Tag: 25 اپریل وفات

  • یومِ‌ وفات: مدیحہ گوہر تھیٹر سے سماج تک

    یومِ‌ وفات: مدیحہ گوہر تھیٹر سے سماج تک

    پاکستان میں فنونِ لطیفہ کے حوالے سے خدمات کے لیے مدیحہ گوہر کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ وہ تھیٹر اور ٹیلی ویژن کی دنیا میں‌ اداکارہ کی حیثیت سے پہچانی جاتی تھیں۔ مدیحہ گوہر 2018ء میں آج ہی دن انتقال کرگئی تھیں۔ انھیں انسانی حقوق کی سرگرم کارکن کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔

    مدیحہ گوہر سرطان کے مہلک مرض میں مبتلا تھیں۔ 1956ء میں کراچی میں پیدا ہونے والی اس آرٹسٹ نے بعد میں‌ لاہور میں‌ سکونت اختیار کرلی تھی۔ مدیحہ گوہر کا تعلق ایک علمی اور ادبی گھرانے سے تھا۔ ان کی والدہ کا نام خدیجہ گوہر تھا جو ایک قلم کار تھیں، جب کہ مدیحہ گوہر کی ایک بہن فریال گوہر نے بھی اداکاری اور فن کی دنیا میں پہچان بنائی۔ مدیحہ گوہر کی شادی معروف ڈراما نویس اور پروڈیوسر شاہد محمود ندیم سے ہوئی تھی۔ انھوں نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر 1984ء میں لاہور میں اجوکا تھیٹر کی بنیاد رکھی تھی جو ملک کی صفِ اوّل کی تھیٹر کمپنی شمار ہوئی۔

    زمانۂ طالبِ علمی ہی سے اداکاری اور فنونِ لطیفہ میں‌ دل چسپی لینے والی مدیحہ گوہر نے 1978ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔ وہ مزید تعلیم کے لیے لندن چلی گئیں اور یونیورسٹی آف لندن سے تھیٹر کے فن میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ 1983ء میں وطن واپس آنے کے بعد اجوکا تھیٹر کا سلسلہ شروع کیا۔ اس تھیٹر کے تحت مقامی لوگوں کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے انھوں نے نوٹنکی کا تجربہ کیا جسے دیسی اور مغربی روایت کی آمیزش نے قبولیت کے درجے پر پہنچا دیا۔ اجوکا تھیٹر کے لیے انھوں نے تین درجن سے زائد ڈرامے لکھے اور بیشتر میں اداکاری بھی کی۔ ان کے ڈراموں کا مقصد لوگوں میں‌ شعور اجاگر کرنا اور اصلاح کرنا رہا۔ اجوکا تھیٹر کے فن کاروں نے پاکستان ہی نہیں بھارت، بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا کے علاوہ یورپ میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرکے شہرت اور داد پائی۔

    مدیحہ گوہر کے ڈراموں میں انسان دوستی اور صنفی مساوات کا موضوع نمایاں رہا جسے انھوں نے نہایت پُراثر اور معیاری انداز سے مقامی مزاج اور روایات کو ملحوظ رکھتے ہوئے پیش کیا۔

    وہ حقوقِ‌ نسواں‌ کی علم بردار اور ایک سماجی کارکن کے طور پر بھی پہچانی جاتی تھیں۔ 2006ء میں انھیں نیدرلینڈز میں ‘پرنس کلوڈ ایوارڈ’ سے نوازا گیا اور 2007ء میں وہ "انٹرنیشنل تھیٹر پاستا ایوارڈ” کی حق دار قرار پائی تھیں۔

    مدیحہ گوہر کا شمار پرفارمنگ آرٹ کی دنیا کے ان آرٹسٹوں میں کیا جاتا ہے جنھوں نے اپنی زندگی کو نظم و ضبط اور اصولوں کا پابند رکھا اور دوسروں سے بھی اس معاملے میں کوئی رعایت نہیں‌ کی، وہ اس حوالے سخت گیر مشہور تھیں۔

