Tag: 25 دسمبر برسی

  • انگریزی زبان کی ادیب بپسی سدھوا

    انگریزی زبان کی ادیب بپسی سدھوا

    جنوبی ایشیا میں شامل ممالک کے مقامی ادیبوں نے انگریزی زبان میں جتنا بھی ادب تخلیق کیا، اسے عالمی ادب کے پس منظر میں انگریزی کا جنوب ایشیائی ادب کہا جاتا ہے، یعنی ایک طرح سے یہ ادب کی ایک شاخ ہے۔ پاکستان میں انگریزی زبان میں ادب تخلیق کرنے والے ناول نگاروں اور افسانہ نگاروں کی فہرست زیادہ طویل تو نہیں ہے، لیکن جب بھی اس پہلو پر بات کی جاتی ہے تو اس میں سب سے نمایاں اور ابتدائی نام’’بپسی سدھوا‘‘ کا ہے۔ انہوں نے 70 کی دہائی کے آخری برسوں میں ناول نگاری کی ابتدا کی اور طویل عرصے تک پاکستانی اور عالمی ادبی منظر نامے پر چھائی رہیں۔ نئے آنے والوں نے ان کی تقلید کرتے ہوئے انگریزی فکشن لکھا اور شہرت پائی۔ ان میں محمد حنیف، محسن حامد، کاملہ شمسی اور دیگر انگریزی ناول نگار شامل ہیں۔ اردو زبان میں بھی صرف بپسی سدھوا ہی وہ ادیب ہیں، جنہیں انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا گیا اور اسے قارئین بہت پسند کیا۔

    ایک خوش گوار دن، خوب صورت یاد

    بپسی سدھوا 2010ء میں کراچی لٹریچر فیسٹیول میں بطور مندوب شریک تھیں۔ اسی فیسٹیول میں راقم نے ان کا انٹرویو کیا تھا جس میں انہوں نے اپنے ناولوں اور کہانیوں کے بارے میں پہلی مرتبہ اردو میں تفصیل سے بات کی تھی۔ کراچی میں‌ بپشی سدھوا سے راقم کی ملاقات ان آخری لمحات میں‌ ہوئی جب وہ ایئرپورٹ روانہ ہونے کی کہانی بھی دل چسپ ہے۔ ناول نگار مختصر مدت کے لیے امریکا سے ادبی میلے میں شرکت کے لیے آئی تھیں اور اس روز صبح اپنے سیشن سے فراغت پانے کے بعد لان میں ایک نشست پر بیٹھ کر اپنی ایئرپورٹ روانگی کے لیے اپنی گاڑی کا انتظار کررہی تھیں۔english writer

    راقم نے ان کے چند ناول پڑھے تھے اور ان کے ناولوں پر بننے والی دونوں انڈین فلمیں بھی دیکھ چکا تھا جن کا تذکرہ آگے آئے گا۔ صبح صبح بپسی سدھوا سے ملاقات کے لیے ادبی میلے پہنچا تاکہ ان سے مکالمہ کر سکوں۔ دیکھا کہ وہ لان میں بیٹھی ہوئی ہیں‌ اور یہ بہترین موقع تھا ان سے گفتگو کرنے کا۔ اپنا تعارف کرواتے ہوئے انٹرویو کی درخواست کی تو انہوں نے مجھ سے چند سوال کیے اور یہ اندازہ کرنے کے بعد کہ میں انہیں پڑھ چکا ہوں، گفتگو کی اجازت دے دی لیکن اسے گاڑی آ جانے سے مشروط بھی کردیا۔

    اردو زبان میں ان کا یہ پہلا انٹرویو تھا جو میرے انٹرویوز میں سے ایک یادگار انٹرویو ہے۔ بپسی سدھوا سے یہ مکالمہ میری کتاب "باتوں کی پیالی میں ٹھنڈی چائے” میں شامل ہے۔ ان انٹرویوز کا جب انگریزی انتخاب ’’دی کنورسیشن ود لیجنڈز‘‘ شائع ہوا تو اس میں بھی بپسی سدھوا کا نہ صرف انٹرویوز شامل تھا بلکہ وہ سرورق پر منتخب شخصیات میں سے بھی ایک تھیں۔

