Tag: 26 ویں آئینی ترمیم

  • 26 ویں  آئینی ترمیم  سپریم کورٹ میں چیلنج

    26 ویں آئینی ترمیم سپریم کورٹ میں چیلنج

    اسلام آباد: سپریم کورٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم کو چیلنج کردیا گیا، جس میں آئینی ترمیم کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواست دائر کردی گئی، محمد انس نے وکیل عدنان خان کی وساطت سے آئینی درخواست دائر کی۔

    آئینی ترمیم کیخلاف درخواست میں وفاق کوفریق بنایا گیا اور سپریم کورٹ سے آئینی ترمیم کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔

    درخواست گزار نے موقف میں کہا کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ہے ، پارلیمنٹ دو تہائی اکثریت سے آئین میں ترمیم کرسکتی ہے تاہم پارلیمنٹ کو عدالتی امور پر تجاوز کرنے کا اختیار نہیں۔

    درخواست میں کہا گیا کہ آئینی ترمیم آئین کےبنیادی ڈھانچے،اداروں میں اختیارات کی تقسیم کیخلاف ہے، آئینی ترمیم کےذریعےچیف جسٹس کی تعیناتی کاطریقہ کارتبدیل کردیاگیا، ترمیم کےبعدچیف جسٹس کی تعیناتی حکومت وقت کےپاس چلی گئی۔

    درخواست میں مزید کہنا تھا کہ ججزتقرری کےجوڈیشل کمیشن کی ہیت کوبھی تبدیل کردیاگیا، استدعا ہے کہ آئینی ترمیم کوبنیادی حقوق ، عدلیہ کی آزادی کےمنافی قراردےکرکالعدم قراردیں۔

  • 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری ،  اگلا چیف جسٹس کون ہوگا؟

    26ویں آئینی ترمیم کی منظوری ، اگلا چیف جسٹس کون ہوگا؟

    اسلام آباد :  26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد اگلا چیف جسٹس کون ہوگا؟ چیف جسٹس عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد سپریم کورٹ کے تین سینئرججوں میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ آفریدی شامل ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کے دونوں ایوانوں نے 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری دے دی،225 ارکان نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا جبکہ اپوزیشن کے بارہ ارکان نے مخالفت کی۔

    منظور ہونے والی 26 ویں آئینی ترمیم کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کے طریقہ کار میں نمایاں تبدیلی کی گئی ہے۔

    آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد یہ سوال اٹھتا ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ جو 25 اکتوبر کو ریٹائر ہونے والے ہیں، ان کی جگہ چیف جسٹس آف پاکستان کون بنے گا؟

    آئینی ترمیم کے تحت اب چیف جسٹس کا انتخاب سنیارٹی کی بنیاد پر خودکار فیصلہ نہیں ہوگا بلکہ سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا جائے گا۔

    چیف جسٹس عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد سپریم کورٹ کے تین سینئرججزکون سے ہیں؟

    سپریم کورٹ میں تین سینئر ترین ججز

    61 سالہ جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس عیسیٰ کے بعد سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج ہیں۔ ان کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ 27 نومبر 2027 ہے۔ اگر وہ چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہوتے ہیں تو وہ تین سال کی مدت کے لیے اس عہدے پر کام کریں گے۔

    60 سالہ جسٹس منیب اختر چیف جسٹس عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد سپریم کورٹ کے دوسرے سینئر ترین جج ہوں گے، ان کی ریٹائرمنٹ 13 دسمبر 2028 کو ہونی ہے۔

    جسٹس یحییٰ آفریدی سپریم کورٹ کے تیسرے سینئر ترین جج ہیں، ان کی ریٹائرمنٹ 22 جنوری 2030 کو ہونی ہے۔

    چیف جسٹس کا انتخاب کیسے کیا جائے گا؟ 

    آئینی ترمیم کے مطابق 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی دو تہائی اکثریت سے چیف جسٹس کی نامزدگی کا فیصلہ کرے گی، چیف جسٹس تقرر کمیٹی میں8ارکان اسمبلی اور4سینیٹر شامل ہوں گے۔

    کمیٹی چیف جسٹس کی مدت پوری ہونے سے 14 روز پہلے نئے چیف جسٹس کا نام دے گی، چیف جسٹس کی مدت پوری ہونے سے تین روز پہلے نئے چیف جسٹس کا تقرر کردیا جائےگا۔

    کمیٹی منتخب کردہ نام کو وزیراعظم کو بھجوائے گی، جو نامزدگی کو حتمی منظوری کے لیے صدر کو بھیجے گی۔

