Tag: 27 اپریل وفات

  • شوق قدوائی کا تذکرہ جو اپنی مثنویوں‌ کے لیے مشہور تھے

    شوق قدوائی کا تذکرہ جو اپنی مثنویوں‌ کے لیے مشہور تھے

    شوق قدوائی اردو کے معروف شاعر تھے جو اپنی مثنویوں‌ کے لیے مشہور ہیں۔ ان کا انتقال 27 اپریل 1925ء کو ہوا تھا۔ شوق قدوائی کا اصل نام شیخ احمد علی قدوائی تھا اور شوق تخلّص۔ وہ اپنی ملازمت اور سرکاری منصب کی وجہ سے منشی احمد علی کے نام سے بھی مشہور تھے۔

    شوق قدوائی ضلع لکھنؤ کے قصبہ جگور میں 1852ء میں پیدا ہوئے۔ اس زمانے کے دستور کے مطابق اور رائج زبانیں‌ سیکھیں‌۔ وہ فارسی اور عربی جانتے تھے اور انگریزی بھی پڑھی تھی۔

    شوق قدوائی نے مظفر علی اسیر کی شاگردی اختیار کی جو رشتے میں ان کے دادا تھے۔ کچھ مدّت فیض آباد میں تحصیل دار کے فرائض انجام دیے۔ بعد میں ملازمت ترک کرکے صحافت شروع کی۔ انھوں نے لکھنؤ سے اخبار ’’آزاد‘‘ جاری کیا۔ شوق نے ریاست بھوپال میں بھی مختلف عہدوں پر خدمات انجام دی تھیں اور وہیں سے پنشن بھی پاتے تھے۔

    آخر عمر میں رام پور چلے گئے تھے جہاں کتب خانہ سرکاری سے وابستہ رہے۔ انھوں نے غزل کے علاوہ مثنویاں لکھیں‌ اور انھیں شایع کروایا۔ شوق قدوائی کا دیوان ’’فیضانِ شوق‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ انھوں نے گونڈہ میں وفات پائی۔

  • فیروز خان: ہمہ جہت فن کار جو اپنے شاہانہ طرزِ‌ زندگی کے لیے مشہور تھا

    فیروز خان: ہمہ جہت فن کار جو اپنے شاہانہ طرزِ‌ زندگی کے لیے مشہور تھا

    بولی وڈ میں فیروز خان ایک ‘اسٹائل آئیکون’ کے طور پر پہچانے جاتے تھے اور اپنے شاہانہ طرزِ‌ زندگی کے لیے مشہور تھے۔ انھیں ہمہ جہت فن کار کہا جاتا ہے جس نے فلم نگری میں اپنے سفر کے دوران کئی کام یابیاں سمیٹیں۔ انھوں نے 27 اپریل 2009ء کو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی۔

    فیروز خان نے فلمی کیریئر کا آغاز تو دوسرے درجے کی فلموں سے بطور معاون اداکار شروع کیا تھا، لیکن فلم اونچے لوگ میں ان کی لاجواب اداکاری انھیں اوّل درجے کی فلموں تک لے آئی اور وہ آگے بڑھتے چلے گئے۔ فیروز خان خود کو اداکاری تک محدود نہ رکھ سکے۔ وہ فلمیں پروڈیوس کرنے لگے اور بعد میں ہدایت کاری کے شعبے میں قسمت آزمائی۔ فلم سازی سے ہدایت کاری تک فیروز خان نے اپنی صلاحیتوں کو منوایا اور بہ طور فلم ساز و ہدایت کار زیادہ کام یاب ہوئے۔

    ان کی بنائی ہوئی فلم جانباز 1986ء میں‌ نمائش کے لیے پیش کی گئی اور کام یاب رہی، اس کے بعد دیا وان ایک مقبول فلم ثابت ہوئی اور قربانی نے بھی دھوم مچائی۔ یہ وہ فلم تھی جس کا ایک گیت ’آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے تو بات بن جائے…‘ بہت مقبول ہوا۔ یہ گیت پاکستانی پاپ سنگر نازیہ حسن نے گایا تھا، اس گیت کی بدولت پندرہ سالہ نازیہ حسن پاکستان اور بھارت میں شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں کو چھونے لگیں جب کہ فلم نے زبردست کام یابی سمیٹی۔

    فیروز خان کی آخری کامیڈی فلم کا نام ‘ویلکم ‘ تھا۔ 69 سال کی عمر میں وفات پانے والے اس فن کار کو کینسر کا مرض لاحق تھا۔

