Tag: 27 جنوری وفات

  • مغل شہنشاہ نصیر الدّین ہمایوں، موٹو اور اس کی بھینس!

    مغل شہنشاہ نصیر الدّین ہمایوں، موٹو اور اس کی بھینس!

    نصیر الدّین ہمایوں مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدّین بابر کا بیٹا تھا۔ وہ اپنے والد کی وفات کے بعد تخت پر شہنشاہِ‌ ہند کی حیثیت سے تخت نشیں ہوا۔

    وہ 1508ء میں‌ پیدا ہوا تھا۔ اس کی ماں کا نام ماہم بیگم تھا۔ ہمایوں نے ترکی، فارسی اور عربی زبانوں کی تعلیم حاصل کی۔ وہ فلسفہ، علمِ نجوم و فلکیات میں خصوصی دل چسپی رکھا تھا۔ 20 سال کی عمر میں وہ بدخشاں کا گورنر مقرر ہوا اور فوج کے ساتھ لڑائیوں میں بھی شریک رہا۔ 1530ء میں‌ وہ شہنشاہِ‌ ہند بنا، لیکن سلطنت کو سنبھال نہ سکا۔ اس کے مختلف اسباب ہیں۔ ہمایوں 1556ء میں‌ آج ہی کے دن اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگیا تھا۔

    کہتے ہیں اس کی موت سیڑھیوں سے گرنے کے سبب واقع ہوئی تھی۔ اسی مناسبت سے مشہور یورپی مؤرخ لین پول نے لکھا،“ اس نے تمام عمر ٹھوکریں کھائیں اور بالآخر ٹھوکر کھا کر مرا۔“ یہاں‌ ہم اردو کے ممتاز نقّاد اور ادیب شکیل الرّحمٰن کی نصیر الدّین ہمایوں سے متعلق ایک کہانی نقل کررہے ہیں جو دراصل بچّوں کے لیے لکھی گئی تھی۔ انھوں نے ہندوستان کے کئی بادشاہوں سے متعلق واقعات کو بچّوں کے لیے نہایت دل چسپ انداز میں رقم کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ہندوستان کے مشہور مغل بادشاہ ہمایوں کی امّاں کا نام ماہم بیگم تھا، ہمایوں کے والد شہنشاہ ظہیر الدین بابر نے اپنی رفیقۂ حیات کو شادی کے بعد ہی سے ماہم کہنا شروع کر دیا تھا یعنی ’چاند۔’ بہت ہی خوب صورت تھیں نا ہمایوں کی امّاں، اسی لیے! ننھا ہمایوں بیمار ہوتا تو لگتا امّاں بی خود بیمار ہو گئی ہیں، دن رات اپنے پیارے بیٹے کی دیکھ بھال کرتی تھیں، آگرہ کے لوگ ماہم بیگم کی بہت عزّت کرتے تھے اور سب اُنھیں پیار سے امّاں کہتے تھے۔

    امّاں ماہم بیگم بھی شہر کے لوگوں کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ ہر تہوار پر، وہ تہوار ہندوؤں کا ہو یا مسلمانوں کا، پورے قلعے پر چراغ روشن کراتیں، مٹھائیاں تقسیم کراتیں، شہر بھر کے بچّوں کو بلاتیں تاکہ وہ ننّھے ہمایوں کے پاس آ کر کھیلیں اور خوب مٹھائیاں کھائیں۔

    اماّں ماہم بیگم کو بچّوں سے بے حد پیار تھا، قلعے میں جو بچّے آتے اُن میں ایک بہت ہی پیارا سا بچّہ تھا موٹو۔ بہت موٹا تھا اور خوب کھاتا تھا اسی لیے اس کا نام موٹو ہو گیا تھا۔ امّاں ماہم بیگم اور ہمایوں دونوں موٹو کو بہت پسند کرتے تھے۔ ننھّا موٹو اکثر آتا اور ہمایوں کے ساتھ کھیلتا، دونوں دوست بن گئے تھے۔ ہاں، ہمایوں اکثر کہتا ’’موٹو کھانا کم کھایا کر ورنہ پیٹ پھٹ جائے گا۔‘‘

