Tag: 23 نومبر وفات

  • احمد عقیل روبی: معروف ادیب، شاعر اور مضمون نگار کا تذکرہ

    احمد عقیل روبی: معروف ادیب، شاعر اور مضمون نگار کا تذکرہ

    اردو ادب کو ناول، شخصی خاکے، سوانح اور تذکرے، شعری مجموعے اور غیرملکی ادب سے مختلف اصناف کے تراجم پر مشتمل تیس سے زائد کتابیں دینے والے احمد عقیل روبی کا ایک مستند حوالہ درس و تدریس بھی ہے۔ انھوں نے اپنے فکر و فن اور زورِ قلم سے ادبی نقّاد، ڈراما اور فلمی کہانی نویس اور گیت نگار کی حیثیت سے شہرت پائی۔ آج اس ادیب اور شاعر کی برسی منائی جارہی ہے۔ انھوں نے 23 نومبر 2014ء کو ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔

    پروفیسر احمد عقیل روبی 6 اکتوبر 1940ء کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم خانیوال میں مکمل کرنے کے بعد لاہور سے اعلیٰ تعلیمی مراحل طے کیے اور درس و تدریس سے منسلک ہوگئے۔ ان کا اصل نام غلام حسین تھا۔ پاکستان میں اردو زبان و ادب کے معلّم کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے انھوں نے ادبی مشاغل بھی جاری رکھے۔ حکومتِ پاکستان نے احمد عقیل روبی کو تمغا امتیاز سے نوازا تھا۔ فلمی دنیا میں اس ادیب اور شاعر کو لازوال گیت تخلیق کرنے پر نگار ایوارڈ دیا گیا۔ احمد عقیل روبی نے پنجابی اور اردو فلموں کے لیے گیت نگاری کی۔ غیرملکی ادب کا وسیع مطالعہ اور فلسفہ و اساطیر پر احمد عقیل روبی کی گہری نظر رہی جس کا اثر ان کی تخلیقات پر بھی پڑا۔ ان کے قلم سے نکلی ہوئی تحریروں میں ان کی فکر و دانش کا بھرپور اظہار ہے۔ یونانی ادب ان کا مرغوب موضوع تھا۔ اس کے علاوہ روسی، فرانسیسی، امریکی، انگریزی ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔

    احمد عقیل روبی میٹرک میں تھے اور شاعری سے گہرا شغف رکھتے تھے، لیکن قتیل شفائی سے ملاقات نے انھیں‌ اپنے کلام پر نظرِ ثانی کرنے پر اکسایا اور اپنا کلام ضایع کردیا۔ بعد کے برسوں میں وہ ایک عمدہ شاعر کے طور پر سامنے آئے۔ وہ بتاتے تھے کہ ایم اے کرنے لاہور آیا تو سجاد باقر رضوی، ناصر کاظمی جیسی شخصیات کی قربت نصیب ہوئی۔ انتظار حسین سے بعد میں قربت حاصل ہوئی اور ان شخصیات سے بہت کچھ سیکھا۔ انھوں نے یورپ اور مغربی مصنّفین کے حوالے سے خاصا کام کیا۔ ان کی سوانح اور ادبی کاموں پر خوب صورت تحریریں‌ احمد عقیل روبی کی یادگار ہیں۔

    احمد عقیل روبی کی تصانیف میں سوکھے پتے، بکھرے پھول، ملی جلی آوازیں، آخری شام، سورج قید سے چھوٹ گیا، کہانی ایک شہر کی، دوسرا جنم، آدھی صدی کا خواب، چوتھی دنیا، ساڑھے تین دن کی زندگی، نصرت فتح علی خان، کرنیں تارے پھول، علم و دانش کے معمار، تیسواں پارہ، یونان کا ادبی ورثہ، دو یونانی کلاسک ڈرامے و دیگر شامل ہیں۔

