Tag: 26 مئی وفات

  • آسکر ایوارڈ یافتہ سڈنی پولک کو شہرت ہی نہیں عزّت بھی ملی

    آسکر ایوارڈ یافتہ سڈنی پولک کو شہرت ہی نہیں عزّت بھی ملی

    ’سڈنی ایک ایسے شخص تھے جس نے اس دنیا کو ایک بہتر دنیا بنایا۔‘ یہ الفاظ مشہور امریکی اداکار جارج کلونی نے آسکر ایوارڈ یافتہ ہدایت کار، پروڈیوسر اور اداکار سڈنی پولک کے انتقال پر ادا کیے تھے۔

    سڈنی پولک نے اپنی فلموں میں سماجی اور سیاسی مسائل کو اجاگر کرکے نہ صرف شہرت پائی بلکہ انھیں بہت عزّت اور محبّت بھی ملی۔ 1960 سے 80 کی دہائی تک انھوں نے اپنی فلموں کی بدولت شائقینِ سنیما کی توجہ حاصل کیے رکھی اور ان کے کام کو ناقدین نے بھی خوب سراہا۔

    آسکر ایوارڈ یافتہ ہدایت کار، پروڈیوسر اور اداکار سڈنی پولک 73 برس کی عمر میں امریکا کے مشہور شہر لاس اینجلس میں چل بسے تھے۔ انھیں کینسر کا مرض لاحق تھا۔ سڈنی پولک کا فلمی کیریئر پچاس سال پر محیط رہا جس میں انھوں نے اپنی فلموں کے لیے ہر خاص و عام سے داد سمیٹی اور اپنے کام پر ناقدین سے تعریف و ستائش وصول کی۔

    سڈنی پولک کی مشہور ترین فلموں میں ’ٹوٹسی‘ اور ’آؤٹ آف افریقہ‘ شامل ہیں۔ یہ بلاک بسٹر فلمیں تھیں جن کے ہدایت کار سڈنی پولک تھے۔ انھوں نے ’مائیکل کلیٹن‘ جیسی کام یاب فلم پروڈیوس کی۔ ’ٹوٹسی‘ کے لیے 1982 میں سڈنی کو بہترین ہدایت کار کے آسکر کے لیے نام زد کیا گیا تھا جب کہ ’آؤٹ آف افریقہ‘ وہ بہترین ہدایت کار کا یہ اعزاز اپنے نام کرنے میں‌ کام یاب رہے تھے۔ یہ وہ فلم تھی جسے مجموعی طور پر سات آسکر ایوارڈز دیے گئے تھے۔

    سڈنی پولک 1969 میں ’دے شوٹ ہارسز ڈانٹ دے‘ کے لیے بھی بطور ڈائریکٹر آسکر اعزاز کے لیے نام زد ہوئے تھے۔

    ان کا سنِ پیدائش 1934 ہے اور وہ دسویں جماعت پاس کرنے کے بعد بطور اداکار قسمت آزمائی کے لیے نیویارک پہنچے تھے اور ٹیلی وژن پر اداکاری کا موقع ملا تو وہ آگے بڑھتے چلے گئے۔ 1961 میں سڈنی پولک نے ٹیلی وژن کے لیے پروگرام بنانے کا سلسلہ شروع کیا اور چار برس بعد بطور ہدایت کار ’دا سلنڈر تھریڈ‘ کے عنوان سے ایک فلم بنائی۔ 90 کے عشرے میں سڈنی پولک نے پروڈیوسر کے طور پر کام شروع کیا اور ’دا فرم‘ جیسی ہٹ فلم سامنے آئی۔ ہدایت کار کے طور پر ان کی آخری فلم ’ اسکیچیز آف فرانک گہرے‘ تھی۔ یہ اپنے وقت کے ایک مشہور آرکیٹیکٹ کے بارے میں دستاویزی فلم تھی۔

    26 مئی 2008 کو سڈنی پولک نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ موند لی تھیں۔

  • یومِ وفات: بایزید ثانی قسطنطنیہ فتح کرنے والے سلطان محمد فاتح کے بیٹے تھے

    یومِ وفات: بایزید ثانی قسطنطنیہ فتح کرنے والے سلطان محمد فاتح کے بیٹے تھے

    سلطنتِ عثمانیہ کے اٹھویں حکم راں بایزید ثانی کو مؤرخین نے سادہ و حلیم مزاج، مذہبی رجحان اور علم و فنون کا دلدادہ لکھا ہے۔ انھیں ایک ایسا نرم خُو اور صلح جُو کہا جاتا ہے جو دلیر اور شجیع تو تھے، لیکن جنگ پسند نہیں تھے۔

    بایزید ثانی آج ہی کے دن 1512ء کو وفات پاگئے تھے۔ 26 مئی کو دنیا سے رخصت ہونے والے بایزید ثانی 21 سال کی عمر میں قسطنطنیہ فتح کرکے بازنطینی سلطنت کا خاتمہ کرنے والے سلطان فاتح کے بیٹے تھے۔

