Tag: 28 جولائی وفات

  • زبان و ادب: نادرِ روزگار شخصیت ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کا تذکرہ

    زبان و ادب: نادرِ روزگار شخصیت ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کا تذکرہ

    ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کو ایک یگانہ روزگار، ہمہ جہت اور عالم فاضل شخصیت مانا جاتا ہے جنھوں‌ نے زبان و ادب کے لیے ناقابلِ فراموش خدمات انجام دیں۔ وہ 28 جولائی 1972ء کو الہٰ آباد(بھارت) میں وفات پاگئے تھے۔

    ڈاکٹر عبدالستار صدیقی جدید لسانیات کے ماہر، املا انشا، الفاظ کے مآخذ، تحقیق اور تاریخ کے عالم تھے اور متعدد زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ وہ عربی، فارسی، اردو، ہندی، سنسکرت، انگریزی، لاطینی، جرمن، پہلوی یا درمیانے عہد کی فارسی کے علاوہ عبرانی اور سریانی زبانوں سے بھی واقف تھے۔

    ان کا متعدد زبانوں کی تاریخ اور الفاظ کے مآخذ کا علم حیرت انگیز تھا۔ ہندوستان کی جیّد اور عالم فاضل شخصیات مختلف علمی و تحقیقی کاموں کے حوالے سے ان سے رجوع کرتی تھیں۔

    ڈاکٹر صاحب نے ایسے فارسی الفاظ پر تحقیق کی جو اسلام کی آمد سے قبل کلاسیکل عربی کا حصّہ رہے۔ ان کے مضامین اردو جرائد میں شائع ہوتے تھے، لیکن ان بہت کم کام کتابی شکل میں‌ منظرِ‌عام پر آسکا۔ کیوں کہ انھوں نے بہت کم لکھا اور زیادہ تر تحقیق اور مطالعے میں‌ وقت گزارا۔

    ان کی ایک قابلِ قدر تحقیقی کاوش ان کی وفات کے 30 برس بعد مشفق خواجہ کی کوشش سے ‘مرابت رشیدی’ کی صورت میں‌ شایع ہوئی تھی۔ اس ان عربی الفاظ پر بحث کی گئی ہے جو دیگر زبانوں خصوصاً فارسی سے داخل ہوئے۔ ان کی دو لغات کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔

    عبدالستار صدیقی 26 دسمبر 1885ء کو یو پی کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ریاست دکن میں‌ ملازم تھے، چنانچہ ڈاکٹر صدیقی نے اپنی ابتدائی تعلیم گلبرگہ اور حیدرآباد دکن میں حاصل کی۔ بی اے اور ایم اے کی ڈگری لینے کے بعد وہ اسکالر شپ پر جرمنی میں تعلیم حاصل کرنے چلے گئے اور وہاں جدید فارسی، لاطینی، سریانی، عبرانی اور سنسکرت زبانوں کو سیکھا، 1917ء میں انھیں عربی گرائمر پر تحقیق کے لیے ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی گئی۔

    وہ 1919ء میں ہندوستان واپس لوٹے اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں پروفیسر کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ بعد ازاں حیدر آباد دکن میں عثمانیہ یونیورسٹی میں مدرس مقرر ہوگئے، اسی عرصے میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں عربی اور اسلامیات کے شعبے کا سربراہ بنادیا گیا۔

  • یومِ وفات: ترک حکم راں سلیم ثالث کو معزولی کے ایک سال بعد قتل کیوں کیا گیا؟

    یومِ وفات: ترک حکم راں سلیم ثالث کو معزولی کے ایک سال بعد قتل کیوں کیا گیا؟

    سلطنتِ عثمانیہ میں سلیم ثالث اپنے فہم و فراست اور سیاسی تدبّر کی وجہ سے قابلِ ذکر اور مثالی سلطانوں میں سرِفہرست ہیں۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ سلطنتِ عثمانیہ کے حکم رانوں کا رعب و دبدہ اپنی جگہ، لیکن وہ علم و ہنر کے قدر داں تھے جن میں سے ایک سلیم ثالث ہیں جو اس عظیم سلطنت کے 28 ویں سلطان تھے۔

    تاریخ بتاتی ہے کہ سلطنتِ عثمانیہ 1299ء سے 1922ء تک قائم رہی جس کے حکم راں ترک مسلمان تھے۔ اس سلطنت میں 1789ء سے 1807ء تک سلیم ثالث کا دورِ حکم رانی رہا جنھیں معزول کر کے قتل کردیا گیا۔

    سلیم ثالث 1761ء میں‌ پیدا ہوئے اور 1808ء میں‌ آج ہی کے دن روح نے ان کے جسم کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ وہ 46 سال کی عمر میں‌ دنیا سے رخصت ہوئے۔

    سلطنتِ عثمانیہ اپنے عروج کے زمانے میں تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی اور جنوب مشرقی یورپ، مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقا کا بیش تَر حصّہ اس کے زیرِ نگیں تھا۔ اس کے صوبہ جات اور باج گزار علاقے الگ تھے۔

    سلیم ثالث کے بارے میں‌ مؤرخین لکھتے ہیں کہ انھوں نے سلطنتِ عثمانیہ کا زوال روکنے اور اسے ترقّی دینے کے لیے قابلِ قدر کوششیں کیں۔ وہ علم و ادب کا رسیا، فنونِ لطیفہ کا شائق و شیدا تھا اور مذہب پسند بھی جس نے اپنے دور میں تعلیم عام کرتے ہوئے جدید علوم کی سرپرستی کی۔ اس عہد میں فنِ‌ حرب کو بھی بہت اہمیت دی گئی۔ سلیم ثالث نے عسکری معاملات پر توجہ دیتے ہوئے افواج کو نئے سرے سے منظّم کیا اور جدید خطوط پر ترقّی دی۔

