Tag: 30 اگست وفات

  • مقبول ترین ادیب اور نوبل انعام یافتہ ناول نگار نجیب محفوظ کی برسی

    مقبول ترین ادیب اور نوبل انعام یافتہ ناول نگار نجیب محفوظ کی برسی

    مصری ادب میں نجیب محفوظ کا نام مقبول ترین ادیب کے طور پر محفوط ہے جنھوں نے 2006ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔

    انھوں نے سترہ سال کی عمر میں لکھنا شروع کیا تھا لیکن ان کی پہلی تصنیف 38 سال کی عمر میں شایع ہوئی تھی۔ 1988ء میں وہ نوبل انعام کے لیے منتخب ہوئے اور یہ انعام ان کی اس تخلیق پر دیا گیا جو 30 برس قبل منظرِ عام پر آئی تھی۔

    50 کی دہائی میں وہ معروف ادیب بن چکے تھے اور اسی دہائی میں ان کے تین ناولوں پر مشتمل معروف ’قاہرہ ٹرائلوجی‘ شائع ہوئی۔ اس کا پہلا حصہ: ’محل تا محل 1956، دوسرا حصہ قصرِ شوق 1957، اور تیسرا کوچۂ شیریں 1959 پر مشتمل ہے۔

    نجیب محفوظ کا مکمل نام’’نجیب محفوظ عبدالعزیز ابراہیم احمد پاشا‘‘ تھا۔ وہ مصر کے شہر قاہرہ میں 11 دسمبر 1911ء کو پیدا ہوئے۔ ان کی ادبی تخلیقات میں 34 ناول، تین سو سے زائد کہانیاں اور فلم اور اسٹیج کے لیے اسکرپٹ کے علاوہ اخباری کالم شامل ہیں۔

    نجیب محفوظ کا خاندان قاہرہ کے پرانے علاقے میں غربت میں گھرا ہوا تھا۔ سخت مذہبی ماحول میں ان کی پرورش ہوئی، لیکن وہ جدید نظریات اور افکار سے متاثر ہوکر روایتی معاشرت اور ثقافت سے باغی رہے۔

    1919ء میں برطانوی قبضے کے خلاف انقلاب نے بھی ان پر گہرے اثرات مرتب کیے اور یہیں سے ان کے ادیب بننے کا سفر شروع ہوا۔ انھوں نے جو کچھ دیکھا اور سنا اسے اپنی کہانیوں میں اپنے فن کی گہرائی اور جذبات کی شدّت کے ساتھ سمو دیا۔

    1934ء میں جامعہ قاہرہ سے فلسفے میں گریجویشن کیا، مگر ماسٹرز نہ کرسکے۔ بطور صحافی بھی کیرئیر کو آگے بڑھایا، سول سروس میں بھی کام کیا، لیکن ادیب کے طورپر زندگی بھر مصروف اور کہانیاں لکھنے میں مشغول رہے۔ وہ اپنے اسلوب میں رمزیت اور تہ داری کی ایک منفرد مثال تھے۔

  • یومِ وفات: شعری مجموعوں کے علاوہ نمونۂ منثورات احسن مارہروی کی شاہ کار تصنیف ہے

    یومِ وفات: شعری مجموعوں کے علاوہ نمونۂ منثورات احسن مارہروی کی شاہ کار تصنیف ہے

    آج اردو زبان کے مشہور شاعر اور متعدد نثری کتب کے مصنّف احسن مارہروی کا یومِ وفات ہے۔ وہ متحدہ ہندوستان کے شہر پٹنہ میں 1940ء میں آج ہی کے روز وفات پاگئے تھے۔

    ان کا اصل نام سید علی احسن تھا، عرفیت شاہ میاں جب کہ شعر گوئی کا آغاز کیا تو احسن تخلّص اختیار کیا۔ مارہرہ ضلع ایٹہ میں 9 نومبر 1876ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم و تربیت کے بعد 1895ء میں استاد داغ دہلوی کے آگے زانوئے تلمذ طے کیا۔ 1921ء میں علی گڑھ میں اردو کے لیکچرر مقرر ہوئے اور بعد میں پروفیسر ہوگئے۔

    داغ کی شاگری اختیار کرنے بعد انھوں نے ماہنامہ گلدستہ ریاضِ سخن جاری کیا۔ 1898ء میں مارہرہ سے حیدر آباد دکن چلے گئے۔ 1904ء میں اس وقت کے متحدہ ہندوستان کے شہر لاہور آئے اور لالہ سری رام کے تذکرے کا مسوّدہ لکھا۔ بعد ازاں استاد داغ کی یاد میں رسالہ فصیحُ الملک جاری کیا۔

    انھوں نے شاعری کے مجموعوں کے علاوہ نمونۂ منثورات یادگار چھوڑا۔ نمونہ منثورات احسن مارہروی کی ایک شاہ کار کتاب ہے جس میں اردو کی ابتدا، نثر کے وہ تمام نمونے جن کا ریاست اور دفاتر سے تعلق ہے اور ایک زبان کو وقیع بنا سکتے ہیں، شامل ہیں۔ اردو زبان کی شعبہ وار تاریخی ترقی کے نقطۂ نظر سے ان کے یہ مضامین اور دستاویزی نمونے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے 1930ء میں شائع بھی ہوئے جن میں ریاستی دفاتر سے متعلق احکام و ہدایات اور کارگزاریوں اور اسی نوع کے نامے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ فاضل مرتّب نے دفتری اردو میں ہونے والی لسانی تبدیلیوں کو بیان کرتے ہوئے دفتری نظام کے ارتقا کا مفصّل جائزہ بھی لیا ہے۔

    ان کی کتب ’’جلوۂ داغ‘‘ (استاد داغ کی زندگی) ’’انشائے داغ‘‘(مکتوباتِ استاد داغ)، ’’تاریخ نثر اردو‘‘، اور تحفہ احسن‘‘، ’’احسن الانتخاب‘‘ کے نام سے شایع ہوئیں۔

    احسن مارہروی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    کیا ضرورت بے ضرورت دیکھنا
    تم نہ آئینے کی صورت دیکھنا

    پھر گئیں بیمارِ غم کو دیکھ کر
    اپنی آنکھوں کی مروت دیکھنا

    ہم کہاں، اے دل کہاں دیدارِ یار
    ہو گیا تیری بدولت دیکھنا

    ہے وہ جب دل میں تو کیسی جستجو
    ڈھونڈنے والوں کی غفلت دیکھنا

    سامنے تعریف پیچھے گالیاں
    ان کی منہ دیکھی محبت دیکھنا

    اور کچھ تم کو نہ آئے گا نظر
    دل میں رہ کر دل کی حسرت دیکھنا

    صبح اٹھ کر دیکھنا احسنؔ کا منہ
    ایسے ویسوں کی نہ صورت دیکھنا