Tag: 29 اپریل وفات

  • کیدار شرما کا تذکرہ جن سے نام وَر فلمی ستاروں نے ‘بخشش’ وصول کی

    کیدار شرما کا تذکرہ جن سے نام وَر فلمی ستاروں نے ‘بخشش’ وصول کی

    کیدار شرما جن اداکاروں اور آرٹسٹوں کے کام سے خوش ہوتے، انھیں انعام میں‌ کچھ رقم ضرور دیتے تھے۔ بالی وڈ کے کئی ستاروں نے ان سے داد اور بخشش وصول کی تھی جن میں راج کپور، دلیپ کمار، گیتا بالی اور نرگس بھی شامل ہیں۔ بالی وڈ کے اس باکمال اور کام یاب فلم ساز نے آج ہی کے دن 1999ء میں ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں‌ بند کرلی تھیں۔

    کیدار شرما نے کئی اداکاروں اور مختلف آرٹسٹوں کو فلم انڈسٹری میں‌ متعارف کروایا اور کام کرنے کا موقع دیا۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ وہ فلم سازی کے ساتھ فنونِ‌ لطیفہ کے مختلف شعبوں کا علم اور ان میں گہری دل چسپی رکھتے تھے۔

    12 اپریل 1910ء کو نارووال (پاکستان) میں پیدا ہونے والے کیدار شرما نے امرتسر میں تعلیم مکمل کی اور روزگار کی تلاش میں ممبئی چلے گئے۔ 1933ء میں کیدار کو دیوکی بوس کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم ”پران بھگت” دیکھنے کا موقع ملا۔ اس فلم نے انھیں بہت متاثر کیا اور کیدار نے فلم نگری میں کیریئر بنانے کا فیصلہ کیا، اس خواب کی تکمیل کے لیے انھوں نے کولکتہ کا رخ کیا جہاں کسی طرح دیوکی بوس سے ملاقات ہوگئی اور انہی کی سفارش پر نیو تھیٹر میں بطور سنیماٹو گرافر کام ملا۔

    سنیماٹو گرافر کی حیثیت سے کیدار کی پہلی فلم ‘سیتا’ تھی۔ اس کے بعد نیو تھیٹر کی فلم ‘انقلاب’ میں انھیں ایک چھوٹا سا کردار نبھانے کو ملا اور 1936ء میں فلم ”دیو داس” نے انھیں ایک باصلاحیت فن کار ثابت کرتے ہوئے فلمی کیریئر بنانے کا موقع فراہم کیا۔بعد میں‌ انھوں نے بطور ڈائریکٹر اپنی شناخت بنائی۔ "چتر لیکھا” وہ فلم تھی جس نے انھیں ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام یاب کیا۔ انھوں نے راج کپور کو پہلی مرتبہ سلور اسکرین پر پیش کیا تھا۔ 1950ء میں کیدار نے فلم ”باورے نین” بنائی اور گیتا بالی کو پہلی مرتبہ بطور اداکارہ کام کرنے کا موقع دیا۔ ان کی ایک فلم ”جوگن” سپر ہٹ ثابت ہوئی جس میں دلیپ کمار اور نرگس نے اہم کردار ادا کیے تھے۔

    کیدار شرما نغمہ نگار بھی تھے۔ انھوں نے متعدد فلموں کے لیے گیت تحریر کیے۔ ان کا فنی سفر تقریباً پانچ دہائیوں تک جاری رہا اور ان کا نام بڑے پردے کے ایک باکمال کی حیثیت سے امر ہوگیا۔

  • بالی وڈ کے معروف فلم ساز کیدار شرما کا تذکرہ

    بالی وڈ کے معروف فلم ساز کیدار شرما کا تذکرہ

    کیدار شرما بولی وڈ کے باکمال اور کام یاب فلم سازوں میں سے ایک تھے جو 29 اپریل 1999ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔ انھوں نے متعدد باصلاحیت فن کاروں کو انڈسٹری میں‌ متعارف کروایا۔ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت تھے اور فنونِ‌ لطیفہ کے مختلف شعبوں میں گہری دل چسپی رکھتے تھے۔

