Tag: 28 جنوری وفات

  • یومِ‌ وفات: شوخی اور ترنگ او پی نیّر کے گیتوں کی پہچان ہیں!

    یومِ‌ وفات: شوخی اور ترنگ او پی نیّر کے گیتوں کی پہچان ہیں!

    او پی نیّر البیلے موسیقار تھے دلوں میں‌ گداز اور سماعتوں میں رَس گھولنے والی ان کی دھنیں کئی فلموں کی مقبولیت کا سبب بنیں۔ 2007ء میں آج ہی کے دن انھوں نے زندگی سے ہمیشہ کے لیے منہ موڑ لیا تھا۔

    ممبئی میں‌ مقیم او پی نیّر 81 سال کے تھے۔ وہ 16 جنوری 1926ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔بالی وڈ کو کئی یادگار گیت دینے والے اس موسیقار کا اصل نام اوم کار پرساد نیّر تھا۔ موسیقی کا جنون ایسا تھا کہ تعلیم بھی مکمل نہ کی اور آل انڈیا ریڈیو، جالندھر سے اپنے کیریئر کا آغاز کردیا۔ محنتی اور بااصول او پی نیّر بعد میں فلم نگری میں آئے تو ’کنیز‘ کے لیے پسِ پردہ موسیقی دی، مگر ان کی پہچان گرودت کی فلم ’ آر پار‘ بنی۔ اس فلم کے نغمے بہت مقبول ہوئے۔ اس کے بعد ان کے پاس گویا فلمیں قطار میں‌ رہنے لگیں، لیکن او اپی نیّر تعداد کو معیار پر ترجیح دینے والوں میں‌ سے نہیں‌ تھے، اور سال میں ایک سے زیادہ فلم کے لیے موسیقی دینے سے گریز کرتے تھے۔

    ’اڑیں جب جب زلفیں تیری‘، ’بابو جی دھیرے چلنا‘ اور ’لے کے پہلا پہلا پیار‘ جیسے نغموں کے اس خالق کی اصول پسندی بھی مشہور ہے۔ انھوں نے اپنے فن پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا اور کئی لافانی نغمات فلم نگری کو دے گئے۔

    ’تم سا نہیں دیکھا‘، ’ہاوڑا برج‘، ’مسٹر اینڈ مسز 55‘ ، ’کشمیر کی کلی‘، ’میرے صنم‘، ’سونے کی چڑیا‘، ’پھاگن‘، ’باز‘، ’ایک مسافر ایک حسینہ‘ ان کی چند فلمیں تھیں جن کے گیتوں کو بے مثال مقبولیت ملی۔

    ’نیا دور‘ وہ فلم تھی جس کی موسیقی ترتیب دینے پر انھیں فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

    1949ء میں اپنے کیریئر کا آغاز کرنے والے اس موسیقار کی پہچان اُن کے سریلے گیت تھے۔ ان کے ہم عصر موسیقاروں کے برعکس ان کے گیتوں سے شوخی، چلبلا پن اور مستی جھلکتی ہے جس نے شائقینِ سنیما اور سامعین کو بہت محظوظ کیا۔ خود او پی نیّر زندہ دل اور خوش مزاج مشہور تھے۔

  • اردو شاعری کو عربی ادبیات سے ہم آمیز کرنے والے عبدالعزیز خالد کا تذکرہ

    اردو شاعری کو عربی ادبیات سے ہم آمیز کرنے والے عبدالعزیز خالد کا تذکرہ

    1950ء میں مقابلے کا امتحان پاس کرکے محکمۂ انکم ٹیکس میں‌ ملازمت اختیار کرنے والے عبدالعزیز خالد نے اپنی دفتری ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے انکم ٹیکس کمشنر کے عہدے تک ترقّی پائی، لیکن ساتھ ہی علم و ادب سے بھی جڑے رہے اور تخلیقی سفر میں‌ نمایاں مقام حاصل کیا۔

    آج اردو کے ممتاز شاعر، ماہر مترجم عبدالعزیز خالد کی برسی ہے۔ وہ سنہ 2010 میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ انھوں نے اردو شاعری کو عربی ادبیات سے ہم آمیز کیا اور اس صنفِ سخن میں مشرقی روح اور طرزِ بیاں کو نہایت خوب صورتی سے سموتے ہوئے تازگی اور جاودانی عطا کی۔

