Tag: 23 ستمبر وفات

  • جان نکلسن، وہ انگریز افسر جسے ہندوستان میں عقیدت مندوں نے پوجنا شروع کردیا تھا

    جان نکلسن، وہ انگریز افسر جسے ہندوستان میں عقیدت مندوں نے پوجنا شروع کردیا تھا

    ہندوستان میں 1857ء کا غدر اور دلّی میں باغیوں کا اکٹھا ہونا انگریزوں کے نزدیک بغاوت کا اعلان تھا۔ لڑائی ہوئی اور غدر کو ناکام بنا دیا گیا، لیکن دلّی پر قبضہ کرنے کی مہم میں کئی انگریز افسر اور سپاہیوں کی زندگی بھی ختم ہوگئی۔ جان نکلسن انہی میں سے ایک تھے۔

    اگر آپ راولپنڈی سے ٹیکسلا کی طرف جائیں تو جی ٹی روڈ پر ایک بلند مینار اسی انگریز افسر کی ایک یادگار ہے۔ یہ 1868ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اُدھر دلّی میں بھی ان کی یادگار موجود ہے جسے ثقافتی ورثہ سمجھا جاتا ہے۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ جان نکلسن اپنے ملک ہی میں نہیں ہندوستان میں بھی ہیرو کا درجہ رکھتے تھے۔ بریگیڈیئر جان نکلسن اپنے برطانوی فوجی یونٹ کے ہندوستانی سپاہیوں میں بہت مقبول تھے۔ نکلسن پشاور کے ڈپٹی کمشنر اور نو ماہ تک راولپنڈی کے پہلے ڈپٹی کمشنر بھی رہے۔

    جان نکلسن 11 دسمبر 1822ء کو آئر لینڈ کے شہر ڈبلن میں پیدا ہوئے۔ وہ 16 سال کی عمر میں متحدہ ہندوستان پہنچے تو انھیں بنگال انفنٹری میں براہِ راست کیڈٹ بھرتی کر لیا گیا۔ تربیت مکمل کرنے کے بعد انھوں نے اینگلو افغان جنگ میں بھی حصّہ لیا۔ بعد کے برسوں میں وہ ہندوستان بھر میں نہ صرف مشہور ہوئے بلکہ چاہنے والوں نے انھیں پراسرار طور پر اوتار مان لیا اور ایک فرقہ تشکیل دے ڈالا۔

    جان نکلسن کا نام پنجاب میں سکھ حکومت کے خاتمے کی مہم جوئیوں میں بھی لیا جاتا ہے، لیکن ان کی شخصیت کا اثر ایسا تھا کہ یہی سکھ انھیں نکل سنگھ جب کہ ہندو نکل سین کے نام سے پکارنے لگے تھے اور انھیں دیوتا مان کر پوجنے لگے تھے۔ جان نکلسن کی شہرت کا ایک سبب ان کی فوجی مہمّات اور اس میں کام یابیاں تھیں۔ اس کا اعتراف سبھی نے کیا کہ وہ بہادر تھے اور انھوں نے انگریز فوج کے خلاف کارروائیاں کرنے اور لڑنے والوں کا میدان میں ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

    غدر کے موقع پر بھی وہ لڑائی میں‌ آگے آگے تھے اور دلّی کے محاصرے کے دوران ایک مقام پر موت ان کا مقدر بنی۔ وہ ہندوستان کی آزادی کی جنگ لڑنے والے ایک سپاہی کی گولی کا نشانہ بن گئے۔ 23 ستمبر کو موت کے وقت ایسٹ انڈیا کمپنی کے اس افسر کی عمر صرف 35 سال تھی۔

  • پابلو نرودا نے اپنی نظموں سے بارود، ظلم اور ناانصافی کا مقابلہ کیا

    پابلو نرودا نے اپنی نظموں سے بارود، ظلم اور ناانصافی کا مقابلہ کیا

    لاطینی امریکا کے ملک چِلی کے مشہور انقلابی شاعر پابلو نرودا کی شخصیت کا سحر آج بھی برقرار ہے۔ اس کی نظموں کی گونج ہر طرف سنائی دیتی ہے۔

