Tag: 29 اکتوبر وفات

  • اردو کے ممتاز افسانہ و تاریخی ناول نگار قاضی عبدُالستّار کا تذکرہ

    اردو کے ممتاز افسانہ و تاریخی ناول نگار قاضی عبدُالستّار کا تذکرہ

    قاضی عبدالستار نے 1947ء میں لکھنا شروع کیا اور یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان میں فکشن نگاروں کی ایک کہکشاں موجود تھی جس میں راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، انتظار حسین، قرۃُ العین حیدر، جوگندر پال وغیرہ کے نام شامل ہیں۔ ان کے درمیان قاضی عبدالستار نے جہاں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا وہیں اپنی انفرادیت کو بھی منوایا۔

    قاضی عبدالستار نے تہذیبی، ثقافتی، معاشرتی، تاریخی اور رومانی موضوعات کو اپنے ناولوں کا موضوع بنایا۔ انھوں نے معروف تاریخی شخصیات کی زندگی اور ان کے عہد کو اپنی کہانیوں میں سمیٹا۔ ان میں غالب، دارا شکوہ، حضرت جان، خالد بن ولید اور صلاح الدین ایوبی جیسے نام شامل ہیں۔

    اردو کے مشہور افسانہ نگار اور تاریخی ناول نگار پروفیسر قاضی عبدالستار کا تعلق اتر پردیش سے تھا جہاں وہ 1933ء میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے 1954ء میں ریسرچ اسکالر کے طور پر ناتا جوڑا اور بعد ازاں اسی کے شعبہ اردو میں تدریس سے منسلک ہوئے۔

    انھیں ہندوستان میں ادبی خدمات کے اعتراف میں پدم شری اعزاز اور غالب اکیڈمی اعزاز سے نوازا گیا۔

    پروفیسر قاضی نے اپنے تصنیفی سفر کا آغاز ایک افسانہ نگار کے طور پر کیا۔ ان کا ایک افسانہ پیتل کا گھر ادبی حلقوں میں بہت مشہور ہوا۔ ان کی ابتدائی نگارشات اودھ کے علاقے میں زمین داری کے زوال کے گرد گھومتی ہیں۔ بعد کے ادوار میں وہ تاریخی ناول نگاری کی طرف متوجہ ہوئے۔ قاضی صاحب اپنے معاصرین میں اندازِ بیان میں ندرت اور پرشکوہ اسلوب کی وجہ سے ممتاز قرار دیے جاتے ہیں۔

    قاضی عبدالستار کا پہلا ناول ’شکست کی آواز‘ ہے جو 1953 میں شائع ہوا۔جب کہ 1961 میں یہی ناول پاکستان میں ’دودِ چراغ محفل ‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوا اور یہی ہندی میں 1962 ’ پہلا اور آخری خط‘ کے عنوان سے منظرِ عام پر آیا۔ اس ناول میں اتر پردیش کے دیہات کو پیش کیا گیا ہے جو لکھنؤ کے مضافات میں واقع ہے۔ تصنیفی اعتبار سے اوّلین کاوش ہونے کے باوجود قاضی صاحب کا یہ ناول اردو کے کام یاب اور معیاری ناولوں کی فہرست میں رکھا جاتا ہے۔ ’شب گزیدہ ‘ قاضی صاحب کا دوسرا ناول ہے جو 1962ء میں منظر عام پر آیا۔

    29 اکتوبر 2018ء کو پروفیسر قاضی عبدالستار نے دہلی میں وفات پائی۔

  • اردو کے قادرُِ الکلام شاعر صبا اکبر آبادی کی برسی

    اردو کے قادرُِ الکلام شاعر صبا اکبر آبادی کی برسی

    آج اردو کے قادرُالکلام شاعر صبا اکبر آبادی کا یومِ وفات ہے۔ وہ 1991ء میں اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ انھوں نے ایک ناول بھی لکھا جب کہ فارسی ادب سے تراجم بھی ان کا ادبی کارنامہ ہیں۔

    تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان کے شہر کراچی میں سکونت اختیار کرنے والے صبا اکبر آبادی نے ایک برس تک محترمہ فاطمہ جناح کے پرائیوٹ سیکریٹری کی حیثیت سے بھی کام کیا۔

    صبا اکبر آبادی نے 1920ء میں اپنا شعری سفر شروع کیا تھا اور اپنے عربی فارسی کے استاد اخضر اکبرآبادی کے شاگرد رہے۔ 1930ء میں محکمہ تعلیم میں بطور کلرک ملازم ہوئے۔ بعدازاں متعدد تجارتی اور کاروباری اداروں سے منسلک رہے اور پاکستان میں جناح کالج اور دوسرے تعلیمی اداروں سے منسلک رہے۔ انھوں نے غزل، رباعی، نظم، مرثیہ جیسی اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی۔

