Tag: 29 ستمبر وفات

  • ٹونی کرٹس کا تذکرہ جس نے عورت کا بہروپ بھر کر شہرت حاصل کی

    ٹونی کرٹس کا تذکرہ جس نے عورت کا بہروپ بھر کر شہرت حاصل کی

    1959ء میں ہالی وڈ کے شائقین فلم ’سَم لائیک اٹ ہاٹ‘ سے محظوظ ہوئے اس فلم کو کلاسک کامیڈی مانا جاتا ہے۔

    فلم کا ایک کردار ٹونی کرٹس نے ادا کیا تھا جب کہ ساتھی فن کار جیک لیمن تھے۔ ان دونوں مرد اداکاروں نے فلم میں عورتوں کا بہروپ بھرا تھا جسے شائقین نے بہت پسند کیا۔ اسی فلم میں ان کے ساتھ اپنے وقت کی مقبول ترین اداکارہ مارلن منرو نے بھی اپنا کردار نبھایا تھا۔ فلم میں ٹونی کرٹس اسی اداکارہ کے محبوب کے طور پر نظر آئے تھے۔

    اس فلم نے اداکار کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔

    2010ء میں آج ہی کے دن ٹونی کرٹس نے دنیا کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ آئیے برنارڈ شوارٹز المعروف ٹونی کرٹس کی زندگی اور فلمی سفر کے بارے میں جانتے ہیں۔

    وہ 3 جون 1925ء کو نیویارک میں پیدا ہوئے۔ اداکاری کے بعد ان کا دوسرا مشغلہ آرٹ اور مصوّری تھا۔

    کلاسک کا درجہ رکھنے والی ہالی وڈ کی کئی فلموں میں اس فن کار نے اپنی شان دار اداکاری سے شائقین کو محظوظ کیا جن میں مذکورہ فلم کے علاوہ ’سپارٹیکس‘ اور ’دی ڈیفینیٹ ونس‘ شامل ہیں۔

    ٹونی 1950ء کی دہائی کے مقبول، کام یاب ترین اور وجیہ صورت اداکاروں میں سے ایک تھے۔ انھوں نے فلموں اور ڈراموں دونوں میں کام کیا اور ہر جگہ کام یاب رہے۔

    کرٹس کو دی ڈیفینیٹ ونس میں عمدہ کردار نگاری پر ‘اکیڈمی ایورڈ’ کے لیے بھی منتخب کیا گیا تھا، مگر وہ یہ ایوارڈ نہ جیت سکے۔ انھیں فلمی دنیا کے دیگر کئی اعزازات سے نوازا گیا جب کہ لاس اینجلس میں ان کا نام ‘والک آف دے فیم’ پر بھی روشن ہوا۔

    2008ء میں ٹونی کرٹس کی سوانحِ حیات بھی شائع ہوئی، جس میں انھوں نے اپنے زمانے کے بڑے بڑے فن کاروں سے اپنے تعلقات اور اپنے بچپن کی یادوں کے ساتھ اداکاری کے میدان میں اپنے سفر کی روداد بیان کی ہے۔

    ٹونی کرٹس نے اپنے فلمی کیریئر میں 140 سے زائد فلموں میں کام کیا۔ انھوں نے زیادہ تر میں فلموں میں مزاحیہ کردار ادا کیے۔

    ٹونی کرٹس نے چھے شادیاں کی تھیں۔ وہ ایک زمانے میں آوارہ مزاج اور عیّاش بھی مشہور تھے۔

  • یومِ وفات: نسیم بیگم کی آواز اور سریلے گیتوں کی مدھرتا آج بھی کانوں میں رس گھول رہی ہے

    یومِ وفات: نسیم بیگم کی آواز اور سریلے گیتوں کی مدھرتا آج بھی کانوں میں رس گھول رہی ہے

    پسِ پردہ فلمی گلوکار کی حیثیت سے انڈسٹری میں نام و مقام بنانے والی اور سریلی آواز کی مالک نسیم بیگم نے 29 ستمبر 1971ء کو ہمیشہ کے لیے دنیا سے اپنا ناتا توڑ لیا تھا، لیکن پاک وطن کی فضاؤں میں ہر سال یومِ دفاع پر جب یہ نغمہ گونجتا ہے تو گویا ان کی یاد بھی زندہ ہوجاتی ہے۔

    اے راہِ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو!
    تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں

    یہ نغمہ مشہور شاعر اور فلمی گیت نگار سیف الدّین سیف نے لکھا تھا اور اس کی موسیقی سلیم اقبال نے ترتیب دی تھی۔

    نسیم بیگم کی سریلی اور پُرسوز آواز میں کئی قومی نغمات اور فلمی گیت ریکارڈ ہوئے جنھیں دہائیاں گزر جانے کے بعد آج بھی نہایت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔

    پاکستان کی اس مقبول فلمی گلوکارہ نے 1936ء میں امرتسر کی ایک مغنیہ کے گھر جنم لیا تھا۔ موسیقی اور راگ راگنی کا سے انھیں ممتاز مغنیہ اور اداکارہ مختار بیگم نے آشنا کیا۔

