Tag: 27 اکتوبر وفات

  • خدیجہ گائیبووا، جس کی زندگی 15 منٹ کی مختصر عدالتی کارروائی کی ‘نذر’ ہوئی

    خدیجہ گائیبووا، جس کی زندگی 15 منٹ کی مختصر عدالتی کارروائی کی ‘نذر’ ہوئی

    یہ آذر بائیجان کی اُس موسیقی اور پیانو کی ماہر کا تذکرہ ہے جس سے 46 سال کی عمر میں اس کے جینے کا حق چھین لیا گیا تھا۔

    وہ متحدہ روس کی مشہور ریاست جارجیا میں دریا کے کنارے آباد خوب صورت شہر طفلیس (تلبیسی) میں پیدا ہوئی۔ 24 مئی 1893ء کو پیدا ہونے والی خدیجہ گائیبووا کے والد عثمان مفتی زادے مسلمان عالم تھے۔ 18 سال کی عمر میں خدیجہ گائیبووا کی شادی کردی گئی جس کے بعد وہ مسلمانوں‌ کے مقامی اسکول میں پڑھانے لگی۔

    گائیبووا نے 1901ء سے 1911ء کے عرصے میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ پیانو بجانے کی تربیت بھی حاصل کی اور آذربائیجان میں مشرقی اور لوک موسیقی کو نئے اور منفرد رجحانات کے ساتھ شائقین میں مقبول بنایا۔

    وہ اپنے وطن کی پہلی باقاعدہ اور ماہر پیانو نواز تھی جس نے پیانو پر ‘مغم’ (مقامی موسیقی) ادا کرکے مقبولیت حاصل کی پہلی آذربائیجانی موسیقار کی حیثیت سے پہچانی گئی۔ خدیجہ گائیبووا نے پیانو جیسے مشہور ساز کی ترویج اور موسیقی کے فروغ کے لیے بہت کام کیا۔ وہ فنِ موسیقی کے ریاستی ادارے کے بانیوں میں شامل تھی اور بعد میں آذربائیجان اسے مشرقی موسیقی کی تعلیم و فروغ کے شعبے کا سربراہ بنایا گیا۔ ان اداروں سے وابستگی کے دوران گائیبووا نے مقامی عورتوں کو پیانو اور آرٹ کی تعلیم دی اور باقاعدہ میوزک کلاسوں کا اہتمام کیا۔ وہ متحدہ روس اور خطّے میں عظیم سیاسی اور جغرافیائی تبدیلیوں کا دور تھا۔

    اسی زمانے میں انقلابِ روس اور جوزف اسٹالن کی قیادت میں‌ خدیجہ گائیبووا بھی نئی سیاسی و سماجی تنظیم کی تشکیل کا آغاز دیکھ رہی تھی اور وہاں‌ ہر طرف بڑے پیمانے پر مخالفین کی گرفتاریوں اور جاسوسی کے الزام میں انھیں موت کے گھاٹ اتارا جارہا تھا۔

    1933ء میں گائیبووا کو بھی مخبری اور انقلابی سرگرمیوں کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا اور تین ماہ تک نظر بند رکھنے کے بعد رہا کیا گیا۔ جاسوسی کا ثبوت نہ ملنے پر الزامات خارج کردیے گئے اور اگلے ہی سال اسے لوک موسیقی کے محقّق کی حیثیت سے ملازمت بھی مل گئی۔

    اس زمانے میں روس میں‌ علم و ادب اور فنونِ لطیفہ سے متعلق سرگرمیاں بھی عروج پر تھیں اور وہاں غیر ملکی موسیقاروں، شعر اور ادیبوں کے علاوہ مختلف علوم کے ماہرین اور فن کاروں کا آنا جانا بھی لگا رہتا تھا۔ یہ لوگ روس کے اس زمانے کے میوزک "سیلون” میں جمع ہوتے تھے جن میں‌ ترکی کے فن کار اور آرٹ کے شائقین بھی شامل تھے۔ سوویت حکام کو جو اطلاعات ملیں ان کے مطابق ان میں سیاسی اور قیادت مخالف سرگرمیاں انجام دی جارہی ہیں۔ اس نے روس کے ترکی کی حکومت سے تعلقات کو مشکوک بنا دیا۔

