Tag:

  • کیا ملک اس وقت کسی تصادم کا متحمل ہوسکتا ہے؟

    کیا ملک اس وقت کسی تصادم کا متحمل ہوسکتا ہے؟

    پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ہی بیرونی سازش کے تحت لائی گئی "امپورٹڈ حکومت نامنظور” کے بیانیے کے ساتھ ملک بھر میں جلسے کرنا شروع کر دیے تھے۔ یہ سلسلہ تقریباً ڈیڑھ ماہ جاری رہنے کے بعد 20 مئی کو ملتان میں ہونے والے جلسے میں جاکر تھما جہاں اسلام آباد لانگ مارچ کے لیے تاریخ کا اعلان ہونا تھا۔ انہوں نے اس مارچ کو حقیقی آزادی مارچ کا نام دیتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ موجودہ حکومت ختم کر کے فوری عام انتخابات کا اعلان کیا جائے۔ تاہم بعض یقین دہانیوں اور پس پردہ کوششوں کے وعدوں کے باعث 20 مئی کو اعلان تو نہ ہوسکا لیکن 22 مئی کو پشاور میں پارٹی کی کور کمیٹی کے اجلاس کے بعد حقیقی آزادی مارچ کے لیے 25 مئی کی حتمی تاریخ دے دی گئی۔

    پی ٹی آئی کے ‘حقیقی آزادی لانگ مارچ’ کی حتمی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی حکومت بھی حرکت میں آگئی اور اپنے اتحادیوں سے بھرپور مشاورت کے بعد اس لانگ مارچ کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے کا فیصلہ کرلیا اور اس پر عمل بھی شروع کردیا لیکن ان سے وہ عوام جن کا نہ پی ٹی آئی سے کچھ لینا دینا ہے اور نہ ہی کسی اور سیاسی جماعت سے کتنے متاثر ہوں گے؟ اس کی حکومت نے پروا نہیں کی اور مختلف میڈیا رپورٹوں کے مطابق حکومت کی جانب سے پی ٹی آئی کا لانگ مارچ روکنے کی جو کوششیں اور جس طرح کے اقدامات کیے گئے ہیں اس سے تصادم کا خدشہ ہے۔

    ہم اس بلاگ میں پہلے حکومت کے کچھ اقدامات پر نظر ڈالتے ہیں۔ لانگ مارچ سے نمٹنے کے لیے حکومت نے وفاقی دارالحکومت سمیت پنجاب بھر کو پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کردیا اور اسلام آباد میں رینجرز کی تعیناتی سمیت ملک بھر سے پولیس کی بھاری نفری، خواتین اہلکار، قیدیوں کی وینز اور ہزاروں کی تعداد میں آنسو گیس شیلز بھی منگوا لیے گئے جب کہ اطلاعات کے مطابق ایف سی کو مظاہرین کیخلاف آنسو گیس کے استعمال کی اجازت بھی دے دی گئی اور کئی جگہ ان کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔

    وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت پنجاب اور سندھ میں دفعہ 144 نافذ کی جاچکی ہے، پنجاب بھر کے اسلام آباد جانے والے راستوں کو کنٹینرز لگا کر بند کیے جانے سے لاہور سمیت کئی بڑے شہروں کا ملک بھر سے زمینی رابطہ منقطع ہوچکا ہے، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت صوبہ پنجاب کے تمام اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرکے طبی عملے کی چھٹیاں بھی منسوخ کی جاچکی ہیں، میٹرک کا منگل کے روز ہونے والا پرچہ منسوخ کردیا گیا تھا، منگل کو پنجاب بھر کے اسکولوں میں چھٹی بھی رہی اور معلوم نہیں کہ اس صورتحال میں کب تک اسکول بند رہیں۔ ان تمام اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت نے پی ٹی آئی مظاہرین سے سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کیا ہے، مارچ کے آغاز سے قبل ہی ملک بھر بالخصوص پنجاب اور وفاقی دارالحکومت میں جو صورتحال ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ کوئی مارچ نہیں بلکہ دشمن کی فوج آرہی ہے جس سے نمٹنے کیلیے حکومت سخت ترین اقدامات کررہی ہے۔ اس کا ایک اندازہ دو روز سے پنجاب بھر میں ہونے والے پولیس چھاپوں اور سیکڑوں پی ٹی آئی کارکنوں کی گرفتاری سے لگایا جاسکتا ہے، حد تو یہ ہے کہ حکومت نے شاعر مشرق علامہ اقبال کے خون کو بھی نہیں بخشا اور علامہ اقبال کی بہو جسٹس (ر) ناصر جاوید اور پوتے ولید اقبال کے گھروں پر بھی چھاپے مارے گئے، اسی افراتفری میں لاہور میں گھر میں داخل ہونے والے پولیس اہلکاروں پر مبینہ طور پر اہلخانہ کی جانب سے فائرنگ کے نتیجے میں ایک پولیس کانسٹیبل کمال شہید ہوگیا، یہ بلاگ لکھے جانے تک پولیس پی ٹی آئی کے کئی اہم رہنماؤں کو بھی حراست میں لے چکی ہے جن میں خاتون رہنما یاسمین راشد، عندلیب عباس بھی شامل ہیں۔

    حکومت نے پی ٹی آئی کا لانگ مارچ روکنے کے لیے اگر دو منصوبوں کا اعلان کیا ہے تو پی ٹی آئی والوں نے بھی اپنے لانگ مارچ کو کامیاب بنانے کیلیے تین منصوبے تیار کر رکھے ہیں جو پی ٹی آئی رہنما اسد عمر بتا چکے ہیں لیکن یہ منصوبے کیا ہیں اس کی میڈیا تک کو ہوا نہیں لگنے دی گئی ہے۔

    اب آتے ہیں حکومتی اقدامات سے عام لوگوں اور سیاسی جماعتوں سے دور رہنے والے عوام کی تکالیف کی طرف تو ایک جانب جب پورا پنجاب بند کر دیا گیا ہے اور مال بردار کنٹینرز اور ٹریلر کو تحویل میں لے لیا گیا ہے تو ایک جانب ان کنٹینرز اور دیگر گاڑیوں میں لدا سامان خراب ہونے اور عوام کے کروڑوں روپے کے نقصان کا امکان غالب ہے تو دوسری جانب ترسیل نہ ہونے سے ملک میں اشیائے خورونوش کی شدید قلت ہوسکتی ہے، راستوں کی بندش کے باعث ٹینکرز ایسویسی ایشن نے پنجاب بھر کو پٹرول کی سپلائی بند رکھنے کا اعلان کردیا ہے۔ راستوں اور مسافر گاڑیوں کی بندش سے لوگوں کے اپنے عزیز واقارب سے رابطے منقطع ہوچکے، اس دوران کئی خوشی اور غمی کے لمحات میں لوگ اپنے پیاروں سے نہیں مل سکیں گے۔ ایمرجنسی میں اسپتال نہیں پہنچ سکیں گے جس کے باعث زندگیوں کو خطرات لاحق ہونگے۔ لوگ اپنے کاموں پر نہیں جاسکیں گے تو مہنگائی کے ہاتھوں پہلے ہی پسے عوام کس طرح اپنے گھروں کا چولہا جلا پائیں گے۔

    ایک جانب عمران خان کا کہنا ہے کہ میری جان کو خطرہ ہے لیکن پھر بھی جہاد سمجھ کر نکل رہا ہوں جب کہ حساس اداروں کی رپورٹ کے مطابق عمران خان کی زندگی کو خطرہ اور خودکش حملے کا خدشہ ہے جس کے بارے میں اٹارنی جنرل آف پاکستان سپریم کورٹ کو بھی آگاہ کرچکے ہیں۔

    پی ٹی آئی سربراہ عمران خان نے لانگ مارچ کے لیے اپنا سفر شروع کیا اور صوابی انٹرچینج پر ایک بار پھر عوام سے تمام رکاوٹیں عبور کرکے اسلام آباد پہنچنے کی اپیل کی اور کہا کہ وہ ہر حال میں اسلام آباد پہنچیں گے، دوسری جانب حکومت ہر حال میں اس مارچ اور مظاہرین کو کچلنے کیلیے طاقت کا ہر حربہ آزمانے پر بضد ہے اور اس حکومت کے اصل کرتا دھرتا نواز شریف پہلے ہی وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کو لانگ مارچ سے نمٹنے کے لیے "بھرپور” تیاریاں کرنے کی ہدایت کرچکے تھے جس کے بعد پنجاب سمیت کراچی اور اندرون سندھ بھی پولیس نے مجموعی طور پر سیکڑوں گرفتاریاں کی ہیں اور کئی مقامات پر پولیس اور مظاہرین میں تصادم جیسی صورتحال بھی سامنے آئی ہے جہاں پولیس نے مظاہرین پر آنسو گیس بھی فائر کیے ہیں جب کہ حکومتی وزرا بالخصوص وزیر داخلہ کے سخت بیانات نے ماحول کو مزید کشیدہ بنا دیا ہے۔ اس صورتحال میں عدلیہ نے بھی اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ملک کو کسی ممکنہ تصادم سے بچانے کیلیے پی ٹی آئی کے گرفتار افراد کو رہا کرنے جب کہ سپریم کورٹ نے حکومت کو پی ٹی آئی کو احتجاج کیلیے اسلام آباد میں متبادل جگہ دینے کا حکم دیا ہے۔ ملک میں بحران سے نمٹنے کی سب سے بڑی ذمے داری تو حکومت وقت پر ہی عائد ہوتی ہے اور ایسی حکومت جس کے دامن پر 2014 میں ماڈل ٹاؤن واقعے کے 14 مقتولوں کے خون کے دھبے بھی ہیں اس کو تو ویسے ہی پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہیے کہ زرا سی غفلت چنگاری کو شعلہ بناسکتی ہے۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو اس تمام صورتحال میں جب کہ ملک سیاسی بحران کے باعث پہلے ہی بدترین معاشی صورتحال کا سامنا کررہا ہے اور معیشت کو چلانے کیلیے ایک بار پھر آئی ایم ایف کے سامنے کاسہ گدائی پھیلایا جارہا ہے، ایسے سخت آزمائشی دور میں اگر کسی کی بھی معمولی سی غلطی سے اگر ملک کسی تصادم سے دوچار ہوتا ہے تو کیا پاکستان اور غربت میں پسے اس کے مظلوم عوام ایسے کسی بھی تصادم کے متحمل ہوسکتے ہیں؟