    وہ 12 اپریل 1910ء کو ناروال (پاکستان) میں پیدا ہوئے۔ کیدار نے امرتسر میں تعلیم مکمل کی اور روزگار کی تلاش میں ممبئی آ گئے۔ 1933ء میں کیدار کو دیوکی بوس کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم ”پران بھگت” دیکھنے کا موقع ملا۔ اس فلم نے انھیں بہت متاثر کیا اور کیدار نے فلم نگری میں کیریئر بنانے کا فیصلہ کیا، اس خواب کی تکمیل کے لیے انھوں نے کولکتہ کا رخ کیا جہاں کسی طرح دیوکی بوس سے ملاقات ہوگئی اور انہی کی سفارش پر نیو تھیٹر میں بطور سنیماٹوگرافر کام ملا۔

    سنیماٹوگرافر کی حیثیت سے کیدار کی پہلی فلم ‘سیتا’ تھی۔ اس کے بعد نیو تھیٹر کی فلم ‘انقلاب’ میں انھیں ایک چھوٹا سا کردار نبھانے کو ملا اور 1936ء میں فلم ”دیو داس” نے انھیں ایک باصلاحیت فن کار ثابت کرتے ہوئے فلمی کیریئر بنانے کا موقع فراہم کیا۔بعد میں‌ انھوں نے بطور ڈائریکٹر اپنی شناخت بنائی۔ "چتر لیکھا” وہ فلم تھی جس نے انھیں ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام یاب کیا۔ انھوں نے راج کپور کو پہلی مرتبہ سلور اسکرین پر پیش کیا تھا۔ 1950ء میں کیدار نے فلم ”باورے نین” بنائی اور گیتا بالی کو پہلی مرتبہ بطور اداکارہ کام کرنے کا موقع دیا۔ ان کی ایک فلم ”جوگن” سپر ہٹ ثابت ہوئی جس میں دلیپ کمار اور نرگس نے اہم کردار ادا کیے تھے۔

    کیدار جن فن کاروں کے کام سے خوش ہوتے، انھیں انعام میں‌ کچھ رقم ضرور دیتے تھے۔ راج کپور، دلیپ کمار، گیتا بالی اور نرگس نے بھی ان سے انعام وصول کیا تھا۔ وہ نغمہ نگار بھی تھے اور متعدد فلموں کے لیے گیت لکھے۔ تقریباً پانچ دہائیوں تک فلمی سفر جاری رکھنے والے کیدار نے سنیما کے شائقین اور ناقدین سے بھی اپنے کمالِ‌ فن اور صلاحیتوں کی داد پائی۔

  • یومِ وفات: اے حمید نے بچّوں اور نوجوانوں کے لیے معیاری کہانیاں اور ناول لکھے

    یومِ وفات: اے حمید نے بچّوں اور نوجوانوں کے لیے معیاری کہانیاں اور ناول لکھے

    آج معروف ادیب اور ناول نگار اے حمید کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 29 اپریل2011ء کو وفات پاگئے تھے۔

    25 اگست 1928ء کو امرتسر میں پیدا ہونے والے عبدالحمید نے قلم تھاما تو اے حمید مشہور ہوئے۔ وہ تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کرکے پاکستان چلے آئے اور یہاں ریڈیو پاکستان میں اسٹاف آرٹسٹ کے طور پر کام شروع کیا۔ ان کے فرائض میں ریڈیو فیچر، تمثیلچےاور نشری تقاریر لکھنا شامل تھا۔

    اے حمید نے ناول، افسانہ اور ڈراما نگاری کے لیے اپنے مطالعے اور مختلف ملکوں کی سیر و سیاحت سے موضوعات چنے اور واقعات کو کہانی میں ڈھالا، ان کی ابتدائی دور کی کہانیوں پر رومانوی طرزِ‌ تحریر اور کرشن چندر کا اثر نظر آتا ہے۔ 60 کی دہائی میں انھیں شہرت اور ان کی کہانیوں کو وہ مقبولیت حاصل ہوئی جو بہت کم ادیبوں کو نصیب ہوئی، وہ نوجوانوں کے مقبول ناول نگار بنے۔ ان کی کہانیاں نوجوانوں میں تجسس، شوق اور کھوج پیدا کرنے کے ساتھ انھیں‌ جاسوسی اور دہشت ناک کہانیوں کی صورت میں معیاری ادب پڑھنے کا موقع دیتی ہیں۔

