Tag: 29 دسمبر وفات

  • اداکارہ ریما اور شان کو فلمی دنیا میں متعارف کروانے والے جاوید فاضل کا تذکرہ

    اداکارہ ریما اور شان کو فلمی دنیا میں متعارف کروانے والے جاوید فاضل کا تذکرہ

    اداکارہ ریما اور شان کو فلم ’بلندی‘ کے ذریعے بڑے پردے پر شہرت کی بلندیوں کو چھونے کا موقع جاوید فاضل کی وجہ سے ملا تھا جن کا شمار پاکستان کی فلمی صنعت کے نام ور ہدایت کاروں میں‌ ہوتا ہے۔

    آج جاوید فاضل کی برسی ہے۔ وہ 29 دسمبر 2010ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔ جاوید فاضل فلم نگری کے زوال کے بعد ٹیلی ویژن پر اپنی مصروفیات کے سبب کراچی کے علاقے ڈیفنس میں مقیم تھے۔ وہ تنہا رہتے تھے۔ انھیں قدرت نے دو بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا تھا۔

    ڈاکٹروں‌ کے مطابق ان کا انتقال دل کا دورہ پڑنے سے ہوا۔ وہ ایک نجی پروڈکشن ہاؤس کے لیے کام کررہے تھے اور صبح جب ان کی پروڈکشن ٹیم فلیٹ پر پہنچی تو کافی دیر تک اندر سے جواب نہ ملنے پر دروازہ توڑا گیا، جہاں جاوید فاضل صوفے پر پڑے ہوئے تھے اور ان کی روح فقسِ عنصری سے پرواز کرچکی تھی۔

    جاوید فاضل نے ریما اور شان ہی نہیں کئی فن کاروں کو فلموں اور ڈراموں میں متعارف کروایا جنھوں نے بڑا نام کمایا اور خوب شہرت حاصل کی۔ ان میں عمر شریف، شکیلہ قریشی، سیمی زیدی اور دیگر نام شامل ہیں۔

    جاوید فاضل کے کیریئر کی بات کی جائے تو 1962ء میں انھوں نے فلم ’دامن‘ کے لیے بطور اسٹنٹ ڈائریکٹر کام کیا۔ اس کے بعد بطور ڈائریکٹر ان کی پہلی فلم ’میرے جیون ساتھی‘ تھی جس کی پروڈیوسر اور ہیروئن اداکارہ دیبا تھیں۔ ان کے سامنے ہیرو وحید مراد تھے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس وقت وحید مراد کو کوئی نہیں جانتا تھا۔ کیوں کہ یہ ان کی پہلی فلم تھی اور بدقسمتی سے یہ فلم ریلیز بھی نہیں ہوسکی۔

    ہدایت کار جاوید فاضل نے تقریباً پچیس فلمیں بنائیں جن میں‌ گونج، آہٹ، دہلیز، بازار حسن، استادوں کے استاد، فیصلہ اور بلندی شامل ہیں۔ بلندی کام یاب فلم تھی جس نے شائقینِ سنیما کو بھولی بھالی صورت والی ریما ہی سے نہیں شان سے بھی ملوایا۔ بعد میں یہ جوڑی ہٹ ہوگئی اور پاکستانی فلم انڈسٹری کو دونوں فن کاروں نے کئی سپرہٹ فلمیں دیں۔ ریما اور شان کی مقبولیت آسمان کو چُھونے لگی، لیکن پھر پاکستان کے نگار خانوں کی رونقیں ماند پڑتی چلی گئیں اور سنیما بھی ویران ہوگئے۔

    فلمی صنعت کے زوال کے بعد جب پاکستان میں نجی ٹی وی چینلوں نے کام شروع کیا تو جاوید فاضل نے چھوٹی اسکرین پر کام جاری رکھنے کا فیصلہ کیا اور ڈراموں کے لیے ہدایت کاری کرنے لگے۔ انہوں نے کئی درجن ڈرامے ڈائریکٹ کیے، جن میں سری نگر، گھر گلیاں اور راستے، بری عورت، انجان، لکیر، داغِ دل شامل ہیں۔

  • پاکستان ٹیلی وژن اور اسلم اظہر

    پاکستان ٹیلی وژن اور اسلم اظہر

    ٹیلی وژن اور براڈ کاسٹنگ کے شعبے میں اسلم اظہر کو لیجنڈ کا درجہ حاصل ہے۔ وہ پاکستان میں ٹیلی وژن کے بانی اور اس کے مختلف شعبہ جات میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور اس میڈیم میں اپنی فنی مہارتوں کا شان دار مظاہرہ کرنے والوں میں سے ایک تھے۔

    فنونِ لطیفہ اور پرفارمنگ آرٹ کے دلدادہ اسلم اظہر نے پی ٹی وی کے لیے معیاری اور مثالی کام کیا۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت کی جانب سے ستارۂ پاکستان اور تمغہ حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔

