Tag: 3 نومبر وفات

  • داغستان کے عوامی شاعر رسول حمزہ توف کا تذکرہ

    داغستان کے عوامی شاعر رسول حمزہ توف کا تذکرہ

    1934ء میں داغستان کے ایک گاؤں کے قریب ہوائی جہاز کی ہنگامی لینڈنگ ایسا واقعہ تھا، جس پر کم عمر یا نوجوان ہی کیا بڑے بھی ششدر رہ گئے۔ رسول حمزہ توف کی عمر اس وقت محض 11 برس تھی۔

    یوں‌ تو یہ گاؤں‌ کے ہر بچّے کی زندگی کا نہایت سنسنی خیز، پُراسرار اور یادگار واقعہ تھا، لیکن ہوائی جہاز کی اس ہنگامی لینڈنگ سے رسول حمزہ توف کے تخیّل کی اُس پرواز کا آغاز ہوا جس نے انھیں بین الاقوامی شہرت یافتہ شاعر بنا دیا۔ انھوں‌ نے اس موضوع پر ایک نظم لکھی اور یوں ان کا شعری سفر ہوا۔

    رسول حمزہ توف نے روسی ادب میں‌ بڑا نام و مقام پیدا کیا۔ وہ ایک عوامی شاعر مشہور ہوئے اور نثر نگار، مترجم کی حیثیت سے علمی و ادبی حلقوں‌ میں ممتاز رہے۔ انھوں‌ نے ریڈیو اور تھیٹر کے لیے بھی لکھا اور اس میدان میں بھی خود کو منوایا، لیکن ان کی شناخت اور عوامی سطح پر مقبولیت بطور شاعر برقرار رہی۔

    رسول حمزہ توف نے روسی جمہوریہ داغستان میں ”قفقازی آوار“ کے ”سدا“ نامی پہاڑی گاؤں میں 8 ستمبر 1923ء کو آنکھ کھولی۔ ان کے والد چرواہے تھے جو اکثر جانور چراتے ہوئے گیت گاتے اور کچھ نہ کچھ گنگناتے رہتے۔ رسول حمزہ توف یہ سب سنتے رہتے اور بعد میں وہ واقعہ پیش آیا جو شعر گوئی کا محرّک بنا۔

    ایک زمانے میں داغستان کی سرحد پر جنگ چھڑی، تو رسول حمزہ توف کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا۔ انھوں‌ نے رزمیہ اور قومی گیت بھی لکھے، اور اپنے وطن داغستان سے والہانہ محبّت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے محافظوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ جنگ کے بعد 1945ء میں انھوں نے دوبارہ تعلیمی سفر شروع کیا اور ماسکو میں تعلیم حاصل کی، 1950ء میں فارغ التحصیل ہونے کے تک اور بعد میں انھیں کئی نام ور ادیبوں اور قلم کاروں کی رفاقت نصیب ہوئی جن کے ساتھ رہتے ہوئے انھوں نے اپنے فکر و فن کو نکھارا اور تخلیقی سفر جاری رکھا۔ اسی عرصے میں یکے بعد دیگرے ان کے شعری مجموعے شایع ہوئے، اور ان کا نام نہ صرف سوویت یونین کی مختلف ریاستوں، بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں پہنچا۔ ان کا لکھا ہوا روسی زبان کا ایک گیت ”زہوراولی“ مشہورِ عالم ثابت ہوا۔ رسول حمزہ توف کی شاعری میں‌ وہ جادو تھا جس نے ہر خاص و عام کو اپنے سحر میں‌ جکڑ لیا اور ان کے گیتوں‌ نے انھیں‌ عوامی سطح پر زبردست مقبولیت اور پذیرائی عطا کی۔

    ان کی شاعری صدیوں کی روایات اور لوک داستانوں کا تسلسل اور جدّت کا اظہار ہے۔ حب الوطنی ان کے شعر کا مستقل رنگ ہے، جس نے انھیں عوام کا محبوب شاعر بنا دیا۔ داغستان، اپنے آبائی علاقے، اپنی زبان سے بے پناہ عقیدت اور محبّت کا اظہار ان کی شاعری میں کچھ اس وارفتگی اور والہانہ پن سے دیکھنے کو ملتا ہے کہ اس نے دنیا بھر میں علم و ادب کے نام وروں‌ کو متاثر کیا اور انہی کے طفیل داغستان کو دنیا نے جانا۔

