Tag:

  • سندھ میں بلدیاتی وضمنی انتخابات کا التوا، وجہ متوقع بارشیں یا ؟

    سندھ میں بلدیاتی وضمنی انتخابات کا التوا، وجہ متوقع بارشیں یا ؟

    سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لیے اتوار 22 جولائی کو کراچی، حیدر آباد اور ٹھٹھہ میں پولنگ جب کہ کراچی میں قومی اسمبلی کی نشست 245 پر ضمنی انتخاب بھی 26 جولائی کو ہونا تھا جو اچانک ملتوی کر دیا گیا۔

    بلدیاتی الیکشن سے صرف تین روز قبل جب تمام سیاسی جماعتیں اپنی انتخابی سرگرمیوں میں مصروف تھیں، رات گئے اچانک میڈیا پر بلدیاتی اور ضمنی الیکشن ملتوی کیے جانے کی خبر نشر ہوئی اور ساتھ ہی الیکشن کمیشن کی جانب سے آئندہ شیڈول کا اعلان بھی کر دیا گیا۔ اس نئے شیڈول کے مطابق اب این اے 245 پر ضمنی الیکشن 21 اگست جب کہ بلدیاتی الیکشن 28 اگست کو ہوں گے۔

    الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ان انتخابات کے اچانک التوا کی وجہ متوقع بارشیں بتائی ہیں۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے علاوہ انتخابات میں حصہ لینے والی دیگر دو بڑی جماعتوں پی ٹی آئی اور جماعتِ اسلامی نے اس فیصلے کے خلاف بھرپور احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے اچانک التوا کی وجہ خراب موسم ہے یا پھر کچھ اور؟

    اگر متوقع بارشیں ہی اس کی اہم اور واحد وجہ ہیں تو محکمہ موسمیات سمیت دیگر ادارے تو رواں سال کے آغاز سے ہی کئی بار یاد دہانی کراچکے کہ اس سال ملک بھر بالخصوص زیریں سندھ میں معمول سے زیادہ بارشیں ہوں گی۔ تو جب یہ پیشگوئی کئی ماہ پہلے ہی ہوچکی تھی تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ مون سون کے اس موسم میں انتخابات شیڈول کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ پہلے الیکشن شیڈول کا اعلان کر کے کروڑوں روپے انتظامات پر خرچ کیے گئے اور اب صرف 3 روز قبل یہ کہہ کر ملتوی کر دیے گئے کہ بارشوں کا طوفانی اسپیل آ رہا ہے اس لیے الیکشن ممکن نہیں ہوسکیں گے۔ اس اچانک التوا سے ہی ایک رپورٹ کے مطابق قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوگا اور دوبارہ الیکشن کے انتظامات کے لیے الیکشن کمیشن کو تقریباً 20 کروڑ روپے اضافی خرچ کرنا پڑیں گے۔ اس موقع پر سوال تو یہ بھی اٹھایا جاسکتا ہے کہ کیا پاکستان کے بدترین معاشی حالات میں الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ درست ہے؟

    متنازع ماحول میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن (متنازع اس لیے کہ حلقہ بندیوں کے معاملے پر ایم کیو ایم کا ایک کیس سپریم کورٹ میں ہے اور اس کا موقف ہے کہ حلقہ بندیاں درست کیے بغیر بلدیاتی الیکشن نہیں کرائے جائیں، تاہم اس درخواست کے باوجود ایم کیو ایم انتخابی میدان میں موجود ہے) ان حالات میں ہو رہے تھے کہ جب شہر قائد حالیہ برساتوں کے بعد تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ بارشوں کے ایک ہی اسپیل نے عروس البلاد کہلانے والے شہر کی رونقیں ایسی اجاڑیں کہ سڑکیں جو پہلے ہی خستہ حال تھیں اب کھنڈر کا نمونہ پیش کررہی ہیں۔ نکاسی آب کے ناقص نظام نے اس برسات میں قیمتی جانوں سمیت شہریوں کی قیمتی املاک بھی تباہ کیں۔

    جب ملک کے سب سے بڑے شہر کے باسی بدترین حالات سے گزرے بلکہ گزر رہے ہوں۔ سڑکیں کھنڈر، گلیوں شاہراہوں پر کھڑا پانی لیکن نلکے خالی، صفائی کا ایسا نظام کہ جہاں جاؤ خوشبو کے جھونکے پاؤ۔ ان حالات میں "سندھ ہمارا ہے” کی دعوے دار پی پی پی جس کے پاس بلاشرکت غیرے 14 سال سے سندھ کی حکمرانی ہے اور "کراچی ہمارا ہے” کی دعوے دار ایم کیو ایم جن کے وسیم اختر گزشتہ میئر کراچی تھے کیسے عوام سے ووٹ مانگنے جائیں گے کہ نہ سندھ ہمارا ہے کہ دعویداروں نے کبھی اس شہر کے حالات سدھارنے پر اخلاص سے توجہ دی اور نہ ہی شہر پر اپنا حق جتانے والی جماعت ایم کیو ایم اصل معنوں میں اس شہر کے باسیوں کی پُرسان حال بنی۔

    اب اگر کوئی یہ کہے کہ گزشتہ میئر کراچی ایم کیو ایم کا تھا لیکن بااختیار نہ بلدیاتی نظام تھا اور نہ ہی میئر تو یہ بات تو 100 فیصد درست ہے۔ حقیقت ہے کہ اس معاملے پر چند ماہ قبل تک ایم کیو ایم بڑی شدومد کے ساتھ احتجاج بھی کرتی رہی اور سندھ حکومت پر الزامات بھی عائد کرتی رہی، لیکن پھر اچانک اسی سندھ حکومت کی اتحادی بن گئی جس نے اس کے ووٹرز کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کو بھی حیرت میں مبتلا کردیا کہ جو جماعت چند روز تک جس کے خلاف احتجاج پر تھی وہ اچانک ہم نوالہ اور ہم پیالہ کیسے ہوگئی؟ یہ مفادات کا ہی کھیل تھا کہ چند ماہ قبل باہم دست و گریباں سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے لیے گلے مل گئیں۔

    یہ تو تھی سندھ اور کراچی پر حق جتانے والی دو بڑی جماعتوں کی کارکردگی لیکن الیکشن ملتوی ہونے کی اصل وجہ صرف یہ نہیں تھی بلکہ حال ہی میں پنجاب میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں ن لیگ کی عبرت ناک شکست اور سب کی مشترکہ حریف جماعت پاکستان تحریک انصاف کی شاندار فتح بھی اور کرتا دھرتاؤں کو خدشہ تھا کہ کہیں یہ جھاڑو یہاں سندھ میں بھی نہ پھر جائے۔ اس خدشے کا سب سے بڑا سبب گزشتہ ماہ کراچی کے حلقے این اے 240 میں ہونے والے ضمنی الیکشن کا نتیجہ بھی ہے جو موجودہ سیاسی صورتحال کو زیادہ واضح کرتا ہے۔ وہاں گو کہ ایم کیو ایم کے امیدوار نے فتح حاصل کی لیکن یہ فتح انتہائی کم مارجن کے ساتھ تھی اور ایم کیو ایم کے ماضی کو دیکھتے ہوئے اس کے قطعی شایان شان نہیں تھی۔ یہاں دوسرے نمبر پر رہنے والی جماعت تحریک لبیک کا امیدوار ایم کیو ایم کے فاتح امیدوار سے 60 سے 65 ووٹوں سے ہی پیچھے رہا۔ یہ فرق بھی دیکھ لیں کہ یہاں ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی میدان میں نہیں تھی اور یہاں ووٹرز ٹرن آؤٹ 15 فیصد کے لگ بھگ تھا جب کہ پنجاب کے ضمنی الیکشن میں ٹرن آؤٹ عام انتخابات کے مساوی 50 فیصد کے قریب رہا۔

    انتخابات ملتوی ہونے کے بعد جہاں پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی و دیگر جماعتیں الیکشن کمیشن کے خلاف سراپا احتجاج بن گئی ہیں تو وہیں دوسری جانب پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم چاہے وہ سب کے سامنے کچھ بھی کہیں لیکن دونوں اس التوا پر خوش ہیں۔

    اب محکمہ موسمیات کی پیشگوئی کے مطابق بارشیں اس شدت سے برستی بھی ہیں یا نہیں لیکن الیکشن تو ملتوی کردیے گئے ہیں۔ کراچی میں سالوں بعد جو انتخابی ماحول گرم ہوا تھا، وہ ٹھنڈا ہونے کے بعد شہر کی سیاسی فضا میں گھٹن اور حبس بڑھ گیا ہے۔ ملک کو 65 فیصد سے زائد ٹیکس دینے والے شہر کراچی اور اس کے شہری اب حقیقی مسیحائی چاہتے ہیں اب تک اس شہر کو کئی میئر اور مقامی نمائندے مل چکے ہیں جو اس شہر کے بیٹے ہونے کے دعویدار تو تھے، لیکن تعصب اور جانبداری کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو حقیقی معنوں میں وہ اس شہر اور یہاں کے باسیوں کو کچھ نہیں دے سکے۔

  • ن لیگ کو ہوم گراؤنڈ پر "تاریخی شکست”، کیا شریف خاندان کے "بچے” ناکام ہوگئے؟

    ن لیگ کو ہوم گراؤنڈ پر "تاریخی شکست”، کیا شریف خاندان کے "بچے” ناکام ہوگئے؟

    بالآخر وہ معرکہ انجام پایا جس کا پورے ملک میں شور تھا، یعنی 17 جولائی کو پنجاب کے 20 حلقوں میں ضمنی الیکشن ہوگئے۔

    اس ضمنی الیکشن سے قبل ملک بھر میں گھر ہو یا دفتر، دوستوں کی محفل ہو یا کاروباری ملاقات اور بات چیت، شادی کی تقریب ہو یا جنازے کا اجتماع ہر جگہ صرف ایک ہی بحث ہورہی تھی کہ 17 جولائی کو کیا ہوگا؟ عوام نے تو اب اپنا فیصلہ سنا دیا لیکن جو فیصلہ عوام کی جانب سے سنایا گیا ہے وہ حکومت اور اس کی 12 اتحادی جماعتوں کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا اور کسی کو بھی معمولی سا گمان نہیں تھا کہ ن لیگ اپنے صوبے میں اس عبرت ناک شکست سے دوچار ہوگی۔ 2 روز قبل ہونے والی اس شکست پر 48 گھنٹوں میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور ہر شخص نے اس پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ لیکن ہم اس بلاگ میں ن لیگ کی اس حیران کن اور تاریخی شکست کی وجوہات پر لب کشائی سے قبل نوجوان نسل کو بتا دیں کہ ن لیگ کا حال ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا بلکہ ایک وقت ایسا بھی تھا جب ملک میں صرف ن لیگ ہی ن لیگ تھی۔

    یہ 1996 کی بات ہے جب پاکستان مسلم لیگ (ن) نے سیاست میں تاریخ رقم کرتے ہوئے ملک بھر سے دو تہائی اکثریت حاصل کی۔ دوسری بار اسلام آباد میں اپنی حکومت بنائی اور نواز شریف نے دوسری بار وزیراعظم کا تاج اپنے سر پر سجایا۔ یہ الگ بحث ہے کہ اس دو تہائی اکثریت پر مختلف سوالات اٹھائے گئے لیکن سیاست میں کامیابی بڑی ہو یا چھوٹی سوالات اٹھائے جانے کا رواج رہا ہے۔ لہذا ان سوالات سے صرف نظر یہ ن لیگ کی سب سے بڑی کامیابی تھی جب وہ سنگل لارجسٹ پارٹی بن کر حکومت میں آئی تاہم وہ اس دو تہائی اکثریت کا بوجھ زیادہ عرصہ نہیں اٹھاسکی اور خود اپنے ہی من مانے فیصلوں کے بوجھ تلے دب گئی۔ لیکن 1996 میں پاکستان کی سیاست میں ایک یہی تاریخ رقم نہیں ہوئی بلکہ لگ بھگ اسی سال ملک کے سیاسی نقشے پر ایک نئی جماعت "تحریک انصاف” کے نام سے قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان کی قیادت میں قائم ہوئی۔ لیکن صرف 26 سال کے مختصر عرصے میں، مختصر اس لیے کہ انفرادی زندگی میں یہ عرصہ ایک طویل عرصہ گردانا جاتا ہے لیکن سیاست اور قوموں کی تاریخ میں 26 سال کا عرصہ مختصر ہی تصور کیا جاتا ہے۔ تو بات ہو رہی تھی کہ صرف 26 سال قبل قائم ہونے والی سیاسی جماعت نے ایسا کیا کیا کہ اس نے اپنی سیاسی پیدائش کے وقت کی سب سے مقبول عام جماعت کو اس انجام سے دوچار کردیا۔

    پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر ہونے والے ضمنی الیکشن کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق 15 نشستیں پی ٹی آئی نے حاصل کیں۔ 4 ن لیگ اور ایک آزاد امیدوار کے حصے میں آئی جس میں ن لیگ کی پی پی 7 پنڈی کی ایک نشست پر ابھی سوالیہ نشان ہے کہ اس کو پی ٹی آئی کے امیدوار نے چیلنج کیا ہوا ہے اور اس پر دوبارہ گنتی کی درخواست دے رکھی ہے جس پر فیصلہ ہونا باقی ہے۔ اس سیٹ کا نتیجہ کچھ بھی ہو اس وقت نمبر گیم میں پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی ق لیگ کے پاس 188 ووٹوں کے ساتھ اپنا وزیراعلیٰ یعنی چوہدری پرویز الہٰی کو لانے کے لیے نمبر گیم پورا ہے۔ جب کہ ن لیگ اور اس کی اتحادی جماعتوں کے پاس 179 نمبرز ہیں۔ بہرحال ضمنی الیکشن کا نتیجہ مسلم لیگ ن جیسی جماعت جس کو لیگی رہنما ملک کی سب سے بڑی جماعت گردانتے ہیں اس کے ہرگز ہرگز شایان شان نہیں اور وہ بھی اس صورتحال میں کہ جب یہ الیکشن پی ٹی آئی بمقابلہ 13 اتحادی جماعتوں کے درمیان ہو۔ حکومت بھی اپنی ہو، انتظامیہ بھی ماتحت اور پی ٹی آئی الزامات کے مطابق الیکشن کمیشن بھی پارٹی بنا ہوا ہو۔