    اسلم اظہر 1932ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کو علم و فنون کی دنیا میں اے ڈی اظہر کے نام سے پہچانا جاتا تھا اور وہ ایک ادیب، شاعر اور بیدار مغز شخص تھے۔ اردو، انگریزی، فارسی، عربی، صَرف و نحو کے ماہر تھے۔ یوں علمی و ادبی ماحول میں پروان چڑھنے والے اسلم اظہر بھی شروع ہی سے تھیٹر اور فنون میں دل چسپی لینے لگے تھے۔ وہ ذہین تھے اور اچھّے طالبِ علم بھی ثابت ہوئے۔

    اسلم اظہر کا زرخیز اور تخلیقی ذہن تھیٹر جیسے اس وقت کے مقبول میڈیم کے ساتھ ہندوستان میں فلم سازی اور اس کی تیکنیک میں بھی دل چسپی لے رہا تھا، لیکن وہ قانون کے طالبِ علم تھے۔ انھوں نے 1954ء میں کیمبرج یونیورسٹی سے اس مضمون میں ڈگری حاصل کی۔ وہ تعلیم کے حصول کے لیے بیرونِ ملک بھی مقیم رہے۔ قانون کی ڈگری لینے کے بعد نوکری کے سلسلے میں کچھ عرصہ چٹاگانگ میں گزرا، لیکن دل نہ لگا اور 1960ء میں کراچی چلے گئے۔

    کراچی میں اس زمانے میں محکمۂ اطلاعات کے لیے دستاویزی فلمیں بنائی جارہی تھیں۔ اسلم اظہر تھیٹر پر اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر کے داد و تحسین سمیٹ چکے تھے اور ریڈیو سے بھی وابستہ رہے تھے، یہی نہیں‌ بلکہ فلم سازی کا بھی شوق تھا۔ انھیں محکمۂ اطلاعات کے لیے کام کرنے کا موقع مل گیا۔ اسی عرصے میں انھوں نے اپنے ایک دوست فرید احمد کے ساتھ کراچی آرٹس تھیٹر سوسائٹی بھی قائم کی اور اس بینر تلے تھیٹر کے لیے کئی ڈرامے تخلیق کیے۔

    ایک جاپانی کمپنی سے جب حکومت نے لاہور میں ٹی وی اسٹیشن قائم کرنے کا معاہدہ کیا تو اس کمپنی نے اسلم اظہر سے رابطہ کیا اور ان کی خدمات حاصل کیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ اس میڈیم کے حوالے سے کچھ نہیں‌ جانتے۔ مگر اس وقت کمپنی کی نظر میں کوئی اور قابل اور باصلاحیت شخص اس پروجیکٹ کے لیے نہیں تھا۔ان کے اصرار پر اسلم اظہر نے ہامی بھر لی۔ یوں ان کی سربراہی میں ٹی وی اسٹیشن کے قیام کے منصوبے پر کام شروع ہوا جسے بعد میں‌ حکومتِ پاکستان نے خرید لیا اور اسلم اظہر کو پروگرام ڈائریکٹر بنا دیا گیا۔ انھوں نے یہ ذمہ داری اس طرح نبھائی کہ باصلاحیت فن کاروں اور آرٹسٹوں سے کر تیکنیکی شعبے میں ماہرین اور قابل لوگوں کو اکٹھا کرلیا اور لاہور کے ساتھ ساتھ کوئٹہ اور کراچی میں بھی ٹی وی اسٹیشن قائم کیے۔ وہ اسٹیٹ فلم اتھارٹی کے سربراہ اور ریڈیو پاکستان کے بھی اہم عہدے پر فائز رہے۔

    اسلم اظہر بذاتِ خود نہایت منجھے ہوئے براڈ کاسٹر تھے۔ صدا کاری کا فن ان کی آواز کے زیر و بم کے ساتھ اپنی مثال آپ تھا۔ وہ ایک تخلیق کار اور اختراع ساز بھی تھے جن کے زمانے میں نت نئے آئیڈیاز اور مختلف تجربات کیے گئے اور وہ کام یاب ہوئے۔

    1982-83 میں پی ٹی وی کی پہلی ایوارڈ تقریب اور متعدد شان دار اور طویل دورانیے کی نشریات کو اسلم اظہر کا تاریخی کارنامہ ہیں۔

    اسلم اظہر 1977ء کے انتخابات سے قبل ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت میں پاکستان ٹیلی وژن تربیتی اکیڈمی کے سربراہ رہے۔ ضیاءُ الحق کے زمانے میں وہ ٹی وی سے منسلک نہیں رہے اور کراچی میں دستک تھیٹر گروپ کے تحت تخلیقی کام کرتے رہے۔ بے نظیر بھٹو کے پہلے دورِ حکومت میں انھیں پاکستان ٹیلی وژن اور پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کا چیئرمین تعینات کیا گیا۔

    پی ٹی وی کو ہر لحاظ سے ایک قابلِ تقلید اور مثالی ادارہ بنانے والے اس جوہرِ قابل کی وفات 29 دسمبر 2015ء کو ہوئی۔