Tag: 26 ویں آئینی ترمیم

  • پی ٹی آئی نے 26 ویں آئینی ترمیم سپریم کورٹ میں چیلنج کردی

    پی ٹی آئی نے 26 ویں آئینی ترمیم سپریم کورٹ میں چیلنج کردی

    اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) نے26ویں آئینی ترمیم سپریم کورٹ میں چیلنج کردی۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) نے 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی۔

    تحریک انصاف نے درخواست سمیرکھوسہ ایڈووکیٹ کے توسط سے دائر کی۔

    تحریک انصاف نے درخواست پر فیصلے تک قائم جوڈیشل کمیشن کو ججز تعیناتی سے روکنے کی استدعا کی ہے۔

    درخواست میں کہا ہے کہ پارلیمنٹ آئین کے بنیادی خدوخال کوتبدیل نہیں کر سکتی، عدلیہ کی آزادی آئین کابنیادی جزو ہے۔

    دائر درخواست میں کہا گیا کہ عدلیہ کی آزادی کےخلاف کوئی ترمیم نہیں کی جا سکتی، آئینی ترمیم اختیارات کی تقسیم کےآئینی اصول کےخلاف ہے۔

    تحریک انصاف نے 26ویں آئینی ترمیم کالعدم قراردینےکی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ترمیم کےتحت ہونے والے تمام اقدامات کالعدم قراردیےجائیں۔

  • چیف جسٹس نے 26 ویں آئینی ترمیم  پر فل کورٹ سماعت کی مخالفت کردی

    چیف جسٹس نے 26 ویں آئینی ترمیم پر فل کورٹ سماعت کی مخالفت کردی

    اسلام آباد : چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر فل کورٹ کی مخالفت کردی، جسٹس منصور علی شاہ نے فل کورٹ بنانے کی تجویز دی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ہوا۔

    جسٹس منصور نے جوڈیشل کمیشن اجلاس میں فل کورٹ کاتذکرہ کیا ، چیف جسٹس نے فل کورٹ بنانے کے حوالے سے جسٹس منصورکو جواب دے دیا۔

    چیف جسٹس نے 26 ویں آئینی ترمیم سے متعلق درخواستوں پر فل کورٹ بلانے پر جسٹس منصورعلی شاہ کی مخالفت کردی۔

    جوڈیشل کمیشن اجلاس میں دونوں معزز ججوں کےدرمیان مکالمہ ہوا، جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا خط میں چھبیسویں ترمیم کیخلاف درخواستوں پرفل کورٹ بلانے کی تجویز دی۔

    جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن کو حق نہیں، ترمیم کو زیربحث لائے، آئینی مقدموں کی سماعت مقرر کرنے کا اختیار آئینی بینچ کمیٹی کے پاس ہے، درخواستیں کس نے لگانی ہیں، آئینی کمیٹی طے کرے گی۔

    چیف جسٹس کی اس رائے کی اکثریتی ارکان نے حمایت کی، ذرائع نے بتایا چیف جسٹس کی زیر صدارت اجلاس میں ایک ممبر نے کہا رولز بنائے جانے کا معاملہ اہمیت کا حامل ہے۔

    اکثریتی ارکان کا کہنا تھا کہ ججوں کی تعیناتی کیلئے رولز بنانے کا معاملہ ذیلی کمیٹی طے کرے گی، جوڈیشل کمیشن نے رولز بنانے کے لیے ذیلی کمیٹی بنانے کا اختیار چیف جسٹس کو دے دیا ہے۔

    جسٹس شاہد بلال کو اکثریتی رائے سے آئینی بینچ کا جج نامزد کردیا گیا جبکہ جسٹس عدنان کریم اورجسٹس آغا فیصل سندھ ہائیکورٹ آئینی بینچ کےجج نامزدکیےگئےہیں۔

    تاہم ہائیکورٹس ججوں کی نامزدگیوں کا معاملہ اکیس دسمبرتک موخر ہوگیا۔

    اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا ججز تقرری کیلئے معیار اور طریقہ کار ریگولیٹ کرنے سے متعلق قواعد وضع کرنے کو ترجیح دی جائے گی۔