    نتائج کا غیر سرکاری اعلان ہونے کے بعد جتنے منہ اتنی ہی باتیں اکثر اسے عمران خان کے سازشی تھیوری اور رجیم چینج بیانیے کی جیت قرار دے رہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ پنجاب کے نتائج پر عمران خان کا یہ بیانیہ بھرپور طریقے سے اثر انداز ہوا ہے اور لوگوں کی بڑی تعداد نے اسے صدق دل سے قبول بھی کیا لیکن کیا یہی ایک وجہ ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی فتح اور شکست کا پیش خیمہ ہر دو فریق کی فہم وفراست اور نااہلی اور کوتاہی ہوتی ہے۔ اگر ہم یہاں صرف عمران خان کے بیانیے کو فتح گر جانیں تو یہ حقیقت کے منافی ہوگا۔

    اگر ہم یہاں شکست خوردہ مسلم لیگ ن کی کوتاہیوں پر نظر ڈالیں تو ایک طویل فہرست نظر آتی ہے مختصراً یہ کہ ن لیگ جو سابق وزیراعظم نواز شریف کی برطرفی اور سزا کے بعد اینٹی اسٹبلشمنٹ اور ووٹ کو عزت دو کے ساتھ عمران خان کو "سلیکٹڈ” کے طعنے کا بیانیہ لے کر چلی تھی اور عوام بھی اس کی ہمنوا ہو رہی تھی بالخصوص پنجاب کی جس کا نمایاں اثر عمران دور حکومت میں اس بڑے صوبے میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں بھی سامنے آیا جب ن لیگ نے تواتر سے پی ٹی آئی کی حکومت کے باوجود ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی لیکن پھر رواں سال اپنے اسی بیانیے سے یوٹرن لیا اور اینٹی اسٹبلشمنٹ جماعت کے طور پر عوام میں اپنا امیج بنانے والی جماعت اسٹبلشمنٹ کے گن گانے لگی۔ ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ تو ن لیگ نے اس وقت ہی دفن کردیا جب اس نے وفاق میں اپنی حکومت قائم ہونے کے باوجود ہوس اقتدار میں پنجاب میں حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ بنانے کے لیے ووٹوں کو عزت دینے کے بجائے لالچ کے ترازو میں تولنا شروع کیا۔ ن لیگ نے یوں سب سے بڑے صوبے میں اپنی حکومت قائم کر لی جو اب ان نتائج کے مطابق صرف دو دن کی مہمان لگتی ہے۔ رہا سلیکٹڈ کا بیانیہ تو ن لیگ نے اس کو تار تار یوں کیا کہ مخالف کو سلیکٹڈ بولنے والی خود سلیکٹڈ بن گئی۔

    اگر صرف اتنا ہی ہوتا تو شاید نتیجہ یکسر مختلف نہ ہوتا تو کچھ بہتر ضرور ہوتا مگر نہ جانے کیا سوجھا کہ ن لیگ نے اپنی پرانی اس مقامی قیادت کو جو سالوں تک ان حلقوں سے الیکشن لڑ کر ایوانوں میں مسلم لیگ ن کا علم بلند کرتے رہے اور اپنے دیرینہ ووٹرز، سپورٹرز کو نظر انداز کرکے 20 میں سے 18 نشستوں پر پی ٹی آئی کے منحرف جنہیں اب ملک کے طول وعرض میں لوٹوں کے نام سے پہچانا جاتا ہے انہیں ٹکٹ دیا۔ جس نے پارٹی کی مقامی قیادت اور کارکنوں میں مایوسی کو جنم دیا اور یوں ن لیگ کے اپنے سیاسی یوٹرن اسے ہی لے ڈوبے جس کا اعتراف کئی ن لیگی رہنما کرچکے کہ عوام نے ن لیگ کو نہیں لوٹوں کو مسترد کیا ہے۔

    دوسری اہم وجہ ن لیگ اور ان کے اتحادیوں کا عمران حکومت کے دوران ہونے والی مہنگائی اور بدانتظامی پر شور مچانا تھا۔ جب یہ حکومت میں آئے تو عوام کی ان سے توقعات بجا تھیں کہ جن باتوں پر اس وقت کی اپوزیشن جماعتیں شور ڈالتی تھیں اب خود اقتدار میں اس کا تدارک کرتے ہوئے عوام کو کچھ ریلیف دیں گی۔ لیکن ہوا اس کے بالکل الٹ ریلیف کیا ملنا تھا الٹا عوام کو دن میں تارے دکھا دیے مہنگائی کی صورت میں۔

    ن لیگ کے قائد نواز شریف "علاج” کے لیے لندن میں ہونے اور پارٹی صدر شہباز شریف ملک کے وزیراعظم ہونے کے باعث انتخابی مہم کے لیے دستیاب نہ تھے اس لیے پنجاب ضمنی الیکشن کے لیے مہم چلانے کا تاج ایک بار پھر ن لیگ نے مریم نواز کے سر سجایا۔ یہ تیسری باری تھا جب انہیں یہ اہم ذمے داری ملی لیکن جس طرح انہوں نے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر الیکشن میں جلسے اچھے کیے لیکن ن لیگ کو ناکامی ملی اسی طرح پنجاب ضمنی الیکشن میں یہ تیسرا اسائنمنٹ بھی مریم نواز نے بری طرح سے ہار کر ثابت کردیا کہ وہ بڑا عوامی مجمع تو اکٹھا کرسکتی ہیں لیکن پولنگ کے دن ووٹر کو گھروں سے پولنگ اسٹیشن تک لانے کی صلاحیت ابھی ان میں کم ہے۔ ایک وجہ ان کا بیانیہ بھی رہا جو بدل کر انہوں نے "خدمت کو ووٹ دو” اسی دوران حمزہ شہباز بھی سرگرم رہے گوکہ وہ وزیراعلیٰ ہونے کی وجہ سے علی الاعلان تو انتخابی مہم کا حصہ نہ بنے لیکن وقتاً فوقتاً عوامی ریلیف کا اعلان کرتے ہوئے مریم نواز کا ہاتھ بٹانے کی ضرور کوشش کی صرف یہی نہیں بلکہ ایاز صادق، اویس لغاری سمیت کئی وزرا کو انتخابی مہم چلانے کے لیے مستعفی کرایا لیکن الٹی ہوگئی سب تدبیریں کچھ نہ استعفوں نے کام کیا کے مترادف نتائج حسب توقع نہ آسکے۔ ن لیگ نے جس طرح ان ڈھائی تین ماہ میں عوام کی خدمت کی تو عوام نے بھی ادھار نہ رکھا اور اس کا بھرپور جواب انہیں دے دیا۔

    کیونکہ پنجاب کے 20 حلقوں کے ضمنی الیکشن کی ذمے داری شریف خاندان کے ان ہی "بچوں” کے سر پر تھی تو ناکامی کے ذمے دار بھی یہ "بچے” ہی گردانے جائیں گے۔ اب ملک کی سیاست کس کروٹ بیٹھتی ہے یہ تو آنے والا وقت بتائے گا تاہم بلاگ تحریر کیے جانے تک 13 جماعتی حکومتی اتحاد نے یہ تو طے کرلیا تھا کہ اسمبلی اپنی مدت پوری کرے گی۔

    سیاسی تجزیہ کار پنجاب کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کی کامیابی کو 2018 کے عام انتخابات کی کامیابی سے بڑا مان رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ 2018 کے نتائج پر مخالفین کو اعتماد نہیں تھا لیکن یہ نتائج تو پی ٹی آئی کی تمام مخالف جماعتیں تسلیم کر رہی ہیں اسی کے ساتھ تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ اب حکومت کے پاس نئے الیکشن میں جانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہا کیونکہ عمران خان کے پاس ملک کا سب سے بڑا صوبہ آچکا ہے اور وہ جو پہلے ہی مزاحمت کی سیاست بھرپور انداز میں چلا رہے ہیں اب حکومت پر اپنا دباؤ مزید بڑھائیں گے۔

  • کراچی ہوا پانی پانی، سب نے سنائی اپنی کہانی

    کراچی ہوا پانی پانی، سب نے سنائی اپنی کہانی

    اس بار مون سون کا آغاز ہی کراچی جیسے بڑے شہر میں‌ بڑی بربادی اور نقصانات کا سبب بن گیا ہے اور اب محکمۂ موسمیات نے پیش گوئی کی ہے کہ سندھ کے مشرقی علاقے سے ایک اور سسٹم داخل ہوچکا ہے جو کراچی سمیت سندھ کے دیگر ساحلی اور جنوبی علاقوں میں تیز بارش کا سبب بن سکتا ہے۔

    ممکن ہے جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں تو ایک بار پھر کراچی پر رحمتِ خداوندی برس رہی ہو، جو متعلقہ اداروں کی غفلت اور کوتاہیوں کی وجہ سے زحمت بننے میں دیر نہیں لگاتی۔ یعنی اب سب ہی برسات کے "مزے” اور آفٹر شاکس اور آفٹر شاکس کا مزا چکھنے والے ہیں آفٹر شاکس اس لیے کہا کہ ہمارے ہاں بارش جو تباہی لاتی ہے اس کے آفٹر شاکس کئی روز بعد تک محسوس کیے جاتے ہیں۔ ویسے محکمہ موسمیات کی موسم کی پیشگوئی اور شیخ رشید کی سیاسی پیشگوئی کا ایک ہی حال ہے کہ پوری ہوگئی تو ہم نے کہا تھا نا، نہ ہوئی تو پھر ” جو اللہ کو منظور، میں کی کراں یا سانوں کی” کی صورتحال ہوتی ہے۔ بہرحال یہاں بات ہو رہی تھی بارش کے ایک اور طوفانی سسٹم کے کراچی میں آنے کی تو یہاں ایک ہی سسٹم نے پہلے ہی کراچی والوں کی سانسیں اوپر چڑھا دی ہیں بلکہ کئی علاقوں میں تو عوام کو چھتوں پر چڑھا دیا کہ نیچے تو ہر طرف پانی ہی پانی کا راج تھا بلکہ کئی علاقوں میں اب تک اس کا راج باقی ہے یہ الگ بات ہے کہ متعلقہ اداروں کی غفلت سے یہ رحمت کروڑوں شہریوں کے لیے زحمت بن گئی اور اب اس زحمت سے سخت تعفن بھی اٹھنے لگا ہے اور روشنیوں کا شہر کہلانے والے شہر کراچی کے باسیوں کی حالت اس وقت اس شعر میں ڈھلی نظر آرہی ہے۔

    آسماں کچھ بھی نہیں اب تیرے کرنے کے لیے
    میں نے سب تیاریاں کرلی ہیں مرنے کے لیے

    اس بار کراچی میں عیدالاضحیٰ کا چاند نظر آتے ہی برسات نے بھی ٹھانی کہ میں بھی عید کراچی میں ہی مناؤں گی نہ جانے اس کو کس نے کہہ دیا تھا کہ کراچی والے بڑے دریا دل ہیں اور عید کو بڑے اچھے انداز میں مناتے ہیں اس لیے شاید اس نے اس بار عید کو کراچی میں گزارنے کے ساتھ کراچی کو حقیقی معنوں میں دریا بنانے فیصلہ کیا اور اس حوالے سے اپنی دریا دلی دکھا ہی دی۔ ویسے کچھ سالوں سے عید کے موقع پر رم جھم ہوتی رہتی ہے لیکن اس بار برسات پوری تیاری سے عید منانے کراچی آئی اتنی تیاری کہ اس سے نمٹنے کیلیے حکومت سندھ اور متعلقہ اداروں کی اعلان کردہ یا خود ساختہ تیاریاں کم پڑگئیں۔

    شہر قائد کے گلی محلوں میں جیسے جیسے گائے اور بکروں کی تعداد بڑھتی گئی اسی رفتار سے بارش بھی بڑھتی چلی گئی، یوں تو محکمہ موسمیات نے یکم جولائی سے ہی شہر میں تیز بارشوں کی پیشگوئی کر رکھی تھی لیکن ابتدائی تین چار روز تک شہری بارشوں کا انتظار کرتے رہے۔ شاید بارش کی اس شہر میں عید منانے کیلیے آنے کے لیے تیاریوں میں کچھ کمی تھی اس وجہ سے چار دن کی تاخیر ہوگئی جس کی وجہ سے لوگ محکمہ موسمیات کی پیشگوئی کو "شیر آیا، شیر آیا” والی کہانی سمجھنے لگے، تاہم پھر جب شیر آیا (معذرت کے ساتھ یہ سیاسی شیر نہیں) تو پھر اس کی دست بُرد سے شہر کا کوئی علاقہ محفوظ نہیں رہا۔

    شہر قائد کے پوش علاقے ڈیفنس، کلفٹن، ڈی ایچ اے ہوں یا متوسط علاقے صدر، نارتھ کراچی، گلشن اقبال، گلستان جوہر، طارق روڈ، شاہراہ فیصل یا پھر غریب علاقے بارش نے حکمرانوں کی طرح نوازنے میں امیر اور غریب نہیں کیا اور بغیر کسی تفریق کے سب کو فیض یاب کیا اور ایسا فیض یاب کیا کہ سمندر کنارے آباد بستیوں کے مکینوں کو تو یہ فرق کرنا مشکل ہوگیا کہ کہاں ساحل ختم ہورہا ہے اور کہاں سمندر شروع ہورہا ہے اور ہمیں علامہ اقبال یاد آگئے اپنے اس شعر کی صورت میں کہ

    ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز
    نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز

    کیماڑی، سولجر بازار، ناظم آباد، کورنگی، اورنگی ٹاؤن، سرجانی ٹاؤن، فیڈرل بی ایریا، لیاقت آباد، سائٹ ایریا، انڈسٹریل ایریا، سعدی ٹاؤن سمیت شہر کی ہر سڑک دریا بن گئی جہاں کشتی کے بجائے لوگوں کی گاڑیاں تیرتی نظر آرہی تھیں۔ بارش خیر سے آگئی لیکن خیر سے گئی نہیں بلکہ تباہی اور بربادی کی کئی داستانیں رقم کرگئی لیکن اس میں بارش کا کوئی قصور نہیں کیونکہ اس کا کام تو برسنا ہے۔ قصور تو ان کا ہے جو ذمے دار ہیں یعنی حکومت اور اس کے ماتحت بارش سے نمٹنے والے بلدیاتی ادارے، لیکن کیا انہوں نے اپنی ذمے داری پوری کی؟

    اس ملین ڈالر سوال کا جواب تو یکسر نفی میں ہی ہے۔ بھئی وجہ صاف ہے کہ بقرعید تھی اور عید تو اپنوں کے ساتھ اچھی لگتی ہے تو کراچی میں حکمرانوں یا متعلقہ اداروں کے افسران کا کون اپنا تھا جو وہ یہاں رہ کر عید مناتے اسی لیے تو وہ عید منانے اپنے اپنے آبائی علاقوں میں اپنے پیاروں کے پاس چلے گئے اور ان کے پاس ایک عذر بھی تھا کہ بارشیں تو ابھی بہت ہونی ہیں تو اس سے نمٹتے رہیں گے لیکن اگر بقرعید پیاروں کے بغیر گزر گئی تو پھر ایک سال بعد ہی آئے گی اور ایک سال کس نے دیکھا ہے شاید ہم اقتدار میں ہوں یا نہ ہوں، یا پھر اپنے اپنے عہدوں پر براجمان ہوں یا نہ ہوں تو سیاسی پروٹوکول کے ساتھ عید کی جتنی خوشیاں منانی ہیں منا لی جائیں۔

