Tag: 28 نومبر وفات

  • طورسم خان کی دوسری برسی اور اسکواش کی تاریخ کا ایک جذباتی لمحہ

    طورسم خان کی دوسری برسی اور اسکواش کی تاریخ کا ایک جذباتی لمحہ

    یہ محض اتفاق ہے کہ جس تاریخ کو طورسم خان نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موندی تھیں، اس کے دو برس بعد اسی تاریخ کو ان کا ایک خواب بھی پورا ہوا جس کے لیے وہ اپنے بھائی جہانگیر خان کو تیّار کررہے تھے۔

    طورسم خان کی وفات کے بعد1981ء میں جہانگیر خان اوپن چیمپئن شپ کے عالمی فاتح بنے تھے۔ یہ ایونٹ 19 سے 28 نومبر تک جاری رہا اور عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی جہانگیر خان کی عمر اُس وقت محض 17 سال تھی۔ ان کے بھائی طورسم کو 1979ء میں اسکواش کورٹ میں‌ دل کا دورہ پڑا تھا اور وہ خالقِ حقیقی سے جاملے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    طورسم خان پاکستان میں اسکواش کے معروف کھلاڑی روشن خان کے بیٹے تھے جنھیں آسٹریلین اوپن میں نیوزی لینڈ کے نیون باربر کے خلاف دوسرے راؤنڈ کا میچ کھیلتے ہوئے دل کا دورہ پڑا تھا۔ وہ اچانک اسکواش کورٹ میں گر پڑے۔ انھیں فوراً اسپتال پہنچایا گیا۔ ڈاکٹروں نے بتایاکہ ہارٹ اٹیک سے ان کا دماغ بری طرح متاثر ہوا ہے۔

    اسکواش کے اس مایہ ناز کھلاڑی کو چند دنوں تک لائف سپورٹنگ مشین پر رکھا گیا، لیکن پھر ڈاکٹروں کی ٹیم نے بتایا کہ ان کا زندگی کی طرف لوٹنے کا کوئی امکان نہیں۔ ان کے والد جو خود بھی اسکواش کے معروف کھلاڑی تھے، انھیں فیصلہ کرنا پڑا کہ وہ مشین بند کرکے اپنے بیٹے کو رخصت کریں۔ وہ اذیّت ناک دن تھا جب انھوں‌ نے ڈاکٹروں کو مشین ہٹانے کے لیے کہہ دیا۔

    28 نومبر کو جہانگیر خان بھی اپنے شفیق دوست، مہربان ساتھی، اپنے ٹرینر اور محبّت کرنے والے بڑے بھائی سے محروم ہوگئے۔ وہ تین ماہ تک اس غم میں‌ اسکواش سے بالکل دور رہے، لیکن پھر سب کے سمجھانے پر انھوں نے کورٹ کا رخ کیا تاکہ اپنے بھائی طورسم خان کا خواب پورا کرسکیں۔

    1981ء کا ورلڈ اوپن کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں منعقد ہوا جس میں جیف ہنٹ اپنے عالمی اعزاز کا دفاع کررہے تھے۔ وہ لگا تار چار سال یہ عالمی اعزاز اپنے نام کرتے رہے تھے، لیکن اس بار انھیں ناکامی ہوئی اور پاکستان کے کھلاڑی جہانگیر خان چوتھے گیم میں اسکواش کے عالمی فاتح بنے۔

    روشن خان کے خاندان اور خود جہانگیر خان نے اس شان دار کام یابی پر خوشی کے ساتھ گہرا دکھ بھی محسوس کیا۔ یہ وہی تاریخ تھی جب ان کے بڑے بھائی طورسم خان اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔ دنیا اس مقابلے کو اور طرح سے دیکھ رہی تھی، لیکن اسکواش کے اس نوجوان کھلاڑی کے لیے یہ ایک نہایت جذباتی موقع تھا۔

    طورسم خان 27 ستمبر 1951ء کو پیدا ہوئے تھے۔ 1967ء میں وہ قومی چیمپئن بنے۔ 1971ء میں عالمی ایمیچر اسکواش چیمپئن شپ میں انھیں پاکستان کی نمائندگی سونپی گئی تھی۔ انھوں نے انگلستان اوپن، امریکن اوپن اور ویلش اوپن اسکواش چیمپئن شپ جیتی تھی۔

