Tag: 29 اگست انتقال

  • یومِ وفات: بہاولپور کی علمی، ادبی اور سیاسی تاریخ مرتّب کرنا شہاب دہلوی کا بڑا کارنامہ ہے

    یومِ وفات: بہاولپور کی علمی، ادبی اور سیاسی تاریخ مرتّب کرنا شہاب دہلوی کا بڑا کارنامہ ہے

    پاکستان میں اردو زبان و ادب کی ترویج و ارتقا کے لیے اپنی کوششوں کے ساتھ ساتھ شہاب دہلوی کو ایک بلند پایہ محقّق، مؤرخ اور باکمال ادیب کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    ان کا اصل نام سیّد مسعود حسن رضوی تھا۔ وہ قیامِ پاکستان کے بعد دہلی سے ہجرت کر کے بہاولپور چلے آئے اور یہیں 29 اگست 1990ء کو زندگی کا سفر تمام کیا۔ وہ بہاولپور کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

    انھوں نے 20 اکتوبر 1922ء کو دہلی کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد اور تایا شاعر و ادیب تھے اور ایک اخبار جاری کرنے کے ساتھ اشاعتی ادارہ بھی قائم کر رکھا تھا۔ شہاب دہلوی نے اسی ماحول کی بدولت اپنی عملی زندگی کا آغاز دہلی سے ماہنامہ الہام کے اجرا سے کیا۔

    بہاولپور آنے کے بعد شہاب دہلوی نے نہ صرف الہام کا دوبارہ اجرا کیا بلکہ شعر و ادب کے فروغ کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی تہذیب و ثقافت اور زبان و تاریخ کو محفوظ کرنے کے لیے تحقیقی کام میں جت گئے۔ اس حوالے سے ان کی کتب بہت مشہور ہیں۔ شہاب دہلوی نے دینی اور روحانی تشخص کو اُجاگر کرتے ہوئے علاقائی ادب کی تاریخ مرتّب کی۔ انھوں نے مشاہیرِ بہاولپور، اولیائے بہاولپور، خواجہ غلام فرید: حیات و شاعری، اوچ شریف اور وادی جمنا سے وادی ہاکڑہ تک، بہاولپور میں اردو جیسی کتابیں تصنیف کیں۔

    شہاب دہلوی شاعر بھی تھے اور ان کے شعری مجموعے نقوشِ شہاب، گل و سنگ، اور موجِ نور کے نام سے شائع ہوئے۔

    بطور محقّق شہاب دہلوی کی اہم کتب اور گراں قدر علمی و ادبی سرمائے کا مطالعہ ثابت کرتا ہے کہ وہ بہاولپور کی تاریخ کے ایک مستند مؤرخ تھے۔ اردو اکیڈمی اور الزبیر نامی مشہور جریدہ ان کی یادگار ہیں۔

  • پاکستان کے معروف گلوکار پرویز مہدی کی برسی

    پاکستان کے معروف گلوکار پرویز مہدی کی برسی

    پاکستان کے معروف گلوکار پرویز مہدی 2005ء میں آج ہی کے دن اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ 57 برس کی عمر میں وفات پاجانے والے پرویز مہدی کی آواز میں کئی غزلوں اور گیتوں کو گویا ایک رمق اور نئی زندگی ملی۔ وہ عظیم گلوکار مہدی حسن کے شاگرد تھے۔

    70ء کی دہائی میں ریڈیو اسٹیشن لاہور پر ’میں جانا پردیس’ کے بول پر مبنی ایک گیت ان کی آواز میں‌ گونجا جس کے ساتھ ہی ان کی شہرت کا سفر بھی شروع ہوگیا۔ وہ بنیادی طور پر غزل کے گائیک تھے۔

    پرویز مہدی اپنے استاد مہدی حسن کے رنگ میں گاتے تھے۔ ان کا اصل نام پرویز حسن تھا لیکن استاد سے عقیدت کی بنا پر انھوں نے خود کو پرویز مہدی کہلوانا پسند کیا اور اسی نام سے جانے گئے۔

    انھوں نے تیس سال تک گلوکاری کے اپنے سفر میں کئی شعرا کا کلام گایا اور ان کی شاعری کو مقبول و عام کیا۔ انھوں نے کئی لوک گیت بھی گائے جو بہت مشہور ہوئے۔

    14 اگست 1947ء کو لاہور میں آنکھ کھولنے والے پرویز مہدی کے والد بشیر حسین راہی ریڈیو پاکستان کے مقبول گلوکار تھے۔

    پرویز مہدی نے ابتدا میں جے اے فاروق سے موسیقی کی تربیت حاصل کی اور بعد میں مہدی حسن کی شاگردی اختیار کرلی۔

    پاکستان کے اس معروف گلوکار کے فن کا اعتراف کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے انھیں‌ ستارہ امتیاز عطا کیا تھا۔ پرویز مہدی لاہور میں آسودۂ خاک ہیں۔