Tag: 22 اگست وفات

  • نو پرچوں کی فائلیں اور تین تصنیفات چھوڑ کر بھاگنے والے کا تذکرہ

    نو پرچوں کی فائلیں اور تین تصنیفات چھوڑ کر بھاگنے والے کا تذکرہ

    اردو کے صاحبِ طرز ادیب اور جیّد صحافی ملا واحدی کی زندگی کا سفر 22 اگست 1976ء کو کراچی میں تمام ہوا۔ مصورِ فطرت خواجہ حسن نظامی نے انھیں ملا واحدی کا نام دیا تھا اور وہ اسی نام سے پہچانے گئے۔

    ملا واحدی 17 مئی 1888ء کو دہلی میں پیدا ہوئے اور تعلیم بھی اسی شہر سے مکمل کی۔ ادب اور صحافت کا شوق نوعمری میں ہی ہوگیا تھا اور 15 برس کے تھے جب مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کیا جو مؤقر اخبارات کی زینت بنے۔ ان میں ماہنامہ ’’زبان‘‘، ’’وکیل‘‘ ہفتہ وار ’’وطن‘‘ اور روزنامہ ’’پیسہ اخبار‘‘ جیسے رسائل اور جرائد شامل تھے۔ 1909ء میں خواجہ حسن نظامی نے رسالہ نظام المشائخ جاری کیا تو ملا واحدی کو نائب مدیر کی حیثیت سے ان کے ساتھ کا کرنے کا موقع ملا اور بعد میں ملا واحدی نے ہی یہ رسالہ سنبھالا اور کتابوں کی اشاعت کا کام بھی شروع کردیا۔ وہ قیامِ پاکستان کے بعد کراچی چلے آئے تھے۔

    ملا واحدی دہلوی اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’شبیر قوّال کا نام آپ نے ممکن ہے سُنا ہو، وہ میرا ہم محلّہ تھا۔ بچپن سے اسے گانے کا شوق تھا۔ آواز پھٹی پھٹی سی تھی لیکن گائے جاتا تھا۔ آخر گاتے گاتے کلانوت ہوگیا۔ ریڈیو والے اسے بلانے لگے اور ریکارڈ بھرنے لگے۔ دلّی میں اُس نے خاصی شہرت حاصل کرلی تھی۔ کراچی میں اس کی چوکی کا خاصا ڈنکا بجا۔ میں بھی شبیر مرحوم کی طرح لکھتے لکھتے کچھ کچھ لکھ لینے کے قابل ہوا ہوں۔ میرے والد صاحب کو شکایت تھی کہ میری اردو کم زور ہے، لیکن خدا کی شان، والدِ ماجد کے رحلت فرماتے ہی میری توجہ نصاب کی کتابوں سے زیادہ اُردو کی طرف ہوگئی۔ ڈپٹی نذیر احمد، منشی ذکاء اللہ، مولانا محمد حسین آزاد، مولانا الطاف حسین حالی اور مولانا شبلی نعمانی کی کتابیں پڑھنے لگا۔ علومِ جدید کی ڈگری اور علومِ دین کی دستارِ فضیلت سے تو محروم رہا مگر چوراسی سال کی عمر تک طالب علم ہوں۔ اخباروں، رسالوں میں سن 1903ء سے لکھ رہا ہوں۔ میں ادیب یا انشا پرداز کہلانے کا مستحق اپنے تئیں نہیں سمجھتا۔ قلم کار کا لفظ بھی بہ تامل استعمال کیا ہے۔ قلم گھسائی لکھنا چاہیے تھا۔ البتہ سڑسٹھ سال قلم گھسائی میرے زمانے میں اور کسی نے نہیں کی، اور مجھے فخر ہے کہ میرا کوئی مضمون اوّل دن سے ردی کی ٹوکری میں نہیں پھینکا گیا۔‘‘

    وہ مزید لکھتے ہیں، ’’1934ء سے 1946ء تک میونسپل کمیٹی کی ممبری چمٹی رہی۔ مسلسل بارہ برس میونسپلٹی میں بھاڑ جھونکا۔ قصہ مختصر 1947 کے اکتوبر میں دلّی سے بھاگا تو نو پرچوں کی فائلیں اور تین تصنیفات چھوڑ کر بھاگا تھا۔ دہلوی سے کراچوی بنا تو ساٹھ باسٹھ برس کا بوڑھا تھا۔‘‘