    اگر تین سینئر ججوں میں سے کوئی بھی عہدے سے انکار کرتا ہے تو اگلے سینئر جج پر غور کیا جائے گا، چیف جسٹس کی مدت 3 سال ہوگی اور 65 سال کی عمر میں ریٹائر ہوجائیں گے۔

  • پی ٹی آئی اقتدار میں آکر متنازع ترمیم ختم کر دے گی، بیرسٹر سیف

    پی ٹی آئی اقتدار میں آکر متنازع ترمیم ختم کر دے گی، بیرسٹر سیف

    پشاور : مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ حکومت نے رات کی تاریکی میں سپریم کورٹ پرشب خون مارا،پی ٹی آئی اقتدار میں آکر متنازع آئینی ترمیم کاخاتمہ کرے گی۔

    تفصیلات کے مطابق مشیر اطلاعات خیبرپختونخوا بیرسٹر سیف نے 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نےرات کی تاریکی میں سپریم کورٹ پر شب خون مارا، ترامیم کا طریقہ کار خود بتا رہا آئین کی پیٹھ میں چھراگھونپ دیا گیا ہے.

    صوبائی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ جلد بازی میں ترامیم کامقصد سپریم کورٹ فیصلے کےاطلاق سےبچنا ہے، پی ٹی آئی اقتدارمیں آکر متنازع ترمیم ختم کردے گی.

    انھوں نے کہا کہ متنازع آئینی ترمیم کےحق میں ووٹ ڈالنےوالوں کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی، بانی کیساتھ بےوفائی کرنیوالوں کا انجام پچھلے الیکشن میں سب نے دیکھا.

    فسطائیت کا مقابلہ کرنیوالے پی ٹی آئی اراکین کو پوری قوم کا خراج تحسین ہے، وکلابرادری سے متنازع آئینی ترمیم کیخلاف فیصلہ کن معرکے کی اپیل ہے، وکلابرادری پی ٹی آئی کیساتھ مل کرمتنازع آئینی ترمیم اپنےانجام کو پہنچائیں.

  • 26 ویں آئینی ترمیم پر صدر مملکت کے دستخط  ، گزٹ نوٹیفکیشن جاری

    26 ویں آئینی ترمیم پر صدر مملکت کے دستخط ، گزٹ نوٹیفکیشن جاری

    اسلام آباد : صدر آصف زرداری کے دستخط کے بعد آئینی ترمیم کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا اور 26 ویں آئینی ترمیم کا نفاذ ہوگیا۔

    تفصیلات کے مطابق 26 ویں آئینی ترمیم پر صدر آصف زرداری نے دستخط کردیئے ، صدر آصف زرداری کے دستخط کے بعد آئینی ترمیم کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کردیا۔

    گزٹ نوٹیفکیشن کے ذریعے 26 ویں آئینی ترمیم کا نفاذ ہوگیا، آئینی ترمیم کے مطابق نئےچیف جسٹس کا تقرر پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے ہوگا۔

    آرٹیکل 175 اے میں ترمیم سے چیف جسٹس پاکستان کیلئے سپریم کورٹ کے سینئر ترین کی بجائے تین سینئر ججوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا جائے گا۔

    تقرر کمیٹی میں 8 ایم این ایز اور 4 سینیٹرز شامل ہوں گے، کمیٹی چیف جسٹس کی مدت پوری ہونے سے 14 دن پہلے نئے چیف جسٹس کا نام دے گی اور مدت پوری ہونے سے 3 دن پہلے نئے چیف جسٹس کی تقرری کی جائے گی، جس کی معیاد 3 سال ہوگی۔

    مزید پڑھیں : 26 ویں آئینی ترمیم کا بل دستخط کیلئے صدرِ مملکت کو ارسال

    ججز تقرری کے آرٹیکل 175 میں بھی ترمیم کردی گئی، جس کے تحت سپریم کورٹ ججز تعیناتی کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن سے 2 سینیٹرز اور 2 ارکان قومی اسمبلی ہوں گے، پارلیمانی کمیٹی جج کا نام وزیراعظم کو بھیجے گی اور وزیراعظم یہ نام صدر مملکت کو بھیجیں گے۔

    آرٹیکل 191 کے تحت سپریم کورٹ کا آئینی بینچ تشکیل دیا جائے گا، جس میں تمام صوبوں سے برابر ججز تعینات کیے جائیں گے، اور سربراہ سینئر ترین جج کہلائے گا، بینچ، آئین کی تشریح اور آئینی مقدمات سنے گا۔