    موٹو کے باپ کا نام ہیرا تھا جو دودھ فروخت کیا کرتا تھا اور اُسی سے گزارا کرتا تھا، ننھّے موٹو کی سب سے اچھی سواری بھینس تھی، وہ دن بھر بھینس کے اوپر بیٹھ کر اپنے پتا جی کی بھینسوں کو چراتا تھا، ندی پار جو کھیت تھا موٹو وہیں اپنی بھینسوں کو چراتا تھا اور ننّھا ہمایوں اور اس کی امّاں ماہم بیگم دونوں قلعے کے اوپر سے بہت دور سے اسے دیکھتے اور خوش ہوتے تھے۔ موٹو کو قلعے میں اتنا پیار ملا کہ اس کے آنے جانے کی کسی قسم کی رکاوٹ نہ تھی۔ وہ جب چاہتا ننھّے ہمایوں سے ملنے آ جاتا، امّاں ماہم بیگم اسے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتیں، اسی طرح کہ جس طرح اپنے بیٹے ہمایوں کو کھلاتی تھیں۔

    آہستہ آہستہ ہمایوں اور موٹو دونوں بڑے ہوتے گئے۔ وقت تیزی سے گزرتا گیا، ایک دن ہمایوں نے ضد کی کہ وہ موٹو کے ساتھ کھیت پر جائے گا اور موٹو کی طرح کسی بھینس پر بیٹھے گا۔ ہمایوں شہزادہ تھا۔ بہت اچھا گھڑ سوار بن رہا تھا، لیکن بھینس پر بھی بیٹھنا چاہتا تھا۔ امّاں ماہم بیگم نے اجازت دے دی، ہمایوں بہت خوش ہو گیا۔ چند سپاہیوں کی نگرانی میں کھیت پر پہنچا۔ موٹو اپنی بھینس پر لیٹا مستی مار رہا تھا۔ موٹو ہمایوں کو دیکھ کر بہت خوش ہو گیا۔ بھینس سے نیچے اتر آیا اور سپاہیوں کی مدد سے ہمایوں بھینس پر چڑھ گیا۔ اب تو اس کی خوشی مت پوچھو، اسے یہ سواری بہت اچھی لگ رہی تھی۔ موٹو دوسری بھینس پر بیٹھ گیا اور دونوں مست کھیلتے رہے۔ جب خوب کھیل چکے تو اپنی اپنی بھینسوں سے نیچے اترے۔

    ایسا ہوا بچّو کہ ہمایوں جیسے نیچے اترا ایک زہریلے سانپ نے اسے ڈس لیا اور ہمایوں کی حالت خراب ہونے لگی۔ سپاہیوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کریں۔ موٹو نے جب اپنے دوست کی یہ حالت دیکھی تو فوراً اپنی قمیص پھاڑ ڈالی اور ہمایوں کی ٹانگ پر زخم کے اوپر نیچے دو پٹیاں کس کر باندھ دیں تاکہ زہر نہ پھیلے۔ موٹو کی تیزی اور چستی دیکھ کر سپاہی بھی حیران رہ گئے۔

    ہمایوں کو قلعہ لایا گیا۔ موٹو بھی ساتھ ساتھ آیا۔ شاہی حکیم صاحب آئے، انھوں نے علاج کیا اور ہمایوں اچھا ہو گیا۔ شاہی حکیم صاحب نے امّاں ماہم بیگم سے کہا ’’اگر موٹو نے اس وقت ہمایوں کے پاؤں پر پٹیاں نہ باندھی ہوتیں تو زہر پورے جسم میں پھیل جاتا۔ یہ بھینس والا موٹو بہت ذہین اور ہوشیار ہے۔‘‘

    امّاں ماہم بیگم اور شہنشاہ بابر دونوں موٹو سے بہت خوش ہوئے۔ موٹو کو اپنے قلعے میں رکھ لیا، اس کی تعلیم تربیت کا انتظام کیا اور اس کا ہر طرح سے خیال رکھنا شروع کیا۔

