Tag: 22 اپریل وفات

  • اشرف صبوحی: اردو ادب کا ایک نگینہ

    اشرف صبوحی: اردو ادب کا ایک نگینہ

    بیسویں صدی کے نصف اوّل میں دبستانِ دلّی کے نثر نگار اشرف صبوحی ان ادیبوں میں سے ہیں جن کے بغیر تاریخِ دلّی مکمل نہیں ہو سکتی۔ اردو ادب کی نادرِ‌ روزگار اور صاحبِ اسلوب شخصیات میں اشرف صبوحی کا نام سرفہرست اور ان کی تخلیقات معتبر اور مستند ہیں۔

    آج اشرف صبوحی کا یومِ وفات ہے۔ وہ اردو کے مشہور ادیب اور اوّلین ناول نگار ڈپٹی نذیر احمد کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ اشرف صبوحی نے ڈرامے، ریڈیو فیچر، بچوں کی کہانیاں، تنقیدی مضامین، دلّی کی سماجی اور تہذیبی زندگی پر مقالے، افسانے، شخصی خاکے لکھے اور تراجم کیے جو کتابی شکل میں محفوظ ہیں۔

    22 اپریل 1990ء ان کی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا۔ انھیں گلشنِ اقبال کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کردیا گیا۔ اشرف صبوحی کو صاحبِ اسلوب مانا جاتا ہے۔ وقائع نگاری اور تذکرہ نویسی میں انھیں کمال حاصل تھا۔ دلّی سے متعلق مضامین میں انھوں نے گویا ایک تہذیب، معاشرت اور ثقافت کو تصویر کردیا ہے۔ ان مضامین میں مختلف مشہور شخصیات اور عام لوگوں کے تذکرے ہی نہیں، تہواروں، میلوں ٹھیلوں، پکوان، لباس اور استعمال کی مختلف اشیا تک کے بارے میں پڑھنے کو ملتا ہے۔

    اشرف صبوحی کا اصل نام سیّد ولی اشرف تھا۔ وہ 11 مئی 1905ء کو دہلی میں پیدا ہوئے اور تقسیم کے بعد ہجرت کر کے کراچی آگئے تھے۔

    اشرف صبوحی کی نثر میں ایسا جادو ہے کہ وہ پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور وہ کتاب ختم کیے بغیر نہیں‌ رہ سکتا۔ رواں اور نہایت خوب صورت اسلوب نے انھیں ہم عصروں میں ممتاز کیا اور قارئین میں ان کی تحریریں مقبول ہوئیں۔

    ان کی مشہور تصانیف میں دلّی کی چند عجیب ہستیاں، غبارِ کارواں، جھروکے اور انگریزی ادب کے تراجم شامل ہیں۔ ان کے کیے ہوئے تراجم دھوپ چھاؤں، ننگی دھرتی اور موصل کے سوداگر بہت مشہور ہیں۔ اشرف صبوحی نے بچّوں کا ادب بھی تخلیق کیا۔ ان کے ایک مضمون گنجے نہاری والے کی دکان سے یہ پارہ ملاحظہ کیجیے۔

    "جب تک ہماری یہ ٹولی زندہ سلامت رہی اور میاں گنجے صاحب نیچی باڑ کی مسلی مسلائی لیس دار ٹوپی سے اپنا گنج ڈھانکے چھینٹ کی روئی دار کمری کی آستینوں کے چاک الٹے، رفیدہ سے چہرے پر لہسنیا ڈاڑھی لگائے، آلتی پالتی مارے، چمچ لیے دیگ کےسامنے گدّی پر دکھائی دیتے رہے، نہ ہمارا یہ معمول ٹوٹا اور نہ نہاری کی چاٹ چھوٹی۔ دو چار مرتبہ کی تو کہتا نہیں ورنہ عموماً ہم اتنے سویرے پہنچ جاتے تھے کہ گاہک تو گاہک دکان بھی پوری طرح نہیں جمنے پاتی تھی۔ کئی دفعہ تو تنور ہمارے پہنچے پر گرم ہونا شروع ہوا اور دیگ میں پہلا چمچ ہمارے لیے پڑا۔ دکان کے سارے آدمی ہمیں جان گئے تھے اور میاں گنجے کو بھی ہم سے ایک خاص دل چسپی ہوگئی تھی۔

    تین چار مواقع پر اس نے خصوصیت کے ساتھ ہمارے باہر والے احباب کی دعوت بھی کی اور یہ تو اکثر ہوتا تھا کہ جب علی گڑھ یا حیدرآباد کے کوئی صاحب ہمارے ساتھ ہوتے وہ معمول سے زیادہ خاطر کرتا۔ فرمایش کے علاوہ نلی کا گودا، بھیجا اور اچھی اچھی بوٹیاں بھیجتا رہتا اور باوجود اصرار کے کبھی ان چیزوں کی قیمت نہ لیتا۔

    اب یہ اپنے شہر والوں کی پاس داری کہاں؟ ہماری وضع میں کیا سلوٹیں آئیں کہ زندگی کی شرافت ہی میں جھول پڑگئے۔”

  • معین اختر: ایک عہد جو تمام ہوا، ایک نام جو دلوں میں‌ زندہ ہے!

