Tag: 25 ستمبر وفات

  • ماہر لسانیات، ممتاز محقّق اور مصنّف ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان کا یومِ وفات

    ماہر لسانیات، ممتاز محقّق اور مصنّف ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان کا یومِ وفات

    نام وَر ماہر لسانیات، محقّق، مترجم اور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان صوبہ سندھ کی ایک روحانی شخصیت بھی تھے جن کی برسی آج منائی جارہی ہے۔

    وہ 25 ستمبر 2005ء کو خالقِ حقیقی سے جاملے تھے۔ ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان نے اردو زبان و ادب کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں اور اپنے دینی اور روحانی سلسلے کے ساتھ علمی و ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے ہم عصروں‌ میں ممتاز ہوئے۔

    ڈاکٹر غلام مصطفٰی فارسی، عربی اور انگریزی زبانوں میں مہارت رکھتے تھے۔ انھوں نے تصنیف و تالیف، تحقیق و تنقید کے میدان میں کئی موضوعات کو اپنی کتب میں‌ سمیٹا۔ اردو کی ترویج و ترقّی کے لیے ان کی کاوشیں لائقِ ستائش ہیں۔

    ڈاکٹر غلام مصطفٰی خان یکم جولائی 1912 کو جبل پور (سی پی) میں پیدا ہوئے تھے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارسی اور اردو میں ایم اے اور ایل ایل بی کی اسناد حاصل کرنے کے بعد 1947 میں پی ایچ ڈی کیا۔ 1936 سے 1948 تک ناگپور یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ رہے۔

    قیام پاکستان کے بعد انھوں‌ نے کراچی میں سکونت اختیار کی اور 1950 میں بابائے اردو کی درخواست پر اردو کالج میں صدرِ شعبہ اردو کے عہدے پر فائز ہوئے۔ بعدازاں سندھ یونیورسٹی سے منسلک ہوگئے اور 1976 تک وہاں اردو کے لیے خدمات انجام دیتے رہے۔

    انھیں 1988 میں سندھ یونیورسٹی میں علمی، ادبی اور تحقیقی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے پروفیسر ایمریطس کے درجے پر فائز کیا گیا۔

    ڈاکٹر غلام مصطفٰی خان سو سے زیادہ کتابوں کے مصنّف تھے۔ ان کی تصانیف میں ادبی جائزے، فارسی پر اردو کا اثر، علمی نقوش، اردو سندھی لغت، سندھی اردو لغت، حالی کا ذہنی ارتقا، تحریر و تقریر، حضرت مجدد الف ثانی، گلشنِ وحدت، مکتوبات سیفیہ، خزینۃ المعارف، مکتوباتِ مظہریہ، مکتوبات معصومیہ، اقبال اور قرآن، معارفِ اقبال اردو میں قرآن و حدیث کے محاورات، فکر و نظر اور ہمہ قرآن در شان محمدﷺ شامل ہیں۔

    انھوں‌ نے اردو سے متعلق ’’اردو صرف و نحو‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی جس میں غلط املا اور زبان و بیان کے ساتھ تحریر کی متعدد خرابیوں کی نشان دہی کی ہے۔

    حکومتِ پاکستان نے ڈاکٹر غلام مصطفٰی خان کی علمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں‌ صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔

  • آغا بابر کا تذکرہ جن کی زندگی کی کہانی ادھوری رہ گئی!

    آغا بابر کا تذکرہ جن کی زندگی کی کہانی ادھوری رہ گئی!

