Tag: 29 نومبر وفات

  • یومِ وفات: فیاض ہاشمی کے لکھے ہوئے فلمی گیت آج بھی مقبول ہیں

    یومِ وفات: فیاض ہاشمی کے لکھے ہوئے فلمی گیت آج بھی مقبول ہیں

    فیاض ہاشمی ایک لاجواب نغمہ نگار ہی نہیں، شان دار مکالمہ نویس بھی تھے۔ وہ 20 سال کے تھے جب گرامو فون کمپنی آف انڈیا میں ملازمت اختیار کی جہاں شعروسخن کے شائق فیاض ہاشمی کو اپنے وقت کے باکمال موسیقاروں کی رفاقت میں بھی بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔

    شعر گوئی کی صلاحیت اور ملازمت کا تجربہ انھیں فلم نگری تک لے گیا جہاں نغمہ نگار کے طور پر انھوں‌ نے بے مثال شہرت حاصل کی۔ اس کام یابی کی ایک وجہ ان کا موسیقی کا شوق اور اس کے اسرار و رموز سے واقفیت بھی تھی۔

    فیاض ہاشمی نے نوعمری ہی میں شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔ انھوں نے فلم ’’انتخاب‘‘ کے بعد ’’انوکھی‘‘ کے گیت لکھے جن میں‌ سے ایک ’’گاڑی کو چلانا بابو‘‘ بہت مقبول ہوا۔ اس گیت کے بعد ایک وقت ایسا آیا جب لاہور میں بننے والی ہر دوسری فلم کے لیے ان سے گیت لکھوائے جاتے تھے۔

    تُو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
    یہ مانا کہ محفل جواں ہے، حسیں ہے

    یہ گیت ایس بی جون کی آواز میں‌ آج بھی مقبول ہے اور یہی نغمہ اس گلوکار کی شہرت کا سبب بنا۔ فیاض ہاشمی کے کئی فلمی نغمات زباں زدِ عام ہوئے اور ان کے گانے والوں کو بھی لازوال شہرت ملی۔

    اس فلمی گیت نگار نے اسکرپٹ بھی لکھے اور اپنے زرخیز ذہن اور تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ انھوں‌ فلم اولاد، زمانہ کیا کہے گا، نہلے پہ دہلا، انتخاب، پہچان جیسی فلموں کے لیے اسکرپٹ لکھے۔ انھوں نے 24 فلموں کے لیے کہانی اور مکالمہ نویسی کی۔

    فیاض ہاشمی نے ’’سہیلی، اولاد، آشیانہ، سہاگن، ہونہار، پیغام، توبہ، سوال، دیور بھابھی‘‘ جیسی کام یاب فلموں‌ کے لیے گیت نگاری کی۔ 1968ء میں فلمی گیت ’’چلو اچھا ہوا تم بھول گئے‘‘ پر فیاض ہاشمی کو نگار ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہ ان کا لکھا ہوا وہ گیت تھا جسے کئی گلوکاروں نے گایا اور اس کے بول زبان زدِ عام ہوئے۔

    فیاض ہاشمی 1923ء میں کلکتہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد سیّد محمد حسین ہاشمی بھی تھیٹر کے معروف ہدایت کار اور شاعر تھے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ فنونِ لطیفہ کا شوق اور تخلیقی جوہر انھیں‌ ورثے میں ملا تھا۔ فیاض ہاشمی نے 29 نومبر 2011ء کو جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    پاکستان میں بطور نغمہ نگار ان کی پہلی فلم دوپٹہ اور انوکھی اور آخری فلم دیوانے تیرے پیار کے تھی۔

    فیاض ہاشمی کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • نام وَر سیّاح ابنِ جبیر کا تذکرہ جن کے سفرنامے کا کئی زبانوں‌ میں ترجمہ کیا گیا

    نام وَر سیّاح ابنِ جبیر کا تذکرہ جن کے سفرنامے کا کئی زبانوں‌ میں ترجمہ کیا گیا

    ابنِ جبیر کے سفر نامے کا مطالعہ بارہویں صدی عیسوی کے مشرقِ وسطی کے عمومی حالات جاننے کے لیے کیا جائے تو وہ معلومات کا گنجینہ ثابت ہوگا۔

    اگر ہم کسی زمانے کے سماجی یا معاشی حالات یا روزمرّہ کی چھوٹی چھوٹی رحمتوں اور زحمتوں کے بارے میں کچھ جاننا چاہیں تو سفر نامے، آپ بیتیاں اور روزنامچے ہمیں بہت اہم اور نہایت دل چسپ معلومات فراہم کرسکتے ہیں۔

    مثلاً ابنِ جبیر کو حیرت ہوئی کہ اسکندریہ میں سورج ڈھلنے کے بعد بھی کاروباری سرگرمیاں تجارتی مشاغل جاری رہتے۔ یہ دراصل بڑے شہر اور اہم تجارتی مرکز کی خاص نشانی ہے۔ اس سے اسکندریہ کی اقتصادی اور تجارتی اہمیت ثابت ہوتی ہے۔

    ابنِ جبیر کا وطن اندلس اور تعلق غرناطہ سے تھا۔ وہ قرونِ وسطیٰ میں ایک نہایت قابل جغرافیہ نگار اور سیّاح مشہور ہوئے۔ مؤرخین نے ان کا سنِ پیدائش 1145ء لکھا ہے۔ ان کی وفات آج ہی کے دن 1217ء میں ہوئی تھی۔ وہ عرب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور بنو کنانہ قبیلے کے فرد تھے۔ ابنِ جبیر کے والد سرکاری خدمت گار تھے۔ انھوں نے اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت کا خوب اہتمام کیا تھا۔

    ابنِ جبیر کا مشہور سفرنامہ آج سے لگ بھگ آٹھ سو سال قبل تحریر کیا گیا تھا۔ انھوں نے اپنے سفرِ حج کے لیے شام، مصر، فلسطین، عراق، لبنان میں قیام کیا اور وہاں کے مکمل احوال و آثار کو اپنے مشاہدات کے ساتھ قلم بند کرلیا۔ ان کے سفر نامے میں حجازِ مقدس کے حالات و واقعات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ابنِ جبیر ملکوں کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی حالات کے ساتھ ساتھ اپنے سفر نامے میں مذہب و عقائد اور رسم و رواج کی تفصیل بھی بیان کی ہے۔

    یہ سفر نامہ فصیح عربی زبان میں تھا۔ اس کے متعدد قلمی نسخے دنیا کے مختلف کتب خانوں میں موجود ہیں اور تقریباً تمام ترقی یافتہ زبانوں میں اس کے تراجم ہو چکے ہیں۔

    اس زمانے میں مکّہ اور مدینہ اہم مقدس مقامات کے سبب عظیم زیارت گاہ جب کہ اسلامی دنیا میں‌ بغداد، دمشق اور اسکندریہ علم و فنون کی سرپرستی، تمدن اور تہذیب کے مراکز کے طور پر عالم میں‌ مشہور تھے۔ مؤرخین کے مطابق یہی وجہ ہے کہ اکثر مسلمان سیّاح ان ممالک کا رخ کرنا اور وہاں کے علمی و تجارتی مراکز کا احوال اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے مشتاق ہوتے تھے۔ ابنِ جبیر فروری 1183ء میں ہسپانیہ سے روانہ ہوئے تھے۔ انھوں نے حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد دو برس سیّاحت کرتے ہوئے گزارے۔