Tag: 28 ستمبر وفات

  • لوئیس پاسچر کی کہانی جس نے مہلک جراثیم کے خلاف ویکسین متعارف کرائی

    لوئیس پاسچر کی کہانی جس نے مہلک جراثیم کے خلاف ویکسین متعارف کرائی

    لوئیس پاسچر نے دنیائے طب و صحّت میں اپنے نظریات اور دریافت کے سبب ممتاز ہوا۔ ایک کیمیا دان اور ماہرِ حیاتیات کی حیثیت سے اس کے نظریات اور تجربات نے طبّی سائنس اور انسانوں کو بہت فائدہ پہنچایا۔

    پاسچر کی وجہِ شہرت جراثیم سے متعلق اس کا تشکیل کردہ نظریہ اور مدافعتی حربے کے طور پر ٹیکہ لگانے کا طریقہ وضع کرنا ہے۔ پاسچر ہی نے کتّے کے کاٹے کا علاج دریافت کیا اور ثابت کیا کہ بہت سی بیماریاں جراثیم کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ اس نے خمیر پر اپنی تحقیق سے ایک ایسا سائنسی باب کھولا جس نے بعد میں جرثومیات کو ایک مضمون کے طور پر متعارف کروایا۔ اس نے پرندوں اور حیوانوں میں متعدی امراض پھیلانے والے جراثیم پر بھی تحقیق کی۔ پاسچر نے ریبیز اور دنبل (اینتھریکس) کی پہلی ویکسین بنائی۔

    وہ 1822ء میں فرانس کے قصبہ ڈولی میں پیدا ہوا۔ کالج میں اس کا مضمون سائنس تھا اور 1847ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

    اس نے خمیر کے انتہائی چھوٹے اجسام یعنی جراثیم پر تجربات اور تحقیق پر توجہ دی اور یہ جانا کہ ایسے جراثیم ہی بیماری کا سبب بنتے ہیں۔ تاہم وہ پہلا سائنس دان نہیں تھا جس نے جراثیموں کا نظریہ پیش کیا۔ دراصل پاسچر کی اصل کام یابی اس کے ان تھک تجربات اور اپنی تحقیق کے عملی مظاہرے ہیں جس نے سائنس دانوں کو اس کے نظریات کو ماننے اور مزید غور کرنے پر مجبور کیا۔

    پاسچر نے ایک طریقہ کار وضع کیا جسے ”پاسچرائزیشن‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے ذریعے مختلف طرح کے مشروبات میں جراثیموں کو مارا جا سکتا ہے۔

    پاسچر کی سب سے معروف ایجاد ریبیز کی بیماری کے علاج کا ٹیکہ ہے۔

    28 ستمبر 1895ء میں پاسچر نے وفات پائی۔ اس کے وضع کردہ طریقہ کار کے تحت آج بھی متعدد بیماریوں کے خلاف علاج میں مدد لی جارہی ہے۔

  • مغل شہنشاہ کی روداد جو اپنا جانشین تک خود مقرّر نہیں کرسکتا تھا

    مغل شہنشاہ کی روداد جو اپنا جانشین تک خود مقرّر نہیں کرسکتا تھا

    سلطنت مغلیہ کے اٹھارھویں شہنشاہ اکبر شاہ ثانی تھے جنھیں برائے نام اختیارات حاصل تھے۔ وہ شاہ عالم ثانی کے بعد تخت پر رونق افروز ہوئے تھے۔

    اکبر شاہ ثانی کے سنِ پیدائش میں اختلاف ہے۔ کچھ مؤرخین اور تذکرہ نویسوں نے 1759ء اور بعض نے 1755ء لکھا ہے، لیکن ان کی وفات 1837ء میں آج ہی کے دن ہوئی تھی۔

    اکبر شاہ ثانی کے زمانے میں انگریزوں کی سیاسی ریشہ دوانیاں اور زیادہ تیز ہو گئی تھیں۔ انھوں نے‌ دہلی کی بادشاہت کو رفتہ رفتہ محدود کیا اور اسے ختم کرنے کے لیے ہر کوشش کی۔

