Tag: 22 نومبر وفات

  • شوکت کیفی کا دوپٹے رنگنے اور چُننے کا شوق!

    شوکت کیفی کا دوپٹے رنگنے اور چُننے کا شوق!

    جب میری عمر تیرہ سال کی تھی اور میں چھٹی جماعت میں پڑھتی تھی، حیدرآباد میں حالی پیسہ چلتا تھا۔

    چھے پیسے کا ایک آنہ ہوتا تھا۔ ہندوستان کے دیگر حصّوں میں کلدار سکّے کا رواج تھا جہاں چار پیسوں کا ایک آنہ ہوتا تھا۔ اسی طرح حیدرآباد میں مہینوں کے نام بھی الگ طرح کے ہوا کرتے تھے مثلاً: آذر، دئے، بہمن، اسفندار، فروردی، ارضی، بہشت، خور داد، تیر، امرداد، شہر ور، مہر، آبان۔

    مجھے دوپٹے رنگنے اور چُننے کا بے پناہ شوق تھا۔ میں بڑی آسانی سے اپنے کرتے کے رنگوں اور ڈیزائنوں کو اپنے دوپٹے پر اتار لیا کرتی تھی۔ مجھ میں یہ قدرتی دین تھی کہ میں کوئی سا بھی رنگ بڑی آسانی سے دو تین رنگوں کو ملا کر بنا لیا کرتی تھی۔

    میرا یہ شوق دیکھ کر میری ماں نے مجھے ایک تخت دے دیا تھا۔ رنگوں کا ڈبہ، برش، گوند گویا ہر وہ چیز جس کی مجھے رنگنے میں ضرورت محسوس ہوتی تھی منگوا دیا کرتی تھیں۔

    حیدرآباد کی ایک خوبی یہ تھی کہ نظام نے حیدرآباد میں اردو کی بہت خدمت کی تھی۔ ایک تو عثمانیہ یونیورسٹی قائم کی۔ ہر اسکول میں اردو لازمی قرار دی گئی تھی۔ حتّٰی کہ سرکاری زبان بھی اردو ہی ہوا کرتی تھی۔

    حیدرآباد میں رنگوں کے نام انگریزی میں نہیں لیے جاتے تھے۔ اردو میں ان کے اپنے خوب صورت نام ہوتے تھے مثلاً: زعفرانی، کاسنی، پیازی ، کتھئی، اودا، ترئی کے پھول کا رنگ، سبز رنگ، موتیا کا رنگ، آسمانی، سرمئی، شفتالو، کاہی، عنابی، لال رنگ، مور کنٹھی کا رنگ، بیگنی، صندلی۔ تمام نام اب تو مجھے پوری طرح یاد بھی نہیں ہیں۔

    میرے دوپٹے اس قدر خوب صورت رنگوں کے ہوتے تھے کہ اسکول میں لڑکیاں میری کلاس میں جھانک جھانک کر دیکھتی تھیں کہ آج میں نے کون سے رنگ کا دوپٹہ اوڑھا ہے۔

    (شوکت کیفی کی خود نوشت ‘یاد کی رہ گزر’ سے ایک پارہ، 22 نومبر 2019ء کو وفات پانے والی شوکت کیفی مشہور اداکارہ اور نام وَر شاعر کیفی اعظمی کی اہلیہ تھیں)

  • مفلس اور آوارہ مزاج جیک لندن جو امریکا کا مقبول ترین ناول نگار بنا

    مفلس اور آوارہ مزاج جیک لندن جو امریکا کا مقبول ترین ناول نگار بنا

    ایک وقت تھا جب پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے جیک لندن گھروں سے روٹیاں مانگ کر کھایا کرتا تھا۔ پھر وہ وقت آیا جب قسمت نے یاوری کی اور علمی و ادبی تقاریب میں لوگ اسے دیکھتے تو آٹو گراف لینے کے جمع ہوجاتے۔ دنیا بھر میں اسے ایک باکمال تخلیق کار کے طور پر شہرت ملی۔

    وہ اپنے دور کا مقبول ترین ناول نگار بنا۔ شہرت اور مقبولیت کے ساتھ دولت کی دیوی بھی پر جیک لندن پر مہربان ہوئی۔ اسے ایک صحافی کی حیثیت سے بھی پہچانا گیا۔

    روس اور جاپان کی جنگ کے دوران جیک لندن اخباری نمائندہ بن گیا۔ 1914ء میں جنگی خبر رساں بن کر میکسیکو پہنچا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس نے نہایت مختصر عمر پائی، لیکن ایک ولولہ انگیز، ترنگ اور امنگ سے بھرپور زندگی گزاری جس میں اس نے سب سے بڑی کام یابی ایک ناول نگار اور رائٹر کے طور پر حاصل کی۔