    معین اختر: ایک عہد جو تمام ہوا، ایک نام جو دلوں میں‌ زندہ ہے!

    ہر دل عزیز معین اختر نے اسٹیج سے ریڈیو، ٹیلی ویژن اور پھر فلم تک کئی روپ بدلے اور سیکڑوں ایسے کردار نبھائے جو لازوال ثابت ہوئے اور مداحوں کا دل جیتا۔ معین اختر 2011ء میں آج ہی کے دن اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔

    پاکستان میں پرفارمنگ آرٹ، خاص طورپر نقالی کے فن کی بات کی جائے تو معین اختر کا کوئی ثانی نہ تھا۔ اس فن کو نہایت خوبی سے اپنی شناخت کا ذریعہ بناتے ہوئے معین اختر نے صدا کاری سے ادا کاری تک اپنی صلاحیتوں کو منوایا اور شہرت کے ہفت آسمان طے کیے۔

    وہ ایک ایسے ورسٹائل اور باکمال فن کار تھے جس نے اپنے فن کا شان دار مظاہرہ کیا اور اسٹیج اور ٹیلی ویژن ڈراموں میں کامیڈی ہی نہیں سنجیدہ کردار بھی اس عمدگی سے نبھائے کہ وہ ذہن پر نقش ہوگئے۔ صدا کار، ادا کار، گلوکار اور اسکرپٹ رائٹر کے ساتھ وہ میزبان کے طور پر اپنی برجستہ گوئی، حاضر جوابی، بذلہ سنجی کے سبب مقبول ہوئے اور مہمان سمیت حاضرین و ناظرین کی دل چسپی اور توجہ حاصل کی۔

    معین اختر کا تعلق کراچی سے تھا۔ انھوں نے 24 دسمبر، 1950 کو یہیں آنکھ کھولی۔ والد کی وفات کے بعد نوعمری میں معاش کے لیے دوڑ دھوپ شروع کی اور جلد وہ وقت آیا جب معین اختر کو ملک بھر میں پہچان مل گئی۔

    سولہ برس کی عمر میں‌ اسٹیج پر پہلی پرفارمنس سے حاضرین کے دل جیتنے والے معین اختر نے جب ٹیلی ویژن کی دنیا میں قدم رکھا تو گویا ان کی شہرت کو پَر لگ گئے۔ 70 کی دہائی میں معین اختر پاکستان بھر میں مقبول ہو چکے تھے۔

    مزاحیہ شوز ففٹی ففٹی، لوز ٹاک، ہاف پلیٹ، اسٹوڈیو ڈھائی اور روزی جیسا ٹی وی پلے ان کی شان دار پرفارمنس کی وجہ بہت پسند کیا گیا۔ معین اختر کا فنی سفر 45 سال پر محیط ہے جو ہر لحاظ سے شان دار اور متأثر کن رہا۔

    پرفارمنگ آرٹ کے اس بے تاج بادشاہ نے کئی معتبر ایوارڈز اپنے نام کیے۔ انھیں سرحد پار بھی بہت پسند کیا جاتا تھا۔ ہندوستان ہی نہیں‌ معین اختر بیرونِ ملک بھی اپنے اسٹیج شوز کی وجہ سے پہچانے گئے اور اردو داں طبقے میں انھیں بہت شہرت ملی۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے معین اختر کو ستارۂ امتیاز اور تمغۂ حسن کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔

    معین اختر نقالی کے فن میں طاق تھے۔ انھوں نے کئی فن کاروں اور مشہور شخصیات کی آواز اور ان کے انداز کو اپنا حاضرین کو محظوظ کیا۔ ان کے مداحوں کی طویل فہرست میں پاکستان، بھارت کے علاوہ دنیا بھر کے نام وَر فن کار اور کئی مشہور شخصیات شامل ہیں۔

  • صاحبِ اسلوب ادیب اشرف صبوحی کا یومِ‌ وفات

    صاحبِ اسلوب ادیب اشرف صبوحی کا یومِ‌ وفات

    اردو زبان و ادب میں‌ نادرِ‌ روزگار اور صاحبِ اسلوب ادیبوں میں اشرف صبوحی کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا جن کا بیش قیمت تخلیقی سرمایہ درجنوں کتابوں میں محفوظ ہے اور علم و ادب کی دنیا میں یہ کتب لائقِ مطالعہ ہی نہیں بلکہ یہ برصغیر کی نابغہ روزگار ہستیوں کی زندگی کے بعض‌ واقعات، تذکروں اور ہندوستان کے تہذیبی و ثقافتی ورثے پر سند و حوالہ سمجھی جاتی ہیں۔

    اشرف صبوحی 22 اپریل 1990ء کو کراچی میں وفات پا گئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ اشرف صبوحی کو صاحبِ اسلوب ادیب مانا جاتا ہے۔ انھیں‌ واقعات اور خاکہ نگاری میں کمال حاصل تھا اور ان کے مضامین میں دلّی کی تہذیب، ثقافت وہاں کے خاص پکوان اور مختلف شخصیات کے تذکرے پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔

