Tag: 25 اکتوبر وفات

  • جیفری چاسر اور ‘پکچر گیلری’ کا تذکرہ

    جیفری چاسر اور ‘پکچر گیلری’ کا تذکرہ

    جیفری چاسر کو انگریزی زبان کا پہلا شاعر تصور کیا جاتا ہے۔ وہ اپنے عہد کی ممتاز برطانوی شخصیات میں سے ایک تھا۔ انگلستان میں ادب، سیاست اور سماج میں چاسر نے اپنی لیاقت اور فن کی بدولت بڑا مقام و مرتبہ پایا۔

    چاسر کے حالاتِ زندگی اور اس کی شخصیت کے بارے میں بہت کم معلومات دست یاب ہیں۔ مؤرخین نے اس کا سنہ پیدائش 1340ء لکھا ہے۔ چاسر کا انتقال 25 اکتوبر 1400ء میں ہوا تھا۔ یہ تاریخِ‌ وفات جیفری چاسر کے مدفن پر نصب کتبہ پر پڑھی جاسکتی ہے۔ جیفری چاسر کو فادر آف انگلش پوئٹری بھی کہا جاتا ہے۔

    جیفری چاسر جہاں اپنی متاثر کن شاعری کی وجہ سے ہر خاص و عام میں‌ مقبول ہوا، وہیں اپنی قابلیت کی بنیاد پر شاہی دربار میں بھی جگہ بنائی۔ اس دور کی بعض کتابیں اور مختلف تذکروں سے جیفری چاسر کے بارے میں جو خاکہ بن سکا ہے وہ اسے ایک معمولی تاجر کا بیٹا ثابت کرتے ہیں۔ یہ 1349ء کی بات ہے جب برطانیہ میں طاعون کی وبا پھیلی اور چاسر کا قریبی عزیز اس کا نوالہ بنا۔ اس کا فائدہ چاسر کے باپ کو پہنچا اور اسے ترکہ میں خاصی جائیداد یا پھر بڑی رقم مل گئی اور یوں یہ خاندان بیٹھے بٹھائے امیر ہوگیا، اسی دولت نے نوعمر چاسر کی زندگی بدل کر رکھ دی۔ وہ ایک قابل اور ذہین لڑکا ثابت ہوا اور اپنے باپ کی طرح خرید و فروخت کے جھیملے میں‌‌ پڑ کر معمولی منافع حاصل کرنے کے بجائے سرکاری نوکری اختیار کرنے کو ترجیح دی اور ایک روز شاہی دربار تک پہنچنے میں کام یاب ہوگیا۔ اب چاسر درباری ملازم تھا۔ جیفری چاسر اپنی ذہانت اور لیاقت کے بل بوتے پر دربار میں نمایاں ہوتا گیا اور ترقی کرتے ہوئے شاہ ایڈورڈ سوم کے عہد کا ایک بااثر درباری بن گیا۔ دراصل وہ ایک تعلیم یافتہ نوجوان تھا اور اسے انگریزی کے علاوہ فرانسیسی، اطالوی اور لاطینی زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا۔ اسی قابلیت کی بناء پر چاسر کو دو مرتبہ اٹلی میں سفارت کار کے طور پر بھی بھیجا گیا۔ بعد میں برطانیہ اور فرانس کے درمیان مشہورِ زمانہ ‘سو سالہ جنگ’ لڑی گئی تو جیفری چاسر نے اس میں بحیثیت سپاہی بھی خدمات انجام دیں۔

