Tag: 25 جون وفات

  • مائیکل جیکسن اور پاپ میوزک گویا ایک ہی بات تھی!

    مائیکل جیکسن اور پاپ میوزک گویا ایک ہی بات تھی!

    وہ ایک ساحر تھا، دلوں کو مسخّر کرنا جانتا تھا۔ دنیا اس کی آواز کے طلسم، رقص اور اس کی اسٹیج پرفارمنس کے سحر میں‌ گرفتار رہی۔ اس کی موت کی خبر آئی تو لاکھوں پرستاروں کی آنکھیں نم ہوگئیں۔

    25 جون 2009ء کو "کنگ آف پاپ” مائیکل جیکسن نے دنیا میں آخری سانس لی اور اس کے ساتھ ہی پاپ میوزک کا ایک درخشاں باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔

    مائیکل جیکسن ہمہ جہت اور تخلیقی انفرادیت کا حامل فن کار تھا جس نے گلوکار اور میوزک پروڈیوسر کی حیثیت سے شہرت اور مقبولیت کے ہفت آسمان طے کیے۔

    اپنے زمانے میں کنسرٹ کے تصوّر کو یک سَر بدل کر رکھ دینے والے مائیکل جیکسن نے زندگی میں کئی نشیب و فراز دیکھے۔ اس کے اوراقِ زیست بتاتے ہیں‌ کہ وہ کئی بار ٹوٹا، بکھرا اور ہر بار ہمّت کر کے اسٹیج پر پہنچا جہاں اس نے برقی قمقموں اور محفل کی رنگا رنگی میں خود کو گم کرلیا اور یوں اپنی زندگی کی تلخیوں‌، محرومیوں اور کرب کو کم کرنے کی کوشش کی۔

    اپنی بے مثال گائیکی اور رقص کی غیر معمولی صلاحیت کے علاوہ مائیکل جیکسن کی پُراسرار شخصیت اور اس کا طرزِ زندگی بھی دنیا بھر میں‌ مشہور ہے۔

    1982ء میں ’تھرلر‘ نامی البم نے مائیکل جیکسن کو دنیا میں متعارف کروایا اور یہ تعارف ایسا زبردست تھا کہ وہ راتوں رات پاپ اسٹار بن گیا۔ اس البم کی 41 ملین سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوئیں جو ایک ریکارڈ ہے۔

    مائیکل جیکسن 19 اگست 1958 کو امریکا میں پیدا ہوا۔ بچپن ہی سے اسے موسیقی سے شغف ہوگیا تھا اور وہ اپنے چار بڑے بھائیوں کے ساتھ جیکسن فائیو نامی میوزک بینڈ کے ساتھ پرفارم کرنے لگا اور بعد میں‌ اپنا البم مارکیٹ میں‌ پیش کیا۔

    ‘تھرلر‘ سے پہلے اس گلوکار کا ایک سولو البم ’آف دا وال‘ بھی منظرِ عام پر آچکا تھا جو بہت مقبول ہوا، لیکن اس کی وجہِ شہرت ’تھرلر‘ بنا۔ اس البم کے بعد ’بیڈ‘ سامنے آیا جس کی بیس ملین کاپیاں فروخت ہوئیں۔ پھر ’ڈینجرس‘ ریلیز ہوا جسے بے حد پزیرائی حاصل ہوئی۔

    مائیکل نے نوّے کی دہائی میں ایک لڑکے سے جنسی زیادتی کے الزام کا سامنا کیا اور موت سے کچھ عرصہ قبل اس پر بچّوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا ایک اور مقدمہ بھی بنا تھا جس میں وہ بری کردیا گیا۔ مائیکل جیکسن نے متعدد بار چہرے کی پلاسٹک سرجری کروائی جس کا بہت چرچا ہوا۔

    1994ء میں مائیکل جیکسن نے ماضی کے مشہور پاپ اسٹار ایلوس پریسلی کی بیٹی لیسا پریسلی سے شادی کی جو صرف دو برس قائم رہ سکی۔