    شاہ عالم ثانی کے زمانے تک انگریز، مغل بادشاہ اور اس کے دربار کی تعظیم کرتے تھے۔ اس وقت بادشاہ کے دربار میں دہلی کے ریذیڈنٹ، اسٹین کی حیثیت ایک معمولی امیر سے زیادہ نہیں تھی۔ وہ شاہی خاندان کے ہر فرد کی بے انتہا عزت کرتا تھا لیکن اسٹین کا نائب، چارلس مٹکاف، بادشاہ کے اس احترام سے سخت ناخوش تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ہم اس طرح بادشاہ کی تعظیم کر کے اس کی غیرت و حمیت کو نہیں سلا سکتے، جو ہمارا اوّلین مقصد ہے۔

    ادیب اور تذکرہ نگار مولوی ذکاءُ اللہ چارلس مٹکاف کے الفاظ میں لکھتے ہیں:’’میں اس پالیسی کے ساتھ موافقت نہیں کرتا جو اسٹین صاحب نے شاہی خاندان کے ساتھ اختیار رکھی ہے۔ جو شخص برٹش گورنمنٹ کی طرف سے دہلی میں حکم رانی کے لیے مقرر ہو، وہ بادشاہ کی تعظیم اس طرح کرتا ہے جس سے بادشاہی قوت کے بیدار ہونے کا اندیشہ ہے۔ حالاں کہ ہم اس کو ہمیشہ کے لیے سلا دینا چاہتے ہیں۔ ہمارا مقصود نہیں کہ بادشاہ کو بادشاہی کے دوبارہ اختیارات حاصل ہوں۔ اس لیے ہم کو ایسی حرکتیں نہیں کرنی چاہییں جن سے اس کے دل میں اپنی بادشاہی حاصل کرنے کی تمنا پیدا ہو، اگر ہم نہیں چاہتے کہ اس کی حکومت کو پھر دوبارہ قائم کریں تو ہم کو چاہیے کہ بادشاہت کا خیال اس کے خواب میں بھی نہ آنے دیں۔‘‘

    یہ حالات اکبر شاہ ثانی کی تخت نشینی کے ٹھیک ایک سال بعد یعنی 1807ء میں پیدا ہونے شروع ہو گئے تھے۔ 1809ء میں بادشاہ نے اپنے لیے مزید وظیفے کا مطالبہ کیا جسے کورٹ آف ڈائریکٹرز نے بخوشی منظور کر لیا۔ لیکن اتنی بڑی بادشاہت پنشن اور وظائف پر نہیں چل سکتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ انگریزوں کی طرف سے بادشاہ کو جو وظیفہ ملتا تھا وہ ناکافی تھا۔ لہٰذا بادشاہ نے پھر کوشش کی کہ وظیفے میں مزید اضافہ کیا جائے۔ بادشاہ نے اس سلسلے میں حکومت اودھ کی بھی مدد حاصل کرنے کی کوشش کی۔

    چناں چہ 1812ء میں بادشاہ کی والدہ قدسیہ بیگم اور صاحب زادے مرزا جہانگیر کسی بہانے لکھنؤ پہنچے اور وہاں پہنچ کر نواب وزیر کو اپنی مدد کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ انگریزوں نے اس کارگزاری کے جواب میں بادشاہ کے الاؤنس میں اس وقت تک کے لیے اضافے سے انکار کر دیا، جب تک وہ انگریزوں کی شرائط پر کاربند نہ ہوں۔ بادشاہ کو تمام معاملات سے بے دخل کر دیا گیا، یہاں تک کہ بادشاہ کو یہ اختیار بھی نہیں رہا کہ وہ اپنا ولی عہد یا جانشین خود مقرر کر سکیں۔

    1814ء میں اکبر شاہ ثانی نے گورنمنٹ سے مطالبہ کیا کہ ان کا مرتبہ گورنر جنرل سے زیادہ ہونا چاہیے۔ انگریزوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔

    آخر کار اکبر شاہ ثانی نے مشہور برہمو سماجی لیڈر راجا رام موہن رائے کو راجا کا خطاب دے کر اپنا سفیر بنا کر انگلستان بھیجا اور انھیں اپنا مقدمہ لڑنے کو کہا۔ راجا رام موہن رائے جب انگلستان پہنچے تو ان کا زبردست استقبال ہوا۔ وہ ایک دانش ور تھے لیکن جس مقصد کے لیے وہ انگلستان گئے تھے اس میں انھیں کام یابی حاصل نہیں ہو سکی۔

    اس کے بعد ہندوستان میں انگریز افسر اکبر شاہ ثانی سے اور بدگمان ہوگئے۔ چنانچہ اکبر شاہ ثانی نے اپنی زندگی کے باقی دن لال قلعے میں ایک بے یارو مددگار انسان کی طرح پورے کیے۔

    وہ دہلی کے تخت پر 31 برس رونق افروز رہے اور کہتے ہیں کہ مرضِ اسہال کے سبب وفات پائی۔

  • امید فاضلی: غزل گوئی اور مرثیہ ان کی پہچان ہے

    امید فاضلی: غزل گوئی اور مرثیہ ان کی پہچان ہے

    امید فاضلی کا شمار اردو کے ممتاز شعرا میں ہوتا ہے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    وہ 17 نومبر 1923ء کو ڈبائی، ضلع بلند شہر(ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ ان کا نام ارشاد احمد فاضلی اور تخلّص امید تھا۔

    انھوں نے ابتدائی تعلیم ڈبائی اور میرٹھ سے حاصل کی اور پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ 1944ء میں وہ کنٹرولر آف ملٹری اکائونٹس کے محکمے سے وابستہ ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی میں سکونت اختیار کی اور اسی محکمے سے وابستہ رہے۔

    امید فاضلی اردو کے اہم غزل اور مرثیہ گو شعرا میں شمار ہوتے تھے۔ ان کی غزلیات کا پہلا مجموعہ دریا آخر دریا کے نام سے اشاعت پذیر ہوا تھا جسے 1979ء میں شائع ہونے والے بہترین شعری مجموعے کا آدم جی ادبی انعام دیا گیا۔ ان کے مرثیوں کا مجموعہ سر نینوا، نعتوں کا مجموعہ میرے آقا، منقبت کا مناقب اور قومی شاعری پر مشتمل کلام پاکستان زندہ باد کے نام سے جب کہ مراثی کی ایک اور کتاب تب و تابِ جاودانہ کے عنوان سے شایع ہوئی۔

    امید فاضلی کے نعتیہ مجموعہ کلام میرے آقا پر بھی انھیں رائٹرز گلڈ کا انعام عطا ہوا تھا۔ وہ 28 اور29 ستمبر 2005ء کی درمیانی شب کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ انھیں سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

    امید فاضلی کے کئی اشعار ضربُ المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کا یہ شعر بہت مشہور ہے۔

    کل اس کی آنکھ نے کیا زندہ گفتگو کی تھی
    خیال تک نہ ہوا وہ بچھڑنے والا ہے

  • انگریزی ناول نگار ملک راج آنند کا تذکرہ جنھیں علّامہ اقبال نے حصولِ تعلیم کے لیے انگلستان بھجوایا

    انگریزی ناول نگار ملک راج آنند کا تذکرہ جنھیں علّامہ اقبال نے حصولِ تعلیم کے لیے انگلستان بھجوایا

    "اَن ٹچ ایبل” انگریزی زبان میں وہ مشہور ناول تھا جس میں مصنّف نے ہندوستانی سماج میں ذات پات کے نظام پر تنقید کی تھی۔ یہ ایک ایسی پندرہ سالہ مزدور لڑکی کی کہانی ہے جو تپِ دق سے مر جاتی ہے۔ یہ ملک راج آنند کا ناول تھا جو آج ہی کے دن 2008ء میں وفات پاگئے تھے۔

    بھارتی ناول اور افسانہ نگار ملک راج آنند 1905ء میں متحدہ ہندوستان کے شہر پشاور (پاکستان) میں پیدا ہوئے تھے۔ امرتسر میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ انگلستان چلے گئے۔