    جب شہنشاہ بابر کا انتقال ہو گیا اور ہمایوں بادشاہ بنا تو امّاں ماہم بیگم نے ہمایوں کو یاد دلایا کہ کس طرح کھیت میں ناگ نے اسے کاٹا تھا اور کس طرح موٹو نے پٹیاں باندھ کر اس کی زندگی بچائی تھی۔ ہمایوں کو واقعہ یاد تھا، وہ موٹو کو بہت پیار کرتا تھا اور اسے اپنا دوست سمجھتا تھا۔ ہمایوں نے پوچھا ’’امّاں بیگم میں موٹو کے لیے کیا کروں؟‘‘

    امّاں بیگم نے کہا، ’’موٹو کو اپنا ذاتی سپہ سالار بنا لو، وہ تمھارا سچّا دوست ہے۔‘‘

    ہمایوں نے فوراً حکم نامہ جاری کیا۔ موٹو شہنشاہ ہمایوں کا ذاتی سپہ سالار بن گیا۔ امّاں بیگم بہت خوش ہوئیں اور اپنے دونوں بیٹوں کو خوب پیار کیا۔

    ہمایوں نے موٹو سے کہا، ’’دیکھو موٹو کھانا زیادہ کھاؤ گے تو اور بھی موٹے ہو جاؤ گے، دوڑ میں سپاہی آگے نکل جائیں گے اور سپہ سالار پیچھے رہ جائے گا۔‘‘ سب ہنسنے لگے۔

    جانتے ہو بچوّ، یہی موٹو سپہ سالار بساون کے نام سے مشہور ہوا اور جانے کتنے دشمنوں کو شاہی فوج کا سردار بن کر شکست دی۔ ہمایوں اور بساون عرف موٹو کے پیار کی کہانی بھلا کون بھول سکتا ہے!

  • پاکستان کے نام وَر مصوّر اور خطّاط شاکر علی کی برسی

    پاکستان کے نام وَر مصوّر اور خطّاط شاکر علی کی برسی

    شاکر علی پاکستان کے ممتاز مصوّر تھے جو 27 جنوری 1975ء کو اس جہانِ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوئے۔ انھیں پاکستان میں تجریدی مصوّری کا بانی کہا جاتا ہے۔ شاکر علی خطّاطی کے فن میں جدّت اور اپنے تجربات کے لیے بھی مشہور ہوئے۔

    نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے پرنسپل کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے شاکر علی کا وطن رام پور تھا جہاں انھوں نے 6 مارچ 1914ء کو آنکھ کھولی۔ مصوّری کی ابتدائی تعلیم جے جے اسکول آف آرٹس، بمبئی سے حاصل کی اور بعد میں برطانیہ سے فن مصوّری کا تین سالہ کورس مکمل کیا۔ مصوّری کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ وہ کچھ عرصہ فرانس کے ممتاز مصوّر آندرے لاہوتے (Andre L’Hote) کے زیرِ تربیت بھی رہے اور ان سے بہت کچھ سیکھا۔

    1951ء میں پاکستان آنے کے بعد شاکر علی لاہور کے میو اسکول آف آرٹس سے وابستہ ہوگئے جسے آج نیشنل کالج آف آرٹس کہا جاتا ہے۔ 1961ء میں وہ اس کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے اور اپنی وفات سے دو برس قبل تک 1973ء اسی عہدے پر فائز رہے۔

    شاکر علی نے آیاتِ قرآنی کو تجریدی انداز میں کینوس پر اتارنے کا جو سلسلہ شروع کیا اس سے متاثر ہوکر پاکستان کے دیگر نام ور مصوّروں جن میں‌ حنیف رامے، صادقین، آفتاب احمد، نیر احسان رشید، گل جی کے نام شامل ہیں، بھی اس طرف متوجہ ہوئے اور اس فن کو بامِ عروج تک پہنچایا۔