    مؤرخین کا خیال ہے کہ سفارت کار کے طور پر اٹلی میں قیام کے دوران جیفری چاسر اُس زمانے کے مشہور اور اٹلی کے قومی شاعر کا درجہ رکھنے والے بوکیچیو سے ملا تھا۔ وہ اس شاعر کے افکار اور اس کی نظموں سے بہت متاثر ہوا۔ چاسر تخلیقی صلاحیتوں کا مالک تھا اور انگلستان لوٹنے کے بعد اُس نے شاعری میں طبع آزمائی کی۔ اس کی نظموں کی خاص بات اپنے عہد سے مطابقت ہے۔ چاسر کی ایک مشہورِ زمانہ نظم کو نقادوں نے حقیقی معنوں میں چودھویں صدی عیسوی کے برطانیہ کی عکاس قرار دیا۔ چاسر کی یہ نظم ‘پکچر گیلری’ کے عنوان سے بھی مشہور ہے۔ بطور شاعر جیفری چاسر کی نظم کو وسعتِ بیان اور گہرائی کے اعتبار سے ایسی تخلیق مانا جاتا ہے کہ کوئی چودھویں صدی تاریخ پڑھنا چاہتا ہے تو چاسر کی یہ نظم ہی اس کے لیے کافی ہو گی۔ اس نظم میں چاسر نے انتیس کرداروں کے ساتھ اس دور کی نہایت پُراثر منظر کشی کی ہے اور یہ اس وقت کے لندن کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ جیفری چاسر کی اس نظم کی انفرادیت تمام نمایاں‌ شعبہ ہائے حیات سے وابستہ افراد میں سے کم سے کم ایک اور مختلف سماجی گروہوں کی نمائندگی ہے جن کے ذریعے شاعر نے اپنے عہد کی حقیقی تصویر پیش کی ہے۔

    جیفری چاسر کی 74 نظموں میں سے ایک اور مشہور نظم پارلیمنٹ آف فاؤلز بھی ہے جو سات سو مصرعوں پر مشتمل ہے۔ چاسر کی شاعری انگلستان میں بے حد مقبول ہوئی اور شاہی دربار میں بھی اسی بنیاد پر چاسر کی بڑی پذیرائی کی گئی۔ 1374ء میں انگلستان کے بادشاہ ایڈورڈ سوم نے چاسر کو تاحیات وظیفہ دینے کا اعلان کیا۔

    انگلستان کے اس مشہور شاعر نے صرف ایک درباری کی حیثیت سے داد و ستائش سمیٹتے ہوئے وقت نہیں گزارا بلکہ وہ سیاست کے میدان میں بھی سرگرم رہا اور 1386ء میں اس دور کی پارلیمان کا رکن بنا۔ 1366ء میں شادی کرنے والے چاسر کو خدا نے چار بچّوں سے نوازا تھا۔

    جیفری چاسر کی تدفین لندن کے مشہور قبرستان ویسٹ منسٹر ایبے میں کی گئی جہاں کئی دوسرے معروف انگریز اہلِ قلم بھی آسودۂ خاک ہیں۔

  • ساحر لدھیانوی جسے تاج محل سے نفرت تھی!

    ساحر لدھیانوی جسے تاج محل سے نفرت تھی!

    ہندوستان کے مغل شہنشاہ شاہ جہان کی اپنی محبوب ملکہ سے بے پناہ محبّت اور شہرہ آفاق عمارت تاج محل کی تعمیر جہاں اس دور کی ایک یادگار اور عجوبہ ہے، وہیں ترقی پسند شاعر ساحر لدھیانوی کی وہ نظم بھی پاک و ہند میں‌ مشہور ہے، جس کے ہر شعر میں محبّت کی اس یادگار سے نفرت اور بیزاری جھلک رہی ہے۔

    آج اسی ساحر لدھیانوی کی برسی ہے۔ اس مشہور شاعر کی نظمیں اثرانگیز اور دلوں میں اتر جانے والی ہیں۔ ان کے باغیانہ افکار نے ایک عہد کو متاثر کیا۔ ان کی شاعری میں احتجاج اور محبت کے رنگ بہم ہوتے نظر آتے ہیں، لیکن ان کا مجموعہ کلام ’’تلخیاں‘‘ دراصل ان کے جذبات اور احساسات کا وہ مجموعہ تھا جس میں دردمندی، محرومی، بیزاری، غصہ، نفرت، محبت، کیف و مستی، انا، ضد، شکوے شکایات سبھی کچھ تھا۔ وہ اپنے زمانے میں نوجوانوں میں مقبول اور ہر طبقے کے پسندیدہ شاعر تھے۔ ان کی شاعری میں مزدوروں، کسانوں اور معاشرے کے کچلے ہوئے طبقوں سے ہمدردی کے جذبات ملتے ہیں، ان کی شاعری اپنے عشقیہ مزاج کے باوجود ایک گہرے سیاسی شعور کی آئینہ دار ہے۔