    طورسم خان کو کراچی میں گورا قبرستان سے متصل فوجی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • واشنگٹن ارونگ: امریکی سیّاح، مؤرخ اور مقبول ترین کتابوں کے مصنّف کا تذکرہ

    واشنگٹن ارونگ: امریکی سیّاح، مؤرخ اور مقبول ترین کتابوں کے مصنّف کا تذکرہ

    واشنگٹن اَروِنگ نے باقاعدہ اسکول کی تعلیم بھی مکمل نہیں‌ کی اور کالج میں داخل ہونے سے بھی انکار کردیا، لیکن وہ سیروسیّاحت کا بڑا شوقین تھا۔ اکثر سرسبز مقامات، پہاڑیوں اور ساحل کی طرف نکل جاتا جہاں مناظرِ فطرت سے دل بہلانے کے دوران اپنے تخیّل کی مدد سے ایک جہان آباد کر لیتا تھا۔

    آج دنیا اَروِنگ کو ایک عظیم سیّاح اور مقبول مصنّف کے طور پر جانتی ہے۔ اسے ایک مصنّف کے طور پر پہچان اس وقت ملی جب وہ یورپ کی سیر کے بعد وطن لوٹا اور اپنے سفر کی روداد کو کتابی شکل میں شایع کروایا۔ بعد میں اسے ایک مؤرخ اور سفارت کار کی حیثیت سے بھی شہرت ملی۔

    واشنگٹن اَروِنگ نے 1859ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔ اس نے اپنی ایک خوش نوشت میں لکھا تھا، میں نئے مقامات پر جانے، عجیب اشخاص اور طریقوں کے دیکھنے کا ہمیشہ سے شائق تھا۔ میں ابھی بچّہ ہی تھا کہ میں نے اپنے سفر شروع کر دیے تھے۔ اور خاص طور پر اپنے شہر کے نامعلوم قطعات دیکھنے اور اس کے غیر ملکی حصّوں کی جانچ پڑتال کرنے کے لیے دوڑ دھوپ شروع کردی تھی۔ جب میں‌ لڑکا ہو گیا تو اپنی سیروسیّاحت کے دائرہ کو اور وسیع کر دیا۔ یہ سّیاحی کی صفت میری عمر کے ساتھ ساتھ ترقّی کرتی گئی۔

    ارونگ نوعمری ہی میں مطالعہ کی جانب راغب ہو گیا تھا۔ اس کی دل چسپی بحری اور برّی سفر کے واقعات پر مبنی کتابوں میں بڑھ گئی تھی۔ غور و فکر کی عادت نے اس کی قوّتِ مشاہدہ کو تیز کردیا اور اس کا علم اور ذخیرۂ الفاظ انگریزی ادب کے مطالعے اور اخبار بینی کی بدولت بڑھتا چلا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سیّاحتی دوروں کی روداد قلم بند کرنے کے قابل ہوا۔

    واشنگٹن ارونگ نیویارک میں 1783ء میں‌ ایک خوش حال سوداگر کے گھر پیدا ہوا۔اس کا باپ محبِّ وطن تھا اور یہی صفت اس کے بیٹے میں بھی منتقل ہوئی۔ وہ اپنے دیس اور اس کے نظّاروں کا دیوانہ تھا۔ اَروِنگ ملن سار تھا اور مجلس پسند بھی۔ اسے نت نئے اور تاریخی مقامات، نوادرات دیکھنے کے ساتھ مشہور شخصیات اور اُن لوگوں سے ملنا پسند تھا جو مہم جُو یا کسی اعتبار سے منفرد ہوں۔

    اس نے یورپ کی سیر کی، انگلستان اور فرانس گیا اور امریکا لوٹنے کے بعد 1809ء میں تاریخِ نیویارک نامی اپنی کتاب شایع کروائی جسے بہت پسند کیا گیا۔ اس کتاب کی اشاعت کے چند سال بعد ارونگ نے اسکیچ بک کے نام سے مختلف مضامین کا مجموعہ شایع کروایا اور یہ مقبول ترین کتاب ثابت ہوئی۔ ہر طرف ارونگ کی دھوم مچ گئی اور اس کی کتاب کا چرچا ہوا۔