    پاکستان کے اس نام ور مصور اور خطّاط کی رفاقت میں گزرے دنوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے ایک جگہ ڈاکٹر محمد اجمل لکھتے ہیں: ’’یہ مجھے یاد ہے کہ شاکر علی سے میری پہلی ملاقات غالباً 1949ء میں لندن میں ہوئی تھی۔ یہ بھی مجھے یاد ہے کہ ڈاکٹر مقبول احمد اور مسعود کے توسط سے ہوئی تھی، لیکن بہت جلدی واسطے پیچھے رہ گئے اور بلاواسطہ ہم دوست بن گئے۔

    شاکر علی کی شخصیت میں ایک خاص قسم کی معصومیت اور بے تکلفی تھی، جو صرف غالباً صحیح اور فطری فن کاروں میں ہوتی ہے۔ جب وہ سلیڈ اسکول میں پڑھتے تھے تو اکثر مجھے اپنے کمرے میں لے جاتے کہ میں ان کی نئی تصویر دیکھوں۔ جب وہ مجھے تصویر دکھاتے تو ان کے چہرے پر خوشی کی ایک سرخ موج دوڑ جاتی اور آنکھوں میں ایک چمک پیدا ہو جاتی۔ بعض اوقات میں تعریف کے ساتھ کوئی تنقیدی فقرہ بھی کہہ دیتا تو وہ کہتے ”یار کہتے تو تم ٹھیک ہو لیکن یہ مجھے اسی طرح اچھی لگتی ہے۔“

    ان سے پوچھتے کہ فن کیا ہوتا ہے؟ فن کار کیا ہوتا ہے تو ان کے ماتھے پر پسینہ آ جاتا اور وہ کوئی جواب نہ دیتے یا یہ کہہ دیتے، ”یار مجھے نہیں معلوم۔“

    حکومتِ پاکستان نے شاکر علی کو ان کی خدمات کے اعتراف میں 1962ء میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا جب کہ 1971ء میں انھیں ستارۂ امتیاز سے نوازا گیا۔

    شاکر علی لاہور کے گارڈن ٹاؤن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • سارنگی نواز استاد اللہ رکھا خان جنھوں نے قائداعظم کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ

    سارنگی نواز استاد اللہ رکھا خان جنھوں نے قائداعظم کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ

    پاکستان کے نام وَر سارنگی نواز استاد اللہ رکھا خان 27 جنوری 2002ء کو وفات پاگئے تھے۔ برصغیر پاک و ہند میں‌ کلاسیکی موسیقی کے حوالے سے مختلف ساز اور سازندوں نے بھی شہرت پائی اور انہی میں‌ ایک نام اللّہ رکھا خان کا تھا جن کی آج برسی ہے۔

    ہندوستانی کلاسیکی سنگیت میں سارنگی وہ ساز تھا جس کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ یہ انسانی آواز سے سب سے زیادہ ملتا ہے۔ آج یہ ساز ہیں‌ اور نہ ہی اس کے بجانے والے موجود ہیں۔ ماضی کے نام ور سارنگی نواز استاد اللہ رکھا خان 1932ء میں سیالکوٹ کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ بچپن ہی میں امرتسر چلے گئے تھے، وہیں اپنے والد استاد لال دین سے سارنگی بجانی سیکھی۔ بعدازاں استاد احمدی خان، استاد اللہ دیا اور استاد نتھو خان جیسے ماہر سازندوں سے استفادہ کیا۔

    1994ء میں حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ 1948ء میں وہ پاکستان آگئے تھے جہاں 1992ء تک ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے۔

    استاد اللّہ رکھا خان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انھوں‌ نے ایک مرتبہ قائداعظم کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کیا تھا۔

  • ممتاز فلم ساز اور ہدایت کار ضیا سرحدی کی برسی

    ممتاز فلم ساز اور ہدایت کار ضیا سرحدی کی برسی

    27 جنوری 1997ء کو پاکستان کے ممتاز فلم ساز اور ہدایت کار ضیا سرحدی وفات پاگئے۔ ضیا سرحدی کا تعلق پشاور سے تھا جہاں وہ 1912ء میں پیدا ہوئے۔ ضیا سرحدی پاکستان سے اسپین منتقل ہوگئے تھے جہاں شہر میڈرڈ میں‌ ان کا انتقال ہوا۔