    چیف جسٹس نے رولز کا مسودہ تیار کرنے کیلئے پانچ رکنی کمیٹی بنادی، پندرہ دسمبرکو جوڈیشل کمیشن رولز کا مسودہ تیار کر کے ارکان کیساتھ شیئر کیا جائے گا۔

    کمیٹی کے سربراہ جسٹس جمال مندوخیل ہیں، جبکہ منصورعثمان اعوان، علی ظفر، فاروق نائیک اوراخترحسین کمیٹی کے ممبر ہوں گے، کمیٹی کو تین دیگر افسران کی معاونت بھی حاصل ہوگی۔

  • ’26 ویں آئینی ترمیم  کے معاملے پر جے یو آئی کے ساتھ ہاتھ ہو گیا‘

    ’26 ویں آئینی ترمیم کے معاملے پر جے یو آئی کے ساتھ ہاتھ ہو گیا‘

    جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹر کامران مرتضیٰ کا کہنا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے معاملے پر ہمارے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے۔

    جے یو آئی سینیٹر کامران مرتضیٰ نے اسلام آباد میں اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے معاملے میں ہمارے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے اور مستقبل میں حکومت سے کوئی تعاون نہیں ہوگا۔

    جے یو آئی سینیٹر کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو نے مدرسہ رجسٹریشن بل کا معاملہ حل کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی، مگر اب معلوم نہیں کہ صدر مملکت آصف زرداری خود دستخط نہیں کر رہے یا کسی کے کہنے پر ایسا کر رہے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو کی یقین دہانی کے بعد ہی بل واپسی کی خبر لیک کی گئی اور بلاول کے آنے کے بعد یہ شرارت کی گئی۔

    واضح رہے کہ دینی مدارس رجسٹریشن بل پر جے یو آئی اور حکومت کے درمیان ڈیڈ لاک آ گیا ہے۔ ذرائع قومی اسمبلی کے مطابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے دینی مدارس رجسٹریشن بل پر اعتراض لگا کر بل واپس بھجوا دیا جب کہ حکومت اس پر آئندہ ہفتے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلانے پر غور کر رہی ہے۔

    https://urdu.arynews.tv/madrasa-registration-bill-asif-zardari/

  • 2 سینئر ججز کا چیف جسٹس کو خط، 26 ویں آئینی ترمیم کا کیس اسی ہفتے فل کورٹ میں لگانے کا مطالبہ

    2 سینئر ججز کا چیف جسٹس کو خط، 26 ویں آئینی ترمیم کا کیس اسی ہفتے فل کورٹ میں لگانے کا مطالبہ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کے 2سینئر ججز نے چیف جسٹس یحیٰ آفریدی کو خط میں 26 ویں ترمیم کا کیس اسی ہفتے فل کورٹ میں لگانے کا مطالبہ کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق 26 ویں آئینی ترمیم پر فل کورٹ بینچ کیلئے 2 سینئرججز نے چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھا۔

    جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے خط لکھا، جس میں کہا گیا کہ 31 اکتوبرکی کمیٹی میٹنگ میں آئینی ترمیم کا کیس فل کورٹ میں لگانے کا فیصلہ کیا، فیصلہ کیا گیا تھا کیس 4 نومبر کو فل کورٹ سنے گی تاہم کمیٹی فیصلے کے باوجود کوئی کاز لسٹ جاری نہ ہوئی۔

    خط میں بتایا گیا کہ دونوں سینئر ججز نے 31 اکتوبر کو چیف جسٹس سے کمیٹی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا تھا، چیف جسٹس کے اجلاس نہ بلانے پر سیکشن 2 کے تحت ہم ججز نے خود اجلاس بلایا، 2 ججز نے اجلاس میں فیصلہ کیا 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف کیس 4 نومبر کو فل کورٹ سنے گی۔

    خط میں مطالبہ کیا کہ اسی ہفتے 26 ویں ترمیم کیخلاف درخواستیں فل کورٹ کے سامنے لگائی جائیں، ہمارے مطلع کرنے کے باوجود بھی ججز کمیٹی اجلاس نہیں بلایا گیا۔