    اس کتاب کی مدیر و مترجم افرح جمال ہیں جو انگریزی کی باکمال صحافی ہیں۔ عالمی ادبیات کے تناظر میں ناول پر اپنی تحقیقی کتاب ’’ناول کا نیا جنم‘‘ میں بھی راقم نے ان کے حوالہ جات شامل کیے ہیں اور کتاب کی پشت پر منتخب ناول نگاروں میں شامل رکھا ہے۔ بعد میں بپسی سدھوا سے فیس بک کے طفیل رابطہ برقرار رہا اور اور ان کی رحلت سے دل اداسی سے بھر گیا ہے۔

    خاندانی پس منظر

    بپسی سدھوا 11 اگست 1938 کو غیر منقسم ہندوستان کے شہر کراچی میں پیدا ہوئیں اور 25 دسمبر 2024ء کو 86 سال کی عمر میں امریکا میں انتقال کرگئیں۔ وہ ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں مقیم تھیں۔ بپسی سدھوا کا تعلق گجراتی پارسی گھرانے سے تھا۔ وہ بعد میں اپنے خاندان کے ہمراہ لاہور منتقل ہوگئی تھیں اور زندگی کا طویل عرصہ وہیں گزارا۔ بپسی سدھوا نے 1957 کو لاہور کے مشہور کنیئرڈ کالج سے گریجویشن کیا۔ 1947 میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو اس وقت ان کی عمر 9 سال تھی۔ ان کی پہلی شادی ناکام رہی، البتہ دوسری شادی کے بعد خوش گوار ازدواجی زندگی کا سفر شروع کیا۔ تین بچوں کی پرورش اور گھر کی ذمہ داریاں‌ نبھاتے ہوئے انہوں نے ناول نگاری کی ابتدا کی۔

    عالمی شہرت اور مقبولیت کے مراحل

    ناول نگار بپسی سدھوا نے انگریزی زبان میں لکھنے کو ترجیح دی، لیکن عام زندگی میں وہ اپنی مادری زبان گجراتی اور قومی زبان اردو بولنے کو ترجیح دیتی تھیں۔ 1982ء سے وہ اپنے خاندان کے ساتھ امریکا کے شہر ہیوسٹن میں رہائش پذیر تھیں۔ وہاں لکھنے پڑھنے کے ساتھ ساتھ تدریس کے پیشے سے وابستہ رہیں اور متعدد امریکی جامعات میں تدریس کے فرائض انجام دیے، جن میں ہیوسٹن یونیورسٹی، کولمبیا یونیورسٹی اور دیگر شامل ہیں۔ متعدد امریکی جامعات نے ان کے پہلے ناول ’’آئس مین کینڈی‘‘ کو نصاب کا حصّہ بنایا۔ بپسی سدھوا بطور ادیب جامعہ کراچی کے شعبۂ انگریزی کے نصاب میں بھی شامل ہیں۔

    تخلیقی دنیا اور کہانیوں کے کردار

    ان کی تخلیقی زندگی پر ایک نظر ڈالی جائے تو 70 کی دہائی کے آخری برسوں میں اپنے ادبی سفر کا آغاز کرنے والی بپسی سدھوا کا پہلا ناول ’’کروایٹرز‘‘ تھا۔ اس کے بعد’’برائڈ‘‘ شائع ہوا۔ پھر ’’آئس کینڈی مین‘‘ چھپا، جس کا مرکزی خیال ہندوستان کی تقسیم اور قیامِ پاکستان تھا۔ تقسیم کے دنوں کی جو بھی پرچھائیاں ان کے ذہن کے پردے پر تھیں، بپسی سدھوا نے انہیں رقم کردیا، اور ذاتی تجربات سے اپنے ناول کے کرداروں میں رنگ بھرے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس ناول میں مصنّف کی سوانح بھی جھلکتی ہے، جس کے ذریعے اس وقت کے لاہور کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اس خطے کے رہنے والوں کی ذاتی زندگی پر تقسیم سے کیا اثرات مرتب ہوئے، کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں، ان باریکیوں کو یہ ناول بیان کرتا ہے۔