    یقیناً مقتدر اور سنجیدہ حلقے اس تمام صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہوں گے، باکسنگ کے رِنگ کا بھی اصول ہے کہ جب تک معاملہ کھیل تک رہے اور کوئی سنگین خطرہ نہ ہو تو ریفری رِنگ سے باہر ہی رہتا ہے لیکن جیسے ہی معاملہ بگڑنے لگتا ہے کہ ریفری مجبوراً رنگ کے اندر آتا ہے اور ایک دوسرے سے نبرد آزما کھلاڑیوں کو چھڑا کر الگ کرتا ہے کہ کہیں کوئی ناقابل تلافی نقصان نہ ہوجائے۔ یہاں مسئلہ نہ باکسنگ کے رنگ کا ہے اور نہ ہی کھلاڑیوں کا، بلکہ یہاں معاملہ ہے اندرونی اور بیرونی خطرات میں گھری مملکت خداد پاکستان اور اس کے 22 کروڑ عوام کا۔ تو یہ وقت ہے کہ فیصلہ ساز انتہائی سوجھ بوجھ کے ساتھ ملک و قوم کے مفاد میں پاکستان کو تصادم کا شکار ہونے سے بچائیں۔ کیونکہ ملک ہے تو سب کی سیاست ہے، ملک ہے تو اقتدار بھی ہے اور سب کی طاقت اور فیصلہ سازی کی قوت بھی ہے۔ اس لیے ملک سب سے مقدم ہے اور کسی بھی فیصلے میں اس کو ہی مقدم رکھنا چاہیے۔

  • "عید تو بچوں کی ہوتی ہے….” کچھ یادیں، کچھ باتیں

    "عید تو بچوں کی ہوتی ہے….” کچھ یادیں، کچھ باتیں

    بچپن میں جب یہ سنتے تھے کہ "عید تو بچوں کی ہوتی ہے” تو حیران ہوتے تھے کہ جب بچوں کی عید ہوتی ہے تو بڑے کیوں مناتے ہیں؟ نئے کپڑے کیوں پہنتے ہیں؟ اور نماز عید کیوں پڑھنے جاتے ہیں؟ لیکن جب بڑے ہوئے تو اس جملے کے مفہوم سے آشنا ہوئے۔ یقین آگیا کہ "عید تو بچوں کی ہوتی ہے اور اب ہم بھی اپنے بچوں کو یہی کہتے ہیں کہ اصل عید تو بچو تمہاری ہے۔

    آج ہم اپنے بچپن کی عیدوں سے متعلق اپنی یادیں تازہ کریں گے، بقول شاعر

    میرے بچپن کے دن کتنے اچھے تھے دن
    آج بیٹھے بٹھائے کیوں یاد آگئے

    تو جناب ہمارے بچپن کی عید میں بھی آج کی طرح نئے کپڑے، عیدی، نت نئے پکوان، سیر و تفریح سب کچھ ہوتا تھا مگر عید کے وہ دن ہماری آج کی عید سے خاصے مختلف تھے۔

    70 اور 80 کی دہائی میں جنم لینے اور بچپن کے خوبصورت دن گزارنے والوں کو یاد ہوگا کہ کیسے وہ عیدیں آج کی عید سے منفرد ہوتی تھیں۔ ہم جب بچے تھے تو آج کے بچوں ہی کی طرح بے تابی سے عید کا انتظار کیا کرتے تھے لیکن انداز کچھ مختلف ہوتا تھا، روز امی سے پوچھنا کہ اب عید میں کتنے دن رہ گئے، کتنے روزے باقی رہ گئے؟ اس طرح کے کئی سوال تو ہم کرتے تھے لیکن ساتھ ساتھ عید کی تیاری کچھ اس انداز میں کرتے تھے جو آج شاید ہمارے لیے ممکن بھی نہیں۔

    مثلا آج ہم دیکھتے ہیں کہ ایک دوسرے کو عید کی مبارک باد دینے کے لیے روایتی عید کارڈز دینے کا رواج متروک ہی ہوچکا ہے۔ اب تو صرف ہاتھ میں پکڑے موبائل سے عید مبارک کا پیغام، کوئی ایموجی یا ڈیجیٹل کارڈ بھیج کر یہ روایت بالکل روکھے پھیکے انداز میں نبھائی جاتی ہے۔ لیکن ہمارے بچپن میں رمضان کا آغاز ہوتے ہی ہم اپنے دوستوں اور کزنز وغیرہ کو عید پر دینے کیلیے عید کارڈز کی خریداری شروع کر دیا کرتے تھے اور اس کے لیے روزانہ دکانوں اور اس حوالے سے لگائے جانے والے خصوصی اسٹالز (جی ہاں اس دور میں عید کارڈز فروخت کرنے کے خصوصی اسٹالز لگائے جاتے تھے) کے روز چکر لگایا کرتے تھے۔ اس موقع پر کوشش ہوتی تھی کہ اچھے سے اچھے کارڈز کا انتخاب کریں۔ عموما اس وقت دور حاضر کے فلمی اداکار اور اداکاراؤں کے پوسٹ کارڈز پر مبنی عید کارڈز ہوا کرتے تھے جن کے ایک طرف تصویر اور دوسری جانب لکھنے کیلیے خالی جگہ ہوتی تھی۔ اس کے ساتھ ہی مختلف پھولوں اور تہنیتی پیغامات کے ساتھ کارڈز بھی ہوتے تھے، اس دور میں کارڈز پر مبارک باد کے ساتھ بچکانہ اشعار بھی لکھ کر اپنی بھرپور محبت کا اظہار کیا جاتا تھا جن میں سے یہ دو تو بہت مشہور زمانہ رہے ہیں۔

    گرم گرم روٹی توڑی نہیں جاتی
    دوست سے دوستی توڑی نہیں جاتی

    عید آئی ہے بڑی دھوم دھام سے
    دوست اچھل پڑا سویوں کے نام سے

    لیکن آج کا بچہ تو روٹی کے بجائے پزا کا دلدادہ ہے، سویوں کے بجائے نوڈلز، اسپیگٹیز اور پاستا اس کے من کو بھاتے ہیں جو کہ ہمارے دور میں ندارد تھے۔

    خیر بات ہورہی تھی عید کارڈز کی تو اس دور میں محکمہ ڈاک کی جانب سے بھی عید کارڈز پوسٹ کرنے کیلیے مقررہ تاریخ کا باقاعدہ اعلان کیا جاتا تھا کہ جس نے اپنے دوستوں رشتے داروں کو ملک یا بیرون ملک عید کارڈز بھیجنے ہیں وہ مقررہ تاریخ تک کارڈز محکمہ ڈاک کو دے دیں تاکہ بروقت پہنچ سکیں۔ اس کے بعد لوگ پوسٹ آفس کے باہر گھنٹوں لمبی لمبی قطاروں میں لگ کر اپنے عزیز واقارب اور دوست واحباب کو کارڈز پوسٹ کیا کرتے تھے کیونکہ اس دور میں آج کی طرح کئی کئی کوریئر سروس موجود نہیں تھیں۔

    جیسے جیسے دن گزرتے جاتے تھے ہمارا عید کے انتظار کے حوالے سے جنون بڑھتا جاتا تھا جو کہ آج کی نسل میں عنقا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس وقت ہماری عید کے انتظار کی سب سے بڑی وجہ نیا جوڑا، نیا جوتا اور اس کے بعد عیدی ملنا ہوتا تھا کیونکہ اس دور میں عموما تہوار یا کسی شادی بیاہ میں ہی نئے کپڑے بنائے جاتے تھے جبکہ آج اس کے برعکس ہوچکا ہے۔ اب تو جب دل چاہا نئے کپڑے بنالیے تو نئے کپڑوں کی وہ خوشی جو سال میں ایک بار ملنے پر ہمیں بچپن میں ہوتی تھی اور نئے کپڑے پہننے کا انتظار وصل یار کی طرح لگتا تھا، اس مزے سے آج کی نسل ناآشنا ہے۔

    چاند رات پر رات بھر جاگ کر انتظار کیا جاتا تھا کہ صبح عید ہے نئے کپڑے پہنیں گے، پھر سب سے عیدی ملے گی تو اپنی مرضی سے چیزیں کھائیں گے اور خوشی کے یہ چھوٹے چھوٹے پروگرام ہم کئی کئی روز تک دوستوں یا کزنز اور بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر بناتے تھے۔