    سلیم ثالث نے ملک میں اصلاحات پر زور دیا اور جاگیر داری نظام کو اس راہ میں بڑی رکاوٹ پاکر اس حکم راں نے مخالفت کے باوجود جاگیر داری نظام کو ختم کیا، لیکن یہی کوششیں‌ اس کے خلاف گئیں سلیم کو ان اصلاحات کے باوجود خاص کام یابی نہ مل سکی۔ سماج اور مختلف اداروں بالخصوص فوج کو جدید خطوط پر منظّم کرتے ہوئے طاقت وَر بنانے کے لیے اس کے بعض اقدامات کو کفّار کی تقلید یا ان سے مشابہت قرار دے کر جذبات کو بھڑکایا گیا اور اس حکم راں کو معزولی کے ایک سال بعد قتل کردیا گیا۔

  • یومِ وفات:‌ حقیقی زندگی میں ساغر و مینا سے بیزار ریاض خیرآبادی ‘شاعرِ خمریات’ مشہور ہوئے

    یومِ وفات:‌ حقیقی زندگی میں ساغر و مینا سے بیزار ریاض خیرآبادی ‘شاعرِ خمریات’ مشہور ہوئے

    ریاض خیرآبادی کو خیّامِ ہند کہا جاتا ہے۔ وہ 28 جولائی 1934ء کو دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    کہتے ہیں انھوں نے نہایت سادہ اور پاکیزہ زندگی بسر کی، لیکن ان کے کلام میں شراب و شباب، رندی و سَرشاری کے مضامین کی کثرت ہے اور اسی لیے وہ شاعرِ خمریات بھی مشہور ہیں۔

    ان کا اصل نام سیّد ریاض احمد تھا۔ شاعری کا آغاز کیا تو ریاض تخلّص اپنایا اور اپنے آبائی علاقے کی نسبت اس میں خیر آبادی کا اضافہ کیا۔ ادبی تذکروں میں ان کا سن و جائے پیدائش 1855ء اور خیر آباد لکھا ہے۔

    ریاض خیرآبادی نے اسیر لکھنوی سے اصلاح لی اور ان کی وفات کے بعد امیر مینائی کے شاگرد ہوگئے۔ شعر و ادب کے ساتھ لگاؤ اور تصنیف کا شوق ایسا تھا کہ شاعری کے ساتھ متعدد اخبار و رسائل کا اجرا کیا جن میں ریاضُ الاخبار، صلحِ کل، گلکدۂ ریاض، فتنہ، پیامِ یار شامل ہیں۔ انھوں نے چند انگریزی ناولوں کا اردو ترجمہ بھی کیا تھا۔

    ریاض خیر آبادی آخر عمر میں خانہ نشین ہو گئے اور 82 سال کی عمر میں وفات پائی۔

    ان کا دیوان "دیوانِ ریاض” کے نام سے شائع ہوا۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

    بچ جائے جوانی میں جو دنیا کی ہوا سے
    ہوتا ہے فرشتہ کوئی انساں نہیں ہوتا

    مے خانے میں کیوں یادِ خدا ہوتی ہے اکثر
    مسجد میں تو ذکرِ مے و مینا نہیں ہوتا

    دھوکے سے پلا دی تھی اسے بھی کوئی دو گھونٹ
    پہلے سے بہت نرم ہے واعظ کی زباں اب

  • اردو کے معروف شاعر حکیم ناصر کی برسی

    اردو کے معروف شاعر حکیم ناصر کی برسی

    اردو کے معروف شاعر حکیم ناصر 28 جولائی 2007ء کو راہیِ ملک عدم ہوئے۔ آج ان کی برسی ہے۔ ان کی ایک مشہور غزل کا یہ شعر آپ نے ضرور سنا ہو گا۔

    جب سے تُو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے
    سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں‌ اٹھا رکھا ہے

    غزل کی اسی لڑی کا یہ شعر بھی ملاحظہ کیجیے۔

    پتھرو! آج میرے سَر پر برستے کیوں ہو
    میں نے تم کو بھی کبھی اپنا خدا رکھا ہے

    1947ء میں اجمیر شریف (بھارت) میں جنم لینے والے حکیم ناصر کا اصل نام محمد ناصر تھا۔ وہ تقسیمِ ہند کے بعد کراچی آ گئے تھے جہاں اپنا مطب کھولا اور اسے یافت کا ذریعہ بنایا۔ ان کے والد اور دادا بھی حکیم تھے۔ حکیم ناصر نے مطب کو وقت دینے کے ساتھ ساتھ شاعری جاری رکھی جو روایت و جدّت کا حسین امتزاج تھی۔ وہ بنیادی طور پر رومانوی شاعر تھے، لیکن اسے ایک منفرد اور نئے آہنگ سے اشعار میں‌ سمویا۔ ندرتِ خیال اور دل کش اندازِ بیاں نے ان کی شاعری کو پُراثر اور مقبول بنایا۔

    یہاں ہم حکیم ناصر کے چند اشعار قارئین کے ذوق کی نذر کررہے ہیں۔

    اب مری دید کی دنیا بھی تماشائی ہے
    تُو نے کیا مجھ کو محبّت میں بنا رکھا ہے

    آپ سے آنکھیں ملی تھیں پھر نہ جانے کیا ہوا
    لوگ کہتے ہیں کہ ایسی بے خودی دیکھی نہ تھی

    ہاتھ اٹھتے ہوئے ان کے نہ کوئی دیکھے گا
    کسی کے آنے کی کریں گے وہ دعا میرے بعد

    تمہارے بعد اجالے ہی ہو گئے رخصت
    ہمارے شہر کا منظر بھی گائوں جیسا ہے