  • یومِ وفات: تھیٹر سے سماج تک ہمہ جہات مدیحہ گوہر کا تذکرہ

    یومِ وفات: تھیٹر سے سماج تک ہمہ جہات مدیحہ گوہر کا تذکرہ

    مدیحہ گوہر پاکستان میں فنونِ لطیفہ کا معتبر حوالہ اور اسٹیج اور ٹیلی ویژن کی دنیا کی معروف فن کار تھیں جو 25 اپريل 2018ء کو انتقال کرگئی تھیں۔ انھیں پاکستان میں حقوقِ انسانی کی سرگرم کارکن کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ وہ سرطان کے مہلک مرض میں مبتلا تھیں۔

    مدیحہ گوہر نے 1956ء میں کراچی میں آنکھ کھولی اور بعد میں‌ لاہور منتقل ہوگئیں، ان کا تعلق ایک علمی اور ادبی گھرانے سے تھا، والدہ خدیجہ گوہر بھی قلم کار تھیں، جب کہ ایک بہن فریال گوہر بھی اداکاری اور آرٹ اور ثقافت میں نام ور ہوئیں۔ مدیحہ گوہر کی شادی معروف ڈراما نویس اور پروڈیوسر شاہد محمود ندیم سے ہوئی اور انھوں نے مل کر 1984ء میں لاہور میں اجوکا تھیٹر کی بنیاد رکھی جو ملک کی صفِ اول کی تھیٹر کمپنی شمار ہوئی۔

    وہ زمانہ طالب علمی ہی سے اداکاری اور فنونِ لطیفہ میں‌ دل چسپی لینے لگی تھیں۔ علم و ادب کے شوق نے 1978ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادب میں ایم اے کروایا، اور وہ مزید تعلیم کے لیے لندن چلی گئیں جہاں یونیورسٹی آف لندن سے تھیٹر کے فن میں ماسٹرز کیا۔

    1983ء میں وطن لوٹنے پر انھوں نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر اجوکا تھیٹر کی بنیاد رکھی۔ اس تھیٹر کے تحت مقامی مسائل کو اجاگر کیا گیا اور اس کے لیے نوٹنکی کا تجربہ کیا جسے دیسی اور مغربی روایت کی آمیزش نے قبولیت کے درجے پر پہنچایا اور ان کے اس تھیٹر نے پاکستان ہی نہیں بھارت، بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا کے علاوہ یورپ میں بھی شہرت اور داد پائی۔

    ان کے ڈراموں میں انسان دوستی اور صنفی مساوات کا موضوع نمایاں رہا جسے انھوں نے نہایت پُراثر اور معیاری انداز سے مقامی مزاج اور روایات کو ملحوظ رکھتے ہوئے پیش کیا۔

    مدیحہ گوہر نے پاکستان میں‌ ٹیلی ویژن کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک میں تھیٹر پر اداکاری کے جوہر دکھائے۔ وہ حقوقِ‌ نسواں‌ کی علم بردار اور ایک سماجی کارکن بھی تھیں۔

    2006ء میں انھیں نیدرلینڈ میں ‘پرنس کلوڈ ایوارڈ’ سے نوازا گیا اور 2007ء میں انھوں نے "انٹرنیشنل تھیٹر پاستا ایوارڈ” اپنے نام کیا۔

    مدیحہ گوہر کا شمار پرفارمنگ آرٹ کی دنیا کے ان آرٹسٹوں میں کیا جاتا ہے جنھوں نے اپنی زندگی کو نظم و ضبط اور اصولوں کا پابند رکھا اور دوسروں سے بھی اس معاملے میں کوئی رعایت نہیں‌ کی، وہ اس حوالے سخت گیر مشہور تھیں۔

  • ممتاز محقّق، ادیب، نقّاد اور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر محمد باقر کی برسی

    ممتاز محقّق، ادیب، نقّاد اور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر محمد باقر کی برسی