    آج اردو زبان کے اہم افسانہ نگار اور صحافی آغا بابر کا یومِ وفات ہے۔ 1998ء میں دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    آغا بابر 31 مارچ 1919ء کو بٹالہ، ضلع گورداس پور میں‌ پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سجاد حسین تھا، لیکن دنیائے ادب میں‌ آغا بابر کے نام سے پہچانے گئے۔

    گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی سے فارغ التحصیل آغا بابر نے فلمی مکالمہ نویسی سے اپنی عملی زندگی شروع کی اور ڈرامے بھی تحریر کیے۔ قیامِ پاکستان کے بعد آئی ایس پی آر کے جریدے مجاہد اور ہلال کی ادارت کی۔ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد امریکا منتقل ہوگئے اور وہیں ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔

    آغا بابر کے افسانوی مجموعوں میں چاک گریباں، لب گویا، اڑن طشتریاں، پھول کی کوئی قیمت نہیں، حوا کی کہانی اور کہانی بولتی ہے شامل ہیں جب کہ ان کے ڈراموں کے تین مجموعے بڑا صاحب، سیز فائر اور گوارا ہو نیش عشق کے نام سے شایع ہوئے۔

    آغا بابر نے زندگی کے آخری ایّام میں اپنی سوانحِ حیات بھی لکھنا شروع کی تھی، لیکن اجل نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کا موقع نہ دیا۔ وہ وفات کے بعد نیویارک ہی کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔

  • اسلام کے داعی، خیرخواہِ ملّت اور چراغِ علم و ادب نعیم صدیقی کا تذکرہ

    اسلام کے داعی، خیرخواہِ ملّت اور چراغِ علم و ادب نعیم صدیقی کا تذکرہ

    نعیم صدیقی کا نام اور مقام و مرتبہ اپنی جگہ، لیکن بدقسمتی سے اس چراغِ علم و ادب، اسلام کے داعی اور ملّت کے خیر خواہ سے بہت کم لوگ واقف ہوں گے۔

    اس نادرِ روزگار شخصیت نے 2020ء میں آج ہی کے دن دارِ فانی کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ آج ان کی برسی ہے۔ وہ ایک بہترین شاعر، ادیب، صحافی اور اسلامی اسکالر تھے۔

    ان کا اصل نام فضل الرحمٰن نعیم صدیقی تھا جو 1914ء کو ضلع جہلم خانپور (پاکستان) میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد قریبی مدرسے میں داخلہ لے لیا، اور وہاں سے فارسی میں سندِ فضیلت حاصل کی۔

    منشی فاضل کا امتحان دینے کے بعد درس و تدریس سے وابستہ ہوگئے لیکن جلد ہی لاہور آگئے۔ وہاں مشہور صحافی مرحوم نصراللہ خاں عزیز کے اخبار ’’مسلمان‘‘ میں ملازمت اختیار کرلی۔

    لاہور کا سفر نعیم صدیقی کی زندگی کا ایک اہم اور فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا۔ یہیں سے آپ کی ادبی اور صحافتی زندگی کا بھی آغاز ہوتا ہے، اور یہیں سے وہ دین کے ساتھ سیاسی پلیٹ فارم پر متحرک ہوئے۔ یہاں انھوں نے مولانا مودودیؒ کو پڑھا اور ان کے افکار و خیالات سے بھرپور واقفیت حاصل کی جس کے بعد ان سے ملاقات بھی ہوئی اور یہی ملاقات انھیں عملی سیاست تک لے آئی۔

    وہ صحافت کے میدان میں اعلٰی اقدار اور صالح روایات کے زبردست مؤید اور علم بردار تھے۔ انھوں نے بعد میں ترجمان القرآن کے شعبہ ادارت کو اختیار کرلیا اور علمی کام انجام دینے لگے۔

    نعیم صدیقی شاعر اور ادیب بھی تھے جن کی تحریریں اردو ادب کا اعلٰی نمونہ ہیں۔ انھوں نے بہت شستہ زبان میں علمی و ادبی موضوعات پر گراں قدر تحریریں یادگار چھوڑی ہیں۔ شعلہ خیال، بارود اور ایمان، خون آہنگ، پھر ایک کارواں لٹا، نغمہ احساس اور نور کی ندیاں کے نام سے ان کے مجموعے شایع ہوئے۔