    تو جناب عید سے قبل شروع ہونے والی بارش دھواں دھار انداز میں عید کے ابتدائی دو ایام میں اس طرح برسی کہ کراچی ڈوبتا رہا اور اہل نظر تماشا دیکھتے رہے وہ بھی دور بیٹھ کر اپنوں میں تکے کباب کھاتے اور کھلاتے ہوئے یہ الگ کہ کراچی والوں کی اکثریت نے تکے کباب کھانے کے بجائے متعلقہ اداروں کی بے حسی پر خون کے گھونٹ پیتے ہوئے گزارا (قربانی کے جانوروں کا خون نہیں) اور جب یہ بھی ختم ہوگیا تو پھر صبر کے گھونٹ پی لیے اور سوچا کہ جو برسات کے باعث قربانی نہ کرنے کا ثواب نہیں لے سکے تو کیا ہوا صبر کا بھی تو بڑا ثواب ہے۔ جب کہ ان حالات میں ہمارے حکمراں تو اپنوں میں تکے بوٹیاں کھانے کے بعد لسی شسی یا پھر ستو پی کر سو رہے تھے چائے اس لیے نہیں پی کہ ایک ارسطو وزیر اس کے کم پینے کے نادر فوائد پہلے ہی بتاچکے تھے۔

    اس موقع پر حکمراں اور متعلقہ ادارے کے حکام تو غائب رہے لیکن برستی بارش کے شور میں ایک مدھم سا شور حکومت کی اتحادی ایم کیو ایم نے ضرور اٹھایا اور حکومت کو لتاڑا اور ساری ذمے داری حکومت پر ڈال کر خود کو بری الذمہ سمجھ لیا۔ جیسے کہ ہمارے صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے اپنے پارٹی سربراہ کی تقلید کرتے ہوئے فرمایا کہ جب بارشیں ہوتی ہیں تو سڑکوں پر پانی بھی آتا ہے۔ تو جناب یہ کوئی انکشاف نہیں سب کو پتہ ہے کہ جب بارش ہوتی ہے تو سڑکوں پر پانی آتا ہے اور جن کو پتہ بھی نہ تھا ان کو آپ کے قائد محترم بلاول بھٹو واضح طور پر باور کراچکے تھے کہ جب بارش آتا ہے تو پانی آتا ہے اور جب زیادہ بارش آتا ہے تو زیادہ پانی آتا ہے۔ لیکن پانی زیادہ آئے یا بہت زیادہ اس کو سڑکوں اور آبادی سے نکالنا حکومت وقت اور اس کے ماتحت ذمے دار اداروں کے فرائض منصبی میں شامل ہوتا ہے وہ کہاں گیا؟ لیکن یہاں تو صورتحال یہ کہ وزیراعلیٰ سندھ دوسرے دن ٹی وی اسکرینز پر جلوہ افروز ہوئے کچھ اپنی کہی بلکہ صرف اپنی ہی کہی اور پھر نکلے شہر کے دورے پر جس کے بارے میں کئی لوگوں نے آرا دی کہ وزرا اور ایڈمنسٹریٹر صرف ان علاقوں کا دورہ کرتے ہیں جہاں پانی اتر جاتا ہے۔ بات شرجیل انعام میمن کی ہورہی تھی جنہوں نے کراچی ڈوبنے کی وجہ بادل پھٹنا قرار دیا اور محکمہ موسمیات کی ذمے داری نبھاتے ہوئے اعداد و شمار بھی گنوائے ساتھ ہی کہا کہ کراچی میں برسات کے دوران ہونے والی قیمتی جانوں کے ضیاع کی ذمے دار کے الیکٹرک ہے۔ لیکن پولیس ریکارڈ کے مطابق کراچی میں بارشوں کے دوران 20 افراد جان کی بازی ہارے ان میں سے 13 اموات کرنٹ لگنے سے ہوئیں تو بقیہ سات زندگیوں کو موت کا تحفہ کس کا انعام ہے؟

    بارشیں رکے دو دن ہوگئے اور یہ ابر رحمت اب پھر دستک دے رہی ہے لیکن شہر قائد کا حال یہ ہے کہ امجد اسلام امجد نے کہا ہے کہ

    محبت ایسا دریا ہے
    کہ بارش روٹھ بھی جائے
    تو پانی کم نہیں ہوتا

    تو یہی حال کچھ اس وقت عروس البلاد کہلانے والے شہر کراچی کا ہے لیکن اس کا یہ حال اس سے "محبت” کے دعویداروں نے کیا ہے یقین نہ آئے تو گھر سے نکلیں اور دیکھ لیں پھر چاہے صدر ہو یا گرومندر، کورنگی ہو یا انڈسٹریل ایریا، اورنگی سائٹ ہو یا مضافاتی علاقے کئی علاقے حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھاتے نظر آئیں گے۔

    قصہ مختصر بارشیں، پھر بارشیں اور پھر بارشیں، لہذا عوام حکومت کے آسرے پر نہ رہے جو کہ پہلے بھی کم ہی رہتی ہے اور ہمارا مشورہ ہے کہ اپنے لیے حفظ ماتقدم کے طور پر اقدامات کر لے اب چاہے تو چھت پر ہی تمبو وغیر باندھ لے یا پھر جو اس کی سمجھ میں آئے کرلے کہ جن کا کام ہے ان سے تو کچھ ہو نہیں رہا ہے ہمارا تو یہ حال ہے کہ زہرہ نگاہ کے ایک شعر میں معمولی تبدیلی کے بعد یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ

    نہیں نہیں، ہمیں اب تیری جستجو بھی نہیں
    تجھے بھی بھول گئے ہم اپنی خوشی کیلیے

  • پاکستان قوم کےلیے "دھرتی ماں” تو مسلم لیگ ن "نانی اماں”؟

    پاکستان قوم کےلیے "دھرتی ماں” تو مسلم لیگ ن "نانی اماں”؟

    یہ عنوان پڑھ کر قارئین اپنا رخ کہیں اور نہ کریں کیونکہ یہ رشتہ ہم نے نہیں بلکہ جانے انجانے میں مسلم لیگ (ن) کے ہی ایک رہنما احسن اقبال جنہیں ان کے ایسے ہی نادر افکار اور خیالات کی بنا پر قوم ارسطو مان چکی ہے، نے جوڑا ہے۔

    وفاقی وزیر احسن اقبال نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ (ن) پاکستان کی ماں ہے۔ یہ شاید ان کا اُسی طرح کا سیاسی رنگ لیے فلسفیانہ بیان ہے جب انہوں نے قوم کو چائے کم پینے کا نادر مشورہ دیا تھا۔ بہرحال احسن اقبال کے اس انکشاف نے قوم کو مخمصے میں ڈال دیا ہے کیونکہ پوری قوم تو اب تک یہی سمجھتی رہی کہ پاکستان بنانے والی جماعت بغیر کسی ن، م، ش، ض، ق کے صرف مسلم لیگ ہی تھی جس کی مخلص لیڈر شپ کی دن اور رات کی کاوشوں کی بدولت 1947 میں دنیا کے نقشے پر ‘اسلامی جمہوریہ پاکستان’ ابھرا۔

    وفاقی وزیر نے اپنے بیان کو سیاسی رنگ دیتے ہوئے کہا کہ "ن لیگ پاکستان کی ماں ہے اور ماں کبھی بھی اپنے بچے کو قتل ہوتا نہیں دیکھ سکتی اسی لیے ن لیگ نے سیاسی ساکھ داؤ پر لگا کر پاکستان بچانے کی سیاست کی ہے۔” ان کے اس "انکشاف” نے قوم کو تو حیرت میں ڈالا ہی لیکن تاریخ کا دھارا موڑنے کی بھی ایک "بے ضرر” سی کوشش کی ہے۔ پاکستانی چاہے وہ بڑھاپے میں ہو یا جوان یا پھر بچے سب ہی قائداعظم محمد علی جناح والی مسلم لیگ کو پاکستان کی بانی جماعت اور قائداعظم کے ساتھ ان کے رفقائے کار کو بانیان پاکستان مانتے آئے ہیں لیکن اس تازہ ترین "انکشاف” پر ہماری تاریخ بھی انگشت بدنداں رہ گئی ہے۔

    جب احسن اقبال نے قوم کے کانوں میں یہ رس گھولنے کی سعی کی ہے تو ہم بھی قوم بالخصوص نونہالان وطن کو جو قیام پاکستان اور مسلم لیگ کی تاریخ سے زیادہ واقف نہیں ہیں، مسلم لیگ کی تاریخ کا مختصر احوال بتاتے ہیں‌ کہ مسلم لیگ کیا تھی، کیا ہے؟ اور کیا ملک میں اس وقت موجود نصف درجن مسلم لیگوں میں کوئی اصل مسلم لیگ بھی ہے؟ جو ملک اور قوم سے مخلص ہو۔

    مسلم لیگ 1906 میں قائم ہوئی جس کا مقصد مسلمانوں کے سیاسی، معاشی اور سماجی حقوق کا تحفظ تھا۔ 1937 کے انتخابات میں کانگرس کو فتح ہوئی اس نے ہندوستان کے تمام صوبوں میں حکومتیں قائم کرلیں۔ ہندوؤں کا مسلمانوں کیخلاف عملی تعصب کھل کر سامنے آگیا تو مسلمان اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق محفوظ نہیں۔ قائداعظم نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر مسلمانوں کا مقدمہ کامیابی سے لڑا۔ 23 مارچ 1940 کو لاہور میں مسلم لیگ کے اجلاس میں قرارداد لاہور منظور ہوئی جسے بعد میں قرارداد پاکستان کا نام دیا گیا۔ 1945-46 کے انتخابات میں مسلمانوں نے علیحدہ اور آزاد وطن (پاکستان) کے حق میں ووٹ دیے اور مسلم لیگ نے واضح اکثریت حاصل کرلی۔ 14اگست 1947 کو پاکستان معرض وجود میں آگیا۔ قائداعظم پاکستان کے پہلے گورنر جنرل اور لیاقت علی خان پہلے وزیراعظم بنے۔ پاکستان سے مخلص دونوں رہنما جلد قوم کو داغ مفارقت دے گئے جس کا خمیازہ پاکستان اور اس کی قوم آج تک بھگت رہی ہے۔
    یہ تھی اصل مسلم لیگ جس کی قیادت اپنی ذات یا خاندان سے نہیں بلکہ صرف اور صرف پاکستان اور قوم سے مخلص تھی لیکن جب یہ دونوں بڑے لیڈر دنیا سے رخصت ہوئے تو مسلم لیگ کی حیثیت اس تڑپتی اور سسکتی روح کی طرح ہوگئی جس کے گرد گدھ منڈلانے لگے کہ کب یہ ختم ہو اور وہ اس کے حصے بخرے کریں مسلم لیگ کی روح تو ختم ہوگئی لیکن گدھوں نے اس کے اتنے حصے بخرے کیے کہ بانیان پاکستان کی روحیں بھی اپنی مسلم لیگ کا یہ حال دیکھ کر تڑپ اٹھی ہوں گی۔

    قیام پاکستان کے بعد تو صورتحال یہ ہوئی جو آیا وہ اپنی مسلم لیگ بناتا اور اس کے آگے ن، ق، ض، ف و دیگر حرف تہجی لگاتا گیا۔ اتنی برق رفتاری سے مسلم لیگیں بنیں کہ قوم کو یہ خدشہ ہونے لگا کہ اگر مسلم لیگوں کی پیدائش اسی رفتار سے جاری رہی تو شاید اردو کے سارے حرف تہجی ختم ہوجائیں گے لیکن ساتھ یہ فکر بھی کہ اگر پھر نئی مسلم لیگ وجود میں آئی تو وہ کس حرف کا لاحقہ لگائے گی۔

    اب تاریخ پاکستان مسلم لیگ کے بارے میں کیا کہتی ہے اس کے بارے بھی جان لیں۔ 1962 میں پاکستان کی بانی اصل مسلم لیگ کے بطن سے پاکستان مسلم لیگ کنونشن کے نام سے جنم لیا جو اس وقت کے سربراہ مملکت فیلڈ مارشل ایوب خان کے صدر بننے کے بعد تشکیل دی گئی۔ اسی دوران کچھ سال کے وقفے سے کونسل مسلم لیگ کے نام سے ایک نئی لیگ وجود میں آئی۔ اس کے کرتا دھرتا اس وقت کے صدر ایوب خان کے مخالف سیاسی رہنما تھے۔ صدر ایوب کے اقتدار سے رخصت ہونے کے بعد یہ کونسل مسلم لیگ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی اور قوم ایک نئی جماعت پاکستان مسلم لیگ قیوم سے آشنا ہوئی جو خان عبدالقیوم خان کی تشکیل کردہ جماعت تھی اور 1970 کے عام انتخابات سے قبل یہ معرض وجود میں آئی۔ 1973 میں مسلم لیگ کنونشن اور مسلم کونسل کا انضمام ہوا تو پھر ایک نئی مسلم لیگ وجود میں آئی اور پیر پگارا کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا۔

    پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں مسلم لیگ زیادہ پنپ نہ سکی لیکن ان کی حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کے بعد اس وقت کے آرمی چیف اور صدر مملکت ضیا الحق نے پیپلز پارٹی کے مقابل ایک نئی جماعت کھڑی کرکے اس کا راستہ روکنے کیلیے مسلم لیگ کو دوبارہ زندہ کرکے اس کٹھ پتلی جماعت کی ڈوریاں اپنے ہاتھ میں رکھ لیں۔

    ضیاالحق کے اقتدار میں آتے ہی ادھر اُدھر ٹکڑوں میں بکھری تمام مسلم لیگوں کو متحد کیا گیا اور محمد خان جونیجو کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا جس کے بعد پیر پگارا نے 1985 میں مسلم لیگ فنکشنل کے نام سے ایک نئی مسلم لیگ تشکیل دی جو مشرف دور میں مسلم لیگ میں ضم ہوئی لیکن یہ انضمام زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکا اور پیر پگارا کی مسلم لیگ پاکستان کے سیاسی میدان میں ایک بار پھر مسلم لیگ فنکشنل کے نام سے فنکشنل ہوگئی۔

