Tag: 24 مئی وفات

  • عہد ساز شخصیت نیاز فتح‌ پوری کا تذکرہ

    عہد ساز شخصیت نیاز فتح‌ پوری کا تذکرہ

    بلاشبہ برصغیر پاک و ہند کا ہر گھرانہ اور ہر وہ ادارہ نیاز فتح پوری کے نیاز مندوں میں شامل رہا جس میں جویانِ علم اور تعلیم و تعلّم کے شیدا موجود تھے۔

    کون تھا جو ان کی علمیت سے مرعوب نہ تھا اور ان کی شخصیت کے سحر میں گرفتار نہ رہا ہو۔ نیاز صاحب کہیں ایک افسانہ نگار کے روپ میں سامنے آتے تو کسی کے لیے دقیق موضوعات پر ان کی گفتگو اہم تھی۔ کوئی فلسفیانہ مسائل کو سلجھانے کے ان کے انداز سے متأثر تھا، کوئی مذہبی اعتقادات اور تاریخی موضوعات پر ان کی مدلّل بحث کو پسند کرتا تھا۔

    ایک زمانہ تھا کہ نیاز صاحب کی نثر کا ڈنکا بجتا تھا۔ افسانے ہی نہیں‌ ان کے ناولٹ اور انشائیے، مذہب اور سائنس سے متعلق ان کے علمی اور تحقیقی مضامین، اس پر ہندوستان بھر میں اٹھائے جانے والے سوالات اور اس کے ذیل میں مباحث کے ساتھ وہ تراجم جو نیاز صاحب کے قلم سے نکلے، ان کی دھوم تھی۔ نیاز فتح پوری کی متنازع فیہ کتاب ’’من و یزداں‘‘ اور رسالہ ’’نگار‘‘ نے برصغیر کے علمی اور ادبی حلقوں کے ساتھ عام قارئین کی فکر کو بلند کیا اور ان کے علم میں خوب اضافہ کیا۔

    نیاز فتح پوری کو عقلیت پسند کہا جاتا ہے جنھوں نے اردو ادب کی مختلف اصناف کو اپنی فکر اور تخلیقات سے مالا مال کیا۔ وہ بیک وقت شاعر، افسانہ نگار، نقّاد، محقق، مفکّر، عالم دین، مؤرخ، ماہر نفسیات، صحافی اور مترجم تھے۔ ان کی تحریریں گوناگوں ادبی اور علمی موضوعات پر اردو زبان کا بے مثال سرمایہ ہیں۔ نیاز فتح پوری کی ادبی اور علمی سرگرمیوں کا میدان بہت وسیع تھا جسے انھوں نے رسالہ ’’نگار‘‘ کے ذریعے عام کیا۔ اس رسالے میں ادب، فلسفہ، مذہب اور سائنس سے متعلق مضامین شایع ہوتے تھے جن کی بدولت مختلف پیچیدہ موضوعات اور ادق مسائل پر مباحث اور غور و فکر کا سلسلہ شروع ہوا۔ نیاز فتح پوری نے جدید نفسیات، ہپناٹزم اور جنسیات پر بھی لکھا اور خوب لکھا۔ 1924 کے نگار میں ’’اہلِ مریخ سے گفتگو کا امکان‘‘ اور ’’جنگ کا نقشہ ایک صدی بعد‘‘ 1935 میں ’’چاند کا سفر‘‘ جیسے مضامین نیاز فتح پوری کی تخلیقی صلاحیتوں، ان کے تجسس اور سائنسی رجحان کا پتا دیتے ہیں۔ عقلیت پسندی کے سبب نیاز صاحب کو سخت مخالفت اور کڑی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ یہی نہیں‌ بلکہ ان پر مذہبی اور قدامت پرست حلقوں کی جانب سے فتویٰ اور بگاڑ کے الزامات بھی عائد کیے گئے۔

    24 مئی 1966ء کو نیاز فتح پوری کا انتقال ہوگیا تھا۔ ان کی سوانح عمری پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ 28 دسمبر 1884ء کو انھوں نے یوپی کے ضلع بارہ بنکی میں آنکھ کھولی تھی اور شروع ہی سے ان کا رجحان علم و ادب کی جانب رہا۔ غور و فکر کی عادت نے انھیں‌ مختلف موضوعات اور مسائل کو عقل اور دانش کے زور پر الگ ہی انداز سے دیکھنے اور سمجھنے پر آمادہ کیا۔ 1922ء میں نیاز فتح پوری نے علمی و ادبی رسالہ نگار جاری کیا جو تھوڑے ہی عرصے میں اردو داں حلقوں میں روشن خیالی کی مثال بن گیا۔ علّامہ نیاز فتح پوری نے 35 کتابیں یادگار چھوڑی ہیں جن میں من و یزداں، نگارستان، شہاب کی سرگزشت، جمالستان اور انتقادیات بہت مقبول ہیں۔