    جیک لندن نے 12 جنوری 1876ء کو سان فرانسسکو، امریکا کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اس کی فطرت میں‌ تجسس کا مادّہ اور طبیعت میں مہم جُوئی کا عنصر شروع ہی سے موجود تھا۔ اس نے کئی معمولی اور گھٹیا سمجھنے جانے والے ایسے کام کیے جس سے ایک وقت کی روٹی حاصل ہو جاتی، اور غربت اور فاقوں سے تنگ آکر چوری، لوٹ مار کے لیے ایک گروہ کا رکن بننا بھی قبول کرلیا، اسی طرح کبھی وہ سونے کی تلاش میں نکلا تو کہیں سمندر سے موتی نکالنے کے لیے جتن کیے۔

    17 سال کا ہوا تو بحری جہازوں پر ملازمت اختیار کرلی اور جاپان کا سفر کیا۔ اس نے زندگی میں‌ بہت سے سنسنی خیز، انوکھے تجربات کیے۔ وہ جہاز راں بھی تھا، قزاق بھی اور کان کن بھی۔ جیک لندن گھر بار کب کا چھوڑ چکا تھا اور در بدر پھرتا تھا۔ کہاں‌ دن گزارا اور کہاں رات کاٹی، وہ خود بھی نہیں‌ جانتا تھا۔ اکثر فاقے کرنے پر مجبور ہو گیا اور کبھی مانگ کر اپنا پیٹ بھر لیا۔ اس کا تر وقت ریلوے اسٹیشنوں پر مال گاڑی کے ڈبّوں‌ میں‌ گزرا۔

    وہ ذہین تھا اور حافظہ اس کا قوی۔ اس نوجوان نے باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہیں‌ کی تھی، لیکن مختلف کاموں اور آوارگی کے دوران جو کچھ سیکھ سکا تھا، وہ 19 سال کی عمر میں‌ اس وقت کام آیا جب اس نے پڑھائی شروع کی۔ اس نے ایک لائبریری سے ناول لے کر پڑھنا شروع کیا اور پھر اسے جیسے پڑھنے کا شوق اور لکھنے کا جنون ہی ہو گیا۔ وہ ناولوں‌ میں‌ گم ہوگیا اور سوچا کہ وہ خود بھی لکھ سکتا ہے۔

    1900ء میں اس کی وہ کہانیاں منظرِ عام پر آئیں جو اس کے تجربات اور مشاہدات پر مبنی تھیں اور اسے جیک لندن نے دل چسپ انداز میں کاغذ پر اتار دیا تھا۔ یہ کہانیاں رسالوں میں شایع ہوئیں۔ سن آف وی وولف اور ٹیلس آف دی فار نارتھ وہ کہانیاں‌ تھیں جو بہت مشہور ہوئیں۔ اب وہ جم کر لکھنے لگا۔ اس نے کتّوں کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا اور اتنی عمدہ کہانیاں تخلیق کیں جن کا ہر طرف چرچا ہونے لگا۔ بعض کہانیاں اس کی اپنی زندگی کے واقعات پر مبنی ہیں، جن میں اسموک بلو (Smoke Bellew)، مارٹن ایڈن (Martin Eden) وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

    جیک لندن کو اس زمانے میں کہانیوں کا معقول معاوضہ ملنے لگا۔ اس نے اپنے بحری سفر کی داستان بھی دل چسپ انداز میں‌ رقم کی ہے۔

    1916ء میں‌ آج ہی کے دن یہ ناول نگار دنیا سے رخصت ہوگیا۔ 1903ء تک اس کی چھے تصانیف منظرِ عام پر آچکی تھیں اور کئی سو کہانیاں‌ اخبارات اور رسائل میں‌ شایع ہوچکی تھیں۔

  • مقتول جان ایف کینیڈی امریکا کے مقبول ترین صدر بھی تھے

    مقتول جان ایف کینیڈی امریکا کے مقبول ترین صدر بھی تھے

    جان ایف کینیڈی امریکی کی سیاسی تاریخ کے مقبول ترین صدور میں سے ہیں جنھیں 1963ء میں‌ آج ہی کے دن قتل کردیا گیا تھا۔

