Tag: 24 مئی انتقال

  • نام وَر ترقّی پسند غزل گو شاعر مجروح سلطان پوری کا یومِ وفات

    نام وَر ترقّی پسند غزل گو شاعر مجروح سلطان پوری کا یومِ وفات

    مجروح سلطان پوری کا شمار اردو کے ممتاز ترقّی پسند غزل گو شعرا میں ہوتا ہے جو 24 مئی 2000ء کو ممبئی میں‌ وفات پاگئے تھے۔

    مجروح سلطان پوری کا تعلق بھارت سے تھا۔ وہ 1919ء میں اتّر پردیش کے ضلع سلطان پور میں پیدا ہوئے تھے۔ خاندانی نام اسرار حسن خان تھا اور مجروح تخلّص۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ والد محکمہ پولیس میں‌ ملازم تھے۔ اس زمانے میں تحریکِ خلافت زوروں پر تھی۔ وہ انگریزوں اور ان کی زبان سے نفرت کا دور تھا۔ والد نے انھیں‌ بھی کسی اسکول میں بھیجنے اور انگریزی کی تعلیم دینے کے بجائے ایک مدرسہ میں داخل کروا دیا جہاں مجروح نے اردو کے علاوہ عربی اور فارسی پڑھی۔ تاہم مدرسے کے ماحول میں خود کو نہ ڈھال سکے اور تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔ 1933ء میں لکھنؤ کے ایک کالج سے حکمت میں سند حاصل کی اور مطب کرلیا، لیکن یہ تجربہ ناکام رہا۔ اسی زمانے میں مجروح موسیقی میں دل چسپی لینے لگے تھے اور پھر 1935 ء میں شاعری شروع کردی۔ مشاعروں میں ان کا ترنم بھی مشہور تھا۔

    مجروح کو جگر مراد آبادی اور پروفیسر رشید احمد صدیقی کی رفاقت نصیب ہوئی۔ اس وقت کے دیگر شعرا نے بھی ان کی حوصلہ افزائی کی، جگر صاحب انھیں اپنے ساتھ مشاعروں میں لے جانے لگے تھے جہاں‌ اپنے کلام کی بدولت مجروح سلطان پوری نے اپنی منفرد پہچان بنائی، ممبئی کے ایک مشاعرے میں ایک نام وَر فلم ڈائریکٹر نے ان کا کلام سنا تو فلموں کے لیے گیت لکھنے پر آمادہ کر لیا اور ان کا یہ سفر نہایت کام یاب رہا۔

    مجروح نے کئی برس ہندوستان کی فلم نگری کے لیے گیت تحریر کیے جو بہت مقبول ہوئے۔ 1965ء میں انھیں فلم دوستی کے سپر ہت گیت "چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے” پر بہترین نغمہ نگار کا فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔ 1993ء میں بھارت کی فلم انڈسٹری کا سب سے بڑا "دادا صاحب پھالکے ایوارڈ” بھی ان کے نام ہوا۔

    جگن ناتھ آزاد کے مطابق مجروح کی شاعری خیال اور جذبہ کے امتزاج کا اک نگار خانہ ہے جس میں زندگی کے کئی رنگ جھلکتے ہیں۔ انسان کی عظمت پر مجروح کا اٹل یقین زندگی کی ٹھوس حقیقتوں پر مبنی ہے۔ روایت کا احترام اور روایت میں توسیع مجروح کے کلام کی خصوصیت ہے۔

    ان کا کلام ہر خاص و عام میں مقبول تھا، مجروح کے کئی اشعار کو ضرب المثل کا درجہ حاصل ہے اور تقریر سے تحریر تک یہ اشعار موضوع کا حصّہ ہوتے ہیں۔ ان کے چند مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
    لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

    جلا کے مشعلِ جاں ہم جنوں صفات چلے
    جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے

    جفا کے ذکر پہ تم کیوں سنبھل کے بیٹھ گئے
    تمہاری بات نہیں بات ہے زمانے کی

    ستونِ دار پہ رکھتے چلو سَروں کے چراغ
    جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے

  • یومِ وفات: اداکار ظفر مسعود اپنے زمانۂ عروج اور عین عالمِ شباب میں عالمِ جاوداں کو سدھار گئے تھے

    یومِ وفات: اداکار ظفر مسعود اپنے زمانۂ عروج اور عین عالمِ شباب میں عالمِ جاوداں کو سدھار گئے تھے

    پاکستان ٹیلی ویژن کے چند اداکار ایسے بھی ہیں جنھوں نے گویا راتوں رات شہرت کے ہفت آسمان طے کرلیے، لیکن فن کی دنیا میں اپنے زمانۂ عروج اور عین عالمِ شباب میں فرشتۂ اجل کے آگے بے بس ہوکر منوں مٹی تلے جا سوئے۔ ظفر مسعود ایسے ہی اداکار تھے جو 24 مئی 1981ء کو عالمِ جاوداں کو سدھار گئے۔ وہ قاہرہ میں ٹریفک کے ایک حادثے میں زندگی کی بازی ہار گئے۔

    ظفر مسعود نے پاکستان ٹیلی وژن کے مشہور ترین ڈراموں خدا کی بستی، زیر زبر پیش، انکل عرفی، آبگینے، بندش اور کرن کہانی میں اپنی کمال اداکاری سے ناظرین کو محظوظ سے کیا اور مقبولیت حاصل کی تھی۔ انھوں نے مشہور ڈرامہ سیریز ایک محبت سو افسانے کے چند ڈراموں میں بھی کردار نبھائے تھے جو یادگار ثابت ہوئے۔ ظفر مسعود نے تین اردو اوردو پنجابی فلموں میں بھی کام کیا تھا۔