    رسالہ نقوش کے مدیر محمد طفیل لکھتے ہیں، نیاز صاحب نے جو کچھ بھی امتیاز حاصل کیا۔ وہ اپنے قلم کے سحر سے حاصل کیا۔ لکھنے کے لیے کسی اہتمام کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ باتیں بھی کرتے جاتے ہیں۔ لکھتے بھی جاتے ہیں۔ گلوری منہ میں ہو گی۔ خوں خوں کر کے باتوں میں ساتھ دیں گے۔ ضرورت پڑی تو پیک نگل کر بولیں گے: ’’یہ آپ نے کیسے سمجھ لیا کہ میں کام میں مشغول ہوں۔‘‘ حافظہ بلا کا پایا ہے۔ ہر چیز، ہر کتاب ان کے ذہن میں منتقل ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بڑے بڑے کام صرف چند دنوں میں کر ڈالے۔ ان کے ہاں آمد ہی آمد ہے۔ آورد نام کو نہیں۔ الفاظ واقعی ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔ یہ کمال میں نے صرف انیس، جوش اور نیاز میں دیکھا۔ باقی سب کے ہاں کاری گری ہے۔

    نیاز صاحب تقسیمِ ہند کے فوراً بعد نہیں بلکہ 1962ء میں ہجرت کر کے کراچی آئے تھے۔ حکومتِ پاکستان نے انھیں "نشانِ سپاس” سے نوازا تھا۔علّامہ نیاز فتح پوری کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • نام وَر ترقّی پسند غزل گو شاعر مجروح سلطان پوری کا یومِ وفات

    نام وَر ترقّی پسند غزل گو شاعر مجروح سلطان پوری کا یومِ وفات

    مجروح سلطان پوری کا شمار اردو کے ممتاز ترقّی پسند غزل گو شعرا میں ہوتا ہے جو 24 مئی 2000ء کو ممبئی میں‌ وفات پاگئے تھے۔

    مجروح سلطان پوری کا تعلق بھارت سے تھا۔ وہ 1919ء میں اتّر پردیش کے ضلع سلطان پور میں پیدا ہوئے تھے۔ خاندانی نام اسرار حسن خان تھا اور مجروح تخلّص۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ والد محکمہ پولیس میں‌ ملازم تھے۔ اس زمانے میں تحریکِ خلافت زوروں پر تھی۔ وہ انگریزوں اور ان کی زبان سے نفرت کا دور تھا۔ والد نے انھیں‌ بھی کسی اسکول میں بھیجنے اور انگریزی کی تعلیم دینے کے بجائے ایک مدرسہ میں داخل کروا دیا جہاں مجروح نے اردو کے علاوہ عربی اور فارسی پڑھی۔ تاہم مدرسے کے ماحول میں خود کو نہ ڈھال سکے اور تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔ 1933ء میں لکھنؤ کے ایک کالج سے حکمت میں سند حاصل کی اور مطب کرلیا، لیکن یہ تجربہ ناکام رہا۔ اسی زمانے میں مجروح موسیقی میں دل چسپی لینے لگے تھے اور پھر 1935 ء میں شاعری شروع کردی۔ مشاعروں میں ان کا ترنم بھی مشہور تھا۔

    مجروح کو جگر مراد آبادی اور پروفیسر رشید احمد صدیقی کی رفاقت نصیب ہوئی۔ اس وقت کے دیگر شعرا نے بھی ان کی حوصلہ افزائی کی، جگر صاحب انھیں اپنے ساتھ مشاعروں میں لے جانے لگے تھے جہاں‌ اپنے کلام کی بدولت مجروح سلطان پوری نے اپنی منفرد پہچان بنائی، ممبئی کے ایک مشاعرے میں ایک نام وَر فلم ڈائریکٹر نے ان کا کلام سنا تو فلموں کے لیے گیت لکھنے پر آمادہ کر لیا اور ان کا یہ سفر نہایت کام یاب رہا۔