    ادھر چاند نظر آیا ادھر اُدھم مچ گئی، گھر میں امی اور دیگر بڑی خواتین صبح کے لیے شیر خرما اور دیگر پکوانوں کی تیاری میں جُت جاتیں اور ہم للچائی نظروں سے ہینگر میں ٹنگے استری شدہ نئے کپڑوں کو دیکھ کر جاگتی آنکھوں سے خود کو صبح اس نئے لباس میں دیکھ رہے ہوتے تھے۔ اس وقت صرف ایک سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی ہوتا تھا جو آج کے برعکس اس وقت پورا ماہ رمضان مذہبی لبادہ اوڑھے رکھتا تھا اور ایک ماہ تک گانے اور موسیقی پر پابندی ہوتی تھی لیکن چاند نظر آتے ہی اس پر بھی عید کے رنگ چڑھ جاتے تھے۔ خاص طور پر فریدہ خانم کا مشہور گانا "میں نے پیروں میں پائل تو باندھے نہیں” اور روشانے ظفر کا نغمہ ” فلک پہ کیسا یہ چاند نکلا” ہر عید کی چاند رات کو کئی سالوں تک اتنی مستقل مزاجی سے نشر کیا جاتا رہا ہے کہ بچوں بڑوں کو ان گیتوں کے بول تک ازبر ہوگئے تھے۔

    صبح عید ہوگی کا انتظار کرتے کرتے امی کی پیار بھری سرزنش کے ساتھ سوجاتے تھے۔ صبح نماز عید کے لیے خاندان کے سب بڑے مرد اکٹھا ہوکر عید گاہ نماز کے لیے جاتے تھے اگر لوگ علیحدہ علیحدہ گھروں میں بھی رہتے تھے تو نماز عید کے لیے کسی ایک گھر میں اکٹھا ہوجاتے تھے اور وہیں سے عید گاہ کے لیے روانہ ہوتے تھے۔ بڑوں کے ساتھ بچے بھی بغل میں چادریں، جائے نماز اور کپڑے کے تھیلے دبائے عیدگاہ کی طرف گامزن ہوتے تھے۔ اس وقت کم سن بچوں کی ڈیوٹی ہوتی تھی کہ بڑے جب نماز پڑھیں تو وہ کپڑے کے تھیلوں میں گھر والوں کی جوتیاں جمع کرکے ان کی نگرانی کریں تاکہ وہ چوری نہ ہوسکیں۔

    ادھر نماز عید ہوئی لوگ ایک دوسرے سے گلے ملے اور گھر واپسی ہوئی ادھر ہمیں اپنی عیدی کی فکر ہوئی۔ گھر آتے ہی ابو اور گھر کے بڑوں سے عیدی کا تقاضا شروع ہوجاتا تھا۔ اس وقت عیدی کیا ہوتی تھی آج کے بچے جان لیں تو حیران رہ جائیں۔ ایک روپیہ، دو روپے، پانچ روپے حد ہے 10 روپے۔ ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا تھا کہ 50 یا 100 روپے ملے ہوں۔ اگر کسی کو 100 یا 50 روپے عیدی ملتی تو سمجھ لو پورے محلے میں اس کی شان بڑھ جاتی تھی۔ عیدی ملتے ہی ہم سب گھر سے رفوچکر اور عیدی خرچ کرنے کی فکر۔

    آج کے دور میں جب بچے کولڈ ڈرنک، آئسکریم کے رسیا ہیں اور آئے روز اپنے والدین سے اپنی فرمائشیں پوری کراتے ہیں لیکن ہمارے دور میں ہم میں سے اکثریت ان چیزوں کیلیے عید کا انتظار کرتی تھی کہ عید ہی ایسا موقع ہوتا تھا جب ہم اپنی پسند یعنی کولڈ ڈرنک اور آئسکریم سے بھرپور لطف اندوز ہوتے تھے۔ اس دور میں بچوں کی عیدی میں ملنے والے پیسوں سے سے بڑی عیاشی کولڈ ڈرنک، آئسکریم یا میٹھا پان ہوتا تھا یا پھر گھر کے قریب لگنے والے بچوں کیلیے شغل میلے جن میں مختلف اقسام کے دیسی جھولے، رِنگ پھینک کر انعام جیتنے والی لاٹری یا اس جیسے ہی دیگر کھیل کود۔

    عید کا سارا دن اسی ادھم چوکڑی میں گزر جاتا تھا اور رات ہوتے ہی تھکن کے مارے خوشی سے سرشار ہم نیند کی وادیوں میں گم ہوجاتے تھے۔

    ایسی ہوتی تھی ہماری تصنع و بناوٹ سے دور سادگی کے رنگوں سے لبریز خوشیوں بھری عید جس کا ذکر کرکے ہم بھی اپنے بچپن کی عیدوں میں کھوگئے اور یہ سوچنے لگے کہ کاش یہ بچپن دوبارہ واپس آجائے لیکن پھر یہ سوچ کر ہنس دیے کہ کبھی گزرا وقت بھی واپس آتا ہے اور دوبارہ اپنے مشینی دور میں واپس آگئے تاکہ اپنے بچوں کے لیے حقیقی معنوں میں عید کا اہتمام کرسکیں۔

  • سیاسی اختلاف ضرور کریں، مگر دوستیاں، رشتے داریاں داؤ پر نہ لگائیں

    سیاسی اختلاف ضرور کریں، مگر دوستیاں، رشتے داریاں داؤ پر نہ لگائیں

    چند سال قبل پڑوسی ملک کے ایک نجی ٹی وی چینل پر ڈراما "تُو تو مَیں میں” نشر ہوتا تھا جو ساس بہو کے روایتی جھگڑوں پر مبنی مزاحیہ کہانی تھی۔ ان دنوں ہمارا معاشرہ اسی ڈرامے کی جھلکیاں‌ پیش کررہا ہے جس کی اصل وجہ ہے سیاست اور ہمارے ‘پیارے’ سیاستدان۔

    احمد اور مسعود بچپن کے دوست ہیں۔ احمد کی سیاسی وابستگی پی ٹی آئی اور مسعود کی وابستگی ن لیگ سے ہے۔ انہوں نے واٹس ایپ پر اپنے دوستوں کا ایک گروپ بنایا ہوا ہے جس میں یہ اپنے اسکول اور کالج کے دوستوں سے رابطے میں رہتے اور پرانے دن اور باتوں کو شیئر کرتے رہتے ہیں۔ دو ہفتے قبل عمران خان کی حکومت گئی تو سوشل میڈیا پر جیسے طوفان آگیا۔ ہر سیاسی جماعت کا سپورٹر اپنے اپنے سیاستدانوں کی حمایت میں بڑھ چڑھ کر بولنے لگا اور اس رجحان کا اثر اس گروپ پر بھی پڑا۔ اور جہاں دوست ایک دوسرے سے حال چال پوچھا کرتے تھے، اب وہاں سیاسی بحث زور و شور سے ہونے لگی اور آہستہ آہستہ یہ حد سے بڑھنے لگی۔ ہر شخص اپنے اپنے پسندیدہ سیاستدان کو ہی اس ملک کا نجات دہندہ سمجھتے ہوئے دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کرنے لگا۔ یہ اگر یہیں تک رہتا تو پھر بھی صحیح تھا، لیکن بات آگے بڑھی اور لوگ سیاستدانوں کی حمایت کرتے کرتے دانستہ اور نادانستہ ایک دوسرے کی مخالفت کرنے لگے اور یہ مخالفت اتنی بڑھی کہ معمولی تبدیلی کے ساتھ اس ساری صورت حال میں‌ یہ شعر پڑھا جاسکتا ہے:
    اختلاف جب حد سے بڑھا سارے آداب مٹ گئے
    آپ سے پھر تم ہوئے پھر تو کا عنواں ہو گئے

    گویا پرانی دوستی یاری بھی اس تُو تو مَیں میں کی زد میں آنے لگی اور تعلقات کشیدہ ہونے کے بعد ختم ہونے کی نوبت آگئی۔ یہ تمثیل ہمارے زمینی حقائق کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔

    ڈیجیٹل دنیا میں سوشل میڈیا اس لحاظ سے سب سے طاقتور میڈیا بن کر ابھرا ہے کہ یہاں ہر سچی، جھوٹی بات، تصدیق اور بلا تصدیق کوئی بھی خبر، تصویر، ویڈیو پھیلانے کی سب کو آزادی حاصل ہے۔ تو جب سے ہماری سیاست میں بھونچال آیا ہے اور عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے ساتھ شہباز شریف ملک کے نئے وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں تب سے سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہے۔ دونوں جماعتوں کے سپورٹر اپنی اپنی سوچ اور نظریے کے مطابق دلائل دے کر ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور اس کوشش میں کئی معقول ونامعقول حرکات بھی کی جارہی ہیں جس میں سیاستدانوں کی کردار کشی، دانستہ یا نادانستہ جھوٹ کو پھیلانے میں مدد دینے جیسے کام تو ہو رہے ہیں لیکن ان دنوں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ سیاست اور سیاستدانوں کی محبت میں برسوں سے دوستی کے رشتے میں بندھے دوست، خونی رشتوں والے ناتے جو پہلے سیاستدانوں کی محبت میں نوک جھونک تک ہی رہتے تھے اب سیاستدانوں کو چھوڑ کر باقاعدہ اور براہ راست ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیوں اور رکیک جملے بازیوں پر اتر آئے ہیں جو اب ایک انتہائی حساس معاملہ بنتا جارہا ہے کیونکہ یہ بلاوجہ کی بحث ان پیارے اور میٹھے رشتوں میں دراڑیں ڈال کر انہیں کمزور کرسکتا ہے۔

    میرے ہم وطنو!
    براہِ مہربانی میرے اس طرز تخاطب کو کسی اور پیرائے میں نہ جوڑیں بلکہ سنجیدگی سے غور کریں کہ کیا سیاست اور سیاستدانوں کے حوالے سے جتنا تناؤ ہم لے رہے ہیں اور اس فرسٹریشن میں خود ایک دوسرے کو ہی برا بھلا کہہ رہے ہیں کیا ہمارے "پیارے” سیاستدان بھی باہمی تناؤ کو اپنی ذات پر لاگو کرتے ہیں۔