    آرٹیکل 184 کے تحت از خود نوٹس کا اختیار آئینی بینچز کے پاس ہوگا، آرٹیکل 199 کے تحت ہائیکورٹس اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز نہیں کرسکیں گے، نہ ہی سوموٹو نوٹس لے سکیں گی۔

    ہائیکورٹس میں بھی آئینی بینچز تشکیل دیے جائیں گے، آرٹیکل 209 میں ترمیم کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل نو کی جائے گی، چیف جسٹس پاکستان سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ ہوں گے۔ جبکہ دیگر ارکان میں سپریم کورٹ کے 2 سینئر ترین ججز اور 2 ہائیکورٹس کے چیف جسٹس ہوں گے ۔۔

  • ایوان صدر میں 26 ویں آئینی ترمیم پر دستخط کی تقریب ملتوی

    ایوان صدر میں 26 ویں آئینی ترمیم پر دستخط کی تقریب ملتوی

    اسلام آباد : ایوان صدر میں ہونے والی 26 ویں آئینی ترمیم پر دستخط کی تقریب ملتوی کردی گئی، نئے وقت کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق ایوان صدر میں چھبیسویں آئینی ترمیم پر دستخط کی تقریب ملتوی کر دی گئی۔

    ارکان قومی اسمبلی نے بتایا کہ دستخط کی تقریب ملتوی ہونے سے متعلق آگاہ کر دیا گیا ہے تاہم ایوان صدر میں تقریب کے انعقاد کا نیا وقت نہیں بتایا گیا ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر مملکت آصف زرداری معمول کے مطابق آئینی ترمیم پر دستخط کریں گے، ان کے دستخط کے بعد ترمیم آئین کا حصہ بن جائے گی۔

    ایوان صدرسیکریٹریٹ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ نئے وقت کا اعلان بعد میں کیا جائے گا، ایوان صدرمیں ترمیم پر دستخط کی تقریب آج دن میں کسی وقت ہوگی۔

    اس سے قبل آئینی ترمیم پر صدر مملکت آصف علی زرداری کے دستخط کی تقریب صبح 6 بجے منعقد کی گئی تھی تاہم اب اسے ملتوی کردیا گیا ہے، تقریب کیلئے صبح 8 بجے کے وقت کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔

    یاد رہے حکومت سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی میں بھی دوتہائی اکثریت ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے، قومی اسمبلی میں بھی چھبیسویں آئینی ترمیم کی شق وارمنظوری دی گئی۔

    مزید پڑھیں : قومی اسمبلی میں 26 ویں آئینی ترمیم دوتہائی اکثریت سے منظور

    ترمیم  کے حق میں 225 اراکین نے اور مخالفت میں بارہ اراکین نے ووٹ دیے، ترمیم کی شق وارمنظوری کےدوران تحریک انصاف سمیت اپوزیشن کےاراکین نے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔

    شق وار آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد ڈویژن کے ذریعے ووٹنگ کاعمل مکمل کیا گیا اور قومی اسمبلی کا اجلاس کل شام پانچ بجےتک ملتوی کردیا گیا۔

    خیال رہے وزیر قانون آئینی ترمیم کے اہم نکات بتاتے ہوئے کہا تھا کہ تین سینئرترین ججوں میں سےچیف جسٹس کاانتخاب کیاجائے گا، چیف جسٹس کے منصب کی میعاد تین سال ہوگی، آئینی عدالت کے بجائے آئینی بینچ بنے گا۔

    ان کا کہنا تھا کہ پروپیگنڈا کیا گیا قاضی فائزعیسیٰ کو رکھنے کے لیے یہ سب کیا جا رہا ہے لیکن چیف جسٹس واضح کرچکےتھےتوسیع نہیں چاہتے۔

  • 26 ویں آئینی ترمیم کا بل دستخط کیلئے صدرِ مملکت کو ارسال

    26 ویں آئینی ترمیم کا بل دستخط کیلئے صدرِ مملکت کو ارسال

    اسلام آباد : 26 ویں آئینی ترمیم دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد دستخط کیلئے صدر مملکت کو ارسال کردیا گیا ، صدر کی منظوری کے بعد ترمیم نافد العمل ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق پارلیمان سے پاس ہونے کے بعد 26 ویں آئینی ترمیم کی حتمی منظوری کا مرحلہ مکمل ہوگیا۔

