Tag: 27 مئی وفات

  • اردو کے ممتاز ادیب اور مزاح نگار مجتبیٰ حسین کا تذکرہ

    اردو کے ممتاز ادیب اور مزاح نگار مجتبیٰ حسین کا تذکرہ

    مجتبیٰ حسین اردو کے ممتاز ادیب اور مزاح نگار تھے جن کا ادبی سفر چار دہائیوں‌ پر محیط ہے۔ ان کی تحریریں شگفتگی اور شائستگی کے ساتھ رمزیت اور برجستگی کا عمدہ نمونہ ہیں۔ ان کے انشائیے بھی طنز و مزاح کی ہلکی آمیزش کے ساتھ زبان کے رچاؤ اور دل کش اسلوب کے سبب پسند کیے جاتے ہیں۔ 27 مئی 2020ء میں بھارت کے اس نام ور ادیب کی زندگی کا سفر ہمیشہ کے لیے تمام ہو گیا تھا۔

    مجتبیٰ حسین 15 جولائی 1936ء کو گلبرگہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی اور 1956ء میں عثمانیہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ نوجوانی سے ہی طنز و مزاح کی جانب مائل ہوگئے تھے اور حیدرآباد دکن کے روزنامہ سیاست سے وابستگی کے دوران انھوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا۔ بعد ازاں محکمۂ اطلاعات میں ملازمت اختیار کرلی اور پھر دلّی میں مختلف محکموں میں ملازمت کے بعد 1992ء میں ریٹائر ہوگئے۔ ان کا قیام حیدرآباد دکن میں رہا۔

    مجتبیٰ حسین کے یہاں طنز کا پہلو کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان کا موضوع نوعِ انسانی ہے۔ واقعہ نگاری اور مرقع کشی میں ان کا کمالِ فن عروج پر نظر آتا ہے۔ انھوں نے اپنے مشاہدے کی مدد سے مختلف واقعات کے مضحک پہلوؤں کو اپنی تحریروں میں نہایت خوب صورتی سے اجاگر کیا اور قارئین میں‌ ان کے مضامین اور انشائیے مقبول ہوئے۔ سماج کے مختلف طبقات اور شعبہ ہائے حیات سے متعلق افراد کے طرزِ زندگی، ان کے مسائل اور ان کے مخصوص رویوں، عادات پر ان کی تحریروں کو کتابی شکل میں بہت پذیرائی ملی۔

    سماج ہی نہیں‌ سیاست اور اس کے بطن سے پھوٹنے والے ہنگامے بھی ان کی نظر میں‌ رہے۔ مجتبیٰ حسین کی ایک تحریر سے یہ پارہ ملاحظہ کیجیے۔

    ’’اگر آپ خالص فسادات دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہندوستان ہی جائیے۔ یہاں کے فسادات اتنے خالص ہوتے ہیں کہ ان میں کہیں بھی انسانیت کی ملاوٹ نہیں ہوتی۔ اس صفائی سے انسانوں کے سر کاٹے جاتے ہیں اور ان کے جسموں میں چھرے بھونک دیے جاتے ہیں کہ عقل حیران اور نظر دنگ رہ جاتی ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ فرقہ وارانہ فساد ہندوستان کا بڑا قدیم کھیل ہے۔‘‘

    بہرحال، بالآخر اور الغرض ان کے طنزیہ و مزاحیہ مضامین اور انشائیوں کے مشہور مجموعے ہیں۔ انھوں نے سفر نامے بھی تحریر کیے اور کالم بھی لکھے جو بہت مقبول ہوئے، قصہ مختصر، آدمی نامہ، جاپان چلو جاپان چلو اور کئی کتابوں کے مصنّف مجتبیٰ حسین کو ان کی تخلیقی کاوشوں اور ادبی خدمات کے اعتراف میں متعدد انعامات اور اعزازات سے نوازا گیا تھا۔

  • صاحبِ طرز ادیب اور ماہرِ موسیقی شاہد احمد دہلوی کی برسی

    صاحبِ طرز ادیب اور ماہرِ موسیقی شاہد احمد دہلوی کی برسی

    اردو ادب کے صاحبِ طرز ادیب، مدیر، محقّق اور ماہرِ موسیقی شاہد احمد دہلوی 27 مئی 1966 کو وفات پاگئے تھے۔ وہ معروف ناول نگار، شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے اور شاعر و ادیب مولوی بشیر الدین احمد کے فرزند تھے۔

    شاہد احمد دہلوی نے اردو ایک باوقار جریدہ ‘ساقی’ دیا اور اس کے ذریعے علم و ادب، فنون و ثقافت کی خدمت کا سلسلہ جاری رکھا، وہ ترقّی پسند تحریک سے بھی وابستہ رہے۔ دہلی ان کا وطن تھا اور یہی نسبت ان کے نام سے منسلک رہی، قیامِ پاکستان کے بعد شاہد احمد دہلوی کراچی آگئے تھے۔