    اس کے علاوہ تحریکی شعور، عورت معرضِ کشمکش میں، اقبال کا شعلہ نوا، معرکہ دین و سیاست، ذہنی زلزلے، معروف و منکر، انوار و آثار، تعلیم کا تہذیبی نظریہ اور چند اہم موضوعات پر کتابچے بھی ان کے علمی و قلمی قدوقامت کا اندازہ کرواتے ہیں۔

    وہ ایک بلند پایہ سیرت نگار تھے جن کی سب سے زیادہ مشہور اور مقبول تصنیف ’’محسنِ انسانیت ﷺ‘‘ ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے سیرت نگاری کے رائج اسلوب سے ہٹ کر پیغامِ رسول کو نہایت شان دار انداز سے پیش کیا ہے۔

    نعیم صدیقی نے صلے و ستائش کی تمنّا سے بے نیاز ہو کر اپنی علمی و ادبی خدمات کا سلسلہ جاری رکھا اور نسلِ نو کی فکری راہ نمائی اور تربیت و کردار سازی میں اپنا حصّہ ڈال گئے۔

  • ایڈورڈ سعید: سیاسی جدوجہد کے ساتھ قلمی محاذ پر فلسطین کی جنگ لڑنے والا مجاہد

    ایڈورڈ سعید: سیاسی جدوجہد کے ساتھ قلمی محاذ پر فلسطین کی جنگ لڑنے والا مجاہد

    ایڈورڈ سعید فلسطین کی آزادی کے لیے عملی اور قلمی محاذ پر لڑنے والے اور وہاں کے عوام کی مؤثر ترین آواز تھے۔

    جب فلسطینیوں کو ان کی زمین سے جبراً بے دخل کرتے ہوئے وہاں یہودی بستیاں بسانے کا سلسلہ شروع ہوا تو وہ امریکا چلے گئے اور دنیا بھر میں اپنے آزاد وطن کی جنگ لڑنے والے دانش وَر کے طور پر مشہور ہوئے۔

    ایڈورڈ سعید ایک سیاسی کارکن، ماہرِ تعلیم اور علمی و ادبی شخصیت تھے۔ وہ عالمی سماجی اور ثقافتی سیاست کے تناظر میں ادب کی تفہیم کی روایت سے جڑے ہوئے نقّاد ہیں۔

    پروفیسر ایڈورڈ سعید کا وطن یروشلم ہے جہاں وہ 1935ء میں پیدا ہوئے اور 1947ء میں پناہ گزیں بن جانے کے بعد امریکا منتقل ہوگئے۔

    وہ انگریزی زبان میں لکھنے کے سبب عرب ہی نہیں مغرب میں بھی مشہور ہوئے۔ امریکا میں انھوں نے نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں علمی خدمات کا سلسلہ شروع کیا اور ادبی کام بھی کرتے رہے۔

    اگرچہ انھوں نے کئی معرکہ آرا کتابیں اور مقالے لکھے تاہم جس کتاب نے انھیں سب سے زیادہ شہرت بخشی اس کا شرق شناسی کے نام سے اردو ترجمہ بھی ہوا۔ اس کتاب میں یہ بحث کی گئی ہے کہ مشرقی اقوام اور تمدن کے بارے میں مغرب کا تمام علمی کام نسل پرستانہ اور سامراجی خام خیالی پر مبنی ہے۔

    انھوں نے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور فلسطینی عوام کے سیاسی حقوق کے تحفظ کے لیے قلمی اور عملی طور پر فعال کوششیں کیں۔

    ان کے مباحث نے اس ضمن میں یورپی نقطہ نظر کو بدلا۔ وہ ایسے کھرے اور بے باک دانش ور تھے جنھوں نے امریکا میں رہنے کے باوجود فلسطین سے متعلق امریکا اور اسرائیل کی پالیسیوں پر سخت تنقید کی۔ بالعموم مشرق اور بالخصوص فلسطین سے متعلق یورپی دانش وروں کے تقریر اور تحریر کا عالمانہ تجزیہ کیا اور اس کا مدلّل اور مؤثر جواب دیا۔

