Tag: 29 اگست وفات

  • یومِ وفات: نظامِ دکن میر محبوب علی خان نے فارسی کی جگہ اردو کو ریاستی زبان کا درجہ دیا تھا

    یومِ وفات: نظامِ دکن میر محبوب علی خان نے فارسی کی جگہ اردو کو ریاستی زبان کا درجہ دیا تھا

    آج ہندوستان کی عظیم اور خوش حال ترین ریاست حیدر آباد دکن کے فرماں روا میر محبوب علی خان کا یومِ وفات ہے جنھوں نے اردو کو ریاست کی زبان کا درجہ دیا اور اس کی سرپرستی اور علم و ادب کے فروغ کے لیے اپنے وسائل اور دولت خرچ کی۔

    دکن کو گنگا جمنی تہذیب کا عملی نمونہ کہا جاتا تھا جس کا خزانہ معمور تھا اور جو تہذیب و ثقافت کا گہوارہ تھی۔ یہاں مختلف زبانیں بولی جاتی تھیں جن میں بڑا طبقہ تیلگو دوسرا کنڑ بولتا تھا اور ایک علاقہ مراٹھی زبان بولنے والوں پر مشتمل تھا۔ نظامِ دکن نے اردو کو سرکاری زبان قرار دے کر ان سب کو آپس میں جوڑ دیا تھا۔ یہ انیسویں صدی کے اواخر کی بات ہے۔

    اردو زبان اور ہندوستان بھر کی عالم فاضل شخصیات، شعرا و ادیب، محقق، ماہرِ لسانیات، لغت نویس، مترجم، معلم الغرض ہر نادرِ روزگار، یکتا و یگانہ نے دربارِ دکن سے عزؑت و توقیر، انعام و اکرام اور وظائف پائے اور یہ سب میر محبوب علی خان کی اردو کی سرپرستی اور اسے سرکاری زبان بنانے کے فیصلے کی بدولت ممکن ہوا تھا۔

    حیدر آباد دکن میں مختلف حکومتیں قائم رہیں۔ اس خطے نے قطب شاہی، بہمنی دور کے سلاطین کے بعد مغل حکم راں اورنگ زیب عالم گیر کا زمانہ دیکھا اور 1724ء میں یہاں آصفیہ سلطنت کی بنیاد رکھی گئی اور بعد میں اس خاندان کے فرماں روا نظام دکن کے نام سے مشہور ہوئے۔

    میر محبوب علی خان اسی خاندان کے چھٹے حکم راں تھے۔ وہ 17 اگست 1866ء کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنے عہد میں فارسی کی جگہ اردو کو قبول کیا اور اس کی سرپرستی کی۔ ان کا دور 50 سال سے زائد عرصہ پر محیط ہے جس میں نظامِ دکن نے تعلیمی ادارے، مدرسے اور دارُالعلوم مع اقامت گاہ قائم کیے اور جدید و اسلامی علوم کی تعلیم کے فروغ کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔

    بدقسمتی کہیے یا کم علمی کہ آج ہندوستان کی ایک نہایت خوش حال اور مرفہ الحال ریاست کے اس فرماں روا کا ذکر کم ہی ہوتا ہے جس نے اردو کو اپنے دربارِ خاص میں جاودانی اور پائندگی دی تھی۔

    میر محبوب علی خان کے بعد ان کے بیٹے میر عثمان علی خان حیدرآباد کے آخری بادشاہ تھے اور ان کی تخت نشینی کے بعد دکن ہی نہیں برصغیر میں اردو نے عدیمُ النظیر ترقی کی اور فروغ پایا۔ علوم و فنون، دین و مذہب، تہذیب و ثقافت کا وہ کون سا آفتاب، کیسا گوہرِ آب دار تھا جسے حضور نظام کے دربار سے نوازا نہ گیا۔ میر عثمان علی خان نے اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے عظیم درس گاہ جامعہ عثمانیہ کے قیام کی منظوری دی اور اس کے لیے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیے جس کا ذریعہ تعلیم صرف اور صرف اردو زبان تھا۔

    میر محبوب علی خان 29 اگست 1911ء کو اس عالمِ فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔

  • یومِ وفات: بہاولپور کی علمی، ادبی اور سیاسی تاریخ مرتّب کرنا شہاب دہلوی کا بڑا کارنامہ ہے

    یومِ وفات: بہاولپور کی علمی، ادبی اور سیاسی تاریخ مرتّب کرنا شہاب دہلوی کا بڑا کارنامہ ہے

