Tag: 27 ستمبر برسی

  • وائسرائے کی ‘خبر’ لینے والے عبدالمجید سالک کی برسی

    وائسرائے کی ‘خبر’ لینے والے عبدالمجید سالک کی برسی

    عبدالمجید سالک شاعر اور اپنے زمانے کے ایک مقبول کالم نویس تھے۔ وہ زمیندار اخبار کے مدیر کی حیثیت سے بھی مشہور تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    ہندوستان پر برطانوی راج میں‌ جب لارڈ ویول کو وائسرے مقرر کرنے کا اعلان کیا گیا تو انھوں نے اپنے ایک فکاہیہ کالم میں‌ لکھا، ’’لارڈ ویول کے وائسرائے مقرر ہونے کا یہ وعدہ ہے کہ وہ سب کو ایک آنکھ سے دیکھیں گے۔‘‘

    بات یہ تھی کہ لارڈ ویول بائیں‌ آنکھ کی بینائی سے محروم تھا۔ ادھر مولانا عبدالمجید سالکؔ جو خود شگفتہ مزاج بھی تھے اور تحریروں میں بھی ان کی طبیعت کی طرح شگفتگی اور ظرافت موجود ہوتی تھی۔ جب انھوں نے یہ خبر سنی تو لارڈ ویول کا ذکر کرتے ہوئے ہندوستانیوں‌ کو انوکھے ڈھنگ سے بتایا کہ ان کا وائسرائے ایک آنکھ سے محروم ہے۔

    ان کا نام عبدالمجید، سالک تخلص تھا۔ 1894 کو بٹالہ، ضلع گورداس پور میں پیدا ہوئے تھے۔ لاہور سے بی اے کیا اور بعد میں‌ پٹھان کوٹ سے رسالہ’’فانوس خیال‘‘ نکالا جو ایک سال جاری رہا۔ 1915 کے اواخر میں وہ ’’تہذیب نسواں‘‘ اور ’’پھول‘‘ کے ایڈیٹر بنے اور 1920 میں ’’زمیندار‘‘ کی ادارت سنبھالی۔

    شعر گوئی، ادب، تنقید اور صحافت ان کے مشاغل رہے۔ سالک کا رجحان نظم کی طرف زیادہ تھا۔ ’ذکرِ اقبال‘، ’سرگزشت‘ (خود نوشت)، ’مسلم صحافت ہندوستان میں‘، ’یارانِ کہن‘، ’خود کشی کی انجمن‘، ’قدیم تہذیبیں‘ اور ’کاری گری‘ شامل ہیں‌۔

    عبدالمجید سالک 1959 میں‌ آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

  • میلہ گھومنی والے علی عباس حسینی

    میلہ گھومنی والے علی عباس حسینی

    علی عباس حسینی اردو افسانہ نگاری کے میدان میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ وہ ادبی تخیلقات میں ہئیت و تیکنیک میں نئے تجربات کے ساتھ اپنے اظہار کی انفرادیت اور اسلوب کی خوب صورتی کے لیے پہچانے جاتے ہیں۔

    علی عباس حسینی نے بحیثیت ادیب اپنے متنوع موضوعات میں اردو زبان کو بہت خوب صورتی سے برتا ہے۔ نثری ادب کی مختلف اصناف میں ان کی تحریریں اور کتب یادگار ہیں۔ انھوں نے افسانہ، ناول، ڈرامہ، تاریخ اور تذکرہ نویسی کے علاوہ تنقید بھی لکھی جب کہ ایک مترجم کی حیثیت سے بھی ان کی ادب میں‌ اہمیت ہے۔

    اردو کے اس ادیب کا منفرد اور دل نشیں طرزِ تحریر ان کی نگارشات کی پذیرائی کا باعث رہا ہے۔ علی عباس حسینی 3 فروری 1897ء کو غازی پور، بہار میں پیدا ہوئے تھے اور لکھنؤ وہ شہر تھا جہاں‌ آج ہی کے دن 1969ء میں‌ ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ موند لیں۔

    1919ء میں کیننگ کالج لکھنؤ سے بی۔ اے کے بعد پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے 1924ء میں ایم۔ اے کی سند حاصل کی۔ تدریس ان کا وظیفہ رہا اور 1954ء میں حسین آباد کالج لکھنؤ سے بطور پرنسپل ریٹائر ہوئے۔

    علی عباس حسینی کو بچپن سے ہی قصے کہانیوں میں دل چسپی تھی۔ انھوں‌ نے الف لیلی کے قصائص، فردوسی کا شاہ نامہ، طلسم ہوش ربا اور اردو کے افسانوی ادب کا مطالعہ کیا اور اسی دوران لکھنے کی طرف مائل ہوئے۔ 1917ء میں ان کا پہلا افسانہ "غنچۂ ناشگفتہ” کے عنوان سے ضبظِ تحریر میں آیا۔ 1920ء میں "سر سید احمد پاشا” کے قلمی نام سے پہلا رومانوی ناول "قاف کی پری” لکھا تھا۔ شاید کہ بہار آئی” علی عباس حسینی کا دوسرا اور آخری ناول تھا۔

    ان کے افسانوں کے متعدد مجموعے شایع ہوئے جن میں رفیقِ تنہائی، باسی پھول، کانٹوں میں پھول، میلہ گھومنی وغیرہ شامل ہیں۔ "ایک ایکٹ کے ڈرامے” ان کے ڈراموں پر مشتمل کتاب ہے۔

    علی عباس حسینی نے فکشن کے نقاد کے طور پر بھی شناخت بنائی۔ ان کی کتاب "ناول کی تاریخ و تنقید” ایک مفصل اور لائقِ مطالعہ تنقید ہے۔