    انھوں نے 1920ء کے عشرے میں انگلستان میں لندن اور کیمرج کی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد کئی برس تک انگلستان میں قیام کیا۔

    وہاں انھیں انگریزی زبان و ادب کا مطالعہ کرنے، تہذیب و ثقافت کو سمجھنے کے ساتھ اپنے زمانے کے اہم مصنّفین اور تخلیق کاروں کی صحبت اور ان کی رفاقت نصیب ہوئی جس نے انھیں لکھنے پر اکسایا۔

    ملک راج آنند کا تعلق بائیں بازو سے تھا۔ انھوں نے کہانیوں کے ساتھ ادبی اور تنقیدی مضامین بھی لکھے۔ وہ عرصہ دراز تک ممبئی کے مشہور آرٹ میگزین "مارگ” کے ایڈیٹر بھی رہے۔ ملک راج آنند مہاتما گاندھی کی شخصیت اور لندن کی علمی وادبی فضا سے بڑے متاثر نظر آتے ہیں۔

    ملک راج آنند کے مندرجہ بالا ناول کو ان کا ایک ذاتی المیے پر ردِ عمل کہا جاتا ہے۔ ہُوا یہ تھا کہ ان کی ایک عزیزہ کو ہندو برادری سے صرف اس بات پر الگ کردیا گیا تھا کہ انھوں نے ایک مسلمان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا تھا۔ خاتون نے اس سے دل گرفتہ ہوکر خود کشی کر لی تھی۔

    اس ناول کا پیش لفظ ملک راج آنند کے دوست اور مشہور ناول نگار ای ایم فوسٹر نے لکھا تھا۔

    ناول کے بارے میں ایک اور مشہور مصنّف مارٹن سیمور سمتھ لکھتے ہیں کہ ’یہ ایک جذباتی اور مشکل موضوع پر لکھا جانے والا فصاحت اور بلاغت سے پُر اور فکرانگیز شاہکار ہے۔’

    ان کی ادبی کاوشوں میں ’قلی‘، ’ٹُو لیوز اینڈ اے بڈ‘ ’دی ویلج‘ اور ’ایکراس دی بلیک واٹرز‘ بھی شامل ہیں اور دی سیون ایجز آف مین، دی سیون سمرس، دی بیل بھی انہی کی فکر و تخلیق ہیں۔

    مرحوم بہت اچّھی اردو بھی جانتے تھے اور ان کا انگریزی اور اردو ادب کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔

    ملک راج آنند شاعر مشرق، علامہ اقبالؒؒ کی شاعری کا چرچا سن کر ان کے گرویدوہ ہوئے اور ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا جس کے بعد ملک راج آنند فلسفے میں ازحد دلچسپی لینے لگے۔

    ملک راج آنند اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں: ’’میں نے ان(علّامہ اقبال) سے کہا، میں آپ کے نقش قدم پر چلنا چاہتا ہوں۔‘‘وہ بولے ’’میرے نقش قدم پر چلے، تو تم میونخ (جرمنی) پہنچ جاؤ گے۔ لیکن تم تو جرمن زبان نہیں جانتے۔ پھر شاید تمہارے پاس اتنی رقم بھی نہیں کہ وہاں جا سکو۔ بہرحال تم ایسا کرو کہ لندن چلے جاؤ۔ میں اس سلسلے میں کچھ کرتا ہوں۔‘‘

    آخر شاعر مشرق کی کوششوں سے یونیورسٹی کالج، لندن میں ملک راج آنند کا داخلہ ہوگیا۔ ملک راج آنند کو اقبال کی بہت سی نظمیں زبانی یاد تھیں۔

    ملک راج آنند نمونیہ میں مبتلا ہونے کے بعد 94 سال کی عمر میں چل بسے تھے۔ انھیں بھارت میں متعدد ادبی ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔

  • ایلیا کازان:‌ہالی وڈ کا "غدار” جسے باکمال ہدایت کار، بہترین فلم ساز تسلیم کیا جاتا ہے