    صبا اکبر آبادی کا اصل نام خواجہ محمد امیر تھا۔ وہ 14 اگست 1908ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے 1928ء میں ادبی ماہ نامہ ’’آزاد‘‘ بھی جاری کیا تھا۔

    صبا اکبر آبادی کے شعری مجموعوں میں اوراقِ گل، سخن ناشنیدہ، ذکر و فکر، چراغِ بہار، خوں ناب، حرزِ جاں، ثبات اور دستِ دعا شامل ہیں۔ مرثیہ نگاری بھی صبا اکبر آبادی کا ایک مستند حوالہ ہے اور ان کے لکھے ہوئے مرثیوں‌ کے مجموعے سربکف، شہادت اور قرطاسِ الم شائع ہوئے۔

    انھوں نے فارسی ادب سے عمر خیام، غالب، حافظ اور امیر خسرو کا کلام منتخب کر کے اردو میں‌ منظوم ترجمہ کیا۔ صبا اکبر آبادی نے ایک ناول بھی لکھا جو ’’زندہ لاش‘‘ کے نام سے شایع ہوا۔

    ان کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

    یہ ہمیں ہیں کہ ترا درد چھپا کر دل میں
    کام دنیا کے بدستور کیے جاتے ہیں

    اس کو بھی ہم سے محبت ہو ضروری تو نہیں
    عشق ہی عشق کی قیمت ہو ضروری تو نہیں

    اپنے جلنے میں کسی کو نہیں کرتے ہیں شریک
    رات ہو جائے تو ہم شمع بجھا دیتے ہیں

    سونا تھا جتنا عہدِ جوانی میں سو لیے
    اب دھوپ سر پہ آ گئی ہے آنکھ کھولیے

  • پاکستانی فلموں کے ڈانسنگ ہیرو اسماعیل شاہ کی برسی

    پاکستانی فلموں کے ڈانسنگ ہیرو اسماعیل شاہ کی برسی

    پاکستان فلم انڈسٹری میں ڈانسنگ ہیرو کے طور پر بے پناہ شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے والے اسماعیل شاہ نے 1992ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    بلوچستان کے پسماندہ علاقے پشین سے تعلق رکھنے والے اسماعیل شاہ نہ صرف سنیما کے شائقین میں مقبول تھے بلکہ فلم سازوں کی اوّلین ترجیح تھے۔ اس کی ایک بڑی وجہ رقص میں ان کی مہارت تھی۔ وہ ایک باصلاحیت فن کار تھے۔ اس دور میں پاکستانی فلمی صنعت کے مشہور اداکار اور مقبول ترین ہیرو بھی متاثر کن ڈانسر نہیں تھے جب کہ اسماعیل شاہ کی صورت میں‌ ہدایت کاروں کو ایک نوجوان اور ایکشن فلموں‌ کے لیے موزوں چہرہ ہی نہیں‌ بہترین ڈانسر بھی مل گیا۔ وہ فلم انڈسٹری کے ڈانسنگ ہیرو مشہور ہوئے۔

    اپنی شان دار اداکاری اور معیاری ڈانس کی بدولت شہرت کا زینہ طے کرنے والے اسماعیل شاہ فلم ’’ناچے ناگن‘‘ سے گویا راتوں رات شائقین میں مقبول ہوگئے۔ اس فلم کی کام یابی کے بعد انڈسٹری میں‌ ہر طرف ان کا چرچا ہونے لگا۔ فلم ناچے ناگن 1989ء میں منظرِ عام پر آئی اور ملک بھر میں اسے پزیرائی ملی۔ تاہم اسماعیل شاہ کی پہلی فلم ’’باغی قیدی‘‘ تھی۔

    فلم اسٹار اسماعیل شاہ نے مجموعی طور پر 70 فلموں میں کام کیا جن میں اردو، پنجابی اور پشتو زبانوں‌ میں بننے والی فلمیں‌ شامل ہیں۔

    وہ 1962ء میں پیدا ہوئے تھے۔ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کوئٹہ سے کیا۔ کوئٹہ ریڈیو اور پھر کوئٹہ ٹی وی سے وابستہ ہوئے۔ اسماعیل شاہ کو‌ بچپن ہی سے اداکاری کا شوق تھا۔ یہی شوق اور ان کی لگن 1975ء میں انھیں‌ پاکستان ٹیلی وژن کے کوئٹہ مرکز تک لے گئی اور بلوچی ڈراموں سے ان کے کیریئر کا آغاز ہوا۔ اسماعیل شاہ نے اردو زبان کے مشہور ڈرامہ ’’ریگ بان‘‘ اور ’’شاہین‘‘ میں بھی کردار نبھائے اور ناظرین نے انھیں پسند کیا۔

    لو اِن نیپال، لیڈی اسمگلر، باغی قیدی، جوشیلا دشمن، منیلا کے جانباز، کرائے کے قاتل اور وطن کے رکھوالے اسماعیل شاہ کی مشہور اور کام یاب فلمیں‌ ہیں۔