    ساحر لدھیانوی 25 اکتوبر 1980ء کو بمبئی میں دل کا دورہ پڑنے سے وفات پاگئے تھے اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔

    ہندوستان کی فلمی شاعری کے معیار کو بلند کرنے اور فلمی نغموں میں ادبی حسن پیدا کرنے کے حوالے سے بھی ان کی کوششیں ناقابل فراموش ہیں۔ انھیں بہترین گیت نگار کا فلم فیئر ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔

    ساحر مشرقی پنجاب کے شہر لدھیانہ میں 8 مارچ 1921ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام عبدالحئی تھا۔ 1939ء میں انٹر کا امتحان پاس کیا۔ لیکن آگے نہ پڑھ سکے اور کالج سے نکال دیا گیا۔ یہی وہ دن تھے جب وہ اشتراکی نظریے سے متاثر ہوئے اور کمیونسٹ پارٹی کی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے۔ ناکام عشق کے احساس غم نے ان کی شاعری کو چمکا دیا اور ان کے لفظوں میں ایک نئی تاثیر ڈال دی۔

    شاعری تو اسکول کے زمانے ہی میں‌ شروع کردی تھی، لیکن بعد میں لاہور کی ادبی فضا اور صحبتوں نے ان کی ادبی شخصیت اور شاعری کو بھی چمکایا۔ وہ کئی ادبی پرچوں کے مدیر رہے اور فلم انڈسٹری کے لیے لازوال گیت تخلیق کیے۔ 1950ء میں ساحر نے بمبئی میں مستقل رہائش اختیار کرلی تھی اور اپنا فلمی سفر جاری رکھا۔

    وہ ایک رومان پرور شاعر تھے جن کے عشق کی داستانیں سبھی کی زبان پر تھیں اور عشق میں‌ ناکامی نے انھیں‌ سخت مایوس اور تلخ بنا دیا تھا۔ انھوں نے تاج محل کے عنوان سے جو نظم لکھی تھی وہ ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    تاج تیرے لیے اک مظہر الفت ہی سہی

    تجھ کو اس وادیٔ رنگیں سے عقیدت ہی سہی
    میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے

    بزم شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی
    ثبت جس راہ میں ہوں سطوت شاہی کے نشاں
    اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی
    میری محبوب پسِ پردہ تشہیر وفا
    تو نے سطوت کے نشانوں کو تو دیکھا ہوتا
    مردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی
    اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا

    ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے
    کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے
    لیکن ان کے لیے تشہیر کا سامان نہیں
    کیونکہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے
    یہ عمارات و مقابر یہ فصیلیں یہ حصار
    مطلق الحکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستوں
    سینۂ دہر کے ناسور ہیں کہنہ ناسور
    جذب ہے ان میں ترے اور مرے اجداد کا خوں
    میری محبوب انہیں بھی تو محبت ہوگی

    جن کی صناعی نے بخشی ہے اسے شکل جمیل
    ان کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام و نمود
    آج تک ان پہ جلائی نہ کسی نے قندیل
    یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارہ یہ محل
    یہ منقش در و دیوار یہ محراب یہ طاق
    اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
    ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
    میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے

  • انگریزی زبان کے اوّلین شاعر جیفری چاسر کی مشہورِ زمانہ "پکچر گیلری” کا تذکرہ

    انگریزی زبان کے اوّلین شاعر جیفری چاسر کی مشہورِ زمانہ "پکچر گیلری” کا تذکرہ

    جیفری چاسر کو انگریزی کا اوّلین شاعر اور برطانیہ کی ممتاز ترین شخصیت کہا جاتا ہے جس نے انگریزی زبان میں‌ اپنی نظموں اور شاہی دربار میں اپنی قابلیت کی بنیاد پر منفرد پہچان بنائی۔ چاسر کے حالاتِ زندگی اور اس کے بارے میں عام معلومات بھی بہت کم سامنے آسکی ہیں۔ تاہم اس کی شاعری کو نہایت پُراثر اور اسے اہم ترین شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے۔

    اس کا سنِ پیدائش 1340ء بتایا جاتا ہے جب کہ وفات 1400ء میں ہوئی۔ اس کے کتبے پر تاریخِ وفات 25 اکتوبر درج ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ایک معمولی تاجر کا بیٹا تھا، جس کے والد کو 1349ء میں پھیلنے والی طاعون کی وبا میں اپنے قریبی عزیز کی موت کے بعد اس کے جائیداد یا بڑی رقم ورثہ کے طور پر ملی جس نے اس کی زندگی بدل کر رکھ دی۔

    جیفری چاسر نے اس زمانے میں شاہی ملازمت حاصل کرلی اور اپنی ذہانت اور لیاقت سے ترقی کرتے کرتے شاہ ایڈورڈ سوم کے دربار میں بڑا اثر رسوخ حاصل کرلیا۔ اسی زمانے میں برطانیہ اور فرانس کے درمیان مشہور سو سالہ جنگ لڑی گئی۔ اس جنگ میں چاسر نے سپاہی کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔

    وہ ایک پڑھا لکھا شخص اور شاعر تھا۔ اسے فرانسیسی، اطالوی، لاطینی اور انگریزی زبانوں پر عبور حاصل تھا اور اس قابلیت کی بنا پر اسے دو دفعہ اٹلی میں سفیر کے طور پر بھیجا گیا۔

    ماہرین کا خیال ہے کہ اسی دور میں وہ اٹلی کے اس دور کے قومی شاعر بوکیچیو سے ملا جس کی نظموں اور افکار نے چاسر کو متاثر کیا اور بعد میں اس نے بھی انگلستان لوٹ کر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا۔ اس کی شاعری کی خاص بات اپنے زمانے سے مطابقت ہے۔

    چاسر کی ایک مشہورِ زمانہ نظم کو چودھویں صدی کے برطانیہ کی حقیقی معنوں میں عکاس کہا جاتا ہے۔ یہ نظم پکچر گیلری کے نام سے مشہور ہے۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر کوئی تاریخ کا رسیا چودھویں صدی کے بارے جاننا چاہتا ہے تو چاسر کی یہ ایک نظم ہی اس کے لیے کافی ہوگی۔ اس نظم کے انتیس کردار ہیں جو درحقیقت اس دور کے جیتے جاگتے لندن کی ترجمانی کرتے ہیں۔ یہ نظم اس لحاظ سے منفرد اور بے مثال ہے کہ اس میں شاعر نے ہر میدان، پیشے اور گروہ کا کم از کم ایک نمائندہ کردار بنا کر پیش کیا ہے۔

    جیفری چاسر کی 74 نظموں میں سے ایک اور مشہور نظم پارلیمنٹ آف فاؤلز سات سو مصرعوں پر مشتمل ہے۔ چاسر کو انگلستان میں بے پناہ مقبولیت اور شاہی دربار میں وہ حیثیت اور مرتبہ حاص ہوا جو اس زمانے میں بہت کم لوگوں کو نصیب ہوا۔ 1374ء میں اس وقت کے حکم ران ایڈورڈ سوم نے چاسر کے لیے زندگی بھر کے لیے وظیفہ مقرر کردیا۔