    17 مارچ 1938ء کو گائیبووا کو جس پر مسلسل نظر رکھی جارہی تھی، ایک بار پھر گرفتار کرلیا گیا اور اس پر حکومت مخالف جماعت سے تعلقات رکھنے کا الزام لگایا گیا۔ اس سے مسلسل پوچھ گچھ اور پانچ ماہ تک تفتیش جاری رہی جس میں‌ وہ بے قصور ثابت ہوئی، لیکن 19 اکتوبر 1938 کو پندرہ منٹ کی مختصر سماعت کے بعد عدالت نے اسے موت کی سزا سنائی اور 27 اکتوبر کو فائرنگ اسکواڈ نے اسے زندگی کی قید سے آزاد کردیا۔

  • پروفیسر علّامہ عبد العزیز میمن بحیثیت عربی مصنّف و محقّق

    پروفیسر علّامہ عبد العزیز میمن بحیثیت عربی مصنّف و محقّق

    پروفیسر علّامہ عبد العزیز میمن عربی زبان و ادب کے نام وَر عالم اور استاد تھے۔ ان کی عربی دانی کو اہلِ عرب بھی تسلیم کرتے تھے۔

    وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ پنجاب اور کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ عربی کے صدر رہے۔ موصوف عربی لغت کی باریکیوں سے گہری واقفیت رکھتے تھے اور اس میں انھیں استاد مانا جاتا ہے۔

    علّامہ عبد العزیز میمن 23 اکتوبر 1888ء کو راج کوٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے راج کوٹ اور جونا گڑھ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور بعد میں دہلی چلے گئے جہاں اپنے وقت کے جیّد علما اور ممتاز دینی شخصیات کے علاوہ ڈپٹی نذیر احمد سے اکتسابِ علم کا موقع ملا۔ 1913ء میں جامعہ پنجاب سے مولوی فاضل کا امتحان دیا اور پوری یونیورسٹی میں اوّل آئے۔ وہ ایڈورڈ کالج پشاور، اورینٹل کالج لاہور اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ عربی سے بطور استاد وابستہ رہے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد علّامہ صاحب کی کوششوں سے کراچی یونیورسٹی میں شعبۂ عربی قائم ہوا۔ وہ کئی کتابوں کے مصنّف تھے جو ان کی تحقیق اور زبان و ادب سے گہرے شغف اور زورِ قلم کا نتیجہ ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے علّامہ عبد العزیز میمن کی خدمات کے اعتراف میں انھیں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ انھوں نے 27 اکتوبر، 1978ء کو کراچی میں وفات پائی۔

  • علم و ادب میں‌ ممتاز رئیس احمد جعفری کا تذکرہ

    علم و ادب میں‌ ممتاز رئیس احمد جعفری کا تذکرہ

    سید رئیس احمد جعفری اردو کے نام وَر صحافی، مؤرخ، ماہرِ اقبالیات، ناول نگار، مترجم اور سوانح نگار تھے۔ انھوں نے تین سو سے زائد کتب یادگار چھوڑی ہیں جو علم و ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔

    رئیس احمد جعفری 1914ء کو لکھیم پور، اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ندوۃُ العلما، لکھنؤ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی سے تعلیم حاصل کی تھی۔ زمانۂ طالب علمی ہی سے ان کے مضامین مختلف اخبارات و جرائد میں شائع ہونے لگے تھے۔

    1931ء میں مولانا محمد علی جوہر کی وفات کے بعد ان کی سوانح عمری سیرت محمد علی کے نام سے تحریر کی۔ 1934ء میں مولانا شوکت علی نے انھیں روزنامہ خلافت بمبئی کا مدیر مقرر کیا۔ مولانا شوکت علی کی وفات کے بعد وہ روزنامہ ہندوستان اور روزنامہ انقلاب، لاہور جیسے اخبارات کے مدیر رہے۔

    1949ء میں رئیس جعفری پاکستان چلے آئے اور یہاں بھی علم و ادب سے وابستگی برقرار رکھی۔ مطالعہ اور لکھنا ان اوّلین شوق تھا جب کہ صحافت ان کا پیشہ۔ وہ پاکستان آمد کے بعد کئی اخبارات اور جرائد کے مدیر اور نائب مدیر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔

    رئیس احمد جعفری کی تصانیف، تراجم اور تالیفات کی تعداد 300 سے زائد ہے جن میں اقبال اور عشق رسول، دیدو شنید، علی برادران، اوراق گم گشتہ، اقبال اور سیاست ملی، واجد علی شاہ اور ان کا عہد، تاریخِ تصوّف، تاریخ دولت فاطمیہ اور بہادر شاہ ظفر اور ان کا عہد زیادہ مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ دل کے آنسو (افسانے)، تاریخِ خوارج، تاریخِ تصوّف، شہاب الدین غوری، خون کی ہولی (ناول)، اسلام اور رواداری، اسلام اور عدل و احسان جیسی کتب ان کی علم و ادب اور تاریخ سے شغف اور استعداد کا نمونہ ہیں۔

    حکومت پاکستان نے رئیس احمد جعفری کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انھیں صدارتی اعزاز برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا۔

    انھوں نے 27 اکتوبر 1968ء کو وفات پائی اور سوسائٹی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • معروف افسانہ نگار اور شاعرہ وحیدہ نسیم کا تذکرہ

    معروف افسانہ نگار اور شاعرہ وحیدہ نسیم کا تذکرہ

    اردو کی ممتاز افسانہ و ناول نگار اور شاعرہ وحیدہ نسیم کا آج یومِ وفات ہے۔

    وحیدہ نسیم 9 ستمبر 1927ء کو اورنگ آباد، حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئیں اور ہجرت کرکے کراچی آبسیں۔ انھوں نے عثمانیہ گرلز کالج حیدرآباد دکن سے 1951ء میں ایم ایس سی کیا اور 1952ء میں پاکستان منتقل ہوگئیں۔ نباتیات ان کی مہارت کا مضمون تھا اور یہاں وہ اسی کی تدریس سے وابستہ تھیں۔ وہ 1987ء میں کراچی کے ایک کالج سے پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائر ہوئیں۔

    اپنی ملازمت کے ساتھ انھوں نے یہاں اپنا تخلیقی سفر اور ادبی سرگرمیاں‌ جاری رکھیں۔ وہ شاعرہ، ناول و افسانہ نگار اور محقّق بھی تھیں۔ انھوں نے جس دور میں اپنی شاعری کا آغاز کیا وہ ترقی پسند ادب کے عروج کا زمانہ تھا۔ انھیں شاعرہ کی حیثیت سے مقبولیت ملی جب کہ ان کے افسانے بھی پسند کیے گئے۔

    وحیدہ نسیم متعدد کتابوں کی مصنف تھیں جن میں ’موجِ نسیم‘، ’نعت و سلام‘، ’مرثیہ کاکوری‘ (شاعری)۔ ’ناگ منی‘ ،’راج محل‘، ’رنگ محل‘ اور’دیپ‘ (افسانوی مجموعے) تھے۔ ان کی دیگر مشہور تصانیف میں ’اورنگ آباد: ’ملک عنبر سے اورنگ زیب تک‘، ’عورت اور اردو زبان(تحقیق)‘ اور ’شاہان ہے تاج‘ (تنقید) شامل ہیں۔ ’داستاں در داستاں‘، ’ساحل کی تمنا‘، ’غم دل کہا نہ جائے‘، ’شبو رانی‘، ’زخم حیات‘ بھی ان کی مشہور کتب ہیں۔

    وحیدہ نسیم نے پاکستان ٹیلی وژن کے لیے متعدد ڈرامے بھی تحریر کیے۔ اردو زبان کی اس ادیب اور شاعرہ کی ایک کہانی پر ناگ منی نامی فلم بھی بنائی گئی تھی۔

  • یومِ وفات: حیاتُ الحیوان علّامہ کمال الدین دمیری کی شاہ کار تصنیف ہے

    یومِ وفات: حیاتُ الحیوان علّامہ کمال الدین دمیری کی شاہ کار تصنیف ہے

    شہرہ آفاق اور شاہ کار کتابوں میں “حیاتُ الحیوان” آج بھی سرِ فہرست ہے جو علّامہ کمال الدّین دمیری کی تصنیف ہے۔ وہ مصری محدّث، محقّق اور عالم تھے جن کا آج یومَِ وفات ہے۔ تاریخ میں‌ علامہ کمال الدّین دمیری کا نام ماہرِ حیوانات کے طور پر محفوظ ہے۔

    دمیری کی کنیت “ابوالبقا” ہے، جن کا وطن مصر تھا۔ مؤرخین اور تذکرہ نویسوں نے ان کا سنِ‌ پیدائش 1349ء بتایا ہے۔ انھوں نے “دمیرہ” نامی علاقے میں آنکھ کھولی۔ علاّمہ کے حالاتِ زندگی پر دست یاب معلومات کے مطابق انھوں نے ابتدائی اور اس دور کے مطابق تمام ضروری تعلیم قاہرہ سے حاصل کی، اس کے بعد جامعہ ازہر میں درس و تدریس میں مصروف ہو گئے۔

    وہ اپنے وقت کے ایک پرہیز گار اور عالم فاضل مشہور تھے۔ ان کی زندگی کا کچھ عرصہ مکہ میں بھی گزرا اور وہ وہاں‌ بھی درس و تدریس میں مصروف رہے۔

    عّلامہ دمیری نے مختلف علوم کی تحصیل میں اپنے وقت کی باکمال اور نام ور شخصیات سے استفادہ کیا۔

    ان کی مشہورِ زمانہ تصنیف میں جانوروں کے خصائل اور خصوصیات ہی نہیں بلکہ ان کی شرعی حلّت، ان کے چیدہ چیدہ طبی فوائد سے بھی بحث کی گئی ہے جو ان کے علم کا ثبوت اور ان کی تحقیق و ریاضت نمونہ ہے۔ حیاتُ الحیوان ایک مفصّل کتاب ہے جس میں 1069 جانوروں کا ذِکر کیا گیا ہے۔

    تاریخی کتب میں اپنے وقت کے اس جیّد عالم کی وفات کی تاریخ 27 اکتوبر اور سن 1405ء تحریر ہے۔ ان کا انتقال قاہرہ میں ہوا اور مقبرہ الصوفیہ سعید السعد میں آسودہ خاک ہوئے۔

  • یومِ‌ وفات: ممتاز مفتی نے اپنی کہانیوں کے کرداروں کے باطن کو موضوع بنایا اور قارئین میں مقبول ہوئے

    یومِ‌ وفات: ممتاز مفتی نے اپنی کہانیوں کے کرداروں کے باطن کو موضوع بنایا اور قارئین میں مقبول ہوئے

    اردو ادب میں اپنے افسانوں اور ناول نگاری کے سبب پہچان بنانے والے ممتاز مفتی کو ان کے سفر ناموں کی بدولت بے پناہ مقبولیت ملی۔ وہ اپنی ڈراما نگاری اور خاکہ نویسی کے لیے بھی مشہور ہیں۔ آج ممتاز مفتی کی برسی ہے۔

    ممتاز مفتی اردو افسانے کی روایت میں ایک اہم افسانہ نگار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انھوں نے موضوع، مواد اور تکنیک کے اعتبار سے کئی تجربے کیے۔ ان کے افسانوں کا موضوع گمبھیر نفسیاتی مسائل اور عام زندگی کی مشکلات ہیں۔ ’علی پور کا ایلی‘ ممتاز مفتی کا ایک ضخیم ناول ہے جسے بہت سراہا گیا اور قارئین میں بے حد مقبول ہوا۔

    ممتاز مفتی کا اصل نام ممتاز حسین تھا۔ وہ 11 ستمبر 1905ء کو بٹالہ، ضلع گورداس پور میں‌ پیدا ہوئے۔ لاہور سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ ممتاز مفتی کا پہلا افسانہ 1936ء میں شائع ہوا تھا۔

    ممتاز مفتی کا ناول ’’الکھ نگری‘‘ بھی قارئین میں بہت مقبول ہوا جب کہ سفر نامے ’’لبیک‘‘ اور ’’ہند یاترا‘‘ کو بہت پزیرائی ملی۔ ان کے خاکوں کے مجموعے پیاز کے چھلکے، اوکھے لوگ، اور اوکھے لوگ کے نام سے شایع ہوئے۔ ممتاز مفتی کے افسانے ان کہی، گہما گہمی، چپ، روغنی پتلے اور سمے کا بندھن کے نام سے کتابی شکل میں منظرِ عام پر آئے۔
    انھوں نے انشائیے بھی لکھے اور ’غبارے ‘ کے نام سے ان کے انشائیوں کا مجموعہ بہت پسند کیا گیا۔

    27 اکتوبر 1995ء کو ممتاز مفتی نے اس دارِ فانی کو الوداع کہا، وہ اسلام آباد کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے ادبی خدمات کے اعتراف میں ممتاز مفتی کو ستارۂ امتیاز سے نوازا۔

  • ملکۂ جذبات نیّر سلطانہ کی برسی

    ملکۂ جذبات نیّر سلطانہ کی برسی

    نیّر سلطانہ کو ملکۂ جذبات کہا جاتا ہے جنھوں نے پاکستان کی فلم انڈسٹری میں اپنے فنِ اداکاری سے نام و مقام بنایا اور ہیروئن سے لے کر کریکٹر ایکٹریس تک ہر کردار کو نہایت خوبی اور کمال سے نبھایا۔ آج نیّر سلطانہ کی برسی ہے۔

    اس اداکارہ کا اصل نام طیّبہ بانو تھا۔ وہ 1937ء میں علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ ویمن کالج علی گڑھ میں تعلیم حاصل کی اور قیامِ پاکستان کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کرکے کراچی آگئیں۔

    نیّر سلطانہ نے فلم انڈسٹری میں اپنے وقت کے نام وَر ہدایت کار انور کمال پاشا کے کہنے پر قدم رکھا جن سے نیّر سلطانہ کی ملاقات لاہور میں ہوئی تھی۔ انور کمال پاشا نے انھیں فلموں‌ میں‌ کام کرنے کی پیش کش کی اور یوں نیّر سلطانہ نے بڑے پردے پر اپنے سفر کا آغاز کیا۔

    نیّر سلطانہ خوب صورت اور خوش قامت تھیں۔ وہ ایسی فن کار تھیں جنھیں فنونِ لطیفہ خاص طور پر اردو ادب سے گہرا لگاؤ تھا۔ انور کمال پاشا ان کی فن و ادب میں اسی دل چسپی اور ان کی گفتگو سے پہلی ہی ملاقات میں بہت متاثر ہوئے تھے۔ بعد کے برسوں میں ثابت ہوگیا کہ انور کمال پاشا کا انتخاب غلط نہ تھا۔

    اس اداکارہ کی پہلی فلم ’’قاتل‘‘ تھی اور یہ انور کمال پاشا کا پروجیکٹ تھا۔ 1955 میں نیّر سلطانہ نے ہمایوں مرزا کی فلم ’’انتخاب‘‘ میں کام کیا اور پھر اگلی چار دہائیوں‌ تک ان کا یہ سفر جاری رہا۔ 70ء کی دہائی کے آغاز میں انھیں کریکٹر ایکٹریس کی حیثیت سے فلم نگری میں‌ کام ملنے لگا اور وہ اپنی اداکاری سے شائقین کو محظوظ کرتی رہیں۔ انھیں المیہ اور طربیہ کرداروں‌ کو نبھانے میں کمال حاصل تھا۔ اسی لیے انھیں ملکہ جذبات کہا جانے لگا تھا۔

    پاکستانی فلمی صنعت کے سنہرے دور میں ان کی مشہور فلموں میں ’’اولاد، ایاز، خیبر میل، پہچان، باجی، دیو داس، کورا کاغذ اور گھونگھٹ‘‘ شامل ہیں۔ نیر سلطانہ نے مجموعی طور پر 216 فلموں میں کام کیا جن میں اردو میں 140 فلمیں، 49 پنجابی زبان کی فلمیں شامل ہیں۔ ان کی یادگار فلموں کی فہرست دیکھی جائے تو اس میں سہیلی، ماں کے آنسو اور ایک مسافر ایک حسینہ کے نام سامنے آئیں‌ گے۔

    نیّر سلطانہ نے پاکستان کے مشہور اداکار درپن سے شادی کی تھی۔ اس خوب صورت اور باکمال اداکارہ کو سرطان کا مرض لاحق تھا۔ 27 اکتوبر 1992ء کو نیّر سلطانہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئیں۔