    انداز بیاں گرچہ میرا شوخ نہیں ہے
    شاید کہ تیرے دل میں اترجائے میری بات

    بہت سے لوگ آگاہ ہونگے کہ پاکستان میں اقتدار کی بساط بچھانے کیلیے سیاستدان باہمی رشتے داریاں مضبوط کرتے آئے ہیں۔ آپس میں یہ کتنا ہی ایک دوسرے کو برا کہیں لیکن اپنی رشتے داریاں خراب نہیں کرتے، اگر ن لیگ کا قالین اٹھا کردیکھیں تو اس میں پی ٹی آئی، ق لیگ، پی ٹی آئی کے لوگ دکھائی دیں گے، اگر پی ٹی آئی کا قالین اٹھائیں تو اس میں دیگر جماعتیں نظر آئیں گی۔ زیادہ دور نہ جائیں پی ٹی آئی کے اسد عمر اور ن لیگ کے زبیر خان آپس میں سگے بھائی ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی اپنی پارٹیوں کے انتہائی وفادار ہیں جو مخالف جماعت کیخلاف کسی حد تک جانے سے گریز نہیں کرتے لیکن کبھی اپنے رشتے پر حرف نہیں آنے دیتے۔ یہ تو صرف ایک مثال ہے۔ ایسی درجنوں مثالیں ہماری سیاسی تاریخ میں بھری پڑی ہیں۔

    کیا اب عوام بھی سیاستدان بن گئی ہے جو ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے لگی ہے؟ تو بہت ہوگیا ایک دوسرے کی کھینچا تانی، سیاست ہوتی رہی ہے، ہوتی رہے گی، سیاسی شور ایسے ہی مچتے رہیں گے لیکن اس شور میں اپنی اقدار، دوستیاں، محبت، رشتوں کو نہ گنوائیں کیونکہ یہ رشتے صرف قیمتی نہیں بلکہ بہت قیمتی ہیں۔ رمضان المبارک کا آخری عشرہ ہے جس کے اختتام پر اللہ تعالیٰ ہمیں بے حد نوازتا ہے اور عید جیسا تہوار منانے کا موقع دیتا ہے جس میں گلے لگ کر ایک دوسرے سے کدورتیں دور کی جاسکتی ہیں تو اگر اس بلاوجہ بحث مباحثے میں اگر آپ کا کوئی پیارا آپ سے ناراض ہوگیا ہے تو آپ ہی پہل کرتے ہوئے اس کی ناراضگی ختم کریں۔ یقین کریں آپ کی یہ پہل تعلقات کی بحالی اور مضبوطی کے لیے ایک جادو کی جپھی کا کام دے گی۔ اس بلاگ کا اختتام اس نظم پر ککرتا ہوں:

    خوشحال سے تم بھی لگتے ہو
    یوں افسردہ تو ہم بھی نہیں
    پر جاننے والے جانتے ہیں
    خوش تم بھی نہیں خوش ہم بھی نہیں
    تم اپنی خودی کے پہرے میں
    اور دام غرور میں جکڑے ہوئے
    ہم اپنے زعم کے نرغے میں
    انا ہاتھ ہمارے پکڑے ہوئے
    ایک مدت سے غلطاں پیچاں
    تم ربط وگریز کے دھاروں میں
    ہم اپنے آپ سے الجھے ہوئے
    پچھتاوے کے انگاروں میں
    خاموش سے تم ہم مہر بہ لب
    جگ بیت گئے ٹُک بات کیے
    سنو کھیل ادھورا چھوڑے ہیں
    بنا چال چلے بنا مات کیے
    جو بھاگتے بھاگتے تھک جائیں
    وہ سائے رُک بھی سکتے ہیں
    چلو توڑو قسم اقرار کریں
    ہم دونوں جُھک بھی سکتے ہیں

  • عمران خان کی حکومت عوام میں غیر مقبول ہورہی تھی، لیکن پھر ۔۔۔؟

    عمران خان کی حکومت عوام میں غیر مقبول ہورہی تھی، لیکن پھر ۔۔۔؟

    پاکستان تحریک انصاف نے حکومت جانے کے بعد تین کامیاب عوامی جلسوں کی ہیٹ ٹرک مکمل کرلی ہے۔

    پشاور اور کراچی کے بعد پی ٹی آئی کی سخت سیاسی حریف ن لیگ کے گڑھ لاہور میں ہونیوالے جلسے میں بھرپور پاور شو نے ایوان اقتدار میں تھرتھلی مچا دی ہے، کیونکہ یہ جلسے پی ٹی آئی کی حکومت جانے کے بعد کیے گئے ہیں اس لیے کوئی یہ شور بھی نہیں کرسکتا کہ اسکے لیے ریاستی مشینری کا بے دریغ استعمال کیا گیا ہے۔

    ملک میں جب 2022 کا سورج طلوع ہوا تو غربت اور مہنگائی کے مارے عوام کیلیے امید کی کوئی نئی کرن اس نئے سال کے سورج میں نہیں تھی، عوام بدستور بدترین مہنگائی کا عذاب سہہ رہی تھی، اشیائے خورونوش غریب عوام کی دسترس سے دور ہوتی جارہی تھیں آئے دن بجلی، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ مہنگائی کے پروں کو انرجی فراہم کرتا تھا، یہ حالات تھے کہ اس وقت کی عمران خان حکومت کے وزرا بھی بڑھتی مہنگائی سے پریشان ہوچلے تھے اور کابینہ اجلاسوں میں برملا اس بات کا اظہار کیا جاتا تھا کہ مہنگائی اپنی تمام حدیں کراس کرچکی ہے عوام کا جینا دوبھر ہوگیا ہے اور اگر یہی حالات رہے تو آئندہ الیکشن میں ان کا اپنے حلقوں میں عوام کے درمیان جانا مشکل ہوجائے گا اور پی ٹی آئی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

    اس وقت سیاسی منظر نامے پر آج کل کی طرح سیاسی ہلچل نہیں تھی۔ پی ڈی ایم گوکہ اپوزیشن کر رہی تھی اور اس نے مہنگائی کے بیانیے کو بھی اپنایا تھا لیکن عوام نے اس کے بیانیے کو مسترد تو نہیں کیا لیکن لبیک کہہ کر اپوزیشن کی صفوں میں بھی شامل نہیں ہوئی۔

    بڑھتی مہنگائی اور اس پر سابق وزیراعظم کے چند قریبی وزرا کے زخموں پر نمک چھڑکتے بیانات نے خاموش عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز کرنا شروع کر دیا تھا اور عام محافل، پبلک ٹرانسپورٹ، بسوں، ٹرینوں، ہوٹلوں، دکانوں، بازاروں، دوست یاروں کی بیٹھکوں میں صرف ایک ہی مسئلہ مہنگائی زیر بحث ہوتا تھا اور لوگ ملبہ ڈال رہے تھے عمران خان کی نااہلی اور کابینہ پر۔

    ان بیٹھکوں اور غیر رسمی باتوں میں پریشان حال عوام پی ٹی آئی حکومت پر تبرا بھی بھیجتی رہی اور نالاں بھی رہی کہ عمران خان جو وعدے کرکے اقتدار میں آئے وہ پورے نہیں ہورہے بلکہ عوام جو پہلے ہی غربت ومہنگائی کے مارے تھے ان کو مزید مہنگائی کی دلدل میں اتار کر بے سہارا چھوڑ دیا گیا ہے۔

    یہ سب ایسے ہی چل رہا تھا اور شاید کچھ وقت تک چلتا رہتا اور آئندہ سال ہونے والے انتخابات میں پی ٹی آئی اس عوامی بے اعتنائی کا خمیازہ اس وقت کے حالات کے مطابق آئندہ الیکشن میں متوقع ناکامی کی صورت میں چکھ بھی لیتی لیکن پھر ایسا ہوا کہ اپوزیشن حلقوں میں یوٹرن خان کے نام سے مشہور عمران خان کی غیر مقبولیت کو یوٹرن مل گیا اور آج عمران خان صرف ملکی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔

    تحریک عدم اعتماد کے نام پر ماضی کی دشمن نما حریف سیاسی جماعتوں کا اکٹھ ہوا تو عوام نے یہ مناظر دیکھے کہ ماضی میں ایک دوسرے کیلیے گالیاں نکالنے والے، سڑکوں پر گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑ کر کرپشن کا پیسہ نکالنے، ایک دوسرے کو کرپشن کا بادشاہ کہنے والے ایک دوسرے کو درویش صفت کہتے ہوئے آپس میں بغلگیر بھی ہوئے، جب ایک شخص کے خلاف تمام سیاسی دشمنوں کو اکٹھا ہوتے دیکھا تو عمران خان حکومت سے بیزار عوام کی سوچ میں بھی تبدیلی آنے لگی اور یہ تبدیلی کا ہی مظہر ہے کہ آج عمران خان ملک بھر میں بھرپور پاور شو کررہے ہیں۔

    پاکستان میں جمہوری حکومتوں کے قبل از وقت خاتمے کی طویل تاریخ ہے لیکن یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ یہاں حکومت کے جانے پر مٹھائیاں بانٹی گئی ہیں اور اگر احتجاج بھی ہوا تو محدود پیمانے پر لیکن عمران حکومت کے خاتمے پر چشم فلک نے یہ نظارہ دیکھا کہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے ان ممالک میں جہاں پاکستانی بستے ہیں وہاں عوام نکلی اور خوب نکلی۔

    عمران خان نے عوام کے جوش وجذبے کو دیکھتے ہوئے عوامی رابطہ مہم کا اعلان کیا اور ‘امپورٹڈ حکومت نامنظور’ کا نعرہ مستانہ لگاتے ہوئے پہلے مرحلے میں پشاور، کراچی اور لاہور میں جلسوں کا اعلان کیا اور اس بلاگ کے لکھے جانے تک تینوں جلسے ہوچکے اور بھرپور انداز میں ہوئے۔ شاید عمران خان اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کی توقعات سے زیادہ کامیاب ہوئے ہیں جس کا اظہار وہ اپنے بیانات میں بھی کر رہے ہیں۔

