Tag: 25 نومبر وفات

  • سندھی زبان و ادب میں نام وَر ڈاکٹر تنویر عبّاسی کی برسی

    سندھی زبان و ادب میں نام وَر ڈاکٹر تنویر عبّاسی کی برسی

    سندھ کے مشہور صوفی بزرگ اور شاعر شاہ عبدُاللطیف بھٹائی پر تحقیقی کام اور متعدد دیگر شخصیات پر تنقیدی کتب نے ڈاکٹر تنویر عباسی کو سندھی زبان و ادب میں منفرد و ممتاز کیا۔

    25 نومبر 1999ء کو وفات پانے والے ڈاکٹر تنویر عباسی شاعر، ادیب، محقّق اور ڈرامہ نگار بھی تھے۔

    انھوں نے 7 اکتوبر 1934ء کو سندھ میں گوٹھ سوبھوڈیرو، ضلع خیرپور میرس کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ تنویر عباسی کا اصل نام نورُ النّبی تھا۔ انھوں نے سندھی زبان و ادب میں اپنے علمی ذوق و شوق اور مطالعے کے ساتھ اپنی شاعری سے باذوق حلقوں کی توجہ حاصل کی اور اسی عرصے میں تحقیقی مضامین کی اشاعت نے علمی و ادبی میدان میں انھیں سندھی زبان کے نثر نگار کی حیثیت سے متعارف کروایا۔ بعد کے برسوں میں انھیں اپنی تصانیف کی بدولت پہچان ملی۔

    تنویر عبّاسی کی تصانیف میں تنویر چئے (شاعری) ھئ دھرتی (شاعری)، ترورا (مضامین)، نانک یوسف جو کلام (تنقید)، کلام خوش خیر محمد ہیسباٹی (تنقید)، سج تری ہیٹھاں (شاعری)، شاہ لطیف جی شاعری (لطیفیات)، بارانا بول (بچوں کا ادب)
    جے ماریانہ موت (ناول) شامل ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے بعد از مرگ ان کے لیے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی کا اعلان کیا تھا۔ تنویر عبّاسی اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • پاکستان فلم انڈسٹری کے نام وَر ہدایت فرید احمد کا تذکرہ

    پاکستان فلم انڈسٹری کے نام وَر ہدایت فرید احمد کا تذکرہ

    پاکستان کے نام ور فلمی ہدایت کار فرید احمد کی زندگی کا سفر 25 نومبر 1993ء کو تمام ہوا۔ آج ان کی برسی ہے۔

    فن اور فلم نگری سے ان کی شناسائی بہت پرانی تھی۔ انھوں نے اپنے وقت کے نام ور ہدایت کار ڈبلیو زیڈ احمد کے گھر آنکھ کھولی تھی۔ فرید احمد کے والد نے متحدہ ہندوستان کے زمانے میں کئی کام یاب اور یادگار فلمیں‌ بنائی تھیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد اگرچہ ان کی دو ہی فلمیں نمائش پذیر ہوئیں، لیکن انھیں بھی پاکستانی فلمی تاریخ میں نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ یوں کیمرے اور فلمی پردے سے فرید احمد خاصے مانوس تھے۔

    انھوں نے اپنے والد کی طرح پاکستان میں فلمی صنعت سے وابستگی اختیار کی اور بطور ہدایت کار نام بنایا اور انڈسٹری کو کئی کام یاب فلمیں دیں۔ فرید احمد نے امریکا سے فلم ڈائریکشن کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی۔

    فلمی صنعت میں ان کی دو شادیاں اور طلاق بھی موضوعِ بحث بنی تھیں، کیوں کہ ان کی شریکِ‌ سفر بھی جہانِ فن و اداکاری سے وابستہ اور مشہور تھیں۔ انھوں نے پہلی شادی ٹیلی وژن کی معروف اداکارہ ثمینہ احمد سے کی تھی اور ان کی دوسری شادی شمیم آرا سے ہوئی تھی۔ شمیم آرا سے ان کا بندھن محض چند دن بعد ہی ٹوٹ گیا تھا۔

    فلم انڈسٹری کے اس نام وَر ہدایت کار نے جان پہچان، عندلیب، انگارے، بندگی، زیب النساء، سہاگ اور خواب اور زندگی جیسی یادگار فلمیں بنائیں۔

  • یومِ وفات: سلیم رضا کی آواز میں نعت شاہِ مدینہ، یثرب کے والی آج بھی سماعتوں کو معطّر کررہی ہے

    یومِ وفات: سلیم رضا کی آواز میں نعت شاہِ مدینہ، یثرب کے والی آج بھی سماعتوں کو معطّر کررہی ہے

    1957ء میں فلم ’’نورِ اسلام‘‘ نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی جس میں شامل ایک نعت ’’شاہِ مدینہ، یثرب کے والی، سارے نبی تیرے دَر کے سوالی‘‘ بہت مقبول ہوئی اور آج بھی یہ نعت دلوں میں اتر جاتی ہے اور ایک سحر سا طاری کردیتی ہے۔

    یہ نعت گلوکار سلیم رضا کی آواز میں‌ تھی۔ وہ پاکستانی فلمی صنعت کے مشہور گلوکار تھے جن کا آج یومِ وفات ہے۔ سلیم رضا 1983ء میں کینیڈا میں انتقال کر گئے تھے۔

    پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں پسِ پردہ گلوکاری کے لیے سلیم رضا کو بہت شہرت ملی اور کئی فلمی گیت ان کی آواز میں مقبول ہوئے۔ گو کہ سلیم رضا نور اسلام سے قبل قاتل، نوکر، انتخاب، سوہنی، پون، چھوٹی بیگم، حمیدہ، حاتم، حقیقت، صابرہ، قسمت، وعدہ، آنکھ کا نشہ، داتا، سات لاکھ، عشق لیلیٰ، مراد، نگار، میں اپنی پرسوز اور دل گداز آواز میں‌ گائیکی کا مظاہرہ کر چکے تھے اور ان کے بیش تر نغمات بے حد مقبول بھی ہوئے، مگر مذکورہ نعت جس رچاؤ سے پیش کی، اس کی مثال نہیں ملتی۔

    4 مارچ 1932ء کو مشرقی پنجاب کے عیسائی گھرانے میں پیدا ہونے والے سلیم رضا قیامِ پاکستان کے بعد لاہور آگئے تھے جہاں ریڈیو پاکستان سے انھوں نے گلوکاری کا سفر شروع کیا۔ سلیم رضا کے فلمی گائیک کے طور پر کیریئر کا آغاز “نوکر” سے ہوا تھا۔

    سلیم رضا کی آواز میں‌ جو گیت مقبول ہوئے ان میں یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں، زندگی میں ایک پل بھی چین آئے نہ، جانِ بہاراں رشکِ چمن، کہیں دو دل جو مل جاتے شامل ہیں۔ اُردو فلموں کے ساتھ ساتھ سلیم رضا نے پنجابی فلموں کے لیے بھی سُریلے گیت گائے۔ اُن کی آواز سے سجی پہلی پنجابی فلم ’’چن ماہی‘‘ تھی۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے اس مشہور گلوکار نے اپنے عروج کے زمانے میں دیارِ غیر جانے کا فیصلہ کیا تھا اور وہیں ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