Tag: 26 دسمبر وفات

  • اردو کے صاحبِ اسلوب شاعر منیر نیازی کی برسی

    اردو کے صاحبِ اسلوب شاعر منیر نیازی کی برسی

    بیسویں صدی کی آخری نصف دہائی میں منیر نیازی کی اردو اور پنجابی زبانوں‌ میں شاعری نے ایک نسل کو متاثر کیا۔ وہ اپنے دور کے سب سے جدا اور منفرد شاعر کے طور پر سامنے آئے۔ آج منیر نیازی کا یومِ وفات ہے۔ انھوں نے 2006ء ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔

    منیر نیازی 19 اپریل 1928ء کو ہوشیار پور کے قصبہ خان پور کے اک پشتون گھرانے میں پپدا ہوئے تھے۔ وہ ایک سال کے تھے جب ان کے والد وفات پاگئے۔ منیر نیازی کی پرورش ان کی والدہ اور چچاؤں نے کی۔ ان کی والدہ کو کتابیں پڑھنے کا شوق تھا۔ یوں منیر نیازی بھی مطالعہ کے عادی ہوگئے اور بعد میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کرنے کے لیے شاعری شروع کردی۔ منیر نیازی نے ابتدا میں چند کہانیاں اور افسانے بھی لکھے تھے، لیکن یہ سلسلہ شعروسخن میں ان کے شوق کے آگے ماند پڑ گیا۔

    منیر نے ابتدائی تعلیم ساہیوال میں حاصل کی اور یہیں سے میٹرک کا امتحان پاس کر کے نیوی میں بطور سیلر ملازم ہو گئے، لیکن یہ ملازمت ان کے ادبی ذوق کی تسکین کے راستے میں رکاوٹ تھی، سو انھوں نے نیوی کی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور اپنی تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ باقاعدہ لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔

    لاہور کے دیال سنگھ کالج سے بی۔ اے کرنے والے منیر نے تقسیمِ ہند کے بعد خاندان کے ساتھ پاکستان میں رہنا پسند کیا۔ یہاں انھوں نے کاروبار شروع کیا، لیکن خسارے جھیلنا پڑے اور پھر لاہور میں مجید امجد کے ساتھ ادبی پرچہ ’’سات رنگ‘‘ جاری کیا۔ منیر نیازی نے مختلف اخبار اور ریڈیو کے لیے بھی کام کیا۔ 1960ء کی دہائی میں انھوں نے فلمی گیت نگاری کی اور ان کے تحریر کردہ کئی نغمے بہت مشہور ہوئے۔ ان میں ’’اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘، ’’جس نے مرے دل کو درد دیا‘‘ اور ’’جا اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کے سو جا‘‘، ’’زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا‘‘ شامل ہیں۔

    منیر نیازی نے اردو ادب کو 13 شعری مجموعے دیے جن میں تیز ہوا اور تنہا پھول، جنگل میں دھنک، دشمنوں کے درمیان شام، سفید دن کی ہوا، سیاہ شب کا سمندر، ماہ منیر، چھ رنگین دروازے، آغاز زمستاں اور ساعتِ سیار شامل ہیں جب کہ پنجابی زبان میں ان کے تین شعری مجموعے شایع ہوئے۔

    حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی اور ستارۂ امتیاز سے نوازا تھا۔ اردو کے صاحبِ اسلوب اور اپنی لفظیات میں بے مثل منیر نیازی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    غم کی بارش نے بھی تیرے نقش کو دھویا نہیں
    تُو نے مجھ کو کھو دیا میں نے تجھے کھویا نہیں

    نیند کا ہلکا گلابی سا خمار آنکھوں میں تھا
    یوں لگا جیسے وہ شب کو دیر تک سویا نہیں

    ہر طرف دیوار و در اور ان میں آنکھوں کے ہجوم
    کہہ سکے جو دل کی حالت وہ لبِ گویا نہیں

    جرم آدم نے کیا اور نسلِ آدم کو سزا
    کاٹتا ہوں زندگی بھر میں نے جو بویا نہیں

    جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیرؔ
    غم سے پتّھر ہو گیا، لیکن کبھی رویا نہیں