    ان کے قتل کے اسباب، محرّکات اور قاتل کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا۔ اس واقعے پر فلمیں بنائی گئیں۔ دنیا بھر کے اخبارات، رسائل و جرائد میں طویل مضامین کی اشاعت کے ساتھ ٹیلی ویژن چینلوں پر اس واقعے کو موضوعِ بحث بنایا گیا اور ساتھ ہی دنیا میں اس پر قیاس آرائیوں کے ساتھ الزام تراشیوں کا بھی طوفان آیا، اور آج بھی یہ قتل ایک معمّا ہی ہے۔

    جان ایف کینیڈی امریکا کے 35 ویں صدر تھے جنھیں امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ڈیلاس میں گولیاں مار دی گئی تھیں۔ ایک شخص جس کا نام لی ہاروے اوسوالڈ تھا، کو مشکوک اور صدر کا قاتل گردانا گیا اور جلد ہی گرفتار کر لیا گیا۔ یہ کارروائی صدر کے قتل کے ابتدائی 12 گھنٹے کے اندر کی گئی تھی۔

    24 نومبر کو ایک اور قتل ہوا۔ ڈیلاس پولیس اسٹیشن کے اندر جیک روبی نامی شخص نے اوسوالڈ کو گولی مار دی اور وہ ہلاک ہو گیا۔

    اب روبی کو قتل کے اس ملزم اوسوالڈ کے قتل کا مجرم ٹھہرایا گیا اور اسے سزائے موت سنا دی گئی۔ تاہم وہ اس سزا پر عمل درآمد سے پہلے ہی 1967ء میں کینسر کے سبب اپنی زندگی سے محروم ہو گیا۔

    جان ایف کینیڈی کو امریکیوں کا محبوب صدر کہا جاتا ہے۔ انھوں نے ابتدائی عمر میں‌ کئی بیماریوں اور جسمانی تکالیف کا بھی سامنا کیا، لیکن اپنے والد کی منصوبہ بندی اور کوشش سے سیاست کے میدان سے ہوکر امریکا کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہونے میں کام یاب ہوئے۔ نوجوان صدر جان ایف کینیڈی عین عالم شباب میں مارے گئے۔ موت کے وقت ان کی عمر 46 سال تھی۔ وہ بالخصوص امریکی نوجوانوں میں بہت مقبول تھے اور کہتے ہیں ایک نسل ان کی پرستار تھی۔

    جان ایف کینیڈی کا دور امریکا کی تاریخ کا بہترین دور قرار دیا جاتا ہے، حالاں کہ صدر کی زیادہ تر پالیسیاں اور سیاسی کام یابیاں نامکمل ہی رہیں۔ عہدۂ صدارت پر ان کے ایک ہزار سے زائد دنوں میں بہت سے کام ادھورے ہی رہے۔

    وہ امریکا کی ڈیموکریٹک پارٹی سے وابستہ تھے۔ امریکا کی سیاسی تاریخ‌ اور مختلف ادوار پر گہری نظر رکھنے والوں اور بعض تجزیہ کاروں کے مطابق اگر کینیڈی زندہ رہتے تو شاید امریکا میں سماجی تفریق کم ہوتی۔

    کیا جے ایف کے کہلائے جانے والے امریکی صدر کا قاتل لی ہاروے اوسوالڈ ہی تھا یا کوئی اور؟ لوگ کل کی طرح آج بھی یہ سوال کرتے ہیں۔ 2017ء میں صدر کے قتل سے متعلق ڈھائی ہزار سے زائد دستاویزات جاری کرتے ہوئے اسے قومی عام کر دی گئی ہیں۔

  • سیرتُ النّبی کے مصنّف سیّد سلیمان ندوی کا یومِ وفات

    سیرتُ النّبی کے مصنّف سیّد سلیمان ندوی کا یومِ وفات

    نام ور سیرت نگار، عالم، مؤرخ اور متعدد قابلِ قدر کتابوں کے مصنّف سیّد سلیمان ندوی کا آج یومِ وفات ہے۔

    برصغیر میں علم و فضل، تدبر اور اپنی تحریر کے سبب ہم عصروں میں ممتاز ہونے والی شخصیات میں سید سلیمان ندویؒ کا نام سرِ فہرست ہے۔ وہ اسلامیانِ ہند میں اپنی مذہبی اور دینی خدمات کے سبب بھی قابلِ احترام ہستی کا درجہ رکھتے تھے اور آج بھی ان کا نام و مرتبہ قائم ہے۔

