Tag: 3 دسمبر وفات

  • عشق اور سیاست میں ناکام ہونے والے دیو آنند بولی وڈ میں‌ کام یاب رہے

    عشق اور سیاست میں ناکام ہونے والے دیو آنند بولی وڈ میں‌ کام یاب رہے

    دیو آنند صاف گو اور باضمیر کہا جاتا ہے۔ مشہور ہے کہ وہ حیرت انگیز شخصیت کے مالک اور ایسے انسان تھے جن کے قول و فعل میں تضاد نہیں تھا۔

    ہندوستان کی فلم نگری میں‌ دیو آنند کا کیریئر پانچ دہائیوں سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ وہ 2011ء میں‌ آج ہی کے دن دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔

    بولی وڈ میں اپنی صلاحیتوں کی بدولت کام یاب ہونے والے اس اداکار نے عشق اور سیاست دونوں میں ناکامی کا منہ دیکھا، لیکن ایسی بھرپور زندگی گزاری جس میں ہر خاص و عام ان کے فن کا مداح اور شخصیت کا گرویدہ رہا۔

    دیو آنند کے ناکام عشق سے جڑا فلم کی شوٹنگ کے دوران پیش آنے والا ایک حادثہ کچھ یوں تھا کہ فلم ’ودیا‘ کے ایک گانے ’کنارے کنارے چلے جائیں گے‘ کی عکس بندی کی جارہی تھی۔ دیو آنند اور اداکارہ ثریا کشتی میں سوار تھے جو اچانک پلٹ گئی۔ اس موقع پر دیو آنند نے کسی طرح ثریا کو ڈوبنے سے بچا لیا۔ اس حادثے کا تو چرچا ہوا ہی، ان کی محبّت کا خوب شہرہ بھی ہوا، لیکن کہتے ہیں کہ ثریا کی نانی کی وجہ سے ان کی شادی نہیں‌ ہوسکی۔

    اس واقعہ کے کئی سال بعد اداکارہ نے فلمی میگزین کو اپنے انٹرویو میں بتایا کہ میں نے بعد میں دیو آنند سے کہا کہ ’اس دن اگر آپ مجھے نہیں بچاتے تو میں ڈوب جاتی، انھوں نے جواب دیا کہ آپ ڈوب جاتیں تو میں بھی مر جاتا۔‘

    عملی سیاست میں ان کا حصّہ لینا اس لیے قابلِ ذکر ہے کہ وہ واحد بولی وڈ اسٹار تھے جس نے قومی سطح کی سیاسی پارٹی تشکیل دی تھی، اور اپنے نظریے اور اصول کی بنیاد پر حکم رانوں کی مخالفت بھی کی۔

    دیو آنند نے متحدہ ہندوستان میں شکرگڑھ میں 26 ستمبر 1923ء کو ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کا نام دھر دیو پشوری مل آنند تھا۔ گریجویشن انگریزی ادب میں لاہور کے گورنمنٹ کالج سے مکمل کی، لیکن آگے تعلیم حاصل نہیں‌ کرسکے۔ والد نے انھیں نوکری کرنے کو کہہ دیا تھا تاکہ گھر کے اخراجات میں ان کا ہاتھ بٹا سکیں۔ اسی شہر سے انھوں نے ایک دن ممبئی کا سفر اختیار کیا اور پھر وہیں کے ہو رہے۔

    یہ 1943ء کی بات ہے جب وہ نوکری کے بجائے فلم انڈسٹری میں قسمت آزمانے ممبئی کے لیے نکلے تھے۔ لیکن اتنی آسانی سے کام کہاں‌ ملتا۔ کچھ کوششوں کے بعد ملٹری سینسر آفس میں کلرک کی نوکری مل گئی۔ تقریباً ایک سال تک نوکری کرنے کے بعد وہ اپنے بڑے بھائی چیتن آنند کے پاس چلے گئے جو اس وقت ہندوستانی ڈرامہ ایسوسی ایشن سے وابستہ تھے۔ وہاں دیو آنند کو ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع مل گیا اور چھوٹے موٹے کردار ان کی ہمّت اور حوصلہ بڑھانے لگے۔

    سال 1945ء میں فلم ’ہم ایک ہیں‘ سے بطور اداکار دیو آنند کو اپنے نئے سفر کے آغاز کا موقع ملا۔ سال 1948ء میں فلم ضدی پردے پر سجی جو ان کے فلمی کیریئر کی پہلی ہٹ فلم ثابت ہوئی۔ دیو آنند نے اسی عرصے میں فلم ڈائریکشن کے شعبے میں بھی قدم رکھ دیا کام یاب فلمیں بنائیں۔