    پاکستان ٹیلی ویژن کے معروف اداکار خیّام سرحدی ان کے فرزند ہیں جب کہ موسیقار رفیق غزنوی ان کے داماد تھے۔

    ضیا سرحدی گریجویشن کرنے کے بعد 1933ء میں بمبئی چلے گئے جہاں معروف ہدایت کار محبوب کے ساتھ کہانی نگار کی حیثیت سے فلم انڈسٹری میں قدم رکھا۔ اس زمانے میں‌ انھوں‌ نے "دکن کوئن، من موہن، جاگیردار، مدھر ملن، پوسٹ مین جیسی فلموں کے لیے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ 1947ء میں انھوں نے ہدایت کاری کے شعبے میں‌ خود کو آزمایا اور ان کی فلم نادان سامنے آئی۔ بطور ہدایت کار ان کی کام یاب فلموں میں انوکھی ادا، ہم لوگ، فٹ پاتھ اور آواز سرفہرست ہیں۔

    1958ء میں ضیا سرحدی پاکستان آگئے جہاں انہوں نے رہ گزر کے نام سے ایک فلم بنائی جو کام یاب نہ ہوسکی۔ ان کی چند فلمیں‌ "لاکھوں میں ایک، غنڈہ، اور نیا سورج وہ تھیں جن کی کہانی ضیا سرحدی نے لکھی تھی، لیکن ان میں سے بھی دو مکمل نہ ہوسکیں۔

    اسپین میں‌ وفات کے بعد ان کی میّت پاکستان لائی گئی اور انھیں‌ پشاور میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • نام وَر مصوّر اور خطّاط شاکر علی کا یومِ وفات

    نام وَر مصوّر اور خطّاط شاکر علی کا یومِ وفات

    پاکستان کے ممتاز مصوّر اور نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے پرنسپل شاکر علی 27 جنوری 1975ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ شاکر علی پاکستان میں تجریدی مصوّری کے بانی کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ انھوں نے فنِ خطّاطی میں‌ تجرید کے لیے بھی شہرت پائی۔

    6 مارچ 1914ء کو رام پور میں پیدا ہونے والے شاکر علی نے مصوّری کی ابتدائی تعلیم جے جے اسکول آف آرٹس، بمبئی سے حاصل کی۔ اس کے بعد انھوں نے انگلستان سے فن مصوّری کا تین سالہ کورس کیا۔ شاکر علی نے مصوّری کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ کچھ عرصہ فرانس کے ممتاز مصوّر آندرے لاہوتے (Andre L’Hote) کے ساتھ بھی کام کیا اور ان سے بہت کچھ سیکھا۔

    1951ء میں شاکر علی پاکستان آنے کے بعد لاہور کے میو اسکول آف آرٹس سے وابستہ ہوگئے جسے آج نیشنل کالج آف آرٹس کہا جاتا ہے۔ 1961ء میں وہ اس کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے اور اپنی وفات سے دو برس قبل 1973ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔

    شاکر علی نے آیاتِ قرآنی کو تجریدی انداز میں کینوس پر اتارنے کا جو سلسلہ شروع کیا اس سے متاثر ہوکر پاکستان کے دیگر نام ور مصوّروں جن میں‌ حنیف رامے، صادقین، آفتاب احمد، نیر احسان رشید، گل جی کے نام شامل ہیں، انھوں نے اپنایا اور اس فن کو بامِ عروج تک پہنچایا۔

    حکومتِ پاکستان نے شاکر کے فن اور اس حوالے سے ان کی خدمات کے اعتراف میں 1962ء میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا اور 1971ء میں ستارہ امتیاز سے نوازا۔ شاکر علی لاہور کے گارڈن ٹائون کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