    کراچی آنے کے بعد انھوں نے علمی اور ادبی مشاغل کا آغاز کیا اور یہاں سے ’’نظام المشائخ‘‘ کا ازسرنو اجرا عمل میں لائے، یہ رسالہ 1960ء تک شایع ہوتا رہا۔ ملا واحدی ان ادیبوں میں سے تھے جنھوں نے دلّی شہر کے باسیوں کی باتوں اور یادوں کو خاص طور پر رقم کیا ہے۔ ان کی تحریریں ملک کے مؤقر اخبارات اور معروف جرائد کی زینت بنیں۔ ان کی تصانیف میں تین جلدوں پر مشتمل حیاتِ سرورِ کائنات، میرے زمانے کی دلّی، سوانح خواجہ حسن نظامی، حیات اکبر الٰہ آبادی اور تاثرات شامل ہیں۔

    ملا واحدی کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • صاحبِ طرز ادیب ملّا واحدی کی برسی

    صاحبِ طرز ادیب ملّا واحدی کی برسی

    آج اردو زبان کے صاحبِ طرز ادیب اور صحافی ملّا واحدی کا یومِ‌ وفات ہے۔ انھیں دلّی سے متعلق اپنی تصنیف کی وجہ سے بہت شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ ملّا واحدی نے 22 اگست 1976ء کو کراچی میں وفات پائی۔

    "میرے زمانہ کی دلّی” ملّا واحدی کی وہ یادگار تصنیف ہے جسے دہلی کے ایک دور کی مستند تاریخ قرار دیا جاتا ہے کیوں کہ اس میں مصنّف نے وہ تمام حالات تحریر کیے ہیں جو انھوں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے۔

    ان کا نام اصل نام محمد ارتضیٰ تھا، مگر مصوّرِ فطرت حضرت خواجہ حسن نظامی صاحب نے انھیں ملّا واحدی کے نام سے یاد کیا جو اتنا مشہور ہوا کہ یہی ان کی شناخت بن گیا۔

    ملّا واحدی 17 مئی 1888ء کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے اور وہیں تعلیم پائی۔ ابتد اہی سے ادب اور صحافت کا شوق تھا۔ نوعمری میں قلم تھام لیا اور ملک کے مؤقر اخبارات اور جرائد میں لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کیا جن میں ماہ نامہ ’’زبان‘‘ دہلی، ماہنامہ ’’وکیل‘‘ امرتسر، ہفتہ وار ’’وطن‘‘ لاہور اور مشہور ’’پیسہ اخبار‘‘ لاہور شامل تھے۔ بعد میں خواجہ حسن نظامی کے ساتھ نظام المشائخ رسالہ نکالنے میں معاونت کی اور اسی عرصے میں اشاعتِ کتب اور تصنیف و تالیف کا کام شروع کردیا۔ انھوں نے چند اور رسالے بھی جاری کیے جن میں ہفتہ وار درویش، ہفتہ وار طبیب، ہفتہ وار خطیب، ہفتہ وار انقلاب اور روزنامہ رعیت شامل تھے، لیکن انھیں زیادہ عرصہ جاری نہ رکھ سکے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد ملّا واحدی پاکستان چلے آئے اور پھر یہاں سے جنوری 1948ء میں کراچی سے ’’نظام المشائخ‘‘ کا احیا کیا جو 1960ء تک جاری رہا۔ اس عرصے میں وہ دلّی اور دلّی کی شخصیات کا احوال و تذکرہ بھی رقم کرتے رہے جنھیں بہت پسند کیا گیا۔

    ملّا واحدی کی تصانیف میں تین جلدوں میں حیاتِ سرورِ کائنات، میرے زمانے کی دلّی، سوانح خواجہ حسن نظامی، حیات اکبر الٰہ آبادی اور تاثرات نامی کتابیں شامل ہیں۔

    اردو کے اس صاحبِ اسلوب ادیب کو کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