  • عہدِ عالمگیر میں‌ زیرِ‌عتاب آنے والے خان جہاں بہادر کا تذکرہ

    عہدِ عالمگیر میں‌ زیرِ‌عتاب آنے والے خان جہاں بہادر کا تذکرہ

    مغلیہ تاریخ کا ایک کردار خان جہاں بہادر ظفر جنگ کوکلتاش کے نام سے مشہور ہے جس کے حالاتِ زندگی، شاہی عہد میں اس کے مقام و رُتبہ اور خدمات سے متعلق حقائق بہت کم دست یاب ہیں۔ تاہم مؤرخین نے اسے شہر لاہور کا ایسا مغل صوبے دار اور سالار لکھا ہے جو عہدِ عالمگیر میں‌ زیرِعتاب آیا اور اسی حال میں‌ دنیا سے چلا گیا۔

    مشہور مؤرخ خافی خان نظامُ الملک کی تصنیف منتخبُ اللباب میں خانِ جہاں کا مختصر تعارف پڑھنے کو ملتا ہے۔ ان کے مطابق عہدِ عالمگیر کے اس بڑے منصب دار کا اصل نام میر ملک حسین تھا۔ وہ بہادر خان، خانِ جہاں اور کوکلتاش کے ناموں سے بھی پہچانے گئے۔ انھوں نے 1673ء میں مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر سے ’’خانِ جہاں بہادر کوکلتاش‘‘ اور 1675ء میں ظفر جنگ کا خطاب پایا۔

    1680ء میں لاہور کی نظامت کے سلسلے میں اختلافات پیدا ہونے پر مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر نے انھیں دور کرنے کے لیے شہزادہ محمد اعظم کو لاہور کا صوبے دار مقرر کیا تھا۔ بعد ازاں اِس منصب پر مکرم خان اور سپہ دار خان بھی مقرر کیے گئے۔ اور 1691ء میں خان جہاں بہادر کو لاہور کی یہ منصب دیا گیا۔

    وہ تقریباً ڈھائی سال تک لاہور کی نظامت پر مقّرر رہا اور 1693ء میں عالمگیر نے اسے معزول کرکے چار سال تک زیرِ عتاب رکھا۔

    خان جہاں بہادر با وقار شخصیت کا مالک اور صاحبِ تدبیر امیر تھا۔ اس نے مغل دور میں متعدد بڑی جنگوں میں حصّہ لیا اور سالار کی حیثیت سے محاذ پر آگے آگے رہا۔ وہ مغلوں کے لیے اپنی خدمات میں نیک نام اور بادشاہ کا وفادار تھا۔

    معزولی کے بعد خانِ جہاں بہادر نے بڑی مشکل زندگی بسر کی اور 23 نومبر 1697ء کو لاہور ہی میں وفات پائی۔ اسے لاہور میں مغل پورہ کے نزدیک ایک مقام پر دفن کیا گیا تھا جہاں بعد میں اس کا شان دار مقبرہ تعمیر کیا گیا۔

    کوکلتاش کا یہ مقبرہ آج خستہ حالی کا شکار ہے، لیکن مغل طرزِ تعمیر کا یہ نمونہ اُس زمانے کے بہادر سالار اور مغلوں کے ایک وفادار کی یادگار اور نشانی کے طور پر ضرور موجود ہے۔

  • اردو کے معروف ناول نگار اور شاعر ایم اسلم کا یومِ وفات

    اردو کے معروف ناول نگار اور شاعر ایم اسلم کا یومِ وفات

    افسانوی ادب بالخصوص تاریخی ناول نگاری کے لیے ایم اسلم کا نام اردو کے مشہور و معروف تخلیق کار کے طور پر لیا جاتا ہے۔ وہ افسانہ نگار اور شاعر بھی تھے۔

    ایم اسلم 6 اگست، 1885ء کو لاہور کے ایک رئیس خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام میاں محمد اسلم تھا۔ ان کے والد میاں نظامُ الدّین نیک خصلت اور لوگوں میں‌ خیر خواہ و مخیّر شخص کے طور پر مشہور تھے۔ ایم اسلم نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ وہاں‌ انھیں علّامہ اقبال کی صبحت اور رفاقت نصیب ہوئی جنھوں نے ایم اسلم کو عزیز رکھا اور ان کے ادبی ذوق و شوق کو سنوارا۔ ان کی تربیت میں اقبال کا کردار اہم رہا۔ ایم اسلم کو نثر نگاری کی جانب کی طرف متوجہ کرنے والے علاّمہ اقبال ہی تھے۔

