Tag: 25 اگست انتقال

  • نام وَر ترقّی پسند اور انقلابی شاعر مخدوم محی الدّین کی برسی

    نام وَر ترقّی پسند اور انقلابی شاعر مخدوم محی الدّین کی برسی

    مخدوم ایک نئی دنیا اور نئے آدم کے متمنّی رہے ہیں۔ ان کی انقلابی اور اشتراکی رنگ کی نظمیں انہی مرکزی خیال کے گرد گھومتی ہیں۔ آج اس عظیم شاعر کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 25 اگست 1969ء کو جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    1908ء میں ابو سعید محمد مخدوم محی الدّین حذری نے ہندوستان کی ایک متموّل ریاست حیدرآباد دکن میں آنکھ کھولی۔ مخدوم نے اس دور کے رواج کے مطابق قرآن شریف اور دینیات کی تعلیم گھر پر مکمل کی۔ وہ ایک مذہبی گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ بعد میں جامعہ عثمانیہ سے بی اے اور ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ 1936ء میں سٹی کالج کے شعبہ اردو سے وابستہ ہوئے اور چند سال بعد مستعفی ہوگئے۔

    ان کا ادبی اور تخلیقی سفر شروع ہو چکا تھا اور اس زمانے میں ہندوستان میں آزادی کی تحریکیں اور سیاسی ہنگامہ آرائیاں جاری تھیں، اسی ماحول میں‌ ادب میں ترقی پسند رجحانات کو فروغ ملا اور مخدوم 1940ء میں کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری منتخب ہوگئے۔ جولائی 1943ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی باقاعدہ تشکیل مخدوم کی راہ نمائی میں ہوئی۔

    ان کی سیاسی مصروفیات بڑھ گئی تھیں اور وہ ہندوستان میں برطانوی راج کے عام انتخابات میں آندھراپردیش اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔ اس عرصے میں انھوں نے اپنی رومانوی اور انقلابی شاعری سے ہندوستان بھر میں شہرت پائی اور اصنافِ سخن میں پابند و آزاد نظموں کے علاوہ اپنے قطعات، رباعیوں اور غزلوں کے لیے مشہور ہوئے۔ ان کی مشہور تصانیف ’سرخ سویرا‘، ’گلِ تر‘ اور ’بساطِ رقص‘ کے نام سے شایع ہوئیں۔

    مخدوم انسان دوست اور اشتراکیت کے حامی تھے۔ انھوں نے مشرق کی زبوں حالی، معاشی ابتذال، غریبوں اور محنت کشوں کا استحصال، بھوک، افلاس، غربت کے خلاف اپنے اشعار میں‌ آواز بلند کی۔ مخدوم روس کے سرخ انقلاب سے بے حد متاثر ہوئے تھے اور اسی سے ذہنی وابستگی تادمِ آخر برقرار رکھی۔

    مخدوم کی قومی نظموں میں آزادئ وطن، جنگ آزادی، مسافر، بنگال، اور چاند تاروں کا بن قابلِ ذکر ہیں۔ ان کی نظموں میں علامات، اشاروں، استعاروں اور کنایوں میں ملک اور ہندوستان بھر کے سیاسی حالات کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ وہ فطرت اور مناظرِ قدرت کے بڑے دلدادہ رہے ہیں۔ ان کی مناظرِ قدرت پر لکھی ہوئی نظمیں بلیغ اشارے رکھتی ہیں جن میں وہ فلسفہ اور انقلاب کی رنگ آمیزی بھی کرتے ہیں اور بے لطف نہیں ہونے دیتے۔ مخدوم کی مشہور نظموں میں شاعر، سناٹا، قلندر، لختِ جگر، نہرو، رات کے بارہ بجے، گھر، اقبال، اور ‘اقبال کی رحلت’ شامل ہیں۔

    اس انقلابی شاعر نے دہلی میں وفات پائی۔ ان کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو
    چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو

    اس اہم ترقّی پسند شاعر کی چند غزلیں اور نظمیں بھارت کی مشہور اور مقبول فلموں ’بازار‘ اور ’ گمن‘ کے لیے نام ور گائیکوں کی آواز میں ریکارڈ کروا کے شامل کی گئی تھیں۔