    پاکستان میں اردو زبان و ادب کی ترویج و ارتقا کے لیے اپنی کوششوں کے ساتھ ساتھ شہاب دہلوی کو ایک بلند پایہ محقّق، مؤرخ اور باکمال ادیب کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    ان کا اصل نام سیّد مسعود حسن رضوی تھا۔ وہ قیامِ پاکستان کے بعد دہلی سے ہجرت کر کے بہاولپور چلے آئے اور یہیں 29 اگست 1990ء کو زندگی کا سفر تمام کیا۔ وہ بہاولپور کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

    انھوں نے 20 اکتوبر 1922ء کو دہلی کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد اور تایا شاعر و ادیب تھے اور ایک اخبار جاری کرنے کے ساتھ اشاعتی ادارہ بھی قائم کر رکھا تھا۔ شہاب دہلوی نے اسی ماحول کی بدولت اپنی عملی زندگی کا آغاز دہلی سے ماہنامہ الہام کے اجرا سے کیا۔

    بہاولپور آنے کے بعد شہاب دہلوی نے نہ صرف الہام کا دوبارہ اجرا کیا بلکہ شعر و ادب کے فروغ کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی تہذیب و ثقافت اور زبان و تاریخ کو محفوظ کرنے کے لیے تحقیقی کام میں جت گئے۔ اس حوالے سے ان کی کتب بہت مشہور ہیں۔ شہاب دہلوی نے دینی اور روحانی تشخص کو اُجاگر کرتے ہوئے علاقائی ادب کی تاریخ مرتّب کی۔ انھوں نے مشاہیرِ بہاولپور، اولیائے بہاولپور، خواجہ غلام فرید: حیات و شاعری، اوچ شریف اور وادی جمنا سے وادی ہاکڑہ تک، بہاولپور میں اردو جیسی کتابیں تصنیف کیں۔

    شہاب دہلوی شاعر بھی تھے اور ان کے شعری مجموعے نقوشِ شہاب، گل و سنگ، اور موجِ نور کے نام سے شائع ہوئے۔

    بطور محقّق شہاب دہلوی کی اہم کتب اور گراں قدر علمی و ادبی سرمائے کا مطالعہ ثابت کرتا ہے کہ وہ بہاولپور کی تاریخ کے ایک مستند مؤرخ تھے۔ اردو اکیڈمی اور الزبیر نامی مشہور جریدہ ان کی یادگار ہیں۔

  • پاکستان کے معروف گلوکار پرویز مہدی کی برسی

    پاکستان کے معروف گلوکار پرویز مہدی کی برسی

    پاکستان کے معروف گلوکار پرویز مہدی 2005ء میں آج ہی کے دن اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ 57 برس کی عمر میں وفات پاجانے والے پرویز مہدی کی آواز میں کئی غزلوں اور گیتوں کو گویا ایک رمق اور نئی زندگی ملی۔ وہ عظیم گلوکار مہدی حسن کے شاگرد تھے۔

    70ء کی دہائی میں ریڈیو اسٹیشن لاہور پر ’میں جانا پردیس’ کے بول پر مبنی ایک گیت ان کی آواز میں‌ گونجا جس کے ساتھ ہی ان کی شہرت کا سفر بھی شروع ہوگیا۔ وہ بنیادی طور پر غزل کے گائیک تھے۔

    پرویز مہدی اپنے استاد مہدی حسن کے رنگ میں گاتے تھے۔ ان کا اصل نام پرویز حسن تھا لیکن استاد سے عقیدت کی بنا پر انھوں نے خود کو پرویز مہدی کہلوانا پسند کیا اور اسی نام سے جانے گئے۔

    انھوں نے تیس سال تک گلوکاری کے اپنے سفر میں کئی شعرا کا کلام گایا اور ان کی شاعری کو مقبول و عام کیا۔ انھوں نے کئی لوک گیت بھی گائے جو بہت مشہور ہوئے۔

    14 اگست 1947ء کو لاہور میں آنکھ کھولنے والے پرویز مہدی کے والد بشیر حسین راہی ریڈیو پاکستان کے مقبول گلوکار تھے۔

    پرویز مہدی نے ابتدا میں جے اے فاروق سے موسیقی کی تربیت حاصل کی اور بعد میں مہدی حسن کی شاگردی اختیار کرلی۔

    پاکستان کے اس معروف گلوکار کے فن کا اعتراف کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان نے انھیں‌ ستارہ امتیاز عطا کیا تھا۔ پرویز مہدی لاہور میں آسودۂ خاک ہیں۔