  • سر عبداللہ ہارون: تحریکِ آزادی کا ایک ناقابلِ فراموش کردار

    سر عبداللہ ہارون: تحریکِ آزادی کا ایک ناقابلِ فراموش کردار

    تحریکِ آزادی اور قائدِ اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مسلمانوں‌ کی سیاسی اور معاشی حالت بہتر بنانے کے لیے بے دریغ مالی مدد کرنے والے حاجی سر عبداللہ ہارون 27 اپریل 1942ء کو وفات پاگئے تھے۔

    سر عبداللہ ہارون نے اقتصادی، تعلیمی، سماجی اور سیاسی شعبوں میں مسلمانوں کے لیے جو خدمات انجام دیں انھیں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ وہ سندھ میں تحریکِ آزادی کے لیے فعال و متحرک کردار ادا کرنے کے ساتھ قائدِ اعظم کے ایک وفادار اور بڑے مددگار کی حیثیت سے اپنا سرمایہ اور دولت خرچ کرتے رہے اور ہر محاذ پر آگے رہے۔

    سر عبداللہ ہارون 1872ء میں ایک میمن گھرانے میں پیدا ہوئے اور شروع ہی سے غربت اور تنگ دستی دیکھی۔ وہ محنتی اور مستقل مزاج تھے اور کم عمری میں کاروبار شروع کردیا۔ ان کی اسی محنت اور لگن نے انھیں کراچی کے مشہور اور امیر تاجروں کی صف میں لاکھڑا کیا۔

    سادگی اور کفایت شعاری ان کا شعار رہا، لیکن دوسری طرف جب بھی سیاسی سرگرمیوں اور تحریکی کاموں کے لیے رقم کی ضرورت پڑی، وہ سب سے آگے نظر آئے۔ درد مند اور مسلمانوں کے خیر خواہ سر حاجی عبداللہ ہارون نے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے کاموں پر دل کھول کر اپنا مال خرچ کیا۔ سیاست کے علاوہ انھوں نے رفاہِ عامہ کے بھی کام کیے اور متعدد مدراس، کالج، مساجد اور یتیم خانے بنوائے۔ وہ مسلم لیگ کا فخر تھے اور جنگِ آزادی و تحریکِ آزادی میں تا دمِ‌ آخر بنیادی کردار ادا کرتے رہے۔

    کراچی میں عبداللہ ہارون کالج ان کی یادگار ہے جب کہ شہر کے قلب اور اہم تجارتی مرکز میں ایک سڑک بھی ان سے موسوم ہے۔

  • یومِ وفات: قراردادِ‌ پاکستان پیش کرنے والے مولوی فضل الحق کو شیرِ‌ بنگال کہا جاتا ہے

    یومِ وفات: قراردادِ‌ پاکستان پیش کرنے والے مولوی فضل الحق کو شیرِ‌ بنگال کہا جاتا ہے

    آج تحریکِ آزادی کے ایک جرأت مند اور بے باک راہ نما اور شیرِ بنگال کے لقب سے یاد کیے جانے والے مولوی فضل الحق کا یومِ وفات منایا جارہا ہے۔ وہ 27 اپریل 1962ء کو اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے تھے۔ انہیں 23 مارچ 1940ء کو لاہور کے تاریخی اجلاس میں قراردادِ پاکستان پیش کرنے کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔

    مولوی ابوالقاسم فضل الحق 26 اکتوبر 1873ء کو پیدا ہوئے تھے۔ 1895ء میں وکالت کے شعبے سے منسلک ہوئے۔ 1912ء میں سیاسی زندگی کا آغاز کیا اور بنگال لیجسلیٹو اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1935ء میں مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن بنے۔ 1937ء میں انہوں نے بنگال کے وزیرِ اعلیٰ کی حیثیت سے عہدے کا حلف اٹھایا اور 1943ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔

    اس دوران لاہور میں مسلم لیگ کا تاریخی اجلاس منعقد ہوا تو مولوی فضل الحق کو وہ تاریخی اہمیت کی حامل قرارداد پیش کرنے کا موقع ملا جسے بعد میں قراردادِ پاکستان کہا گیا اور متحدہ ہندوستان میں آزادی کی تحریک میں‌ نیا جوش و ولولہ پیدا ہوا۔ قیامِ پاکستان کے بعد انہوں نے مشرقی پاکستان کے وزیرِ اعلیٰ اور گورنر اور بعد میں مرکز میں وزیرِ داخلہ کے عہدے پر فرائض انجام دیے۔

    1958ء میں ملک میں مارشل لا کے نفاذ کے بعد وہ عملی سیاست سے ہمیشہ کے لیے دست بردار ہوگئے۔ 1960ء میں حکومتِ پاکستان نے انہیں ہلالِ پاکستان کا اعزاز عطا کیا۔ مولوی فضل الحق ڈھاکا میں آسودۂ خاک ہیں۔