Tag: 22 ستمبر وفات

  • مغل شہزادے کے فرانسیسی معالج فرانسوا برنیئر کی کہانی

    مغل شہزادے کے فرانسیسی معالج فرانسوا برنیئر کی کہانی

    "ٹریولز ان دا مغل امپائر” کو شہنشاہ شاہ جہاں کے دور اور مغل دربار کے حالات و واقعات پر مستند اور قابلِ توجہ تصنیف سمجھا جاتا ہے۔ یہ فرانسیسی معالج اور مؤرخ فرانسوا برنیئر کی کتاب ہے۔

    وہ شاہ جہاں کے لاڈلے بیٹے دارا شکوہ کا معالج تھا جو عالم گیر کے ہندوستان کا حکم راں بننے کے بعد اس کے دربار سے بھی وابستہ رہا۔ برنیئر نے 1688ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔

    ہندوستان میں مفکّر، باصلاحیت شاعر، فنونِ لطیفہ کے شائق اور صوفی شہزادے کے طور پر مشہور ہونے والے دارا شکوہ کی موت کے بعد فرانسوا برنیئر بادشاہ اورنگزیب عالم گیر کے دربار منسلک ہوگیا۔ وہ فرانس کا باشندہ تھا جو سیروسیّاحت کا شوقین اور پیشے کے اعتبار سے طبیب تھا۔ ہندوستان میں اس کا قیام لگ بھگ 12 رہا اور اس عرصے میں اس نے مغل خاندان کے کئی راز جانے اور تخت و تاج کے لیے سازشوں کا گواہ بنا۔

    ہندوستان کے مغل دور کی تاریخ پر مبنی مذکورہ کتاب کے علاوہ 1684ء میں برنیئر کی ایک کتاب شایع ہوئی تھی جس میں انسانوں کی مختلف نسلوں یا خاندانوں‌ کی درجہ بندی کی گئی تھی اور اس کتاب کو مابعد کلاسیکی دور پہلی تصنیف سمجھا جاتا ہے۔

    اس کا دوسرا تصنیفی کارنامہ دارا شکوہ اور عالم گیر کے عہد کا احوال ہے۔ برنیئر کی مغل دور کی یہ تاریخ یا سفر نامہ اس کی آنکھوں دیکھے واقعات، مشاہدات اور معلومات پر مبنی ہے جو اس نے قابلِ بھروسا اور اہم مغل درباریوں سے حاصل کی تھیں اور اکثر مقامات پر ان کے بیانات بھی درج کیے ہیں۔

    برنیئر 68 سال کی عمر میں پیرس میں چل بسا تھا۔

  • یومِ وفات: پٹودی کے نواب منصور علی خان ایک آنکھ کی بینائی سے محرومی کے باوجود کرکٹ ٹیم کے کپتان بنے

    یومِ وفات: پٹودی کے نواب منصور علی خان ایک آنکھ کی بینائی سے محرومی کے باوجود کرکٹ ٹیم کے کپتان بنے

    بھارت کے دارُالحکومت دہلی سے تقریباً 60 کلومیٹر دور انگریزوں کے دور میں پٹودی ریاست کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ یہاں ہندوؤں کی اکثریت تھی اور اس کے نواب مسلمان۔ آج اسی نواب خاندان کے منصور علی پٹودی کی برسی منائی جارہی ہے جن کی وجہِ شہرت کرکٹ ہے۔

    پانچ جنوری 1941ء کو بھوپال میں پیدا ہونے والے نواب منصور علی خان پٹودی کو کرکٹ کا کھیل وراثت میں ملا تھا۔ ان کے والد نواب محمد افتخار علی خان پٹودی ٹیسٹ کرکٹ میں انگلینڈ اور ہندوستان دونوں ممالک کی نمائندگی کرچکے تھے۔

    منصور علی خان پٹودی 11 سال کے تھے جب ان کے والد پولو کھیلتے ہوئے انتقال کرگئے اور کم عمری میں ریاستی امور کی ذمہ داری منصور علی خان پٹودی کو کاندھوں پر آ گئی۔

    ریاست کے اس نواب کی کرکٹ میں دل چسپی بڑھتی رہی اور وہ ایک اچھے بلّے باز اور پھرتیلے فیلڈر ثابت ہوئے۔ 16 سال کی عمر میں انھوں نے فرسٹ کلاس کرکٹ کی دنیا میں قدم رکھا۔ انہوں نے سسیکس اور اوکسفرڈ یونیورسٹی کی نمائندگی کی۔ وہ پہلے انڈین تھے جو کسی انگلش کاؤنٹی کے کپتان بنائے گئے تھے۔