    اپنے طویل ادبی کیرئیر میں بپسی سدھوا ناول، مختصر کہانیاں، مضامین اور بلاگز لکھتی رہیں۔ لاہور کو یاد کرتے ہوئے بھی انہوں نے کچھ تحریریں لکھیں، جن کا مجموعہ 2006ء میں شائع ہوا۔ 2013 میں ان کی انگریزی کہانیوں کا نیا انتخاب ’’دیئر لینگونج آف لو‘‘ لاہور سے شائع ہوا اور 2012ء میں ان کے مشہور ناول ’’کروایٹرز‘‘ کا اردو ترجمہ ’’جنگل والا صاحب‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا۔ اس کے مترجم محمد عمر میمن ہیں۔ بپسی سدھوا کی کتابیں پاکستان کے علاوہ انڈیا، امریکا، انگلینڈ، اٹلی اور دیگر یورپی ممالک میں بھی شائع ہو چکی ہیں۔

    تھیٹر اور فلم کی دنیا میں شہرت

    ان کی مختلف کہانیوں کو امریکا اور یورپی ممالک میں تھیٹر پر پیش کیا گیا جب کہ دو ناولوں ’’آئس کینڈی مین‘‘ اور’’واٹر‘‘ پر دو فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ ان کے ناول’’آئس مین کینڈی‘‘ کو بہت زیادہ پسند کیا گیا جس کا ایک ایڈیشن امریکا اور انڈیا میں ’’کریکنگ انڈیا‘‘ کے نام سے بھی شائع ہوا۔ اسی پر بھارتی نژاد کینیڈین فلم ساز دیپا مہتا نے فلم ’’ارتھ‘‘ بنائی، جب کہ ان کے ناول ’’واٹر‘‘ پر بھی وہ مساوی نام سے فلم بنا چکی ہیں۔ اس ناول اور فلم کی حیثیت اسی طرح متنازع ہے، جیسے اردو میں عصمت چغتائی کی کہانی ’’لحاف‘‘ اور پھر اس کہانی پر بننے والی فلمیں ہیں۔

    بپسی سدھوا کی زندگی پر ایک دستاویزی فلم بھی تیار کی گئی، جس کو انہوں نے خود ہی لکھا تھا۔ اس دستاویزی فلم میں انگریزی زبان کی اس ادیب نے اپنی زندگی کے بارے میں گفتگو بھی کی۔ ہم اسے بپسی سدھوا کی ویڈیو بائیوگرافی بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان کا ناول ’’آئس مین کینڈی‘‘ برطانیہ اور پاکستان میں 1988ء میں، جب کہ 1991ء میں امریکا اور 1992ء میں انڈیا میں شائع ہوا۔ اس ناول کا مرکزی خیال ایک کم عمر پارسی بچی ہے، جو اپنا ماضی یاد کر رہی ہے اور وہ دور بھی، جب ہندوستان کا بٹوارا ہو رہا تھا۔ وہ لاہور میں اپنے خاندان کے ساتھ مقیم تھی۔ تاریخ کے اس دوراہے پر، اس کے ہاتھ سے کیا چھوٹا، اس نے کیا کھویا اور پایا….یہ کہانی ان حالات اور رشتوں ناتوں کے پس منظر میں ہے، اور اس پر مصنّف کی اپنی سوانح کی چھاپ بھی موجود ہے۔

    اس ناول پر بنائی گئی فلم’’ارتھ‘‘ میں معروف فن کاروں عامر خان، نندیتا داس اور راہول کھنہ نے اداکاری کی جب کہ شبانہ اعظمی بطور صدا کار اس فلم کا حصّہ ہیں۔ فلم کی موسیقی معروف بھارتی موسیقار اے آر رحمان نے دی۔ ہندوستان میں تقسیم کے موضوع پر یہ اہم فلموں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے، لیکن جس طرح ناول کا تصوراتی دائرہ وسیع ہے، فلم اس ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ بپسی سدھوا کی دیگر کتابوں کو بھی بہت شہرت ملی اور ان کے کئی بار نئے ایڈیشنز بھی شائع ہوئے۔ ان میں دی پاکستانی برائڈ، این امریکی بارات وغیرہ شامل ہیں۔

    حرفِ آخر

    بپسی سدھوا کے تخلیقی کام کا اردو میں ابھی تک ترجمہ نہیں ہوا۔ مترجمین کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ پاکستانی فلم سازوں کو بھی چاہیے کہ ان کی کہانیوں پر فلم بنائیں اور اس طرح پاکستان میں انگریزی ادب لکھنے والی پہلی ناول نگار کی پذیرائی کی جاسکتی ہے۔ حکومتِ پاکستان نے بپسی سدھوا کو تمغائے امتیاز تو دیا، لیکن اس سے بھی بڑھ کر ان کی خدمات کا اعتراف کیا جانا چاہیے۔ بلاشبہ بپسی سدھوا اپنی ذات میں ایک ادارہ تھیں، جنہوں نے پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا۔