    خط میں مزید کہا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان کی طرف سے میٹنگ نہ بلانے پر اپنا اجلاس کیا، ججز کمیٹی نے 4 نومبر کو کیس سماعت کیلئے مقرر کرنے کا کہا اس کے باوجود کاز لسٹ جاری نہ کی گئی۔

    خط کے متن میں کہا گیا کہ 2 رکنی ججز کمیٹی کا فیصلہ اب بھی برقرارہے، ججز کمیٹی اجلاس میں کیے گئے فیصلے پر عمل کرتے ہوئے کاز لسٹ جاری کی جانی چاہیے۔

  • 26ویں آئینی ترمیم کے بعد جوڈیشل کمیشن کا پہلا اجلاس آج ہوگا

    26ویں آئینی ترمیم کے بعد جوڈیشل کمیشن کا پہلا اجلاس آج ہوگا

    اسلام آباد :  26 ویں آئینی ترمیم کے بعد سپریم کورٹ میں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیرصدارت جوڈیشل کمیشن کا پہلا اجلاس آج ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم جوڈیشل کمیشن کا پہلا اجلاس آج ہو گا، چیف جسٹس یحی آفریدی اجلاس کی صدارت کریں گے۔

    سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس منیب اختر اورجسٹس امین الدین شرکت کریں گے۔

    چھبیس ویں آئینی ترمیم اور جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نو کے بعد یہ پہلا اجلاس ہوگا، اجلاس میں دو نکاتی ایجنڈا زیر غور آئے گا۔

    اجلاس میں آئینی بینچ کی تشکیل کے معاملے پر غور ہوگا، آئینی بینچ پانچ ارکان پر مشتمل ہو گا اور کمیشن آئینی بینچ کے سربراہ کا بھی تقرر کرے گا۔

    اجلاس میں جوڈیشل کمیشن کے سیکریٹریٹ کے قیام پر بھی بات ہو گی۔

    وزیرقانون اعظم نذیرتارڑ، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان،پاکستان بارکونسل کے نمائندے اخترحسین بھی شرکت کریں گے۔

    اجلاس میں پیپلزپارٹی کےفاروق ایچ نائیک،نون لیگ کے شیخ آفتاب احمد، پی ٹی آئی کے عمرایوب، شبلی فراز اور خاتون ممبر روشن خورشید بھی شریک ہوں گے۔

  • جماعت اسلامی نے 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی

    جماعت اسلامی نے 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی

    اسلام آباد : جماعت اسلامی نے 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی۔

    تفصیلات کے مطابق جماعت اسلامی نے آئینی ترمیم کیخلاف درخواست دائرکردی ، سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں وفاق سمیت چاروں صوبوں کو فریق بنایا گیا ہے۔

    درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم بنیادی حقوق کے خلاف ہے،آئینی ترمیم آئینی ڈھانچے اورمتعدد آئینی شقوں کےخلاف ہے۔

    درخواست میں استدعا کی گئی کہ 26ویں آئینی ترمیم کالعدم قرار دی جائے اور پارلیمانی کمیٹی کی جانب سےچیف جسٹس کاتقررکالعدم قرار دیاجائے۔

    جے آئی  نے استدعا کی کہ قرار دیا جائےچیف جسٹس پاکستان کاتقررسنیارٹی کےمطابق ہوگا، نئے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل بھی معطل کی جائے۔

  • لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے 26 ویں آئینی ترمیم چیلنج  کردی

    لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے 26 ویں آئینی ترمیم چیلنج کردی

    اسلام آباد : لاہورہائیکورٹ بارایسوسی ایشن نے26ویں آئینی ترمیم چیلنج کردی ، جس مین ترمیم کے مختلف سیکشنز غیر آئینی قراردینے کی استدعا کی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواست دائر کر دی، حامد خان نے ترمیم کیخلاف آئینی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی۔

    درخواست میں استدعا کی گئی کہ سپریم کورٹ آئینی ترمیم کے سیکشن 7، 9، 10، 12، 13، 14 کو غیر آئینی قرار دیا جائے۔

    مزید پڑھیں : 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف سپریم کورٹ میں ایک اور درخواست دائر

    حامد خان نے استدعا کی کہ سپریم کورٹ ترمیم کے سیکشن 16، 17اور 21 ، آئینی ترمیم کے سیکشنز کے تحت اقدامات کو بھی غیر آئینی قرار دیا جائے۔