    ایم اسلم نے ادب کی تمام اصناف میں طبع آزمائی کی، لیکن ان کے تخلیقی سفر کا آغاز شاعری سے ہوا۔ بعد میں انھوں نے تنقیدی مضامین اور افسانے بھی لکھے اور جب تاریخی ناول نگاری کا آغاز کیا تو یہ ان کی خاص شناخت بن گئی۔

    ان کے افسانوں اور ناولوں میں رومان، حقیقت، حزن و طرب نمایاں ہے۔ اسی طرح ہندوستان کے دیہات اور شہروں کی زندگی کے علاوہ یورپ، مصر، روس، ترکستان، عرب، چین اور جاپان کے رسم و رواج اور باشندوں کے طور طریقے اور روایات بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔

    ایم اسلم کے مشہور ناولوں میں فاطمہ کی آپ بیتی، عروسِ غربت، معرکۂ بدر، فتح مکّہ، صبحِ احد، جوئے خون، بنتِ حرم، فتنۂ تاتار، رقصِ ابلیس، مرزا جی کے نام شامل ہیں جب کہ ان کے افسانوں کے مجموعے صدا بہ صحرا، نغمۂ حیات اور گنہگار کے نام سے شایع ہوئے۔

    ایم اسلم نے انگریزی سے تراجم اور وارث شاہ کی شاہ کار تخلیق ہیر رانجھا کا پنجابی سے اردو ترجمہ بھی کیا۔ اردو کے اس مشہور ادیب اور شاعر نے 23 نومبر 1983ء کو وفات پائی۔

  • پٹیالہ گھرانے کے نام وَر ستار نواز استاد فتح علی خان کی برسی

    پٹیالہ گھرانے کے نام وَر ستار نواز استاد فتح علی خان کی برسی

    استاد فتح علی خان پاکستان کے نام وَر ستار نواز اور موسیقار تھے جنھوں نے 1981ء میں آج ہی کے دن دارِ فانی سے دارِ بقا کا رُخ کیا۔ ان کا تعلق برصغیر میں‌ کلاسیکی موسیقی کے لیے مشہور پٹیالہ گھرانے سے تھا۔

    استاد فتح علی خان کا سنِ پیدائش1911ء بتایا جاتا ہے۔ وہ پانچ سال کے تھے جب مشہور ساز ستار میں‌ دل چسپی پیدا ہوئی۔ ان کے تایا، استاد محبوب علی خان بھی موسیقی اور اس ساز کے ماہر تھے۔ فتح علی خان بڑے ہوئے تو انہی سے اس فن کے اسرار و رموز سیکھے۔

    استاد فتح علی خان نے ماسٹر غلام حیدر کے ساتھ بھی طویل عرصہ گزارا۔ وہ لاہور اور بمبئی میں ان کے ساتھ ستار نواز کے طور پر اپنے فن اور اس ساز پر اپنی مہارت کا مظاہرہ کرتے رہے۔ اس عرصے میں انھوں نے موسیقی اور راگ راگنیوں کی باریکی اور فن کی نزاکتوں کو بھی سیکھا۔ بعدازاں خود بھی کئی فلموں کی موسیقی ترتیب دی جن میں فلم آئینہ کا نام سرفہرست ہے۔

    1960ء کی دہائی میں وہ راولپنڈی منتقل ہوگئے جہاں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے۔ پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس کے قیام کے بعد وہاں کچھ عرصہ تک نوآموز فن کاروں کو ستار بجانے کی تربیت بھی دی۔

    استاد فتح علی خان کو پاکستان میں‌ فنِ موسیقی کے لیے خدمات پر صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی بھی عطا کیا گیا تھا۔