    1954ء میں اداکار کی شادی کلپنا کارتک سے ہوئی جو مشہور اداکارہ تھیں۔ دیو آنند نے ہالی وڈ کے تعاون سے ہندی اور انگریزی دونوں زبانوں میں فلم گائیڈ بنائی، جس پر انھیں بہترین اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ انھوں‌ دو فلم فیئر اپنے نام کیے۔

    بطور ہدایت کار ان کی فلموں میں 1950ء کی فلم افسر کے علاوہ ہم سفر، ٹیکسی ڈرائیور، ہاؤس نمبر 44، کالا بازار، ہم دونوں، تیرے میرے سپنے و دیگر شامل ہیں۔ بھارت میں انھیں پدم بھوشن اور ہندی سنیما کے معتبر ترین دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

    دیو آنند نے ہر قسم کے کردار ادا کیے، اور ان کی مقبولیت اور وجہِ شہرت وہ انداز تھا جس میں دیو آنند جھک کر لہراتے ہوئے چلتے، مخصوص انداز سے بولتے اور اسی طرح ان کے لباس میں شامل اسکارف اور سَر پر بیگی ٹوپی بالخصوص شائقین کی توجہ حاصل کرلیتی تھی۔ دیو آنند انڈسٹری میں‌ اپنے اسٹائل کے لیے مشہور تھے۔

  • فطرت اور پنجاب کی دیہی زندگی کے حُسن کو کینوس پر اتارنے والے غلام رسول کا تذکرہ

    فطرت اور پنجاب کی دیہی زندگی کے حُسن کو کینوس پر اتارنے والے غلام رسول کا تذکرہ

    لینڈ اسکیپ فن پارے غلام رسول کے تخلیقی جوہر اور فنی مہارت کا وہ نمونہ ہیں جن کا مشاہدہ اور مطالعہ نوآموز اور فائن آرٹسٹ کے طالبِ علموں کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع دیتا ہے۔ انھوں نے اپنے ان فن پاروں میں‌ پنجاب کی دیہی زندگی کو پیش کیا ہے۔

    آج غلام رسول کی برسی ہے۔ پاکستان کے اس نام وَر مصوّر نے 2009ء میں وفات پائی تھی۔

    غلام رسول کا تعلق جالندھر سے تھا۔ انھوں نے 20 نومبر 1942ء کو اس جہانِ رنگ و بُو میں‌ آنکھ کھولی۔ وہ شروع ہی سے فطرت اور قدرتی مناظر میں‌ کشش محسوس کرتے تھے اور زندگی کے مختلف رنگوں میں دل چسپی لیتے تھے۔ ان کے مشاہدے کی عادت اور تخلیقی شعور نے انھیں آرٹ کی طرف مائل کیا اور ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے باقاعدہ فائن آرٹ کی تعلیم حاصل کی۔

    1964ء میں غلام رسول نے پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ فنونِ لطیفہ سے ایم اے کی سند حاصل کی تھی اور اسی شعبے میں تدریس کا سلسلہ شروع کردیا۔ بعد میں امریکا چلے گئے جہاں غلام رسول نے فائن آرٹس کے شعبے میں‌ داخلہ لیا اور 1972ء میں ڈگری لے کر وطن لوٹے۔

    اس وقت تک وہ فن پارے تخلیق کرنے اور اپنی پینٹنگ کے لیے پہچان بناچکے تھے۔ 1974ء میں وہ پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس سے وابستہ ہوئے اور ڈائریکٹر جنرل کے عہدے تک ترقّی پائی۔

    غلام رسول نے مصوّری میں لینڈ اسکیپ کو اپنی توجہ اور دل چسپی کا محور بنایا اور خوب کام کیا۔ انھیں پنجاب کی دیہی زندگی کو اپنے کینوس پر اتارنے والے مصوّروں میں اہم جانا جاتا ہے۔ دیہی ماحول اور فطرت کے حُسن پر غلام رسول کے فن پارے بے حد متاثر کن ہیں۔ انھیں‌ شائقین اور آرٹ کے ناقدین نے سراہا اور ان کے کام کی پذیرائی ہوئی۔

    غلام رسول کی فائن آرٹ کے شعبے میں خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • دل کش نظموں کے خالق سُرور جہان آبادی جنھیں ایک حادثے نے رندِ بَلا نوش بنا ڈالا

    دل کش نظموں کے خالق سُرور جہان آبادی جنھیں ایک حادثے نے رندِ بَلا نوش بنا ڈالا

    فکرِ‌ معاش اور زندگی کے اتار چڑھاؤ ایک طرف، لیکن جس حادثے نے سُرور کو توڑ کر رکھ دیا، وہ ان کی شریکِ حیات اوراکلوتے بیٹے کی موت تھا۔ اس درد ناک واقعے کے بعد انھوں‌ نے شراب نوشی شروع کر دی اور یہی عادت ان کی موت کا سبب بنی۔

    سُرور جہاں آبادی کا نام درگا سہائے تھا۔ وہ 1873ء میں برطانوی ہند کے علاقے جہاں آباد، ضلع پیلی بھیت میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مقامی اسکول سے حاصل کی اور اس زمانے کے دستور کے مطابق فارسی زبان سیکھی۔ اسی زبان کی بدولت شعر و شاعری کی طرف مائل ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد انگریزی زبان بھی سیکھ لی اور دو سال بعد انگریزی، مڈل امتحان بھی پاس کر لیا۔

    سُرور نے ابتدائی فارسی اور سنسکرت کی تعلیم اپنے والد سے لی تھی، لیکن مڈل اسکول کے صدر مدرس مولوی سید کرامت حسین بہار بریلوی جو عربی، فارسی اور اردو کے جیّد عالم تھے، ان کی خصوصی توجہ کی بدولت سرور نے ان زبانوں پر مکمل عبور حاصل کرلیا۔ انگریزی سیکھی تو اس زبان میں‌ بھی ادب کا مطالعہ شروع کردیا اور انگریزی نثر و نظم کی اعلیٰ کتابیں ان کے زیرِ مطالعہ رہیں۔ ان کی علم و ادب میں‌ دل چسپی عمر کے ساتھ بڑھتی چلی گئی اور انگریزی میں اس قدر استعداد حاصل کرلی کہ متعد نظموں کو اردو زبان میں ڈھالا اور ان کے اسلوب و کلام پر اظہارِ خیال بھی کیا۔ انھوں نے طب کی تعلیم بھی اپنے والد سے حاصل کی تھی۔

    یہ غالباً انگریزی شاعری کے مطالعے کا اثر تھا کہ سُرور نظم نگاری کی طرف مائل رہے۔انھوں نے غزل جیسی مقبول صنفِ سخن میں بھی طبع آزمائی کی، لیکن ان کی نظمیں منفرد فضا کی حامل تھیں۔

    انھوں نے نئی نظم کو موضوعاتی اور اسلوبیاتی لحاظ سے نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ سُرور کی قافیہ بند نظموں میں‌ اردو، ہندی اور فارسی الفاظ کا نہایت خوب صورت استعمال پڑھنے کو ملتا ہے۔ اردو شاعری میں‌ نظیر کے بعد سرور جہان آبادی کے یہاں حبُ الوطنی کا جذبہ نسبتاً زیادہ واضح نظر آتا ہے۔ ان کی نظم ہندوستانی روایت اور رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔

    سرور کے عہد کا ہندوستان سیاسی، سماجی اور اقتصادی بحران کا شکار تھا اور آزادی کا جوش و ولولہ تحریکوں کی صورت میں‌ بڑھ رہا تھا جس میں‌ حبُ الوطنی کے جذبے کو ابھارنے کے لیے سُرور نے اپنی نظموں‌ سے خوب کام لیا۔ ان کا کلام ’ادیب‘ اور ’مخزن‘ جیسے رسالوں میں تسلسل کے ساتھ شایع ہوتا رہا۔ 3 دسمبر 1910ء میں سُرور ہمیشہ کے لیے غمِ روزگار سے نجات پاگئے۔ ان کی ایک غزل پیشِ خدمت ہے۔

    بہ خدا عشق کا آزار بُرا ہوتا ہے
    روگ چاہت کا برا پیار برا ہوتا ہے

    جاں پہ آ بنتی ہے جب کوئی حسیں بنتا ہے
    ہائے معشوق طرح دار برا ہوتا ہے

    یہ وہ کانٹا ہے نکلتا نہیں چبھ کر دل سے
    خلشِ عشق کا آزار برا ہوتا ہے

    ٹوٹ پڑتا ہے فلک سَر پہ شبِ فرقت میں
    شکوۂ چرخِ ستم گار بُرا ہوتا ہے

    آ ہی جاتی ہے حسینوں پہ طبیعت ناصح
    سچ تو یہ ہے کہ دلِ زار بُرا ہوتا ہے