    بایزید ثانی کو تخت نشینی کے موقع پر بھی تنازع کا سامنا کرنا پڑا۔ بایزید ثانی کا عہدِ حکومت خانہ جنگی سے شروع ہوا اور اس کا خاتمہ بھی انتشار اور اندرونی خرابیوں اور حالات کی وجہ سے ہونے والی لڑائیوں پر ہوا۔ بایزید ثانی نے اپنے والد سلطان فاتح کی وفات کے بعد تخت سنبھالا تھا جب کہ ان کا ایک بھائی بھی تخت کا دعوے دار تھا اور یوں تخت نشینی آسان ثابت نہ ہوئی۔

    بایزید ثانی نے کسی طرح اقتدار حاصل کرلیا اور سلطنتِ عثمانیہ کے سلطان کی حیثیت سے 1481ء سے 1512ء تک حکم راں رہے۔ ان کے دور میں سلطنت کی بنیادیں مستحکم ہوئیں، لیکن خانہ جنگیوں کی وجہ سے مشکلات پیش آتی رہیں۔ سلطان بایزید ثانی اپنے عہدِ حکومت میں اندرونی انتشار اور خانہ جنگیوں کے علاوہ ولی عہدی کے مسئلے پر بھی الجھے رہے۔

    بایزید ثانی 1512ء میں اپنے بیٹے سلیم کے حق میں تخت سے دست بردار ہوگئے۔ مشہور ہے کہ وہ زندگی کے ماندہ ایّام ایشیائے کوچک میں گزارنے کی خواہش لیے سفر پر نکلے تھے، لیکن وہاں تک نہ پہنچ سکے اور ان کا انتقال ہوگیا۔

    بایزید ثانی کا مدفن استنبول میں بایزید مسجد کے پہلو میں موجود ہے۔

  • نام ور ستار نواز استاد محمد شریف خان کی برسی

    نام ور ستار نواز استاد محمد شریف خان کی برسی

    26 مئی 1980ء کو پاکستان کے نام ور ستار نواز، استاد محمد شریف خان وفات پاگئے تھے۔ پاکستان میں کلاسیکی موسیقی اور روایتی سازوں کے ماہر فن کاروں اور سازندوں میں ایک نام کاروں استاد محمد شریف خان کا بھی ہے جو 26 مئی 1980ء کو وفات پاگئے تھے۔ ان کا شمار پاکستان کے نام وَر ستار نوازوں میں ہوتا ہے۔

    استاد محمد شریف خان اپنے علاقے کی نسبت سے پونچھ والے مشہور تھے۔ وہ 1926ء میں ضلع حصار میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد بھی موسیقی کے ماہر جن کا نام رحیم بخش تھا۔ وہ مہاراجہ پونچھ کے موسیقی کے استاد تھے۔

    استاد محمد شریف خان کی زندگی کا ابتدائی زمانہ پونچھ میں گزرا۔ اس لیے پونچھ سے ان کی نسبت ان کے نام کا حصّہ بن گئی۔ انھیں ابتدا ہی سے ستار بجانے کا شوق تھا۔ ان کے والد اور اساتذہ نے بھی انھیں موسیقی کی تعلیم دینے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ وہ ستار کے علاوہ وچتروینا بجانے میں بھی مہارت رکھتے تھے۔

    استاد محمد شریف خان پونچھ والے نے کئی راگ بھی ایجاد کیے تھے اور اسی لیے ’’استاد‘‘ کہلاتے تھے۔

    انھیں 14 اگست 1965ء کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا۔ لاہور میں وفات پانے والے استاد محمد شریف خان میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • یومِ‌ وفات:‌ وراسٹائل اداکار ادیب اسکرپٹ رائٹر بھی تھے

    یومِ‌ وفات:‌ وراسٹائل اداکار ادیب اسکرپٹ رائٹر بھی تھے

    متحدہ ہندوستان کی ریاست جموں و کشمیر کے مظفر علی کا خاندان تقسیمِ ہند سے قبل معاش کی غرض سے ممبئی منتقل ہو گیا تھا جہاں پیدا ہونے والے مظفر علی نے تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد اسکرپٹ رائٹر کے طور پر تھیٹر اور بعد میں فلم نگری کا رُخ کیا جہاں اداکار کے طور پر کام کیا۔

    تقسیم کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور یہاں فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوگئے۔ انھوں نے فلموں میں‌ اپنی اداکاری سے شائقین کی توجہ حاصل کی اور نام و مقام بنایا۔ وہ ادیب کے نام سے پہچانے گئے۔ 26 مئی 2006ء کو اداکار ادیب کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔ وہ گردوں اور دل کے عارضے میں مبتلا تھے۔

    اداکار ادیب کی فنی زندگی کا آغاز اسکرپٹ رائٹنگ سے ہوا تھا جب کہ فلم ’پاک دامن‘ میں ولن کے ایک کردار سے بڑے پردے پر ان کا نیا سفر شروع ہوا تھا۔

    پاکستان کے اس مشہور اداکار کی تاریخ پیدائش 4 اکتوبر 1928ء ہے۔ ادیب کی فن کارانہ زندگی کا آغاز ایک تھیٹر کمپنی سے بطور مصنّف ہوا تھا، بعد میں انڈین نیشنل تھیٹر میں کام کیا اور دس فلموں میں‌ اداکاری کے جوہر دکھائے، 1962ء میں وہ پاکستان آگئے۔ یہاں ہدایت کار اقبال یوسف کی فلم دال میں کالا سے اپنی فنی زندگی شروع کی اور یہ سفر لگ بھگ 500 فلمیں کرنے تک جاری رہا۔