    وزیر اعظم نے چھبیسویں آئینی ترمیم کی توثیق کیلئے صدر کو بھیجی جانیوالی ایڈوائس پر دستخط کر دیئے اور ترمیم پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد وزیر اعظم نے توثیق کیلئے صدر کو ایڈوائس بھیج دی۔

    26 ویں آئینی ترمیم دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد ایوان صدر کو ارسال کردی گئی ہے، قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے بل صدر مملکت کوارسال کیا۔

    صدر آصف زرداری ترمیم کے مسودے پردستخط کرکےمنظوری دیں گے، صدر کی منظوری کے بعد ترمیم نافذ العمل ہوگا۔

    یاد رہے حکومت سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی میں بھی دوتہائی اکثریت ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے، قومی اسمبلی میں بھی چھبیسویں آئینی ترمیم کی شق وارمنظوری دی گئی۔

    مزید پڑھیں : قومی اسمبلی میں 26 ویں آئینی ترمیم دوتہائی اکثریت سے منظور

    ترمیم  کے حق میں 225 اراکین نے اور مخالفت میں بارہ اراکین نے ووٹ دیے، ترمیم کی شق وارمنظوری کےدوران تحریک انصاف سمیت اپوزیشن کےاراکین نے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔

    شق وار آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد ڈویژن کے ذریعے ووٹنگ کاعمل مکمل کیا گیا اور قومی اسمبلی کا اجلاس کل شام پانچ بجےتک ملتوی کردیا گیا۔

    خیال رہے وزیر قانون آئینی ترمیم کے اہم نکات بتاتے ہوئے کہا تھا کہ تین سینئرترین ججوں میں سےچیف جسٹس کاانتخاب کیاجائے گا، چیف جسٹس کے منصب کی میعاد تین سال ہوگی، آئینی عدالت کے بجائے آئینی بینچ بنے گا۔

    ان کا کہنا تھا کہ پروپیگنڈا کیا گیا قاضی فائزعیسیٰ کو رکھنے کے لیے یہ سب کیا جا رہا ہے لیکن چیف جسٹس واضح کرچکےتھےتوسیع نہیں چاہتے۔

  • آئینی ترمیم پر وفاقی وزیر قانون کا تیار کردہ مسودہ سامنے آگیا

    آئینی ترمیم پر وفاقی وزیر قانون کا تیار کردہ مسودہ سامنے آگیا

    اسلام آباد : 26 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے حکومتی ڈرافٹ سامنے آگیا ، جس میں کہا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان کا تقرر پارلیمانی کمیٹی کرے گی جبکہ چیف جسٹس سے سوموٹو نوٹس لینے کا اختیار ختم کرنےکی تجویز دی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آئینی ترمیم کے حوالے سے وزیر قانون کا تیار کردہ مسودہ سامنے آگیا، جس میں آئین کے آرٹیکل 48 کی شق 4 میں ترمیم کی تجویز دی گئی ہے ، جس کے مطابق وزیراعظم کی سربراہی میں کابینہ کی صدر کو بھیجی گئی ایڈوائس کسی فورم پرچیلنج نہیں ہوگی۔

    مسودے میں کہا ہے کہ اوورسیزپاکستانی الیکشن لڑنے کے لئے اہل قراردیئے جائیں گے اور اوورسیز پاکستانی الیکشن میں منتخب ہوتو تین ماہ میں دہری شہریت ختم کردے گا۔

    حکومت نے آئینی ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کی تجویز دی ہے اور کہا پارٹی سربراہ کی ہدایت کے خلاف ووٹ گنا جائے گا اور ہدایت کے خلاف ووٹ کے بعد پارٹی سربراہ کارروائی کرسکے گا۔

    حکومت نے آئین کے آرٹیکل ایک سو گیارہ میں ترمیم کی تجویز بھی دی ،اے جی کیساتھ ایڈوائزر قانونی معاملات پرصوبائی اسمبلی میں بات کرسکے گا۔

    مزید پڑھیں : آئینی ترمیم پر جے یوآئی ف کے مسودے کے اہم نکات سامنے آگئے

    مسودے میں ججز تقرری کے آرٹیکل 175 اے میں ترمیم کی تجویز بھی دی گئی ہے ، جوڈیشل کمیشن ہائیکورٹ ججزکی کارکردگی کا جائزہ لے سکے گا۔