    14 جنوری 1927ء کو عبدالعزیز خالد تحصیل نکو در ضلع جالندھر کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ وہ اسلامیہ کالج لاہور سے فارغ التّحصیل تھے۔ اس دور میں انھوں نے کالج کے مجلّے کی ادارت بھی کی تھی۔ بعد میں مقابلے کا امتحان دیا اور سرکاری ملازمت کے ساتھ ادبی مشاغل جاری رکھے۔ اس سفر میں‌ ان کی متعدد تصانیف منظرِ عام پر آئیں۔

    عبد العزیز خالد کا شمار ان اہلِ قلم حضرات میں‌ ہوتا ہے، جو متعدد زبانیں جانتے تھے۔ ان میں اردو، عربی، فارسی، سنسکرت اور انگریزی شامل ہیں۔ اپنی اسی قابلیت کو استعمال کرتے ہوئے انھوں نے کئی غیر ملکی شعرا کے کلام کا اردو میں ترجمہ کیا۔

    عبدالعزیز خالد کی تصانیف میں ماتم یک شہرِ آرزو، زرِ داغِ دل، خروشِ خم، فارقلیط، غبارِ شبنم، سرابِ ساحل، کلکِ موج، برگِ خزاں، دکانِ شیشہ گر، کفِ دریا، غزلُ الغزلات کے علاوہ سیفو، ٹیگور اور ہوچی منہ کی نظموں کے تراجم شامل ہیں۔

    ادبی میدان میں ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔ ان کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    پھولی ہے شفق گو کہ ابھی شام نہیں ہے
    ہے دل میں وہ غم جس کا کوئی نام نہیں ہے

    کس کو نہیں کوتاہیٔ قسمت کی شکایت
    کس کو گلۂ گردشِ ایّام نہیں ہے

    افلاک کے سائے تلے ایسا بھی ہے کوئی
    جو صید زبوں مایۂ آلام نہیں ہے

    لفظوں کے در و بست پہ ہر چند ہو قادر
    شاعر نہیں جو صاحبِ الہام نہیں ہے

    ہر بات ہے خالدؔ میں پسندیدہ و مطبوع
    اک پیرویٔ رسم و رہِ عام نہیں ہے

  • ‘یادوں کی سرگم’ اور آزاد منش مظفّر علی سیّد!

    ‘یادوں کی سرگم’ اور آزاد منش مظفّر علی سیّد!

    چراغ حسن حسرت، صوفی تبسم، خواجہ منظور حسین، محمد حسن عسکری اور ن۔ م راشد جیسے علم و ادب کے درخشاں ستاروں پر شخصی مضامین اور ان کے خاکے پہلے بھی لکھے گئے، لیکن خاکہ نگار کا قلم ‘محتاط’ رہا ہے جب کہ مظفّر علی سیّد نے بڑی بے باکی سے اپنے ممدوح کی شخصیت کو کریدا اور اس کے اندرون اور بیرون کو بلاکم و کاست قاری کے سامنے پیش کرنے میں‌ کام یاب ہوئے۔

    مظفّر علی سیّد کو اردو زبان کے ممتاز نقّاد، محقّق اور مترجم تھے جنھیں آج ہی کے دن سنہ 2000 میں دستِ اجل نے ہم سے چھین لیا تھا۔ پاکستان میں وہ شہر لاہور کے باسی تھے، لیکن ان کا تعلق امرتسر سے تھا جہاں وہ 1929ء میں‌ پیدا ہوئے تھے۔

    مظفّر علی سیّد کا بڑا حوالہ تنقید نگاری ہے۔ خاکوں پر مشتمل ان کی کتاب ‘یادوں کی سرگم’ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسانی شخصیت کیسی پُر پیچ اور تہ در تہ ہوتی ہے جس میں غور اور مطالعہ کرنے سے ہم پر پرتیں کھلتی ہی چلی جاتی ہیں۔