    ایلیا کازان:‌ہالی وڈ کا "غدار” جسے باکمال ہدایت کار، بہترین فلم ساز تسلیم کیا جاتا ہے

    ایلیا کازان 1950ء کے عشرے میں اس تنازع کا سبب بنے تھے جس نے فلم انڈسٹری میں تہلکہ مچا دیا تھا، لیکن تقریباً نصف صدی بعد انھیں اس کا ردعمل دیکھنا پڑا۔

    یہ 1999ء کی بات ہے جب آسکر ایوارڈ (لائف ٹائم اچیومنٹ) کے لیے ان کا نام پکارا گیا تو حاضرین ان کے استقبال اور پزیرائی کے معاملے پر تذبذب کا شکار اور منقسم نظر آئے۔ منتظمین پر کڑی تنقید کی گئی اور کازان کو خفّت اٹھانا پڑی۔

    اس واقعے کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ایلیا کازان نے امریکی کانگریس کی ایک کمیٹی کو ہالی وڈ میں اپنے اُن ساتھیوں کے نام بتائے تھے جنھیں وہ کمیونسٹوں کا ہم درد اور امریکا مخالف کارروائیوں میں ملوث سمجھتے تھے۔

    کازان کا بیان اُس دور کے فن کاروں کے لیے ایک تلخ اور افسوس ناک حقیقت ثابت ہوا اور ان کی بھرپور مخالفت کی گئی، لیکن کوئی بھی فلم انڈسٹری میں ایلیا کازان کی کام یابیوں کا راستہ نہ روک سکا۔ وہ ہالی وڈ کے ایک عظیم ہدایت کار اور منفرد فلم ساز کی حیثیت سے پہچانے گئے اور آج بھی ان کی یہ شناخت قائم ہے۔

    پرفارمنگ آرٹ اور شوبزنس کی جگمگاتی ہوئی دنیا میں ایلیا کازان قابلِ تقلید ہدایت کار بنے اور ان کی فلمیں دیکھ کر نو آموز فن کاروں کو سیکھنے کا موقع ملا۔

    کازان ’آن دی واٹر فرنٹ‘ اور ’ایسٹ آف ایڈن‘ جیسی مشہور فلموں کے ہدایت کار تھے۔ وہ 2003ء میں آج ہی کے دن ابدی نیند سو گئے تھے۔

    ایلیا کازان کے والدین یونان کے باشندے تھے جنھوں نے 1913ء میں امریکا ہجرت کی۔ کازان نے 9 ستمبر 1909ء کو استنبول (ترکی) میں آنکھ کھولی۔ امریکا ہجرت کے وقت کازان چار سال کے تھے۔ شوبزنس کی چکاچوند اور فلم نگری کی روشنیوں کا حصّہ بننے والے کازان لڑکپن میں تنہائی پسند، گم گو اور شرمیلے تھے۔ اس کا ذکر انھوں نے ’’امریکا، امریکا‘‘ کے نام سے اپنی خود نوشت میں کیا ہے۔ اس کتاب میں کازان نے اپنا خاندانی پَس منظر، اپنے خاندان کا ذریعۂ معاش، والدین کا تعارف، امریکا ہجرت کرنے کی وجوہ اور زندگی کے مختلف حالات و واقعات رقم کیے ہیں۔

    کازان کے مطابق ان کی والدہ کا گھرانا تجارت پیشہ تھا اور ننھیالی رشتے دار مختلف شکلوں میں روئی کے کاروبار سے وابستہ تھے۔ امریکا پہنچ کر ان کے والد نے قالین کی خریدوفروخت شروع کی اور یہی کاروبار ان کا ذریعۂ معاش رہا۔ والدین کی خواہش تھی کہ کازان خاندانی بزنس سنبھالیں، لیکن انھوں نے اپنے لیے ایک الگ راستے کا انتخاب کیا۔ کازان کی یہ کتاب بیسٹ سیلر ثابت ہوئی۔