    1984 کے ریفرنڈم کے بعد ضیا الحق ملک کے صدر بن گئے تھے جس کے بعد ریفرنڈم میں حمایت کرنے والی جماعت کو 1985 کے عام انتخابات کے دوران ایک نئی مسلم لیگ کے روپ میں میدان میں اتارا گیا گوکہ وہ انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر ہوئے تھے لیکن موجودہ مسلم لیگ ن اور اس کے بطن سے نکلنے والی دیگر جماعتوں کی بنیاد وہی 1985 کے الیکشن ہیں جس کے نتیجے میں محمد خان جونیجو نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا اور نواز شریف نے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی وزارت اعلیٰ۔

    بھٹو کے شدید مخالف ہونے کے باعث نواز شریف جلد ہی ضیاالحق کے چہیتوں میں شامل ہوگئے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ مرحوم صدر انہیں اپنا منہ بولا بیٹا اور نواز شریف انہیں سیاسی باپ کہتے بھی نہ کتراتے اور جب کوئی سیاہ سفید کے مالک حکمراں کا منہ بولا بیٹا بن جائے تو پھر وہ کہاں رکتا ہے۔ لہذا نواز شریف نے 1988 میں اس محمد خان جونیجو کی مسلم لیگ کو خدا حافظ کیا اور فدا محمد خان کی تشکیل کردہ ایک نئی مسلم لیگ میں جنرل سیکریٹری کا عہدہ سنبھالا لیکن پھر اس مسلم لیگ کی سربراہی لے کر اس کو مسلم لیگ ن کا نام دیا۔ مسلم لیگ ن نے اسی نام سے الیکشن لڑا اور جیت کر تین بار اقتدار حاصل کرچکی اور چوتھی بار بغیر جیتے اقتدار کے مزے لے رہی ہے۔

    یہ درست ہے کہ موجودہ دور میں عوامی مقبولیت کے لحاظ سے پاکستان کے سیاسی افق پر مسلم لیگ ن ہی سر فہرست ہے لیکن اب بھی پاکستان میں مسلم لیگ کے کئی دھڑے ہیں جس میں سے کچھ سیاسی میدان میں سرگرم تو کچھ صرف تانگا پارٹی بنے ہوئے ہیں۔

    جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے 1999 میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد پاکستان کی سابقہ سیاسی روایات کے مطابق سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ ہوئی اور 2001 میں مسلم لیگ ن کے بطن سے پاکستان مسلم لیگ (ق) نے جنم لیا اور 2002 کے الیکشن جیت کر 5 سال اقتدار کے مزے لیے لیکن جنرل مشرف کے اقتدار سے رخصت ہوتے ہی اس سیاسی جماعت کا حجم بھی انتہائی تیزی سے سکڑ گیا۔ یہ جماعت آج بھی چوہدری شجاعت حسین کی سربراہی میں پاکستان کی سیاست میں فعال تو ہے لیکن اب سننے میں آرہا ہے کہ گھر کی ہانڈی بیچ چوراہے پر پھوٹنے والی ہے کیونکہ چوہدری برادران میں اختلافات منظر عام پر آچکے ہیں۔

    ان کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ (ض) جو سابق صدر ضیا الحق کے صاحبزادے اعجاز الحق کی مسلم لیگ ہے اور اس کی حیثیت سیاسی زبان میں تانگا پارٹی سے زیادہ نہیں اور خود اعجاز الحق بھی صرف وقتی سیاسی بیانات کی حد تک سیاست میں فعال ہیں تاہم ایک اور ون مین شو جماعت عوامی مسلم لیگ ہے جس کے سربراہ ہمارے شیخ رشید صاحب ہیں لیکن یہ تانگا پارٹی کے سربراہ ہونے کے باوجود اپنی مخصوص سیاسی صلاحیتوں کے باعث ” ہر جگہ ” قابل قبول ہوتے ہیں۔

    تو قارئین گرامی یہ تھا مسلم لیگوں کا حال اب اگر ارسطو کا خطاب پانے والے مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کے بیان کو حسن ظن رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو آج پاکستان میں کئی مسلم لیگ ہیں۔ اگر انہوں نے بھی ایسا ہی دعویٰ کردیا تو قوم سر پکڑ کر بیٹھ جائے گی کہ دھرتی ماں تو صرف ایک "پاکستان” ہے لیکن نانی اماؤں کا شمار ہی نہیں۔ اس لیے ہمارا ارسطو وزیر کو ایک ادنیٰ مشورہ ہے کہ وہ بیان دیتے وقت زبان کے ساتھ تاریخ کا بھی خیال کیا کریں کہ تاریخ زبان کی لغزش کو کبھی معاف نہیں کرتی۔

  • کیاموجودہ  حکومت بند گلی میں داخل ہوچکی  ہے ؟

    کیاموجودہ حکومت بند گلی میں داخل ہوچکی ہے ؟

    ڈھائی ماہ قبل اپریل میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد بڑے کروفر کے ساتھ 11 جماعتوں کا اتحاد حکومت میں آیا اور وزارت عظمیٰ کا تاج مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کے سر پر سجایا گیا یوں معاشی اور سیاسی طور پر ہچکولے کھاتے پاکستان کی ڈرائیونگ سیٹ مسلم لیگ ن کو دے دی گئی اور پھر حصہ بقدر جثہ کے مطابق وزارتوں کی تقسیم ہوگئی۔ لیکن ساجھے کی ہانڈی ہمیشہ بیچ چوراہے پر پھوٹتی ہے خاص طور پر سیاسی اور اقتدار کی سانجھے کی ہانڈی پھوٹنے کا دھماکا تو زیادہ تیز اور اثر انگیز ہوتا ہے کیونکہ سیاسی ساجھے داری میں نہ کوئی اصول ہوتے ہیں نہ ضوابط بلکہ صرف مفادات کو دیکھا جاتا اور اقتدار کے حصول کو ہی فوقیت دی جاتی ہے کہ یہی ہماری سیاسی تاریخ رہی ہے۔

    لگ بھگ کرکٹ ٹیم کے اراکین کے مساوی سیاسی جماعتوں کے اشتراک سے بنائی گئی حکومت کی کھچڑی جب بنی تھی تو وزیراعظم شہباز شریف کے سابقہ انتظامی تجربے کو دیکھتے ہوئے قوم کو امید تھی کہ وہ اپنے اس تجربے کو بروئے کار لاکر پاکستان کے عوام کے دکھوں کا مداوا کریں گے۔ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد حسب روایت شہباز شریف نے اپنے امور کی انجام دہی میں پھرتیاں بھی دکھائیں اور اتنی دکھائیں کہ ان کے اپنے ہی لوگوں نے اسے شہباز اسپیڈ کا نام بھی دیا۔ انہوں نے اپنے ابتدائی ایک ماہ کے اقتدار میں نصف درجن غیر ملکی دورے بھی کرلیے تھے جو بعد ازاں غالباً عوامی سطح پر تنقید کے باعث روک دیے گئے۔ اسی دوران انہوں نے کئی خوش کن اور دلربا قسم کے اعلانات بھی کیے لیکن جلد ہی ان سے اس طرح یوٹرن لیا کہ پوری قوم ان کی جانب سے خطاب دیے جانے والے "یوٹرن خان” کو بھولنے لگی، ویسے عدم اعتماد پیش کرتے وقت ہی ماہرین معاشیات سمیت سیاسی تجزیہ کاروں نے کہہ دیا تھا کہ تحریک کی کامیابی کی صورت میں جو بھی حکومت آئے گی اس کیلیے ملک چلانا آسان کام نہیں ہوگا۔

    موجودہ حکومت کی مشکلات تو شہباز شریف کے وزرات عظمیٰ کی مسند پر بیٹھتے ہی شروع ہوگئی تھیں کہ ہچکولے کھاتی ملکی معیشت کو سہارا دینے کیلیے جو فیصلے کیے گئے اس سے پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پستی عوام کی تو چیخیں ہی بلند ہوگئیں، دو ماہ کے دوران پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں لگ بھگ دُگنا کے قریب اضافہ، بجلی، گیس، سی این جی کی قیمتوں میں اضافے، بجلی کی بے پناہ لوڈشیڈنگ، آئی ایم ایف کی ایما پر تیار کیا گیا ظالمانہ بجٹ اور پھر منی بجٹ اور اس کے نتیجے میں شہباز کی اسپیڈ کی زیادہ تیزی سے بڑھنے والی مہنگائی نے عوام کو تو بے حال کیا لیکن حکومتی کیمپ میں بھی بے چینی بڑھی کیونکہ ملک میں متحرک اپوزیشن پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ عوام کے الزامات اور غصے کا تمام تر رخ حکومت کی جانب ہوگیا لیکن اس صورتحال میں جب کہ یہ گیارہ جماعتوں کی اتحادی حکومت ہے سارا عوامی ردعمل ن لیگ کے حصے میں آیا جب کہ دیگر جماعتیں جن میں بالخصوص پی پی پی اور جے یو آئی (ف) شامل ہیں تاحال خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں اور بجائے اس کے کہ وہ ان مشکل معاشی فیصلوں پر شہباز شریف کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتیں سوائے ایک آدھ بیان دینے کے کچھ نہیں کیا بلکہ ہنوز ایک ٹکٹ میں دو مزے لیتے ہوئے ن لیگ کی بے بسی کا تماشا دیکھ رہی ہیں۔

    بات صرف عوامی ردعمل اور اپوزیشن کے احتجاج تک ہوتی تو شاید شہباز حکومت کیلیے اتنی فکر کی بات نہ ہوتی لیکن گزشتہ ایک ہفتے کے دوران بظاہر حکومت مخالف عدالتی فیصلوں کے ساتھ حکومت کی اتحادی جماعتوں نے جس طرح سے شہباز حکومت کو آنکھیں دکھانی شروع کی ہیں اور کھلم کھلا اتحاد سے علیحدگی کی دھمکیاں بھی دے ڈالی ہیں اس سے حکومت کے مستقبل پر سوالیہ نشان سا لگتا محسوس ہوتا ہے۔

    یہ تو سب کو پتہ ہے کہ موجودہ حکومت عمران خان حکومت کے اتحادیوں ایم کیو ایم، بی اے پی اور آزاد اراکین کو اپنا ہمنوا کرکے بنائی گئی تھی اور اس کے لیے انہیں سبز باغ بھی دکھائے گئے تھے لیکن ان سبز باغوں کا اب تک وہی ہوا ہے جو اس سے قبل دکھائے گئے سبز باغوں کا ہوتا رہا ہے اور وہ جنہوں نے بڑی خوشی اور دعوؤں کے ساتھ اپنی سابقہ حلیف جماعت پی ٹی آئی پر وعدے پورے نہ کرنے کے الزامات عائد کرتے ہوئے سابقہ حکومت سے علیحدگی نئی حکومت سے وعدوں کے بندھن میں بندھ کر اپنا ایک اور نیا سیاسی سفر شروع کیا تھا اب وہی موجودہ حکومت کی وعدہ خلافیوں سے نالاں ہوکر اپنے پرانے آشناؤں کے دور کو اچھے لفظوں میں یاد کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اس سے بہتر تو عمران خان کی حکومت تھی اس میں انہیں فنڈز بھی ملتے تھے اور ان کی بات بھی سنی جاتی تھی۔

    اس سارے تماشے میں بات کریں ایم کیو ایم کی تو وہ اپنے بند دفاتر کی حوالگی اور دوبارہ کھولنے، لاپتہ افراد کی بازیابی کے ساتھ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق مکمل بااختیار بلدیاتی نظام کے مطالبے پر موجودہ حکومت کا حصہ بنی تھی، ابتدائی دو مطالبات شاید کسی سیاسی حکومت کے لیے پورا کرنا ممکن نہ ہوں لیکن تیسرا اور اہم ترین مطالبہ بااختیار بلدیاتی نظام پر پی پی پی نے اب تک ایم کیو ایم کو لالی پاپ ہی دیا ہے اور ایم کیو ایم یہ لالی پاپ کھا کھا کر اتنا تنگ آچکی ہے کہ اس نے مزید یہ لالی پاپ کھانے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے نتائج سے ایم کیو ایم کی آنکھیں کھل گئی ہیں اور رواں ماہ دوسرے مرحلے میں کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اگر پی پی کی یہی روش رہی تو ایم کیو ایم کو خطرہ ہے کہ دونوں بڑے شہروں کی میئر شپ سے اسے ہاتھ دھونا پڑسکتا ہے جس کا اظہار پی پی پی کے صوبائی وزیر سعید غنی بھی یہ دعویٰ کرکے کرچکے ہیں کہ اگلا میئر کراچی پی پی پی کا ہوگا۔

    ایم کیو ایم اور پی پی کے معاہدے میں ضمانتی شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن تھے لیکن وہ بھی اپنا موثر کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں جس کے باعث ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی زبان بھی تلخ ہوتی جارہی ہے۔ عوامی سطح کے بعد اب ایم کیو ایم کی حکومت کے خلاف آواز ایوان میں بھی بلند ہونے لگی ہے اور اسمبلی کے فلور پر حکومت سے علیحدگی کی کھلے لفظوں میں دھمکی دے چکی ہے حکومت سے صرف ایم کیو ایم ہی ناراض نہیں بلکہ ن لیگ کی ہم پیالہ اور ہم نوالہ بنی جے یو آئی (ف) بھی پریشان ہے، بالخصوص سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے یکطرفہ نتائج اور کھلے عام دھاندلیوں کی بازگشت پر وفاقی حکومت کی پراسرار خاموشی نے اس کے اشتعال میں اضافہ کردیا ہے۔

    جمعیت علمائے اسلام (ف) جو اطلاعات کے مطابق پہلے ہی مولانا فضل الرحمٰن کو صدر بنانے کے وعدے سے مُکر جانے پر اتحاد کی بڑی جماعتوں سے نالاں تھی سندھ کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے ان پر جلتی پر تیلی کا کام کیا ہے اور اس نے دو ووٹوں کی بیساکھی پر کھڑی شہباز حکومت کو اتحاد سے نکلنے کی دھمکی دیدی ہے۔

    مولانا فضل الرحمٰن کے دست راست تصور کیے جانے والے جے یو آئی کے رہنما مولانا راشد سومرو نے پی پی پر سندھ میں بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے واضح طور پر مطالبہ کیا کہ وزیراعظم شہباز شریف سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں پی پی کی من مانیوں، مبینہ دھاندلیوں اور اپنے اتحادیوں سے روا رکھے جانے والے سلوک کا نوٹس لیں اگر انہوں نے اس پر خاموشی اختیار رکھی تو وہ اتحاد کی بیساکھی واپس لینے پر مجبور ہوں گے، راشد سومرو نے صرف شہباز شریف کو ہی تنبیہہ نہیں کی ہے کہ بلکہ اپنے قائد فضل الرحمان سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ حکومتی اتحاد سے علیحدگی کا فیصلہ کریں۔