    پی ٹی آئی کے جلسوں کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکومتی کیمپ میں سے کسی نے اب تک اسے حسب سابق جلسی یا ناکام جلسہ نہیں کہا بلکہ بیان آیا بھی ہے تو یہ کہ عمران خان عوام کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔

    عمران خان اپنے جلسوں میں ایک ہی مطالبہ لے کر چلے ہیں کہ فوری طور پر نئے الیکشن کا اعلان کیا جائے اور لاہور میں انہوں نے عوام کو تیار رہنے کی ہدایت کی ہے کہ وہ اب اسلام آباد جانے کی کال دیں گے اگر ایسا ہوا تو کیا پھر 2014 کی تاریخ دہرائی جائیگی؟

    بہرحال عمران خان کے جلسوں کی کامیابی اور ملک و بیرون ملک پذیرائی دیکھ کر حکومت جو کہ خود بھی قبل از وقت الیکشن کی خواہاں ہے لیکن اس کیلیے پریشانی کا سبب اس وقت کسی بھی سیاسی لیڈر کے مقابلے میں عمران خان کی آسمان کو چھوتی مقبولیت ہے اور حکومتی حلقوں میں یہ سوچ موجود ہے کہ موجودہ حالات میں اگر الیکشن کا اعلان ہوتا ہے تو شاید پی ٹی آئی پہلے سے زیادہ بھرپور طاقت کے ساتھ اقتدار میں آجائے اس لیے حکومت دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل کرنا چاہتی ہے اور سمجھتی ہے کہ وقت کے ساتھ عوامی جذبات جھاگ کی طرح بیٹھ جائیں گے، اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ یہ عوامی جذبات حقیقی ثابت ہوتے ہیں یا صابن کے جھاگ کی طرح وقتی اس کیلیے ہمیں اور آپ کو بھی انتظار کرنا ہوگا۔

  • ایم کیو ایم پھر حکومت میں شامل، دعوے کہاں گئے؟

    ایم کیو ایم پھر حکومت میں شامل، دعوے کہاں گئے؟

    وزیراعظم بننے کے 9 روز بعد بالآخر شہباز شریف 34 رکنی کابینہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوگئے اور حلف اٹھانے والوں میں ایم کیو ایم کے بھی دو وفاقی وزیر شامل ہیں جب کہ سندھ میں گورنر کیلیے بھی ایم کیو ایم سے نام مانگے گئے ہیں۔

    ایم کیو ایم کی جانب سے وفاقی کابینہ میں حلف اٹھانے والوں میں سید امین الحق اور فیصل سبزواری شامل ہیں، امین الحق کو تو ان کی پرانی وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی دی گئی ہے جب کہ اس بلاگ کے تحریر کیے جانے تک فیصل سبزواری کو وزارت بحری امور دیے جانے کا امکان ہے جب کہ شنید ہے کہ گورنر کیلیے ایم کیو ایم کی جانب سے عامر خان، نسرین جلیل اور سابق وفاقی وزیر فروغ نسیم کے ناموں پر غور کیا جارہا ہے۔

    متحدہ قومی موومنٹ پاکستان جو کہ پی ٹی آئی کی سابق حکومت کا بھی حصہ تھی اور اُس حکومت میں بھی اس کے دو وفاقی وزیر شامل تھے لیکن عدم اعتماد کے گرما گرم ماحول میں ایم کیو ایم نے اپنی سوچ بدلی اور پونے چار سال بعد اس کو خیال آگیا کہ پی ٹی آئی سے اس نے جو معاہدہ کیا تھا اس میں سے ایک پر بھی عملدرآمد نہ ہوا اور اس کے بعد کئی روز تک مشاورت در مشاورت کے بعد عدم اعتماد پر ووٹنگ سے چند روز قبل وہ اس وقت کی متحدہ اپوزیشن میں شامل ہوگئی۔

    جس وقت ایم کیو ایم نے یہ فیصلہ کیا تو اپنے فیصلے کی توجیہہ پیش کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے کہا کہ ان کا مطمح نظر حکومت، وزارتیں اور گورنر شپ نہیں بلکہ سندھ کے شہری مسائل بالخصوص بلدیاتی اختیارات، لاپتہ کارکنوں کی بازیابی، بند دفاتر کی واپسی جیسے اہم مسائل کا حل شامل ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران متعدد بار ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی جانب سے تواتر کے ساتھ یہ بیانات سامنے آتے رہے کہ وہ حکومت میں شامل نہیں ہونگے اور ان کا موجودہ اتحاد صرف معاہدے کے نکات پر عملدرآمد تک محدود ہے۔

    اس دوران ایم کیو ایم کے کنوینر سمیت دیگر رہنماؤں اور پی ٹی آئی رہنماؤں کے درمیان لفظی گولہ باری بھی جاری رہی اور سابقہ حلیف ایک دوسرے پر سنگین الزام تراشی کرتے رہے تاہم اب جب کہ ایم کیو ایم باقاعدہ وفاقی حکومت میں شامل ہوگئی ہے اور جلد ہی گورنر سندھ بھی ایم کیو ایم کا ہوگا اور امکان ہے کہ سندھ کابینہ میں بھی ایم کیو ایم کو حصہ دیا جائیگا، اس تمام صورتحال میں ایم کیو ایم کا ووٹر حیران و پریشان ہے۔

    ایسا نہیں ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان پہلی یا دوسری بار کسی حکومت کا حصہ بنی ہو، ایم کیو ایم کی پارلیمانی تاریخ کے 34 سالہ ادوار کا جائزہ لیں تو یہ 1993 سے 1996 کا دور بغیر حکومت کے ایم کیو ایم نے گزارا جب کہ اس کے خلاف فوجی آپریشن جاری تھا اس کے علاوہ ایم کیو ایم تقریبا 30 سال تک ہر حکومت کا کسی نہ کسی صورت میں حصہ رہی ہے، ایم کیو ایم کے پاس گزشتہ دور حکومت میں بھی دو وزارتیں تھیں، جب کہ ملک کی تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک گورنر رہنے کا اعزاز متحدہ کے نامزد گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے پاس رہا ہے جو کہ ایک دہائی سے زیادہ وقت تک مسلسل گورنر سندھ کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔

    اس تمام صورتحال میں ایم کیو ایم کا ووٹر پہلے سابق حکومت سے باہر نکلنے اور اب پھر ایک نئی حکومت میں شامل ہونے کے فیصلے پر حیران ہے کہ ایم کیو ایم اقتدار کے ایوانوں کا حصہ ہونے کے باوجود اب تک اپنے مسائل حل نہیں کراسکی تو اب اس نئی حکومت کا حصہ بن کر اپنے کون سے حقوق حاصل کرلے گی جس سے شہری سندھ کا بھلا یا عوام کا فائدہ ہوگا؟

    نہ نہ کرتے پیار تم ہی سے کر بیٹھے
    کرنا تھا انکار مگر اقرار تم سے کر بیٹھے

    اس کے ساتھ ہی ایم کیو ایم کے عام ووٹر سمیت شہریوں کی جانب سے ایم کیو ایم کے پی ٹی آئی سے کیے گئے تین بنیادی مطالبات سے متعلق سوال بھی کیا جارہا ہے کہ ایم کیو ایم لاپتہ کارکنان کی عدم بازیابی، بند دفاتر واپس نہ دیے جانے اور مقدمات ختم کیے جانے جیسے مطالبات پورے نہ ہونے کا جواز بنا کر پی ٹی آئی حکومت سے علیحدہ ہوئی جب کہ یہ ایشوز پی ٹی آئی دور حکومت کے دوران رونما نہیں ہوئے بلکہ پی پی پی اور مسلم لیگ ن کی سابقہ حکومتوں کے ادوار میں ہوئے جن کی وہ آج پھر ہم نوالہ و ہم پیالہ ہے جب کہ یہ بات ایم کیو ایم سمیت تمام سیاسی قوتوں کو معلوم ہے کہ ایم کیو ایم کے مذکورہ بنیادی مطالبات کسی سیاسی حکومت یا جماعت کے حل کرنے کے بس کی بات نہیں ہے۔

  • کیا اتحادی ہی موجودہ حکومت کی ناکامی کا سبب بنیں‌ گے؟

    کیا اتحادی ہی موجودہ حکومت کی ناکامی کا سبب بنیں‌ گے؟

    پاکستان میں نئی حکومت کو آٹھ روز گزر چکے ہیں۔ وقت کی گردش نے اپوزیشن کو ایوان اقتدار میں لا بٹھایا اور حکمرانوں کو سڑکوں پر نکال دیا ہے۔

    شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد حسب روایت اپنے امور کی انجام دہی میں پھرتیاں دکھانی شروع کردی ہیں لیکن آٹھ روز گزر جانے کے باوجود اس اتحادی حکومت میں‌ وفاقی کابینہ تشکیل نہ دیے جانا ملک میں ایک نئی بحث کو جنم دے رہا ہے۔

    ہم نے اپنے گزشتہ بلاگ میں کہا تھا کہ ساجھے کی ہانڈی ہمیشہ بیچ چوراہے پر پھوٹتی ہے اور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں تو یہی ہوتا دیکھا ہے لیکن ہانڈی میں ایک ہفتے کے دوران ہی ابال آنے لگے گا، اس کا اندازہ نہیں‌ تھا۔