    1980ء میں‌ اے حمید نے ملازمت سے استعفیٰ دیا اور امریکا کے مشہور نشریاتی ادارے میں پروڈیوسر کی حیثیت سے کام شروع کیا، لیکن ڈیڑھ برس بعد ہی لاہور لوٹ آئے اور یہاں فری لانس رائٹر کے طور پر کام کرنے لگے۔

    اے حمید نے بچّوں کا ادب بھی تخلیق کیا اور فکشن نگار کی حیثیت سے نوجوانوں کے لیے بہت سی کہانیاں اور ناول لکھے۔ انھوں نے بچّوں کے لیے سلسلہ وار ڈراما ’عینک والا جن‘ لکھا جو پی ٹی وی سے نشر ہوتا تھا۔ اس ڈرامے نے مقبولیت کا ریکارڈ قائم کیا۔ کہانی، ناول اور ڈرامے کے علاوہ اے حمید نے اردو شاعری اور اردونثر کی تاریخ بھی مرتب کی تھی جس سے ادب کے طالب علم آج بھی استفادہ کرتے ہیں۔

    اے حمید کی کچھ مقبولِ عام کتابوں میں پازیب، شہکار، تتلی، بہرام، بگولے، دیکھو شہر لاہور، جنوبی ہند کے جنگلوں میں، گنگا کے پجاری ناگ، ویران حویلی کا آسیب، اداس جنگل کی خوشبو اور دیگر شامل ہیں۔

  • فلمی دنیا کے معروف مزاحیہ اداکار منور ظریف کی برسی

    فلمی دنیا کے معروف مزاحیہ اداکار منور ظریف کی برسی

    29 اپریل 1976ء کو پاکستان کے معروف مزاحیہ اداکار منور ظریف وفات پاگئے تھے۔ اداکاری کے میدان میں ان کا فلمی سفر بہت کام یاب رہا اور منور ظریف نے اپنی بے ساختگی، چہرے کے تاثرات اور انداز سے بہت جلد شائقین کی توجہ اور فلم سازوں کی نظر میں‌ اہمیت اور مقام حاصل کرلیا۔

    وہ 2 فروری 1940ء کو لاہور کے گنجان آباد علاقے قلعہ گجر سنگھ میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے فلم اونچے محل میں مزاحیہ اداکاری سے اپنے فلمی سفر کا آغاز کیا تھا، لیکن اس فلم کی نمائش سے پہلے ایک اور فلم ڈنڈیاں ریلیز ہوگئی اور یوں اس فلم کی بدولت وہ پہلی بار بڑے پردے شائقین کے سامنے آئے۔ منور ظریف کا شمار باصلاحیت اداکاروں میں ہوتا تھا۔ ان کی عمدہ پرفارمنس نے انھیں اردو اور پنجابی فلموں کا مصروف اداکار بنا دیا۔

    منور ظریف کا فلمی کیریئر 15 سال پر محیط ہے جس میں انھوں نے 321 فلموں میں کام کیا۔ ہر سال ان کی دو درجن کے قریب فلمیں پردے پر پیش کی جاتی رہیں۔ منور ظریف کی پہلی سپر ہٹ فلم ہتھ جوڑی تھی۔ وہ ایک ایسے اداکار تھے جنھوں‌ نے اکثر فلموں میں اپنے بے ساختہ فقروں اور لطیف مکالموں سے شائقین کو لبھایا اور خود کو باصلاحیت ثابت کیا۔ انھیں‌ فلمی جگتوں کی وجہ سے پنجابی فلموں کا سب سے بڑا مزاحیہ اداکار کہا جانے لگا۔ یہاں تک کہ فلم سازوں نے ان کی شخصیت کے مطابق فلمی سین رکھے اور مکالمے لکھوانے کا سلسلہ شروع کردیا۔

    بنارسی ٹھگ، جیرا بلیڈ، رنگیلا اور منور ظریف، نوکر ووہٹی دا، خوشیاں، شیدا پسٹل، چکر باز، میرا ناں پاٹے خاں، حکم دا غلام، نمک حرام ان کی کام یاب ترین فلموں میں سے ایک ہیں۔ منور ظریف کی آخری فلم لہو دے رشتے تھی جو 1980ء میں ریلیز ہوئی۔

    پاکستان کی فلم انڈسٹری کے اس معروف و مقبول مزاحیہ اداکار نے متعدد نگار ایوارڈ حاصل کیے۔ وہ لاہور میں بی بی پاک دامناں کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