طرف جب ن لیگ کو مہنگائی اور مسائل پر عوام کے شدید غم و غصے کا سامنا ہے، وہاں مخالف سیاسی جماعتوں کے کیمپ میں شادیانے بج رہے ہیں۔

    اقتدار میں آنے کے بعد کئی بار ن لیگ کی صفوں‌ میں سے ہی فوری انتخابات کرانے کی آوازیں اٹھیں بلکہ لندن سے بھی جلد از جلد نئے الیکشن کی طرف جانے کا پیغام آیا۔ شہباز حکومت کے اقتدار میں آتے ہی اسمبلیاں توڑنے کا فیصلہ شاید ن لیگ کے لیے زیادہ نقصان دہ نہیں ثابت ہوتا لیکن حکومت کو مدت پوری کرنے پر قائل کرلیا گیا جس کا نتیجہ آج ساڑھے تین ماہ میں ہی سب کے سامنے ہے۔

    آج مسلم لیگ ن کے جو حالات ہیں ان میں‌ بظاہر پی پی پی کا راستہ صاف ہوتا نظر آتا ہے، لیکن اس کھیل میں سب کچھ ن لیگ کی مخالف جماعت کی مرضی کے مطابق نہ ہوسکا۔ اس صورت حال میں پی پی پی کی قیادت کو تشویش بھی ہوگی۔ جب عمران خان کی حکومت کو گرایا گیا تو پی پی پی کی قیادت کیا خود عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو بھی یہ گمان نہیں ہوگا کہ وہ ملک کی سیاسی تاریخ میں اقتدار کھونے کے بعد مقبولیت کی معراج پر پہنچ جائیں گے۔

    اقتدار کے ایوانوں کی خبر رکھنے والے بتاتے ہیں کہ پی پی پی کی قیادت چاہتی تھی کہ ن لیگ کی مشکلات بڑھنے کے بعد اگلے الیکشن میں ق لیگ سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر کے اپنے اقتدار کو یقینی بنایا جائے اور بلاول بھٹو زرداری کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز کرایا جائے۔ لیکن سیاست میں‌ جہاں‌ بروقت فیصلے کام یابی کے امکانات روشن کرتے ہیں‌، وہیں یہ قسمت کا بھی کھیل ہے۔

    عمران خان اس معاملے میں قسمت کے دھنی نکلے ہیں اور ان کی روز بروز بڑھتی ہوئی مقبولیت نے سیاست کے میدان میں‌ فتح کے کسی بھی منصوبے کو فی الحال تو دفن کر دیا ہے۔ اگر ان حالات میں الیکشن ہوئے تو پی ٹی آئی کے بیانیے کی جیت کے امکانات روشن ہیں اور مخالفین کا ہر خواب چکنا چور ہوتا نظر آتا ہے، لیکن یہ بھی درست ہے کہ وقت کبھی بھی بدل سکتا ہے اور سیاست میں‌ بالخصوص پاکستانی سیاست میں کوئی بات حرفِ آخر نہیں ہوتی۔