    نسیم بیگم نے اپنی فنی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان لاہور سے کیا۔ پھر مشہور فلمی موسیقار شہریار نے انھیں فلم بے گناہ کا ایک نغمہ ’’نینوں میں جل بھر آئے روٹھ گیا میرا پیار‘‘ گانے کا موقع دیا اور وہ فلمی دنیا میں متعارف ہوئیں۔ ان کا گایا ہوا یہ نغمہ بے پناہ مقبول ہوا اور نسیم بیگم اپنے زمانے کی مقبول ترین گلوکارہ بنیں۔ انھوں نے چار نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیے۔

    نسیم بیگم نے یہ نگار ایوارڈ جن نغمات پر حاصل کیے ان میں سو بار چمن مہکا‘، اس بے وفا کا شہر ہے‘، چندا توری چاندنی میں اور نگاہیں ہوگئیں پُرنم شامل تھے۔

    ان کے گائے ہوئے دیگر مقبول نغمات میں ہم بھول گئے ہر بات‘ آجائو آنے والے‘ نام لے لے کے ترا ہم تو جیے جائیں گے‘ دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا‘ سرفہرست ہیں۔

    پاکستان کی اس مقبول ترین کلاسیکی گلوکارہ نے سلیم رضا، منیر حسین، مہدی حسن، احمد رشدی اور مسعود رانا کے ساتھ متعدد دو گانے بھی گائے جو سننے والوں میں بے حد مقبول ہوئے۔

    نسیم بیگم کی آواز میں امر ہوجانے والے گیتوں کی مدھرتا آج بھی سننے والوں کے کانوں میں رس گھول رہی ہے۔

  • “اے ابرِ کرم آج اتنا برس…” یہ نغمہ لعل محمد کی یاد دلاتا رہے گا

    “اے ابرِ کرم آج اتنا برس…” یہ نغمہ لعل محمد کی یاد دلاتا رہے گا

    فلمی نغمہ نگاروں کی خوب صورت شاعری کی موسیقی ترتیب دے کر گیتوں کو جاودانی عطا کرنے والے اور بانسری نواز لعل محمد ایک معروف نام ہے۔ اپنے زمانے کا یہ مقبول ترین گیت شاید آپ نے بھی سنا ہو، “اے ابرِ کرم آج اتنا برس، اتنا برس کہ وہ جا نہ سکیں” اس کی موسیقی لعل محمد ترتیب دی تھی۔

    پاکستان کے معروف موسیقار لعل محمد کا انتقال 29 ستمبر 2009ء کو ہوا تھا۔ آج ان کی برسی ہے۔ اردو فلموں کے ساتھ ساتھ پشتو، سندھی ، گجراتی اور بنگالی زبان میں بننے والی فلموں کے نغمات کو بھی لعل محمد نے اپنے فنِ موسیقی سے لازوال بنایا۔

    وہ 1933ء میں راجستھان کے شہر اودے پور میں پیدا ہوئے۔ لعل محمد کو کم عمری ہی میں بانسری بجانے کا شوق ہو گیا تھا اور اسی شوق کی بدولت انھیں‌ دنیائے موسیقی میں‌ قدم رکھنے کا موقع ملا جہاں انھوں نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا اور نام و مقام بنایا۔

    لعل محمد تقسیمِ ہند کے بعد 1951ء میں ہجرت کرکے پاکستان آئے اور یہاں ایک محفل میں ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر سجاد سرور نیازی نے انھیں بانسری بجاتے ہوئے سنا تو ان سے کہا کہ کسی دن ریڈیو پاکستان آکر ملاقات کریں۔ یوں لعل محمد کے اس شوق نے انھیں ریڈیو پر اسٹاف آرٹسٹ کی ملازمت دلوا دی۔

    وہاں ان کی ملاقات بلند اقبال سے ہوئی جو مشہور گائیک گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ لعل محمد کی بانسری کے سُروں اور بلند اقبال کی دھنوں‌ نے سریلے، رسیلے بندھن میں بندھنے کا فیصلہ کیا اور یوں فلم انڈسٹری کو ایک خوب صورت موسیقار جوڑی بھی مل گئی۔ ان دونوں کی سنگت نے فلم نگری کو کئی لازوال اور یادگار گیت دیے۔

    ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہونے کے بعد 1961ء میں لعل محمد اور بلند اقبال کی اس سنگت کو مشہور فلمی ہدایت کار باقر رضوی نے اپنی ایک فلم میں آزمایا اور زبردست کام یابی حاصل کی۔ اس فلم کے نغمات کی مقبولیت کے بعد لعل محمد اور بلند اقبال پر قسمت مہربان ہوگئی اور انھوں نے مل کر مختلف زبانوں‌ میں‌ بننے والی فلموں‌ کی موسیقی ترتیب دی۔ ان میں‌ مسٹر ایکس، چھوٹی بہن، جاگ اٹھا انسان، آزادی یا موت، دوسری ماں، منزل دور نہیں، جانور، پازیب، ہنستے آنسو کے نام سرِ فہرست ہیں۔ اس جوڑی نے “دنیا کسی کے پیار میں جنّت سے کم نہیں” جیسے کئی گیتوں کو اپنی موسیقی سے سجایا جو بے حد مقبول ہوئے۔