    1961ء میں ان کی عمر محض 20 سال تھی جب وہ ایک کار حادثے میں ایک آنکھ کی بینائی سے محروم ہوگئے مگر دل چسپ بات یہ ہے کہ انھوں نے ٹیسٹ کرکٹ بھی جاری رکھی اور حادثے کے فقط ایک سال بعد ہی انھیں بھارتی کرکٹ ٹیم کی قیادت کرنے کا موقع دیا گیا۔ اس کے بعد وہ کرکٹ ٹیم کے مستقل کپتان بن گئے۔

    منصور علی خان پٹودی نے اپنے کیریر میں 46 ٹیسٹ میچ کھیلے جن میں سے 40 میچ ان کی قیادت میں کھیلے گئے۔

    1965ء میں ان کی ملاقات اپنے وقت کی مشہور اداکارہ شرمیلا ٹیگور سے ہوئی۔ انھوں نے شادی کا فیصلہ کیا اور مشہور بھارتی شخصیات میں ان کی جوڑی کام یاب ترین خیال کی جاتی ہے۔ بھارتی فلم انڈسٹری کے مشہور اداکار سیف علی خان، سوہا خان انہی کی اولاد ہیں جب کہ ایک بیٹی صبا علی خان جیولری ڈیزائنر ہیں۔

    نواب منصور علی خان پٹودی 22 ستمبر 2011ء کو دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔

  • یومِ وفات: سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کو بیسویں صدی کا بااثر اسلامی مفکّر کہا جاتا ہے

    یومِ وفات: سیّد ابوالاعلیٰ مودودی کو بیسویں صدی کا بااثر اسلامی مفکّر کہا جاتا ہے

    مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نام ور عالمِ دین، مفسرِ قرآن، دانش ور اور علمی و دینی موضوعات پر متعدد کتابوں کے مصنّف اور جماعتِ اسلامی کے بانی تھے۔ انھیں بیسوی صدی کا بااثر اسلامی مفکر بھی کہا جاتا ہے۔

    مولانا مودودی 1979ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے اور لاہور میں مدفون ہیں۔

    25 ستمبر 1903ء کو اورنگ آباد، حیدرآباد دکن میں آنکھ کھولنے والے ابوالاعلیٰ مودودی نے شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کی خواہش پر پنجاب کو اپنی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنایا اور 26 اگست 1941ء کو لاہور میں اجتماع کے دوران جماعتِ اسلامی کی تشکیل کا اعلان کیا۔

    1932ء میں انھوں نے ایک رسالہ ’’ترجمان القرآن‘‘ جاری کیا تھا جو بہت مقبول ہوا اور دینی و علمی موضوعات کے ساتھ انھوں نے نوجوانوں کی کردار سازی اور تربیت پر خصوصی توجہ دی۔

    قیام پاکستان کے بعد وہ لاہور چلے آئے اور یہاں علمی مشاغل کے ساتھ جماعتِ اسلامی کی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ 1972ء میں ان کی مشہور تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ مکمل ہوئی۔ اسی برس آپ ضعیفی اور علالت کی وجہ سے جماعت کی امارت سے دست بردار ہوگئے۔

    پاکستان میں مختلف مکاتبِ فکر کے مفکرین اور اسلامی اسکالروں کے مابین دینی احکامات، معاملات اور مسائل پر تو اختلافات رہے ہیں، لیکن جدوجہدِ آزادی اور تحریکی سیاست کے حوالے سے بھی ان کی فکر اور نظریات پر تنازع رہا اور جہاں ایک بڑا حلقہ مولانا مودودی کی دینی فکر اور سیاست کا معترف اور ان سے وابستہ تھا، وہیں ان کی مخالفت اور فکر و نظریات پر کڑی تنقید اور اعتراضات بھی کیے گئے۔

    سیّد ابوالاعلیٰ مودودی وہ شخصیت ہیں جنھیں 1979ء میں پہلا شاہ فیصل ایوارڈ دیا گیا تھا۔

  • نام وَر شاعر، ادیب اور صحافی رئیس امروہوی کا یومِ وفات

    نام وَر شاعر، ادیب اور صحافی رئیس امروہوی کا یومِ وفات

    آج اردو زبان و ادب اور صحافت میں نام وَر رئیس امروہوی کا یومِ‌ وفات ہے جنھیں 22 ستمبر 1988ء کو زندگی سے محروم کردیا گیا تھا۔

    رئیس امروہوی کو کسی علم دشمن اور سفاک قاتل نے گولیوں‌ کا نشانہ بنایا تھا۔

    رئیس امروہوی کا اصل نام سید محمد مہدی تھا۔ وہ 12 ستمبر 1914 کو امروہہ کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد علامہ سید شفیق حسن ایلیا عالم اور شاعر تھے۔ اسی گھرانے میں رئیس امروہوی کے علاوہ تقی امروہوی اور جون ایلیا جیسی نابغہ روزگار شخصیات نے جنم لیا اور اردو زبان میں‌ علم و ادب کے گلشن میں‌ مزید خوش نما اور رنگ برنگے پھول کھلائے۔ رئیس امروہوی کی بات کی جائے تو انھوں نے فلسفہ و نفسیات کے موضوعات، ادب اور صحافت میں نام و مقام بنایا۔