    اردو، فارسی اور پنجابی زبان و ادب کے نام وَر محقق، ادیب اور نقّاد ڈاکٹر محمد باقر 25 اپریل 1993ء کو وفات پاگئے تھے۔ انھوں نے افسانے بھی لکھے اور علمی و ادبی موضوعات پر کئی کتابیں‌ یادگار چھوڑیں۔ ڈاکٹر محمد باقر پاکستان میں ایک اسکالر اور ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے بھی جانے جاتے ہیں۔

    4 اپریل 1910ء کو لاہور بنگلہ، لائل پور میں پیدا ہونے والے محمد باقر نے 1939ء میں لندن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ 1950ء سے 1970ء تک پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ فارسی میں صدارت کے منصب پر رہتے ہوئے انھوں نے اپنے فرائض کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ علمی و ادبی مشاغل اور تخلیقی کام بھی جاری رکھا۔

    1965ء میں پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج کے پرنسپل مقرر ہوگئے۔ پاکستان کے ان دونوں اہم تعلیمی اداروں میں انھوں نے تعلیم و تدریس کے حوالے سے اپنے وسیع تجربے، گہرے مشاہدے اور مختلف نظام ہائے تدریس کے مطالعے کی بدولت نمایاں خدمات انجام دیں۔

    ڈاکٹر محمد باقر کی تصانیف میں Lahore Past and Present، اردوئے قدیم دکن اور پنجاب میں، لندن سے لاہور تک، لندنی دوست کے نام خطوط، لندن سے خطوط،
    خدا کی لاٹھی، سیاہ کار اور دوسرے افسانے، شعرائے پنجاب، تہذیبِ عمل، شرحِ بانگِ درا، احوال و آثارِ اقبال شامل ہیں جنھیں علمی و ادبی حلقوں میں‌ بڑی اہمیت دی گئی اور یہ کتب ڈاکٹر محمد باقر کا ادب کے لیے گراں قدر سرمایہ ہیں۔

  • شطرنج کے ماہر کھلاڑی میر سلطان خان کا تذکرہ

    شطرنج کے ماہر کھلاڑی میر سلطان خان کا تذکرہ

    شطرنج کے ماہر اور چیمپین میر سلطان خان 25 اپریل 1966ء کو انتقال کرگئے تھے۔ وہ اپنے زمانے میں شطرنج کے کھیل کے ایک ماہر کھلاڑی مانے جاتے تھے جنھوں نے کئی اہم مقابلوں میں‌ حصّہ لیا اور یورپ کے مشہور کھلاڑیوں‌ کو مقابلے میں‌ شکست دے کر فتح اور شہرت اپنے نام کی۔

    میر سلطان خان 1905ء میں مٹھاٹوانہ، ضلع سرگودھا میں پیدا ہوئے اور سرگودھا ہی میں‌ انتقال کیا۔ انھوں نے شطرنج میں دل چسپی لینا شروع کی اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کھیل میں مہارت بڑھی تو شہر میں بھی ان کا شہرہ ہونے لگا، مقامی اور ہندوستان کی سطح پر کھلاڑیوں کو شکست دینے کے بعد جب ملک عمر حیات خان ٹوانہ نے ان کے بارے میں‌ سنا تو 1929ء میں اپنے ساتھ انگلستان چلنے کی دعوت دی اور وہاں جاکر انھوں نے شطرنج کے مقابلوں‌ میں‌ خوب نام کمایا۔

    برطانیہ میں‌ قیام کے دوران 1930ء، 1931ء اور 1933ء میں میر سلطان خان نے برٹش اوپن چیس چیمپین شپ جیتی۔ وہ کئی برس وہاں‌ مقیم رہے اور اس دوران یورپی کھلاڑیوں کا بساط پر مقابلہ کیا، لیکن کوئی انہیں شکست نہ دے سکا۔

    تقسیمِ ہند کے بعد میر سلطان خان کی زندگی گم نامی میں بسر ہوئی۔ مشہور ہے کہ اس دور میں بھی شطرنج کے بڑے بڑے کھلاڑی ان کے ساتھ کھیلنے سے کتراتے تھے۔