    ملک میں چند روز ہی سیاسی سکون رہا اور اب حکومتی کیمپ سے بے چینی ظاہر ہونے لگی ہے۔ شہباز شریف کے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد کابینہ کی تشکیل کے معاملے پر پی ڈی ایم اور اپوزیشن کی دیگر جماعتوں میں اختلافات ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے جا رہے ہیں۔ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی کامیابی کی سرخیل جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اس حوالے سے سرفہرست ہے۔ کہا جارہا ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری اور پارٹی کے بعض دیگر رہنما کابینہ میں شمولیت کے سرے سے مخالف ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ پی پی صرف آئینی عہدوں تک محدود رہے اور اس کی وجہ وہ مشکلات ہیں‌ جو مستقبل میں حکومت کو پیش آسکتی ہیں‌۔ پی پی پی اس حکومت کی ناکامی کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھانے کو ہرگز ہرگز تیار نہیں ہے اور پارٹی کے سینیئر رہنما بھی اس معاملے پر آصف زرداری کے ہمنوا ہیں۔ اس حوالے سے پی پی پی اور ن لیگ میں اختلافات بھی سامنے آگئے ہیں۔ پہلے پی پی نے وفاقی کابینہ میں شمولیت کو پنجاب میں آئندہ عام انتخابات میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے مشروط کیا اور جب اس حوالے سے دونوں میں معاملات طے پائے تو پھر اہم وزارتوں پر اختلافات ظاہر ہوگئے۔ اب سننے میں آرہا ہے کہ پی پی پی نے صدر، چیئرمین سینیٹ کے ساتھ چاروں صوبوں کی گورنر شپ مانگ لی ہے جب کہ کے پی کے اور بلوچستان میں دیگر اتحادی جماعتیں اپنے اپنے گورنرز کے خواب دیکھ رہی ہیں۔ آصف علی زرداری ایک بار پھر صدر مملکت کا منصب سنبھالنے کیلیے تیار ہیں۔

    ادھر پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن جو صدر بننے کا خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں، کی جماعت جے یو آئی ف بھی وفاقی کابینہ میں شمولیت میں دلچسپی نہیں رکھتی جب کہ مولانا فضل الرحمٰن نے اپنے صدر پاکستان بننے کا خواب ممکنہ طور پر پورا نہ ہونے کے سبب فوری نئے عام انتخابات کا مطالبہ کر دیا ہے۔ ان کا اپنے مطالبے کی حمایت میں کہنا ہے کہ اقتدار کو غیر ضروری طور پر طول دینا ہمارا منشا نہیں، ہمیں فوری طور پر الیکشن چاہییں، قوم کو امانت واپس کرنا ہماری ذمے داری ہے۔

    ن لیگ نے ایک بار پھر سیاست میں کوئی حرف آخر نہیں ہوتا کے مصداق چیئرمین سینیٹ کیلیے اسحاق ڈار کے نام کا اعلان کردیا ہے جو کہ ابھی تک ملک واپس بھی نہیں آسکے ہیں، ن لیگ کے اس اقدام نے پی پی کو مزید مشتعل کردیا ہے اور بلاول بھٹو جو کہ پی پی کے راضی ہونے پر ممکنہ طور پر وزیر خارجہ بننے جارہے تھے نے لندن کیلیے اڑان بھر لی ہے۔ دوسری طرف پی پی نے اس صورتحال میں آئندہ عام انتخابات کیلیے پارٹی ٹکٹ کے امیدواروں سے درخواستیں بھی طلب کرلی ہیں۔

    شہباز حکومت کی ایک اور اہم اتحادی جماعت ایم کیو ایم بھی وزارتیں لینے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ پہلے ایم کیو ایم کی جانب سے موقف آیا تھا کہ ہمارے لیے معاہدے کے نکات زیادہ اہم ہیں اور اس پر عملدرآمد دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ وزارتوں سے زیادہ اہم ہے۔ اب حمزہ شہباز کے وزیراعلیٰ پنجاب بننے کے بعد ایک نیا موقف سامنے آیا ہے کہ ایم کیو ایم کے کنوینر نے کہا کہ یہ خاندانی سیاست ہے جمہوریت نہیں۔ تو اس موقف پر سوال تو بنتا ہے کہ کیا ن لیگ اور پی پی پی دونوں میں موروثی سیاست نہیں؟ 1990 سے ن لیگ اور 1970 سے پی پی پی کی سیاست خاندانی موروثیت کے گرد ہی تو گھوم رہی ہے۔ تو کیا معاہدہ کرتے وقت ایم کیو ایم دونوں جماعتوں کی یہ تاریخ بھول گئی تھی۔

    موجودہ سیاسی صورتحال سے لگتا تو یہ ہے کہ مفاہمت کے بادشاہ جن کیلیے ایک جملہ بہت مشہور ہے کہ ‘ایک زرداری سب پہ بھاری’ نے گزشتہ دو ماہ کے دوران پاکستانی سیاست میں فیصلے کرکے ثابت کردیا ہے کہ وہ سیاسی میدان میں سب پر بھاری ہیں۔

    عدم اعتماد پیش کرتے وقت ہی ماہرین معاشیات سمیت سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ تحریک کی کامیابی کی صورت میں جو بھی حکومت آئے گی اس کیلیے ملک چلانا آسان کام نہیں ہوگا اور جلد یا بدیر قبل از وقت انتخابات کا اعلان کرنا ہی پڑے گا۔ لیکن جہاندیدہ آصف علی زرداری نے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا لالچ دے کر اس پر رام کیا اور اب خود کو ممکنہ طور پر چند ماہ یا چند ہفتوں کی حکومت میں کابینہ سے الگ تھلگ رکھ کر صرف آئینی عہدوں صدر، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر، صوبوں کے گورنرز تک ہی محدود رہنا چاہتی ہے۔ قیاس آرائیاں یہ کی جارہی ہیں کہ آصف زرداری ن لیگ کو موجودہ حکومت میں ناکام ثابت کرکے پنجاب میں اپنا راستہ صاف کرنے کے خواہشمند ہیں اور ممکنہ طور پر وہ آئندہ انتخابات میں ق لیگ کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرکے پنجاب میں الیکشن میں جانا چاہتے ہیں جب کہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد ن لیگ نے بھی اب آنکھیں دکھانا شروع کردی ہیں۔ صرف پی پی ہی نہیں جے یو آئی اور ایم کیو ایم بھی اس معاملے میں ایک ہی پیج پر نظر آتی ہیں۔

    اس صورتحال میں ن لیگ ایک نئی مشکل میں پھنستی نظر آرہی ہے کیونکہ اگر وہ پی ٹی آئی کی سابق حکومت کی ناکامی پر واویلا کرنے کے بعد اب اقتدار میں ہونے کے باوجود عوام کو مشکلات سے نہیں نکال پاتی تو آئندہ الیکشن کیلیے اس کے پاس کیا نعرہ یا جواز ہوگا۔ بہتر یہی ہے کہ چہرے پر ناکامی کی کالک ملنے کے بجائے جلد الیکشن کی طرف جایا جائے تاکہ ملک میں بھی سیاسی استحکام آسکے۔ ان حالات میں اگر ن لیگ اقتدار میں رہتی ہے تو ہوسکتا ہے کہ اپوزیشن نہیں بلکہ اس کی اتحادی جماعتیں ہی آئندہ الیکشن میں کامیابی کیلیے حکومت کیلیے مشکلات کھڑا کردیں اور ن لیگ پر یہ شعر صادق آئے:

    دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
    اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

  • ایم کیو ایم کی پھر قلابازی، کیا حکومت کا جانا ٹھہر گیا ہے؟

    ایم کیو ایم کی پھر قلابازی، کیا حکومت کا جانا ٹھہر گیا ہے؟

    بالآخر وفاق میں پی ٹی آئی حکومت کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے اپنا حتمی فیصلہ سنا دیا۔

    جب سے عدم اعتماد کی بازگشت شروع ہوئی، ہر روز آج نہیں کل اور کل نہیں پرسوں کہہ کر ٹالنے والی ایم کیو ایم نے تحریک عدم اعتماد پر قومی اسمبلی میں بحث سے ایک روز قبل حکومت کو الوداع کہنے اور اپوزیشن سے دوستی کا باضابطہ اعلان کر دیا۔

    گو کہ اس اعلان سے ایک دو روز قبل ہی ایم کیو ایم کی ہوائیں اپوزیشن رخ پر چلنا شروع ہوگئی تھیں جس کا عندیہ دونوں طرف کے لوگ دے رہے تھے، وفاقی وزیر امین الحق نے کہا تھا حکومت کا رہنا یا جانا ہمارے ہاتھ میں ہے جب کہ اپوزیشن کے بیانیے تو لڈی ڈالنے کے مترادف ہی تھے، تاہم اس حتمی اعلان کے ساتھ ہی حکومت کو دھچکا لگا۔ نمبر گیم کی بات کی جائے تو عدم اعتماد کی جیت میں تو اپوزیشن مطلوبہ نمبر گیم سے بھی آگے نکلتی نظر آرہی ہے۔ متحدہ اپوزیشن کے ساتھ پریس کانفرنس میں ایم کیو ایم نے بھی وزیراعظم عمران خان کو مستعفی ہونے کا مشورہ دیا ہے جب کہ اپوزیشن لیڈر اور ن لیگ کے قائد شہباز شریف بھی یہی بات کہتے نظر آتے۔