    ہسپانوی زبان کے اس شاعر نے دنیا کو رومان پرور اور کیف آگیں نغمات ہی نہیں‌ دیے بلکہ اپنی نظموں کے ذریعے امن، مساوات اور انسانیت کا پیغام بھی عام کیا۔ اُسے 1971ء میں ادب کا نوبل انعام بھی دیا گیا تھا۔

    پابلو نرودا 12 جولائی 1904ء کو پیدا ہوا اور 1973ء میں آج ہی کے دن ابدی نیند سو رہا۔

    پابلو نرودا وہ قلمی نام ہے جس نے تنگ دستی اور غربت کے ساتھ کئی صعوبتیں اٹھانے والے اس شاعر کو دنیا بھر میں شہرت دی۔ اسے اپنے نظریات اور بغاوت پر اکساتی شاعری کی وجہ سے کئی بار روپوشی، گرفتاری اور جلاوطنی بھی جھیلنا پڑی۔

    پابلو نے اپنی نظموں سے غریب اور محکوم طبقے، چلی کے محنت کشوں اور مزدوروں میں جوش و ولولہ پیدا کیا اور انھیں‌ اپنے حق کے لیے ڈٹ جانے پر اکساتا رہا۔

    اس کی نظموں کا دنیا کی متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا جن میں انگریزی، ہندی اور اردو بھی شامل ہیں۔

    وہ اپنے ملک میں کمیونسٹ پارٹی کا چیئرمین بنا اور بعد میں متعدد ممالک میں چلی کا سفیر بن کر قیام کیا۔ ایک زمانہ تھا جب اس کا معاشرہ رومانوی شاعری میں جذبات کے بے باک اظہار کو سخت ناپسند کرتا تھا، لہٰذا قدامت پسندوں نے اسے بیہودہ شاعر کہہ کر مسترد کیا، لیکن جب اس انسان دوست نظریات اور خوب صورت احساسات سے گندھی شاعری دنیا تک پہنچی تو اسے زبردست پذیرائی ملی اور مختلف ممالک میں اسے اعزازات سے نوازا گیا۔

    ہندوستان کے مشہور ترقی پسند شاعر اور ادیب علی سردار جعفری نے اپنے ایک مضمون میں پابلو نرودا کا تذکرہ کچھ ان الفاظ میں‌ کیا ہے۔ وہ اس شاعر کی شخصیت اور اس کی شاعری سے متاثر تھے۔

    ’’اسپین کی خانہ جنگی سے اسٹالن گراڈ کے مورچے تک اور وہاں سے ایٹم بم کی وحشت ناکی اور پھر عالمی امن تحریک کے شباب تک پابلو نرودا صرف ایک شاعر اور مغنی ہی نہیں تھا بلکہ ایک انقلابی سپاہی اور مجاہد بھی تھا جو پورے امریکی خطّے کا ضمیر بن چکا تھا اور انسانیت کے ضمیر کو بیدار کر رہا تھا۔‘‘

    ’’پابلو نرودا ایک کھوئی کھوئی سی دلآویز شخصیت کا مالک اور ہسپانوی زبان کا سب سے بڑا شاعر ہے اور پکاسو کی تصویروں، اپنے ملک کے پہاڑوں، سمندروں، پھلوں اور ہندوستانی حسن کا عاشق ہے۔ اس کی شاعری بے حد حسین اور مترنم ہے اور اتنی ہی انقلابی۔

    چلی کے کان کھودنے والے مزدوروں سے لے کر سوویت یونین کے عوام تک ہر شخص اسے جانتا ہے۔ کسی زمانے میں اس کے سَر پر موت کی تلوار لٹک رہی تھی اور وہ دیس بدیس مارا مارا پھر رہا تھا۔ اب اس کے سر پر شہرت اور عظمت کا تاج ہے اور وہ خواب آلود لہجے میں بات کرتا ہے، جیسے کہیں دور پانی برس رہا ہو یا صنوبر اور چیر کے درختوں سے ہوا آہستہ آہستہ گزر رہی ہو۔