    مجروح نے کئی برس ہندوستان کی فلم نگری کے لیے گیت تحریر کیے جو بہت مقبول ہوئے۔ 1965ء میں انھیں فلم دوستی کے سپر ہت گیت "چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے” پر بہترین نغمہ نگار کا فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔ 1993ء میں بھارت کی فلم انڈسٹری کا سب سے بڑا "دادا صاحب پھالکے ایوارڈ” بھی ان کے نام ہوا۔

    جگن ناتھ آزاد کے مطابق مجروح کی شاعری خیال اور جذبہ کے امتزاج کا اک نگار خانہ ہے جس میں زندگی کے کئی رنگ جھلکتے ہیں۔ انسان کی عظمت پر مجروح کا اٹل یقین زندگی کی ٹھوس حقیقتوں پر مبنی ہے۔ روایت کا احترام اور روایت میں توسیع مجروح کے کلام کی خصوصیت ہے۔

    ان کا کلام ہر خاص و عام میں مقبول تھا، مجروح کے کئی اشعار کو ضرب المثل کا درجہ حاصل ہے اور تقریر سے تحریر تک یہ اشعار موضوع کا حصّہ ہوتے ہیں۔ ان کے چند مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
    لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

    جلا کے مشعلِ جاں ہم جنوں صفات چلے
    جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے

    جفا کے ذکر پہ تم کیوں سنبھل کے بیٹھ گئے
    تمہاری بات نہیں بات ہے زمانے کی

    ستونِ دار پہ رکھتے چلو سَروں کے چراغ
    جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے

  • یومِ وفات: اداکار ظفر مسعود اپنے زمانۂ عروج اور عین عالمِ شباب میں عالمِ جاوداں کو سدھار گئے تھے

    یومِ وفات: اداکار ظفر مسعود اپنے زمانۂ عروج اور عین عالمِ شباب میں عالمِ جاوداں کو سدھار گئے تھے

    پاکستان ٹیلی ویژن کے چند اداکار ایسے بھی ہیں جنھوں نے گویا راتوں رات شہرت کے ہفت آسمان طے کرلیے، لیکن فن کی دنیا میں اپنے زمانۂ عروج اور عین عالمِ شباب میں فرشتۂ اجل کے آگے بے بس ہوکر منوں مٹی تلے جا سوئے۔ ظفر مسعود ایسے ہی اداکار تھے جو 24 مئی 1981ء کو عالمِ جاوداں کو سدھار گئے۔ وہ قاہرہ میں ٹریفک کے ایک حادثے میں زندگی کی بازی ہار گئے۔

    ظفر مسعود نے پاکستان ٹیلی وژن کے مشہور ترین ڈراموں خدا کی بستی، زیر زبر پیش، انکل عرفی، آبگینے، بندش اور کرن کہانی میں اپنی کمال اداکاری سے ناظرین کو محظوظ سے کیا اور مقبولیت حاصل کی تھی۔ انھوں نے مشہور ڈرامہ سیریز ایک محبت سو افسانے کے چند ڈراموں میں بھی کردار نبھائے تھے جو یادگار ثابت ہوئے۔ ظفر مسعود نے تین اردو اوردو پنجابی فلموں میں بھی کام کیا تھا۔

    پاکستان ٹیلی ویژن اور فلم کے اس باکمال اداکار نے قاہرہ کی ایک شپنگ کمپنی میں ملازمت اختیار کرلی تھی، جہاں قیام کے دوران ان کی کار کو حادثہ پیش آیا اور اس حادثے میں ظفر مسعود زندگی سے محروم ہوگئے۔ وہ کراچی کے ایک قبرستان میں ابدی نیند سورہے ہیں۔

    ظفر مسعود نے ڈرامہ سیریل خدا کی بستی میں نوشہ کا کردار ادا کیا تھا۔ یہ ایک مشکل کردار تھا جسے انھوں نے نہایت خوبی سے نبھایا اور ایک اداکار کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کو منوانے میں کام یاب رہے۔ ظفر مسعود کی فطری اداکاری نے سبھی کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ یہ ڈرامہ سیریل دوسری بار اسکرین پر پیش ہوا تو اس میں‌ نوشہ کا کردار بہروز سبزواری نے نبھایا۔