    ایم کیو ایم کا متحدہ اپوزیشن سے 27 نکات پر مبنی معاہدہ ہوا ہے جس میں شہری سندھ سے متعلق تمام مسائل کا احاطہ کیا گیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایم کیو ایم کا ان نکات پر مبنی پہلی بار معاہدہ ہے؟ کیا یہ ن لیگ سے پہلی بار معاہدہ ہے؟ کیا پی پی پی سے ایم کیو ایم کا پہلی بار معاہدہ ہے؟ تو ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔ ایم کیو ایم ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے 1988 سے 2013 کے دوران تین تین بار معاہدے کرکے وفاق اور صوبائی حکومتوں میں شامل ہوتی رہی ہے اور تقریباْ ہر بار ہی کچھ وقت بعد اپنے کیمپ بدلتی رہی ہے۔
    17 اگست 1987 کو صدر جنرل ضیا الحق کی طیارہ حادثے میں ہلاکت کے بعد 16 نومبر 1988 کو جب بہت طویل مارشل لا کے بعد ملک میں جماعتی بنیادوں پر عام انتخابات ہوئے تو ایم کیو ایم کو پہلی بار پارلیمانی طاقت تسلیم کیا گیا۔ اور کراچی و حیدرآباد سمیت سندھ کے شہری علاقوں سے قومی اسمبلی کی 13 اور سندھ اسمبلی کی 25 نشستیں جیت کر ملک کی ’تیسری بڑی سیاسی جماعت‘ بن کر اُبھری۔ ان انتخابات میں ملک بھر میں سب سے زیادہ نشستیں جیتنے والی پیپلز پارٹی نے حکومت بنانے کے لیے ایم کیو ایم سے شراکت اقتدار کا معاہدہ کیا اور یوں ایم کیو ایم بھی پہلی بار کسی سیاسی اتحاد کا حصہ بنی۔

    ایم کیو ایم نے 1988 میں پی پی پی سے شہری سندھ کے مسائل پر مبنی مطالبات پر معاہدہ کیا لیکن صرف دو سال سے بھی کم عرصے میں یہ حکومت ختم کردی گئی جب کہ اس دوران بھی ایم کیو ایم، پی پی پی کے رویے سے شاکی رہی اور پی پی پی پر معاہدوں سے انحراف کا الزام عائد کرتے ہوئے اس وقت کی اپوزیشن اسلامی جمہوری اتحاد کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ بعد ازاں 6 اگست 1990 کو صدر غلام اسحٰق خان کی جانب سے پی پی حکومت کو امن و امان کی خراب صورت حال اور دیگر الزامات پر برطرف کردیا گیا۔ قبل از وقت حکومت ختم کیے جانے کے نتیجے میں 24 اکتوبر 1990 کو پھر عام انتخابات ہوئے جس میں اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت بنی اور نواز شریف نے پہلی بار اسلام آباد میں اقتدار سنبھالا اور اسلامی جمہوری اتحاد تحلیل ہونے کے بعد مسلم لیگ ن کا وجود عمل میں آیا۔ ان انتخابات میں ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کی 15 اور سندھ اسمبلی کی 28 نشستیں حاصل کیں اور 1990 میں نواز شریف کی حکومت میں شامل ہوگئی لیکن پھر 19 جون 1992 کو کراچی آپریشن کلین اپ کا سلسلہ شروع ہوا جس کے نتیجے میں ایم کیو ایم نے نواز شریف کو الوداع کہہ دیا۔

    18 اپریل 1993 کو وزیراعظم سے اختلافات پر صدر غلام اسحٰق خان نے پھر 58 ٹو بی ترمیم کا حق استعمال کرتے ہوئے نواز حکومت سے جان چھڑائی۔ گو کہ 26 مئی 1993 کو سپریم کورٹ نے نواز شریف حکومت بحال کر دیا لیکن مگر 18 جولائی 1993 کو صدر اسحٰق اور وزیراعظم شریف دونوں ہی کو مستعٰفی ہونا پڑا۔

    دو حکومتیں قبل از وقت ختم ہونے کے بعد ضیا دور کے بعد کی جمہوریت کے پانچویں سال میں 6 اکتوبر 1993 کو تیسرے عام انتخابات ہوئے لیکن ایم کیو ایم نے کراچی میں جاری آپریشن کے باعث قومی اسمبلی کا بائیکاٹ کیا مگر صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں سندھ کی 28 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔

    1988 سے تاحال یہ پہلا دور تھا جب ایم کیو ایم کسی وفاقی یا صوبائی حکومت کا حصہ نہیں بنی۔ پی پی کے اس دور حکومت میں کراچی میں ماورائے عدالت اور پولیس کے ہاتھوں ہلاکتوں کا سلسلہ اپنے عروج پر رہا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ اس وقت کی وزیراعظم بینظیر بھٹو کے بھائی اور ایم پی اے میر مرتضی بھٹّو 20 ستمبر 1996 کو پولیس سے ایک مدبھیڑ میں جان کی بازی ہار گئے۔ ان حالات میں خود پیپلز پارٹی کے مقرر کردہ اور بینظیر کے قریبی ساتھی صدر فاروق احمد خان لغاری نے پانچ نومبر 1996 کو بینظیر بھٹّو کی حکومت کو لاقانونیت اور بدعنوانی کے الزامات میں برطرف کر دیا اور قومی و صوبائی اسمبلی بھی تحلیل کر دی گئی۔

    90 کی دہائی کے تیسرے عام انتخابات 3 فروری 1997 کو ہوئے اور ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کی 12 نشستیں حاصل کیں جب کہ نواز شریف کی مسلم لیگ ن دو تہائی اکثریت لے کر کامیاب ہوئی۔ 1997 میں نواز شریف ایک بار پھر وزیر اعظم منتخب ہوئے تو ایم کیو ایم ایک بار پھر اتحادی بن کر نواز شریف کی حکومت میں شامل ہو گئی۔ لیاقت جتوئی ایم کیو ایم کی مدد سے سندھ کے وزیر اعلیٰ مقرر ہوئے تاہم یہ اتحاد صرف ڈیڑھ سال ہی قائم رہا اور 17 اکتوبر 1998 اس وقت کے گورنر سندھ حکیم محمد سعید کو قتل کر دیا گیا اور وزیراعظم کی جانب سے اپنی ہی اتحادی جماعت ایم کیو ایم پر اس قتل کا مبینہ الزام عائد کرنے پر ایم کیو ایم پھر حکومت سے علیحدہ ہوگئی۔

    12 اکتوبر 1999 کو پرویز مشرف کے نواز شریف کا تختہ الٹنے اور اقتدار پر قبضہ کرنے کے 3 سال بعد 10 اکتوبر 2002 کو پھر انتخابات ہوئے اور ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کی 19 اور صوبائی اسمبلی کی 51 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ اس الیکشن کے نتیجے میں میر ظفر اللہ خان جمالی وزیر اعظم اور صوبہ سندھ میں پہلے علی محمد مہر اور پھر ارباب غلام رحیم وزیر اعلیٰ بنے۔ ایم کیو ایم وفاق اور صوبے میں ایک بار پھر حکومت میں شامل ہوئی اور دسمبر 2007 تک حکومت کی مدت مکمل ہونے تک اقتدار میں شریک رہی۔

    18 فروری 2008 کے انتخابات ایم کیو ایم نے 18 عام اور مخصوص نشستوں سمیت قومی اسمبلی کی کل 25 اور صوبائی اسمبلی کی 42 نشستیں حاصل کیں۔ مرکز میں پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی۔ یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ اس الیکشن میں ایم کیو ایم نے 18 عام اور مخصوص نشستوں سمیت قومی اسمبلی کی کل 25 اور صوبائی اسمبلی کی 42 نشستیں حاصل کیں۔ سندھ میں پی پی پی نے حکومت بنائی۔ اور پھر ایم کیو ایم وفاق اور سندھ میں حکومت کا حصہ بنی لیکن 2013 کے عام انتخابات سے ڈیڑھ دو ماہ قبل ہی پی پی حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی۔

    11 مئی 2013 میں انتخابات میں ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کی کل 25 اور سندھ اسمبلی کی 51 نشستیں حاصل کیں۔ وفاق میں حکومت ن لیگ کی بنی لیکن سندھ میں پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی اور ایم کیو ایم اس وقت کارکنوں کے ریفرنڈم کے فیصلے پر صوبائی حکومت میں شامل نہیں ہوئی لیکن تقریباْ ایک سال بعد ہی نہ جانے کیا ہوا کہ مئی 2014 میں اچانک ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت میں شامل ہوگئی اور فقط ساڑھے چار ماہ ہی میں اس حکومت سے بھی نکل آئی۔

    25 جولائی 2018 کے الیکشن میں پی ٹی آئی پہلی بار اتنی نشستیں لینے میں کامیاب ہوئی کہ ق لیگ، بی اے پی اور ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر وفاق میں حکومت بنائی، ایم کیو ایم نے اس الیکشن میں پہلی بار ہزیمت اٹھائی اور صرف قومی اسمبلی کی 7 نشستیں ہی حاصل کرسکی۔ تاہم ایم کیو ایم اس حکومت میں ہنستے کھیلتے شامل ہوئی اور شکوے شکایات کرتے چار سال گزارے۔ اب یہ اتحاد تقریباً 4 سال بعد 30 مارچ 2022 کو ٹوٹ گیا ہے اور ایم کیو ایم ایک بار پھر آزمودہ سیاسی کیمپوں میں جانے کا اعلان کرچکی ہے۔

    اب جب کہ ایم کیو ایم کی یہ سیاسی شراکت بھی قبل از وقت ہی ختم ہوگئی ہے، ایم کیو ایم کے ووٹرز اور سپورٹرز سوشل میڈیا پر یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا ن لیگ اور پی پی پی ایم کیو ایم کے لیے اتنی قابل اعتماد ہوچکی ہیں کہ وہ کاغذی وعدوں اور عہد و پیماں پر اپنے پَر کھول کر ان کی جانب اڑان بھر چکی ہے۔ کیا اس سے شہری سندھ اور ایم کیو ایم کے ووٹرز کو کچھ فائدہ ہو گا اور کراچی کے دیرینہ مسائل حل ہوسکیں گے؟ ووٹروں اور سپورٹروں کی جانب سے یہ بھی پوچھا جارہا ہے کہ کیا یہ واقعی ملک اور قوم کے مفاد میں فیصلہ ہے یا پھر اس میں ذاتی مفادات شامل ہیں؟