    فلسطینی عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایڈورڈ سعید کی کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے 1977ء میں انھیں ’فلسطین نیشنل کونسل‘ کی رکنیت دی گئی، جو 1991ء تک برقرار رہی۔

    ایڈورڈ سعید ہمیشہ باہمی مذاکرات کو فلسطین میں قیامِ امن اور تصفیے کا حل سمجھتے تھے، لیکن اسرائیل کی جانب سے ان پر فلسطینی عوام کی بے جا حمایت جنگ کی حمایت کا الزام لگایا جاتا رہا اور فلسطین کے پُرامن تصفیے کی ہر کوشش کو برباد کیا گیا۔

    ایڈورڈ سعید نے نہ صرف سیاست بلکہ ادب میں بھی اپنی بصیرت اور نظریہ سازی کی بنیاد پر نام و مقام حاصل کیا۔ ان کی تحریریں رجحان ساز ثابت ہوئیں۔ مشرق آپ کی تنقید و تحقیق کا بنیادی موضوع رہا۔ انھوں نے پہلی بار مکمل صراحت کے ساتھ ادب پر کالونیاتی اثرات کا جائزہ بھی لیا اور اسے بہت اہم اور وقیع کاوش مانا جاتا ہے۔

    ایڈورڈ سعید یروشلم، فلسطین کے ایک امیر اور کاروباری گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے وہاں اعلیٰ درجے کے تعلیمی اداروں میں داخلہ لیا اور بعد میں امریکا پہنچ کر ہارورڈ یونیورسٹی سے مزید تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے انگریزی ادب کے مضمون میں ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ بعدازاں اسی زبان میں تدریس کے ساتھ ادب تخلیق کیا۔

    ایڈورڈ سعید کی پہلی کتاب جوزف کونرڈ کی خود نوشت آپ بیتی پر نقدو نظر تھی، جو 1966ء میں شائع ہوئی۔ انھوں نے اس کے خطوط کے تناظر میں اس کے نثری اسلوب کا تنقیدی تجزیہ کیا تھا۔

    انھوں نے جین آسٹن، رڈیارڈ کپلنگ پر بھی مفصل تنقیدی مقالے لکھے۔ ان کی مشرقیت سے متعلق بیسویں صدی کی انتہائی متاثر کن کتاب میں ہمیں مشرقی دنیا اور خاص کر عرب ملکوں سے متعلق مغربی علما کی رائے کا تجزیہ ملتا ہے۔

    وہ 1977ء سے 1991ء تک فلسطین نیشنل کونسل کے رکن رہے۔ اس عرصے میں انھوں نے فلسطین کو ایک علیحدہ ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کے لیے ہر فورم پر آواز بلند کی، تاہم 1993ء میں کونسل کی رکنیت سے کچھ اختلافات کے سبب استعفیٰ دے دیا۔

    ادھر امریکی اداروں نے ان سے اسرائیل کے ظلم اور بعض مذہبی نظریات پر کڑی تنقید کے بعد مخالفانہ رویہ اپنالیا۔ وہ اپنے بے لاگ تبصروں اور راست گوئی کی پاداش میں مشکلات جھیلتے رہے۔

    انھیں ایک ہمہ جہت شخصیت مانا جاتا ہے جو موسیقی کا گہرا شغف ہی نہیں اس کا علم بھی رکھتے تھے اور انھوں نے اس موضوع پر چار کتابیں تصنیف کی تھیں۔

    ایڈورڈ سعید کو ان کی علمی اور سماجی خدمات کے اعتراف میں متعدد اعزازات اور انعامات دیے گئے۔ ماہر تعلیم کے طور پر انھیں بیس کے قریب یونیورسٹیوں کی جانب سے اعزازی ڈگریاں دی گئیں۔ ان کی خود نوشت سوانح عمری ’Out of Place‘ نے تین ایوارڈ جیتے۔

    25 ستمبر 2003ء کو ایڈورڈ سعید دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے کبھی کوئی دباؤ قبول نہیں کیا اور ہمیشہ اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے۔