    ان کا اصل نام سیّد ولی اشرف تھا۔ وہ 11 مئی 1905ء کو دہلی میں پیدا ہوئے اور تقسیم کے بعد ہجرت کر کے کراچی آگئے اور یہیں زندگی کا سفر تمام کیا۔

    ڈپٹی نذیر احمد کے خانوادے سے تعلق رکھنے والے اشرف صبوحی کی نثر رواں اور نہایت خوب صورت ہے جس نے انھیں ہم عصروں میں ممتاز کیا اور قارئین نے ان کی تحریروں کو بہت پسند کیا۔

    اشرف صبوحی کی تصانیف میں دہلی کی چند عجیب ہستیاں، غبار کارواں، جھروکے اور انگریزی ادب کے تراجم شامل ہیں۔ ان کے تراجم دھوپ چھائوں، ننگی دھرتی اور موصل کے سوداگر بہت مشہور ہوئے، اشرف صبوحی نے بچوں کے لیے بھی لکھا اور یہ سرمایہ کتابی شکل میں محفوظ ہے۔ وہ گلشنِ اقبال کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • ہر دل عزیز معین اختر کو مداحوں سے بچھڑے دس برس بیت گئے

    ہر دل عزیز معین اختر کو مداحوں سے بچھڑے دس برس بیت گئے

    ہر دل عزیز معین اختر کو دنیا سے رخصت ہوئے دس برس بیت گئے۔ آج کروڑوں دلوں پر راج کرنے والے اس فن کار کی برسی منائی جارہی ہے۔

    ٹیلی ویژن ڈراموں اور کامیڈی شوز میں اپنی لاجواب اداکاری اور مختلف پروگراموں کی میزبانی کے دوران معیاری اور شائستہ مذاق، طنز و مزاح اور کاٹ دار جملوں سے حاضرین اور ناظرین کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیرنے اور انھیں قہقہے لگانے پر مجبور کردینے والے معین اختر نے ٹی وی اور اسٹیج ڈراموں کے علاوہ فلم میں بھی کام کیا۔

    وہ پاکستان میں پرفارمنگ آرٹ کے بادشاہ مانے جاتے ہیں جن کا خاص طور پر نقّالی کے فن میں کوئی ثانی نہ تھا۔ معین اختر نے اپنی اسی مہارت کو اپنی شناخت کا ذریعہ بنایا اور صدا کاری سے ادا کاری تک گویا شہرت کے ہفت آسمان طے کیے۔

    معین اختر نے اسٹیج سے ریڈیو تک، ریڈیو سے ٹیلی ویژن اور پھر فلم نگری تک سیکڑوں بہروپ دھارے، کئی کردار نبھائے جو آج بھی ذہن و دل پر نقش ہیں۔

    معین اختر ایک ورسٹائل فن کار تھے جنھوں‌ نے اسٹیج اور ٹیلی ویژن پر کامیڈین کے طور پر اپنی شناخت بنانے کے ساتھ سنجیدہ کردار بھی نہایت خوبی سے نبھائے۔ انھوں نے گلوکار اور اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے بھی اپنی صلاحیتوں کو آزمایا۔

    معین اختر کا تعلق کراچی سے تھا جہاں انھوں نے 24 دسمبر 1950ء کو آنکھ کھولی۔ وہ سولہ سال کے تھے جب اسٹیج پر پہلی پرفارمنس دی اور حاضرین کے دل جیت لیے۔ ٹیلی ویژن وہ میڈیم تھا جہاں قدم رکھتے ہی گویا ان کی شہرت کو پَر لگ گئے۔ 70 کی دہائی میں معین اختر پاکستان بھر میں پہچان بنا چکے تھے۔

    طنز و مزاح پر مبنی ان کے پروگراموں میں ففٹی ففٹی، لوز ٹاک، ہاف پلیٹ، اسٹوڈیو ڈھائی کو بے حد پسند کیا گیا جب کہ روزی وہ ٹیلی پلے تھا جس میں انھیں مس روزی کے روپ میں شان دار پرفارمنس کی وجہ سے بہت پذیرائی ملی۔ انتظار فرمائیے، یس سر نو سر اور عید ٹرین بھی معین اختر کے یادگار کھیل ہیں۔

    معین اختر کا فنی سفر 45 سال پر محیط ہے جو ہر لحاظ سے شان دار اور متأثر کن رہا۔

    پرفارمنگ آرٹ کے اس بے تاج بادشاہ نے کئی معتبر ایوارڈز اپنے نام کیے اور انھیں سرحد پار بھی بہت پسند کیا گیا۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے معین اختر کو ستارۂ امتیاز اور تمغۂ حسن کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔

    2011ء میں معین اختر کے ساتھ ہی گویا فنِ نقّالی اور اسٹیج پرفارمنس کا ایک عہد بھی رخصت ہوگیا۔