    ایم کیو ایم کے اس فیصلے کے ثمرات اور مضمرات کا تو آنے والے وقت میں ہی پتہ چلے گا لیکن وفاق سے خبریں ہیں کہ وزیراعظم نے مستعفی نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے اور کہا ہے کہ آخری وقت تک لڑوں گا۔

    اسی سیاسی ہنگامے میں دھمکی آمیز خط کا بھی خوب چرچا ہورہا ہے۔ اب فیصلے کے چند دن رہ گئے ہیں۔ شکست کس کی اور جیت کس کی، جلد پتہ چل جائے گا۔

  • میرے  ‘پیارے’  ہمسائے کے نام

    میرے ‘پیارے’ ہمسائے کے نام

    یہ بات ہے کچھ عرصہ پہلے کی، میں گھر سے باہر تھی۔ مجھے میری بہن کا”ایس-ایم-ایس” موصول ہوا۔ اُس انگریزی ایس-ایم-ایس کا اردو رترجمہ کرنے میںمجھے کافی دِقت محسوس ہو رہی ہے لہٰذا ‘اردو’ مفہوم ہی پیشِ خدمت کئے دیتی  ہوں”ہمارے محلے میں ایک نئی فیملی رہنے کے لیےتشریف فرما ہوئی ، فیملی میں دو بھائی ایسے تھے جنکو ‘اردو’ اور پنجابی لغت کے کچھ ایسے الفاظ پر مہارت حاصل تھی جو ہم اکثر اوقات گھروں میں ماؤں بہنوں کے سامنے بولتے حتٰی کہ سُنتے ہوئے بھی ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں”خیر میں نے اپنی بہن کے ایس-ایم-ایس پر کوئی خاص توجہ نہ دی۔ کافی عرصہ گزر گیا، ایک دن میرے کانوں کو کچھ ایسے الفاظ سُننے کو ملے جو معمول میںآج سے پہلے کبھی نا سنے تھے، اور اگر سُنے بھی ہونگے تو اس قسم کے’کمبینیشن’کے ساتھ تو ہرگز نہیں۔ مجھے اپنی کمر پر عجیب سے سرسراہٹ محسوس ہونےلگی۔ میں جو کہ ایک بہت ‘بولڈ’ شخصیت کی مالک ہوں فوراً یہاں وہاں دیکھنے لگی کے کمرے میں میرے علاوہ کوئی اور تو نہیں؟ شکر کا سانس لیا، یہ جان کر کہ میں اکیلی ہی بیٹھی اپنی پنجابی ‘لغت’ میں نت نئے فحش الفاظ کا اضافہ کر رہی ہوں۔ شرمندگی سے میرا منہ مجھے گرم ہوتا ہوا محسوس ہونے لگا اوردلکی دھڑکن اس خوف سے بڑھنے لگی کہ کہیں کوئی آ ہی نا جائے ،اس دوران میرے موبل فون پر بھی مسلسل کال آرہی تھی جسے میں اٹینڈ نہیں کر رہی تھی کیوں؟یہ تو آپ بھی باخوبی سمجھ گئے ہونگے۔۔۔۔جو الفاظ میں تنہائی میں بھی ہضم کرنے سے قاصر تھی بھلاکسی اور کے سامنے سُننے کی کیسے متحمل ہو سکتی تھی؟ کافی دیر تک دونوں بھائیوں کے درمیان اُن الفاظ تبادلہ ہوتا رہا جن میں اُنہی کی ماں بہن کے پوشیدہ حساس مقامات کا تفصیلی ذکر سننے میں آرہا تھا۔اتنا تو مجھے یقین ہو چکا تھا کہ میرے باقی گھر والے اور دیگر ہمسائے بھی یہی سب سن رہے ہیں مگر اردگرد کی خاموشی میری شرمندگی میں مسلسل اضافے کا باعث بنتی چلی جا رہی تھی۔ اتنے میں میرے کانوں کو کسی صنفِ نازک کی آواز سنائی دی۔ ماصوفہ نے جو الفاظ بولے وہ لکھنے کی بھی "یہ ناچیز "ہرگز جُرت نہیں کر سکتی۔ بس اتنا کہے دیتی ہوں کہ ان دونوں بھائیوں نے اپنی زبان کی روانگی کی بدولت گھر کی عورتوں کی بھی اچھی خاصی تربیت کر ڈالی ہوئی تھی۔ پنجابی میں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ "ساریاں دے چاکے لتھ گئے ہوے سن”۔ چند گھنٹے تک ان جملوں کا تبادلہ ہوتا رہا جن میں کافی زیادہ الفاظ تہذیب کی لکیر سے نیچے بلکہ کافی زیادہ نیچے تھے۔ اس بات کوغالباً دو سے تین سال گزر گئے ہونگے۔ میری بھی پنجابی لغت میں اس دوران خاطر خواں اضافہ ہوا، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ابھی بھی ہو رہا ہے۔ دن میں تین سے چار راونڈ اسی قسم کی گفتوشنید پر مشتمل پورے محلے کے کانوں میں سے گزرتے ہیں۔ یہ صرف کسی ایک محلے یا کسی قصبے کی کہانی نہیں ہے بلکہ ہر دوسرے تیسرے گھر کا یہی حال ہے۔سڑکوں پر آتے جاتے ہم بے وجہ گالی گلوچ کو اپنی گفتگو کا حصہ بنائے پھر رہے ہوتے ہیں ، بنا یہ دیکھے کے آس پاس سے کوئی خاتون تو نہیں گزر رہی ، ہم دل کھول کر” آزادیِ رائے” کے حق کو کیش کروا رہے ہوتے ہیں ۔ ڈرتی ہوں کہ اگر یہی حال رہا تو گھر کی شریف عوتوں کی بھی ایک دن زبان ایسی ہی ہو جائے گی۔ یہ قوم اپنی تہذیب اپنا تمدن کھو دے گی پنجابی میں کہوں تو "ساریاں دے چاکے کھل جان گے”۔ شرم و حیا ناپید ہو جائے گی اور نبیؐ کی محبت کے دعوی ٰدار ذلیل و رسوا ہو کر رہ جائیں گے۔

    سوال میرا مختصر سا ہے، آخر اس کا حل کیا ہے؟ باحثیتِ قوم ہم کیا کر رہے ہیں؟ ہم جو اپنے آپ کو بہت بڑا عاشقِ رسول مانتے ہیں کیا یہ نہیں جانتے کہ ہمارے نبیؐ نے بےہودہ گفتاری کو کس قدر ناپسند فرمایا تھا؟ الفاظ کے چُناؤ میں ہم ہمیشہ ایسے الفاظ ہی کیوں چُنتے ہیں جن میں ہماری مائیں بہنیں بھی "چُنی”جاتی ہیں؟ کیا مہذب معاشروں کی یہ پہچان ہوتی ہے؟ اگر نہیں تو کس منہ سے ہم اپنے آپ کو مسلمان بلکہ عاشقِ رسول ﷺ کہتے ہیں؟قیامت کے روز کیا جواب دیں گے اپنے رب کو کہ آخر ” ہمارے نبیؐ کی زندگی سے ہم نے کیا سیکھا؟ زندگی اصلاح کے مواقعے بار بار نہیں دیتی، کب کہاں کیسے ” بُلاوا” آجائے،یہ نہ تو میں جانتی ہوں نہ ہی آپ، پھر کیوں نا آج سے ہی اپنے اصلاح کا آغاز کریں؟منہ سے عاشقِ رسولؐ ہونے کے دعوی چھوڑیں، عملاً ثابت کریں کہ "ہاں ہم عاشقِ رسولؐ ہیں دعا ہے کہ اللہ مجھے، آپ کو اور ہم سب کو سچ میں ایک ” سچا عاشقِ” رسولؐ بنائے۔
    آمین

  • خیبر ایجنسی: چیک پوسٹ پر حملہ،8 اہلکار شہید

    خیبر ایجنسی: چیک پوسٹ پر حملہ،8 اہلکار شہید

    خیبر ایجنسی : تحصیل جمرود کے علاقہ غنڈی میں سیکیورٹی فورسز کے قافلے پر شدت پسندوں نے حملہ کر دیا، جھڑپ کے نتیجے میں آٹھ اہلکار شہید جبکہ تین زخمی ہوگئے۔

    پولیٹیکل انتظامیہ ذرائع کے مطابق واقعہ خیبر ایجنسی کی تحصیل جمرود کے علاقہ غنڈی میں پیش آیا، جہاں ایف سی کے اہلکار معمول کے گشت پر تھے کہ شدت پسندوں نے بھاری خود کار ہتھیاروں سے حملہ کردیا، دو گھنٹے تک جاری جھڑپ میں ایف سی کے پانچ اہلکار شہید اور چھ زخمی ہوگئے۔

    زخمیوں میں سے تین اہلکار اسپتال میں دم توڑ گئے، حملے میں سیکیورٹی فورسز کی دو گاڑیوں کو بھی شدید نقصان پہنچا، حملہ آوروں کی تعدا د ایک درجن سے زائد بتائی جا رہی ہے ۔

    زرائع کے مطابق جھڑپ میں حملہ آور بھی مارے گئے تاہم ان کی تعداد کی تصدیق نہیں ہو سکی،  ابھی تک کسی گروپ کی جانب سے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی ہے۔