    امریکا میں سکونت اختیار کرنے کے بعد والدین نے کازان کو نیویارک کے ایک اسکول میں داخل کروا دیا جہاں ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے ایک یونیورسٹی کے شعبۂ فنون میں داخلہ لے لیا۔ یہاں سے ڈراما اور اداکاری کی تعلیم اور تربیت حاصل کی اور اس کے بعد اسٹیج پر قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔

    اس راستے میں پہلا پڑاؤ نیویارک گروپ تھیٹر تھا۔ یہ 1932ء کی بات ہے۔ وہ اسٹیج پر بحیثیت اداکار کام کرنے لگے۔ آٹھ سال تک اداکاری کو ذریعۂ معاش بنائے رکھا۔ پھر براڈ وے پر اسٹیج ڈراموں کے ہدایت کار کی حیثیت سے کام کیا اور اس میدان سے ہالی وڈ کے لیے اڑان بھری جہاں فلم ڈائریکشن کے میدان میں کازان نے اپنا کمال دکھایا اور نئی جہات متعارف کروائیں۔

    ان کا شمار نام وَر فلم سازوں میں ہونے لگا۔ وہ ایسے فلم ساز تھے جو غیرمعروف فن کاروں کی صلاحیتوں پر بھروسا کرنے سے نہیں گھبراتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے اپنی فلموں میں نئے چہروں کو بھی آزمایا اور انھیں آگے لائے۔ تاہم اس حوالے سے وہ بہت سوچ بچار کے بعد ہی کوئی قدم اٹھاتے تھے۔ کازان کا خیال تھاکہ کسی بھی فلم کے کام یاب یا فلاپ ہوجانے میں نوّے فی صد عمل دخل اس کی کاسٹ کا ہوتا ہے۔ اسٹیج کے بعد کازان نے فلموں میں بھی اداکاری کی۔ بعد میں انھوں نے ہدایت کاری کے شعبے میں قدم رکھا۔

    موشن پکچرز میں نووارد فلم ڈائریکٹر ایلیا کازان ابتدائی دنوں میں دو شارٹ موویز کے لیے کیمرے کے پیچھے کام کرتے نظر آئے۔ 1945ء میں ان کی پہلی فیچر فلم اے ٹری گروز ان بروکلین کے نام سے پردے پر سجی۔ یہ فلم دو آسکرز کے لیے نام زد کی گئی، اور ایک ایوارڈ اپنے نام کرسکی۔ یہ کازان کی بڑی کام یابی تھی۔

    1949 ء میں ان کی ایک فلم پنکی منظرِ عام پر آئی جو متنازع ٹھیری۔ اس کا موضوع امریکا میں نسل پرستی تھا۔ یہ فلم تین آسکر ایوارڈز کے لیے نام زد ہوئی، مگر کوئی ایوارڈ نہ جیت سکی۔

    پرفارمنگ آرٹ کے فروغ اور اس شعبے میں ٹیلنٹ کو متعارف کرانے کی غرض سے کازان نے 1947ء میں ایکٹرز اسٹوڈیو کی بنیاد بھی رکھی اور اداکاری اور فلم سازی کی تربیت دیتے رہے۔

    1951ء میں ان کی فلم A Streetcar Named Desire سامنے آئی۔ یہ فلم بارہ آسکر کے لیے نام زد ہوئی جن میں سے چار اس کا مقدر بنے۔ اس کے بعد بھی ان کی کام یاب فلموں کا سلسلہ جاری رہا اور وہ ایوارڈ بھی اپنے نام کرتے رہے۔

    اپنے فلمی کیریر میں کازان نے بیسٹ ڈائریکٹر کے دو آسکر اور لائف ٹائم اکیڈمی ایوارڈ جیتے جب کہ مختلف فلمی اعزازات حاصل کیے۔ انھوں نے چار گولڈن گلوب اور تین ٹونی ایوارڈز بھی حاصل کیے۔