    جیفری چاسر نے سیاست کے میدان میں بھی اپنا سکہ جمایا اور 1386ء میں برطانوی پارلیمنٹ کا رکن بنا۔ اسے وفات کے بعد لندن کے مشہور قبرستان ویسٹ منسٹر ایبے میں دفن کیا گیا جہاں کئی نام ور ادیب مدفون ہیں۔

  • مشہور لوک فن کارہ زرینہ بلوچ کا تذکرہ جو جیجی کے نام سے معروف تھیں

    مشہور لوک فن کارہ زرینہ بلوچ کا تذکرہ جو جیجی کے نام سے معروف تھیں

    زرینہ بلوچ وادیِ مہران کی مشہور گلوکارہ، ادیب، سیاسی و سماجی کارکن اور دانش وَر تھیں جنھیں جیجی کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔

    خداداد صلاحیتوں کی حامل زرینہ بلوچ نے طویل علالت کے بعد 2005ء میں آج ہی کے دن کراچی میں وفات پائی۔ ان کے گائے ہوئے گیت آج بھی خوشی کی تقریبات اور تہواروں پر سنے جاتے ہیں۔

    زرینہ بلوچ دسمبر 1934ء کو حیدر آباد کے نواحی علاقے الٰہ داد گوٹھ میں پیدا ہوئیں۔ وہ سریلی آواز کی مالک تھیں۔ والد نے بیٹی کی حوصلہ افزائی کی اور زرینہ نے لوک گیت گانے اور گائیکی کے مقابلوں میں حصہ لینا شروع کیا، بعد میں‌ ان کی آواز ریڈیو پاکستان کے ذریعے ملک بھر میں سنی گئی اور انھیں نام و پہچان ملی۔

    ہونہار زرینہ بلوچ کو نام وَر فن کار اُستاد جمن کی شاگردی اختیار کرنے کے بعد اپنے فن کو مزید نکھارنے کا موقع ملا اور جب 1960ء میں ریڈیو پاکستان کے حیدر آباد اسٹیشن نے گلوکاری کا مقابلہ منعقد کیا تو زرینہ بلوچ بھی اس میں شریک ہوئیں۔ انھیں مقابلے کے 600 شرکا میں‌ سے اوّل انعام کا حق دار قرار دیا گیا۔ اس مقابلے کے بعد ان کی شہرت اور گلوکاری کا یہ سلسلہ مزید آگے بڑھا اور وہ پاکستان ٹیلی ویژن تک پہنچیں اور ان کی آواز ناظرین و سامعین تک پہنچی، انھوں نے ٹیلی ویژن ڈراموں میں اداکاری بھی کی۔

    زرینہ بلوچ نے ادب بھی تخلیق کیا اور ان کی متعدد کہانیاں اور افسانے سندھی ادب کا خوب صورت حصّہ بنیں۔

    زرینہ بلوچ نے سندھی اور بلوچی زبانوں کے لوک گیتوں کو اپنی آواز دے کر گویا ایک نئی زندگی بخشی۔ انھوں‌ نے شیخ ایاز، استاد بخاری، تنویر عباسی، گل خان نصیر کے علاوہ فیض احمد فیض اور احمد فراز کی اُردو شاعری کو بھی اپنی سریلی آواز دی اور مقبولیت حاصل کی۔

    زرینہ بلوچ نے سندھ کے معروف سیاست داں اور عوامی تحریک کے سربراہ رسول بخش پلیجو سے شادی کی تھی۔ وہ سیاسی اور سماجی شعور کی حامل ایسی فن کار تھیں جنھوں نے ون یونٹ کے خلاف جدوجہد میں بھی حصّہ لیا اور ضیا دور میں دو سال قید بھی کاٹی۔

    پرائیڈ آف پرفارمنس کے علاوہ زرینہ بلوچ نے فن و ادب کی خدمت پر شاہ لطیف ایوارڈ، سچل اور قلندر لعل شہباز ایوارڈ حاصل کیے تھے۔