    شاہد احمد دہلوی انشا پرداز اور باکمال نثار تھے۔ انھوں نے کئی کتابیں یادگار چھوڑیں جو اپنے موضوع کے اعتبار سے اہم اور مصنّف کے منفرد اسلوب اور طرزِ‌ نگارش کا نمونہ ہیں۔ انھوں نے مختلف شخصیات کے خاکے تحریر کرنے کے علاوہ واقعات اور تذکروں کو کتابی شکل دی۔ دلّی کی بپتا اور اجڑا دیار ایسی ہی کتابیں ہیں۔ ان کا ایک کارنامہ انگریزی کی متعدد کتابوں کا اردو ترجمہ ہے۔ شاہد احمد دہلوی نے موسیقی کی بھی باقاعدہ تربیت حاصل کی تھی۔ انھوں نے ریڈیو پاکستان سے وابستگی کے زمانے میں موسیقی کے متعدد پروگرام پیش کیے۔

    ان کے خاکوں کے مجموعے گنجینۂ گوہر، بزمِ خوش نفساں، بزمِ شاہد اور طاقِ نسیاں کے نام سے شائع ہوئے تھے جب کہ موسیقی کے موضوع پر ان کے لاتعداد مضامین کو بھی کتابی شکل میں‌ شایع کیا گیا۔

    حکومت نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ شاہد احمد دہلوی کراچی میں گلشن اقبال کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • شائقینِ سنیما کے دلوں پر راج کرنے والی ‘رانی’ کی برسی

    شائقینِ سنیما کے دلوں پر راج کرنے والی ‘رانی’ کی برسی

    27 مئی 1993ء کو پاکستانی فلم انڈسٹری کی مشہور اداکارہ رانی کا انتقال ہوگیا تھا۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ ان کا اصل نام ناصرہ تھا جنھوں نے رانی کے نام سے بڑے پردے پر راج کیا۔

    رانی نے 1941ء میں لاہور کے ایک گھر میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد اپنے وقت کی مشہور گلوکارہ مختار بیگم کے ڈرائیور تھے۔ وہ اکثر اپنی بیٹی کو مختار بیگم کے گھر لے جایا کرتے تھے اور ایک روز تربیت کی غرض سے رانی کو مختار بیگم کے سپرد کردیا۔ یوں رانی ان کے طفیل فلم انڈسٹری تک پہنچنے میں کام یاب ہوگئیں۔

    1962ء میں ہدایت کار انور کمال پاشا نے انھیں اپنی فلم محبوب میں کاسٹ کام کرنے کا موقع دیا، لیکن آغاز کچھ اچھا نہ ہوا اور اس کے بعد بھی رانی کو متعدد ناکام فلموں نے مایوسی سے دوچار کیا، مگر قسمت نے یاوری کی اورانھیں ایک پنجابی فلم میں‌ کام مل گیا جو کام یاب ثابت ہوئی، اس کے بعد اداکارہ رانی ہیروئن کی حیثیت سے شہرت اور مقبولیت کے مدارج طے کرتی چلی گئیں۔

    اس اداکارہ نے فلم دیور بھابی، بہن بھائی، انجمن، شمع، ایک گناہ اور سہی جیسی کام یاب فلموں کے ساتھ پنجابی زبان میں بنائی گئی 65 فلموں میں بھی شان دار پرفارمنس دی۔

    رانی نے 150 سے زائد فلموں میں کام کیا جن میں اردو اور پنجابی فلمیں‌ شامل ہیں۔ ان کی آخری فلم کالا طوفان تھی جو 1987ء میں پردے پر سجی تھی۔ انھوں نے تین نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیے تھے۔

    اداکارہ رانی کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے کردار میں ڈوب کر جذبات کا اظہار کرتی تھیں اور کردار کو حقیقیت سے قریب تر لے آتی تھیں۔ فلم انڈسٹری میں جن فن کاروں نے گانوں کی عکس بندی میں اپنے فن کا کمال مظاہرہ کیا، رانی ان میں سرفہرست رہیں۔ ان کی یادگار فلموں میں انجمن، تہذیب، امراؤ جان ادا، ثریا بھوپالی، بہارو پھول برساؤ اور ناگ منی بھی شامل ہیں۔

    فلمی پردے سے دور ہوجانے کے بعد انھوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے ڈراموں میں میں بھی اداکاری کی اور اپنی متاثر کن پرفارمنس سے ناظرین کے دل جیتنے میں‌ کام یاب رہیں۔ ان ٹی وی سیریلز میں خواہش اور فریب سرفہرست ہیں۔

    شائقین کے دلوں پر راج کرنے والی اس اداکارہ کی ذاتی زندگی تلخیوں اور الجھنوں کا شکار رہی۔ رانی نے تین شادیاں کیں اور تینوں ناکام رہیں۔ کراچی میں‌ وفات پانے والی رانی کو لاہور کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