    وہ اسپین کی خانہ جنگی میں بارود کی بُو سونگھ چکا ہے اور خون کا رنگ دیکھ چکا ہے، لیکن اس کا سانس دنیا کے نہ جانے کتنے ملکوں کے پھولوں کی خوشبو سے بسا ہوا ہے اور یہ خوشبو اس کے نغموں میں منتقل ہوتی جارہی ہے۔‘‘

    پابلو نرودا ہندوستان بھی آیا اور یہاں اپنے ہم خیال شاعروں، ادیبوں، انقلابیوں اور مزدور راہ نماؤں سے ملاقاتیں کیں۔ نام وَر ترقیّ پسند شاعر اور ادیب فیض احمد فیض بھی پابلو نرودا کی شخصیت اور شاعری کے بڑے مداح تھے۔

  • یومِ وفات: کاروانِ علم و ادب سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ جانے والے محسن احسان کا تذکرہ

    یومِ وفات: کاروانِ علم و ادب سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ جانے والے محسن احسان کا تذکرہ

    محسن احسان اردو کے ممتاز شاعر، ادیب اور ماہرِ تعلیم تھے، جنھوں‌ نے زندگی کی 77 بہاریں دیکھیں اور 2010ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے دنیا سے ناتا توڑ لیا۔

    محسن احسان کا تعلق پاکستان کے صوبہ سرحد (خیبر پختون خوا) سے تھا جہاں رہتے ہوئے انھوں نے اردو ادب کی آب یاری کی اور زبان و ادب کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ وہ اسی زمین کی فارغ بخاری، رضا ہمدانی، خاطر غزنوی، شوکت واسطی اور احمد فراز جیسی قد آور شخصیات کے ہم عصروں میں سے ایک تھے۔

    پشاور کے محسن احسان نے لندن میں اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔ انھیں سرطان کا مرض لاحق تھا۔

    محسن احسان نے انگریزی ادب میں‌ تعلیم مکمل کرنے کے بعد پشاور کے اسلامیہ کالج سے استاد اور پھر بحیثیت سربراہِ شعبہ انگریزی وابستگی اختیار کی۔ تدریس کے ساتھ وہ علمی و ادبی سرگرمیاں بھی انجام دیتے رہے اور شاعری کا سفر جاری رکھا۔

    ان کا اصل نام احسان الٰہی تھا۔ وہ 15 اکتوبر 1932ء کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے 35 سال تک تدریس کے شعبے میں‌ خدمات انجام دیں۔

    انھوں نے شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی۔ ان نظموں اور غزلوں کے مجموعے ناتمام، ناگزیر، ناشنیدہ، نارسیدہ اور سخن سخن مہتاب کے نام سے شایع ہوئے جب کہ نعتیہ شاعری کا مجموعہ اجمل و اکمل کے نام سے اشاعت پزیر ہوا تھا۔

    محسن احسان نے قومی و ملّی نغمات بھی لکھے۔ ان کا یہ کلام مٹی کی مہکار کے نام سے منظر عام پر آیا۔

    ادبِ‌ اطفال کی بات کی جائے تو انھوں نے پھول پھول چہرے کے نام سے خوب صورت نظموں کا مجموعہ بچّوں کے لیے پیش کیا۔

    ان کا ایک کارنامہ خوش حال خان خٹک اور رحمٰن بابا کی شاعری کو اردو کے قالب میں‌ ڈھالنا ہے۔

    حکومتِ پاکستان نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

    یہاں ہم محسن احسان کی ایک غزل باذوق کی نذر کررہے ہیں۔

    میں ایک عمر کے بعد آج خود کو سمجھا ہوں
    اگر رکوں تو کنارا، چلوں تو دریا ہوں

    جو لب کشا ہوں تو ہنگامۂ بہار ہوں میں
    اگر خموش رہوں تو سکوتِ صحرا ہوں

    تجھے خبر بھی ہے کچھ اے مسرتوں کے نقیب
    میں کب سے سایۂ دیوارِ غم میں بیٹھا ہوں

    مری خودی میں نہاں ہے مرے خدا کا وجود
    خدا کو بھول گیا جب سے خود کو سمجھا ہوں

    میں اپنے پاؤں کا کانٹا، میں اپنے غم کا اسیر
    مثالِ سنگِ گراں راستے میں بیٹھا ہوں