    ارونگ نے نہایت ہنگامہ خیز اور ماجرا پرور زندگی بسر کی۔ وہ گھومتا پھرتا، پڑھتا لکھتا رہا۔ اسی عرصے میں اس نے تذکرہ نویسی بھی شروع کردی۔ 1849ء میں ارونگ نے حضرت محمد صلّی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے حالاتِ زندگی اور اس دور کے نمایاں واقعات بھی لکھے جو اس کا ایک بڑا کام ہے۔ اسی طرح حیاتِ گولڈ اسمتھ بھی اس کی مشہور ترین تصنیف تھی۔

    ارونگ کا اندازِ بیان دل چسپ اور ظریفانہ ہونے کے ساتھ نہایت معیاری اور بلند خیالی کا نمونہ تھا۔ اس کی تحریروں میں ظرافت کے ساتھ متانت نظر آتی ہے جو اس کے اسلوب کو منفرد اور دل چسپ بناتی ہے۔

    واشنگٹن ارونگ کی شخصیت اور اس کے تخلیقی کام کا امریکی معاشرے اور ثقافت پر گہرے اثرات مرتب ہوئے اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی امریکا کے مختلف شہروں میں اس کے مجسمے نصب ہیں اور متعدد لائبریریاں اس سے موسوم ہیں۔

    ہندوستان کے نام وَر ادیبوں اور مترجمین نے اس کے مضامین کا اردو ترجمہ کیا جنھیں بہت پسند کیا گیا۔

  • تحریکِ آزادی کے عظیم راہ نما مولانا شوکت علی خان کا تذکرہ

    تحریکِ آزادی کے عظیم راہ نما مولانا شوکت علی خان کا تذکرہ

    اسلام اور تحریکِ خلافت کے متوالوں، برصغیر میں آزادی کی لازوال جدوجہد کے دوران ہر قسم کی قربانیاں دینے، قید و بند کی صعوبتیں اٹھانے والے مولانا شوکت علی کا نام تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ مولانا شوکت علی کو ان کی وفات کے بعد آج ہی کے دن 1938ء میں دہلی میں سپردِ‌ خاک کیا گیا تھا۔

    مولانا شوکت علی 10 مارچ 1873ء کو رام پور میں پیدا ہوئے۔ وہ محمد علی جوہر کے بھائی تھے۔ ان کی والدہ کو برصغیر میں بی امّاں کے نام سے پہچانا جاتا ہے جو اسلامیانِ ہند کی راہ نما اور نہایت دین دار اور ایسی خاتون تھیں جنھوں نے اپنے بیٹوں کو دینِ مبین اور حق و صداقت کے راستے میں جان کی پروا نہ کرنے کا درس دیا اور خود بھی تحریکِ آزادی کے لیے میدانِ عمل میں اتریں۔ مولانا شوکت علی نے 1895ء میں ایم اے او کالج علی گڑھ سے گریجویشن کیا اور سرکاری ملازمت اختیار کی۔ تاہم 1913ء میں یہ ملازمت ترک کرکے انجمنِ خدام کعبہ کی بنیاد رکھی۔ انھوں نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے پہلی عالمی جنگ کے دوران قید و بند کی صعوبتیں جھیلیں۔

    1919ء میں انھوں نے اپنے چھوٹے بھائی مولانا محمد علی جوہر کے ساتھ تحریکِ خلافت کی بنیاد رکھی۔ اسی دوران انھوں نے گاندھی جی کے ساتھ ہندو مسلم اتحاد کی ایک نئی تاریخ رقم کی، تاہم جلد ہی گاندھی کی حمایت سے دست بردار ہوگئے اور مسلم لیگ کی پالیسیوں کی حمایت کرنے لگے۔

    1937ء میں برطانوی ہند میں مولانا شوکت علی مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ انھوں نے 26 نومبر 1938ء کو وفات پائی۔