    درخواست گزار کا کہنا تھا کہ درخواست زیر التوا ہونے تک جوڈیشل کمیشن و دیگر کو اقدامات سے روکا جائے۔

    آئینی درخواست میں وفاق،جوڈیشل کمیشن، قومی اسمبلی، سینیٹ،اسپیکرقومی اسمبلی اورصدرمملکت کو فریق بنایا گیا ہے۔

  • 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف سپریم کورٹ میں ایک اور درخواست دائر

    26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف سپریم کورٹ میں ایک اور درخواست دائر

    اسلام آباد : 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف سپریم کورٹ میں ایک اور درخواست دائر کردی گئی ، جس ترمیم کو غیرآئینی قرار
    دینے کی استدعا کی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری سمیت چھ وکلا نے 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی۔

    درخواست میں ترمیم کو آئین کے بنیادی حقوق اور آئینی ڈھانچہ کے منافی قرار دینے اور ججزتقرری پر جوڈیشل کمیشن کا اجلاس بلانے سے روکنے کی استدعا کی گئی ہے۔

    درخواست میں آئینی ترمیم کو غیر آئینی قرارد ینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ آئینی ترمیم کیلئے ارکان سے زبردستی ووٹ کی منظوری نہیں لی جا سکتی۔

    درخواست میں کہنا تھا کہ پارلیمنٹ نامکمل ہےاور اس کی آئینی حیثیت پر قانونی سوالات ہیں، عدلیہ کی آزادی اور اختیارات کی تقسیم آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہے آئینی ترمیم سے آئین کا بنیادی ڈھانچہ تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

    درخواست گزار نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی کےذریعےچیف جسٹس کی تعیناتی مداخلت کے مترادف ہے، آئینی بینچز کا قیام سپریم کورٹ کے متوازی عدالتی نظام کا قیام ہے۔

    عابد زبیری سمیت 6 وکلا نے درخواست میں وفاق اورصوبوں کو فریق بنایا ہے۔

  • سودی نظام کا خاتمہ، کیا ریاست تیار ہے؟

    سودی نظام کا خاتمہ، کیا ریاست تیار ہے؟

    ملک میں 26 ویں آئینی ترمیم کے ساتھ جو بحث جاری ہے وہ سپریم کورٹ میں اصلاحات سے متعلق کی جانے والی قانون سازی کے گرد گھوم رہی ہے، مگر اس میں سود کے خاتمے کی تاریخ مقرر کر کے بھی ایک سنگِ میل طے کیا گیا ہے۔ آئینی ترمیم میں یہ شامل کیا گیا ہے کہ یکم جنوری 2028ء سے ملک میں سود کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔ گو کہ اس حوالے سے تند و تیز مباحث اور تبصرے نہیں ہو رہے مگر اس قانون سازی پر ملا جلا ردعمل دیا جارہا ہے۔

    اسلامی مالیاتی اور معاشی نظام پر سند مانے جانے والے مولانا تقی عثمانی نے اس حوالے سے مولانا فضل الرحمان کو سوشل میڈیا پر نہ صرف مبارک باد دی بلکہ اسلام آباد میں مولانا کے گھر جاکر انہیں گلے لگایا اور جبہ و دستار پیش کی۔ مگر بعض حلقوں میں تنقید کرتے ہوئے کہا جارہا ہے کہ سود کو دراصل مزید چار سال کے لئے ہمارے اوپر مسلط کر دیا ہے۔ سود کے خاتمے کے حوالے سے وفاقی شرعی عدالت نے 19 سال کے بعد جماعت اسلامی کی پٹیشن پر اپریل 2022 میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے ملک سے سود کے خاتمے کا سال 2027 مقرر کیا تھا۔ پہلے حکومت نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی مگر بعد ازاں عوامی اور سیاسی ردعمل کو دیکھتے ہوئے یہ اپیل واپس لے لی گئی۔ اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے نومبر 2022 میں اس بات کا اعلان کیا کہ حکومت سود کے خاتمے کے شرعی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کرے گی۔ اس حوالے سے اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ میں ایک خصوصی کمیٹی قائم کی گئی جس نے گزشتہ تقریبا دو سال میں بہت سا کام کر لیا ہے۔ اور اب اس کمیٹی کو پہلے سے زیادہ فعال طریقے سے کام کرنا ہوگا۔ مگر کیا حکومت مقررہ وقت تک سودی نظام کو ختم کر پائے؟

    وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خاتمے کے حوالے سے ملک کے ایک نجی بینک کا ذکر بھی کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر ایک بینک اپنے کاروبار کو جاری رکھتے ہوئے لین دین کو سود سے پاک کر کے اسلامی مالیات پر منتقل کرسکتا ہے تو ملکی نظام کو بھی اس پر منتقل کیا جاسکتا ہے۔ نجی بینک کے شریعہ کمپلائنس اینڈ ایڈوائزی فیصل شیخ کہتے ہیں کہ روایتی اسلامی مالیاتی ادارہ بننے کا فیصلہ سال 2015 میں کیا تھا۔ اس وقت جب یہ فیصلہ کیا گیا تو ہمارے بینک جتنے بڑے حجم کے کسی بینک نے مکمل طور پر اپنے کاروبار کو شرعی مالیاتی ماڈل کے مطابق نہیں اپنایا تھا۔ اور دنیا میں کوئی ایسی مثال بھی موجود نہ تھی کہ جس پر عمل کرتے ہوئے بینک کو شرعی مالیاتی نظام پر منتقل کیا جائے۔ بینک کو جو بھی کام کرنا تھا وہ کام اس سے پہلے نہیں ہوا تھا۔ اس مقصد کے لئے بینک انتظامیہ نے نیا سودی قرضہ دینے اور اکاؤنٹ کھولنے پر ایک تاریخ کے بعد پابندی عائد کردی اور پھر بینک نے تمام کھاتے داروں کو تحریری طور پر مطلع کیا کہ ان کے بینک اکاؤنٹس کو روایتی سے اسلامی کھاتوں میں منتقل کیا جارہا ہے۔ سب سے مشکل مرحلہ جاری قرضوں کو اسلامی پر منتقل کرنا تھا۔ پہلے بینک نے تمام شرعی مالیاتی مصنوعات کی تیاری کی اور پھر اپنے کاروباری اور انفرادی قرض لینے والوں کو بالمشافہ اور کئی ملاقاتوں کے دوران روایتی سے اسلامی بینکاری پر منتقل ہونے پر راضی کیا۔ اس میں تقریباً 7 سال لگ گئے اور اسٹیٹ بینک نے جائزہ لینے، آڈٹ کرنے کے بعد مکمل اسلامی مالیاتی بینک کا لائسنس جاری کیا۔

    اگر ایک بینک کو سودی سے اسلامی نظام پر منتقل کرنے میں 7 سال کا عرصہ لگا ہے تو کیا یہ ممکن ہے کہ حکومت پاکستان آئندہ چار سال میں سودی معیشت کا خاتمہ کرسکے۔ اس حوالے سے جائزہ لیتے ہیں کہ حکومت کو کیا اقدامات کرنا ہوں گے۔

    سود کا خاتمہ اور غیر ملکی قرضے:
    اسلامی مالیاتی نظام کے حوالے سے دنیا بھر میں کام ہو رہا ہے۔ اسلامی ملکوں سمیت متعدد غیر اسلامی ریاستوں نے بھی اسلامی مالیات کے حوالے سے قوانین کا اجرا کیا ہے اور قرض کی عالمی منڈی میں شرعی اصولوں کے مطابق سرمایہ اکھٹا کرنا کوئی اچھوتا عمل نہیں ہے۔ عالمی مالیات مارکیٹس اسلامی فنانس کے حوالے سے معلومات رکھتی ہیں۔ اور کئی ہزار ارب ڈالر مالیت کے قرضے اور سرمایہ کاری اسلامی فنانسنگ کے تحت کی جاچکی ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی فنانس کو مختلف بڑے تحقیقاتی ادارے سودی نظام کے متبادل کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