  • نابغۂ روزگار علّامہ نیاز فتح پوری کی برسی

    نابغۂ روزگار علّامہ نیاز فتح پوری کی برسی

    نیاز فتح پوری اردو کے نام وَر ادیب، نقّاد، صحافی اور ماہرِ‌ لسانیات تھے جو 24 مئی 1966ء کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔ انھیں برصغیر پاک و ہند میں ممتاز عقلیت پسند دانش وَر کی حیثیت سے بھی جانا جاتا ہے۔

    علّامہ نیاز فتح پوری 28 دسمبر 1884ء کو فتح پور، سہوہ میں پیدا ہوئے تھے۔ علم و ادب کے رسیا تھے۔ غور و فکر کی عادت نے انھیں‌ مختلف موضوعات پر لکھنے اور قلم کی طاقت کو آزمانے پر اکسایا۔ 1922ء میں نیاز فتح پوری نے ایک ادبی جریدہ نگار جاری کیا جو تھوڑے ہی عرصے میں اردو میں روشن خیالی کی ایک مثال بن گیا۔ علّامہ نیاز فتح پوری نے 35 کتابیں یادگار چھوڑی ہیں جو ان کے فکر و فن اور انشا پردازی کا عمدہ نمونہ ہیں۔ وہ شاعر اور افسانہ نگار بھی تھے اور مؤرخ و ماہر مترجم بھی۔ ہمہ جہت نیاز فتح پوری کی کتاب من و یزداں، نگارستان، شہاب کی سرگزشت، جمالستان اور انتقادیات علمی و ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہیں۔ انھیں بعض نظریات اور روشن خیالی کے سبب تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

    علّامہ نیاز فتح پوری کی کئی تحریریں مختلف اخبار اور جرائد میں شایع ہوئیں جن سے اردو زبان و ادب میں نئے موضوعات اور فکری مباحث نے جنم لیا۔

    کراچی میں‌ وفات پانے والے علّامہ نیاز فتح پوری کو پاپوش نگر کے قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • مشہور مزاحیہ اداکار رنگیلا کی 16 ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    مشہور مزاحیہ اداکار رنگیلا کی 16 ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    24 مئی 2005ء کو مشہور مزاحیہ اداکار رنگیلا اپنے مداحوں سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے تھے۔ آج رنگیلا کی سولہویں برسی ہے۔

    رنگیلا کا اصل نام سعید علی خان تھا، وہ 1937ء میں ننگر ہار، افغانستان میں پیدا ہوئے تھے۔ بعد میں ان کا خاندان پشاور منتقل ہوگیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد رنگیلا لاہور چلے آئے اور وہاں پینٹر کے طور پر کام کرنے لگے۔ لاہور میں‌ انھیں فلمیں دیکھنے کا موقع ملا جس نے انھیں اداکاری کی طرف مائل کیا۔

    1957ء میں ہدایت کار عطا اللہ ہاشمی کی فلم داتا میں ایک مختصر سا کردار نبھاکر رنگیلا نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ بعدازاں شباب کیرانوی کی فلم ثریا اور اشفاق ملک کی فلم گہرا داغ نے انھیں مقبول مزاحیہ اداکار بنا دیا۔ 1968ء میں ریلیز ہونے والی فلم سنگ دل کو ان کے فلمی کیریئر کا ایک نیا موڑ کہا جاتا ہے۔ اس کے اگلے چند برس بعد رنگیلا نے ذاتی پروڈکشن ہائوس کھول لیا اور اپنی فلم کے لیے کہانی بھی خود لکھی اور پروڈیوسر بھی بنے۔ ان کی فلم نے زبردست کام یابی حاصل کی۔ ان کی فلموں عورت راج، سونا چاندی اور انسان اور گدھا کو خوب پذیرائی ملی۔

    رنگیلا نے کامیڈین کے طور پر شہرت حاصل کرنے اور انڈسٹری میں‌ اپنی جگہ بنانے کے بعد خود کو بحیثیت فلم ساز، ہدایت کار نہ صرف منوایا بلکہ زبردست کام یابیاں‌ سمیٹیں، انھوں نے گلوکاری بھی کی اور فلموں کے لیے اپنی آواز میں گانے بھی ریکارڈ کروائے تھے۔

    رنگیلا نے مجموعی طور پر 660 فلموں میں کام کیا جن میں اردو، پنجابی اور بعض فلموں‌ کے ڈبل ورژن شامل ہیں۔ رنگیلا کو فلمی دنیا میں‌ متعدد اعزازات سے نوازا گیا جب کہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