  • خوش بُو سے کلام کرنے والی شاعرہ پروین شاکر کی برسی

    خوش بُو سے کلام کرنے والی شاعرہ پروین شاکر کی برسی

    ‘‘خوش بُو، خود کلامی، انکار اور صد برگ’’ کے بعد ‘‘ماہِ تمام’’ سامنے آیا۔ یہ پروین شاکر کا کلّیات تھا جو 1994ء میں کار کے ایک حادثے میں ان کی موت کے بعد شایع ہوا تھا۔ محبّت اور عورت پروین شاکر کی شاعری کا موضوع رہے۔ اپنی شاعری میں عورت کے جذبات اور احساسات کو شدّت اور درد مندی سے بیان کرنے والی پروین شاکر نے خوش سلیقگی، تازگی کے ساتھ غزل اور نظم دونوں اصنافِ سخن میں‌ جمالیاتی تقاضوں کو بھی خوبی سے نبھایا۔

    آج پاکستان میں رومانوی شاعرہ کی حیثیت سے پہچانی جانے والی پروین شاکر کی برسی منائی جارہی ہے۔

    ان کا تعلق ایک ادبی گھرانے سے تھا۔ وہ چند سال درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں اور پھر سول سروسز کا امتحان دے کر اعلیٰ افسر کی حیثیت سے ملازم ہوگئیں۔ اس دوران پروین شاکر کا تخلیقی اور ادبی دنیا میں پہچان کا سفر جاری رہا۔ مشاعروں اور ادبی نشستوں میں انھوں نے اپنے اشعار پر خوب داد پائی اور ان کے شعری مجموعوں کو بہت سراہا گیا۔

    پروین شاکر کی شاعری میں ان کی زندگی کا وہ دکھ بھی شامل ہے جس کا تجربہ انھیں ایک ناکام ازدواجی بندھن کی صورت میں‌ ہوا تھا۔ انھوں نے ہجر و وصال کی کشاکش، خواہشات کے انبوہ میں ناآسودگی، قبول و ردّ کی کشمکش اور زندگی کی تلخیوں کو اپنے تخلیقی وفور اور جمالیاتی شعور کے ساتھ پیش کیا، لیکن ان کی انفرادیت عورت کی نفسیات کو اپنی لفظیات میں بہت نفاست اور فن کارانہ انداز سے پیش کرنا ہے۔ اپنے اسی کمال کے سبب وہ اپنے دور کی نسائی لب و لہجے کی منفرد اور مقبول ترین شاعرہ قرار پائیں۔

    بقول گوپی چند نارنگ نئی شاعری کا منظر نامہ پروین شاکر کے دستخط کے بغیر نامکمل ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے کہاکہ پروین شاکر نے اردو شاعری کو سچّے جذبوں کی قوس قزحی بارشوں میں نہلایا۔

    پروین شاکر 24 نومبر 1952ء کو کراچی میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کا تعلق ایک علمی و ادبی گھرانے سے تھا۔ پروین کم عمری ہی میں اشعار موزوں کرنے لگی تھیں۔ انھوں نے کراچی میں تعلیمی مراحل طے کرتے ہوئے انگریزی ادب میں کراچی یونیورسٹی سے ایم اے اور بعد میں لسانیات میں بھی ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور پھر تدریس سے وابستہ ہوگئیں۔ شادی کے بعد خدا نے انھیں اولادِ نرینہ سے نوازا، لیکن بعد میں ان کا ازدواجی سفر طلاق کے ساتھ ختم ہوگیا۔ سول سروس کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ اسلام آباد میں اہم عہدے پر خدمات انجام دے رہی تھیں۔

    وہ 25 سال کی تھیں جب ان کا پہلا مجموعۂ کلام خوشبو منظرِ عام پر آیا اور ادبی حلقوں میں دھوم مچ گئی۔ انھیں اسی کتاب پر آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    ہر سال پروین شاکر کی برسی کے موقع پر علم و ادب کے شائق نہ صرف انھیں یاد کرتے ہیں بلکہ ادب دوست حلقے اور مداح خصوصی نشستوں کا اہتمام بھی کرتے ہیں جس میں پروین شاکر کی یاد تازہ کی جاتی ہے اور ان کا کلام پڑھا جاتا ہے۔

    پروین شاکر اسلام آباد کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ ان کے کتبے پر یہ اشعار درج ہیں۔

    یا رب مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے
    زخمِ ہنر کو حوصلہ لب کشائی دے
    شہرِ سخن سے روح کو وہ آشنائی دے
    آنکھیں بھی بند رکھوں تو رستہ سجھائی دے