    عالمی مالیاتی ادارے جیسا کہ آئی ایم ایف، عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت تقریبا ہر ادارے میں اسلامی فنانسنگ کی سہولت دستیاب ہے۔ اور مکمل اانفرااسٹرکچر موجود ہے۔ اس لئے اگر پاکستان ان اداروں سے کہتا ہے کہ اسے غیر سودی مالیاتی سہولت درکار ہے تو یہ ادارے ایسی سہولت فراہم کرنے کے قابل ہیں۔

    سود پر قرض نہ لینا:
    حکومت کو اسلامی مالیاتی نظام کو اپنانے کے لئے سب سے پہلے ایک تاریخ مقرر کرنا ہوگی جس کے بعد حکومت کوئی بھی نیا قرضہ سودی شرائط پر نہیں لے گی۔ یہ وہ پہلا قدم ہے جو معیشت کو غیر سودی بنانے کے لئے اٹھایا جائے گا۔ اس فیصلے کے بعد بھی حکومت کو اپنے جاری قرضوں پر سود کی ادائیگی کرنا ہوگی۔ مگر سودی قرض بتدریج ختم ہوتا جائے گا اور اس کی جگہ شرعی سہولت لی جائے۔ اس مقصد کے لئے حکومت کو اپنے ان اثاثوں کی نشاندہی کرنا ہوگی جس پر وہ یہ نئی سہولت حاصل کرے گی۔ اس وقت بھی حکومت جو بھی سہولت اسلامی بینکوں سے یا اسٹاک ایکسچینج سے حاصل کررہی ہے وہ صکوک کی مد میں حاصل کررہی ہے۔ جس میں حکومتی اثاثے کو قرض دینے والوں کے نام پر منتقل کر کے اس پر کرایہ ادا کیا جاتا ہے۔

    قانون سازی:
    سب سے پہلے سود سے متعلق قوانین کو تبدیل کرنا ہوگا۔ اور یہ کوئی سادہ عمل نہیں بلکہ اس کے لئے 26 ویں آئینی ترمیم سے زیادہ محنت کرنا ہوگی۔ اسٹیٹ بینک اور ملک سے سود کے خاتمے کے لئے وفاقی سطح پر حکومت کو کم از کم 24 قوانین سمیت ہزاروں قواعد کو تبدیل اور از سرِ نو مرتب کرنا ہوگا۔ اسی طرح صوبائی، اور ضلعی سطح پر بھی قوانین اور قواعد کو تبدیل کرنا ہوگا۔ یہ ایک بڑا قانونی عمل ہو گا جس کے لئے بہت زیادہ محنت، قابلیت و اہلیت اور سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔ مجلسِ شوریٰ کو اس حوالے سے بہت کام سرانجام دینا ہوگا۔

    شریعہ بورڈ کا قیام:
    حکومت کو سود کے خاتمے اور معیشت کو اسلامی مالیاتی نظام پر منتقل کرنے اور اس پر عمل کرانے کے لئے ایک مستقل شرعی بورڈ بنانا ہوگا۔ اسے وزارتِ خزانہ اور وزارتِ قانون سمیت تقریباً ہر اس وزارت میں قائم کرنا ہوگا جس میں کاروبار اور لین دین ہورہا ہو۔ جیسا کہ بینکوں میں شرعی بورڈ لین دین کے ہر معاملے کا جائزہ لیتے ہیں۔ اسی طرح حکومت کے ہر معاہدے کا جائزہ یہ بورڈ لے گا اور اس کے عین اسلامی ہونے یا نہ ہونے پر اپنی رائے دے گا جس کے بعد یہ معاہدے رو بہ عمل ہوں گے۔

    حکومت کو وفاقی صوبائی اور ضلعی سطح کے علاوہ اس سے منسلک اداروں میں ایسے افراد کو بھرتی کرنے کی ضرورت ہوگی جو کہ اسلامی مالیات کے حوالے سے معلومات رکھتے ہوں۔ اور جو مالیاتی لین دین کی نگرانی کرسکیں۔