    مشہور ہے وہ ایک آزاد منش انسان تھے اور اپنی اکثر تحریریں اور مضامین سنبھال کر نہیں رکھ سکے، لیکن مظفر علی سیّد کا جنتا بھی علمی و ادبی کام اور تصنیف و تالیف کردہ کتب سامنے آئی ہیں، وہ قابل توجہ ہیں۔ ان کی تصانیف میں ‘تنقید کی آزادی’ اور تراجم میں ‘فکشن، فن اور فلسفہ’ اور ‘پاک فضائیہ کی تاریخ’ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے نام ور ادیب مشفق خواجہ کے کالموں کے تین مجموعے خامہ بگوش کے قلم سے، سخن در سخن اور سخن ہائے گفتنی کے نام سے مرتب کیے تھے۔ اس کے علاوہ شخصی خاکے، معلوماتِ عامّہ پر کتاب جب کہ فکشن، فن اور فلسفہ ان کے ڈی ایچ لارنس کے تنقیدی مضامین کا ترجمہ ہے۔ انھوں نے اپنے زمانے کے ممتاز ادیب، شاعر، محقق اور مترجم سیّد عابد علی عابد کی کتاب پر تنقید بھی لکھی تھی۔

    اردو زبان و ادب کی دو قد آور شخصیات کے درمیان ایک مکالمہ پڑھیے جس سے معلوم ہو گاکہ دورِ جوانی میں مرحوم نقّاد کا علمی و ادبی ذوق شوق کیسا تھا، یہ دل چسپ مکالمہ نام وَر ادیب اور ناول نگار انتظار حسین کی زبانی کچھ یوں‌ ہے: عسکری صاحب ایک روز کہنے لگے کہ "یار ایک عجب نوجوان ہے۔ میں مال روڈ سے کسی وقت بھی گزروں وہ کتابیں بغل میں دابے کسی طرف سے آن پہنچتا ہے اور پھر عالمانہ انداز میں ادب پر گفتگو شروع کر دیتا ہے۔”

    میرے کان کھڑے ہوئے۔ پوچھا "کیا حلیہ ہے اس کا۔”

    "عینک لگاتا ہے۔ کچھ گول مٹول سا ہے۔ بغل میں کتابیں ہوتی ہیں۔”

    "میں سمجھ گیا۔” میں نے اعتماد سے کہا "وہ گورنمنٹ کالج کا طالبِ علم ہے مظفّر علی سیّد۔”

    "یار بہت عالمانہ گفتگو کرتا ہے۔”

  • ”یادوں کی سرگم” والے مظفّر علی سیّد کی برسی

    ”یادوں کی سرگم” والے مظفّر علی سیّد کی برسی

    اردو زبان کے ممتاز نقّاد، محقّق اور مترجم مظفّر علی سیّد 28 جنوری 2000ء کو وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق امرتسر سے تھا جہاں‌ وہ 1929ء میں‌ پیدا ہوئے۔

    مظفر علی سیّد نے تنقید کے ساتھ مترجم کی حیثیت سے علمی و ادبی سرگرمیاں اور تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رکھا اور قابلِ ذکر کام کیا۔ ان کی تصانیف میں ‘تنقید کی آزادی’ اور تراجم میں ‘فکشن، فن اور فلسفہ’ اور ‘پاک فضائیہ کی تاریخ’ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے نام ور ادیب مشفق خواجہ کے کالموں کے تین مجموعے خامہ بگوش کے قلم سے، سخن در سخن اور سخن ہائے گفتنی کے نام سے مرتب کیے۔

    مظفر علی سید کی تصانیف میں‌ خاکوں‌ کا مجموعہ یادوں کی سرگم بھی شامل ہے۔ معلوماتِ عامّہ پر بھی ان کی ایک کتاب شایع ہوئی جب کہ فکشن، فن اور فلسفہ ان کے ڈی ایچ لارنس کے تنقیدی مضامین کا ترجمہ ہے۔ انھوں نے اپنے زمانے کے ممتاز ادیب، شاعر، محقق اور مترجم سید عابد علی عابد کی کتاب پر تنقید بھی لکھی تھی۔

    مشہور ہے وہ ایک آزاد منش انسان تھے اور اپنی تحریروں سنبھال کے نہیں‌ رکھا، لیکن ان کے جو خاکے قارئین تک پہنچے، ان‌ میں وہ خاصے بے باک اور ان کا قلم منہ زور ہے، تاہم ان کا وصف یہ ہے کہ انھوں نے کسی کی شخصی کم زوری اور اس کی خامیوں پر اسے نہیں‌ گھسیٹا بلکہ شخصیات کو اپنے قلم سے اسی طرح جیسا کہ وہ انھیں دکھائی دیے، بِلا کم و کاست قاری کے سامنے پیش کیا اور ان کی یہ کوشش کام یاب رہی۔