    بلندیوں سے مری سمت دیکھنے والے
    مرے قریب تو آ میں بھی ایک دنیا ہوں

    اگر ہے مقتلِ جاناں کا رخ تو اے محسنؔ
    ذرا ٹھہر کہ ترے ساتھ میں بھی چلتا ہوں

  • یومِ وفات: تابش دہلوی کو دامِ فریبِ ہستی سے آج ہی کے دن رہائی ملی تھی

    یومِ وفات: تابش دہلوی کو دامِ فریبِ ہستی سے آج ہی کے دن رہائی ملی تھی

    سید مسعود الحسن کو شعر و سخن کی دنیا تابش دہلوی کے نام سے جانا گیا۔ اردو کے اس مایہ ناز غزل گو شاعر نے 2004ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔ آج تابش دہلوی کی برسی ہے۔

    وہ 9 نومبر 1911 کو دہلی میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ بعد ازاں اپنے نانا کے پاس حیدرآباد، دکن چلے گئے۔ وہیں پہلی سرکاری ملازمت شروع کی اور بعد میں پطرس بخاری کے توسط سے آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ہوئے۔

    تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان آگئے اور کراچی کو اپنا مستقر بنایا۔ یہاں ریڈیو پاکستان کے شعبہ خبر سے منسلک ہوگئے۔ تابش دہلوی نے ریڈیو پر خبرنامہ پڑھا اور براڈ کاسٹر کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے کراچی یونیورسٹی سے بی اے کیا۔

    1923ء میں انھوں نے شاعری کا آغاز کردیا تھا۔ فانی بدایونی سے اصلاح لیتے رہے اور غزل اور نظم کے ساتھ نعت قصیدہ اور مرثیہ میں طبع آزمائی کی۔

    انھیں متعدد ادبی اعزازات سے نوازا گیا۔ انھیں حکومتِ پاکستان نے ’’تمغۂ امتیاز‘‘عطا کیا تھا۔

    اردو شاعری میں انھو‌ں نے بڑا نام و مقام بنایا اور مشاعروں میں شرکت کرکے ہم عصر شعرا اور باذوق سامعین سے اپنے کلام پر داد پائی۔

    تابش دہلوی کے شعری مجموعے نیم روز، چراغِ صحرا، غبارِ انجم، گوہرِ انجم، تقدیس اور دھوپ چھائوں کے نام سے شایع ہوئے۔

    وہ ایک عمدہ نثر نگار بھی تھے اور ان کے قلم سے دنیائے فن و ادب کی کئی شخصیات کا خوب صورت و دل چسپ تذکرہ ہی نہیں نکلا بلکہ متعدد علمی و ادبی واقعات بھی کتابی شکل میں محفوظ ہوگئے۔ دیدہ باز دید ان کی ایک ایسی ہی تصنیف ہے جو ان کی نثر پر گرفت اور کمال کا نمونہ ہے۔

    تابش دہلوی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    کسی مسکین کا گھر کُھلتا ہے
    یا کوئی زخمِ نظر کھلتا ہے
    دیکھنا ہے کہ طلسمِ ہستی
    کس سے کھلتا ہے، اگر کھلتا ہے
    داؤ پر دیر و حرم دونوں ہیں
    دیکھیے کون سا گھر کُھلتا ہے
    پھول دیکھا ہے کہ دیکھا ہے چمن
    حسن سے حسنِ نظر کھلتا ہے
    میکشوں کا یہ طلوع اور غروب
    مے کدہ شام و سحر کھلتا ہے
    چھوٹی پڑتی ہے انا کی چادر
    پاؤں ڈھکتا ہوں تو سَر کھلتا ہے
    بند کر لیتا ہوں آنکھیں تابشؔ
    باب نظارہ مگر کُھلتا ہے