    چند برسوں کے دوران مائیکل جیکسن کو تنازعات اور مالی مشکلات نے گھیر لیا تھا۔

    25 جون کو شہرہ آفاق گلوکار کو سانس لینے میں دشواری کی شکایت پر اسپتال منتقل کیا گیا جہاں اس نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔

  • یومِ وفات: صفی لکھنوی کلاسیکی دور کے ممتاز اور مقبول شاعر تھے

    یومِ وفات: صفی لکھنوی کلاسیکی دور کے ممتاز اور مقبول شاعر تھے

    لکھنؤ کے دبستانِ شاعری میں صفی لکھنوی کا نام ان کے کلام کی شیرینی، تنوع، لطافت، شگفتگی اور سادگی کے سبب نمایاں‌ ہے اور ان کی شاعری لکھنؤ کی ادبی فضا اور ماحول کی عکاس ہے جو انھیں ہم عصر شعرا میں ممتاز کرتی ہے۔ صفی لکھنوی 24 جون 1950ء کو وفات پا گئے تھے۔

    صفی لکھنوی جن کا اصل نام سید علی نقی زیدی تھا۔ وہ 3 جنوری 1862ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے۔ زمانے کے دستور کے مطابق فارسی اور عربی سیکھی اور انگریزی تعلیم حاصل کرنے کے لیے کالج میں‌ داخل ہوئے۔ امتحان پاس کرنے کے بعد 1879ء میں تدریس سے وابستہ ہوگئے اور انگریزی پڑھانے پر مامور ہوئے۔ بعد ازاں محکمہ دیوانی میں ملازم ہوگئے اور اسی ادارے سے ریٹائر ہوئے۔

    صفی نے 13 سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کردیا تھا۔ انھوں نے مختلف اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی اور لکھنؤ کی بزمِ ادب کو اپنے فن سے رونق بخشی۔ صفی نے لکھنؤ کے عام شعری مزاج سے ہٹ کر شاعری کی، جس نے انھیں منفرد اور نمایاں‌ شناخت دی۔ مولانا حسرت موہانی انھیں ’مصلحِ طرزِ لکھنؤ‘ کہا کرتے تھے۔

    صفی نے غزل کی عام روایت سے ہٹ کر نظم کو اپنی قوّتِ متخیّلہ سے سجایا اور قومی نظمیں بھی کہیں جو خاص طور سے ان کے عہد کے سماجی، سیاسی اور تہذیبی مسائل کی عکاس ہیں۔ اس کے علاوہ قصیدہ، رباعی اور مثنوی جیسی اصناف میں بھی طبع آزمائی کی۔

    صفی لکھنوی کو شاعری کے کلاسیکی دور کا آخری اہم اور مقبول شاعر بھی مانا جاتا ہے۔ انھوں نے شعر و ادب کا بڑا وقیع سرمایہ یادگار چھوڑا ہے۔

    صفی لکھنوی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    جانا، جانا جلدی کیا ہے؟ ان باتوں کو جانے دو
    ٹھہرو، ٹھہرو دل تو ٹھہرے، مجھ کو ہوش میں آنے دو

    پانو نکالو خلوت سے آئے جو قیامت آنے دو
    سیارے سر آپس میں ٹکرائیں اگر ٹکرانے دو

    بادل گرجا، بجلی چمکی، روئی شبنم، پھول ہنسے
    مرغِ سحر کو ہجر کی شب کے افسانے دہرانے دو

    ہاتھ میں ہے آئینہ و شانہ پھر بھی شکن پیشانی پر
    موجِ صبا سے تم نہ بگڑو زلفوں کو بل کھانے دو

    کثرت سے جب نام و نشاں ہے کیا ہوں گے گم نام صفیؔ
    نقش دلوں پر نام ہے اپنا نقشِ لحد مٹ جانے دو