  • معروف افسانہ نگار شموئل احمد انتقال کرگئے

    معروف افسانہ اور ناول نگار شموئل احمد کو علمِ‌ نجوم میں‌ بھی کمال حاصل تھا۔ وہ جنسی نفسیات پر مبنی کہانیاں‌ لکھنے کے لیے پہچانے جاتے ہیں۔ شموئل احمد آج نوئیڈا میں‌ وفات پاگئے۔ وہ کینسر کے عارضے میں‌ مبتلا تھے۔

    شموئل احمد 4 مئی 1945 کو بھاگلپور میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ وہ پیشہ کے لحاظ سے سول انجینئر تھے اور بھارت میں حکومتِ بہار کے محکمۂ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ سے بحیثیت چیف انجینئر 2003 میں ریٹائر ہوئے تھے۔ شموئل احمد کو بے باک لہجے اور منفرد اسلوب کا تخلیق کار مانا جاتا تھا جو زندگی اور انسانی رویوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ شموئل احمد کے افسانوں کا پہلا مجموعہ "بگولے” 1988 میں پٹنہ سے شائع ہوا تھا۔

    مصنف نے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا تو جلد ہی اپنی تخلیقات میں‌ منفرد اسلوب، تیکھے لب و لہجے اور متنوع موضوعات کی وجہ سے ہم عصروں میں الگ پہچان بنا لی۔ انھوں‌ نے جنسی نفسیات کو عمدگی سے اپنی کہانیوں میں‌ سمویا اور ساتھ ہی عصری مسائل کو بھی اپنے افسانوں میں پیش کیا۔ شموئل احمد نے فرد کی بے بسی اور سماج کی نوعیت اور سیاسی جبر کو بھی فنی مہارت سے اپنے افسانوں‌ میں‌ ڈھالا۔

    شموئل احمد کی کہانیاں پاک و ہند کے رسائل میں‌ شایع ہوتی رہی ہیں۔ ان کی شخصیت اور فن پر مضامین سپرد قلم کیے گئے جب کہ ان کے افسانوں‌ کا انگریزی میں‌ بھی ترجمہ ہوچکا ہے۔ انھیں‌ متعدد ادبی ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔

    شموئل احمد کا تعلق اردو افسانہ نگاری کے اس عہد سے ہے جب جدیدیت کا رجحان طلوع ہو رہا تھا۔ اس زمانے میں علامتی اور تجریدی تجربات کیے جارہے تھے، لیکن شموئل احمد نے کسی کا تعاقب نہیں‌ کیا اور اپنی الگ راہ نکالی۔ تاہم ان کی نیم علامتی کہانیوں کی فہرست میں آخری سیڑھی کا مسافر، عکس سیریز کی کہانیاں، سبز رنگوں والا پیغمبر کو رکھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح سیاسی و معاشرتی تشدد کے ذیل میں باگمتی جب ہنستی ہے، سنگھار دان، آنگن کا پیڑ، بدلتے رنگ، چھگمانس، گھر واپسی، سراب اور عدم گناہ شمار کیے جاسکتے ہیں۔ ان کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ وہ علمِ نجوم سے خاص مناسبت رکھتے تھے جس کا فائدہ اٹھا کر انھوں نے اپنی کہانیوں کو بامعنی اور جان دار بنایا ہے۔

    اردو کے اس معروف فکشن رائٹر پر بہار اردو اکیڈمی، پٹنہ کے زیر اہتمام ایک کانفرنس کے دوران حملہ بھی کیا گیا تھا جس میں وہ شدید زخمی ہوگئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ان افسانے ’’لنگی‘‘ پر ردعمل تھا جس میں انھوں نے یونیورسٹی میں لڑکیوں کے ساتھ جنسی استحصال کو موضوع بنایا تھا۔

  • فلمی موسیقار جی اے چشتی کی برسی

    جی اے چشتی پاکستان کے نام وَر فلمی موسیقار تھے جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ 25 دسمبر 1994ء کو وفات پانے والے جی اے چشتی تقسیم سے قبل ہندوستان میں کام یاب فلمی کیریئر کا آغاز کرچکے تھے۔

