Tag: 30 اگست برسی

  • نجیب محفوظ:‌ عربی ادب کا تابندہ ستارہ

    نجیب محفوظ:‌ عربی ادب کا تابندہ ستارہ

    نجیب محفوظ نے سترہ سال کی عمر میں لکھنا شروع کیا اور جب وہ اڑتیس برس کے تھے تو ان کی پہلی تصنیف منظرِ عام پر آئی۔ اسی طرح ان کے ناول کو اشاعت کے تیس سال بعد نوبیل انعام دیا گیا تھا۔ عالمی شہرت یافتہ ناول نگار نجیب محفوظ کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    مصری ادب کو اپنی کہانیوں سے مالا مال کرنے والے نجیب محفوظ نے 2006ء میں وفات پائی تھی۔ انھیں 1988ء میں نوبل انعام دیا گیا تھا۔

    ان کا مکمل نام نجیب محفوظ عبدالعزیز ابراہیم احمد پاشا تھا۔ مصر کے شہر قاہرہ میں 11 دسمبر 1911 کو پیدا ہونے والے نجیب محفوظ نے اپنے ادبی سفر میں تیس سے زائد ناول اور 350 کہانیاں تخلیق کیں۔ انھوں نے فلموں کے لیے اسکرپٹ، اسٹیج پلے بھی لکھے جب کہ مؤقر جرائد اور اخبارات میں‌ ان کے مضامین اور کالم بھی شائع ہوتے تھے۔ وہ ایک حقیقت نگار کی حیثیت سے اپنی تخلیقات کے سبب مصر میں مقبول ہوئے اور بعد میں دنیا بھر میں انھیں پہچانا گیا۔

    نجیب محفوظ نے غربت اور مشکلات دیکھتے ہوئے ابتدائی عمر گزاری اور ان کا گھرانا مذہبی تھا۔ اس کے باوجود وہ فنونِ لطیفہ اور ادب کی طرف مائل ہوئے اور روایت سے بغاوت کرتے ہوئے ان موضوعات کو بھی زیرِ نوکِ قلم لائے جس نے قدامت پرستوں کے درمیان انھیں متنازع بنا دیا۔

    مصر پر برطانوی قبضے اور انقلابی تحریکوں نے نجیب محفوظ پر گہرے اثرات مرتب کیے اور ان میں شعور بیدار کرنے کے ساتھ اس فکر کو پروان چڑھایا جس میں انھیں تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے کا موقع ملا۔

    نجیب محفوظ نے 1934 میں جامعہ قاہرہ سے فلسفے میں گریجویشن کی ڈگری لی اور ماسٹرز کے لیے داخلہ لیا، لیکن اس مضمون میں اپنی تعلیم مکمل نہیں کرسکے اور لکھنے لکھانے میں مصروف ہوگئے۔ انھوں نے مصر کے معاشرے کی خرابیوں کو اپنی کہانیوں‌ میں اجاگر کیا اور کئی حساس موضوعات پر قلم اٹھایا۔ نجیب محفوظ کے ناولوں اور کتابوں کے تراجم بشمول اردو دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں ہوچکے ہیں۔

    50 کی دہائی میں نجیب محفوظ معروف ادیب بن چکے تھے اور اسّی دہائی میں ان کی مشہور کتاب ’قاہرہ ٹرائلوجی‘ شائع ہوئی۔ یہ تین کہانیوں کا وہ مجموعہ ہے جس کا پہلا حصہ: ’محل تا محل 1956، دوسرا حصہ قصرِ شوق 1957، اور تیسرا کوچۂ شیریں 1959 کا احاطہ کرتا ہے۔ نجیب محفوظ اپنے اسلوب میں رمزیت اور تہ داری کی ایک مثال تھے۔

  • مقبول ترین ادیب اور نوبل انعام یافتہ ناول نگار نجیب محفوظ کی برسی

    مقبول ترین ادیب اور نوبل انعام یافتہ ناول نگار نجیب محفوظ کی برسی

    مصری ادب میں نجیب محفوظ کا نام مقبول ترین ادیب کے طور پر محفوط ہے جنھوں نے 2006ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔

    انھوں نے سترہ سال کی عمر میں لکھنا شروع کیا تھا لیکن ان کی پہلی تصنیف 38 سال کی عمر میں شایع ہوئی تھی۔ 1988ء میں وہ نوبل انعام کے لیے منتخب ہوئے اور یہ انعام ان کی اس تخلیق پر دیا گیا جو 30 برس قبل منظرِ عام پر آئی تھی۔

    50 کی دہائی میں وہ معروف ادیب بن چکے تھے اور اسی دہائی میں ان کے تین ناولوں پر مشتمل معروف ’قاہرہ ٹرائلوجی‘ شائع ہوئی۔ اس کا پہلا حصہ: ’محل تا محل 1956، دوسرا حصہ قصرِ شوق 1957، اور تیسرا کوچۂ شیریں 1959 پر مشتمل ہے۔

    نجیب محفوظ کا مکمل نام’’نجیب محفوظ عبدالعزیز ابراہیم احمد پاشا‘‘ تھا۔ وہ مصر کے شہر قاہرہ میں 11 دسمبر 1911ء کو پیدا ہوئے۔ ان کی ادبی تخلیقات میں 34 ناول، تین سو سے زائد کہانیاں اور فلم اور اسٹیج کے لیے اسکرپٹ کے علاوہ اخباری کالم شامل ہیں۔

    نجیب محفوظ کا خاندان قاہرہ کے پرانے علاقے میں غربت میں گھرا ہوا تھا۔ سخت مذہبی ماحول میں ان کی پرورش ہوئی، لیکن وہ جدید نظریات اور افکار سے متاثر ہوکر روایتی معاشرت اور ثقافت سے باغی رہے۔

    1919ء میں برطانوی قبضے کے خلاف انقلاب نے بھی ان پر گہرے اثرات مرتب کیے اور یہیں سے ان کے ادیب بننے کا سفر شروع ہوا۔ انھوں نے جو کچھ دیکھا اور سنا اسے اپنی کہانیوں میں اپنے فن کی گہرائی اور جذبات کی شدّت کے ساتھ سمو دیا۔

    1934ء میں جامعہ قاہرہ سے فلسفے میں گریجویشن کیا، مگر ماسٹرز نہ کرسکے۔ بطور صحافی بھی کیرئیر کو آگے بڑھایا، سول سروس میں بھی کام کیا، لیکن ادیب کے طورپر زندگی بھر مصروف اور کہانیاں لکھنے میں مشغول رہے۔ وہ اپنے اسلوب میں رمزیت اور تہ داری کی ایک منفرد مثال تھے۔