    حکومت سپریم کورٹ میں ججزتقرری کے طریقہ کارمیں بھی ترمیم چاہتی ہے، مسودے کے مطابق سپریم کورٹ ججز تعیناتی کمیٹی میں چار ارکان اسمبلی ہوں گے ، کمیٹی حکومت اور اپوزیشن کے دو دو ارکان پر مشتمل ہوگی، ججز تعیناتی کمیٹی کیلئے ایک سینیٹر،ایک ایم این اے کا نام وزیراعظم دیں گے جبکہ دو نام اپوزیشن لیڈرتجویز کریں گے۔

    مسودے میں کہا گیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی کرے گی، چیف جسٹس کیلئے سینئرترین کے بجائے تین موسٹ سینئرججزمیں کسی ایک کا انتخاب ہوگا، پارلیمنٹری کمیٹی چیف جسٹس کا نام وزیراعظم کوبھیجے گی جو صدر کو سمری بھیجیں گے۔

    حکومتی مسودے کے مطابق چیف جسٹس کی تقرری کمیٹی میں آٹھ ارکان اسمبلی اورچارسینیٹرشامل ہوں گے، چیف جسٹس تقرری پارلیمانی کمیٹی میں جماعتی عددی تناسب سے ارکان شامل ہوں گے ۔ پارلیمانی کمیٹی چیف جسٹس کی مدت پوری ہونے سے چودہ روز پہلے نئے چیف جسٹس کا نام دے گی۔

    مسودے میں مزید کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کی مدت پوری ہونے سے تین روز پہلے نئے چیف جسٹس کی تقرری ہوگی، چیف جسٹس تقرری پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس ان کیمرا ہوگا تاہم دہری شہریت کا حامل شخص سپریم کورٹ آف پاکستان کا جج نہیں بن سکے گا۔

    حکومتی مسودے میں کہنا تھا کہ ہائیکورٹ میں کم ازکم پانچ سال جج رہنے والا ہی سپریم کورٹ کا جج تعینات ہوگا،سپریم کورٹ کا جج بننے کیلئے کم ازکم پندرہ سال ہائیکورٹ میں پریکٹس اور سپریم کورٹ ایڈووکیٹ ہونا لازمی ہوگا۔

    مسودے میں آرٹیکل ایک سو اناسی میں ترمیم کی تجویز بھی دی گئی ،چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت تین سال ہوگی، چیف جسٹس پینسٹھ سال عمر ہوتے ہی مدت سے پہلے ریٹائر ہوجائیں گے جبکہ ساٹھ سال کی عمر میں چیف جسٹس بننے پر تین سال بعد عہدے سے ریٹائر ہونا ہوگا۔

    حکومت نے آرٹیکل 48 میں بھی ترمیم کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت چیف جسٹس کا سو موٹو کا اختیار ختم کرنا ہے تاہم ہائیکورٹ کے جج کے ٹرانسفر کا اختیار سپریم کورٹ کو ہوگا۔

    مسودے میں حکومت نے آئین میں نیا آرٹیکل 199 اے شامل کرنے کی تجویز دی ہے ، جس کے تحت عدلیہ استدعا سے زیادہ کسی آئینی معاملے پر حکم یا تشریح نہیں کرسکتی۔

    حکومتی مسودے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کوٹ میں آئینی بینچ بنانے کی تجویز اور ججز کا تقرر جوڈیشل کمیشن کرے گا، آئینی بینچ میں تمام صوبوں سے برابر ججز تعینات کئے جائیں گے، ترمیم کے بعد آئینی مقدمات آئینی بینچ کو منتقل ہوجائیں گے اور تمام آئینی مقدمات صرف آئینی بینچ ہی سنے گا۔

    حکومت کی آئین کےآرٹیکل 209 میں ترمیم کی تجویز بھی ہے ، چیف جسٹس ،2سینئرترین ججزسپریم جوڈیشل کونسل کے ممبرہوں گے اور 2 ہائیکورٹ چیف جسٹس بھی سپریم جوڈیشل کونسل ممبرہوں گے۔

    اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 215 میں ترمیم کی تجویز دے گئی ہے ، جس کے تحت چیف الیکشن کمشنر مدت ختم ہونے کے بعد 90 دن تک اگلے چیف کی تعیناتی تک عہدے پر رہ سکتے ہیں۔

    تیار کردہ مسودے کے مطابق حکومت نے آئین کے فورتھ شیڈول میں ترمیم ، کینٹونمنٹ کو لوکل ٹیکسز لینے کا اختیار دینے اور آرٹیکل 48 کی شق میں شامل وزرا، مملکتی وزیر کا لفظ ختم کرنے کی تجویز بھی دی ہے۔