  • عالمی شہرت یافتہ شاعر احمد فراز کی برسی

    عالمی شہرت یافتہ شاعر احمد فراز کی برسی

    حسن و عشق کے قصّے ہوں یا ساغر و بادہ میں ڈوبے ہوئے صبح و شام کا تذکرہ، واعظ سے الجھنا اور اس پر طنز کرنا ہو یا محبوب سے بگڑنے کے بعد طعنہ زنی اور دشنام طرازی کا معاملہ ہو فراز نے سخن وَری میں کمال کردیا، اور رومانوی شاعر کے طور ہر عمر اور طبقے میں مقبول ہوئے، لیکن وہ ایک ایسے شاعر بھی تھے جس نے ناانصافی، جبر اور آزادیِ اظہار پر پابندیوں کے خلاف انقلابی ترانے لکھ کر باشعور اور سنجیدہ حلقوں کو متوجہ کیا اور اردو ادب میں ممتاز ہوئے۔ آج احمد فراز کی برسی ہے۔

    سن ساٹھ کی دہائی میں پہلے شعری مجموعے سے اردو ادب کے افق پر جگمگانے والا یہ ستارہ 2008ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا، لیکن اس کی روشنی آج بھی باقی ہے۔

    احمد فراز کا اصل نام سیّد احمد شاہ تھا۔ وہ 14 جنوری 1931ء کو صوبۂ سرحد کے شہر کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ پشاور میں ایڈورڈ کالج اور پشاور یونیورسٹی سے تعلیم حاصلی کی، دورانِ طالبِ علمی ہی ان کی شاعری اور شہرت کا آغاز ہوچکا تھا اور جب ان کا پہلا شعری مجموعہ ‘تنہا تنہا’ شایع ہوا تو وہ بی اے کے طالبِ علم تھے۔

    احمد فراز نے عملی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان میں اسکرپٹ رائٹر کے طور پر کیا اور پھر پشاور یونیورسٹی میں اردو کے استاد مقرر ہوئے۔

    جنرل ضیاءُ الحق کے دور میں انھوں نے آمریت کے خلاف لب کشائی کی اور اپنے کلام کے ذریعے جبر کو مسترد کیا تو اس کی پاداش میں کئی برس بیرونِ ملک جلا وطنی کاٹنے پر مجبور کردیے گئے۔

    احمد فراز کو ادبی خدمات پر ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا، لیکن انھوں نے پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدامات پر احتجاجاً یہ اعزاز واپس کر دیا تھا۔

    احمد فراز کو ان کے ادبی سفر کے دوران شہرت اور دنیا بھر میں محبت کے ساتھ ساتھ متعدد ممالک میں سرکاری سطح پر جب کہ امن و فلاح و بہبودِ انسانی کی مختلف تنظیموں اور ادبی پلیٹ فارمز سے کئی اعلیٰ اعزازات سے نوازا گیا۔

    احمد فراز کا کلام برِصغیر کے مشہور غزل گائیکوں نے گایا اور خوب صورت آوازوں نے ان کی شاعری کو سامعین میں مزید مقبول بنایا۔

    مہدی حسن نے فراز کی کئی غزلوں کو اپنی آواز کا سحر عطا کیا جس میں ‘رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ’ بہت پسند کی گئی اور آج بھی اس کی مقبولیت برقرار ہے۔ ملکۂ ترنم میڈم نور جہاں نے فراز کی غزل ‘سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے’ گا کر شائقینِ غزل کے دل جیتے۔

    پڑوسی ملک ہندوستان میں لتا منگیشکر نے ان کی کئی غزلیں اور گیت گائے۔ ان کے علاوہ جگجیت سنگھ نے بھی فراز کی کئی غزلیں گائی ہیں۔

    فراز کے شعری مجموعوں میں سب آوازیں میری ہیں، نایافت، میرے خواب ریزہ ریزہ، خوابِ گل پریشاں ہے، غزل بہانہ کروں، جاناں جاناں شامل ہیں۔ فراز کے کئی اشعار زبان زدِ عام ہوئے جو امید و جستجو کا استعارہ بن گئے اور ان میں ہمارے لیے خوب صورت پیغام موجود ہے۔ ایک ایسا ہی شعر ملاحظہ کیجیے۔

    شکوہ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
    اپنے حصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے