Tag: 27 اگست وفات

  • لارڈ ماؤنٹ بیٹن: آخری وائسرائے ہند جو بم دھماکے میں زندگی کی بازی ہار گئے

    لارڈ ماؤنٹ بیٹن: آخری وائسرائے ہند جو بم دھماکے میں زندگی کی بازی ہار گئے

    برصغیر کی تاریخ میں تقسیمِ ہند کے فیصلے نے آلام و مصائب کا ایک ایسا طوفان کھڑا کر دیا جس کی مثال نہیں ملتی۔ 1947ء میں بٹوارے کا اعلان ہوا تو بھارت اور پاکستان کے نام سے دو آزاد ممالک کو دنیا کے نقشے پر جگہ ملی جن کی سرحدوں کے اندر لاکھوں انسانوں کی لاشیں بے گور و کفن پڑی تھیں۔

    تقسیم کے اعلان ساتھ ہی ہندو مسلم فسادات کا جو سلسلہ شروع ہوا، اسے روکنے کے لیے کوئی اہم قدم نہیں اٹھایا گیا۔ ہندوستان اس وقت برطانیہ کی سب سے بڑی نوآبادی تھی جس کا آخری وائسرئے لارڈ ماؤنٹ بیٹن تھا۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ تقسیمِ ہند کا اعلان عجلت میں کیا گیا اور ماؤنٹ بیٹن نے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے پوری نہیں کیں جب کہ اس کی جانب داری اور جھکاؤ کی وجہ سے کئی مسلم اکثریتی علاقے بھی بھارت میں شامل کردیے گئے تھے۔

    لارڈ ماؤنٹ بیٹن 1979ء میں آج ہی کے دن مغربی آئرلینڈ میں بم دھماکے کے نتیجے میں شدید زخمی ہونے کے بعد زندگی کی بازی ہار گیا تھا۔

    ماؤنٹ بیٹن 25 جون 1900ء کو ونڈسر برکشائر، انگلینڈ میں‌ پیدا ہوا۔ وہ برطانیہ کے شاہی خاندان کا فرد تھا۔ وہ ایک سیاست دان اور بحریہ کا اعلیٰ ترین عہدے دار تھا جس نے جنگِ عظیم، نوآبادیات سے لے ہندوستان میں بٹوارے تک تاجِ برطانیہ کے لیے خدمات انجام دیں۔

    ملکہ کے منتخب نمائندے کی حیثیت سے ماؤنٹ بیٹن نے 24 مارچ 1947ء کو ہندوستان میں اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد تمام بااثر اور اہم سیاسی شخصیات سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا جس میں قائدِاعظم نے اپنا مؤقف واضح کرتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ ایک آزاد اور خود مختار پاکستان چاہتے ہیں۔ دوسری طرف کانگریسی لیڈروں نے وائسرائے ہند سے ملاقاتیں کیں اور وائسرائے پر واضح ہو گیا کہ ہندوستان کی تقسیم کا اعلان کیے بغیر یہاں سے واپسی مشکل ہوگی۔

    3 جون 1947ء کو آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے ساتھ تاریخی مذاکرات کے بعد لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنے منصوبے کا اعلان کیا اور تقسیمِ ہند عمل میں آئی۔

    ماؤنٹ بیٹن کی موت کا واقعہ شمالی آئرلینڈ کے ہنگامہ خیز دنوں میں پیش آیا۔ وہاں شمالی آئر لینڈ کے برطانوی بادشاہت کے زیرِ نگیں رہنے یا خودمختار آئر لینڈ کا تنازع چل رہا تھا۔ برطانوی دستوں اور آزادی کے حامیوں میں تصادم کا سلسلہ جاری تھا اور ماؤنٹ بیٹن کے قتل کی ذمہ داری آئرش ری پبلکن آرمی نے قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ہمارے ملک پر قبضے کی کوشش کے خلاف کیا گیا ہے۔

    ماؤنٹ بیٹن مغربی آئرلینڈ میں چھٹی کے روز سیر و تفریح اور شکار کی غرض سے موجود تھے۔ 79 سالہ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ ان کی بڑی بیٹی اور اس کا شوہر، نواسے اور خاندان کے چند دیگر افراد سمیت عملہ بھی موجود تھا۔ ماؤنٹ بیٹن اور اہلِ خانہ دریا کی سیر کے لیے لکڑی کی کشتی پر سوار تھے کہ اس میں خفیہ طور پر نصب کیا گیا بم پھٹ گیا۔ ماؤنٹ بیٹن کو پانی سے زندہ نکال لیا گیا تھا، لیکن کہا جاتا ہے کہ بارود کے سبب ان کی ٹانگیں بُری طرح زخمی ہوگئی تھیں اور وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔

  • اردو ادب میں جدید رجحانات متعارف کروانے والے قمر جمیل کا یومِ وفات

    اردو ادب میں جدید رجحانات متعارف کروانے والے قمر جمیل کا یومِ وفات

    قمر جمیل اردو ادب میں جدید رجحانات متعارف کرانے کے لیے مشہور ہوئے اور انھیں‌ نثری نظم کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ پاکستان کے معروف نقّاد، ادیب، شاعر اور مدیر تھے جن کی آج برسی ہے۔