    شہباز حکومت کی ایک اور اتحادی بی اے پی اور آزاد رکن اسلم بھوتانی بھی حکومت کے خلاف کھل کر میدان میں آگئے ہیں ایک جانب انہوں نے قومی اسمبلی میں اپنے خدشات اور حکومت کی بے وفائی کا کھل کر اظہار کیا تو دوسری جانب جب اس شور شرابے پر وزیراعظم نے انہیں ملاقات کیلیے بلایا تو وہاں بھی اطلاعات کے مطابق شہباز شریف کو کھری کھری سناتے ہوئے واضح کردیا کہ اگر یہی صورتحال رہی تو ان کا مزید حکومت کے ساتھ رہنا مشکل ہوگا۔

    اے این پی اراکین کی اکثریت تو حکومت سے علیحدگی کی رائے رکھتی ہے اس حوالے سے حتمی فیصلے کیلیے ایمل ولی نے عید بعد پارٹی کا اہم اجلاس بلا لیا ہے۔

    اس دوران حکومتی اتحادیوں کے اختلافات دور کرانے کیلیے آصف زرداری بھی میدان میں اترے جب کہ مولانا فضل الرحمٰن نے بھی وزیراعظم سے ملاقات کی ہے تاہم ان ملاقاتوں کے بھی کوئی حوصلہ افزا نتائج برآمد نہیں ہوسکے ہیں۔

    ناقابل برداشت مہنگائی، اپنوں کی بیوفائی کے ساتھ ہی عدالتی فیصلوں نے بھی شہباز شریف اور حمزہ کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے پہلے الیکشن کمیشن کو پنجاب اسمبلی کی پی ٹی آئی کی 5 مخصوص نشستوں کا فوری نوٹیفکیشن جاری کرنے اور پھر وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے ووٹوں سے پی ٹی آئی کے 25 منحرف اراکین کے ووٹ منہا کرکے فوری طور پر اگلے روز دوبارہ گنتی کرانے کے فیصلوں کے بعد سپریم کورٹ کی جانب سے 17 جولائی کو پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر ضمنی الیکشن کے بعد 22 جولائی کو وزیراعلیٰ پنجاب کا دوبارہ اںتخاب کرانے کا حکم دیدیا گیا ہے جس پر دونوں فریقوں یعنی پی ٹی آئی اور ن لیگ نے آمادگی ظاہر کی ہے۔

    شہباز حکومت جو پہلے ہی آئی ایم ایف کے بعد اتحادیوں کا دباؤ برداشت کر رہی ہے ایسے میں عدالتی فیصلوں نے اس کی پریشانی بڑھا دی ہے، اگر 17 جولائی کو ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی واضح کامیابی حاصل کرلیتی ہے تو وزیراعلیٰ پنجاب کے الیکشن میں حمزہ شہباز کی ہار یقینی ہوگی کیونکہ ایسی صورت میں پی ٹی آئی کی اکثریت ہوجائے گی اور حمزہ شہباز کیلیے وزیراعلیٰ پنجاب کا الیکشن جیتنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا اور اگر ایسا ہوا تو یہ پنجاب کے بعد تخت اسلام آباد کیلیے بھی اچھا شگون نہیں ہوگا کیونکہ یہ تو بادشاہوں کو معلوم ہی ہے کہ اگر تخت اسلام آباد پر براجمان رہنا ہے تو پھر تخت لاہور کو قبضے میں رکھنا ہوگا۔

    اس تمام صورتحال میں اگر کوئی خوش ہے تو وہ ہے پی ٹی آئی جو اقتدار سے جانے کے بعد سے سڑکوں پر ہے اور لوگوں کی بڑی تعداد نے اب تک عمران خان کی اپیل پر متعدد بار گھروں سے باہر آکر اور احتجاج کرکے ثابت بھی کردیا ہے کہ عوام کیا سوچ رہے ہیں؟ گوکہ 25 مئی کو اسلام آباد دھرنے کا منصوبہ نامکمل رہنے کے بعد پی ٹی آئی کی احتجاجی سیاست میں کچھ ٹھہراؤ آیا تھا تاہم ایک ہفتے سے بدلتی صورتحال نے نئے مواقعوں کو جنم دیا ہے اور عمران خان نے ایک بار پھر سیاسی میدان گرم رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کا مظاہرہ گزشتہ ماہ مہنگائی کے خلاف ہونے والے پی ٹی آئی کے ملک گیر احتجاج اور گزشتہ روز اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں مہنگائی کیخلاف ہونے والے بھرپور احتجاج سے ہوگیا ہے اور ان دونوں ایونٹس میں پی ٹی آئی نے بھرپور عوامی شو سے ثابت کردیا ہے کہ فی الوقت وہ ملک کے سب سے بڑے مقبول لیڈر اور عوام میں ان کا بیانیہ سب سے زیادہ پر اثر ہے۔

    تمام تر سیاسی صورتحال سے عوام کی بے چینی میں اضافہ ہورہا ہے لیکن اس وقت صرف عوام کی بے چینی میں ہی اضافہ نہیں ہورہا بلکہ مقتدر حلقوں اور بند کمروں میں بھی کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے جس کا جلد یا بدیر کوئی نہ کوئی نتیجہ برآمد ہونا ہے۔

  • شہباز حکومت کے شاہانہ انداز اور عوام سے ڈومور کے مطالبات

    شہباز حکومت کے شاہانہ انداز اور عوام سے ڈومور کے مطالبات

    مثل مشہور ہے کہ "اندھوں میں کانا راجا ہوتا ہے۔” شاید اندھوں کی بستی میں یہی بہتر آپشن ہوتا ہو۔ ہم اپنے وطنِ عزیز کی بات کریں تو پاکستان کے عوام کو تو اکثر بے حس راجا (حکمراں) ہی ملے ہیں جنہیں عوام سے زیادہ اپنا خیال رہا ہے، اس مثل کو دیکھتے ہوئے کہیں تو یہ سوچ ابھرتی ہوگی کہ پاکستان میں بستے عوام کو بھی کوئی کانا راجا مل جاتا تو شاید بہتر ہوتا۔

    مہنگائی، مہنگائی، مہنگائی کی چیخ پکار کرنے والے جب اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے تو ” امید پر دنیا قائم ہے” کے مصداق غربت کی ماری عوام نے بھی ایک امید باندھی کہ زیادہ کچھ نہیں بس اتنا ہو کہ وہ سکون سے اپنے اہلخانہ کی کفالت کرسکیں۔ دو ماہ کی حکومت نے ایک ماہ کی ادھر ادھر تاکا جھانکی کے بعد جس طرح اپنی کارکردگی کی رونمائی کرائی اس نے تو غریب عوام کے چودہ طبق ہی روشن کردیے۔

    عوام کی فلاح و بہبود کے لیے حکومت کی کارکردگی کی داستانیں تو لوگ روز ہی ٹی وی چینلز پر دیکھ اور اخبارات میں پڑھ رہے ہوں گے اس لیے اس پر کیا بات کریں کہ بات پھر وہی ہوگی کہ قارئین پڑھ کر کہیں گے کہ ‘دل جلانے کی بات کرتے ہو’ تو ہم تو اپنے ایک بزرگ سیاسی رہنما کے اس قول ‘ مٹی پاؤ اور روٹی شوٹی کھاؤ’ کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے ہر اس بات سے صرف نظر کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ جس سے دل جلے لیکن کیا کریں کہ اب تو حالات صرف ‘مٹی پاؤ’ میں مقید ہو کر رہ گئے ہیں اور روٹی شوٹی کھانے کا معاملہ تو لگتا ہے کہ حالات ایسے ہی رہے تو غریب کے لیے روٹی شوٹی کھانے کی عیاشی بھی عید کے چاند کی طرح ہو جائے گی، کیونکہ جب بجلی، گیس، پٹرول سمیت سب کے دام اقبال کے شاہیں (جسے شہباز بھی کہا جاتا ہے) کے پر لگا کر ان کے شعر کے اس مصرع ” تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر” پر عمل کرتے ہوئے پہاڑ کیا آسمان دنیا عبور کرکے پتہ نہیں کہاں تک جا پہنچے ہیں اور سنا ہے ان کی قوت پرواز ابھی باقی ہے تو پھر ہمیں واقعی "شہباز اسپیڈ” یعنی شاہین کی قوت پرواز کو داد دینے کو جی چاہتا ہے۔

    بلاگ لکھنا تو کسی اور موضوع پر تھا لیکن قلم بہک کر دوسری سمت چلا گیا چلیں اس کو رام کرکے ہم راہ راست پر لانے کی کوشش کرتے ہیں کہ حکمرانوں کی نظر میں تو ملک کے عوام کو روٹی چٹنی کھانے کی عیاشی کا بھی حق نہیں لیکن وہ جو چاہیں کرتے پھریں ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

    بدترین معاشی بحران کا شکار پاکستان جس کا رونا ہمارے موجودہ حکمران روتے رہتے ہیں، لیکن اس ملک کے حالات بدلنے کیلیے کتنے مخلص ہیں اس کا اندازہ گزشتہ ایک ماہ میں میڈیا میں آنے والی ان رپورٹس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اپنے کپڑے بیچ کر ملک کو سستا آٹا فراہم کرنے والے وزیراعظم اپنے کپڑے بیچ کر عوام کو سستا آٹا تو نہ دے سکے لیکن اسی عوام کے پیسوں میں سے کروڑوں روپے سے وزیراعظم ہاؤس میں پہلے سے موجود سوئمنگ پول کی مرمت کرائی گئی ہے جب کہ اسی پر بس نہیں بلکہ ایک اور خبر کے مطابق وزیراعظم ہاؤس مزید سجاوٹ بھی ہونی ہے اس کے لیے عوام کے خون پسینے کی کتنی کمائی استعمال ہوگی یہ تو آنے والا وقت ہی بتاسکے گا۔

    دوسری جانب دو ہفتوں میں تین بار دکھی دل کے ساتھ عوام پر پٹرول بم گرانے والے ہمارے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل بھی عوامی خزانے کی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والوں میں شامل ہوگئے ہیں، خبر کے مطابق مفتاح اسماعیل نے اپنے سرکاری گھر کی تزئین و آرائش کے لیے سرکاری خزانے سے 48 لاکھ روپے خرچ کیے ہیں۔

    ایک جانب عوام کے سب سے بڑے ہمدرد ہمارے حکمرانوں کے یہ شاہانہ انداز ہیں تو دوسری جانب ہمارے یہی وزیراعظم اور ان کے درباری وزرا عوام کو سادگی سے زندگی گزارنے کا درس دے رہے ہیں اور جس طرح امریکا اور آئی ایم ایف ہماری حکومت سے ڈومور ڈومور کا مطالبہ کرتے ہیں ہمارے حکمرانوں نے بھی اسی طریقے کو اپناتے ہوئے عوام سے ڈومور ڈومور کی رٹ لگا دی ہے۔

    اِدھر ہمارے وزیراعظم غریب کے بھوکے پیٹ کو بھرنے کے لیے ایک روٹی کو چار حصوں میں تقسیم کرکے مل بانٹنے کا نایاب فارمولا بتا رہے ہیں تو اُدھر وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال بیرونی قرضہ جات کی ادائیگی کے لیے بہترین منصوبہ بندی کرتے ہوئے عوام کو چائے کے دو کپ کم کرنے کا انمول مشورہ دے رہے ہیں، اسی دوران دربار شاہی کے دربانوں کی جانب سے آئے دن کچھ نہ کچھ ڈومور کا مطالبات پر مبنی بیانات آتے ہی رہتے ہیں۔ چلیں حکمرانوں کے ان نادر ونایاب مشوروں سے یہ تو ہوا ہے کہ کم از کم عوام کے دکھ بھرے چہروں پر ہلکی سی صحیح مسکراہٹ تو بکھری ہے کہ اس دور میں کسی کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنا بہت نیکی کا کام ہے اور ہمارے نیک حکمرانوں نے یہ نیک کام بخیر وخوبی اور ہنستے کھیلتے انجام دیا ہے۔ ویسے بھی صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے اور ہر کوئی اپنے پیاروں کو یہ میٹھا پھل کھلانا چاہتا ہے تو حکمرانوں کیلیے عوام سے پیارا تو کوئی نہیں ہے نا اسی لیے تو انہوں نے عوام کو صبر کرکے اس کا میٹھا پھل کھانے کی ترغیب دلائی ہے کیونکہ اصلی پھل تو اب بے چارے عوام کی دسترس میں رہے ہی نہیں ہیں۔ لیکن حکمرانوں کے اس لطیفہ نما مشوروں پر عوام کے چہروں پر آنے والی ہنسی کے پیچھے چھپی بے بسی کی ایک الگ کہانی ہے جس سے ہمارے حکمرانوں کو کوئی لینا دینا نہیں۔

    اب اگر ہمارے حکمرانوں نے عوام کو ایک روٹی کے چار ٹکڑے کرکے مل بانٹ کر کھانے کا درس دیا یا صبر کرکے چائے کی پیالی کم کرنے کا مشورہ دیا تو اس پر عوام کا غم وغصہ اور سوشل میڈیا پر شور بپا ہوگیا اور ہمارے ایک محترم وزیر کو ارسطو کا خطاب مل گیا (ویسے ہمارے حکمرانوں میں تو سارے ہی ارسطو ہیں) تو اس پر حکمرانوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کہ جب انہوں نے اپنی پیاری عوام کو اتنے پیارے مشورے دے ہی ڈالے تو پھر ” کیا ہے جو پیار تو پڑے کا نبھانا” کے حسب حال طنز تو برداشت کرنا پڑے گا کہ ان حالات میں عوام کی عیاشی کے صرف دو ذرائع تو رہ گئے ہیں کہ ایک روٹی اور دوسری چائے، جس سے لاکھوں غریب خاندانوں کا گھر بھی چل رہا ہے، اگر اس پر بھی قدغن لگ گیا تو پھر کیا ہوگا؟

    ویسے ارسطو وزیر نے یہ نہیں بتایا کہ ان کی کفایت شعاری کی یہ منصوبہ بندی پارلیمنٹ ہاؤس کے کیفے ٹیریا میں بھی لاگو کی جائے گی کہ پاکستان بھر میں مہنگائی کی مناسبت سے چائے کا کپ 40 سے 50 روپے میں دستیاب ہے لیکن پارلیمنٹ ہاؤس کے کیفے ٹیریا میں یہی مزیدار چائے سے بھرا کپ بازار سے کئی گنا کم قیمت میں ہمارے غریب اور مسکین اراکین پارلیمنٹ کو فراہم کیا جاتا ہے اور بات آئے روٹی کی تو غریب پارلیمنٹرین کی کینٹین میں اتنی سستی روٹی ہے کہ اگر حقیقی غریب عوام تک اس کا دروازہ کھول دیا جائے تو شاید وہ بددعائیں دینے کے بجائے حکمرانوں کو جھولی بھر بھر کر دعائیں دینے لگیں۔

    اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے سال 2021ء کے قومی انسانی ترقیاتی جائزے (این ایچ ڈی آر) میں بتایا گیا کہ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا تقریباً 6 فیصد حصہ اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات پر صرف ہوتا ہے۔ یہ رقم ساڑھے سترہ ارب ڈالرز کے لگ بھگ بنتی ہے۔ اسی پاکستان کے 9 کروڑ لوگ جو کہ مجموعی آبادی کا لگ بھگ 40 فیصد ہے اس وقت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔

    اس سروے رپورٹ کی عملی شکل ہمارے حکمرانوں اور اشرافیہ کو حاصل مراعات کی صورت میں ہمارے سامنے ہے اور دوسری جانب غربت کا نظارہ کرنا ہے تو اسی سے اندازہ لگا لیں کہ موجودہ حکومت کے دو ماہ کے اندر متعدد افراد نے غربت کے باعث اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرلیا ہے اور جو یہ نہ کرسکے تو اپنے بچوں کی کفالت نہ کرنے کا بوجھ دل پر لے کر تھانے گرفتاری دینے یا اسمبلیوں میں دہائی دینے خاندان سمیت پہنچ رہے ہیں لیکن انہیں کہیں ایسا در نہیں مل رہا جہاں ان کی شنوائی ہوسکے۔

    مسلمانوں کے دوسرے خیلفہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور حکومت میں کہا تھا کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا مرے گا تو اس کا ذمے دار عمر ہوگا۔

    ہمارے لیے رول ماڈل خلیفہ دوم کا یہ قول صرف کسی مخصوص زمانے کیلیے نہیں بلکہ رہتی دنیا تک کے حکمرانوں کیلیے ایک واضح تنبیہ ہے۔

  • بڑھتی ہو ئی  اسلام دشمنی، مسلم دنیا بھارت کو  کیسےلگام ڈالے؟

    بڑھتی ہو ئی اسلام دشمنی، مسلم دنیا بھارت کو کیسےلگام ڈالے؟

    آج ایک بار پھر منکر اسلام اور دشمنان رسول ﷺ کی یلغار ہوئی ہے وہ جو ہمیشہ سے ہی اسلام کو مٹانے اور عظمت رسول ﷺ کو نعوذ باللہ نشانہ بنانے کیلیے ناکام کوششوں میں مصروف رہتے ہیں وہ آج ایک بار پھر حملہ آور ہوئے ہیں اور یہ حملہ کسی یورپی یا مغربی ملک سے نہیں ہوا ہے بلکہ ہندو توا کی حامی مودی حکومت کے بھارت میں ہوا ہے-

    مغرب اور یورپی ممالک میں آزادیٔ اظہارِ رائے کے نام پر اسلام کی مخالفت اور برگزیدہ و مقدس ہستیوں سے متعلق توہین آمیز بیانات پر اسلامی ممالک بالخصوص پاکستان میں عوام کی جانب سے سخت ردعمل اور احتجاج کیا جاتا رہا ہے، لیکن یہ رُو سیاہ کبھی گستاخانہ خاکے، کبھی کسی برگزیدہ ہستی کی زندگی پر فلم بنا کر یا کوئی توہین آمیز بیان دے کر مسلمانوں میں اشتعال انگیزی پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں۔

    گزشتہ دنوں ناموسِ رسالت پر حملہ کرنے کی ناپاک جسارت بھارت میں ہندتوا کی حامی مودی کی جماعت کے اراکین نے کی تو پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک نے سخت ردعمل دیتے ہوئے بھارت سے سفارتی سطح پر احتجاج کیا۔

    بھارت میں مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کیا جارہا ہے اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی پالیسیوں نے بھارت میں مذہبی منافرت اور عدم برداشت کو ہوا دی ہے۔ ہندو انتہا پسند کبھی کسی مسجد کو ڈھانے پر تُل جاتے ہیں، کبھی مسلمانوں کے لیے گائے کا گوشت کھانے پر پابندی کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور کبھی حجاب کو مسئلہ بنا کر مسلمانوں کو بغض و عناد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بھارت میں‌ مسلمانوں کو معاشی اور ہر لحاظ سے پستی میں‌ دھکیلنے کی کوششیں‌ کی جارہی ہیں‌ اور انتہا پسند ہندوؤں کو بی جے پی کی خاموش حمایت حاصل ہے، لیکن اس مرتبہ جب بی جے پی کے دو اراکین کی جانب سے شانِ رسالت ﷺ میں توہین آمیز بیان دیا گیا تو بھارت اور دنیا بھر لگ بھگ دو ارب مسلمانوں اور تمام اسلامی ممالک نے مودی سرکار سے سخت احتجاج کیا ہے۔

    بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی ترجمان نوپور شرما اور نوین جندال کے یکے بعد دیگرے بیانات کے بعد بھارت اور دنیا بھر کے مسلمانوں نے یک زبان ہو کر ان کے خلاف سخت ترین کارروائی اور بھارتی حکومت سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے، جس دن سے یہ واقعہ ہوا ہے کسی نہ کسی سطح پر دنیا بھر میں احتجاج جاری ہے۔ خلیجی اور عرب ممالک سمیت پاکستان، بھارت، ایران، افغانستان، مصر، ترکی، بنگلہ دیش سمیت دیگر ممالک میں مسلمان غیرتِ ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے خلاف سڑکوں پر بھرپور احتجاج کررہے ہیں۔ یورپی، افریقی اور امریکا میں بھی جہاں جہاں مسلمان بستے ہیں، وہاں بھی مسلمانوں کی جانب سے احتجاج ہورہا ہے۔ بھارت کی بات کریں تو وہاں مختلف ریاستوں اور تمام بڑے شہروں میں مسلمان احتجاج کے لیے نکلے، لیکن ان پر پولیس ٹوٹ پری اور وحشیانہ تشدد کیا جس میں درجنوں مظاہرین زخمی اور متعدد جان سے گئے۔ پولیس نے کئی شہروں‌ میں نہ صرف مسلمانوں کو گرفتار کرکے ان پر بدترین تشدد کیا بلکہ ان پر جھوٹے الزامات میں مقدمات بنا کر گھروں کو بھی مسمار کردیا ہے۔

    پاکستان سمیت تمام عالمِ‌ اسلام نے بھارت سے احتجاج کرتے ہوئے مذمتی بیانات جاری کیے ہیں اور سعودی عرب، یو اے ای، ایران، قطر، بنگلہ دیش، ترکی و دیگر ممالک میں بھارتی سفیر کو طلب کر کے احتجاج کیا گیا ہے جب کہ اسمبلیوں میں بھی مذمتی قراردادیں منظور کی گئی ہیں۔

    دنیا بھر میں مسلمانوں اور اسلامی ممالک کا احتجاج اور دباؤ ہی ہے کہ مودی سرکار نے گھٹنے ٹیکتے ہوئے پہلے ان بدبختوں کی پارٹی رکنیٹ معطل کی پھر نوپور شرما اور نوین جندال کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے، لیکن مودی حکومت کی مسلمانوں سے نفرت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور بھارتی حکومت کی پالیسیاں اور کئی فیصلے ایسے ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ مودی کی حکومت ہندوتوا کو فروغ اور انتہا پسندوں کی سرپرستی کررہی ہے اور یہ سب بیرونی دباؤ پر کیا گیا ہے اور مقدمہ محض دکھاوے کی کارروائی ہے۔ جس کا ثبوت یہ بھی ہے اب تک وزیراعظم مودی اور ان کے تمام وزرا نے اس معاملے پر پراسرار خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ ویسے بھی مودی ہندوتوا کی حامی جماعت آر ایس ایس کے بانی اور تاحیات رکن ہیں اور ان سے مسلمانوں کی حمایت کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ لیکن یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا عوامی اور سرکاری سطح پر حالیہ احتجاج کے بعد بھارتی حکومت وہاں کے مسلمانوں کے خلاف اپنی روش ترک کر دے گی اور ان کو مذہبی آزادی کے ساتھ سماج میں اپنے حقوق اور تحفظ بھی حاصل ہو جائے گا؟

    بھارت میں توہین آمیز بیانات کے بعد عمان کے مفتیٔ اعظم کی جانب سے بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل کی گئی تھی جس پر وہاں سپر اسٹورز بھارتی مصنوعات سے خالی ہونے لگے تھے جب کہ سوشل میڈیا پر یہ کہا جا رہا تھا کہ خلیجی ممالک کی کمپنیاں بھارتی ملازمین کو فارغ کررہی ہیں، لیکن اس کی تصدیق نہیں ہوسکی۔

    یہ سب پہلی بار نہیں ہوا ہے اور ماضی قریب میں کبھی فرانس تو کبھی امریکا اور خود کو ترقی یافتہ و مہذب کہنے والے ممالک میں بدبختوں نے اسلام اور شانِ رسالت میں ہرزہ سرائی کی ہے جو اربوں مسلمانوں کی دل آزاری کے ساتھ دنیا کا امن تہ و بالا کرنے کا سبب بنا ہے۔

    ایک امریکی تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں‌ مسلمانوں کی بڑی تعداد حیران کن ہے اور اس رپورٹ کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ دنیا کا ہر چوتھا شخص مسلمان ہے اور بعض ماہرین کی تحقیقی رپورٹوں‌ کے مطابق 2050 تک اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہوگا۔ دنیا کے نقشے پر 57 اسلامی ملک موجود ہیں دنیا کے 10 بڑے آبادی والے ممالک میں اسلامی ملکوں کی تعداد 6 ہے، جن میں سے ایک ملک دنیا کی آٹھویں ایٹمی طاقت ہے، لیکن افسوس کہ اپنی پالیسیوں، مغرب اور یورپ کی کاسہ لیسی اور باہمی اختلافات کے باعث ان 57 ممالک کی حیثیت صرف کاغذی شیر کی سی ہے۔ آج کی دنیا پر اثر انداز ہونے کے لیے مسلمان ممالک کو مضبوط معیشت کے ساتھ علم بالخصوص سائنس اور ٹیکنالوجی میں مہارت کی ضرورت ہے۔ دنیا کو ہماری اس کمزوری اور علم و فنون کے میدان میں پستی کا علم ہے اور وہ اس کا فائدہ اٹھاتی ہے۔

    آج کی دنیا معیشت کی دنیا ہے، جس کی معیشت مضبوط اس کا ملک مضبوط۔ بھارت لگ بھگ دو ارب کی آبادی کے ساتھ دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے اور اس کی بڑی مارکیٹ ہی کسی بھی ملک کو بھارت کے خلاف کوئی اقدام کرنے سے روکتی ہے، آج بڑی تجارتی منڈی ہونے کی وجہ سے بھارت دنیا کی پہلی ترجیح ہے۔ اسلامی ممالک کے بھی بھارت سے معاشی مفادات وابستہ ہیں اگر ان واقعات کی روک تھام کرنی ہے تو پھر ان اسلامی ممالک کو اپنے وقتی معاشی فوائد کو نظرانداز کرکے بڑا فیصلہ کرنا ہوگا۔

    معاشی طور پر مضبوط اسلامی ممالک بالخصوص سعودی عرب بھارت کو تیل بیچنے والا سب سے بڑا ملک ہے دونوں ممالک کی ایک دوسرے کے ممالک میں بڑی سرمایہ کاری ہے اسی طرح یو اے ای اور بھارت بھی ایک دوسرے کے بڑے تجارتی شراکت دار ہیں، رواں برس ہی دونوں ممالک نے باہمی تجارت کو ایک سو ارب ڈالر سے آگے لے جانے کے لیے معاہدے پر دستخط کیے ہیں اسی طرح دیگر ممالک کے بھی تجارتی تعلقات ہیں۔

    یہاں یہ سب بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ معیشت صرف اسلامی ممالک کیلیے ہی نہیں بلکہ بھارت کے لیے بھی اہم ہے، ماضی میں جب ملائیشیا صرف اپنے صدر مہاتیر محمد کے دورہ برطانیہ کے موقع پر ان کا کارٹون برطانوی اخبارات میں شائع ہونے پر برطانیہ سے تجارتی تعلقات منقطع کرکے اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتا ہے، تو پھر بھارت سے تجارت کے رشتے میں بندھے اسلامی ممالک انفرادی حیثیت میں نہیں بلکہ متحد ہوکر اور متفقہ فیصلہ کرکے بھارت کو بھی اسلام دشمن اور توہین رسالت جیسے واقعات کی حتمی روک تھام اور توہین کے مرتکب افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے معاشی تعلقات ختم کرکے اسے اسلامی دنیا کے آگے گھٹنوں کے بل گرنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔

  • مفتاح اسماعیل کا قہقہہ اورعوام کی  دوڑ

    مفتاح اسماعیل کا قہقہہ اورعوام کی دوڑ

    عوام ابھی حکومت کی جانب سے خود پر دو بار’ پٹرول بم’ گرائے جانے اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے کے اعلان سے سنبھلی بھی نہ تھی کہ ہمارے وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کے ایک پُراسرار قہقہے نے انہیں‌ ایک بار پھر دوڑ لگانے پر مجبور کر دیا ہے۔

    وزیر کا قہقہہ اور عوام کی دوڑ کا آپس میں کیا تعلق ہے، یہ ہم ابھی واضح کر دیں گے۔ آج کے اس دور میں خالی پیٹ اور سوکھی جیب والوں کیلیے یہ نسبتاً دھیما قہقہہ بھی کسی بم سے کم ثابت نہیں‌ ہوا۔ مہنگائی کی اس چلچلاتی دھوپ میں عوام کو کچھ لمحے تو فرحت کے محسوس ہوتے ہیں، لیکن حکمرانوں کو شاید یہ بھی گوارا نہیں کہ غریب بلکہ ان کی نظر میں بھکاری عوام کچھ وقت چہرے پر مسکان ہی سجا سکیں۔ جبھی تو وزیر خزانہ نے ایک ایسا قہقہہ لگایا جس نے کراچی تا خیبر عوام کے ہونٹوں سے باقی ماندہ مسکان کیا چھینی بلکہ تفکر کی نئی لکیریں اور ڈال دیں جو پہلے ہی سے مارے ہوئے تھے ان کو "مرے کو مارے شاہ مدار” یا ” دس درے اور مارنے” کے مترادف مفتاح نے اپنے شاہانہ قہقہے سے نواز دیا، گو کہ اب تک اس قہقہے کی حقیقت یا خدوخال واضح نہیں ہوئے لیکن پہلے کے ڈسے عوام نے آؤ دیکھا نہ تاؤ صرف جیب میں پڑے چند روپے دیکھے اور پھر دوڑ لگا دی۔ اب پڑھنے والے اس الجھن میں ہوں گے کہ مفتاح اسماعیل صاحب نے ایسا کون سا قہقہہ لگایا جس پر عوام کی دوڑ لگ گئی۔