    کازان کی زیادہ تر فلمیں سماجی موضوعات اور ایسے نظریات اور سوچ کی عکاس ہیں جن کا کازان کی ذاتی زندگی پر اثر پڑا۔ ان کی ایک فلم کا موضوع امریکی معاشرے میں یہودیوں کے لیے جذبۂ نفرت اور تعصب بھی تھا جس پر خاصی تنقید ہوئی۔

    اس فلم کا مرکزی کردار ایک صحافی ہے جو اپنی نیوز اسٹوری کے لیے نیویارک آتا ہے اور یہاں لوگوں کے درمیان خود کو یہودی ظاہر کرتا ہے۔ یہ کردار ہالی وڈ کے معروف اداکار گریگوری پیک نے ادا کیا تھا۔ یہ کردار امریکیوں کے یہودیوں کے ساتھ نفرت آمیز سلوک اور ان سے تعصب کو قلم بند کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے وہ عام میل جول کے دوران اپنی جعلی شناخت عام کرتا ہے اور یوں کہانی آگے بڑھتی ہے۔ کازان کی یہ فلم آٹھ آسکرز کے لیے نام زد ہوئی جن میں سے تین اپنے نام کرسکی۔ انہی میں ایک بہترین ڈائریکٹر کا آسکر بھی تھا جو کازان لے اڑے۔ یہ اس شعبے میں ان کا پہلا آسکر تھا۔

    اب بات کریں کازان کے کمیونسٹوں سے متعلق بیان کی تو اس زمانے میں امریکا میں کمیونسٹوں پر کچھ ایسا شک کیا جارہا تھا جس طرح آج کل دنیا بھر میں مسلمانوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ شک اور تعصب کی اسی فضا میں کازان نے کانگریس کی ایک کمیٹی کے سامنے چند نام رکھے تھے جس سے اُس دور میں فلم انڈسٹری کے چند بڑے ناموں کی شہرت اور ساکھ کو زبردست دھچکا لگا تھا۔

    کازان نے چار ناول بھی لکھے جن میں سے دو ان کی ذاتی زندگی کی روداد ہیں۔

  • یومِ‌ وفات: "ناممکن کی جستجو” حمید نسیم کی یاد دلاتی رہے گی!

    یومِ‌ وفات: "ناممکن کی جستجو” حمید نسیم کی یاد دلاتی رہے گی!

    آج اردو کے معروف شاعر، ادیب، نقاد اور براڈ کاسٹر حمید نسیم کی برسی ہے۔ وہ فنونِ لطیفہ کے شائق اور اسلامی علوم و تعلیمات سے گہرا لگاؤ رکھتے تھے۔ 28 ستمبر 1998ء کو وفات پانے والے حمید نسیم نے متعدد کتب یادگار چھوڑی ہیں جو ان کی تخلیقی اور تنقیدی بصیرت کا نمونہ ہیں۔

    حمید نسیم 16 اکتوبر 1920ء کو شاہ پور ضلع ڈلہوزی میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد انھوں‌ نے ریڈیو پاکستان میں ملازمت اختیار کر لی۔ اس وابستگی کے ساتھ وہ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے عہدے تک پہنچے۔ بعدازاں پی آئی اے آرٹس اکیڈمی کی سربراہی سنبھال لی۔ حمید نسیم ڈرامے اور موسیقی کا بہت اعلیٰ ذوق رکھتے تھے اور زبان و بیان میں عمدہ تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اسلامی علوم کی طرف ان کی توجہ زیادہ ہو گئی تھی۔

    حمید نسیم کے شعری مجموعوں میں دود تحیر، جستِ جنوں اور گردِ ملال شامل ہیں جب کہ تنقید میں "علّامہ اقبال ہمارے عظیم شاعر، کچھ اہم شاعر، کچھ اور اہم شاعر اور پانچ جدید شاعر کے نام سے ان کی کتابیں شایع ہوئیں۔

    حمید نسیم کی خود نوشت سوانح عمری بھی "ناممکن کی جستجو” کے نام سے شایع ہوئی۔

    وہ تعارفِ فرقان کے نام سے قرآن کی تفسیر تحریر کررہے تھے، لیکن اسے مکمل نہ کرسکے اور وفات پائی۔