    غلام احمد چشتی کو انڈسٹری میں بابا چشتی کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ انھوں‌ نے 1905ء میں جالندھر میں آنکھ کھولی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب برطانوی راج کے خلاف سیاسی تحریکوں کے ساتھ ہندوستان میں آرٹ اور کلچر کی دنیا میں بھی نئے افکار، رجحانات کے علاوہ ٹیکنالوجی بھی داخل ہورہی تھی اور مقامی فلم ساز اس کا فائدہ اٹھا رہے تھے۔ جی اے چشتی نے بھی کلکتہ اور ممبئی کے فلمی مراکز کو اپنی جانب متوجہ کیا۔

    موسیقار جی اے چشتی شاعر بھی تھے۔ کئی فلموں میں سحر انگیز دھنیں مرتب کرنے والے جی اے چشتی نے دلوں کو موہ لینے والے گیت بھی لکھے۔ کہتے ہیں انھیں بچپن ہی سے نعتیں پڑھنے کا شوق تھا۔ آواز سریلی تھی اور دینی محافل میں انھیں خوب ذوق و شوق سے سنا جاتا تھا جس نے انھیں موسیقی اور شاعری کی طرف مائل کیا۔ کچھ شعور آیا تو جی اے چشتی موسیقار سیتا رام کے شاگرد ہو گئے۔ اسی دوران موسیقار عاشق علی خان سے لاہور میں ملاقات ہوئی اور ان کے طفیل آغا حشر کاشمیری کے ڈراموں کے لیے موسیقی ترتیب دینے والے گروپ کا حصّہ بنے۔ بعد میں لاہور کی گراموفون کمپنی میں مشہور موسیقار استاد جھنڈے خان کے معاون ہو گئے اور پھر فلم نگری تک پہنچے۔

    جی۔ اے چشتی نے ابتدا میں جن پنجابی فلموں میں موسیقی دی ان میں ’’چمبے دی کلی‘‘ اور ’’پردیسی ڈھولا‘‘ قابلِ ذکر تھیں۔ بعد میں کئی اردو فلموں کے لیے بھی دھنیں کمپوز کیں۔ کلکتہ میں فلم ’’شکریہ‘‘ کی موسیقی اور شاعری کے سبب جی اے چشتی کو ہندوستان میں بہت سراہا گیا تھا۔ لیکن 1947ء میں وہ فسادات کے سبب وہاں سے ہجرت کر گئے تھے۔

    بابا چشتی نے اپنا فنی سفر آغا حشر کاشمیری کے تھیٹر سے شروع کیا۔ بعد میں وہ ریکارڈنگ کمپنی سے منسلک ہوئے تھے، لیکن بہ طور موسیقار ان کی پہلی فلم ‘دنیا’ تھی جو 1936ء میں لاہور میں بنی تھی۔ بابا چشتی نے کچھ وقت کلکتہ اور بمبئی کی فلم نگری میں بھی گزارا۔ 1949ء میں پاکستان آنے کے بعد یہاں فلموں کی موسیقی ترتیب دی اور خوب نام کمایا۔ ہجرت کے بعد بابا چشتی نے فلمی صنعت میں ‘شاہدہ’ نامی فلم سے یہاں اپنے کام کا آغاز کیا تھا۔ اس فلم کے علاوہ مجموعی طور پر انھوں نے 152 فلموں کی موسیقی ترتیب دی اور ہزاروں نغمات کی دھنیں‌ تخلیق کیں۔

    بابا چشتی کی مشہور فلموں میں پھیرے، مندری، لارے، گھبرو، دلا بھٹی، لختِ جگر، مٹی دیاں مورتاں، عجب خان اور چن تارا کے نام شامل ہیں۔ ان کی موسیقی میں ملکۂ ترنم نور جہاں، زبیدہ خانم، سلیم رضا، نسیم بیگم، نذیر بیگم، مالا، مسعود رانا اور پرویز مہدی جیسے گلوکاروں‌ نے فلمی صنعت کے لیے نغمات ریکارڈ کروائے جو بہت مقبول ہوئے اور ان فن کاروں کی شہرت کا سبب بنے۔

    جی اے چشتی کو لاہور کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