    ہندوستان کے مشہور عالم، ادیب اور شاعر علّامہ شبلی نعمانی کے اس قابل و باصلاحیت شاگرد کا سب سے بڑا کارنامہ سیرتُ النّبی پر وہ جلدیں‌ ہیں‌ جن پر شبلی نعمانی نے کام کا آغاز کیا تھا، لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور وہ دو جلدیں ہی لکھ سکے۔ 1914ء میں ان کے انتقال کے بعد باقی چار جلدیں سیّد سلیمان ندوی نے مکمل کیں۔ یہ ایک ایسا کام تھا جس کے لیے نہایت تحقیق کی ضرورت تھی اور اس کام کو بلاشبہ سیّد سلیمان ندوی نے خوبی سے ادا کیا۔ وہ دارُالمصنّفین، اعظم گڑھ کا قیام عمل میں لائے اور ایک ماہ نامہ معارف کے نام سے شروع کیا۔

    صوبہ بہار کے ایک گاؤں میں 22 نومبر 1884ء کو پیدا ہونے والے سید سلیمان ندوی نے 1901 میں دارالعلوم ندوۃُ العلما میں داخلہ لیا جہاں وہ علاّمہ شبلی نعمانی کے شاگرد اور خاص رفیق بنے۔ ایک قابل اور نہایت شفیق استاد کی صحبت نے سیّد سلیمان ندوی کی بھی شخصیت کی تعمیر اور ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ استاد کی وفات کے بعد وہ ان کے قائم کردہ ادارے ندوۃُ المصنّفین سے وابستہ ہو گئے اور اسی دوران سیرتُ النّبی صلی اللہ علیہ وسلم مکمل کی۔ اس کے علاوہ انھوں نے تاریخ و تذکرہ نگاری پر عرب و ہند کے تعلقات، حیاتِ شبلی، حیاتِ امام مالک، مقالات سلیمان، خیّام، دروس الادب، خطباتِ مدراس نامی کتب تصنیف کیں۔

    انھوں نے 1950ء میں پاکستان ہجرت کی اور کراچی میں مقیم ہوئے۔ یہاں بھی اپنے مذہبی و علمی مشاغل جاری رکھے اور حکومتِ پاکستان کی جانب سے انھیں تعلیماتِ اسلامی بورڈ کا صدر مقرر کیا گیا۔ سیّد سلیمان ندوی نے کراچی میں 22 نومبر 1953ء کو وفات پائی۔

  • شمسُ العلما ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ کی برسی

    شمسُ العلما ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ کی برسی

    آج پاکستان کی ایک نہایت عالم فاضل اور قابل شخصیت ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ کا یومِ وفات ہے۔ 1958ء میں آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوجانے والے عمر بن داؤد پوتہ کو ماہرِ تعلیم، محقّق، معلّم، ماہرِ لسانیات اور متعدد کتب کے مصنّف کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔

    وہ سندھ میں‌ کئی اہم عہدوں پر فائز رہے اور شمسُ العلما کا خطاب پایا۔ ان کا تعلق سیہون، دادو کے ایک غریب گھرانے سے تھا۔ عمر بن محمد داؤد پوتہ نے 25 مارچ 1896ء کو اس دنیا میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کا تعلیمی ریکارڈ نہایت شان دار رہا۔ انھوں نے ہر امتحان میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔

    1917ء میں سندھ مدرستہُ الاسلام کراچی سے میٹرک کے امتحان میں انھوں نے سندھ بھر میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔ 1921ء میں ڈی جے کالج کراچی سے بی اے کا امتحان پاس کیا اور سندھ بھر میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔ 1923ء میں انھوں نے بمبئی یونیورسٹی سے ایم اے کے امتحان میں ٹاپ کیا جس کے بعد حکومتِ ہند نے انھیں اسکالر شپ پر انگلستان بھیج دیا۔ وہاں ڈاکٹر عمر بن داؤد پوتہ نے کیمبرج یونیورسٹی میں’’فارسی شاعری کے ارتقا پر عربی شاعری کا اثر‘‘ کے عنوان سے اپنا مقالہ تحریر کیا اور پی ایچ ڈی مکمل کیا۔

    انگلستان سے وطن واپسی کے بعد ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ کو سندھ میں مختلف اہم عہدوں پر فائز کیا گیا جن میں سندھ مدرستہُ الاسلام کی پرنسپل شپ بھی شامل تھی۔ 1939ء میں صوبۂ سندھ میں محکمۂ تعلیم کے ڈائریکٹر کے عہدے پر تقرری عمل میں آئی اور برطانوی سرکار نے 1941ء میں انھیں شمسُ العلما کا خطاب دیا۔

    یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وہ برصغیر کی آخری علمی شخصیت تھے جنھیں انگریز حکومت کی جانب سے یہ خطاب عطا ہوا تھا۔ ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ کا سب سے بڑا کارنامہ سندھ کی دو مشہور تواریخ ’’چچ نامہ‘‘ اور’’ تاریخ معصومی‘‘ کی ترتیب ہے۔ انھوں‌ نے عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں میں 28 کتب یادگار چھوڑیں۔

    کراچی میں وفات پانے والے ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ کو سندھ کے مشہور صوفی بزرگ شاہ عبدُاللطیف بھٹائی کے مزار کے احاطے میں سپردِ ‌خاک کیا گیا۔

  • فلمی صنعت کے معروف اداکار ایم اسماعیل کی برسی جو بھائیا جی مشہور تھے

    فلمی صنعت کے معروف اداکار ایم اسماعیل کی برسی جو بھائیا جی مشہور تھے

    ایم اسماعیل نے تقسیمِ ہند سے قبل بننے والی فلموں سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا تھا۔ آزادی کے بعد جب پاکستان میں فلمی صنعت کا قیام عمل میں آیا تو انھوں نے یہاں اپنی اداکاری سے بڑا نام و مقام پیدا کیا۔ ایم اسماعیل نے انڈسٹری کو کئی کام یاب فلمیں‌ دیں۔ آج اس معروف اداکار کی برسی ہے۔

    فلم انڈسٹری کے اس معروف اداکار نے 22 نومبر 1975ء کو وفات پائی۔ ان کا تعلق اندرونِ بھاٹی گیٹ، لاہور کے ایک ایسے گھرانے سے تھا جو علم و فنون کا دلدادہ اور خطّاطی کے فن کے لیے مشہور تھا۔ ایم اسماعیل 6 اگست 1902ء کو پیدا ہوئے۔ خطّاطی اور مصوّری کا شوق اور اس میں‌ کمال و مہارت انھیں گویا ورثے میں‌ ملی تھی۔ وہ خوش نویسی اور اسکیچ بناتے تھے۔

    ایم اسماعیل جس محلّے میں رہتے تھے، وہیں اپنے وقت کے نام وَر فلم ساز اے آر کاردار بھی رہائش پذیر تھے۔ انھوں نے خوب رُو اور جاذبِ نظر ایم اسماعیل کو فلم نگری میں قسمت آزمانے کا مشورہ دیا اور اداکاری کی طرف راغب کیا۔ ان کے کہنے پر ایم اسماعیل نے بمبئی کا رخ کیا جو متحدہ ہندوستان میں اس وقت فلم سازی کا مرکز تھا۔ وہ خاموش فلموں کا زمانہ تھا۔ وہاں انھیں‌ چند فلموں‌ میں کام کرنے کا موقع ملا اور شوق پورا ہونے کے ساتھ انھوں نے بہت کچھ سیکھا بھی۔ تاہم جب لاہور میں فلمیں بننے لگیں تو ایم اسماعیل یہیں‌ چلے آئے اور فلمی صنعت میں اپنی جگہ بنائی۔

    ایم اسماعیل کی خاموش فلموں میں حسن کا ڈاکو، آوارہ رقاصہ اور ہیر رانجھا بہت مشہور ہوئیں۔ لوک داستانوں اور تاریخی کرداروں پر مبنی فلموں میں انھوں نے اپنی شان دار اداکاری سے شائقین کے دل جیتے۔ فلم ہیر رانجھا میں اس اداکار نے کیدو کا مشہور کردار نبھایا تھا۔

    ناطق فلموں کا دور شروع ہوا تو انھیں یہی کردار حورِ پنجاب اور ہیر سیال نامی فلموں میں ادا کرنے کا موقع ملا۔ ایم اسماعیل نے خزانچی، پھول، سوہنی مہینوال، وامق عذرا اور لیلیٰ مجنوں جیسی کام یاب فلموں میں اداکاری کی جنھیں‌ شائقین نے بہت سراہا اور اس اداکار کو بڑی پذیرائی اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ انھوں نے پنجابی فلموں کے ساتھ اردو فلموں‌ میں بھی اداکاری کی۔ وہ اپنے چہرے کے تاثرات اور فطری اداکاری کے ساتھ اپنی تیکھی آواز کے لیے بھی مشہور تھے۔

    ان کی آخری فلم مان جوانی دا تھی جو 1977ء میں‌ نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ پاکستان فلم انڈسٹری کے اس معروف اداکار نے مجموعی طور پر 156 فلموں میں‌ کام کیا تھا۔ ایم اسماعیل لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