    پاکستان ٹیلی ویژن اور فلم کے اس باکمال اداکار نے قاہرہ کی ایک شپنگ کمپنی میں ملازمت اختیار کرلی تھی، جہاں قیام کے دوران ان کی کار کو حادثہ پیش آیا اور اس حادثے میں ظفر مسعود زندگی سے محروم ہوگئے۔ وہ کراچی کے ایک قبرستان میں ابدی نیند سورہے ہیں۔

    ظفر مسعود نے ڈرامہ سیریل خدا کی بستی میں نوشہ کا کردار ادا کیا تھا۔ یہ ایک مشکل کردار تھا جسے انھوں نے نہایت خوبی سے نبھایا اور ایک اداکار کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کو منوانے میں کام یاب رہے۔ ظفر مسعود کی فطری اداکاری نے سبھی کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ یہ ڈرامہ سیریل دوسری بار اسکرین پر پیش ہوا تو اس میں‌ نوشہ کا کردار بہروز سبزواری نے نبھایا۔

  • نابغۂ روزگار علّامہ نیاز فتح پوری کی برسی

    نابغۂ روزگار علّامہ نیاز فتح پوری کی برسی

    نیاز فتح پوری اردو کے نام وَر ادیب، نقّاد، صحافی اور ماہرِ‌ لسانیات تھے جو 24 مئی 1966ء کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔ انھیں برصغیر پاک و ہند میں ممتاز عقلیت پسند دانش وَر کی حیثیت سے بھی جانا جاتا ہے۔

    علّامہ نیاز فتح پوری 28 دسمبر 1884ء کو فتح پور، سہوہ میں پیدا ہوئے تھے۔ علم و ادب کے رسیا تھے۔ غور و فکر کی عادت نے انھیں‌ مختلف موضوعات پر لکھنے اور قلم کی طاقت کو آزمانے پر اکسایا۔ 1922ء میں نیاز فتح پوری نے ایک ادبی جریدہ نگار جاری کیا جو تھوڑے ہی عرصے میں اردو میں روشن خیالی کی ایک مثال بن گیا۔ علّامہ نیاز فتح پوری نے 35 کتابیں یادگار چھوڑی ہیں جو ان کے فکر و فن اور انشا پردازی کا عمدہ نمونہ ہیں۔ وہ شاعر اور افسانہ نگار بھی تھے اور مؤرخ و ماہر مترجم بھی۔ ہمہ جہت نیاز فتح پوری کی کتاب من و یزداں، نگارستان، شہاب کی سرگزشت، جمالستان اور انتقادیات علمی و ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہیں۔ انھیں بعض نظریات اور روشن خیالی کے سبب تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

    علّامہ نیاز فتح پوری کی کئی تحریریں مختلف اخبار اور جرائد میں شایع ہوئیں جن سے اردو زبان و ادب میں نئے موضوعات اور فکری مباحث نے جنم لیا۔

    کراچی میں‌ وفات پانے والے علّامہ نیاز فتح پوری کو پاپوش نگر کے قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • مشہور مزاحیہ اداکار رنگیلا کی 16 ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    مشہور مزاحیہ اداکار رنگیلا کی 16 ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    24 مئی 2005ء کو مشہور مزاحیہ اداکار رنگیلا اپنے مداحوں سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے تھے۔ آج رنگیلا کی سولہویں برسی ہے۔

    رنگیلا کا اصل نام سعید علی خان تھا، وہ 1937ء میں ننگر ہار، افغانستان میں پیدا ہوئے تھے۔ بعد میں ان کا خاندان پشاور منتقل ہوگیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد رنگیلا لاہور چلے آئے اور وہاں پینٹر کے طور پر کام کرنے لگے۔ لاہور میں‌ انھیں فلمیں دیکھنے کا موقع ملا جس نے انھیں اداکاری کی طرف مائل کیا۔

    1957ء میں ہدایت کار عطا اللہ ہاشمی کی فلم داتا میں ایک مختصر سا کردار نبھاکر رنگیلا نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ بعدازاں شباب کیرانوی کی فلم ثریا اور اشفاق ملک کی فلم گہرا داغ نے انھیں مقبول مزاحیہ اداکار بنا دیا۔ 1968ء میں ریلیز ہونے والی فلم سنگ دل کو ان کے فلمی کیریئر کا ایک نیا موڑ کہا جاتا ہے۔ اس کے اگلے چند برس بعد رنگیلا نے ذاتی پروڈکشن ہائوس کھول لیا اور اپنی فلم کے لیے کہانی بھی خود لکھی اور پروڈیوسر بھی بنے۔ ان کی فلم نے زبردست کام یابی حاصل کی۔ ان کی فلموں عورت راج، سونا چاندی اور انسان اور گدھا کو خوب پذیرائی ملی۔

    رنگیلا نے کامیڈین کے طور پر شہرت حاصل کرنے اور انڈسٹری میں‌ اپنی جگہ بنانے کے بعد خود کو بحیثیت فلم ساز، ہدایت کار نہ صرف منوایا بلکہ زبردست کام یابیاں‌ سمیٹیں، انھوں نے گلوکاری بھی کی اور فلموں کے لیے اپنی آواز میں گانے بھی ریکارڈ کروائے تھے۔

    رنگیلا نے مجموعی طور پر 660 فلموں میں کام کیا جن میں اردو، پنجابی اور بعض فلموں‌ کے ڈبل ورژن شامل ہیں۔ رنگیلا کو فلمی دنیا میں‌ متعدد اعزازات سے نوازا گیا جب کہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