    ریاست کے مالیاتی اداروں کی اسلامی نظام پر منتقلی:
    حکومت کے لئے ایک بڑا کام اپنے مالیاتی اداروں کو روایتی سے اسلامی پر منتقل کرنا ہوگا۔ وفاقی حکومت کو قومی بچت، نیشنل بینک، فرسٹ ویمن بینک، زرعی ترقیاتی بینک کے علاوہ بڑے پیمانے پر انشورنس کمپنیوں کو روایتی نظام سے اسلامی انشورنس یعنی تکافل پر منتقل کرنا ہوگا۔ جس میں نیشنل انشورنس کارپوریشن، پاکستان ری ایشورینس کمپنی، پوسٹل لائف انشورنس، اسٹیٹ لائف انشورنس کمپنی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ صوبائی سطح پر بینک آف پنجاب، بینک آف خیبر اور سندھ بینک کی بھی اسلامی مالیاتی نظام پر منتقلی ہوگی۔ اس ایک بہت بڑے اور طویل مدتی کام کا آغاز کرنے اور اسے انجام تک پہنچانے کے لیے بھی بہت سا علمی اور عملی کام کرنا ہوگا۔

    حکومتی خزانے کا حساب کتاب:
    سودی نظام میں حسابات لکھنے اور ریکارڈ رکھنے کا طریقہ کار اسلامی مالیاتی نظام سے مختلف ہوتا ہے۔ اس کے لئے حکومت کو بحرین میں قائم اکاؤنٹنگ اینڈ آڈٹ آرگنائزیشن برائے اسلامک فنانشنل اسٹیٹیوشنز (ایوفی) Accounting and Auditing Organization for Islamic Financial Institutions (AAOIFI) کے ماہرین کی خدمات حاصل کرنا ہوں گی۔ جو کہ وفاقی حکومت اور اس کی وزارتوں کے اکاؤنٹنگ کے معیار کو روایتی لین دین سے اسلامی پر متنقل کریں گے۔ اسی طرح حکومت کے تمام ذیلی ادارے، اتھارٹیز سمیت تقریبا ہر دفتر میں اسلامی مالیات کے ماہرین کی موجودگی ضروری ہوگی جو وہاں‌ خدمات فراہم کریں گے۔

    اس جائزے سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں اس بڑے، پیچیدہ، اور طویل مدتی کام کو انجام دینے لئے حکومت کو اسی تندہی اور تیزی سے کام کرنا ہوگا جس طرح حکومت نے 26 ویں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی تعیناتی کے لئے اقدامات کیے ہیں۔ اگر اس میں تساہل سے کام لیا گیا تو سودی نظام کا مکمل خاتمہ اس کے لئے مقرر کی گئی تاریخ تک ممکن نہیں ہوگا۔

  • 26 ویں آئینی ترمیم کے سندھ ہائیکورٹ پروسیڈنگز پر اثرات

    26 ویں آئینی ترمیم کے سندھ ہائیکورٹ پروسیڈنگز پر اثرات

    کراچی : سندھ ہائیکورٹ میں 25 ویں آئینی ترمیم کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے باعث میئر کراچی کے الیکشن کیخلاف درخواست کی سماعت ملتوی کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں 26 ویں آئینی ترمیم کے سندھ ہائیکورٹ پروسیڈنگز پر اثرات نمایاں ہونے لگے۔

    سندھ ہائیکورٹ نے میئر کراچی کے الیکشن کیخلاف درخواست کی سماعت ملتوی کردی گئی،

    تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں میئر کراچی کے الیکشن کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ دو چار دن میں جانے کیا صورتحال ہوبہتر ہے سماعت ملتوی کی جائے، وکلا نے کہا کہ صوبائی اسمبلی کی قرارداد کی منظوری کےبغیرہائیکورٹس میں آئینی بینچ نہیں بن سکتا، آئینی ترمیم کے آرٹیکل 202 کے مطابق آئینی بینچ ہی یہ کیس سن سکتا ہے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صوبائی اسمبلی قراردادمنظور نہ کرےتب تک تمام بینچزمعمول کےمطابق کام کر رہے ہیں، کیا سندھ اسمبلی میں ایسی کوئی قرار داد لائی جارہی ہے۔

    اےاےجی سندھ نے کہا کہ جب تک قرار داد منظور نہیں ہوتی تب تک بینچ کیس کی سماعت کرسکتا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے
    عدالت درخواست گزار وکیل طارق منصور کے مؤقف سے اتفاق نہیں کرتی، بہتر ہوگا کہ ہم سماعت آئندہ ہفتے تک کیلئے ملتوی کردیں۔