  • جدوجہدِ‌ آزادی کے عظیم راہ نما اور شعلہ بیاں مقرر بہادر یار جنگ کی برسی

    جدوجہدِ‌ آزادی کے عظیم راہ نما اور شعلہ بیاں مقرر بہادر یار جنگ کی برسی

    نواب بہادر یار جنگ جدوجہدِ آزادی کے نام وَر راہ نما، مسلمانوں‌ کے خیر خواہ اور قائدِ اعظم کے رفیقِ خاص تھے جن کی برسی آج منائی جارہی ہے۔ انھیں خورشیدِ دکن اور شعلہ بیاں مقرر بھی کہا جاتا ہے۔

    نواب بہادر یار جنگ کا اصل نام محمد بہادر خان تھا۔ وہ 3 فروری 1905ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ وہ شروع ہی سے فکر و تدبّر کے عادی تھے اور مسلمانانِ ہند کی اخلاقی، سیاسی اور سماجی حالت میں بہتری اور سدھار لانے کے خواہش نے انھیں میدانِ عمل میں اترنے پر آمادہ کیا۔

    بہارد یار جنگ کا تعلق حیدر آباد دکن سے تھا جو تاجدارِ دکن میر عثمان علی خاں کی فیاضی و سخاوت، علم دوستی کی وجہ سے برصغیر کی ایک عظیم اور مشہور ریاست تھی جہاں ہندوستان کے کونے کونے سے یکتائے زمانہ اور یگانہ روزگار ہستیاں آکر فکر و فن اور علم و ادب میں اپنی قابلیت، ذہانت اور صلاحیتوں کا اظہار کرنا اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتی تھیں، اسی سرزمین کے بہادر یار جنگ جیسے صاحبِ بصیرت، دانا، قول و فکر میں ممتاز راہ نما نے عالمِ اسلام بالخصوص ہندوستان کے اکابرین اور عام مسلمانوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔

    جدوجہدِ آزادی کے اس عظیم راہ نما کو بے مثل خطیب اور شعلہ بیاں مقرر مانا جاتا ہے، جن کی تقاریر نے ہندوستان کے مسلمانوں میں‌ جذبہ حریت جگایا۔ ان کی تقاریر اور جلسوں میں‌ ان کی موجودگی اس وقت کے مسلمانوں کے لیے بڑی اہمیت رکھتی تھی۔ لوگ انھیں سننے کے لیے دور دور سے آتے اور جلسوں میں شرکت کرتے تھے۔

    بہادر یار جنگ نے 1927ء میں مجلسِ تبلیغِ اسلام کے نام سے ایک جماعت قائم کی۔ بعدازاں خاکسار تحریک اور مجلسِ اتحادُ المسلمین کے پلیٹ فارم سے سرگرم رہے۔ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اہم راہ نمائوں میں شامل تھے اور قائداعظم محمد علی جناح کے قریبی رفقا میں شامل تھے۔

    مارچ 1940 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے جس اجلاس میں قراردادِ پاکستان منظور ہوئی اس میں آپ کی تقریر معرکہ آرا تھی۔ آپ کو بہارد یار جنگ، قائدِ ملت اور لسانُ الامت کے خطابات سے نوازا گیا۔ وہ شاعر بھی تھے، انھوں‌ نے نعتیں‌ بھی لکھیں جنھیں آج بھی نہایت عقیدت اور احترام سے سنا اور پڑھا جاتا ہے۔

    ہندوستان کے اس بے مثل خطیب، آفتابِ علم و چراغِ حکمت و عرفاں کی موت پراسرار انداز میں ہوئی اور آج بھی معمّہ ہے۔ یہ ساںحہ اس وقت پیش آیا جب مسلمانوں کی آزادی کی تحریک تیزی سے اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی تھی اور جدوجہدِ آزادی کے متوالوں کو ان جیسے قائدین کی ضرورت تھی۔ ان کی ناگہانی موت سے ہندوستان بھر میں مسلمانوں کو صدمہ پہنچا اور عرصے تک فضا سوگوار رہی۔