    قمر جمیل نے حیدرآباد دکن میں 10 مئی 1927ء کو آنکھ کھولی۔ وہ تقسیم کے بعد پاکستان چلے آئے تھے۔ شروع ہی سے مطالعہ اور ادب کا شوق تھا جس نے انھیں خود بھی لکھنے لکھانے پر مائل کیا اور بعد کے برسوں‌ میں ادبی دنیا میں انھوں نے اپنی شناخت اور الگ پہچان بنائی۔

    وہ طویل عرصے تک ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔ قمر جمیل نے نثری نظم کی تحریک کا کراچی سے آغاز کیا تو ادیب اور شاعر اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور ان کی اس تحریک نے تخلیق کے میدان میں ایک نئے رجحان کو جنم دیا۔

    قمر جمیل کی زندگی میں ان کے دو شعری مجموعے خواب نما اور چہار خواب شائع ہوئے جب کہ دو جلدوں پر مشتمل تنقیدی مضامین کا مجموعہ جدید ادب کی سرحدیں ان کی وفات سے کچھ عرصے قبل شائع ہوا تھا۔ وہ اردو کے علاوہ انگریزی ادب سے بھی لگاؤ رکھتے تھے۔ عالمی ادب کا مطالعہ اور نئے افکار و رجحانات پر ان کی گہری نظر تھی۔

    دریافت کے نام سے قمر جمیل نے ایک ادبی جریدہ بھی جاری کیا تھا۔

    27 اگست سن 2000ء کو کراچی میں وفات پانے والے قمر جمیل کو عزیز آباد کے قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔ ان کا ایک مشہور شعر ملاحظہ کیجیے۔

    ایک پتھر جو دستِ یار میں ہے
    پھول بننے کے انتظار میں ہے

  • یومِ وفات: فانی بدایونی نے اپنی شاعری میں شدّتِ غم کو درجۂ کمال تک پہنچایا

    یومِ وفات: فانی بدایونی نے اپنی شاعری میں شدّتِ غم کو درجۂ کمال تک پہنچایا

    1941ء میں‌ آج ہی کے روز اس جہانِ فانی سے کوچ کرجانے والے اردو کے نام وَر شاعر شوکت علی خان کا تخلّص بھی فانیؔ تھا۔ وہ اپنی حزنیہ شاعری کے لیے مشہور ہیں۔ ان کا کلام ہجر کی وارداتوں، غمِ روزگار، رنج و الم کے موضوعات سے بھرا ہوا ہے۔

    کہتے ہیں کہ فانیؔ نے اردو شاعری میں شدّتِ غم کو درجۂ کمال تک پہنچایا۔ وہ 1879ء میں پیدا ہوئے۔ اپنے شہر کی نسبت بدایونی کا لاحقہ استعمال کیا۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی اور بعد میں مکتب گئے۔ 1892ء میں گورنمنٹ اسکول میں داخلہ لیا اور انٹرنس کا امتحان پاس کرنے کے بعد بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ فانی نے گیارہ بارہ سال کی عمر میں شاعری شروع کر دی تھی۔

    کالج کے زمانے میں شغل جاری رہا اور احباب و مختلف حلقوں میں‌ کلام سنانے لگے۔ بعد میں‌ وکالت پڑھ کر لکھنؤ میں پریکٹس کرنے لگے، لیکن پھر والد اور چند اعزّہ کے انتقال کے بعد ان کا ہر کام سے گویا دل اچاٹ ہوگیا اور معاش کے حوالے سے تنگی کا سامنا رہنے لگا جس نے انھیں یاسیت کی طرف دھکیل دیا۔ اسی عرصے میں غمِ جاناں نے بھی آ گھیرا اور ناکامی کے بعد بری طرح ٹوٹ گئے۔

    فانی نے شہر شہر کی خاک چھانی اور معاش کی خاطر جگہ جگہ قسمت آزماتے رہے۔ آخر فانی حیدر آباد دکن پہنچ گئے جہاں دربار سے اداروں تک عالم فاضل شخصیات کی قدر افزائی کی جاتی تھی اور نظام دکن کی جانب سے وظیفہ دیا جاتا تھا دکن میں فانی اچھے برے دن کاٹ کر دنیا سے چلے گئے۔ ان کے کئی اشعار ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔

    ہر نفس عمرِ گزشتہ کی ہے میّت فانیؔ
    زندگی نام ہے مر مر کے جیے جانے کا

    یہ مقطع ان کی پیشِ نظر غزل کا حاصل ہے۔ اسی غزل میں ایک اور مقطع بھی شامل ہے جو بہت مشہور ہے، ملاحظہ ہو

    اِک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
    زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا

    زندگی بھی تو پشیماں ہے یہاں لا کے مجھے
    ڈھونڈتی ہے کوئی حیلہ مرے مَر جانے کا

    ہڈیاں ہیں کئی لپٹی ہوئی زنجیروں میں
    لیے جاتے ہیں جنازہ ترے دیوانے کا

    ہم نے چھانی ہیں بہت دیر و حرم کی گلیاں
    کہیں پایا نہ ٹھکانا ترے دیوانے کا

    کہتے ہیں کیا ہی مزے کا ہے فسانہ فانیؔ
    آپ کی جان سے دور آپ کے مر جانے کا