    تو جناب عالی یہ کوئی خالی خولی قہقہہ نہیں بلکہ اس میں پاکستانی عوام کی مزید کھال کھینچنے کا منظر نامہ پوشیدہ تھا، تھی تو اسلام آباد میں بزنس کمیونٹی کی تقریب اور وہاں موصوف نے حسب سابق انہیں اپنی دو ماہ پرانی مگر تاحال نئی نویلی دلہن کی طرح برتاؤ کرتی شہباز اسپیڈ حکومت کی کارکردگی اور سابق حکومت کی چھوڑی گئی پریشانیوں کی روداد سنانی تھی لیکن نہ جانے انہیں اس موقع پر عوام سے مذاق کرنے کی کیا سوجھی کہ پہلے مسکرائے بلکہ باقاعدہ قہقہہ لگایا پھر کہا کہ "پٹرول” تو سننے اور دیکھنے والے اس خوش فہمی کا شکار ہوئے کہ شاید حکومت کو عوام کا کچھ خیال آگیا ہے اور شاید ان کے لیے اس قہقہے میں کوئی خوشی کی خبر ہو لیکن حکمرانوں کے بارے میں خوش گمان عوام کے لیے اگلا لمحہ بڑا سنگین تھا جب ہمارے وزیر خزانہ نے اپنا جملہ پورا کیا کہ پٹرول ابھی تھوڑا اور مہنگا ہوگا اور یہ تھوڑا مہنگا تو سب کو پتہ ہے کہ شہباز اسپیڈ کی حکومت میں 30 روپے تھوڑا کم ہی اضافہ ہوتا ہے۔

    اب بھلا یہ بھی کوئی قہقہہ لگا کر بھری دوپہر میں سنانے والی بات تھی اچانک رات گئے ٹی وی پر آتے اور بم گرا دیتے، عوام نے ان کا کیا بگاڑ لینا تھا وہ پہلے سے ہی زخم خوردہ ہیں زیادہ سے زیادہ یہ ہونا تھا کہ ان کے زخموں پر مزید نمک چھڑک جاتا تکلیف بڑھتی پھر اللہ اللہ خیر صلّا، لیکن ہوا یہ کہ دن دیہاڑے اس حکومتی قہقہے نے عوام کو چوکنا کردیا اور انہوں نے پٹرول پمپوں کی طرف دوڑ لگا دی پمپس والے بھی حیران اور پریشان کہ ایسا کیا ہوگیا کہ عوام کا رش ٹوٹ پڑا، یہ منظر دیکھ کر عام شہریوں کو بھی تشویش ہوگئی۔ بعد میں‌ وزیر موصوف کو عوام کی اس بھاگ دوڑ کا علم ہوا تو ان کی جانب سے وضاحت کردی گئی اور کہا گیا کہ ایسا کچھ نہیں‌ ہونے جارہا اور ان کی بات کو غلط سمجھا گیا ہے۔

    خیر، اب بیچاری اس غریب عوام کو سمجھ میں آگیا ہے کہ جس طرح امریکا میں کوئی ڈنر مفت نہیں ہوتا اس طرح پاکستان میں سیاستدانوں بالخصوص حکمرانوں کے قہقہے بھی خالی خولی نہیں ہوتے ان میں بھی عوام کے لیے کچھ نہ کچھ ہوتا ہے تو پیارے عوام تیار رہیں کہ یہ پہلا قہقہہ ہے جو قہر بن کر عوام پر ٹوٹنے والا ہے دعا کریں کہ یہ آخری قہقہہ ہو ورنہ عوام فیض احمد فیض کو یاد کرتے ہوئے یہ گنگنانے پر مجبور ہوں گے۔

    یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
    وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں

  • پرانا پاکستان اور مہنگائی کا چڑھتا چاند

    پرانا پاکستان اور مہنگائی کا چڑھتا چاند

    گزشتہ رات تقریباً ساڑھے نو بجے کا وقت تھا عوام شام ہی کو بجلی کی قیمتوں میں بڑے اضافے کا خبر پاچکے تھے اور ابھی خود کو سنبھال ہی رہے تھے کہ اچانک ٹی وی اسکرین پر ہمارے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا چہرہ دکھائی دیا جنہوں نے ایک ہفتے کے دوران پٹرول کی قیمتوں میں دوسری بار 30 روپے فی لیٹر اضافے کا مژدہ سنا دیا اور یہ خبر ایسی تھی کہ ہر طرف ہلچل مچ گئی۔

    جس طرح 29 روزے مکمل ہونے کے بعد عشاء کی نماز تک عید کے چاند کا اعلان نہ ہونے پر لوگ قدرے پُرسکون ہونے لگتے ہیں کہ اچانک کہیں سے شہادتیں ملنے پر اگلے دن عید کی نوید سنائی جاتی ہے اور لوگ پھر اپنے سارے کام اور آرام چھوڑ کر نکل پڑتے ہیں تو ایسا ہی کچھ گزشتہ شب ہوا۔ جیسے ہی پٹرول کی قیمت میں اضافے کا اعلان ہوا تو عوام سمجھے کہ مہنگائی کی چاند رات ہوگئی ہے، اس لیے جو کھانا کھا رہا تھا وہ کھانا چھوڑ کر جو آرام کر رہا تھا وہ بستر سے اٹھ کر اور جو بیوی بچوں کے ساتھ خوش گپیاں کر رہا تھا وہ انہیں حیران و پریشان چھوڑ کر اپنی موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں لے کر پٹرول پمپس کی طرف نکل گیا۔ لیکن باہر نکلتے ہی شہر بھر کے اکثر پٹرول پمپ ایسے بند ملے کہ جیسے یہاں سے کورونا وائرس ہوکر گزرا ہو، شہر کے چند ایک پٹرول پمپس کھلے بھی ملے تو وہاں عید کی چاند رات پر مارکیٹوں میں پڑنے والا رش جیسا ہجوم نظر آیا۔ گاڑیوں کی طویل قطاریں ایسی تھیں کہ لگتا تھا کہ پٹرول میں 30 روپے لیٹر اضافہ نہیں کیا گیا بلکہ مفت بٹ رہا ہے، یا سیل لگی ہوئی ہے۔

    ابھی یہ مناظر نگاہوں کے سامنے تھے کہ ساتھ ہی ماضی قریب کی یادوں کے کچھ دریچے بھی وا ہونے لگے۔ شاعر اختر انصاری نے کیا خوب کہا ہے:

    یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
    چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
    یاد کے تند و تیز جھونکے سے
    آج ہر داغ جل اٹھا میرا

    تو ماضی قریب کی یاد کا ایسا تند و تیز جھونکا آیا جس سے ہمارا ہر داغ جل ہی اٹھا کہ زیادہ پرانی نہیں، آج سے تین چار ماہ قبل ہی کی تو بات ہے۔ پاکستان کے عوام کے حافظے میں ضرور یہ سب تازہ ہوگا جب اس وقت کے "نئے پاکستان” میں "پرانے پاکستان” کے داعی پیٹوں میں کس طرح عوام کی حالت زار دیکھ دیکھ کر مروڑ اٹھتا تھا اور اس وقت وہ لوگ یہ کہتے نہ تھکتے تھے کہ "عمران حکومت نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ "، "یہ عوام دشمن حکومت ہے۔”، اور یہ بھی کہا جاتا تھاکہ "عمران خان کو عوام کا کوئی خیال نہیں۔”، "یہ سلیکٹڈ ہیں۔” اور اپوزیشن عوام کو یہ بھی بتاتی تھی کہ "مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے۔”، ” عوام کو سستا مکان اور بیروزگاروں کو کروڑوں نوکریاں‌ دینے کی بات کرنے والے نے غریب کے منہ سے نوالہ چھین لیا ہے۔”‌ اور سب سے بڑھ کر اسی پٹرول کی قیمت میں اضافے پر کہا جاتا تھا کہ”پٹرول کی قیمت میں 5 روپے فی لیٹر اضافہ عوام پر ظلم ہے۔”، "ہم نے ہمیشہ عوام کو ریلیف دیا اور موقع ملا تو دوبارہ ریلیف دیں گے۔”

    یہ تھے وہ خوش کن نعرے جو پرانے پاکستان کے موجودہ حکمران اور ان کے حلیف عمران خان کی حکومت میں اپوزیشن بن کر لگاتے تھے۔ یہ نعرے اس وقت لگتے تھے جب ملک میں پٹرول 150 روپے لیٹر تھا، سی این جی 230 روپے کلو میں دستیاب تھی، ڈالر 175 سے 180 کے درمیان تھا، کوکنگ آئل اور گھی 350 روپے کلو میں عوام کو دستیاب تھے، عوام آٹا 70 سے 80 روپے کلو خرید کر پیٹ کی آگ بجھا رہے تھے، بیرون شہر اور اندرون شہر ٹرانسپورٹ کے کرائے کم تھے، بجلی کے نرخ بھی آج سے کم تھے اور بجلی مکمل نہیں مگر پھر بھی دستیاب تو تھی۔ لیکن آج یہی خوش نما نعرے لگانے والے "پرانا پاکستان” کے داعی عوام کے دکھ درد کا مداوا کرنے والوں کی حکومت ہے اور لگ بھگ دو ماہ ہوچکے ہیں لیکن ان دو ماہ میں پٹرول 150 سے 210 روپے، ڈالر 175 سے 200 روپے کے لگ بھگ پہنچ چکا ہے، بجلی کی قیمت میں عمران دور حکومت کی نسبت فی یونٹ 47 فیصد تک اضافے کا اعلان کیا جاچکا ہے اور اس پر بھی بجلی دستیاب نہیں ہے، مختلف میڈیا رپورٹوں کے مطابق شہروں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 10 سے 12 گھنٹے اور دیہات میں 18 گھنٹے تک جا پہنچا ہے۔ سی این جی نے یک دم 70 روپے چھلانگ مار کر ٹرپل سنچری کرلی، کوکنگ آئل اور گھی، مرغی اور گائے کا گوشت سب 500 روپے کلو سے تجاوز کرگئے ہیں۔ آٹا بھی سنچری عبور کرنے کے قریب ہے بلکہ بہت سے علاقوں میں تو یہ 100 کی حد بھی عبور کرچکا ہے۔

    پٹرول کی قیمتوں سے براہ راست ٹرانسپورٹ کرائے تو بڑھے ہی ہیں اسی تناسب سے کھانے پینے کی اشیا، پھل، سبزیوں، دودھ، دہی، انڈوں، گوشت غرض کون سی ایسی چیز ہے جس کی قیمت میں اضافہ نہیں ہوا ہے اور اب تو وزیراعظم کے ماتحت وفاقی ادارہ شماریات نے بھی تصدیق کی مہر ثبت کردی ہے اور حالیہ جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں ہفتے مہنگائی ریکارڈ شرح پر پہنچ گئی ہے اور 20 فیصد سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔

    وزیراعظم شہباز شریف جو ملک کے بدترین معاشی حالات میں دو ماہ میں اب تک 6 غیر ملکی دورے کرچکے ہیں نے گزشتہ ہفتے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 30 روپے فی لیٹر اضافے پر انتہائی "دکھی” انداز میں کہا تھا کہ انہیں پتہ ہے کہ عوام کے پاس کھانے اور دوا تک کے پیسے نہیں ہیں اور پٹرول قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ "دل پر پتھر” رکھ کر کیا تو اب جناب نیا اضافہ ہوچکا ہے، اب دیکھتے ہیں وزیراعظم عوام کا درد کتنا دل میں سمو کر اور کتنا چہرے پر ظاہر کرکے قوم کو بتاتے ہیں کہ یہ فیصلہ انہوں نے اب ” کتنی بڑی چٹان” دل پر رکھ کر کیا ہے۔

    اس ملک کی اکثریت غریب طبقے سے تعلق رکھتی ہے اور غریب عوام یوں تو عمران خان کے دور حکومت میں بھی دودھ اور شہد کی نہروں سے مستفید نہیں ہورہی تھی لیکن آج سے قدرے بہتر اور سکون کی حالت میں تھی، پرانا پاکستان کے نام پر جو جال پھینک کر سیاست کے کھلاڑیوں نے قوم کا حال کردیا ہے شاید اس کی توقع اس قوم کو نہیں تھی۔

    پوری قوم شہباز حکومت کے فیصلوں پر انگشت بدنداں ہے کہ بقول حکمران ہمارے پاس زہر خریدنے کے پیسے نہیں ہیں لیکن شاہانہ غیر ملکی دورے جاری ہیں، وزیراعظم اور ان کے کسی وزیر مشیر نے عوام کے دکھوں پر سوائے مگرمچھ کے آنسو بہانے کے علاوہ ان کے دکھوں کے مداوے کے لیے عملی طور پر کچھ نہیں کیا ہے حسب روایت مہنگائی کے اس طوفان کا ملبہ بھی سابق حکومت پر ڈال دیا گیا ہے لیکن عوام سب دیکھ رہے ہیں، عمران خان کے دور حکومت میں کراچی سے اسلام آباد تک مہنگائی مارچ کی قیادت کرنے والے بلاول بھٹو اور مہنگائی کا رونا رونے والی پی ڈی ایم آج اسی حکومت کے دست راست بنے ہوئے ہیں جنہوں نے صرف دو ماہ میں عوام کو مہنگائی کے سیلاب میں غرق کردیا ہے، حیرت اس بات پر ہے کہ سابق دور میں کراچی سے اسلام آباد تک مہنگائی مکاؤ مارچ کے نام پر تماشا لگانے والی پی پی پی اور اس کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اب خاموش تماشائی بنے ہیں شاید انہیں ملک کے خارجہ معاملات دیکھنے سے فرصت نہیں یا پھر وہ اپنی سابقہ حریف مسلم لیگ ن کی بے بسی کا تماشا انجوائے کررہے ہیں، اس کے ساتھ ہی سابقہ حکومت 5 یا 10 روپے پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہونے پر شور مچانے والی ایم کیو ایم بھی اس 60 روپے کے ریکارڈ اضافے پر لب سیے ہوئے ہے۔