    رسول حمزہ توف کی شاعری میں حب الوطنی اور انقلاب کے ساتھ رومان پرور موضوعات بھی ان کی مقبولیت کا ایک سبب ہے۔ ”میرا داغستان“ ان کی نثر اور ”میرا سالِ پیدائش“ ان کے مجموعۂ کلام کا نام ہے جب کہ دیگر تخلیقات اور تراجم کی متعدد کتب شایع ہوئیں جو انھوں‌ نے عالمی ادب سے اپنی مادری زبان ”آوار“ میں ترجمہ کیں۔ ان کے یہ تراجم مستند اور معیاری ہیں۔

    رسول حمزہ توف کو حکومتِ روس کی جانب سے ”اسٹالن انعام“ ( 1952ء)، ”لینن پیس پرائز“( 1963ء)، ”ہیرو آف سوشلسٹ لیبر“ (1964ء) سے نوازا گیا اور 2014 ء میں ان کے نام سے منسوب ”رسول حمزہ توف ایوارڈ“ کا اجرا بھی کیا گیا۔

    یہ عوامی شاعر زندگی کی 80 بہاریں‌ دیکھنے کے بعد 3 نومبر 2003ء کو دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگیا۔

  • معروف لوک گلوکارہ ریشماں کی برسی جنھیں بلبلِ‌ صحرا بھی کہا جاتا ہے

    معروف لوک گلوکارہ ریشماں کی برسی جنھیں بلبلِ‌ صحرا بھی کہا جاتا ہے

    ریشماں کی آواز نہایت درد انگیز اور پُر سوز تھی۔ انھیں بلبلِ صحرا بھی کہا گیا۔ آج پاکستان کی اس مشہور لوک گلوکارہ کی برسی ہے۔ ریشماں 2013ء میں اپنے مداحوں سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئی تھیں۔

    وہ طویل عرصے سے علیل تھیں۔ انھیں گلے کے سرطان کا مرض لاحق تھا۔ ریشماں کی پیدائش کا سال 1947ء تھا۔ وہ راجستھان کے علاقے بیکانیر سے تعلق رکھتی تھیں۔

    برصغیر کی تقسیم کے بعد ان کا خاندان ہجرت کر کے کراچی منتقل ہو گیا۔ ریشماں نے کم عمری میں صوفیانہ کلام گانا شروع کردیا تھا۔ مشہور ہے کہ بارہ برس کی ایک بچّی کو ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسر سلیم گیلانی نے لعل شہباز قلندر کے مزار پر سنا اور اسے ریڈیو پر گانے کا موقع دیا۔ یوں ریشماں پاکستان بھر میں لوک گلوکارہ کے طور پر متعارف ہوئیں اور بعد کے برسوں میں مقبولیت حاصل کی۔

    ”چار دناں دا پیار او ربّا، بڑی لمبی جدائی“ وہ گیت ہے جس نے ریشماں کو ملک ہی نہیں سرحد پار بھی شہرت اور پہچان دی۔

    ریشماں نے گائیکی کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ 1960ء کی دہائی میں پاکستان ٹیلی وژن کی بنیاد رکھی گئی تو ریشماں نے ٹی وی کے لیے گانا شروع کر دیا۔ انھوں نے پاکستانی فلموں کے لیے بھی متعدد گیت گائے۔ ان کی مقبولیت سرحد پار بھی پہنچی اور معروف بھارتی ہدایت کار سبھاش گھئی نے اپنی فلم کے لیے ان کی آواز میں‌ گانا ریکارڈ کروایا۔ یوں ریشماں نے فلم ’ہیرو‘ کا گانا ’لمبی جدائی‘ گایا جو آج بھی پاک و ہند میں مقبول ہے اور نہایت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔

    ریشماں کے کچھ دیگر مقبول گیتوں میں ’سُن چرخے دی مِٹھی مِٹھی کُوک ماہیا مینوں یاد آؤندا‘، ’وے میں چوری چوری‘، ’دما دم مست قلندر‘، ’انکھیاں نوں رین دے انکھیاں دے کول کول‘ اور ’ہائے ربا نیئوں لگدا دِل میرا‘ شامل ہیں۔

    اس لوک گلوکارہ کو ستارۂ امیتاز اور لیجنڈز آف پاکستان کا اعزاز بھی دیا گیا تھا۔