    رئیس امروہوی قیامِ پاکستان سے قبل امروہہ اور مراد آباد سے نکلنے والے کئی رسالوں سے وابستہ رہے۔ ہجرت کے بعد کراچی میں سکونت اختیار کی تو یہاں قطعہ نگاری اور کالم نویسی ان کا حوالہ بنی اور تا دمِ مرگ لکھنے لکھانے کا سلسلہ جاری رہا۔

    ان کے کالم، علمی و ادبی مضامین اور شاعری مجموعے کی شکل میں محفوظ ہے۔ رئیس امروہوی کے شعری مجموعوں میں الف، پسِ غبار، ملبوسِ بہار اور قطعات کے چار مجموعے شامل ہیں۔

    نفسیات اور مابعدالطبیعات ان کا محبوب موضوع تھا اور اس پر رئیس امروہوی کی ایک درجن سے زیادہ کتب شایع ہوئیں۔ ان کا یہ مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    خاموش زندگی جو بسر کر رہے ہیں ہم
    گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہیں ہم

    انھیں‌ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • ممتاز شاعر، ادیب اور محقّق سیّد اقبال عظیم کی برسی

    ممتاز شاعر، ادیب اور محقّق سیّد اقبال عظیم کی برسی

    مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ، نم دیدہ
    جبیں افسردہ، افسردہ، قدم لغزیدہ، لغزیدہ
    چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانبِ طیبہ
    نظر شرمندہ، شرمندہ، بدن لرزیدہ لرزیدہ

    یہ پروفیسر اقبال عظیم کے مقبول ترین نعتیہ کلام کے چند اشعار ہیں۔ بلاشبہ انھوں نے مدحتِ رسولﷺ کے لیے الفاظ کو اپنے کلام میں بے حد احترام، سلیقے، قرینے اور جذبات و کیفیات کی وارفتگی سے پرویا ہے۔ یہ نعت آج بھی نہایت عقیدت اور سرشاری کے ساتھ پڑھی اور سنی جاتی ہے۔ ان کا دیگر نعتیہ کلام بھی بہت مقبول ہے۔

    سیّد اقبال عظیم 22 ستمبر 2000ء کو اس دارِ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ اردو زبان کے ممتاز شاعر، ادیب، محقّق اور استاد تھے۔

    سیّد اقبال عظیم 8 جولائی 1913ء کو یو پی کے مردم خیز شہر میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہ علم و ادب میں نمایاں مقام رکھتا تھا۔ ان کے دادا سید فضل عظیم فضل، نانا ادیب میرٹھی اور والد سید مقبول عظیم عرش تھے جو اپنے زمانے میں شعروسخن میں معروف تھے۔

    اقبال عظیم نے شاعری میں صفی لکھنوی اور وحشت کلکتوی سے اکتساب کیا۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے گریجویشن اور آگرہ یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے والے اقبال عظیم نے ہندی اور بنگلہ زبان کے امتحانات بھی پاس کیے اور ملازمت کا آغاز بہ حیثیت مدرس کیا۔ تقسیم کے بعد مشرقی پاکستان چلے گئے جہاں مختلف سرکاری کالجوں میں پروفیسر اور صدر شعبہ رہے۔ ڈھاکا میں انھوں نے ملازمت کے دوران علمی و ادبی مشاغل جاری رکھے، لیکن 1970ء میں‌ ان کی بینائی زائل ہوگئی تو کراچی چلے آئے۔

    پروفیسر اقبال عظیم کی تحقیقی کتب میں بنگال میں اردو، سات ستارے اور مشرق سرِفہرست ہیں۔ کراچی میں قیام کے دوران بھی انھوں نے اردو زبان و ادب کو اپنے سوزِ سخن اور فکر و نظر سے نکھارنے اور مالا مال کرنے کی سعی جاری رکھی۔ وہ یہاں بھی ادبی سرگرمیوں‌ میں حصّہ لیتے رہے۔

    اقبال عظیم کے شعری مجموعے مضراب، قابِ قوسین، لب کشا، ماحصل، نادیدہ اور چراغِ آخرِ شب کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔

    انھیں کراچی میں سخی حسن قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ سیّد اقبال عظیم کا ایک مشہور شعر دیکھیے۔

    مجھے ملال نہیں اپنی بے نگاہی کا
    جو دیدہ وَر ہیں انہیں بھی نظر نہیں آتا