    مہنگائی مکاؤ کے فریبی نعرے سے وجود میں آنے والی حکومت کے لگ بھگ دو ماہ میں عوامی سہولت کے لیے اٹھایا گیا کوئی ایسا اقدام نظر نہیں آتا کہ جس پر اسے سراہا جا سکے، حتیٰ کہ حج پالیسی میں بھی حد سے زیادہ تاخیر کا شکار کرکے عازمین حج کو اذیت میں مبتلا کردیا گیا ہے۔ اگر موجودہ حکومت اور ان کے حلیفوں نے کچھ بھلائی کے کام کیے بھی ہیں تو لگتا ہے کہ وہ صرف اپنے مفاد میں ہی کیے ہیں، مثلاً نیب ترامیم، انتخابی اصلاحات، ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے "سب کے سب” نیب اور ایف آئی اے کے مجرموں یا ملزموں کے ناموں کا بیک جنبش قلم نکال دینا، تفتیشی اداروں کے سربراہوں کے تبادلے وہ تو خیر ہو کہ عدالت نے اس کا نوٹس لیا اور یہ سلسلہ کچھ تھما تھا۔

    ملک و قوم کا نعرہ لگانے سے نہ تھکنے اور ہر وقت جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپنے والے سیاستدانوں کی آمرانہ طرز حکومت کے پروردہ لوگوں نے شاید اپنے گھروں کو ملک اور اپنے بچوں کو قوم سمجھ رکھا ہے اسی لیے شہباز حکومت میں ایسے اقدام کثرت سے نظر آتے ہیں کہ جس میں بقول ان کے "ملک و قوم کی بھلائی” مضمر ہے۔ اب تو شاید پوری قوم کو ہی سمجھ میں آگیا ہے کہ حکمرانوں کی نظر میں ملک و قوم کی بھلائی اصل میں کس کی بھلائی ہے۔

    عظیم شاعر مرزا اسد اللہ غالب نے یہ شعر شاید آج کے پاکستان اور پاکستانی قوم کے لیے کہا تھا۔

    قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں
    موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

    قتیل شفائی مرحوم کو بھی شاید آنے والے وقت کا ادراک ہوگیا تھا جب ہی وہ بھی کہہ گئے کہ

    حوصلہ کس میں ہے یوسف کی خریداری کا
    اب تو مہنگائی کے چرچے ہیں زلیخاؤں میں

    اسی لیے شاید عوام کی قوت برداشت کے حوصلے بھی پست سے پست ہوتے ہوتے اب ختم ہوچلے ہیں کہ اب انہوں نے حکومتوں سے حقیقی معنوں میں عوام کیلیے کسی اچھی خبر کی امید رکھنا ہی چھوڑ دی ہے۔ کسی شاعر نے یہ بھی تو کہا تھا کہ

    اتنی مہنگی پڑی ہیں تعبیریں
    خواب آنکھوں میں اب نہیں آتے

    یہ دور سوشل میڈیا کا دور ہے جس میں اب سب کچھ بلا خوف وخطر کہنے کی اجازت ہے تو پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی لوگوں کا ردعمل سامنے آنا شروع ہوگیا ہے جس میں بلاتفریق اکثریت یہ کہہ رہی ہے کہ ملک مشکل حالات میں ہے تو ہمیشہ قربانیاں عوام سے ہی کیوں مانگی جاتی ہیں حکومت کرنے والے برسراقتدار بھی قربانیاں دینے کا حوصلہ پیدا کریں اور اسی تناظر میں بڑی شدومد کے ساتھ یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ حکمران، وزرا کی فوج ظفر موج، اراکین پارلیمنٹ، بلاتفریق تمام سرکاری اداروں کے افسران کی شاہانہ مراعات ختم کرکے ان سے بھی قربانی میں حصہ ڈلوایا جائے، شاید عوام کا یہ ردعمل ہی ہے کہ حکومتی سطح پر کچھ ایسے اقدامات کے اعلانات سامنے آئے ہیں لیکن پٹرول الاؤنس میں 40 فیصد کمی اس کا مکمل علاج تو نہیں۔

    انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
    شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات

    ویسے بھی پوری قوم جانتی ہے کہ عوام کا درد لیے اسمبلیوں میں آنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے مالی طور پر اتنا نوازا ہوا ہے کہ انہیں تو مراعات تو دور تنخواہ کی بھی ضرورت نہیں لیکن اگر وہ عوام کا درد محسوس کرنے کا اپنا "محنتانہ” وصول کرنا چاہتے ہیں تو ان کا حق ہے لیکن صرف محنتانہ ہی وصول کریں ساتھ میں شاہانہ مراعات تو نہ لیں اور اگر حکومت عوامی دباؤ میں کچھ ایسا فیصلہ بھی کرے تو صرف اعلان تک محدود نہ رکھے بلکہ جس طرح کے عوام کیلیے فوری فیصلے ہورہے ہیں اسی طرح ان کی شاہانہ مراعات ختم کرنے کے فوری ایگزیکٹو آرڈر جاری کیے جائیں یعنی فوری عملدرآمد شروع کردیا جائے۔

  • وزیراعظم کی پی ٹی آئی کو مذاکرات کی پیشکش، افواہوں کا بازار گرم

    وزیراعظم کی پی ٹی آئی کو مذاکرات کی پیشکش، افواہوں کا بازار گرم

    احتجاجی سیاست کو نیا ڈھب دینے والے سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد سے سڑکوں پر ہیں اور پچھلے چند ہفتوں سے لانگ مارچ کا نعرہ بلند کرکے عوام کو تیار کرتے رہے کہ یہ حقیقی آزادی کی جدوجہد ہے اور وہ لانگ مارچ کرکے اسلام آباد پہنچیں‌ گے اور وہاں دھرنا دیں گے اور اس وقت تک نہیں اٹھیں گے جب تک نئے الیکشن کا اعلان نہیں کیا جاتا۔

    عمران خان ہر رکاوٹ عبور کرکے اسلام آباد تو پہنچ گئے لیکن وہاں دھرنا نہیں دیا بلکہ جلسہ کرکے لوٹ آئے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت 6 روز کے اندر نئے الیکشن کروائے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو وہ ایک بار پھر 20 لاکھ افراد کو لے کر اسلام آباد پہنچیں گے۔ اگلے روز انہوں نے اس کی مزید وضاحت کی اور یہ بھی کہا کہ اگر اس شام میں اسلام آباد رک جاتا تو خون خرابہ ہوجاتا۔ ملک و قوم کے وسیع مفاد میں اسلام آباد سے واپس آنے کا فیصلہ کیا تھا۔

    دوسری جانب لانگ مارچ شروع ہونے کے اگلے روز قومی اسمبلی اجلاس میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے ووٹ دینے کا حق واپس لینے اور نیب قوانین میں ترامیم کے بلوں کی منظوری کے بعد وزیراعظم شہباز شریف اپنی تقریر میں حسب روایت گرجے برسے اور کہا کہ وہ عمران خان کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہوں گے اور الیکشن کا فیصلہ یہ ایوان ہی کرے گا لیکن ساتھ ہی پاکستان تحریک انصاف کو مذاکرات کی پیشکش بھی کی اور اس سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ تھی کہک موجودہ حکومت سے کسی بھی قسم کے مذاکرات سے انکاری پی ٹی آئی کی جانب سے بھی فوری طور پر کہا گیا کہ وزیراعظم مذاکراتی کمیٹی بنائیں، بات چیت کیلیے تیار ہیں۔

    پی ٹی آئی کا موقف کہ خون خرابے سے بچنے اور ملک و قوم کے مفاد میں اسلام آباد دھرنے کا فیصلہ واپس لیا اور حکومت کا موقف کہ پی ٹی آئی عوام کو سڑکوں پر نکالنے میں ناکام رہی اور اپنی ناکامی کو وہ خون خرابے اور ملک کے وسیع مفاد کے بیانیے میں چھپانے کی کوشش کررہی ہے۔ ساتھ ہی دونوں جانب سے ایک دوسرے کو مذاکرات کے ڈول ڈالنا یہ وہ عوامل ہیں جس کے بعد ملک میں افواہوں کا بازار بھی گرم ہوگیا ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ اسلام آباد کی جانب بڑھتے پی ٹی آئی کے کارکنوں کی بڑی تعداد کے قدموں کی گونج نے ایوانوں میں لرزہ طاری کیا تو کوئی کہہ رہا ہے کہ لانگ مارچ ناکام ہوگیا اور پی ٹی آئی نے پسپا ہونے کے بعد حکومت سے مذاکرات کی ہامی بھری، لیکن اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ پی ٹی آئی کے لانگ مارچ اور اس کے بعد حکومتی اقدامات پر عدالتوں کا فوری حرکت میں آنا اور ایسے فیصلے دینا جس سے پی ٹی آئی کو ریلیف ملا ہے، اس نے حکومت کو لچک کا مظاہرہ کرنے پر مجبور کردیا۔ جس کا واضح ثبوت سپریم کورٹ سمیت دیگر عدالتوں کے ملکی صورت حال سے متعلق فیصلوں کے بعد ن لیگ کے بعض سیاسی رہنماؤں کے بدلتے لب ولہجے ہیں، بالخصوص ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز جن کا ماضی اداروں کو تنقید کے حوالے سے کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، انہوں نے اپنے ٹوئٹر بیانات میں عدالتوں کو نرم لہجے میں مشورہ بھی دینا شروع کر دیا ہے۔

    ادھر سابق وزیراعظم نواز شریف جو لندن میں موجود ہیں لیکن پاکستان میں موجود لیگی قیادت اور حکومت ان کے اشارے کی منتظر رہتی ہے اور کوئی فیصلہ ان کی رضامندی کے بغیر نہیں کرتی، نے گزشتہ دنوں حکومت چھوڑنے کا گرین سگنل دیتے ہوئے واضح کہہ دیا تھا کہ اگر آئی ایم ایف سے اچھا پیکیج نہیں ملتا تو حکومت جلد از جلد قومی اسمبلی سے نیب قوانین میں ترامیم اور انتخابی اصلاحات منظور کرائے اور اس کے فوری بعد حکومت سے باہر آجائے اور اب جب کہ نواز شریف کی یہ دونوں خواہشات جمعرات کو ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں پوری ہو گئیں تو پھر کچھ بھی ہونا خارج از امکان نہیں ہے۔

    حکومت نے گوکہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے دباؤ میں گزشتہ شب اچانک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ریکارڈ 30 روپے فی لیٹر اضافہ کردیا اور آنے والے دنوں میں بجلی کی قیمتیں بھی بڑھائے جانے کا امکان ہے۔ تاہم ن لیگ میں اکثریت کی رائے یہی ہے کہ قیمتیں بڑھانے کی بجائے فوری الیکشن کرائے جانے چاہییں کیونکہ پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے پارٹی کی عوام میں مقبولیت کو بری طرح نقصان پہنچے گا، ن لیگ کے سینیئر رہنماؤں کی اکثریت کا موقف ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط تسلیم کرنا پارٹی کے لیے سیاسی خودکشی کے مترادف ہوگا۔

    ان حالات میں ملک بالخصوص سوشل میڈیا پر تو افواہوں کا بازار گرم ہوچکا ہے اور مقتدر حلقوں کی جانب سے عمران کو یقین دہانیوں کی بات کی جارہی ہے جن میں کچھ ایسی باتیں بیان کی جارہی ہیں کہ ‘عمران خان نے دھرنے کا فیصلہ ایسے ہی واپس نہیں لیا بلکہ سب معاملات طے ہوچکے ہیں، اسمبلیاں تحلیل کرنے کی سمری پر وزیراعظم شہباز شریف کے دستخط کرکے لفافہ صدر کے پاس رکھ دیا ہے جس کا اعلان 2 جون کو ہوگا، تب تک کیئر ٹیکر حکومت کا فیصلہ کیا جائے گا، قوم الیکشن کی تیاری کرے۔’

    اسی طرح یہ بات بھی گردش کررہی ہے کہ مذاکرات میں فیصلہ 25 مئی کو دن 12 بجے ہی ہوگیا تھا لیکن عمران خان نے کہا کہ درمیان میں آنے والوں سے کہا کہ مجھے کسی کے زبانی کہنے پر یقین نہیں ہے، سمری لکھ کر صدر کے پاس رکھ دو، پھر جب قافلے ہر طرف سے اسلام اباد داخل ہوئے اور آئی ایم ایف سے حکومت کے مذاکرات بھی ناکام ہو گٸے تو صبح 4 بجے حکومت کی جانب سے سمری صدر کو بھیج دی گئی جس پر صدر علوی نے عمران خان کو آگاہ کیا اور تب عمران خان 6 دن کا وقت دے کر اسلام آباد سے واپس ہوئے۔’

    یہ افواہیں یا قیاس آرائیاں سوشل میڈیا پر کافی گردش کررہی ہیں اور لوگ اس کو پھیلا رہے ہیں۔ تاہم ملکی ذرائع ابلاغ میں اس حوالے سے خاموشی ہے۔ ادھر عمران خان کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ سمیت کسی سے بھی ڈیل نہ ہونے کی واضح بات اور حکومت کی جانب سے اسمبلی کی آئینی مدت پوری کرنے کے بیانات کے بعد یوں بھی اس قسم کی باتوں اور قیاس آرائیوں کی کوئی وقعت نہیں رہ جاتی لیکن یہ سارا تماشا اب بھی سوشل میڈیا پر جاری ہے۔ ساتھ ہی سیاست پر نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست اور حکومتی کھیلوں میں اس سے قبل بھی کئی بار ایسا ہوچکا ہے کہ زبان پر کچھ ہوتا ہے، پس پردہ کچھ اور نتیجہ کچھ سامنے آتا ہے۔

    اب چاہے نواز شریف کا مشرف سے معاہدہ ہو، بینظیر اور مشرف کے درمیان معاہدہ ہو یا معاہدے کے تحت ہی مشرف کا صدر کا عہدہ چھوڑنا، جب یہ باتیں باہر نکلیں تو پہلے متعلقین اس کی بھرپور تردید کرتے رہے لیکن جب سب کچھ ویسے ہی سامنے آیا تو انہیں ماننا ہی پڑا۔

    ہوسکتا ہے کہ آج بھی تمام تر تردید اور مسلسل بیانات کے باوجود ان افواہوں سے ہی کوئی حقیقت جنم لے لے، کیونکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ "دھواں وہیں سے اٹھتا ہے جہاں چنگاری ہوتی ہے۔” آنے والے دنوں میں کیا ہوگا، یہ جلد واضح ہو جائیگا لیکن سیاسی جماعتوں کے قائدین کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ملک کی بقا اور استحکام ان کی انا اور ضد سے بڑھ کر ہے۔